Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بی یور سیلف!

محمد شہزاد

بی یور سیلف!

محمد شہزاد

MORE BYمحمد شہزاد

    ’’لیکن شادی سے پہلے میں آپ سے ایک بہت ہی اہم معاملے پر گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ سسی نے پنوں سے کہا۔

    ’’واہ کیا اتفاق ہے! میں بھی آپ سے ایک بہت ہی اہم معاملے پر گفتگو کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔ شادی سے پہلے۔‘‘ پنوں بولا۔

    ’’چلیے پہلے آپ۔‘‘ سسی نے کہا۔

    ’’نہیں پہلے آپ!‘‘

    ’’ہر گز نہیں۔ پہلے آپ!‘‘

    ’’اچھا پھر ایسا کرتے ہیں کہ لکھ لیتے ہیں کاغذ پر جو ہم ایک دوسرے سے کہنا چاہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ہاتھ میں پکڑا دینگے لکھ کر۔ یہ پہلے آپ پہلے آپ والا ٹنٹہ خود حل ہو جائے گا۔‘‘

    پنوں کا یہ حل سسی کو پسند آیا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے بیرے کو بلایا۔ بیرا دوڑا چلا آیا۔ کیوں نہ آتا۔ سسی کی کشش تو سمندر میں طوفان بپا کر دے۔ ہر بیرے کی خواہش ہوتی کہ سسی کی خدمت کرنے کا اشارہ مل جائے۔ سیوا کے طفیل اس کا قریب سے دیدار تو میسر ہو جاتا۔

    ’’نیاز دو عدد پین اور چند فل اسکیپ کاغذ لا سکتے ہو؟ کچھ لکھنا ہے۔‘‘ سسی بیروں کو ان کے نام سے ہی پکارتی۔ اس پر بیرے خوش ہوتے۔ یہ بھی سسی کا ایک طریقہ تھا انسان کو عزت دینے کا۔

    ’’کیوں نہیں میڈم۔ ابھی لایا!‘‘ اور اگلے لمحے نیاز ان اشیاء کے ساتھ واپس سسی کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اسنے اپنی گہری جھیل جیسی آنکھوں سے بیرے کا شکریہ ادا کیا۔ یہ ادا لاکھوں روپے کی ٹپ سے زیادہ قیمتی تھی۔

    ’’چلیے لکھیے۔ دیکھیں تو کیا کہنا چاہ رہے تھے آپ اور اتنا سسپنس کیوں پیدا کر رہے تھے۔‘‘ سسی بولی۔

    ’’یہ ہی سسپنس تو آپ کی طرف بھی ہے!‘‘ پنوں سسی کی حسین آنکھوں کی جانب دیکھتے بولا۔ دونوں لکھنے میں مصروف ہو گئے۔ ہر بیرا بار بار کن انکھیوں سے سسی کو ہی دیکھ رہا تھا۔

    پنوں ادھیڑ عمر کا طلاق یافتہ مرد تھا۔ ہنڈ سم تھا اور عمر میں دس برس کم لگتا تھا۔ شادی کے اٹھارہ برس بعد ہوئی اس کی طلاق۔ اس شادی سے دو بیٹے ہوئے۔ طلاق کے وقت دونوں سترہ اور سولہ برس کے تھے۔ ہوشیار بچے تھے۔ پنوں اور اسکی بیوی نے شادی کو گھسیٹا بچوں کی خاطر۔۔۔ پورے اٹھارہ برس۔ تا حیات گھسیٹ سکتے تھے۔ پاکستانی معاشرے میں اس طرح کا گھسیٹنا عام سی بات ہے۔ شاید ہی کوئی خوش ہو اپنی ازدواجی زندگی سے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ نوے فیصد مرد عورت اپنی شادی سے ناخوش ہوتے ہیں۔ جو دس فیصد خوش ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔

    پنوں اپنی ازدواجی زندگی سے ہر گز خوش نہ تھا۔ اسے دونوں بیٹوں سے بہت پیار تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ طلاق ان پر منفی اثر ڈالے۔ اس بیزاری اور بے رنگ زندگی کا حل اس نے فلرٹ میں ڈھونڈا۔ مختلف لڑکیوں سے چاہے وہ عمر میں چھوٹی ہوں یا بڑی۔ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ طلاق یافتہ ہوں یا بیوہ۔۔۔ وہ بس فلرٹ کیا کرتا تھا۔ یہ فلرٹ اسے بے حد راحت و سکون فراہم کرتا۔ لیکن صرف اسوقت تک جب تک وہ دو تین بار اس عورت کے بدن سے آشنا نہ ہو جائے۔ اس کے بعد اسے وہی عورت بری لگنے لگتی۔ پھر وہ کسی نئے حسن کی تلاش میں نکل پڑتا۔ لیکن اس عمل کے دوران اسے یہ خیال بھولے سے بھی نہ آیا کہ وہ اپنی شکی اور تنگ نظر بیوی کو چھوڑ کر کسی اور حسینہ سے شادی بیاہ رچا سلے۔

    پنوں کی بیوی میں جاسوسی کرنے کی خداداد صلاحیت تھی۔ گھریلو عورت تھی۔ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی۔ نہ جانے کیسے پنوں کے پاس ورڈ ہیک کر لیا کرتی۔ اور اس کے سارے راز افشاء ہو جاتے۔ اسے یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ پنوں اسے چھوڑ کر بچوں کو چھوڑ کر نیا گھر بسا لے گا۔ جبکہ پنوں کا کہنا یہ تھا کہ کائنات کی حسین سے حسین، امیر سے امیر عورت بھی اگر اس کے سامنے اپنے پیسے اور حسن کی دولت ڈھیر کردے اس شرط پر کہ وہ اپنا گھر برباد کر کے اس سے شادی کر لے تو ایسا ناممکن تھا۔

    پنوں کی بیوی اس پر حد سے زیادہ حق ملکیت مسلط کرتی۔ اس پر وہ بہت طیش کھاتا۔ اس کا حل اس نے یہ نکالا کہ زیادہ وقت گھر سے باہر گذارتا۔ گھر بس سونے کے لئے ہی آتا۔ ویسے بھی نوکری تو کرتا نہ تھا۔ کئی کلائنٹس کو مختلف نوعیت کی کنسلٹنسی سروس فراہم کرتا تھا۔ رات گئے اپنے دفتر میں کام کرتا رہتا۔ جب کام نہ کر رہا ہو تو کسی لڑکی کے ساتھ وقت گذار رہا ہوتا۔ کبھی دفتر میں۔ کبھی کسی ہوٹل کے کمرے میں۔ وقت اسی طرح گذرتا رہا۔ پنوں کے کئی معاشقے اسکی بیوی نے پکڑے۔ لیکن جتنے وہ پکڑتی پنوں اس سے دگنے نئے شروع کر دیتا۔ دونوں میں ٹھن سی گئی تھی۔ اٹھاروے برس اسکی بیوی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے پنوں سے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ ایسا وہ کئی بار کر چکی تھی۔ ہمیشہ پنوں آگ کو ٹھنڈا کر دیتا۔ اس بار اس نے ایسی کوئی کوشش نہ کی۔ اس نے طلاق مانگی۔ پنوں نے دونوں بیٹوں کو بلایا۔ کہا کہ ماں کو سمجھاو یہ حماقت نہ کرے۔ ماں نہ مانی۔ پنوں نے طلاق دے ڈالی۔

