بی اماں
جب سید قمرالدین قمرو نے اپنی عزیز از جان بہن، میراں بی کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے صاف منع کردیا، تو جس نے سنا اُس نے دانتوں تلے انگلی داب لی۔ خاندان کی عورتوں کے ہاتھ سروتے میں آگئے اور مرد اُس رات ریڈیو سننا بھول گئے۔
میرا ں بی، جو کہ سیدانی بھی تھیں اور جنھوں نے اپنے اکلوتے بھائی قمرو کو کلیجے سے لگا کر پالا تھا، اُن کے بیٹے احمد کے رشتے کے لیے انکار ہوگیا؟ ماں جیسی بہن میراں بی جنھوں نے بھوکا رہ کر قمرو کے منہ میں نوالے ڈالے۔ خود پھٹی ساڑھی پہنی، بیڑی کے کارخانے میں کام کیا، اچار بنا کر گھر گھر بیچے مگر قمرو کو بی اے، ایم اے کروایا، اُن کے بیٹے کے لیے بھتیجی نازنین کا رشتہ منع ہوگیا؟
وہ ایک سرد اور ویران شام تھی۔ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے نئے علاقے میں قمرو کے ہزار گز کے بنگلے کے باہر، میراں بی کی ذاتی ٹیکسی کھڑی تھی۔ اُس کے آگے کھڑا حفیظ، حسب معمول بیڑی پیتے ہوئے کھانس رہا تھا اور مالکن کے باہر آنے کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا۔ انھیں مبارکباد دینے کے لیے تازہ گلاب کا ہار وہ سندھی ہوٹل سے خرید لایا تھا۔ لیکن خلاف توقع اُس کی سیٹھانی مالکن نے آنے میں خاصی دیر کردی تھی۔
اندر اقوام متحدہ کی گول میز کانفرنفس پر ڈیڈ لاک لگ جانے کا سا منظر تھا، ویٹو ہوچکا تھا۔ سب چپ تھے، بس خاموشی بات کرتی تھی۔ بہن کی غضب ناک نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے، قمرو نے یوں ہی کھڑکی کے باہر لان میں دیکھنا شروع کردیا۔ شہناز بیگم کی اکڑی گردن سامنے لگے ٹیلی ویژن کو خواہ مخواہ دیکھتی رہی۔ بچے اپنے کمروں میں ہوتی پڑھائی میں منہمک تھے۔ نازنین البتہ اپنی پھوپھی جان کو خفا دیکھ کر کچھ پریشان، کمرے سے باہر جھانکتی رہی۔
احمد مٹھائی کا ڈبہ لیے دنیا کا احمق ترین شخص، بلکہ وہ بھکاری لگ رہا تھا جس نے اپنی اوقات سے بڑھ کر خیرات مانگ لی ہو۔ ماموں کی دھتکار، اُس کے چہرے پر طمانچے کے نشان کی طرح چپک سی گئی تھی۔ بہت دیر بعد قمرو گویا ہوئے، ’’آپا! آپ بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘ اُن کی بات کاٹتے ہوئے میراں بی نے کہا، ’’چلو احمد، حفیظ کو بولو گاڑی ریڈی کرے۔‘‘ انھوں نے برقعہ سنبھالا، ’’یہ مٹھائی سب بچوں کو کھلا دینا۔ اس خوشی میں کہ اُن کی بی اماں مر گئی۔۔۔ ساری مصیبتوں کی جڑ میں اچ تھی خمرو پاشا!‘‘ نقاب کی ڈوری کس کر شہناز بیگم کو دیکھتے ہوئے تڑخ کر بولیں، ’’بھائی بہن جدا ہوگئے، دشمناں موج کرو۔ خبردار جو تم لوگاں میں سے کوئی میرے جنازے پہ آیا۔ خبر سے اٹھ کے تم کو تھپڑاں ماروں گی خمرو! بول رئیوں میں، خدا حافظ۔ تم مر گئے میرے واسطے۔‘‘ ایک جھٹکے سے نقاب چہرے پر ڈالا، پان اگلدان میں زور سے تھوکا اور احمد کو پیچھے لیے تلوار کی سی تیزی سے باہرنکل گئیں۔ باہر حفیظ نے مالکن کو آنسو پونچھتے ہوئے آتے دیکھا۔ جانثار خادم تھا، لاکھ جاہل سہی مگر معاملہ فہمی مالکن ہی سے سیکھی تھی۔ جلدی سے ہار برابر کی سیٹ پر ڈال کر ٹیکسی اسٹارٹ کی۔ ۳۵ سالہ پرانی، پیلی چھت اور کالی باڈی والی مورس ٹیکسی جس کا میٹر اس وقت بند تھا، تیزی سے نیوکراچی لال مارکیٹ کی طرف چل پڑی۔
ٹیکسی سنٹرل جیل، تین ہٹی، لالو کھیت اور سندھی ہوٹل سے ہوتی ہوئی نیو کراچی کی طرف رواں دواں تھی، جہاں میراں بی نے کئی سال پہلے تین کوارٹرز الاٹ کروا کر اپنی ٹھاٹ دار بادشاہت کا آغاز کیا تھا۔ اُن کا چہرہ کھڑکی سے باہر تھا۔ بظاہر وہ بھاگتی دوڑتی بسیں، رکشے، ٹھیلے، لوگ، مزدور اور نیرنگ سنیما پر لگے فلم کے پوسٹر دیکھ رہی تھیں، لیکن دل و دماغ قمرو کے بچپن سے لے کر جوانی سے ہوتے ہوئے، اُس کی شادی اور آج وقوع پذیر ہوئے سانحے تک کی فلم، دیکھے چلے جارہے تھے۔ اچانک اُن کی نظر احمد کے ہاتھ میں پکڑے ایک کاغذ پر پڑی، کڑک کر بولیں، ’’کیا تو بی ہے یہ؟‘‘ احمد سہم گیا اوربولا، ’’وہ اماں جانی! وہ کچھ بھی نئیں۔ خالی کاغذ ہے۔‘‘ اماں نے گھورا تو احمد نے فوراً اگل دیا، ’’وہ میں شاعری کرتؤں ناں، تو۔۔۔ وہ نازو کے واسطے یہ غزل لکھا تھا۔‘‘ اماں بولیں، ’’بُھل جاؤ اُس کوفوراً، اُنے تمھارے خابل اچ نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر بہت اطمینان سے بغیر پڑھے وہ کاغذ، وہ غزل، وہ محبت، وہ خواب۔۔۔ اُن سب کے پرخچے کرکے کھڑکی کے باہر اچھال دیے۔ حفیظ نے شیشے میں کن انکھیوں سے، احمد کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھے اور خاموشی سے ٹیکسی پھاٹک میں داخل کرنے لگا۔ احمد یہ سوچتا ہوا اندر جانے لگا کہ نازنین اس کے قابل نہیں؟ یا وہ خود نازنین کے لائق نہیں ہے؟ معمہ کیا ہے!حفیظ نے مالکن کا سامان اندر پہنچایا۔ ایک نائلون کی بنی ہوئی ٹوکری میں اُن کی شال، پاندان، ٹاٹ کے گیلے ٹکڑے میں لپٹے ہوئے بنگلہ پان، نیلے اور سفید اون کے گولے اور سلائیوں کے ساتھ آدھا بنا ہوا سوئیٹرتھا، جو وہ ہر سال قمرو کے لیے بُنا کرتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا اس ادھورے سوئیٹر کی طرح احمد اور نازنین کی محبت اور تمام رشتے بھی اب ادھورے رہ جائیں گے۔
نیوکراچی، اس بڑے سے شہر کے مضافات میں بسی یہ نئی بستی، پرانے گودھرا کیمپ کے مہاجرین کے لیے جنت تھی۔ کھلے آنگن والے صاف ستھرے قلعی کیے کوارٹر، جا بجا پیلے گورنمنٹ اسکول، کھیلنے کے لیے بڑے گراؤنڈ، سنیما، مساجد، کھلی فضا۔ اور پھر آگے شروع ہوتا جنگل جلیبی، بیر اور کیکر کا جنگل۔ ہندوستان سے کسمپرسی کی حالت میں ہجرت کے شکار اور ہجر کے مارے مہاجرین یہاں بس کربہت خوش تھے۔
سرما کی شام جارہی تھی۔ میراں بی صحن میں بچھے نواڑ کے پلنگ پر ڈھے سی گئیں۔ برقعہ اتار چکی تھیں، پاندان یوں ہی پڑا اُن کا منہ تک رہا تھا۔ پان کھانے تک کا دل نہ چاہتا تھا۔ لگتا تھا سچ مچ کسی کا جنازہ اٹھا ہے اس گھر سے۔ اُن کے شوہر نامدار عبدالجبار، جنھیں وہ پیار و غصے دونوں میں سیٹھ صاب کہہ کر پکارتی تھیں، صحن کے بیچوں بیچ اکڑوں بیٹھے دوپٹرومکس کے ھنڈے سلگا رہے تھے۔ اس مہاجر بستی میں ابھی بجلی آئی نہیں تھی، قندیل اور لالٹین پر ہی تکیہ تھا۔ مٹی کے تیل کی بڑی طلب تھی جو اُن کے احمد کریانہ اسٹور پر وافر بکتا تھا۔ گول عینک، جس پر دو محدب عدسے لگے تھے، جن کے پار اُن کی آنکھیں حیوانی حد تک بڑی نظر آتی تھیں، درست کرتے ہوئے بولے، ’’کیا ہوا سیٹھانی۔ خمرو نہیں تھا کیا گھر پہ؟ بھوت تھک گئے ویسا ہے؟ بات کرے احمد کی؟ کیا بولا خمرو؟ ہو؟‘‘ دوسری طرف سناٹا تھا۔ میراں بی وہیں کروٹ لیے سرمئی سے سیاہ ہوتے آسمان کو تکے جارہی تھیں۔ چھوٹے سے قمرو کو بڑی بہن نہلا دھلا کر اُس کی آنکھوں میں کاجل لگا رہی تھیں۔ ’’میرے پاشا کو کسی کی بری نظر نہ لگے۔‘‘ وہ کہیں اور تھیں۔ حفیظ، ٹیکسی کی چابیاں اور آج آدھے دن کی کمائی چابی کے نیچے رکھ گیا تھا۔
اتنے میں سب کے بستراور مچھردانیاں لگا کرمنحنی سی وحیدہ صحن میں آگئی۔۔۔ گہرا سانولا رنگ، ہر وقت ننگے پاؤں، سوکھے کھپچی نما بازو، سپاٹ سینے پر جھولتا پھٹا پرانا بلاؤز، بدرنگ ساڑھی، بالوں کا چونڈا اور پیلے دانت۔۔۔ میراں بی کی جانثار خادمہ جو بغیر کسی سوال کے کسی روبوٹ کی طرح اُن کے پاؤں دبا رہی تھی۔
وحیدہ، حفیظ کی بیوی تھی اور اُس کے ان گنت بچوں کی ماں جو برابر کے کوارٹر میں اس وقت یا تو آپس میں لڑ رہے تھے یا ننگے فرش پر سو رہے تھے۔ وحیدہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی بات کرتی تھی۔ بچوں کی بھی خاموشی سے پٹائی کرتی تھی اور باقی کام بھی مہربہ لب۔ جانے کیوں اُسے ایک چپ سی لگی تھی۔ ہاں احمد کو دیکھ کر اُس کی آنکھیں بہت پھیل جاتیں اور بہت بات کرتیں۔ جواباً احمد اُسے صرف گالیوں سے نوازتا تھا۔ ’’سیٹھ صاب ایک بوتل مٹی کا تیل دئیو جی اور آٹھ آنے کا گڑ۔‘‘ سیٹھ صاحب نے سلیقے سے ایک پیٹرومکس وارنڈے میں لٹکایا اور ایک کو اندر دکان میں لے جاکر جانفشانی سے گاہک نمٹانے لگے۔
’’میں بول رؤں آپا یہ غلیظ گورنمنٹ اسکول میں میں نئی پڑھتوں۔ میرے کو انگلش میڈیم اسکول میں ڈالو کیسا تو بی کرکے، نئی تومیں خلیل ماموں کے ویسا چنے کا ٹھیلا ڈھلکتوں۔‘‘ دس سالہ قمرو، پیر پٹکتا مٹی کی صراحی کو لڑھکاتا باہر گلی میں نکل گیا۔ اور تکیے کے غلاف پر شعر کاڑھتی میراں کی انگلی میں سوئی چبھ گئی، مانو کلیجے میں گھس گئی۔ چھوٹا بھائی روتا ہوا گھر سے جائے اور وہ کچھ بھی نہ کرسکیں؟ عبدالجبار سے بیاہ کر، حیدرآباد دکھن سے یہاں کسی جنت کی آس میں آئی، میراں بی کی شادی کو چار سال ہوچکے تھے۔ مگر گود ہری نہ ہوئی تھی۔ اس کا الزام بھی وہ اٹھتے بیٹھتے جناح اور گاندھی کو دیتیں کہ نہ ہوتا بٹوارہ نہ وہ پاکستان آتیں اور نہ رہتا اُن کا علاج نامکمل، جو وہ وہاں حکیم شطاری سے کروا رہی تھیں۔ اب تک کم از کم دو بچوں کو کھلا رہی ہوتیں۔
لیکن اب تو لے دے کر قمرو ہی سب کچھ ہے۔ ہاں آتے ہوئے اپنے کام والے رام لعل اور گنگا کو بھی ساتھ لے آئی تھیں۔ پاکستان لاکر دونوں کو باقاعدہ مسلمان کیا گیا تھا، پھر نکاح پڑھوا کر انھیں اُس جھونپڑی نما مکان کا ایک کونا الاٹ کردیا گیا۔ رام لعل اب حفیظ تھا اور گنگا، وحیدہ۔ یہ الگ بات کہ وحیدہ پکارے جانے پر وہ جواب نہیں دیتی تھی، لیکن پھر رفتہ رفتہ اپنی اس نئی شناخت کی عادی ہوتی چلی گئی۔