    طلاق کے بعد پنوں کے لئے میدان کھلا تھا۔ کچھ عرصے اس نے جی بھر کے معاشقے کئے۔ دن میں دو دو کبھی تین تین لڑکیوں سے جی بہلایا۔ ایک سے ایک حسین۔ سب اس سے شادی کرنا چاہتی تھیں لیکن پنوں گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا تھا۔ اس کی نظر میں یہ سب لڑکیاں چھنال تھیں۔ کوئی بھی خاندانی نہ تھی۔ سب کو ایک اچھے ’’سانڈ‘‘ کی ضرورت تھی چند لمحوں کے لئے۔ اور یہ فرض پنوں احسن طریقے سے نبھا رہا تھا۔ جو لڑکی یا عورت شادی پر اصرار کرتی پنوں اسے نظر انداز کرنا شروع ہو جاتا۔ کچھ روز پیچھا کرنے کے بعد لڑکیاں بھی خود ہی اس کا پیچھا چھوڑ دیتیں۔ ویسے اندر اندر انہیں بھی علم ہوتا کہ جو کچھ ہو رہا ہے محض شغل میلہ ہے۔ بس زندگی کی بوریت سے انسان کچھ دیر کے لئے دور ہو جاتا ہے۔ کچھ حسین یادیں تخلیق ہو جاتی ہیں جنہیں شاید مستقبل میں یاد کر لیا جائے۔ پنوں کے تعلقات سینکڑوں عورتوں سے رہے۔ چند ایک کے ساتھ گذارے لمحے تو وہ بھی نہیں بھولا۔ ان میں سے ایک صنم تھی۔

    صنم پنوں سے عمر میں بڑی تھی۔ بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ تعلقات تھے اس کے۔ بلا کی حسین۔ طلاق کے بعد وہ کچھ عرصے صنم کے ساتھ بھی رہا۔ ساتھ رہ کر اسے اندازہ ہوا کہ حرامزادی ایک نمبر کی گشتی تھی۔ ہر ایک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی تھی۔ اس کی حقیقت تب کھلی جب ایک رات پنوں اسی کے فلیٹ میں اس کے ساتھ سو رہا تھا۔ اچانک صنم کے ایک اور عاشق کا فون آ گیا۔ صنم پنوں کے پیر پڑی کہ کسی ہوٹل میں چلا جائے۔ وہ اپنے عاشق کو انکار نہیں کر سکتی تھی۔ دراصل وہی صنم کے تمام اخراجات اٹھایا کرتا۔ آہستہ آہستہ صنم کی حقیقت پنوں پر کھلتی چلی گئی۔ ایک دن پنوں اس سے لڑ جھگڑ کر ہمیشہ کے لئے اپنا رشتہ اس سے توڑ آیا۔ وہ بہت روئی پیٹی۔ وہ پنوں کی شخصیت سے متاثر تھی۔ پنوں بہت ہی دبنگ اور دلیر تھا۔ منہ پر بات کرنے کا عادی۔ مصلحت پسندی سے دور۔ بچوں سے پیار کرنے والا۔ بچوں کے ساتھ بالکل بچہ بن جاتا۔ صنم کی دونوں بیٹیوں کی جان پنوں میں ہی تھی۔ پنوں نے انہیں ان کے سگے باپ سے بھی زیادہ پیار دیا جو دونوں کو بچپن میں ہی چھوڑ چکا تھا۔

    صنم کے بعد پنوں کو ہر عورت بدکردار لگنا شروع ہو گئی۔ لیکن اس سوچ کے ساتھ ایک دوسری سوچ پختہ ہوتی چلی گئی۔۔۔ اب جلد از جلد دوبارہ گھر بسا لینا چاہیے لیکن صنم جیسی حرافہ کے ساتھ نہیں۔ کسی خاندانی اور اچھی عورت سے۔ اس سوچ کے آتے ایک اور سوچ اس کے ذہن سے ٹکراتی۔ اگر اچھی اور خاندانی عورت سے ہی شادی کرنا تھی تو کیا پہلی بیوی بری تھی؟ اس میں کوئی شک نہیں اس کی سابقہ بیوی واقعی با حیا اور باکردار عورت تھی۔ مگر پنوں کو اس کے علاوہ بھی کچھ چاہیے تھا۔ عورت باحیا بھی ہو۔ کردار بھی مضبوط ہو۔ خوبصورت بھی ہو اور اس کے معاشقوں کو نظر انداز بھی کرتی رہے۔ صنم سے وہ شادی کر لیتا اگر وہ اپنے درجنوں عاشقوں کو چھوڑ کر سنجیدگی سے اس کے ساتھ گھر بسا لیتی۔ مگر صنم کو ایک مرد سے تسلی نہ ہوتی۔ اسے ہر وقت نت نئے ڈیزائن اور ورائٹی کی تلاش رہتی۔

    ایک دن پنوں کی ملاقات سسی سے ہو گئی۔ ایک بک شاپ پر۔ دونوں ایک ہی کتاب کی تلاش میں تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند آ گئے۔ اتفاق سے اس دکان میں اس کتاب کی ایک ہی کاپی تھی۔ پنوں پیچھے ہٹ گیا۔ سسی کو اس نے وہ کتاب اسی وقت گفٹ کر دی۔ سسی خوش ہو گئی۔ اس طرح دونوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

    پنوں کو ان عورتوں سے شدید کوفت ہوتی جو اس کے ساتھ سونے کے باوجود مذہب کا پرچار کرتیں۔ اپنی عبادات کا ڈھول پیٹتیں۔ جن سینکڑوں عورتوں کے ساتھ وہ سویا، ان میں اکثریت ان کی تھی جو سب کچھ (غیر شرعی) کرنے کے بعد غسل کرتیں اور نماز ادا کرتیں۔ یہ سب حجاب بھی کرتیں۔ پنوں کی بیوی بھی ایسی ہی مذہبی تھی۔ ان میں اور اس میں فرق صرف اتنا تھا وہ باوفا باحیا تھی۔ مگر مذہب تو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کی ٹوہ لی جائے، جاسوسی کی جائے۔ خط چوری چھپے پڑھے جائیں۔ تو پنوں کی بیوی بھی اسلام کی وہ ہی تشریح کرتی جو اسے اچھی لگتی۔ اس کی ماں تو اسے یہ ہی سمجھاتی کہ اگر وہ جگہ جگہ منہ مارتا ہے تو مارنے دے۔ تیرا خیال تو رکھتا ہے۔ خاندان کو اچھا رکھتا ہے۔ مگر اسے ماں کی بات سمجھ نہ آتی۔ بسا بسایا گھر توڑ دیا اپنی حماقت سے۔ پنوں کو اپنے بڑے بیٹے سے پتہ چلا کہ اسکی نانی نے اپنی بیٹی کو یہ ہی کہا اسنے حماقت کی۔ سونے دیتی اسے غیر عورتوں کیساتھ۔ اک دن خود ہی تنگ آ کر سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیتا۔

    عورتوں کی ہر قسم برتنے کے بعد پنوں اس نتیجے پر پہنچا کہ باکرہ والا فلسفہ بکواس ہے۔ پاکدامنی، عزت و عفت اور عصمت گوشت کے لوتھڑے سے نہیں پرکھی جا سکتی۔ ہزاروں عورتیں ہونگی جن کا پردہ بکارت سلامت ہو پر ہونگی وہ ایک نمبر کی حرافائیں۔ اس دشت میں پنوں کا واسطہ ایسی کئی لڑکیوں سے پڑا جنہوں نے گوشت کا یہ لوتھڑا اپنے ہونے والے مجازی خداوں کی امانت سمجھ کر روز اول سے سنبھالے رکھا۔ اس مخصوص علاقے میں پنوں کا داخلہ منع تھا۔ اس کے علاوہ وہ جہاں چاہے دندناتا پھرے۔ لیکن پنوں سامنے آ کر کھیلنے والا کھلاڑی تھا۔ پیچھے چھپ کر کھیلنا اسے گوراہ نہ تھا۔ لہذا ایسی لڑکیوں سے وہ ہر وہ کھیل کھیلتا جو سامنے آ کر کھیلا جا سکتا ہو۔ اور انہوں نے بھی پنوں کو مایوس نہ کیا۔ ایسے کنوارے پن کا کیا انسان اچار ڈالے؟