وحیدہ اب پورے دنوں سے تھی، لیکن دور میونسپلٹی کے نلکے سے گھڑے یا لوہے کی بالٹی میں پانی بھر لانا، کیروسین تیل لاکر چولہا جلانا، مٹی کے صحن کو جھاڑنا پونچھنا، پھر جھوٹا موٹھا کھانا کھا کر آنے والے بچے کے سپنے دیکھنا۔۔۔ یہی وحیدہ کی زندگی تھی۔ میراں بی کے کشیدہ کاری کیے کُرتے، غلاف اور کروشئے سے بُنے بنیان، میز پوش اور لیس سائیکل پر رکھ کر بیچنا یہ حفیظ کی ذمہ داری تھی۔ کراچی سنٹرل جیل کے پیچھے، حیدرآباد کالونی سے نکل کر حفیظ سیدھے سوسائٹی اور پھر پارسی کالونی اور صدر تک ہو آتا۔ سیٹھ صاحب بیڑی پیتے ہوئے صرف سوچتے رہتے اورہندوستان واپس جانے کے منصوبے بناتے رہتے۔ ہندوستان سے آئے اس مختصر قافلے میں ایک اُن کی ساس بھی تھیں، یعنی کہ میراں بی کی والدہ سیداں بی، جو اب ساتھ ہی رہتی تھیں۔ کبھی کبھار اس دنیا میں بیٹی کو اپنی ماں کی ماں بننا پڑ جاتا ہے۔ میراں بی اور سیداں بی کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔
قمرو کے داخلے کی فیس کا حساب جوڑتے ہوئے میراں بی کو اماں کا خیال آیا کہ وہ کہاں ہیں، دو بالشت کا تو مکان تھا۔ بیٹھے بیٹھے تمام کا تمام گھر احاطۂ نظر ہوجاتا تھا۔ پتہ چلا کہ میراں بی کو غافل دیکھ کر اماں باہر نکل گئی ہیں۔ میراں بی نے فوراً وحیدہ کو نو مہینے کے پیٹ کے ساتھ جیل کی طرف دوڑایا، خود دوسری طرف بھاگیں مگر دو روز ہوگئے سیداں بی گھر نہ لوٹیں۔ نسیان کا مرض ہوگیا تھا انھیں، کبھی کبھار بیٹی داماد اور قمرو تک کو نہ پہچانتیں، مکان کو یاداشت میں رکھنا تو دور کی بات ہے۔ پیدل ہی پیدل بڑی سڑک تک جانکلتیں اور زن زن گزرتی گاڑیاں دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتیں۔ لوگ اُن کا پتہ ٹھکانہ پوچھتے تو بس بولتیں میراں، میراں بی کے پاس جانا ہے۔ اُن کے خیال میں میراں اُن کی ماں کا نام تھا۔
تنگ آکر اب میراں بی نے ایک گتے پر اپنا نام اور گھر کا پتہ لکھ کر اُن کے گلے میں تختی سی ڈال دی تھی۔ لیکن عموماً وہ اُسے بھی اُتار پھینکتیں۔
شام سے رات ہونے لگی۔ وحیدہ دردِ زہ سے کراہنے لگی۔ میراں بی کا حلق کڑوا ہوگیا اور بولیں، ’’بس اس کی اچ کمی تھی! ادھر اماں کھو گئے، خمرو ناراض ہوکے گھر سے چلے گئے، حفیظ ماٹھی ملا ابھی تک نئی آیا اور یہ وحیدہ رانڈ اس کو بھی آج اچ بچہ جننے کا تھا۔‘‘ دن بہ دن میراں بی چڑچڑی اور بدزبان ہوتی چلی جارہی تھیں۔ گالیاں زبان کی نوک پر رہتیں۔ زیادہ تر نزلہ غریب وحیدہ اور حفیظ پر ہی گرتا۔ پھر اب تک ماں نہ بننے کا دکھ انھیں کھائے جارہا تھا۔ حتی الامکان دوا، جڑی بوٹیاں کھائے جاتیں مگر اُن کا پاؤں بھاری ہو کے نہیں دے رہا تھا، اور اس پر غربت و افلاس کی بھاری سل سینے پر دھرنہ دیے الگ بیٹھی رہی۔ محلے کی دائی زمرد کی مدد سے وحیدہ کابچہ جنوایا گیا۔ میراں بی کو بہت حیا آئی، مگر مرتی کیا نہ کرتیں۔ وحیدہ بھینس کی طرح ڈکرائے جاتی تھی، انھیں طوہاً و کرہاً اُس کی زچگی میں ہاتھ بٹانا ہی پڑا۔
ہر چند کہ وحیدہ نماز اور وضو سیکھ چکی تھی، تھوڑا بہت کلمہ بھی پڑھ لیتی تھی، مگر اُس کے پشت در پشت ہندو ہونے کا متعصبانہ خیال میراں بی کے دل سے جاتا نہ تھا۔ حفیظ جمعے کی نماز پابندی سے پڑھتا تھامگر بات بات پر ہائے رام کہہ ڈالتا تھا۔ پھر مالکن کی چبھتی نظروں سے ہول کھاکر فوراً ہی یا اللہ کہتا۔ اُن کے ہاتھوں نے ایک ہندو کا بچہ جنا ہے! ماں باپ تو مسلمان ہیں مگر اس نوزائیدہ کا خون؟ کلمہ پڑھنے کے بعد ٹھہرا ہے، تو بچہ بھی تو مسلمان ہی ہوا ناں، مگر پھر آباء واجداد کس چڑیا کا نام ہے، اس کے باپ دادا تو ہندو تھے۔ اچانک دروازے پر زور دار دستک ہوئی، زنجیر تواتر سے بجائی جارہی تھی۔ کسی بھلے راہگیر نے سیداں بی کو پہچان کر سوالات کیے اور آدھی رات کو اُنھیں یہاں پہچانے چلا آیا۔
چھینکے میں رکھی باسی روٹی سالن پر سیداں بی مربھکوں کی طرح ٹوٹ پڑیں۔ حفیظ بھی ابھی آیا تھا۔ مال تو بک گیا تھا مگر اُدھار پر۔ قمرو بھی ایک مسہری پر دبک گیا تھا۔ ’’آپا میرے کو انگلش میڈیم میں داخلہ کرواؤ جی!‘‘ قمرو نے گویا ضد پکڑ لی تھی۔ میراں بی کو بھائی پر ڈھیروں پیار آگیا۔ گلے میں سہاگ کی نشانی، کالی پوتھ کا وزنی لچھا پڑا تھا، جس میں چاند تارے کی پدک اور سونے کے موتی کالی پوتھ کے ساتھ پڑے تھے، جو ساس نے نکاح ہوتے ہی ان کو پیار سے پہنایا تھا۔ اگلے دن لالو کھیت کے صرافہ بازار میں یہ سونے کی زنجیر بیچی گئی، جس سے نہ صرف قمرو کی داخلہ فیس، کتابیں، یونیفارم وغیرہ آئے بلکہ ایک گز لمبی لوہے کی زنجیر اماں کے لیے بھی خریدی گئی۔ ماں کے پیروں کو چھو کر، اُن سے معافیاں مانگ کے، میراں بی نے اُن کے ایک پیر میں زنجیر ڈالی اور قمرو کی مسہری سے باندھ دی۔ بھولی سیداں بی نے نہ واویلا کیا نہ احتجاج۔ صرف اتنا پوچھا، ’’ائی میراں بی میں پیشاب پے خانے کو کیسا جاؤں گی؟ تم لے جائیں گی ناں؟‘‘ بیٹی ماں سے لپٹ کر بہت دیر روتی رہی۔ سیداں بی خالی نظروں سے اُسے دیکھتی رہیں۔
مجھے یاد ہے گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، جھوم کے گھٹا آئی تھی اور میں جو برسات کی دیوانی تھی، اُس دن بار بار بارش رک جانے کی دعا کررہی تھی تاکہ امی، بی اماں کی طرف جانے کا ارادہ نہ ملتوی کردیں۔ اوپر تلے کی ہم پانچ بہنوں نے، اس گرمی میں گلابی چمکیلے بروکیڈ کے پھولے ہوئے ایک جیسے فراک پہن رکھے تھے۔ امی نے سب کو اکڑوں بٹھا کر، تیل لگے بالوں کی دوچٹیا بنائی تھی اور اُسی کے ہم رنگ ربن بھی ڈالے تھے۔ پورا گھر آتشی گلابی ہو رہا تھا۔ ہاں کم بخت بروکیڈ ہم سب کو ہر طرف کھجانے پر مجبور کررہا تھا۔
’’امی جلدی چلیں ناں بس نکل جائے گی۔‘‘ میں بہت بے تاب تھی۔ ہم کورنگی کے ساحل پر بنے سو کوارٹر میں رہتے تھے۔ یہ بھی مہاجروں کی ایک تازہ بستی تھی۔ شام کو کھیلنے پارک کے بجائے ہمیں کھلا سمندر میسر تھا، خاص کر اُس کے ساتھ بنے نمک کے چھوٹے بڑے ٹیلے۔ ابا کسی دفتر میں اسٹینو ٹائپسٹ تھے، اُس دن ابا اور بھائی جان گھر پر تھے۔ مجھے بی اماں کے ہاں نیوکراچی پہنچنے کی بہت جلدی تھی۔ بی اماں کے ساتھ ساتھ اُس گھر میں ایسا کچھ تھا، کہ میں وہاں جانے کے دن گنتی تھی۔ شاید جنگل جلیبی کے بے شمار درخت یا بی اماں کے ہاتھ کے پراٹھے اور کٹا قیمہ، پورن پوری یا صحن میں لگی شہتوت کی بیل، بادام کا درخت یا پھر۔۔۔ احمد بھائی۔ احمد بھائی جب سامنے کے گراؤنڈ میں والی بال کھیلتے تو میں انھیں منہ کھولے تکا کرتی۔ وہ رات کو نوٹس بناتے یا شاعری پڑھتے تو میں خیالوں میں اُن پر نثار ہوتی رہتی۔
کورنگی سے صدر اور پھر وہاں سے بس بدل کر ہم لال مارکیٹ4Hکے آخری اسٹاپ پر پہنچے۔ بارش بالاخر شروع ہو ہی گئی تھی۔ راستے بھر بس میں مجھے بیٹھنے کی جگہ نہ ملی تھی کیوں کہ امی نے میرا ٹکٹ نہیں لیا تھا کہ میں ابھی بارہ سال کی نہیں ہوئی ہوں۔ جب کہ میں تیرھویں سال میں کب کی داخل ہوچکی تھی۔ میری سالگرہ اُنھیں کبھی یاد نہ رہتی۔ اوپر تلے کی پانچ بیٹیوں کو پال کر امی ویسے ہی حواس کھوچکی تھیں۔ تو کنڈیکٹر نے مجھے بیٹھنے ہی نہ دیا۔
امی نے خوشی خوشی بی اماں کے مکان پر دستک دی۔ میرے ہاتھ نرم پڑتے کیلوں کا لفافہ تھامے شل ہوچکے تھے۔ نیلو باجی نے ہم سب کے کپڑوں کا بیگ تھاما ہوا تھا، ہم یہاں ایک ہفتہ رہنے کے لیے آئے تھے۔ آنے والے دنوں کا تصور کرکے میں سرشار تھی۔ اچانک بادل گرجے اور بارش بہت تیز ہوگئی۔ ہمارے بروکیڈ کے فراک اور ربن بھی بھیگے بھیگے سے لگنے لگے۔ امی کی نظر بچا کر میں نے کاجل کی ڈوری لمبی کھینچ رکھی تھی اور بٹوباجی کی اکلوتی لپ اسٹک بھی مل لی تھی، وہ بھی بہنے لگی۔ ’’کون ہے؟‘‘ دور سے بی اماں کی آواز آئی۔ ’’میں، میں رفیعہ‘‘ امی جلدی سے بولیں۔ ’’بی اماں جلدی دروازہ کھولیں بہت تیز بارش ہورہی ہے۔ ہم سب آپ کے ہاں رہنے آئے ہیں پورے ایک ہفتے۔‘‘ میں نے جوش میں سارا پروگرام باآواز بلند سنا ڈالا۔ اندر خاموشی چھا گئی۔ پھر قمر ماما کے بچوں کے کھسر پھسر کرنے اور قہقہے لگانے کی آوازیں آنے لگیں۔ ’’لو آگئے۔ بھگوڑے! چور کی اولاد! بنگالی غریب لوگ۔ ہاہاہا۔‘‘ نازنین کی آواز سب سے بلند تھی۔ اتنے میں وحیدہ کی بیٹی نے دروازہ کھولا۔ اس سے پہلے کہ امی اور پھر ہم سب اندر داخل ہوتے، اُ س نے ہمیں وہیں روک کر بی اماں کا فرمان پڑھ کر سنایا۔ ’’سیٹھانی بولے، اندر نازو بی بی کی سالگرہ ہورئی۔ سب مہماناں جمع ہیں۔ آپ لوگاں کو تو نہیں بلائے تھے۔ خیر اگر آگئے ہیں تو برابر میں وحیدہ کے کوارٹر میں جاکے سوجاؤ۔ صبح اُنوں آپ لوگاں سے ملاقات کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے لکڑی کا دروازہ کرختگی سے بند کرلیا۔
اُس رات برسات نے پانی زیادہ برسایا یا امی کی آنکھوں نے؟ یہ میں آج تک نہ طے کرسکی۔ وحیدہ کے ٹھنڈے اور گیلے فرش پر لیٹ کر میں صبح تک جاگتی رہی۔ ہمارے پیارے ابا، عارف حسین کو یہ لوگ بھگوڑا اور چور کیوں کہتے ہیں؟ میں نے پہلے بھی ایسا سنا تھا۔ میرے ابا تو انتہائی محنتی اور شریف انسان ہیں۔ مجھے یاد ہے اگلی صبح سویرے امی نے ہم سب کو جگا کر نہار منہ تیار کروایا۔ ’’ممانی کی طبیعت خراب ہے نیلو، بٹو چلو سب بہنوں کو تیار کرو۔‘‘ ہم واپس ہولیے۔ اُس دن مجھے بی اماں سے اتنی نفرت محسوس ہوئی جتنی کہ کسی چڑیل سے۔
قمرو کوانگلش میڈیم اسکول میں پڑھتے ہوئے پہلا سال تھا، کہ سیداں بی زن زن کرتی گاڑیوں میں سے ایک کے نیچے آکر کچلی گئیں۔ اُن کے خیال میں وہ نظام آباد میں تھیں اوراگلے محلے گاندھی چوک جاکر دُرگا پوجا دیکھنا چاہ رہی تھیں، کہ اچانک کہیں سے دیوہیکل ٹرک سامنے آگیا۔ اس سے پہلے کہ وہ بچنے کا فیصلہ کرتیں، ٹرک والے نے انھیں کچلنے کا فیصلہ کرلیا۔ لاش کے گلے میں پڑی تختی اُس دن بہت کام آئی، ورنہ میراں بی کو دہرا صدمہ سہنا پڑتا۔ لاش مل تو جاتی مگر دو ایک دن بعد۔ ماں کے گزر جانے کا بے شک انھیں ملال تھا، مگر بعد ازاں انھیں ایک نجات سی محسوس ہوئی۔ ماں کی ذمہ داری کم ہوجانے سے زندگی اور معیشت کی گاڑی تیز رفتار ہوگئی تھی۔
میراں بی روزنامہ جنگ، بلاناغہ صوفی صاحب کے کیبن پر آتے جاتے پڑھ لیا کرتی تھیں۔ نیوکراچی میں کواٹروں کی الاٹمنٹ جاری تھی۔ رات ہی رات قمرالدین سے تین کوارٹرز کے لیے درخواست لکھوا کر متعلقہ محکمہ کو ارسال کردی، جو جلد ہی منظور ہوگئی۔ تین کوارٹر میراں بی، سید قمرالدین اور سیداں بی بی کے نام الاٹ ہوگئے۔ سیداں بی بی کو مرحومہ کی جگہ بیوہ لکھوادیا گیا تھا۔ اس میں جھوٹ کیا تھا، میراں بی کے لیے ماں ابھی زندہ ہی تو تھی۔
قمرو کے اسکول کا مسئلہ حفیظ کی ٹیکسی نے حل کیا۔ پہلے سیٹھانی نے کرائے کی ٹیکسی لی، جس میں قمرو صبح صبح ٹھاٹ سے جاتے۔ حفیظ اُن کا بیگ گاڑی میں رکھتا اور اندر پہنچاتا، پانی کا تھرماس تھامتا، وحیدہ اُن کے یونیفارم دھوتی، کلف دیتی اور بوٹ پالش کرتی، بہن بلائیں لے کر آیۃ الکرسی دم کرکے اسکول کو روانہ کرتیں۔
عبدالجبار کو جلد ہی کوارٹر ہی میں سے میدان کی طرف ایک دکان نکال کر، احمد کریانہ اسٹور کھلوادیا گیا۔ وہ سچ مچ کے سیٹھ صاحب ہوگئے۔ باقی دو دکانیں ایک روئی دھنکنے والے نے اور دوسری کلکتہ کتاب گھرنے لے لی۔ معقول کرایہ آنے لگا۔ ایک کوارٹر کرائے پر اٹھ گیا ایک میں حفیظ اور وحیدہ چند کنستر اور چٹائی کے ساتھ رہنے لگے۔ جیسے جیسے بچے ہوتے رہے، چٹائیاں بڑھتی رہیں۔ احمد کریانہ اسٹور بھی چل پڑا۔ میراں بی کی آنکھ کا تارہ تھا احمد، جو خدا نے کتنی آزمائشوں اور دعاؤں کے بعد انھیں عطا کیا تھا۔ جوں ہی قمرالدین نے بی اے کیا سیداں بی نے فوراً خاندان ہی میں شہناز سے بات رکھوالی، جو کہ میٹرک پاس کرچکی تھی۔
مایوں میں سو لوگوں کا کھانا انھوں نے آنگن میں لکڑیاں جلا کر اکیلے بنایا۔ ہاں رفیعہ اور اُس کی بیٹیاں ضرور ہاتھ بٹاتے رہے۔ ولیمے کا اہتمام سامنے گراؤنڈ میں قنات لگا کر کیا گیا۔ گو قمرالدین ان پوری تقاریب میں اکھڑا اکھڑا رہا، مگر میراں بی ماتھے پہ بل ڈالے بغیر بے دریغ خرچہ کرتی رہیں۔ اُن کی کفایت اور بچت کی بدولت، اب وہ تین ٹیکسیوں کی مالکن تھیں۔ مایوں میں اُن کے ہاتھ کے بگھارے بینگن، دم کی بریانی، دہی کی چٹنی اور میٹھے گلگلے ملیدہ تھے۔ لوگوں نے رکابیاں چاٹ کر کھائیں۔
اب روزانہ شام کو وہ صحن میں ایک اونچی لوہے کی کرسی پر بیٹھ جایا کرتیں۔ حفیظ، جو اب ٹیکسیوں کی اُس فلیٹ کا سپروائزر تھا، سارا حساب کتاب ایک رجسٹر میں لکھواتا جاتا۔ ڈرائیوروں کی تنخواہ، مکینک کے خرچے، آئل اور پیٹرول کے اعداد و شمار اور پھر احمد کریانہ اسٹور کا تمام کچا چٹھا بھی وہ اپنے رجسٹر میں چشمہ لگا کر درج کیے جاتیں۔ سیٹھ صاحب آنگن میں آتے ہی ملازم بن جایا کرتے تھے۔ میراں بی کے رعب و دبدبے کے آگے وہ بکری ہی لگتے تھے۔ شام کو، سیداں بی کے ہاتھ کے لگائے چنبیلی کے پھول جا بجا گرے پڑتے تھے۔ شریفہ، شہتوت، امرود، بادام ٹوکروں سے اترتے۔ میراں بی سب سے پہلے قمرو اور شہناز کا حصہ لگاتیں پھر کسی اور کی نوبت آتی۔ وحیدہ شام ہوتے ہی منہ بندکلیوں کے گجرے اُن کے لیے گوندھ رکھتی۔ مہندی سے رنگے کتھئی، سیدھے، لمبے اورموٹے بالوں کی چوٹی اُن کے متناسب جسم پر سانپ کی طرح لوٹتی رہتی۔ ہمیشہ بہت چست بلاؤز، سوتی ساڑھی اور کانوں میں سونے کے ٹاپس پہنے رہتیں۔ کان میں اوپر کئی چھید کروا کر سونے کے چار چار تنکے پہن لیے تھے۔ سونے کی چوڑیاں اتار کر شہناز کو بری میں دے چکی تھیں، اس لیے اب کانچ کی چوڑیاں پہنے رہتیں۔ ایک دن صرافہ بازار گئیں اور شہناز کے لیے چمپاکلی کے ساتھ، پرانی سہاگ مالا سے ملتی جلتی کالی پوتھ کا لمچھا اپنے لیے خرید لائیں۔ ساس کے لیے دعا پڑھ کر خود ہی پہن لیا۔ غرض جس جنت کو کھوجتے پھٹے حالوں پاکستان آئی تھیں، اپنی محنت، ہوشیاری، بلکہ عیاری سے بالآخر بسالی، کہ قمرالدین اور شہناز نے گھر چھوڑنے کی تیاری کرلی۔ جنت میں جہنم کی کھڑکی آخرکار کھل گئی اور گرم ہوا کے بگولے اندر آکر اُن کی بہشت کو جھلسانے لگے۔
بٹوارہ ابھی ہوا ہی تھا، ابھی دونوں طرف کے لوگ اپنے اپنے پیاروں کو تلاش کر ہی رہے تھے۔ مسخ شدہ لاشوں کی سڑاند ابھی فضا میں تازہ تھی، رسوئی میں جلتے چولہے ابھی برابر ٹھنڈے نہ ہوئے تھے۔ ادھر گاندھی ہندوستان میں حیران تھے، کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ اُدھر نوزائیدہ پاکستان میں جناح سر تھامے بیٹھے تھے کہ آگے کیسے بڑھیں۔
ایسے میں دکھن، نظام آباد میں منچلا شنکرداس دوستوں اور لفنگوں کے ساتھ بلامقصد آوارہ گردی کرتے ہوئے خوش تھا۔ کبھی کانگریس کے جلسے میں انگریز و بھارت چھوڑو کے نعرے لگادیے اور کبھی مسلم لیگ کے جلسے میں ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ اللہ‘‘ حلق کے بل چلّا آیا۔ اُسے کیا! اُسے اور اُس کے حواریوں کو تو روپے دو روپے سے مطلب تھا۔ جو دے دے شنکر اُسی کا تھا، نہ کوئی اُس کے آگے نہ پیچھے۔ کون اُسے صحیح غلط، مذہبی عقائد، سیاسی نظریات جیسی خرافات بتاتا۔ اُسے تو سارا ہندوستان، خاص کر بنگال بہت اپنا لگتا تھا۔ ہر وقت زبان پر ٹیگور کے نغمے اور لالن کے گیت ہوتے۔ بانسری نواز تھا۔ ایک آدھ دوست نے پاکستان کا رخ کیا، تو وہ بہت دیر تک ہنسا کہ ایسا کیا سونا بٹ رہا ہے پاکستان میں، جو لوگ دھڑا دھڑ منہ اٹھائے ادھر جارہے ہیں؟ لیکن قسمت اُسے بھی سرحد کے اُس پار پھینک دے گی، وہ لاابالی کہاں جانتا تھا۔
سرما کی شام تھی۔ نظام آباد کے گاندھی چوک پر لوگوں سے زیادہ گاؤ ماتا نظر آتی تھیں۔ کچھ بنیوں کی اناج سے لدی دکانیں وہاں تھیں، ساتھ ہی ساڑھیاں اور دیگر پارچہ جات بکتے تھے۔ دُرگا پوجا چل رہی تھی جس میں شنکر بڑے حضوع و خشوع سے حصہ لیتا، وہیں بیٹھا بانسری پر بھجن بجایا کرتا۔ بانسری بجاتے بجاتے چوک پر لگے بڑے سے سنگی مجسمے کو وہ دیکھتا رہا، جس پر گاندھی جی امن کے علمبردار بنے ایک ہاتھ سے چرخے کی ڈور تھامے اور دوسرے ہاتھ کو فضا میں بلند کیے لوگوں کو آشیرواد دے رہے تھے۔ اُسی وقت علیم الدین اُسے بلانے آیا کہ دادا بلاتے ہیں۔ شنکر داس کو دادا سے بہت عقیدت تھی۔ وہ خوش تھا کہ اُس کا جگری یار علیم اُسے چھوڑ کر پاکستان نہیں گیا تھا، جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ علیم کی والدہ، شاہ جہان، قریبی قبرستان میں اپنے عزیزوں کے ہمراہ دفن تھیں۔ اور علیم کے والد جنھیں احتراماً سب دادا کہتے تھے، مسلم لیگ کے سرگرم کارکن ہونے کے باوجود مرحومہ بیوی کی بوسیدہ ہوئی ہڈیوں کو چھوڑ کر ہجرت کے لیے تیار نہ ہوئے۔ دادا کا حکم سن کر شنکرداس جیسے لاابالی، بے فکرے اور بے حس لڑکے کی آنکھیں بھی حیرت سے پھیل گئیں۔ بمشکل بولا، ’’یہ، یہ آپ کیا بول رئے حضت؟ ایسا کیسا ہونے کا؟ گاندھی جی کے پُتلے کو میں؟‘‘ دادا غصے میں آگئے اور بولے، ’’جو میں بول رئیوں وہ کرو۔ کوئی تو مخصد ہئنگا ناں اس کا۔ میرا خون کھول رئا ان لوگوں کے حرکتاں دیکھ کے، میرے کو پاکستان جاؤ بول رئے؟ ان کے باپ کا ہندوستان ہے؟ کیکو جاؤں میں؟‘‘ شنکر داس نے ہاتھ جوڑے، دادا کی قدم بوسی کی، چرن چھوئے اور جَے درگاماں! کہتا نکل گیا۔
اگلی صبح جب اِکادُکا مساجد سے اذان فجر بلند ہوئی اور پجاریوں نے پرساد بانٹتے ہوئے مندر کی گھنٹیاں بجائیں، تو سارا نظام آباد شسدر رہ گیا۔ مہاتما گاندھی کے ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا پھڑپھڑا رہا تھا۔ یہ کسی مُسلے ہی کا کام ہوسکتا ہے، ہندوؤں نے سوچا اور مسلمان مسکرا دیے۔ بس پھر کیا تھا، شنکر اور علیم کی توقع کے خلاف خطرناک بلوہ ہوگیا۔۔۔ ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے، لوگ آپس میں گتھم گتھا۔ رہ جانے والے ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوگئے۔ ہندوستانی مسلمان زیر عتاب آگئے، کہ یقینا یہ انھی کی شرارت ہے۔ چوک پر دو ایک گاؤ ماتا بھی مردہ پائی گئیں، جن کے کافی اعضا لاپتہ یا ادھر اُدھر بکھرے پڑے تھے۔ مسلمان قصائیوں کی تو شامت آگئی۔ ایسے میں کسی نے مخبری کردی کہ اس تمام فساد کی جڑ شنکرداس ہے۔ جذبات سے مغلوب ہندو اُسے مارنے کو تلاش کرنے لگے۔ مجبوراً دادا ہی کو شنکر داس کی داد رسی کرنی پڑی۔ جب معاملہ بالکل ہی قابو سے باہر نکل گیا، تو اُس رات انھیں ایک فیصلہ کرنا پڑا۔ عشا کے بعد وضو کرکے انھوں نے پہلے شنکر داس کو کلمہ پڑھوا کر مسلمان کیا، پھر اُس کا نکاح اُسی وقت اپنی پندرہ سالہ چہیتی بیٹی رفیعہ سے پڑھوایا۔ راتوں رات دونوں کو برقعے پہنا کر علیم کے ہمراہ بمبئی روانہ کیا، کہ دونوں دلہادلہن بحری جہاز سے پاکستان روانہ ہوجائیں۔