    ایک دن کسی لڑکی کی والدہ نے پنوں کو اپنے گھر مدعو کیا۔۔۔ اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں۔ ایک قسم کا بردکھاوا تھا۔ ماں نے لڑکی کی شرو حیا، پاکیزگی اور شرافت میں زمین آسمان ایک کر دیا۔ لڑکی شرماتی شرماتی سامنے آئی تو وہی نکلی جس سے پنوں کھیل کھیل کر بیزار ہو چکا تھا۔ ویسے بھی پنوں کو اصلی مزہ تجربہ کار خواتین میں آتا۔ ان تمام زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی نہیں کرے گا جو مذہبی ہو، پارسائی کے دعوے کرتی ہو، اپنی عبادات اور تقوے کی نمود و نمائش کرتی ہو۔ اور کنوارپن کبھی بھی اس کا مسئلہ نہ رہا۔ وہ ذہنی اور روحانی وفاداری پر یقین رکھتا تھا۔ اس کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں اگر بیوی شوہر یا شوہر بیوی کے علاوہ کسی اور سے مختصر یا طویل المعیاد تعلقات قائم کرے۔ اس طرح کی مہم جوئی منہ کا ذائقہ بدلنے اور ڈپریشن سے بچنے میں عظیم کردار ادا کرتی۔ اور اس قسم کے تجربات سے ازدواجی زندگی خوشگوار رہتی۔

    اب پنوں یہ سب کچھ کاغذ پر سسی کے لیے لکھ رہا تھا۔ سسی اسے بہت پسند آئی۔ پنوں کی پہلی بیوی پستہ قد عورت تھی۔ اس کی خواہش تھی اسکی بیوی دراز قد ہو۔ جو عورت عینک لگاتی ہو وہ پنوں کو پرکشش لگتی تھی۔ سسی عینک لگاتی تھی۔ اس کی بیوی نالائق ڈرائیور تھی۔ پنوں نے اسے ڈرائیونگ سکھانے میں بہت ٹائم ضائع کیا۔ بہت ہی کوڑھ مغز تھی۔ سیدھی بات کو سمجھنے سے قاصر! سسی خطرناک سڑکوں اور کچے راستوں پر مہارت کے ساتھ گاڑی چلاتی۔ ایک دن تو دونوں میں گاڑی کے ریس بھی ہوئی جو پنوں نے جیتی مگر وہ اصلی جیت نہ تھی۔ وہ ایسے کہ سسی نئے ماڈل کی نازک ہنڈا سوک چلا رہی تھی اور پنوں اپنی مضبوط 82 کرولا جو کچے میں بھی گولی کی طرح جاتی۔ پنوں نے گاڑی روڈ سے کچے میں چلا کر سسی کو ہرایا۔ ایک قسم کی دھوکے بازی تھی۔ مگر یہ سب کھیل تھا۔

    پنوں اور سسی شادی سے پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ کئی سو چکے تھے۔ اور اس میں حرج بھی کیا تھا؟ سسی بھی طلاق یافتہ تھی پنوں کی طرح۔ اس کا شوہر بھی پنوں کی بیوی کی طرح شکی اور کم تعلیمافتہ تھا۔ سسی اعلی تعلیمافتہ اور بہت بڑے عہدے پر فائز تھی۔ پنوں کا بس ایک ہی خدشہ تھا۔ اسکی بیوی جو انگریزی محاورے کے مطابق Bloody housewife تھی۔۔۔ پر پھر بھی اس کے قابو میں نہ تھی۔ اس کی زندگی جہنم بنائے ہوئے تھی۔ سسی تو بہت ہی طاقتور اور بااثر عورت تھی۔ وہ کیسے پنوں کی حرامزدگیاں برداشت کرے گی۔ اگر پنوں نے اپنی روش نہ بدلی تو سسی دوسرے ہی دن اسے چھوڑ کر چلے جائے گی۔ اور سچ بات تو یہ تھی کہ پنوں سسی کے پیار میں دنیا کی ہر خوبصورتی بھول چکا تھا۔ اسے سسی کے پاس آ کر سکون ملتا۔ وہ خوبصورتی اور دانش کا حسین امتزاج تھی۔ شادی کے بعد ہر عورت کی طرح سسی بھی وفاداری چاہے گی۔ وہ پنوں نہ دے سکے گا۔ وہ چاہتا تھا کہ سسی اسے جیسا ہے ویسا ہی ہمیشہ کے لئے قبول کر لے۔ وہ اسے دھوکہ نہیں دینا چاہتا تھا۔ اپنا خط وہ مکمل کرنے کے قریب تھا۔ لب لباب یہ ہی تھا کہ وہ گھر بسانا تو چاہتا ہے۔ بچے بھی پیدا کرنا چاہتا ہے مگر باہر منہ مارنا نہیں چھوڑ سکتا۔ دلیل یہ ہی تھی کہ باہر منہ مارنے سے مزاج اچھا رہتا ہے اور ازدوجی زندگی حسین رہتی ہے۔