ان تمام واقعات پر شنکر، علیم، رفیعہ اور خود دادا انگشت بدنداں تھے۔ بمبئی جانے والی گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے شنکر، جس کا نام اب عارف حسین رکھ دیا گیا تھا، اسٹیشن سے دوڑتا ہوا اپنی کھولی کی طرف نکل گیا۔ علیم سمجھا کہ نومسلم بہنوئی بھاگ کھڑا ہوا ہے، رفیعہ رونے لگی۔ ٹرین نے آخری سیٹی دی اور پھولتی سانس سے شنکر، عرف عارف حسین، اپنی بانسری اور ماں کی سندور کی ڈبیا لے آیا۔ علیم کی اجازت سے اُس نے بھاگتی ٹرین میں، روتی آنکھوں کے ساتھ رفیعہ کو سیندور لگایا۔ بھلا قرآن کی عربی سورتیں پڑھ لینے سے بیاہ کیسے ہوسکتا ہے، نہ اگنی نہ پھیرے۔۔۔ وہ سوچتا رہا۔ ماں کی موت پر بھی نہ رونے والا بے حس، سنگ دل، لاپرواہ، لا ابالی، لفنگا، چور، بنگالی شنکر دیوانہ وار رو رہا تھا۔ اُسے لگتا تھا کہ کوئی اُس کا کلیجہ کاٹ کر نظام آباد کی گلیوں میں ڈال گیا ہے۔ جن گلیوں میں وہ قہقہ لگائے دوڑتا تھا، جلسوں میں سب سے اونچے نعرے لگاتا تھا، پتنگیں لوٹتا تھا، سدّی پر پسی کانچ لگا کر اُسے کاٹ دار مانجا بناتا تھا، برہمن تالاب میں چھپ کر ڈبکیاں لگاتا تھا، سبیل کا چندہ اکھٹا کرتا اورمحرّم کے تعزیوں میں سیاہ کپڑے پہن کر ڈھول بجاتے ہوئے یاحسین! یا حسین! کا ماتم کرتا تھا۔۔۔ وہ ساری گلیاں اب کسی کٹی پتنگ کی طرح پیچھے رہ گئی تھیں۔ میرا ملک تیری زمین، تم، میں، وطن، ہجرت، تعلق، کشش، مذہب، جدائی جیسی کیفیات سے وہ آج ہی روشناس ہوا تھا۔ علیم محض بہن اور جانثار دوست سے بچھڑنے کا سوچ کر آزردہ تھا، اپنی زمین اور محلے سے ابھی وہ پیوستہ تھا۔
تین ہفتے کے جاں لیوا انتظار کے بعد ایجنٹ خدا بخش، جو کبھی دادا کا شاگرد تھا، نے جہاز کے لنگر انداز ہونے کی خبر سنائی۔ ابھی تک شنکر کو آس تھی کہ کوئی غیبی مدد آکر اُسے روک لے گی۔ وہ ہندوستان میں رہ جائے گا۔ شاید اسی لیے ابھی تک رفیعہ کو اُس نے چھوا تک نہ تھا۔ وہ تو رفیعہ کے گھر کے برتن نہ چھو سکتا تھا، پھر رفیعہ تو داداکی بیٹی تھی۔ اُس کے لیے تو وہ اچھوت تھا۔ ہاں عرصے سے آتے جاتے وہ رفیعہ کو کن اکھیوں سے دیکھا ضرور کرتا تھا۔ مگر ایک دن وہ اُس کی ہوجائے گی، یہ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ مصیبت جب آتی ہے تو چھپرپھاڑ کر آتی ہے۔ گاندھی چوک کے جوہری، کمل راؤ کا بیٹا بمبئی سونا خریدنے آیا ہوا تھا۔ اُس نے شنکر اور علیم کو اندھیری کے ایک کھوکھے پر پان کھاتے دیکھ لیا۔ جنوری کی ٹھٹھرتی سردی میں وہ دونوں سر پر پائوں رکھ کربھاگے۔
اگلے دن کے اخبار گاندھی جی کے قتل کی درد ناک خبر چلا چلا کر دے رہے تھے۔ اُسی دن ایجنٹ جہاز کے چلنے کی خبر لے آیا۔ پچھتاوؤں، یادوں اور آہوں کے علاوہ اور کیا سامان ساتھ تھا جو تیاری کی جاتی۔ دادا نے کچھ زیورات، کچھ نقدی، قرآن شریف اور ہاتھ کی گوٹ لگی حسیر (جائے نماز) بیٹی داماد کو جہیز کے طور پر دی تھی۔ پیتل کے دو چار برتن علیم نے تھامے ہوئے تھے۔ مختصر سا قافلہ چوروں کی مانند بندرگاہ کی طرف چل پڑا۔ جہاز نے آخری بگل بجایا، لنگر اٹھائے جانے لگے، نو عمر رفیعہ ہچکیوں سے روئے چلی جارہی تھی۔ شنکر اُس کے لیے جگہ گھیرے کہیں عرشے پر تھا۔ پھٹی چادر میں سردی نہیں رک رہی تھی کہ ایک شفیق آواز نے رفیعہ کو اپنی جانب متوجہ کیا، ’’کاں جاریئے اماں؟ پاکستان؟ نظامآباد کے ہیں ناں تم؟ کلیم دادا کی بیٹی ہیں کیا؟ ائی ہاتاں میں مہندی دیکھو۔ دولن ہے تمے؟ ابی شادی ہوئی سو ہے؟ دولا کاں تو بی ہے۔ رو رئے کیکو میں ہوں تمھارے سنگات روؤ نکو بی بی۔‘‘ رفیعہ کو اپنی گرم شال اڑھاتی اور تسلی دیتی، یہ میراں بی تھیں جو اپنے چھوٹے بھائی قمرو، عبد الجبار، سیداں بی، حفیظ اور وحیدہ کے ہمراہ پاکستان کراچی جارہی تھیں۔ بھولی رفیعہ نے اپنی تمام داستان بلا کم و کاست میراں بی کو سناڈالی۔ اور وہ ایک خاندان کی طرح ہمیشہ کے لیے جڑگئے۔
قمرو اور شہناز نیو کراچی کے پسماندہ ماحول سے نکل کر سوسائٹی کے عالیشان، مگر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں جا بسے۔ چند گجراتی میمنوں نے بمبئی کے فلیٹوں کے مافق، کراچی میں بھی وہی طرز تعمیر شروع کردیا تھا۔ جو رفتہ رفتہ نچلے طبقے اور پھر متوسط طبقے میں بھی مقبول ہونے لگا۔ میراں بی نے قمرو سے گھر چھوڑنے کا سبب پوچھا تو جواب ملا کہ اُن کا دفتر دور پڑتا ہے۔ نازنین جو ابھی دو سال کی تھی، اُس کو اور آنے والے بچوں کو انگریزی کونوینٹ اسکول میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ میراں بی دل مسوس کر رہ گئیں، مگر گھر کی عزت ہاتھ سے نہ جانے دی۔ بعد میں جب بھی لوگ باگ اولاد جیسے بھائی کے جانے کا سبب پوچھتے، تو میراں بی ڈھٹائی سے انھیں جھاڑتیں کہ کب تک وہ بہن کی آغوش میں رہتا؟ ہاؤز بلڈنگ کا اتنا بڑا افسر ہے، اُسے حکومت نے بڑا بنگلہ دیا ہے رہائش کے لیے۔ کیوں نہ جاتا؟
ہاں قمرو کے علیحدہ ہوجانے کے بعد سے میراں بی خود بہت زیادہ چڑچڑی، کرخت اور بدزبان ہوگئی تھیں۔ مردانہ وار حالات کا مقابلہ کرنے سے شکل بھی مردانہ ہونے لگی تھی۔ اُن کے بے حد زنانہ سنگھار، ساڑھی، چوڑیاں، پازیب، گجرے پھول، مہندی کے ساتھ ساتھ ہونٹوں کے اوپرسنہری رواں بہت بھلا لگتا۔ جو بعد میں مونچھوں کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ سنہری کمانی کا چشمہ مستقل چہرے کا حصہ بن گیا۔ سنیما کا شوق ہمیشہ سے تھا۔ گودھرا کیمپ کے قریب ہی شاھین سنیما تھا، جہاں انھوں نے پڑوسنوں کے ساتھ ’احسان‘ فلم دیکھی تھی۔ اب اپنی ٹیکسی میں بیٹھ کر باضابطہ لالوکھیت جاتیں، بھولے سے بھی سیٹھ صاحب کو ساتھ نہ لے جاتیں، نہ وہ دل چسپی ظاہر کرتے۔
لالو کھیت کا بازار اُس وقت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، گرمی کے دن تھے۔ میراں بی اور رفیعہ نقاب الٹائے سیاہ برقعوں میں ملفوف ٹیکسی سے اتریں۔ ایک ٹھیلے سے بھجیے کھائے، فالسے کا شربت پی کر، پان کی پوٹلی سے دونوں نے ایک ایک بیڑہ کھایا اور نیرنگ سنیما پر لگے بڑے سے بورڈ کو پیچھے ہٹ کر دیکھنے لگیں۔ شبنم اُودا کرتا اور پیلا لاچہ پہنے، گھوڑا گاڑی چلانے کے انداز میں اکڑے کھڑی تھی۔ میراں جی مسکرائیں اور ہولے سے اُسی کی طرح کمر پر ہاتھ رکھ کر ٹکٹ لینے کھڑکی کی طرف بڑھ گئیں جہاں ’’صرف مستورات کے لیے‘‘ لکھا تھا۔ وہ ہمیشہ میٹنی شو دیکھا کرتی تھیں۔ کبھی رفیعہ کبھی کسی پڑوسن کے ساتھ مہینے میں ایک مرتبہ فلم دیکھنا اُن کا معمول تھا۔ سنیما جانے کا اتنا ہی اہتمام کرتیں، جتنا گورا لندن میں شیکسپیئر تھیٹر کے لیے کرتا ہوگا۔ تبت سنو، تبت پاؤڈر، آنکھوں میں بھر کے کاجل اور چھوٹا بٹوہ ہاتھ میں لیے، نئی کلف شدہ سوتی ساڑھی اور باٹا کی دو پٹیوں والی ہوائی چپل پہنے وہ بہت باوقار اور جاذب نظر لگا کرتیں۔ خواتین کی نشستیں الگ مختص تھیں۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ باہر ٹکٹ بلیک ہوتے دیکھ کر انھوں نے رفیعہ سے کہا تھا کہ، ’’اچھا ہوا ہم لوگاں وقت سے آگئے ورنہ نامراد واپس جانا پڑتا۔‘‘ جب شبنم گھوڑا گاڑی دوڑاتی آئی اور منور سعید کو ریس میں شکست دے دی تو بے اختیار شبنم سے پہلے میراں بی نے نعرہ لگادیا، ’’میں بہت بری آدمی ہوں!‘‘ سارے مرد تماشائی اندھیرے ہی میں اس دبنگ عورت کی طرف دیکھنے لگے، جو ہاتھ اٹھا کر کہے جارہی تھی، ’’مارو جی۔ اُس کو۔ مارنا تھا۔ مارو!‘‘ انھیں ’انمول‘ فلم بہت اچھی لگی تھی۔ روتی دھوتی عورتیں انھیں بالکل پسند نہ تھیں۔ ایک عرصے تک وہ یہ جملہ ’’میں بہت بری آدمی ہوں‘‘ بات بات پر دہراتی رہیں۔ جو فلمیں پڑوسنیں نہ دیکھ پاتیں انھیں بعد میں تفصیل سے تمام کہانی، گانوں سمیت بتاتیں۔
میراں بی کو سونا جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ صرافہ بازار کے سیدجیولرز سے ایک زیور اٹھاتیں، تو ایک کی پیشگی کر آتیں کہ احمد کی دلہن کے لیے جوڑ رہی ہوں۔ دو پلاٹ اور خرید لیے۔ سلیقہ اور کفایت کی بہترین مثال تھیں وہ۔ پورے نیوکراچی میں سب سے پہلے ٹیلی فون اور ٹیلی وژن اُن کے ہاں آیا، جہاں صاف فرش پر محلے کے ان گنت بچے آکر شام ہی سے ٹی وی دیکھتے۔ ریڈیو کی تو از حد شوقین تھیں، ہر وقت بجتا رہتا۔ اتوار کی صبح ’’حامد میاں کے ہاں‘‘ وہ اور سیٹھ صاحب باقاعدگی سے سنتے۔ رات کو ’’دیکھتا چلا گیا‘‘ کے بعد مولانا رومی کا کلام سن کر کبھی کبھار وہ روتیں۔ ہاں نماز روزے کی خاص پابند نہ تھیں۔ البتہ ربیع الاوّل میں کھیر پوریاں، رجب میں کونڈے، دس محرّم کو دودھ کا شربت، حلیم کھچڑا اور لوز، بقرعید میں دم کی بریانی، رمضان کی عیدمیں شیرخورمہ اور شب برأت میں چنے کی دال کا حلوہ نہ صرف عمدگی سے پکاتیں، بلکہ محلے میں بہت احترام سے بانٹا کرتیں۔ حلوے پر بہت عقیدت سے چاندی کا ورق لگایا جاتا۔ محلے کی عورتوں کے حیض سے لے کر ایام بند ہونے سمیت تمام مسائل۔۔۔ جن میں طلاق، دوسری شادی، بستر میں شوہر کا منہ پھیر لینا، رحم میں بچے کا سر نیچے نہ ہونا، کنواریوں کے رشتے نہ آنا، بچوں کا بستر میں پیشاب کردینا، کمیٹیاں ڈالنا وغیرہ۔۔۔کا حل بی اماں کے پاس تھا۔ اب جگت بی اماں تھیں وہ۔
نازنین کی دوسری سالگرہ پر اُس کے ننھے ننھے پاؤں میں سونے کی پازیب ڈالی اور چنی سی انگوٹھی بھی پہنادی۔ بھائی کو منہ سے تو نہیں، البتہ نظروں سے جتانا چاہا کہ نازو اب میری بہو ہے۔ مگر کٹھور بھائی بھاوج سمجھ کر بھی انجان رہے۔ بھائی اُس وقت سوسائٹی میں نئے تعمیر شدہ بنگلے کے گیٹ پر، سید قمرالدین ایم۔ اے، بی۔ ایڈ کی تختی آویزاں کروا رہے تھے۔ اندر شہناز بیگم دھوپ کا چشمہ لگائے، ساڑھی کے پلو کو تھامے، نئے تیار ہوئے موزیک فرش کا جائزہ بلکہ معائنہ کررہی تھیں۔ باقاعدہ گھربراؤنی کی گئی تھی۔ میراں بی کی توقعات کے خلاف قمرو نے فیتہ اپنی ساس سے کٹوایا، جب کہ اس کی اہل وہ صرف اپنے آپ کو سمجھ رہی تھیں۔ غریب رشتہ داروں سے زیادہ امیر اہلِ محلہ اور افسر لوگ مدعو تھے۔
حفیظ، ترپوش سے سجے تھال میں سب کے جوڑے، مٹھائی، ہار پھول، بھائی کے لیے ہاتھ سے کاڑھا ہوا حسین کرتا پاجامہ اور آنے والی سردیوں کے لیے ہاتھ سے بنا سوئٹر لیے چلا آرہا تھا۔ میراں بی کا دل کٹ سا گیا۔ شہناز کی اماں کو فیتہ کاٹتے دیکھ کر آج اماں بہت یاد آئیں۔ آنسو پی کر اندر چلی گئیں، دل سے مبارکبادیاں دیں، رسم کی، ہار پھول پہنائے اور انگلیاں کڑکڑا کر صدقہ اتارا۔ کسی کو اپنے صدمے کی ہوا نہ لگنے دی۔
وقت گزرتا گیا۔ شہناز بیگم کے ہاں نازنین کے بعد دو بیٹے اور پیدا ہوئے۔ ایسی محبت کرنے والی پھوپھی اُن کے بچوں نے کہاں دیکھی ہوگی۔ بچوں کو خسرہ ہو جائے تو یہ پریشان، نازو اسکول میں گر پڑی، کہنی تک پلاستر چڑ ھ گیا تو میراں بی اُس کے پلنگ کی پٹی سے لگی رہیں۔ جب بھی آتیں ایسے ماہر پکوان بھائی کے جدید کچن میں پکاتیں، کہ بچے بڑے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔ شہناز بیگم بہت کوشش کرتیں کہ کونوینٹ میں پڑھتی نازو اور بیٹے سینڈوچ یا کورن فلیکس کھالیں، پڈنگ چکھ لیں یاکیک پر نظر ڈال دیں۔ مگر بی اماں کے پکائے حلیم، بٹ، پراٹھے قیمہ اور چنے کی دال کے حلوے کے آگے بچے شہناز بیگم یا خانساماں کے پکائے کھانوں کو گھاس بھی نہ ڈالتے۔
احمد کا تعلیم میں کچھ خاص دل نہ لگتا تھا۔ میٹرک میں دو بار فیل ہوا، پھر لشتم پشتم انٹر سپلیمنٹری میں نکال کر اُس نے آگے پڑھنے سے صاف انکار کردیا۔ دل شاعری میں پڑا تھا یا پھر برائے نام کاروبار میں۔ احمد جب بھی ساتھ آتا شہناز بیگم جان بوجھ کر اُس کا نتیجہ پوچھتیں۔ کرید کرید کر اُس کے نمبر جانچتیں اور پھر اپنے بچوں کی رپورٹ کارڈ کھٹ سے سامنے رکھ دیتیں۔ میراں بی کھسیا کر احمد کو ہلکا سا جھڑکتیں۔ ’’احمد دیکھو مبشر اور عنصر کے نمبراں، ہاں؟ ائی شہناز! احمد کو کون سی نوکری کرنا ہے۔ چار گھراں، پلاٹاں، ٹیکسیاں، سوب اس کا اچ ہے ناں۔ نازو بیٹا ادھر آؤ ماں۔ میرے ہاتھ سے یہ کھپڑی کھٹا کھاؤ جی۔ ابی طبیعت ٹھیک ہوجاتی۔ کھٹے ڈکاراں آریئے جی میری نازوکو۔ خمرو پاشا کِتے دبلے ہوجارے جی۔ شہناز تم خیال نہیں کرتے اس کا۔‘‘ ہٹا کٹا قمرو انھیں کمزور نظر آتا۔ پھر بولیں، ’’گرمیوں کی چھٹیاں آرئے ناں۔ بچوں کو بھیجو اُدھر رہنے کے واسطے۔ رفیعہ بھی آئیں گی ناں اپنے بچے لے کے۔ بچے آئے تو ہلاگلا رئینگا ذرا۔ عارف اور رفیعہ کتّے تو بھی پوٹیاں پیدا کرلیے جی۔ بیٹا ایک اچ ہے۔‘‘ بچوں کی چہل پہل اُدھم کود انھیں زندگی بخشتی تھی۔ اگر بچے آگئے تو پھر کیرم، لوڈو، تاش، پتنگ بازی، کنچے۔۔۔ سب کھیل شرطیں لگا کر کھیلے جاتے اور وہ اُن کی خدمتیں کرتے نہ تھکتیں۔
میں خالو با کی دکان میں بیٹھے بیٹھے تھک سی گئی تھی۔ سخت گرمی ہورہی تھی۔ خالو با ظہر کی نماز پڑھ کر قیلولہ کیاکرتے تھے، ’’زرقا بیٹا، تم ذرا دکان دیکھو، گلہ نکو کھولنا، آئے سو پیسے یہاں رکھنا ٹافیوں کی برنی میں، میں ابی چ آتوں‘‘، یہ کہہ کر وہ اندر چلے گئے۔ ہمارا بی اماں اور خالو با سے جانے کیا رشتہ تھا یہ مجھے کبھی معلوم نہ ہوسکا۔ بس مجھے وہ بہت اچھے لگتے تھے۔ گرمیوں میں ڈھیلا پاجامہ اور بنیان پہنتے تھے، نماز کو یا سودا خریدنے سائیکل پر جاتے تو کرتا اور جناح کیپ پہن لیتے۔ اپنی سائیکل اور جناح کیپ کے بغیر وہ مجھے ادھورے لگا کرتے تھے۔
گرمی بڑھتی جارہی تھی۔ میں نے دور دور تک کسی گاہک اور بِکری کے آثار نہ پاکر اندر جاکرپانی پینے کی ٹھانی۔ جوں ہی گھڑونچی پر رکھے مٹکے کو کھولا برابر کی کوٹھری سے دبی دبی سرگوشیوں کی آوازیں آنے لگی۔ ضرور مبشر بھائی اور عنصر بھائی بلی کا بچہ لائے ہیں اور اندر کوٹھری میں رکھے بستروں میں چھپا کر اُس سے کھیل رہے ہیں۔ مجھے بچہ سمجھ کر ہمیشہ بھگادیتے ہیں۔ بلا دھڑک میں کوٹھری میں گھس گئی۔ نہ جاتی تو اچھا تھا۔
وہاں پر نہ بلی تھی نہ مبشر اور عنصر بھائی، بلکہ نازو اور احمد بھائی آپس میں گتھم گتھا تھے۔ احمد بھائی کی سانسیں بہت چڑھی ہوئی تھیں، نازو البتہ شرم سے سرخ ہو کر اور بھی خوبصورت بلا لگ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر دونوں سٹپٹا گئے۔ اور لگے صفائیاں پیش کرنے۔ میں نے بی اماں سے کچھ نہ کہنے کی جھوٹی قسم کھائی اور کوٹھری سے نکل آئی۔ تو یہ ہے فساد کی جڑ۔۔۔ نازو۔ اسی لیے احمد بھائی نہ میرا گانا سنتے ہیں اور نہ ہی میرے دیے خطوں کے جواب لکھتے ہیں۔ ہونہہ آئے بڑے! میں بھی بی اماں کو بتا کر دم لوں گی۔ میں موقعہ ڈھونڈنے لگی۔ جھوٹی قسم کھانے سے کچھ نہیں ہوتا، مجھے معلوم تھا۔
میں نے امی سے پوچھا، ’’امی کیا ابو بنگالی ہیں؟‘‘ سب بہنیں سوچکی تھیں، بھائی جان حسب معمول پڑھ رہے تھے۔ ابو کے کمرے سے لتا اور کشور کی آواز میں بنگالی گیت سنائی دے رہے تھے۔ روز رات کو جانے کون سا ریڈیو اسٹیشن ملالیتے تھے ابو۔ زبان سمجھ نہ آنے کے باوجود وہ گیت مجھے بہت مدھر لگتے۔ اور جب ابو اپنی پرانی بانسری نکال کر بجاتے، تو اُن کی واحد سامع میں ہوتی۔ کبھی کبھار ابو مجھے بندر روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان بھی لے جاتے۔ وہ تو میرے لیے کوئی جادونگری تھی۔ وہاں ایک دن میں نے رونا لیلیٰ کو ابو سے بنگلہ میں باتیں کرتے بھی سنا تھا۔ بنگالی بھی تو ایک قوم ہے۔۔۔ جیسے انگریز، جرمن، پنجابی۔۔۔ پھر ہم برے کیوں ہیں؟‘‘ ’’کون ایسے کہہ رہا تھا؟‘‘ امی نے دکھ سے پوچھا، میں بولی، ’’نازو، عنصر، مبشرسب مجھے چڑاتے ہیں، بنگالن بنگالن کہہ کر۔ اچھا یہ بتایے کہ بنگالی ہونا زیادہ برا ہے یا ہندو ہونا؟‘‘
زناٹے کا ایک تھپڑ میرے سوال کو ادھورا چھوڑ گیا اور میں بھیں بھیں کرکے روتے ہوئے بولی، ’’وہ محلے میں ایک ہندو ہے ناں، اُس سے کوئی ہاتھ نہیں ملاتا۔ اُس کو کوئی اپنے گلاس میں پانی تک نہیں پلاتا۔ اس لیے پوچھ رہی تھی۔ ہم لوگ تو مسلمان ہیں۔ بس ابو بنگالی ہیں۔ آپ کو اس قدر غصہ کیوں آگیا امی۔ میں نے ایسا کیا کہہ دیا؟‘‘ امی کو جانے کیا ہوا، مجھے لپٹا کر خود بھی رونے لگیں۔ ’’امی اس گرمی کی چھٹیوں میں نازو، مبشر، عنصر اور قمرو ماما، مامی سب ہندوستان جارہے ہیں، ٹرین سے۔ ہم بھی چلیں گے ناں امی، مجھے نانا جان سے ملنا ہے۔ آپ کو اپنے ابا کی یاد نہیں آتی؟ علیم ماموں کتنا پیار کرتے ہیں مجھ سے۔ ماموں اور ابو لنگوٹیا یار تھے ہے ناں؟ ابو بتارہے تھے ایک دن‘‘ میں بولتی رہی۔
امی نے ہوں کی نہ ہاں۔ بس اُن کی آنکھیں دیوار کو گھورتے ہوئے جانے کون سے منظر کو دیکھے جارہی تھیں۔ یوں لگتا تھا دیوار پر کوئی فلم چل رہی ہے۔ اگر وہ سن پاتیں تو مجھے مزید پوچھنا تھا، کہ بی اماں کے ہاں لوگ ابو کو بنگالی اور چور اور بھگوڑا بھی کہتے ہیں؟ کیا کبھی ابو نے کوئی چوری کی تھی؟ کیا چرایا ہوگا انھوں نے۔۔۔ سوچتے سوچتے میں سو گئی۔
گرمیوں کی شام ہوچکی تھی اور رمضان کے دن تھے۔ ابھی ابھی سادہ سی افطار کی گئی تھی۔ سخت حبس تھا، پسینے میرے کُرتے کے اندر اترتے چلے آرہے تھے۔ آنگن میں چھڑکاؤ کب کا ہوچکا تھا۔ سب کزنز اپنے گھروں کو جاچکے تھے۔ میں بی اماں سے کروشیا سیکھنے کے بہانے وہاں مزید ایک ہفتہ رک چکی تھی۔ پہلی وجہ تو احمد بھائی تھے۔ دوسری وجہ خالو با کی دکان کے برابر میں ایک کتابوں کی دکان ’’کلکتہ کتاب گھر‘‘ تھی۔ وہاں مجھے نہ صرف ’بچوں کی دنیا‘ اور ’نونہال‘ مل جاتے تھے، بلکہ چھپ چھپا کر میں منٹو کی ’کالی شلوار‘، ’کھول دو‘ اور عصمت کا ’لحاف‘ بھی پڑھ چکی تھی۔ لحاف میں ایسا کیا ہے جو ابو نے مجھے خصوصاً اُسے پڑھنے سے منع کیا تھا؟ میں اسے دوبارہ پڑھ کر دیکھنا چاہتی تھی۔ لحاف میں بس دو عورتیں لڑ رہی تھیں اور کیا۔
میں کروشیئے کی سوئی لیے دوسری انگلی میں سفید دھاگہ لپیٹ ہی رہی تھی، کہ احمد بھائی کے چلّانے اور وحیدہ کے رونے دھونے کی آوازیں آنے لگیں۔ وحیدہ پھر پٹ رہی تھی۔ بی اماں سکون سے پاندان کھولے، نئے بنگلہ پان کا بیڑہ بنا رہی تھیں۔ احمد بھائی کی آواز بہت خوفناک لگ رہی تھی۔ چپل سے مارتے ہوئے وہ وحیدہ کو وہیں آنگن میں لے آئے۔ ایک ہاتھ سے اُس کی بدرونق چوٹی جکڑی ہوئی تھی۔ معاملہ اب بی اماں کی عدالت عظمیٰ میں آچکا تھا۔ حفیظ بے حسی سے سامنے ہی ٹیکسی کے ٹائر دھو رہا تھا۔ وہ کڑک کر بولیں، ’’اگے۔ کیا ہوا گے، کیکو اڑلاری۔ ایسا، کیا تو بی ہوا احمد۔ کیا کری وحیدہ؟‘‘ احمد بولا ’’امی انے میرے پیسے چرائی پتلون کی جیب سے۔ دس روپے کا نوٹ ابھی رکھا تھا۔ اب نئی ہے۔‘‘ بی اماں کی توپ کا رخ وحیدہ کی جانب ہوگیا اور بولیں، ’’ہو وحیدہ؟ ماٹھی ملی بول، نئی تو ابھی منڈی چھانٹیوں تیری، بول جلدی، کھول وہ مٹھی، کیا ہے اس میں؟‘‘ وحیدہ نے روتے ہوئے مٹھی کھولی۔ دس روپے کا نوٹ ہتھیلی میں دبا پسینے میں ترہوچکا تھا۔ یہ دیکھ کر احمد بولا، ’’دیکھیے آپ؟ چوٹی ہے اِنے۔ گھر میں آنے نکو دو اس کو بولے تو آپ سنتے اچ نہیں۔‘‘ احمد نوٹ لے کر چلا گیا۔
وحیدہ بولی، ’’سیٹھانی اب کے گھر میں چاولاں جلدی ختم ہوگئے بول کے میں لی۔ کھانے کو کچھ بھی نہیں رہتا، آٹا دال کچھ نہیں۔ پہلی تاریخ کو تو ابھی بہت دناں ہیں۔‘‘ بی اماں نے اسے گھورا اور پھر سحری تک اُسے وہیں آنگن میں مرغا بنے رہنے کی سزا دے ڈالی۔ حفیظ کھانستے ہوئے رومال کاندھے پر ڈال کر جانے لگا، تو بی اماں نے اُسے خالو با کی دکان سے پانچ سیر کنکھی، چاول اورآٹا وغیرہ لے جانے کے لیے کہا۔ حفیظ خوشی خوشی سودا لے کر کواٹر کی طرف چلا گیا۔
ایک گز لمبی دوپٹے کی بیل بنتے ہوئے میں نے سوچا کہ بی اماں کتنی شفیق اور فیاض ہیں۔ پھر دھیرے سے میں نے نازو اور احمد بھائی کے گتھم گتھا ہونے کا واقعہ مزید نمک مرچ ڈال کر دبے الفاظ میں سنادیا، کہ نازو کی گردن پر اودے نشانات میں نے خود دیکھے تھے۔ پتہ نئی کیا تھے وہ؟ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب بجائے غصہ ہونے کے بی اماں کی باچھیں کھل گئیں۔ پان سے رنگے ہونٹ اور بھی گلنار ہوگئے اور ہنستے ہوئے انھوں نے پوری ایک اٹھنی مجھے عطا کی، کہ میں اپنی پسندیدہ کتاب خرید لوں۔ پھر بولیں، ’’نازو میری بھتیجی نئیں، بہو ہے جی۔ میرے خمرو پاشا کی اولاد میرے گھر نئی تو پھر کاں جائیں گی۔ ہم لوگاں سیداں ہیں۔ حسب نسب کا بہت خیال کرتے۔ تم خامش کروشیا سیکھو۔ یہ ٹانکا غلط ہے دیکھو۔‘‘ میری نظر اب اکڑوں بیٹھی وحیدہ پر پڑی۔ پتہ نہیں کیوں وہ رو رہی تھی۔ شاید احمد بھائی نے اُسے غلط جگہ لات ماردی تھی۔ احمد بھائی بھی بس! اُس کے بعد سے میں ہر نماز میں لمبی دعائیں مانگنے لگی کہ نازو اور احمد کبھی نہ ایک ہوپائیں آخر کار میری دعا خدا نے سن ہی لی۔
باہر میراں بی چٹکتی چاندنی میں پلنگ پر زندہ لاش کی طرح دھری تھیں، آنکھیں آنسو تک گرانے کی روادار نہ تھیں۔ اندر اپنے کمرے میں ٹہلتا احمد گویا دیواروں کو ٹکر ماررہا تھا۔ کھونٹی پر ٹنگا اُس کا تولیہ، دیوارپر لگا لکس صابن کے اشتہار والا کلینڈر، اُس کی بیاض، اسٹوڈیو میں نازو کے ساتھ چھپ کر اتروائی تصاویر، سب چلّا چلّا کر ایک ہی لفظ کہہ رہے تھے، ’’لے پالک! لے پالک! خمرو ماما آج کیسا طعنہ دیے۔ میرے کو لے پالک بولے؟ میں، اماں کا اور عبدالجبار کا بیٹا نئی ہوں کیا؟‘‘ اپنے ہاتھ پاؤں غور سے دیکھنے لگا اور بولا، ’’نہیں یہ جھوٹ ہئنگا۔ جھوٹ تھا تو اماں خامش کیسا ہوگئے؟ اُنوں تو کسی سے دبنے والے نئیں۔‘‘ دو دن ہوگئے۔ احمد بالکل خاموش ہوگیا تھا۔ کھانا پینا، بات چیت، ہنسنا بولنا سب اُس نے چھوڑ دیا تھا۔ سیٹھ صاحب بار بار سیٹھانی کو دیکھتے اور نظروں ہی نظروں میں کلام کرتے کہ اب تو اسے بتادو۔ احمد کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ اماں پاشا سے کوئی سوال کرے۔ نتیجتاً اُسے سخت بخار ہوگیا۔ سیٹھانی کی تو جیسے جان نکل گئی۔ حفیظ کو کیفیت بتا کر ڈاکٹر قریشی سے دوا منگوائی اور جھٹ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں اُس کی پیشانی پر ڈالنے لگیں۔ کلیجہ شاق سے دو لخت ہوگیا جب احمد نے اُن کا ہاتھ سختی سے جھٹک دیا۔ ’’مرجانے دیں مجھے۔‘‘ احمد آج پھٹ پڑا، ’’میں آپ کا بیٹانئیں ہوں۔ اگر ہوتا تو خمرو ماما میرے کو لے پالک کیسا بولے اور آپ خامش سن کے آگئے؟ ہو، بولو؟ کاں سے لائے تھے میرے کو؟‘‘
میراں بی کی ہنستی گاتی بہشت جس میں شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں، جس کی وہ مالکِ کل تھیں، جس کے لٹ جانے کا کبھی انھیں اندیشہ بھی نہ ہوا تھا، وہ آج تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔ روز محشر وقت سے پہلے آچکا تھا۔ منکرنکیر، احمد اور سیٹھ صاحب کی صورت گویا سامنے کھڑے تھے۔ بیٹے کو کس منہ سے بتاتیں کہ وہ بانجھ تھیں۔ اس لفظ کی گہرائی پر غور کرنے کا موقع تو انھوں نے کبھی اپنے آپ کو دیا ہی نہیں تھا۔ سالوں سے جمی گرد وہ اپنے ماضی پر سے ہٹانے لگیں۔
اُن کے ہاتھوں میں وحیدہ کا جنا ہوا گرم گوشت کا لوتھڑا تھا جس کی نہ کوئی ذات تھی نہ کوئی مذہب۔ ہندوستان سے گنگا اوررام لعل کو ہمراہ لاتے ہوئے انھوں نے اتنی دور کی تھوڑا ہی سوچی تھی کہ آگے کیا ہوگا۔ بچہ حلق کے بل چِلّا کر دودھ کے لیے رو رہا تھا اور وہ اس سوچ میں گم تھیں کہ اس کے کان میں اذان دی جائے یا شلوک منتر پھونکے جائیں؟ اُس کی ماں گنگا سے وحیدہ تو بن چکی تھی اور باپ رام لعل سے حفیظ۔ مگر یہ سب اتنا آسان کہاں تھا۔ اچانک بچہ خاموش ہو کر اُن کی چھاتیوں کو چوسنے لگا۔ وہ گھبرا سی گئیں۔ دائی مسکرانے لگی اور بولی، ’’ائی میراں بی، کیا سوچ رئے۔ وحیدہ کا دم نکل گئے ویسا ہے، اَئی دیکھو، جان ہے اچ نئی اس میں۔ خون کی ایک بوند نہیں ہے لونڈی میں۔ ختم ہوگئی انے۔ یہ بچہ تم کو اچ پالنا پڑینگا۔ تم اچ اس کو اپنا لو۔ خدا کی خدرت سے منہ نکو موڑو۔‘‘ دائی نے فراست جھاڑی۔ وفور جذبات سے میراں بی نے بچے کو سینے سے چمٹا لیا اور حفیظ کو بکری کے دودھ کے لیے دوڑایا، تاکہ نوزائیدہ کے منہ میں ٹپکاسکیں۔ بعد میں عبدالجبار، حفیظ اور قمروکو فقط اطلاع دی گئی کہ اب یہ بچہ سید احمد کہلائے گا۔۔۔ جو کہ میراں بی کی اولاد ہے۔ یہ اور بات کہ بعد میں وحیدہ نہ صرف صحت یاب ہوگئی، بلکہ پہلے کی طرح چکی سے گیہوں پسوانا، جھاڑو لگانا، چوک سے پانی بھر کر لانا جیسے ارزاں کاموں کی ڈیوٹی پر بحال بھی ہوگئی۔ ہاں اُس کے دوسرا بچہ پیدا ہونے تک بلکہ شاید زندگی بھر، وہ احمد کو عجب ملامتی نظروں سے ضرور دیکھتی رہی۔
سید قمر الدین، نازنین کو بہت لاڈ سے رکھتے تھے۔ بہت خواب دیکھ رکھے تھے انھوں نے کہ بیٹی CSS کرکے ملک میں اہم حکومتی عہدہ سنبھالے گی۔ لیکن بی آپا کو احمد کے لیے دھتکارنے کے بعد دو ماہ ہی گزرے تھے، کہ ماں باپ پر بجلی گر پڑی، جب نازو کے حاملہ ہونے کی خبر ایک دور دراز کے کلینک پر ڈاکٹر عارفہ نے چیک اپ کے فوراً بعد دی۔ اُن کا دل تو چاہتا تھا کہ بیٹی کو اپنے ہاتھ سے زہر کھلا دیں، مگر پھر جیت دماغ کی ہوئی۔ نازو، احمد! احمد! کرتی ایڑیاں رگڑتی رہی۔ مگر وہ بیٹی کی کوکھ میں ہندو خون پرورش پاتا دیکھ ہی نہیں سکتے تھے، چہ جائے کہ ناجائز۔ نتیجتاً بے دردی سے اُس کی کوکھ اجاڑ دی گئی۔ حمل ساقط کروا کے دو ماہ بعد اُسے اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھجوادیاگیا۔ وہاں شہناز بیگم دو سال تک اُس کے ساتھ رہیں تاکہ احمد کا بھوت اُس کے سر سے مکمل اتار دیا جائے۔ یہ تمام تر کارروائی صیغۂ راز میں رکھی گئی۔
اگر آپا کے ہاں جاکر احمد پر غصہ اتارتے، تو پھر اس عشق کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹتی اور اس طرح آپا کا پلڑا بھاری ہوجانے کا بھی اندیشہ تھا۔ مصلحتاً چپ رہے۔ مگر اس چپ کا لاوا اندر ہی اندر پک کر اُن کے کلیجے کو کھاتا چباتا، بھنبھوڑتا، جھلساتا رہا۔ نتیجتاً دل کے دائمی مریض ہوگئے۔ بے تحاشہ سگریٹ پھونکتے اور اُس سے بھی زیادہ رشوت وصولتے، تاکہ بیوی اور بیٹی کے لندن رہائش و تعلیم کا خرچہ برابر کرسکیں۔ دونوں بیٹے مبشر اور عنصر بھی مہنگے کالجوں میں آچکے تھے۔ وقت گزرنے لگا کہ ماں جیسی بہن میراں بی کی جانب سے احمد کے عقد کا کارڈ بھجوایا گیا۔ عبدالجبار سدا کے مسکین اور مربی۔ کارڈ اور مٹھائی کا ڈبہ میز پر رکھ کر چپ چاپ زمین کو گھورنے لگے۔ سفید رقعے پر سنہری روشنائی میں لکھا،
نوید مسرت
سید احمد ولد عبدالجبار کی شادی خانہ آبادی۔
دلہن کا نام دیکھ کر قمرو کا منہ کڑوا ہوگیا۔ کانوں سے بھاپ کے انجن کی طرح دھواں نکلنے لگا۔ اس سے آگے قمرو پڑھ نہ سکا۔ میٹرنٹی کلینک میں نازو کا تڑپنا، شہناز کا اُسے تھپڑ مارنا اور اُن کا باہر پہرے پر ٹہلنا کہ کوئی واقف کار نہ وہاں آجائے، سالوں کی بنی عزت ملیا میٹ نہ ہوجائے، سب نظروں میں پھرنے لگا۔ آگ بگولا ہوکر شریف النفس بہنوئی پر پل ہی پڑے اور بولے، ’’بی آپا کو بولنا بہوت بہوت مبارک ہو۔ آخر آپ لوگاں پھر جاکے گو موت میں گرے۔ تشریف لے جایے۔ ہم لوگاں اس شادی میں شرکت نہیں کریں گے۔ خدا حافظ۔‘‘ پلٹ کر اپنے ٹھنڈے کمرے میں چلے گئے۔
میری تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی۔ ابو نے پورے گھر کو کاغذ کی جھنڈیوں سے اور پیلے پھولوں سے بھر دیا تھا۔ کورنگی کو کلکتہ بنانے میں کسر نہیں چھوڑی تھی ابو نے۔ بھائی جان دوستوں کے ساتھ بھاگ دوڑ کررہے تھے۔ بی اماں نے جہیز لینے سے بالکل منع کردیا تھا۔ دھوم دھام سے لائی گئی بارات میں اس وقت بینڈ ’’کاہے کو بیاہی بدیس‘‘ بجا رہا تھا۔ احمد سجی ہوئی ذاتی ٹیکسی میں دولہا بنے کافی سج رہے تھے۔ مجھے تو وہ سب ایک حسین خواب ہی لگ رہا تھا۔ سب سے بڑی خوشی تو علیم ماموں کے پاکستان آنے کی تھی۔ وہ میری شادی کے لیے خاص نظام آباد سے، ٹرین کا پانچ روزہ سفر کرکے آئے تھے اور امی کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ لیکن عجیب سی بات یہ ہوئی تھی کہ علیم ماموں، تین دن میں تیس مرتبہ ابو کو عارف کے بجائے شنکر کہہ کر پکار چکے تھے۔ اور ابو چڑنے کے بجائے خوش ہوتے تھے۔ امی نظروں ہی نظروں میں بھائی کی سرزنش کرتی تھیں۔ نکاح کے وقت ابو قاضی صاحب، علیم ماموں، گواہ اور وکیل وغیرہ کے ساتھ اندر آگئے۔
احمد کے لیے ’ہاں ‘ کہتے ہوئے میں ذرا بھی خوش نہیں تھی۔ اُن کے ملن پر ابو، امی، بہن بھائی اور اس گھر کی جدائی زیادہ بھاری تھی۔ قدم من من بھر کے ہورہے تھے جب شہنائی پر بابل کی دعائیں چھیڑا گیا۔ یہ زندگی اب مجھ سے جدا ہونے کو تھی۔ اچانک میرا گھر، گھر سے میکہ ہوگیا تھا۔ اس مئیکے نام کے کوزے میں میری ساری عمر رفتہ کا سمندر گویا سمودیا گیا تھا۔ بی اماں ضرورت سے زیادہ خوشی کا مظاہرہ کررہی تھیں۔ جہاں سو روپے سے کام چل سکتا تھا وہاں ڈیڑھ سو روپے خرچ کیے جارہے تھے۔ جان بوجھ کر کٹنی پھاپھا قسم کی رشتہ دار عورتوں کو پیش پیش رکھا گیا تھا، تاکہ وہ جاکر قمرو کے ہاں لگائی بجھائی کریں۔ ایک کی چار لگائیں اور اس شادی کی بھرپور رپورٹنگ کریں۔
اچانک وداعی کے وقت ابو خاص طور پر میرے قریب آئے۔ میں سمجھی کے گلے لگا کر رخصت کریں گے۔ تڑپ کر اُن کے سینے سے لگی مگر میرے کان میں انھوں نے گویا پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا اور بولے، ’’ہاں زرقا! پاکستان آنے سے پہلے میں شنکر تھا، بنگالی ہندو۔ تمھارے نانا نے مجھے عارف حسین بنا کر یہاں بھگا دیا تھا۔ میں بھگوڑا ضرور ہوں، بی آپا ٹھیک کہتی ہیں، مگر چور نہیں۔ انھوں نے اپنے آنسو کمال ضبط سے روکے ہوئے تھے۔ سسرال میں کبھی تمھیں یہ طعنہ ملے تو لڑنے کے بجائے سرجھکا کر سن لینا۔ جاؤ تمھیں خدا کے بعد آپا بی کے حفظ و امان میں دیا۔ انھوں نے رفیعہ کے سر پر اُس وقت ہاتھ رکھا تھا جب ہم بے سائبان تھے وہ تمھیں بھی اپنی آغوش میں رکھیں گی۔ اُن سے کبھی زبان درازی یا کوئی سوال مت کرنا۔‘‘
اُس رات احمد، نازو کے فراق میں لکھی غزلوں کو پڑھتے، خود سلگتے اور مجھے سلگاتے رہے۔ ہاتھ میں نازو کے لیے خریدا کوئی دوپٹہ بھی تھا، جس سے لپٹ کر بس روتے تھے۔ میں ابو کی ساری زندگی، قربانی، اُن کی جدوجہد، اُن کے خواب، اُن کے جھوٹ، اُن کے سچ، اُن کی شفقت۔۔۔ سب کے بارے میں سوچ کر خاموش بین کرتی رہی۔ ساری رات ہم دونوں ہی ماتم کناں رہے۔ بڑی ہی تاریک سہاگ رات تھی ہماری، شامِ غریباں کی طرح تاریک۔
صبح بی اماں کے کہنے پر احمد نے منہ دکھائی کی لاکٹ میرے گلے میں ڈالی۔ اُس پر ’N‘ لکھا تھا۔ میرا دل بغیر تیل کے دیے کی طرح پھڑپھڑا کر بجھ سا گیا، یہ جان کر کہ انھوں نے زرقا سے نہیں، بلکہ نازو کی نعم البدل، نازو ہی سے احمدکی شادی کی تھی۔ بی اماں سے میری نظریں ملیں تو انھوں نے جلدی سے ناشتے کی ٹرے میرے آگے سرکادی جو انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے بیٹے بہو کے لیے جوڑی تھی۔ اُس رات اپنے مائکے سے میں نے خود ہی قطع تعلق کرلیا تھا۔ ایک نیا جنم جینے کی سچی قسم اپنے آپ سے کھا ڈالی۔
دوسرے دن صبح سویرے جب سب گھر والے ابھی سوتے ہی تھے، نئی دلہن ایک اضطراری کیفیت میں آنگن کے ہر درخت سے بات کررہی تھی۔ باورچی خانے میں گئی تو چوکی پر بیٹھی مٹی کے تیل کے چولہے پر جلدی جلدی پورن پوریاں پکاتیں، جوان بی اماں نظر آئیں۔ ساڑھی کا پلو کمر پر کسے، چابیوں کا گچھا پلو سے باندھے، وہ سب کزنز کو حسب حیثیت پراٹھے پوریاں دے رہی تھیں۔ ’’تم پیچھو ہٹو زرقا۔ پہلے احمد، نازو، مبشر اور عنصر کھائیں گے۔ کانچ کی رکابیاں ان لوگوں کی ہیں پھر تم پوٹیوں کی باری آئیگی۔ وہ رکابیاں اٹھالو ایک ایک۔‘‘ میں، باجی، آپا، بٹو ہم اکھڑی تام چینی کی زرد رکابیاں ہاتھوں میں تھامے، رال ٹپکاتے اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے تھے۔
آج یہ باورچی خانہ میرا تھا۔ میں چائنا سیٹ میں کھانا کھا سکتی تھی۔ انتقاماً میں نے کانچ کی ایک پلیٹ گرا کر توڑ دی۔ کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ بستر رکھنے کوٹھری کی طرف گئی تو وہاں نازو اور احمد کی اکھڑی سانسیں، ابھی تک سردی کے لحافوں میں قید تھیں۔ میں نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے اور دوڑتی ہوئی باہر آئی۔ بی اماں نے استفسار کیا تو کہا کوٹھری میں چوہے ہوگئے ہیں، زہر ڈالنا ہوگا۔ پھر سوچا کس کس سے کیا کیا انتقام لوں گی میں۔ میں نے پہلے باورچی خانہ، پھر خالو با کی دکان کا حساب کتاب اور چند سالوں میں بی اماں کی تجوری کی چابیاں جو وہ ہمیشہ کمر سے لگائے رکھتی تھیں، سنبھال لیں۔ دل سے انھیں اپنا لیا تھا۔ بھائی، بھاوج، نازو، احمد اور سب سے بڑھ کر قدرت نے انھیں کم امتحان میں ڈالا تھا۔۔۔ جو میں ڈالتی؟
پانچ سال گزر گئے، ہمارے دو بیٹے ہوگئے، پہلے حفیظ پھر خالوبا گزر گئے۔ قمرو ماما اور شہناز اجنبیوں کی طرح خالو با کے جنازے میں آئے۔ شہناز مامی ناک پر پلو رکھے بیٹھی رہیں، قمرو ماما مردانے ہی سے چلے گئے۔ بیوہ بہن کے سر پر ہاتھ تک نہ پھیرا۔ عورتوں نے اُن کے ہاتھ سے چوڑیاں، گلے سے سہاگ مالا اتروا دیا۔ وہ ساکت بیٹھی رہیں۔ ناک میں ہیرے کی لونگ اور کان سے سونے کے تنکے اتروانے لگیں، تو میں چلّا گئی کہ خبردار کسی نے میری بی اماں کا حلیہ بگاڑا اور اُنھیں ستّی کرنے کی کوشش کی۔ وہ خالوبا کے لیے نہیں ہمیشہ اپنے آپ کے لیے سجتی تھیں، اور وہ خود ابھی حیات ہیں۔
ابو کا اندیشہ غلط نکلا۔ ان گزرتے سالوں میں بی اماں نے کبھی مجھے کسی بات کا طعنہ نہ دیا۔ بلکہ اب وہ وحیدہ کو ساتھ پلنگ پر بٹھاتیں، اُسے پان تمباکو پیش کرتیں، اُس کے لیے احمد کی شادی میں اور بعد میں بھی نئے جوڑے سلوائے گئے تھے۔ احمد کو بھی تلقین کی گئی کہ اب وہ وحیدہ کو ماں نہیں تو کم از کم خالہ کہہ کر پکارے، مگر اب شاید دیر ہوچکی تھی، احمد اور وحیدہ دونوں کے لیے۔
میری اور احمد کی شادی گویا حیرتوں کا روزِ محشر تھی۔ ابو نے جس دن میرے کانوں میں صور پھونکا تھا اُس سے کچھ عرصہ پہلے ہی ہم بچوں کو بتایا گیا تھا، کہ احمد دراصل حفیظ اور وحیدہ کی اولاد ہیں جو کہ پہلے ہندو تھے۔ میں اس وقت بہت خودغرض ہو رہی تھی۔ سوائے احمد کے مجھے کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ بار بار لگتا تھا کہ کسی دن لندن سے قمرو ماما نازو کا ہاتھ پکڑ کر لے آئیں گے اور۔۔۔ میں۔۔۔ بس رونا لیلیٰ کاگانا’’کاٹے نہ کٹے رے رتیاں سیاں انتظار میں‘‘ گاتی رہ جاؤں گی۔
ذات پات، مذہب، برتری اور کم تری محبت کے آگے ہیچ ہیں، میں ایسا سوچتی تھی۔ مگر ابو نے جب اپنی جنم کنڈلی میرے آگے رکھ دی تو میں تڑپ اٹھی۔ رشتوں پر سے اعتبار اٹھ گیا۔ عمر کے بیس سال آپ کسی مسجد میں نماز ادا کرتے چلے جائیں اور ایک دن اچانک آپ کو پتہ چلے کہ وہ مسجد پہلے مندر تھا؟ تو آپ گڑبڑا جائیں گے کہ مجھے سجدہ کرنا ہے یا گھنٹی بجا کر ہاتھ جوڑنے ہیں۔ بھگوان کو بھوگ لگا کر پرساد کھانا ہے یا فاتحہ پڑھ کے تبرک بانٹنا ہے۔ پجاری کہ مولانا؟ تعزیہ کہ دُرگا پوجا؟ دیوالی کے دیے؟ یا شب برأت کے چراغ؟ لیکن پھر پتہ چلا کہ کسی بھی چیز سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
میں نے پرت والے خستہ پراٹھے سلیقے سے چنگیر میں لگائے، ملائی کے ساتھ انڈے کا آملیٹ ٹرے میں رکھا اور آنگن میں پلنگ پر صاف ستھرے جوڑے میں بیٹھی وحیدہ کے آگے رکھ دیا۔ وہ بے چاری جس نے زندگی بھر چائے، پاپے اورکبھی رات کی اکڑی ہوئی باسی روٹی ہی کھائی تھی، وہ اصلی گھی کے پراٹھے کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے ہم بچے گاندھی گارڈن میں ببر شیر کو دیکھتے ہوں گے۔ میری شادی سے ذرا پہلے ہی وحیدہ کی ترقی ننگے فرش سے پلنگ تک ہوچکی تھی۔ اُس کے بچے یعنی احمد کے چھ بھائی بہن بھی اب زمین پر رینگنے والے کیڑوں کے بجائے، لٹھے کے ایک جیسے قمیض پاجامے پہنے ذرا معتبر لگنے لگے تھے۔ یہ اور بات کہ اب بھی وہ برق رفتاری سے گالیاں دیتے، مٹی میں لوٹتے، بسوں کے پیچھے بھاگ کر اُن سے لٹک جاتے، بیرنگ کی گاڑی پر ایک دوسرے کو دھکیلتے اور وقتاً فوقتاً چھوٹی موٹی چوریاں احمد جنرل اسٹور سے کرلیتے۔ بی اماں بے چاری احساس جرم کے تلے دبی ہوئی تھیں یکدم کیا کیا درست کرتیں۔
کچھ دن تو وحیدہ کو یہ شہنشاہیت اور ٹھاٹ باٹ بھلے لگے۔ لیکن پھر وہ اکتا گئی، مگر خاموشی رہی۔ وہ کب سیٹھانی کی پہلو نشینی کی عادی تھی وہ اپنی اوقات جانتی تھی۔ اُس کی آنکھیں احمد اور سیٹھانی کے آگے اٹھ کے نہ دیں۔ ایک دن دکان کے گلّے سے، جو کہ ایک ملازم چلاتا تھا، بہت سے روپے چرا کر بھاگ گئی۔ شاید وہ ان کچھ سالوں سے جاری ماں بیٹے والے ڈرامے سے گھبرا گئی تھی۔ احمد سلام کرنے کو قریب آتا تو وہ بدک کر دیوار سے جالگتی کہ شاید اب چپل سے پٹائی ہوگی۔ اچھا ہوا بھاگ گئی۔ احمد کے بھائی بہنوں نے بھی نئی منزلیں تلاش کرلیں۔ سوائے قدیر کے جو پہلے ٹیکسیاں صاف کرتا تھا اور اب باقاعدہ ہمارا ڈرائیور بن چکا تھا۔ ابھی احمد وحیدہ کو تلاش کرہی رہے تھے کہ بی اماں پر فالج کا اثر ہوگیا۔
اڑتی اڑتی خبرملی تھی کہ نازو کی دھوم دھام سے کسی امیر خاندان میں شادی کردی گئی ہے، لڑکا سید اور ڈاکٹر ہے۔ لیکن دو سال بعد ہی طلاق کی اطلاع بھی موصول ہوگئی۔ وجہ یہ بنی کہ نازو کبھی ماں نہیں بن سکتی۔ اب وہ ایک بار پھر لندن جاچکی ہے اور دوبارہ تعلیم حاصل کررہی ہے۔ ہاں اس دوران میرے بھائی جان بھی لندن جاچکے تھے۔ انھیں وہاں ابو کی وجہ سے بنگلہ دیش ہائی کمیشن میں نوکری مل چکی تھی۔ یہ سن کر میرا دل باغ باغ ہوگیا تھا۔ اپنے مائکے سے میرے تعلقات بھی دوبارہ استوار ہوچکے تھے۔
آج آسمان پر کالے اودے بادل تھے۔ پھر ایک دم سارے بادل جیسے کسی کے دکھ پر اچانک برسنے لگے۔ دروازہ پیٹا جارہا تھا۔ یہ وہی دروازہ تھا جس سے میں کئی سال پہلے نامراد لوٹا دی گئی تھی، اسی کی دہلیز پر دلہن بن کر آئی اور اب اسی دروازے کے باہر احمد نشے میں دھت کھڑے تھے۔ بی اماں کے ڈر سے انھیں جلدی جلدی لاکر ہمارے کمرے میں جیسے چھپا دیا۔ الھڑ عمر کی پاک محبت کو بھولنے کے لیے، کوئی نشہ تو درکار ہوتا ہے، اب بے چارے احمد شراب بھی نہ پیتے تو کیا کرتے۔
بی اماں پر فالج گرنے سے بہت پہلے ہی جیسے وہ مفلوج اور گم سم ہوچکی تھیں۔ اپنی متاع حیات کو یوں دن دہاڑے لٹتا دیکھ کر کون انسان نارمل جی پاتا ہے۔ پہلے قمرو نے منہ موڑا، پھر نازو کا سانحہ، احمد کا ہر وقت شاکی نظروں سے انھیں گھورنا، حفیظ کی ٹی بی سے تڑپتی موت، یہاں تک کہ ہمیشہ جوتی کی نوک پر اڑائے جانے والے سیٹھ صاحب کی رحلت بھی سیٹھانی پر بجلی کی طرح گری۔ اب وہ دم خم نہ رہا۔ سنیما میں ایک سے ایک فلم لگی، انھوں نے جانے کا خیال تک نہ کیا۔ شبنم، جس کی وہ فلم’آخری اسٹیشن‘ سے لے کر ’انمول‘ تک پرستار تھیں۔۔۔ اُس کی فلم ’آئینہ‘ لگی۔۔۔ وہ نہ گئیں۔ فالج تو بہت بعد میں گرا اُن پر۔ ہمیشہ مہندی سے رنگے کتھی بال، جس کے آمیزے میں کافی سے لے کر لونگ کا عرق اور آملہ ریٹھا بھی ملایا جاتا، اب بھورے ہو کر مکمل سفید رہنے لگے۔
ایک دن چھوٹا پوتا معظم اُن کے پاس کھیل رہا تھا۔ زرقا سے کہنے لگیں، ’’ائی دولن پاشا! اِئے معظم بولتا کیوں نئی جی؟ اِنے جلدی بولا تو اس کو کلمہ سکھانا ہے۔ بولو بیٹا لا الہ اللہ محمد رسول اللہ۔‘‘ معظم انھیں معصومیت سے دیکھتا رہتا۔ پھر بولیں، ’’اِنے کس کے ویسا ہے دولن پاشا؟ میرے ویسا کہ احمد کے ویسا؟ اس کو تم حفظ کرانا، ہو؟ ہم لوگاں بخشے تو بھی جائیں گا ناں اس کے صدقے۔‘‘ اب زرقا کیا انھیں بتاتی کہ معظم بنا بنایا حفیظ اور وحیدہ ہے، جو اُس کے اصل دادا دادی تھے۔ وہی رنگت، مینڈک جیسی ابلتی آنکھیں اور یہ بھی کہ اُس کی پتلی انگلیاں کھلونوں میں سے صرف بانسری ہی کو اٹھاتی ہیں۔ شنکر داس ہو یا عارف حسین، رام لعل یا حفیظ۔ بدن تو وہی سرخی اور موروثی ہیئت لیے نسل در نسل کسی دریا کی طرح راستے بدل بدل کر رواں رہتا ہے۔
میں نے احمد کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا۔ وہ نازو کے غم میں شاعر سے مجنوں ہوگئے۔ بی اماں کی زبان لڑکھڑاتی تھی مگر یادداشت غضب کی تھی، سیداں بی کے مرض کا اُن پر شائبہ بھی نہ تھا۔ ہاں میرے معظم کو اکثر خمرو کہہ کر بلایا کرتیں۔ میں نے سعادت مندی سے اُن کے تمام ذاتی کام سنبھال لیے۔ ابو نے خدا کے بعد مجھے اُن کی نگہبانی میں دیا تھا، کیا وقت تھا کہ خدا نے اب انھیں میری نگہبانی میں دے دیا تھا۔ احمد کو کاروبار کی نہ کوئی حکمت تھی اور نہ ضرورت۔ اس گھر کی مرد پھر میں ہی بن گئی۔ ایک دن بی اماں کو خبر پڑھ کر سنائی کہ رونا لیلیٰ نے پاکستان چھوڑ دیا، کیوں کہ اب وہ پاکستانی نہیں بلکہ بنگلہ دیشی ہیں۔ ایک اورہجرت۔ میرا حلق کڑوا ہونے لگا۔ کچھ عرصے بعد مجھے ابو کے حوالے سے ریڈیو اسٹیشن والوں نے فون کیا، کہ رونا لیلیٰ کے لیے مختص کیے گئے نغمات وہ میری آواز میں ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں۔
میری ٹیکسی بندر روڈ کی طرف چلی جارہی تھی۔ کراچی کی بڑھتی آبادی کے ساتھ، بسوں اور اُن میں ٹھنسے مسافروں کی تعداد بے دریغ بڑھ چکی تھی۔ حفیظ والی مورس ٹیکسی بیچ دی گئی تھی۔ یہ ٹویوٹا سنی کا نسبتاً نیا ماڈل تھا اور ڈرائیور اب قدیر تھا، قدیر یعنی احمد کا سب سے چھوٹا بھائی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیور بھابھی سمجھنے سے اجتناب برت رہے تھے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں کھیلتے ہوئے قدیر ہم سب کی چپلوں کی رکھوالی کرتا تھا۔ دور جاکر گری گیند لانا، جھانگڑ سے پتنگ لوٹ کر دینا، محرم میں بنی سبیل سے ٹھنڈا پانی، شربت لاکر دینا اور جب حفیظ، بی اماں کو یا ہمیں ٹیکسی میں کہیں پہنچانے جاتا، تو قدیر ٹیکسی چمکا کر نئی کررہا ہوتا تھا۔ آج یہ میرا دیور تھا۔
کنڈیکٹر عیدگاہ! عیدگاہ! کی آوازیں لگاتا جارہا تھا۔ سعید منزل، جامع کلاتھ، ناز، نشاط سنیما میں لگی ندیم شبنم کی فلم ’آئینہ‘ کا بڑا سا بورڈ گزرا۔ بی اماں کو ضرور لاکر یہ فلم دکھاؤں گی، میں سوچنے لگی۔ ہاتھ میں تھاما رومال پسینے سے ترہوچکا تھا۔ بی اماں کی اجازت، بلکہ اُن کے اصرار پر، میں ریڈیو اسٹیشن میں لال محمد اقبال کے آگے بیٹھی آڈیشن دے رہی تھی۔ دو نغمے اور دو غزلیں چند ہفتوں میں ریکارڈ ہوگئیں۔ ریڈیو پر جب بھی میری غزلیں نشر ہوتی ہیں تو بی اماں رونے لگتی ہیں اور سنا ہے کہ ابو ریڈیو کو سینے سے لگائے دھاڑیں مار کر روتے ہیں، پتا نہیں کیوں؟
اُس دن میراں بی پرائمری اسکول کا افتتاح تھا۔ یہ اسکول میں نے تعمیر کروایا تھا۔ احمد جنرل اسٹور کو میں نے اسکول کینٹین بناڈالا۔ کلکتہ کتاب گھر کو اسکول کے احاطے میں لے لیا، جہاں غریب بچوں کو مناسب نرخ پر کتابیں دی جاتی تھیں۔ نیچے اوپر ملا کر چھ کلاس روم، ایک میوزک روم اور کھیلنے کے لیے سامنے بڑا گراؤنڈ میراں بی پرائمری اسکول ہی کا تھا، جہاں کبھی میں احمد کو والی بال کھیلتا دیکھ کر اُن پر مر مٹی تھی۔
وھیل چیئر پر بیٹھی اسکول کی مالکن، سیٹھانی میراں بی نے لرزتے ہاتھوں سے سرخ فیتہ کاٹ کر اسکول کا افتتاح کیا۔ سب کی تالیوں کے شور میں بی اماں کو دور کھڑی سیداں بی کا ہنستا معصوم چہرہ دکھائی دیا اور اُن کی زور زور سے بجتی تالیاں باقاعدہ سنائی دیں۔ بچوں کو مفت تعلیم کے ساتھ ساتھ، میں اور ابو مل کر انھیں آرٹ اور موسیقی باقاعدہ سکھاتے ہیں۔ کون جانے ان میں کتنے بانسری نواز اور کتنے گلوکار موجود ہوں۔ دس پندرہ دن سے ابو کچھ خاموش سے تھے جیسے مجھ سے کچھ چھپا رہے ہوں۔ مجھے اُن سے دریافت کرنے کا وقت نہ مل سکا۔ گھر، بچے، اسکول، احمد، بی اماں، وغیرہ، انھی میں کب صبح سے شام ہوتی تھی معلوم ہی نہیں چلتا تھا۔۔۔کہ اچانک ایک دن قمرو ماما چلے آئے۔
محرم کا دن تھا، اسکول کی چھٹی تھی۔ حلیم پر فاتحہ پڑھوا کرمیں بی اماں کے پاس آئی تو قمرو ماما گرمی میں بھی تھری پیس سوٹ پہنے، گاڑی سے اتر کے اندر آنے لگے۔ گردن کی اکڑاب بھی ویسے ہی تھی۔ ہاں بوڑھے بہت ہوگئے تھے۔ میرے سر پر ہاتھ پھیر کر سیدھے بی آپا کی طرف دوڑے۔ بی اماں کے مفلوج جسم میں اُس دن جنبش، بلکہ تھر تھراہٹ ہوتے دیکھی میں نے۔ دونوں بہن بھائی ٹوٹ کر ملے اور جڑ کر روئے۔ کچھ ہی دیر میں مطلع صاف ہوگیا۔ نہ کوئی گلہ نہ شکوہ۔ بی آپا نے، بغیر قمرو کے معافی مانگے، اُسے معاف کردیا۔ ایسا ہوتا ہے بڑی بہنوں کا دل۔ ہاں اُن کے بہت سگریٹ پینے پر اُنھیں بری طرح لتاڑا، کہ ماں جیسی بہن کے آگے وہ سگریٹ کیسے پی رہے ہیں۔ ہنس کر کہنے لگے کہ دل کے دو دورے پڑچکے ہیں۔ لندن میں بائی پاس کروا کر آئے ہیں، اب کیا مزید احتیاط کریں۔
میں کھانا لائی تو فوراً پانچ سو روپے سلامی دی۔ بچوں کے ہاتھ پر بھی سو سو روپے رکھے۔ احمد کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتایا کہ وہ دوست کے ساتھ لاہور گئے ہوئے ہیں۔ کچھ بوکھلائے اور مضطرب سے لگتے تھے قمرو ماما۔ میرے ہاتھ کی حلیم چاٹ کر کھائی اورکہا، ’’بالکل بی آپا کے ہاتھ کا ذائقہ ہے۔ تم نے اچھا کھانا پکانا سیکھ لیا ہے زرقا۔‘‘ اور پھرسوگئے۔ جاگے تو پھر وہی بے چینی۔ بار بار ہاتھ مسلتے جیسے کچھ کہنے سے اپنے آپ کو روک رہے ہیں۔
بی اماں ذرا اونگھ گئی تھیں۔ میں نے ہی ماما کو چائے تھماتے ہوئے کہا، ’’ارے ماما، نازو کیسی ہے، کیا پڑھ رہی ہے؟ مامی کے ساتھ ہے ناں، لندن میں؟‘‘ ماما گم سم رہے۔ ’’اور ہاں، بھائی جان کو بھی تو وہاں بنگلہ دیش ہائی کمیشن میں اچھی جاب مل گئی ہے۔ آپ سے ملاقات ہوئی کبھی؟‘‘ او خدایا! میں نے اپنے آپ کو کوسا کہ کیا بھونڈا سوال داغ دیا میں نے۔ اب یہ مجھے کھری کھری سنائیں گے۔ لیکن بی اماں کی چادر درست کرنے کو پلٹی تو پیچھے سے ماما کی کمزور سی آواز آئی، ’’ہاں وہ تمھارے بھائی جلیل سے ملاقات ہوئی لندن میں۔ بلکہ ہمیں تم کو یہ خبر دینا تھی کہ جلیل اور نازو کی شادی ہوگئی۔ پچھلے ہی ہفتے۔ شاید تمھیں ابھی خبر نہیں ہوئی، زرقا بیٹا۔ دونوں خود ہی پسند کرلیے ایک دوسرے کو۔ میں تو بس شادی میں شامل ہوا۔ مبشر اور عنصر بھی تھے وہیں شادی میں۔‘‘ یہ کہا اور چائے کی پیالی میں منہ چھپالیا۔
میرے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ ہندو بنگالی، حسب نسب، سید، شیخ، گنگا، جمنا، ٹیمز۔۔۔ احمد کی غزلیں، کوٹھری کی سرگوشیاں۔۔۔ سب دیگ میں گھٹی حلیم کی طرح گڈ مڈ ہونے لگے۔ اچانک بی اماں جو پوری طرح جاگ چکی تھیں انگلی کے اشارے سے لڑکھڑاتی زبان کا سہارا لے کر بار بار کہنے لگیں، ’’جلیل کو داماد بنالیے؟ بنگالی کے بیٹے کو؟ ہندو کو؟ تم بھی وہ اچ گو موت میں جاکے گرے خمرو؟‘‘ تھوک اُن کی باچھوں سے باہر گرنے لگا۔ ’’منہ اوپر کرکے تھوکے تو، تھوک اپنے اچ منہ پے گرتا۔‘‘ قمرو ماما کی گردن بھیگے کاغذ کی طرح جھک چکی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.