    ’’لیجئے میں نے سب کچھ لکھ دیا۔‘‘ پنوں نے کہا اور اپنا خط سسی کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد سسی نے اپنا خط پنوں کو دے دیا۔

    پنوں اور سسی کی شادی کو پچیس برس بیت چکے تھے۔ دونوں نانا نانی، دادا دادی بن چکے تھے۔ دونوں میں انتہائی گہرا پیار تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر جی نہ سکتے تھے۔ سب لوگ ان پر رشک کرتے تھے۔ ہر محفل میں بات اگر آئیڈیل جوڑے کی ہوتی تو مثال سسی اور پنوں کی ہی دی جاتی۔ دونوں کا حسن بھی نکھر رہا تھا۔ سسی تو ابھی تک جوان تھی۔ پنوں پینسٹھ عبور کر چکا تھا مگر دکھتا پچاس کا تھا۔ کمال سچائی کا تھا جو دونوں نے خط میں صاف صاف بیان کر دی۔

    پنوں اللہ تعالی سے ایک ہی دعا کرتا۔۔۔ اسکی زندگی میں سسی نہ مرے۔ وہ پہلے مرے۔ اسے رنڈوے پن سے بہت ڈر لگتا تھا۔ سسی سے پیار اتنا ہو گیا کہ ایک سٹیج پر اس نے ادھر ادھر منہ مارنا تک چھوڑ دیا۔ کئی عورتوں نے اسے اپنا بدن پیش کیا مگر پنوں ’’یوسف‘‘ بن گیا۔ عورت الف ننگی کھڑی ہو جائے پنوں نامرد بن جاتا۔ مگر سسی کا خیال تک اس میں ہیجان برپا کر دیتا۔ پنوں کے گناہ بہت زیادہ تھے۔ اسی لئے اللہ نہ اس کی نہ سنی۔ سسی چلی گئی۔۔۔ پنوں اکیلا رہ گیا۔ اب زندگی اس کے لئے بے معنی تھی۔ اگر خود کشی حرام نہ ہوتی تو وہ یہ کام کر لیتا۔ مگر پہلے اس نے کونسے شرعی کام کیے!

    پنوں کا وقت سسی کی تصاویر دیکھنے میں گذرتا۔ اس کے بچے بیرون ملک پرتعیش زندگی گذار رہے تھے۔ وہ بس ان سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں رہتا۔ خواب آور ادوایات استعمال کئے بغیر اسے نیند نہ آتی۔ گولیاں کھا کر وہ بستر پر لیٹ جاتا۔ ٹیبل لیمپ کی روشنی میں سسی کا خط پڑھتا۔ کمال عورت تھی۔ ایک ہی لائن لکھی۔۔۔ انگریزی میں،

    Be yourself, don’t try to be what you are not!

    جو تم ہو وہی رہو۔ وہ بننے کی کوشش نہ کرو جو تم نہیں ہو!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے