Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اجنتا

MORE BYخواجہ احمد عباس

    کہانی کی کہانی

    یہ کہانی سچے واقعات پر مبنی ہے۔ اس کہانی میں اجنتا کے ذریعے گیتا کے اپدیشوں کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کا ہیرو فسادات سے بھاگ کر اجنتا کی گپھاؤں میں پناہ لیتا ہے، وہاں اسے گُپھاوں میں گیتا کا اپدیش ملتا ہے، 'عمل کر، نتیجے کی فکر مت کر۔' اپدیش پڑھ کر ہیرو کو اپنے فرض کا احساس ہوتا ہے وہ واپس بمبئی چلا جاتا ہے۔

    ’’اجنتا ہندوستان کے آرٹ کی معراج ہے، دنیا میں اس کا جواب نہیں ہے۔۔۔ بڑے بڑے انگریز اور امریکن یہاں آکر دم بخود رہ جاتے ہیں۔۔۔ یہ غار ڈیڑھ ہزار سال پرانے ہیں۔ ان کو کھودنے، تراشنے، ان میں مجسمے اور تصویریں بنانے میں کم سے کم آٹھ سو برس کا عرصہ لگا ہوگا۔۔۔ مہاتما بدھ کے اس مجسمے کو دیکھیے۔۔۔‘‘

    سرکاری گائیڈ کی منجھی ہوئی آواز غار کی اونچی پتھریلی چھت سے ٹکرا کر گونج رہی تھی۔ اٹھائیس روپے ماہوار تنخواہ اور روپیہ ڈیڑھ روپیہ روزانہ بخشش کے عوض وہ اپنا طوطے کی طرح رٹا ہوا سبق دن میں نہ جانے کتنی بار دہراتا تھا۔ نرمل کو اس کی آواز ایسی معلوم ہوتی جیسے رہٹ چل رہا ہو، یا چرخہ یا کولہو۔ روں، روں، روں۔ ایک بے معنی، بےروح آواز کا لامتناہی سلسلہ جو ختم ہونے ہی میں نہیں آتا تھا۔ بھارتی۔۔۔ جو آرٹ کی پرستار بھی تھی اور خود آرٹ کا ایک نادر نمونہ بھی۔۔۔ گائیڈ کے الفاظ پر سردھن رہی تھی۔ ہزاروں برس پرانے آرٹ کے اس اتھاہ سمندر میں وہ ڈوب جانا چاہتی تھی۔ ہر تصویر، ہر مجسمے، ہر ستون، ہر محراب، ہر پھول اور پتی کو دیکھ کر اس کے منہ سے تعریف کا چشمہ بےاختیار پھوٹ نکلتا تھا، ’’اوہ نرمل یہ دیکھو۔۔۔ اوہ نرمل وہ دیکھو۔۔۔ مہاتما بدھ کے چہرے پر کتنا سکون اور شانت اکسپریشن ہے۔۔۔ اس اپسرا کے بالوں کا سنگھار تو دیکھو۔۔۔ ہاؤسویٹ۔۔۔ کتنا سندر۔۔۔ ہاو ونڈرفل۔۔۔‘‘

    نرمل خاموش تھا۔ وہ نہ گائیڈ کی روں روں سن رہا تھا اور نہ بھارتی کے پرجوش تعریفی جملے۔۔۔ اس کی نگاہیں دیوار پر بنائی ہوئی تصویروں پر ضرور تھیں۔ مگر اسے سوائے دھندلے رنگین دھبوں کے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔۔۔ اس کے کان گائیڈ کی رٹی ہوئی تقریر کو سن رہے تھے، پر اب تک وہ صرف آواز تھی۔ بےمعنی۔ دھیما دھیما شور۔ چرخے یا کولہو یا رہٹ کی روں روں کی طرح۔۔۔ بھارتی جب بولتی تو نرمل کو ایسا معلوم ہوتا کہ اس کے کانوں پر کوئی غیرمتعلق اور قطعی غیرضروری چوٹ پڑی ہے۔۔۔ جیسے گرمی کی دوپہر میں تانبے کی طرح تپتا ہوا آسمان ایک اڑتی ہوئی چیل کی ہیبت ناک چیخ سے گونج اٹھے۔۔۔

    نہ جانے وہ کس نمبر کے غار میں تھے۔ نہ جانے وہ کس تصویر کے سامنے کھڑے ہوئے تھے۔۔۔ گائیڈ کی روں روں جاری تھی۔۔۔ یہ دیکھیے ایک پچھلے جنم میں سنیاسی کے روپ میں مہاتما بدھ اپدیش دے رہے ہیں۔ بنارس کے راجہ کی یہ نرتکی مہاتما بدھ کے اپدیش سنتی ہے۔۔۔ راجہ کو جب یہ معلوم ہوتا ہے تو وہ خود جاکر سنیاسی سے سوال جواب کرتا ہے۔۔۔ تم کون ہو اور کیا اپدیش دے رہے ہو۔۔۔ وہ کہتے ہیں میں شانتی اور سچائی کا ذکر کر رہا ہوں۔۔۔ راجہ اپنے جلاد کو حکم دیتا ہے کہ وہ سنیاسی کے ہاتھ، پاؤں، ناک، کان تلوار سے کاٹ ڈالے۔ پر ہر بار مہاتما بدھ نے یہی کہا کہ شانتی اور سچائی تو میرے دل میں ہے۔ ناک، کان، ہاتھ، پاؤں میں نہیں ہے۔۔۔ یہ دیکھیے ان کے زخموں سے خون۔۔۔‘‘

    خون!

    گائیڈ کی بےمعنی، لامتناہی روں روں میں سے اس ایک لفظ نے نرمل کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح ایک چوٹ لگائی۔

    خون!

    اجنتا کے غاروں کی پتھریلی دیواریں یک لخت فضا میں تحلیل ہو گئیں۔۔۔ اب وہاں نہ مجسمے تھے، نہ تصویریں، نہ ستون۔۔۔ نہ گائیڈ اور نہ بھارتی۔۔۔ نہ سرسبز پہاڑیاں، نہ وہ سریلے شور کے ساتھ بہنے والی ندی۔۔۔ نہ آرٹ اور نہ تاریخ۔۔۔ نہ دھرم اور نہ مذہب۔۔۔ نہ مہاتما بدھ اور نہ بنارس کا ظالم راجہ۔۔۔

    خون!

    خون کی ندیاں۔ خون کے دریا۔ خون کا سمندر اور ان خونیں لہروں پر بہتا ہوا نرمل پھر بمبئی واپس پہنچ گیا۔ وہی خونی بمبئی جس سے بھاگ کر اس نے تین سو میل پرے اور ڈیڑھ ہزار برس پرانے غاروں میں پناہ لی تھی۔۔۔ یکم ستمبر۔۔۔ شام کو حسب معمول وہ اپنا کام ختم کر کے گرگام اپنے دوست وسنت کے دفتر گیا تھا کہ دونوں ساتھ ہی ٹرین سے دادر جائیں گے کہ خبر آئی کہ شہرمیں ہندومسلم کا فساد ہو گیا ہے۔ کام چھوڑ کر ہر کوئی اس مضمون پر رائے زنی کرنے لگا۔

    ’’تم دیکھنا یہ فساد چند گھنٹے میں دب جائےگا۔ اس بار گورنمنٹ نے پوری تیاریاں کر رکھی ہیں۔۔۔‘‘

    ’’پر آج کیسے ہو گیا۔۔۔؟ مسلم لیگ کالے جھنڈوں کا مظاہرہ تو کل کرنے والی ہے۔۔۔‘‘

    ’’یہ کلکتہ کی خبروں کا اثر ہے۔۔۔‘‘

    ’’سنا ہے کئی ہزار چھرے پکڑے گئے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’سنا ہے گول پیٹھا پر پنڈت جواہر لال نہرو کی تصویر کو ایک مسلمان پرانے جوتوں کا ہار پہنا رہا تھا۔۔۔‘‘

    ’’سنا ہے بھنڈی بازار میں مسلمانوں نے کئی ہندوؤں کو مار ڈالا۔۔۔‘‘

    ’’پر تم فکر نہ کرو، اب کے ہندو چپکے بیٹھنے والے نہیں ہیں۔۔۔‘‘

    اتنے میں ایمبولینس کار کی گھنٹی کی آواز آئی اور سب کھڑکی کی طرف بھاگے۔ سامنے ہرکشن داس اسپتال کے دروازے میں زخمیوں کی موٹر داخل ہو رہی تھی۔ ایک گٹھے ہوئے جسم کے راہ گیر نے جو دھوتی اور میلی دھاری دار قمیص اور کالی مرہٹہ ٹوپی پہنے ہوئے تھا، اسپتال کے دربان سے پوچھا، ’’یہ کون تھے؟ ہندو یا مسلمان؟‘‘ دربان نے جو موٹر میں جھانک چکا تھا، جواب دیا، ’’ایک مسلمان، دو ہندو۔‘‘ اور فوراً کونے کے ہندو ہوٹل کے سامنے کھڑے ہوئے گروہ میں کھسر پھسر شروع ہو گئی۔ ساری چرنی روڈ پر دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ ہوٹل کے سب دروازے بند تھے۔ صرف بیچ والے لوہے کے جنگلے کا دروازہ آدھا کھلا تھا۔ ٹرام دیر ہوئی بند ہو چکی تھی۔ سڑک پر سناٹا تھا۔ ہاں اوپر کی منزلوں سے لوگ جھانک رہے تھے۔ فضا میں ایک عجیب تناؤ تھا جیسے تنا ہوا ڈھول چوٹ پڑنے کا منتظر ہو۔

    یکایک سینڈھرسٹ روڈ کے چوراہے کی طرف سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ ہر شخص کی نگاہیں آواز کی سمت پھر گئیں۔ ایک دبلا سا نوجوان کرتا پاجامہ پہنے آ رہا تھا۔ بالکل بےفکر جیسے شہر میں فساد ہوا ہی نہیں تھا۔

    ’’سالے کی ہمت تو دیکھو!‘‘ ہوٹل کے سامنے کھڑے ہوئے گروہ میں سے ایک آدمی نے کہا اور گٹھے ہوئے جسم کے آدمی کا ہاتھ دھاری دار قمیص کے نیچے اپنی میلی دھوتی کی تہوں میں نہ جانے کیا تلاش کرنے لگا۔ بے فکر دبلا نوجوان اب وسنت کے دفتر کی کھڑی کے نیچے سے گزر رہا تھا۔ نرمل نے دیکھا کہ اس کے ململ کے کرتے میں سے اس کی ہڈیاں نظر آ رہی ہیں۔ سانولا رنگ، چھوٹا سا قد، مگر اچھا ذہین چہرہ۔ کوئی کلرک یا طالب علم معلوم ہوتا تھا۔ نہ جانے کیوں نرمل کا جی چاہا، چلا کر کہے، ’’میاں بھائی ذرا سنبھل کر آگے جانا۔ بڑا خراب وقت ہے۔‘‘ پر اس کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی، اور چشم زدن میں اس نے ایک چمکیلی چھری کو ہوا میں بلند ہوتے دیکھا۔ چھری دستے تک دبلے پتلے نوجوان کی کمر میں اتر گئی۔ اس کے ہاتھ ایک بار بے اختیار اٹھے شاید بچاؤ کرنے کے لیے، مگر اگلے لمحے میں وہ چکرا کر گر پڑا۔ اور اس کے منہ سے ایک کراہتی ہوئی آواز نکلی جو فریاد بھی تھی اور آخری ہچکی بھی۔

    ’’ہائے بھگوان!‘‘ اور ہوٹل کے مجمع میں ایک کھلبلی سی مچ گئی۔

    ’’ارے یہ تو ہندو ہے ہندو۔‘‘

    ’’نہیں رے سالا بن رہا ہے۔‘‘

    ’’پاجامہ پہنے ہندو کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

    ’’سالے کا پاجامہ کھول کر ختنہ دیکھو۔‘‘

    چھری ابھی تک نوجوان کی کمر میں گڑی ہوئی تھی، مگر اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کئی آدمیوں نے بڑھ کر سسکتی ہوئی لاش کو پلٹ دیا اور ایک نے کمربند کی ڈوری کو کھینچ کر گرہ کھولی۔ نرمل کی آنکھیں شرم سے بند ہو گئیں، اسے ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے غلاظت کے ڈھیر میں اس کا منہ رگڑ دیا ہو۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو قاتل لاش کو پھر الٹ کر زخم میں سے اپنی چھری باہر کھینچ رہا تھا۔

    ’’یہ تو مشٹیک ہو گیا۔‘‘ اس نے کہا، اور اپنی میلی دھوتی میں سے ایک کترن پھاڑ کر اس سے چھری کا خون پوچھنے لگا۔ چھری جب زخم سے باہر نکلی تو نرمل نے دیکھا کہ زخم سے سیاہی مائل گاڑھا گاڑھا خون بہہ نکلا اور مقتول نوجوان کے کپڑوں کو رنگتا ہوا سڑک پر پھیل گیا۔۔۔ خون!

    ’’خون خرابے، فساد دنگے سے دور یہ کتنی سندر اور شانت دنیا ہے نرمل؟‘‘ بھارتی نے نرمی سے، پریم سے نرمل کی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ایک جھٹکے کے ساتھ ایک لہر نے اسے خونی سمندر کے باہر کنارے پر لا پھینکا۔

    ’’کیا؟ کیا کہا تم نے بھارتی؟‘‘

    ’’میں کہہ رہی تھی کہ اجنتا کے ان خاموش پرسکون غاروں میں ہم بمبئی کلکتے کے خون خرابے سے کتنی دور معلوم ہوتے ہیں۔ کئی ہزار برس دور، یہاں تم ضرور ان خوفناک نظاروں کو بھول سکوگے جو تم نے بمبئی میں دیکھے ہیں۔۔۔‘‘

    بیچاری بھارتی! حسین اور حسن پرست بھارتی! اس کا دل پریم سے کتنا بھرپور تھا اور اس کا دماغ سمجھ بوجھ سے کتنا خالی، اسے نرمل سے واقعی محبت تھی اور وہ اسے ایک منٹ کے لیے بھی دکھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔ جس دن فساد شروع ہوا، اس سے اگلے دن ہی وہ جان گئی کہ نرمل کا نازک اور حساس دماغ اس خون خرابے کی تاب نہیں لا سکتا۔ چرنی روڈ کے خون کے بعد جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، نرمل نے تین دن کھانا نہ کھایا اور نہ ہی وہ سو سکا۔ اس کو چپ سی لگ گئی تھی۔ اس کے دل و دماغ پر ایک گہرا سکوت طاری تھا۔ اس نے کسی کو اس کی وجہ نہ بتائی تھی۔ اس کے ساتھیوں نے پوچھا بھی تو اس نے ٹال دیا۔ پر، بھارتی سے وہ ہر بات کہہ دیتا۔ اس کی گود میں سر رکھ کر نرمل نے اس خونیں واقعہ کی تمام ہولناک تفصیل اس کو سنا دی۔

    ’’اس دبلے پتلے نوجوان کی صورت اب میری آنکھوں کے سامنے پھرتی ہے، بھارتی اس کی آخری چیخ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے، اس نے میری نیند اڑا دی ہے۔ رات کو سوتا بھی ہوں تو خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک خون کے سمندر میں ڈوب رہا ہوں، اور کوئی میری مدد کو نہیں آتا۔‘‘ اور گھونگر والے بالوں میں اپنی ملائم انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے بھارتی نے کہا، ’’بیچارہ نرمل!‘‘

    اپنی محبت، اپنی باتوں، سنیما، گراموفون، ریڈیو، کس کس طرح اس نے اپنے دوست کے دل سے اس واقعہ کو بھلانے کی کوشش کی تھی، مگر وہ ناکامیاب رہی۔ نرمل کی شگفتگی، اس کی مشہور ظرافت، اس کی حاضر جوابی سرے سے غائب ہوگئی تھی۔ وہ جب کبھی بھی بھارتی سے ملنے آتا تو گھنٹوں چپ چاپ بیٹھا رہتا اور اس کی وحشت بھری آنکھیں ٹکٹکی باندھے فضا میں نہ جانے کیا دیکھتی رہتیں۔ وہ کہتی، ’’میں جانتی ہوں نرمل! تمہارے حساس دماغ کو کتنا گہرا گھاؤ لگا ہے، مگر بھگوان کے لیے اپنے آپ کو سنبھالو اور اس واقعہ کو بھلانے کی کوشش کرو۔‘‘ وہ جواب دیتا، ’’ہاں بھول ہی جانا چاہیے۔‘‘ اور وہ سوچتا، ’’کون کون سے واقعات بھلانے کی کوشش کروں؟‘‘

    نرمل کمار قدرت کی طرف سے ایک شاعرانہ دل اور دماغ لے کر آیا تھا۔ اس کی غزلیں اور نظمیں، مضامین، انشائے لطیف اور افسانے ملک کے چوٹی کے رسالوں میں شائع ہوتے تھے۔ امیر باپ کی بیٹی بھارتی اس کی ادبی قابلیت کی قدرداں اور مداح تھی، اس کا بس چلتا تو نرمل کے لیے کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایک خوبصورت بنگلہ بنوا دیتی، جہاں وہ سکون سے اپنے تخلیقی کام میں مصروف رہتا۔ مگر وہ تو ایک روز انہ اخبار میں رپورٹر تھا۔ بھارتی اکثر کہتی کہ اس جیسے ادیب کے لیے جرنلزم اختیار کرنا سراسر ظلم تھا۔

    نرمل کہتا موجودہ ہندوستان میں ادبی تخلیق صرف دماغی تعیش ہے اور لکھنے والے کے لیے اخبار نویسی ہی پیٹ پالنے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹر کی حیثیت سے وہ زندگی کے ڈرامائی عناصر سے دوچار رہتا۔ عدالت کے مقدموں، تھانے کوتوالی کی وارداتوں، مزدوروں کی ہڑتالوں، جلسوں اور جلوسوں میں اس کو انسانی سیرت کا مطالعہ کرنے کا موقع ملتا اور یہی مشاہدات اس کے تخلیقی سانچے میں ڈھل کر ایسے مضامین، افسانے، اور نظمیں بن جاتے تھے جن میں زندگی کی سچائی، زندگی کی تڑپ اور زندگی کی روح نظر آتی تھی۔

    رپورٹر کی حیثیت سے نرمل کو فساد کے زمانے میں بھی سارے شہر میں گھومنا پڑتا تھا۔ سینڈھرسٹ روڈ، بھنڈی بازار، پائیدھونی، بائیکلہ، پریل، دادر، سارا شہر میدان جنگ بنا ہوا تھا۔ ہر محاذ پر خون اور قتل کے واقعات ہو رہے تھے۔ یہاں ایک مسلمان ڈبل روٹی والا مارا گیا۔ وہاں ایک ہندو دودھ والے کو کسی مسلمان نے چھرا گھونپ کر مار ڈالا۔ یہاں ایک پٹھان کا خون ہوا۔ وہاں ایک پوربی بھیا قتل ہوا۔ یہاں ایک دس برس کے بچے کو کسی نے ذبح کر دیا۔ وہاں ایک گیارہ برس کے بچے نے ایک راہ چلتے آدمی کی پسلیوں میں چاقو بھونک دیا۔ سارا شہر ’’ہندو بمبئی‘‘ اور ’’مسلمان بمبئی‘‘ میں منقسم ہو گیا۔ کسی ہندو کی جرأت نہ تھی کہ بھنڈی بازار میں قدم رکھ سکے۔ کسی مسلمان کی ہمت نہ تھی کہ پائیدھونی سے گزر سکے۔ پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان قائم ہو گئے تھے۔ نرمل اور دوسرے رپورٹروں کو اکثر پولس یا فوج کے ساتھ لاریوں میں گشت کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن ایک گورے سارجنٹ نے نرمل سے کہا، ’’تم کانگرسی پاکستان نہیں چاہتے، پھر بھی اس وقت بمبئی میں پاکستان قائم ہے یا نہیں؟‘‘

    اگلے دن ایک انگریز ٹامی نے نرمل اور اس کے ساتھی رپورٹروں سے کہا، ’’تم لوگ تو کوئٹ انڈیا کا نعرہ لگاتے تھے نا؟ ہم سے کہتے تھے نکل جاؤ، ہندوستان چھوڑ دو۔ اب ہم چھوڑنے کو تیار ہیں تو کیوں ہماری خوشامد کرتے ہو؟ کیوں ہمارے پیچھے پیچھے بھاگتے ہو؟ ہماری حفاظت کا مطالبہ کرتے ہو؟ ہندو کہتے ہیں ہمیں مسلمانوں سے بچاؤ، مسلمان کہتے ہیں ہمیں ہندؤں سے بچاؤ، پر دونوں ہماری حفاظت، ہماری توپوں اور بندوقوں کے محتاج ہیں۔ دونوں کہتے ہیں DONT QUIT INDIA‘‘ اور نرمل کو ایسا معلوم ہوا جیسے ہندوستان کی آزادی کا محل اڑاڑ ادھم گر پڑا ہو۔ جیسے پچھلے سو برس کی تمام قومی روایتیں ایک لمحے میں مٹی میں مل گئی ہوں۔۔۔ ترک موالات اور تحریک خلافت، سودیشی اور بائیکاٹ، جلیاں والا باغ کی قربانی، گاندھی جی اورعلی برادران، بھگت سنگھ، ستیہ گرہ اور سول نافرمانی۔۔۔ تمام نعرے اور قومی گیت، ہندستان کا اتحاد اور ہندوستان کی عزت اور آبرو۔۔۔ آرٹ اور ادب، موسیقی اور شاعری اور مصوری۔۔۔ ہر چیز مٹی میں مل گئی ہو۔

    ’’مٹی میں مل کر بھی اس کندن کی چمک نہیں گئی۔‘‘ گائیڈ بک رہا تھا۔

    ’’اجنتا، ہندوستان کے آرٹ اور ادب، موسیقی اور شاعری اور مصوری کا لافانی شاہکار ہے۔‘‘ بھارتی کہہ رہی تھی۔ مگر نرمل کو اس اندھیرے غار میں بجلی کی پیلی پیلی روشنی کے گھیرے میں بھی سوائے پھیکے پھیکے رنگوں کے، چند بے معنی دھبوں کے کچھ نظر نہ آیا۔ نہ حسن، نہ آرٹ، نہ معنی، نہ مقصد۔ بجائے احساس حسن کے اس کا دل ایک عمیق غصے، ایک بے پناہ نفرت سے بھرا ہوا تھا۔ اس کا بس چلتا تو وہ چلا اٹھتا،

    ’’یہ سب کیوں۔۔۔؟ یہ ہزاروں آدمیوں کی ہزاروں برس کی محنت کیوں؟ اور کس لیے۔۔۔؟ یہ پہاڑ کی گود سے تراشے ہوئے غار، یہ مجسمے، یہ تصویریں، یہ صناعی، یہ مصوری۔۔۔ کیوں؟ اور کس لیے۔۔۔؟ بے کار ہیں یہ سب۔ یہ ساری محنت بے کار تھی۔ دنیا کے لاکھوں برس کے ارتقا میں ایک لغو اور مضحکہ خیز لمحہ۔۔۔ بہتر ہوتا کہ اتنی محنت پتھروں میں گلکاری کرنے کے بجائے انسانوں کو انسان بنانے میں صرف کی جاتی، تاکہ آج وہ ایک دوسرے کا خون نہ کرتے ہوتے۔۔۔ اجنتا سے ہندستان نے نہ کچھ سیکھا ہے اور نہ سیکھے گا۔ یہ غار دنیا سے، اصلیت سے، سچائی سے فرار کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اجنتا نہ صرف بے کار ہے بلکہ ایک زبردست جھوٹ ہے۔ دھوکا ہے، فریب ہے۔۔۔‘‘

    گائیڈ نرمل کے خوفناک خیالات کی رو سے بے خبر اپنی روں روں کئے جا رہا تھا، ’’یہ دیکھیے مہاتما بدھ گھوڑے پر چڑھے بازار میں سے گزر رہے ہیں۔ ان کے چہرے پر کتنی شانتی ہے۔۔۔ اور دیکھیے یہ عورتیں اپنے اپنے گھروں پر سے ان کو کتنی معتقدانہ نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں۔‘‘ اور بھارتی کہہ رہی تھی، ’’نرمل دیکھو، ان عورتوں کے چہرے پر کتنی حسین وجدانیت طاری ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی عورتوں کی اصلی روح، ان کی شانت آتما، ان کی نزاکت اور ان کی مامتا کو کچھ اجنتا کے آرٹسٹ ہی سمجھے ہیں۔۔۔‘‘

    ہندوستانی عورتوں کی اصلی روح، ان کی شانت آتما، ان کی نزاکت، ان کی مامتا! نرمل کا دل چاہا کہ قہقہہ مار کر اتنے زور سے ہنسے کہ غاروں کی پتھریلی دیواریں لرز اٹھیں، یہ چٹانیں تھرا جائیں، یہ غاروں کا سلسلہ اس کے نعرہ حقارت سے گونج اٹھے۔ ہندوستانی عورتوں کی اصلی روح! ان کی شانت آتما! ان کی نزاکت! ان کی مامتا! جھوٹ۔ سراسر جھوٹ۔ دھوکا۔ خود فریبی۔

    نرمل نہ کمیونسٹ تھا اور نہ کمیونسٹوں سے ہمدردی رکھتا، مگر ایک دن وہ کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں پارٹی سکریٹری پورن چندر جوشی کا بیان لینے گیا تھا کہ یکایک سڑک کی طرف سے کچھ شور کی آواز آئی اور سب کھڑکیوں کی طرف بھاگے۔ جھانک کر دیکھا تو ایک بوڑھا سفید داڑھی والا بوری مسلمان اپنے خون میں لت پت سڑک کے بیچوں بیچ پڑا آخری سانس لے رہا تھا۔ اور ساتھ کے مکان کی بالکنی پر اور اس کی نچلی منزل کی دہلیز پر مرہٹہ عورتوں کا ایک گروہ کھڑا ہنس رہا تھا جیسے کوئی نہایت دلچسپ اور مزے دار تماشا ہوا رہا ہو۔

    ہندوستانی عورتوں کی اصلی روح! ان کی شانت آتما! ان کی نزاکت! ان کی مامتا!

    ایک ریڈ کراس کی موٹر آئی، اور بوڑھے بوری مسلمان کی لاش کو اٹھا کر لے گئی، اور سامنے والے مکان میں سے ایک مرہٹہ عورت بالٹی ہاتھ میں لٹکائے نکلی اور جہاں بوڑھے کا خون گرا تھا وہاں نہایت اطمینان سے پانی بہا کر سڑک کو دھو گئی اور کئی روز نرمل کے کانوں میں ان عورتوں کے قہقہے ایک خوفناک شور بن کر گونجتے رہے، اور اس کی آنکھوں کے سامنے اس بوڑھے کی سفید داڑھی جو خود کے خون سے رنگین ہوگئی تھی، ایک بھیانک بگولہ بن کر پھڑپھڑاتی رہی۔ اور اسے ایسے معلوم ہوا کہ تمام ہندوستان کی عورتیں کسی ایسے خوفناک اور خونیں مذاق پر ہنس رہی ہیں جو اس کی سمجھ سے باہر ہے۔

    ہندوستانی عورتوں کی اصلی روح! ان کی شانت آتما! ان کی نزاکت! ان کی مامتا!

    نرمل کے بہت سے دوست مسلمان تھے مگر فساد کے دنوں میں وہ ان کے محلوں میں نہیں جا سکتا تھا۔ ایک دن اسے معلوم ہوا کہ اس کے ساتھی رپورٹر اور دوست حنیف کو سخت بخار اور سرسام ہو گیا ہے۔ نرمل سے نہ رہا گیا اور بھنڈی بازار پہنچ ہی گیا۔ جہاں ایک چال میں حنیف اکیلا رہتا تھا۔ کرافورڈ مارکیٹ پر سوائے نرمل کے تمام ہندو بس سے اتر گئے۔ وہ خود کوٹ پتلون پہنے ہوئے تھا اور اس کی وضع قطع سے یہ ہرگزنہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہندو ہے یا مسلمان یا عیسائی۔ رنگ گورا ہونے کی وجہ سے بعض تو اسے پارسی ہی سمجھتے تھے مگر پھر بھی جوں جوں بس بمبئی کے ’’پاکستانی‘‘ علاقے میں جارہی تھی، اس کا دل خوف اور پریشانی سے دھڑک رہا تھا۔ ایک بار تو اسے ایسا معلوم ہوا کہ اس کے برابر بیٹھا ہوا ہٹاکٹا ’’غنڈہ نما‘‘ مسلمان نوجوان اس کے دل کی دھڑکن سن کر سمجھ جائےگا کہ وہ ہندو ہے اور اپنی جاکٹ میں سے چھرا نکال کر اس کی کمر میں گھونپ دےگا۔ اسی طرح جیسے چرنی روڈ پر اس دبلے پتلے نوجوان کو ایک ہندو غنڈے نے ’’مشٹیک‘‘ سے مار ڈالا تھا۔ اور دفعتاً نہ جانے کیوں اس کی کمر کی ریڑھ کی ہڈی کے پاس کھجلی سی محسوس ہونے لگی اور ایک خیالی چاقو کا تیز پھل اس کی پسلیوں میں پیوست ہوتا گیا۔

    باٹلی والا اسپتال کے پاس وہ بس سے اترکر پٹری پر چلا تو اسے چاروں طرف سے قاتل ہی قاتل نظر آئے۔ وہ چھابڑی والا جو کیلے اور موسمبیاں بیچ رہا تھا، نہ جانے وہ کس وقت اپنا ترکاری کاٹنے کا چاقو ایک ہندو کی کمر میں پیوست کر دے۔ وہ خوفناک لال داڑھی والا پٹھان تو ضرور ایک ’’کافر بچے‘‘ کی تلاش میں ہوگا۔ پشت سے پتھریلی سڑک پر کھٹ کھٹ قدم قریب آتے ہوئے سنائی دیے۔ نرمل نے گھبرا کر مڑ کر دیکھا۔ کوئی برقعہ پوش عورت تھی۔ ایک لمحے کے لیے اس نے اطمینان کا سانس لیا ہی تھا کہ دفعتاً اسے خیال آیا کہ اس برقعہ میں کوئی ’’غنڈہ‘‘ ہی چھپا ہوا ہو۔ اور وہ تقریباً دوڑتا ہوا حنیف کی چال کی سیڑھیوں پر چڑھ گیا۔

    حنیف سرسامی کیفیت میں بےہوش پڑا تھا۔ نرمل کو اس کے پاس شام تک ٹھہرنا پڑا۔ جب حنیف کی حالت کسی قدر بہتر ہوئی اور اس نے واپس جانے کا ارادہ کیا، اسی وقت ایک سپاہی بھونپو میں پکارتا ہوا وہاں سے گزرا کہ شام کے پانچ بجے سے کئی علاقوں میں چوبیس گھنٹوں کا کرفیو لگا دیا گیا ہے، کوئی گھر سے نہ نکلے، کیوں کہ گشتی فوجیوں کو سرراہ چلنے والوں پر گولی چلانے کے احکامات دے دیے گئے ہیں۔ نرمل نے گھڑی دیکھی۔ پانچ بجنے میں دس منٹ تھے۔ اتنی دیر میں اس کا شیواجی پارک پہنچنا ناممکن تھا۔ چاروناچار اس نے رات حنیف کے کمرے میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔

    حنیف کا کمرہ کنارے پر تھا۔ ایک کھڑکی میں سے بڑی سڑک نظر آتی تھی، دوسری ایک گلی میں کھلتی تھی۔ سڑک پر بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ ہر کوئی جلد سے جلد اپنے گھر پہنچنے کی فکر میں تھا۔ نرمل نے دیکھا کہ ایک پوربی ’’دودھ والا بھیا‘‘ جس کی لمبی چوٹی دور دور سے پکار کر کہتی ہے کہ ’’میں ہندو ہوں‘‘ کندھے پر بہنگی، جس میں دودھ کی گڑویاں رکھی ہوئی ہیں، سراسیمہ نظروں سے ادھر ادھر آگے پیچھے دیکھتا ہوا چلا آ رہا ہے، اور اس چرنی روڈ والے واقعہ کی طرح نرمل کا پھر بے اختیار جی چاہا کہ چلا کر ’’دودھ والے بھیا‘‘ کو خطرے سے آگاہ کر دے۔ مگر اس بار پھر الفاظ اس کی زبان پرجم کر رہ گئے اور چشم زدن میں تین تگڑے تہمد بند جوانوں نے اس دبلے پتلے کالے پوربی کو گھیر لیا۔ 11’’کہاں جاتا ہے بےکافر کے بچے؟‘‘

    دودھ والے بھیا کی گھگھی بندھ گئی۔ اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ شاید اسے ان تینوں کی آنکھوں میں اپنی موت نظر آئی۔ وہ واپس مڑا۔ ادھر بھی غنیم کا ایک گروہ کھڑا ہوا اس کی طرف قاتلانہ نظروں سے گھور رہا تھا، ایک ہرن کی طرح جو ہر طرف شکاریوں سے گھر گیا ہو۔ اس نے ایک لمحے کے لیے مایوس آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر دفعتاً وہ اس گلی کی طرف بھاگا اور اس کے تعاقب میں پانچ شکاری کتے۔۔۔! نرمل بھاگ کر گلی والی کھڑکی کی طرف گیا۔ مگر ابھی وہ ادھر پہنچ نہ پایا تھا کہ دودھ والے بھیا کے خود اپنی بہنگی میں الجھ کر گرنے کی آواز آئی۔ پیتل کی گڑویاں ایک جھنکار کے ساتھ سڑک پر اوندھ گئیں اور ان کا دودھ ایک سفید نہر بن کر بہہ نکلا۔ جب نرمل نے کھڑکی میں سے دیکھا تو اس سفید دودھ میں پوربی کا سرخ خون مل چکا تھا۔

    ’’بھاگ کر جاتا تھا سالا۔‘‘ اور پھر نرمل نے برابر کے کمرے سے کسی عورت کے ہنسنے کی آواز سنی۔

    ’’اری او گل بانو! دیکھ تو سہی۔ ایک کافر ہماری گلی میں مارا گیا ہے۔۔۔‘‘ جیسے کوئی کہہ رہا ہو، ’’اری او گل بانو! مبارک ہو، ہماری گلی والوں نے آج کتنی بہادری کا کام کیا ہے۔۔۔‘‘ اور پھر تین چار جوان، ادھیڑ، بوڑھی عورتوں کی خوشی سے بھری ہوئی آوازیں،

    ’’اری اس کی چٹیا تو دیکھ۔‘‘

    ’’اچھا ہوا۔ یہ سب پوربئیے دودھ میں برابر کا پانی ملاتے ہیں۔ اب سزا ملی ہے۔‘‘

    ’’گرگام میں جو مسلمان مارے ہیں، ہمارے آدمی بھی ان میں سے ایک ایک کا بدلہ لیں گے۔‘‘

    اور پھر ان ہی میں سے کوئی عورت اندر گئی۔ اور گھر بھر کا کوڑا، ترکاری کے چھلکے، انڈوں کے خول، گوشت کے چھیچھڑے اور ہڈیاں گلی میں لوٹ دیا۔ عین وہاں جہاں مکھیوں نے پوربی بھیا کے دودھ اور خون پر بھن بھنانا شروع کر دیا تھا۔

    ہندستانی عورتوں کی اصلی روح، ان کی آتما! ان کی نزاکت! ان کی مامتا!

    سینڈھرسٹ روڈ والی عورتوں اور بھنڈی بازار والی عورتوں کے خونی قہقہے مل کر نرمل کے لاشعور پر ایک مہیب گونج بن کر چھائے ہوئے تھے۔ وہی گونج اسے اب تک اجنتا کے ان غاروں میں بھی سنائی دے رہی تھی۔ دھندلی پھیکی رنگ کی تصویروں میں اسے ہر دیوی، ہر اپسرا، ہر راج نرتکی، ہر عورت کے چہرے پر ایک شیطانی خوشی اور اس کی آنکھوں میں ایک قاتلانہ چمک نظر آئی اور نرمل کا دل ایک عمیق نفرت سے بھر گیا۔

    ’’میں ہر عورت سے نفرت کرتا ہوں۔‘‘ وہ سوچ رہا تھا، ’’ہر عورت سے یہاں تک کہ بھارتی سے بھی۔۔۔ بھارتی۔۔۔ جو اس سے محبت کرتی تھی اور جس سے مدت سے وہ بھی محبت کرتا تھا۔ بھارتی جو نرمل کو اور اس کی حساس طبیعت کو اپنی دولت کی پناہ میں رکھنا چاہتی تھی۔ جو بمبئی اور اس کے کشت و خوں کے ماحول سے نرمل کو تقریباً زبردستی بھگا کر اجنتا لے آئی تھی۔ محبت۔ نفرت۔ نفرت۔ محبت۔ ہم بھائی بھائی ہیں۔ ہم عاشق و معشوق ہیں۔ ہم دوست اور ساتھی ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے رشتے میں منسلک ہیں، مگر ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی کمر میں چھورا گھونپتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے پر پتھر پھینکتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں۔ ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’دیکھیے۔ یہ لاشیں دیکھیے۔ سر الگ اور دھڑ الگ۔‘‘ گائیڈ اپنی روں روں کیے جا رہا تھا۔ بولتے بولتے اس کو پسینہ آ گیا تھا مگر اس کی آواز نہ تھکتی تھی۔۔۔ اور بھارتی۔۔۔ نازک، نفاست پسند، حساس نرم دل بھارتی۔۔۔ غار کی دیوار پر تصویر ہی میں لاشیں دیکھ کر اس کے چہرے کا رنگ اڑا جا رہا تھا۔

    ’’اس ظالم راجہ نے سب کو قتل کر دیا ہے۔ سر کٹواکر لاشیں اس گڈھے میں پھنکوا دی ہیں چیلوں، گدھوں کے کھانے کے لیے۔۔۔‘‘ اور نرمل کے دماغ میں یہ غیرمتعلق خیال رینگتا ہوا چلا آیا کہ در اصل راجہ ظالم نہیں تھا بلکہ شاید اسے گدھوں، چیلوں کا بڑا خیال تھا۔ ان کو خوراک بہم پہنچانے کے لیے اس نے ان سب لوگوں کو مروا کر ان کی لاشیں یہاں ڈلوائی تھیں۔ اس کے ظلم میں کم سے کم مردار خور جانوروں کا تو بھلا تھا۔۔۔

    لاشیں۔۔۔!

    ستائیس ٹھنڈی، مسخ شدہ کالی اور نیلی لاشیں، جو ٹھنڈے پتھر کے فرش پر اس طرح بکھری ہوئی پڑی تھیں، جیسے فصل کٹنے کے وقت کسی کسان نے گیہوں کی بالیں کاٹ کر کھیت میں چھوڑ دی ہوں۔۔۔ جیسے مذبح خانے میں ستائیس بکروں کی کھال اتار کر ایک قطارمیں لگا رکھا ہو۔۔۔ جیسے۔۔۔ جیسے ستائیس انسانی لاشیں بکھری ہوئی ہوں!

    نرمل اخبار کے لیے رپورٹ لینے اسپتال گیا تھا اور وہاں اسے پتہ چل گیا کہ کس کمرے میں فساد کے مقتولین کی لاشیں پوسٹ مارٹم اور کورونر کے فیصلے کے لیے رکھی گئی ہیں۔ اس نے عمر بھر میں صرف ایک بار ایک لاش میڈیکل کالج کے سرجری وارڈ میں رکھی ہوئی دیکھی تھی۔ تب بھی تین وقت اس سے کھانا نہ کھایا گیا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی مردہ آنکھیں اس کا تعاقب کرتی رہی تھیں مگر یہاں ایک لاش نہیں ستائیس لاشیں رکھی تھیں۔ بوڑھے۔ جوان۔ بچے۔ سوکھے ہوئے جسم۔ کسی کی کمر میں گھاؤ۔ کسی کی آنتیں پیٹ سے باہر نکلی ہوئی۔ کسی کی گردن سے سر جدا۔ دھڑ کے قریب رکھا ہوا۔ کسی کا بھیجا پھٹے ہوئے سر میں سے باہر ابلتا ہوا۔ ان میں سے کون ہندو تھا؟ اور کون مسلمان؟ موت کی برادری میں سب ایک تھے۔ قاتل کی چھری نے سب کو برابر برابر لٹا دیا تھا۔ یہ ٹھنڈا پتھریلا فرش۔ یہ تھا ان کا پاکستان اور ان کا ہندوستان۔ یہ بیکار موت۔ یہ پتھرائی ہوئی آنکھیں۔ یہ سناٹا۔ یہ بےچارگی۔۔۔ یہ تھی ان کی آزادی۔ یہ تھا ان کا اسلام اور یہ تھا ان کا ویدک دھرم۔۔۔ جے جے مہادیو۔۔۔ اللہ اکبر!

    نرمل عملی سیاست سے ہمیشہ دور بھاگتا تھا۔ علاوہ اخبار کے کام کے جو وہ پیٹ کی خاطر کرتا تھا، وہ عمل کے میدان کا دھنی نہیں تھا۔ اس کی دنیا خیالات اور محسوسات کی دنیا تھی۔ پھر بھی فسادات شروع ہونے کے تیسرے دن ہی وہ اپنے محلے کے شانتی دل میں شامل ہو گیا تھا اور شاید اس لیے کہ اس کا تعلق ایک اہم روزانہ اخبار سے تھا اور شانتی دل ہو یا سیوا سماج ہو یا خدام وطن، ہر پبلک جماعت کو پبلسٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو کمیٹی کا ممبر بھی چن لیا گیا تھا۔ نرمل کا دوست اور ہمسایہ احمد جو ایک دوسرے اخبار میں سب اڈیٹر تھا، وہ بھی کمیٹی کا ممبر چن لیا گیا تھا۔ اس لیے کہ تمام شیواجی پارک کے علاقے میں وہی صرف اکیلا مسلمان تھا جو شانتی دل میں شامل ہوا تھا اور ایسی کمیٹیاں سرکاری منظوری نہیں حاصل کر سکتیں جب تک ان میں سب فرقوں کے نمائندے موجود نہ ہوں۔

    چند روز تک نرمل شانتی دل کی تنظیم کے کام میں مستغرق رہا۔ اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ فساد کے اثر سے اس پر جو ایک مہلک جمود اور گھٹے گھٹے غم اور بے بسی کی حالت طاری ہو گئی تھی وہ اب جاتی رہےگی۔ شانتی دل میں شامل ہو کر اس کو وہی وجد آفریں مسرت حاصل ہوئی جو ایک سپاہی کو طبل جنگ سن کر ہوتی ہے۔ یہ جنگ تاریکی اور روشنی کے درمیان تھی۔ غارت گری اور امن کے درمیان۔ وہ اس جنگ میں ایک سپاہی تھا۔ وہ شیطانی تعصبات اور درندگی کے خلاف جہاد میں شریک تھا۔ ممکن ہے کہ وہ اس جنگ میں کوئی کارہائے نمایاں نہ کر سکے مگر کم سے کم اس کو یہ تسلی تو تھی کہ وہ اپنا فرض ادا کر رہا ہے، کہ اس کی زندگی بالکل بےکار، بےمعنی اور بےمقصد تو نہیں ہو گئی ہے۔

    بھارتی نے کئی بار نرمل سے کہا، ’’چلو بمبئی سے باہر کہیں چلے چلیں۔ جب فساد ختم ہو جائےگا۔ تب آ جائیں گے۔‘‘ آگرہ، دہلی، کشمیر، اجنتا، ایلورہ، میسور، سیلون نہ جانے کہاں کہاں جانے کا لالچ دلایا، مگر نرمل کو ایسے وقت بمبئی چھوڑ کر باہر جانا پرلے درجے کی کم ہمتی اور بزدلی معلوم ہوئی۔ بھارتی نے لاکھ سمجھایا کہ اس جیسے حساس آرٹسٹ کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا، اس کی خدا داد ذہانت کی تحقیر تھی۔ مگر وہ نہ مانا۔ اور سوائے دفتر کے اوقات کے سارے دن اور رات کا بیشتر حصہ شانتی دل کے کام میں صرف کرتا رہا۔

    شانتی دل کا کام؟ نرمل سمجھا تھا کہ اس کا کام واقعی شانتی کا پرچار ہوگا۔ اس کا خیال تھا کہ شانتی دل کے ممبر گھر گھر جائیں گے اور لوگوں کو امن اور شانتی سے رہنے کی تلقین کریں گے۔ آپس کی فرقہ وارانہ منافرت کو دور کر کے یگانگت اور اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ شہر میں خود ان کے علاقے میں ہر دم ہر قسم کی افواہیں مشہور ہو رہی تھیں۔ ماہم کے مسلمان شیواجی پارک کے ہندوؤں پر حملہ کرنے والے ہیں۔ شیواجی پارک کے ہندو ماہم کے مسلمانوں پر حملہ کرنے والے ہیں۔ ہندو دودھ والے دودھ میں زہر ملاکر مسلمانوں کے ہاتھ بیچ رہے ہیں، مسلمان ترکاری والے بینگنوں اور موسمبیوں میں زہر کے انجکشن دے کر ہندوؤں کے ہاتھ بیچ رہے ہیں۔

    ایرانی ہوٹلوں کی چائے مت پیو، اس میں زہر ہے۔ ہندو حلوائی کی مٹھائی مت کھاؤ۔ اس میں زہر ہے۔ جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ اور تعصب اور نفرت کا ایک طوفان جس میں تمام شہر ڈوبا جا رہا تھا۔ نرمل اور اس کے دوست احمد کو امید تھی کہ شانتی دل کا پہلا کام ہوگا اس خونی سیلاب کو روکنا۔ مگر جلد ہی ان کو معلوم ہو گیا کہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ شانتی دل کا پہلا کام چندہ جمع کرنا۔۔۔ احمد کے ساتھ نرمل ہر کسی کے ہاں گیا۔ گنتی کے جو چند مسلمان تھے، انہوں نے مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

    ’’یہ شانتی دل کے پردے میں ہندو کیا کر رہے ہیں، ہم خوب جانتے ہیں۔۔۔ ہم نے بھی اپنی حفاظت کے لیے پٹھان رکھ لیے ہیں۔۔۔‘‘ بعض ہندوں نے کہا، ’’آپ کے نہتے والینٹیر ہماری حفاظت کیا خاک کر سکتے ہیں؟ ہم سکھ دربان رکھ رہے ہیں۔ اور پھر راز دارانہ لہجے میں، ’’سکھ کر پان رکھ سکتے ہیں، کیا سمجھے۔‘‘ خیر۔ چندہ جمع کیا گیا۔ بیس پہرے دار پچاس پچاس روپے ماہوار پر ملازم رکھے گئے۔ کمیٹی میں مسئلہ درپیش ہوا کہ ان کو کہاں کہاں ڈیوٹی پر لگایا جائے۔

    ’’ایک ایک آدمی ہر سڑک کے ناکے پر لگایا جائے۔‘‘

    ’’نہیں۔ یہ حماقت ہوگی۔ حملہ صرف تین طرف سے ہو سکتا ہے، یا ماہم کی طرف سے، یا ورلی کی طرف سے یا سمندر کی طرف سے، صر ف ان ناکوں پر پہرہ لگانا چاہیے۔‘‘

    ’’حملہ؟ کس کا حملہ۔۔۔؟‘‘

    ’’مسلمان اگر حملہ کریں گے تو اور کدھر سے حملہ کریں گے؟‘‘

    ’’پر ان پہرے داروں کا کام کیا ہوگا؟‘‘

    ’’ان سے کہہ دیا جائے کہ جیسے ہی کسی مسلمان غنڈے کو دیکھیں سیٹی بجا دیں تاکہ چاروں طرف سے لوگ جمع ہو جائیں۔‘‘

    ’’صرف مسلمان غنڈے؟ اور اگر ہندو غنڈے ہوں تو؟‘‘ نرمل نے یہ سوال کیا تو، مگر وہ احمد سے آنکھیں چار نہ کر سکا۔ کمیٹی کے جلسے کے بعد اس نے احمد سے کہا، ’’یہ تمہاری ہی ہمت ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کام کر سکتے ہو۔ مجھے تو یہ سب مہا سبھائی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ احمد نے کہا، ’’ایسے بیوقوفوں اور جاہلوں کی کمی دونوں طرف نہیں ہے۔ تم نہیں جانتے کہ ماہم کے مسلمانوں میں کیا کیا افواہیں مشہور کی جا رہی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شیواجی پارک میں شانتی دل کے نام سے ہندوؤں کی ایک فوج تیار کی جا رہی ہے۔ جو بہت جلد ماہم کے مسلمانوں پر شب خون مارےگی۔‘‘

    چندہ۔ والینٹیر۔ محافظ۔ وردیاں۔ سیٹیاں۔ جلسے۔ رزولیوشن۔ پولس کمشنر کے نام عرضیاں۔ مگر شانتی کا پرچار؟ اتحاد کا پروپیگنڈہ؟ ان کا نام نہیں تو پھر شانتی دل کا مقصد؟ اس دوڑ دھوپ سے فائدہ؟ مسلمان غنڈے۔۔۔ ہندو غنڈے۔۔۔ گھروں میں پتھر جمع کر کے رکھو۔ ’’میں نے تو دس لاٹھیاں چھپا رکھی ہیں۔ میرے ہمسائے کے پاس پستول ہے۔‘‘ شانتی! شانتی! شانتی!

    ’’یہ شانتی کا مہاساگر ہے، نرمل۔‘‘ بھارتی کہہ رہی تھی، ’’ اگر ہم آٹھ دس دن تک روز یہاں آکر کئی گھنٹے گزارا کریں تو مجھے یقین ہے کہ تمہارے بےچین دل کو ضرور شانتی ملےگی۔‘‘ اور گائیڈ کہہ رہا تھا، ’’آپ نے سب غار دیکھ لیے ہیں۔ اب ایک باقی رہ گیا ہے۔ مگر اس میں آپ کو دوسرے غاروں کی طرح سنگ تراشی اور مصوری کے نادر اور حسین نمونے نہیں ملیں گے۔ چھت، ستون، فرش، ہر چیز نامکمل ہے۔ اس غار کا کام ادھورا رہ گیا ہے۔۔۔‘‘

    ادھورا کام! وہ۔۔۔ نرمل۔۔۔ بھی تو بمبئی میں اپنے کام کو ادھورا چھوڑ کر چلا آیا تھا۔ بلکہ ادھورے سے بھی کم۔۔۔ ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ہار مان لی تھی۔

    شانتی دل کمیٹی کا آخری جلسہ۔

    نرمل نے شروع ہی سے یہ تجویز پیش کی تھی کہ بجائے معمولی ان پڑھ اور اجڈ دربانوں اور چوکیداروں کے آزاد ہند فوج کے سابق سپاہیوں کو معقول مشاہرے پر حفاظت کے لیے رکھا جائے کیونکہ وہ فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک اور بالا تھے۔ ان میں قومی خدمت کا جذبہ تھا اور وہ اپنی پرانی خدمات اور قربانیوں کی وجہ سے مدد کے مستحق تھے۔ شانتی دل کے سکریٹری نے اس جلسے میں بیان کیا کہ پرانے تمام پہرے دار علیحدہ کر دیے گئے ہیں اور ان کی بجائے چودہ آزاد ہند فوج کے سابق سپاہی رکھ لیے گئے ہیں۔ یہ سن کر نرمل کا حوصلہ بڑھ گیا۔ اسے ایسا معلوم ہوا کہ اب شانتی دل کا کام صحیح طریقے پر ہوگا۔ مگر ایک لمحے ہی میں اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔

    ایک بوڑھے مرہٹہ وکیل نے سوال کیا، ’’کیا یہ سچ ہے کہ آزاد ہند فوج کے ان سپاہیوں میں مسلمان بھی ہیں؟‘‘ سکریٹری نے کہا، ’’ہاں، مگر صرف ایک۔‘‘ ایک موٹے گجراتی سیٹھ نے کہا، ’’میرے حلقے میں اس بات پر بڑی بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔‘‘ ایک دبلے سوکھے مارواڑی نے کہا، ’’یہ تو گجب کی بات ہے۔‘‘ بوڑھے وکیل نے اونچی آواز میں کہا، ’’میں سکریٹری صاحب سے اس معاملہ میں جواب طلب کرتا ہوں کہ کیوں ایک مسلمان کو رکھا گیا۔‘‘ گجراتی سیٹھ نے اپنا فیصلہ سنایا، ’’اگر ایسا ہوگا تو ہم لوگ ایک پیسہ چندہ نہیں دیں گے۔‘‘ ایک پستہ قد ڈاکٹر نے کہا، ’’میرے حلقے کے لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر مسلمان۔۔۔‘‘ دبلے سوکھے مارواڑی نے کہا، ’’یہ ہماری استریوں کی اجت کا سوال ہے۔‘‘

    بوڑھے وکیل نے کہا، ’’میں جواب طلب کرتا ہوں۔۔۔‘‘ پریسیڈنٹ نے کہا، ’’خاموش۔ خاموش۔‘‘ سکریٹری نے کہا، ’’میں تو اس میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا۔ آزاد ہند فوج میں ہندو مسلمان کی تفریق نہیں کی جاتی۔ لیکن اگر کمیٹی کی رائے یہی ہے تو ہم کسی بہانے سے اس مسلمان سپاہی کو علیحدہ کر سکتے ہیں۔‘‘ سب نے بیک وقت شور مچایا، ’’ہاں ہاں۔ فوراً۔ ایک دم۔ اس کو رکھا ہی کیوں؟‘‘ صرف احمد خاموش بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ نہ جانے کیوں احمد کو اطمینان سے مسکراتے دیکھ کر نرمل کے صبر کا پیمانہ دفعتاً لبریز ہو گیا۔ اس کے دماغ کے اندر کی کوئی کلی دفعتاً تڑاخ سے ٹوٹ گئی۔

    ’’نہیں! نہیں!‘‘ وہ غیرمعمولی جوش سے چلایا۔ سکریٹری جو جلسے کی روئداد میں یہ الفاظ لکھنے میں مصروف تھا کہ ’’یہ تجویز بلا مخالفت پاس کی گئی کہ آزاد ہند فوج کے جن سابق سپاہیوں کو حفاظت کے لیے رکھا جائے، ان میں کوئی مسلمان نہ ہو۔۔۔‘‘ اپنی کرسی سے تقریباً اچھل پڑا۔ اس کے ہاتھ سے قلم گر پڑا اور سفید کاغذ پر جہاں اس تجویز کے الفاظ لکھے گئے تھے وہاں روشنائی کا ایک بڑا دھبہ پڑ گیا۔۔۔ نہیں! نہیں! نہیں!‘‘ جیسے اس ایک لفظ کے دس بار دہرانے سے باقی دس ممبروں کی رائے منسوخ ہو جائےگی، ’’ میں ایسی تجویز کی کبھی کسی حالت میں بھی موافقت نہیں کر سکتا۔‘‘

    نرمل کے الفاظ کی والہانہ شدت نے چند لمحوں کے لیے سب کو خاموش کر دیا۔ مگر اس خاموشی میں اسے اپنی آواز کھوکھلی اور بےمعنی معلوم ہوئی۔ ایسی تجویز ہمارے لیے باعث شرم ہوگی۔ ہم شانتی اور اتحاد کے نام لیوا ہیں۔ مگر ہم خود بدترین فرقہ وارانہ تعصب کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اگریہ تجویز پاس ہوئی تو میں اس معاملہ کو پریس اور پبلک کے سامنے رکھنا اپنا فرض سمجھوں گا۔ اور احمد مسکرائے جا رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’شاباش، بچے۔ مگر یہ سب بےکار ہے۔‘‘

    دبلے مارواڑی نے مخالف کی حیثیت سے کہنا شروع کیا، ’’مسٹر نرمل کو نہیں معلوم کہ ہم ہندو کتنے کھترے میں ہیں۔۔۔‘‘ گجراتی سیٹھ نے کہا، ’’ہم تو صاف بولیں گے۔ اگر مسلمان رہےگا تو ہم چندہ نہیں دیں گے۔‘‘ پستہ قد سیٹھ نے کہا، ’’ہم استعفیٰ دے کر ہندو مہاسبھا کے سورکھشن دل میں مل جائیں گے۔‘‘ مگر چالاک بوڑھے وکیل نے دوسروں کو ہاتھ کے اشارے سے خاموش کرتے ہوئے نرمل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’مسٹر نرمل ایک بات بتائیے، یہ ہندوعلاقہ ہے۔ اگر یہاں پہرہ دیتے ہوئے اس بیچارے مسلمان سپاہی کو کچھ ایسا ویسا ہو گیا تو کون ذمہ دار ہوگا؟ آپ!‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے گجراتی سیٹھ اور پستہ قد ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر آنکھ ماری، گویا کہہ رہا ہو کہ دیکھا میرا قانونی پینترا۔ ایسے ایسے لونڈے میں نے بہت دیکھے ہیں۔۔۔ احمد نے مسکرا کر نرمل کی طرف دیکھا اور نظروں میں کہا، ’’میں نے کہا نہیں تھا کہ کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔۔‘‘

    تجویز پاس ہو گئی۔ نرمل بپھرا ہوا خاموش بیٹھا رہا۔ وہ بہت کچھ کہہ سکتا تھا۔ دعوے۔ دلائل۔ منطق۔ سیاست۔ مگر اسے معلوم ہو گیا کہ اس تعصب اور جہالت کی دیوار پر سر پٹخنا لاحاصل ہے۔ اس کے چاروں طرف آوازوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا رہا۔ تجویزیں پاس ہوتی رہیں۔ بحث مباحثے ہوتے رہے۔ حسب معمول مختلف ممبروں اور عہدے داروں میں سخت کلامی بھی ہوتی رہی۔ مگر نرمل نے کچھ کہا نہ سنا۔

    اس کا دماغ خوفناک خیالات اور مناظر کا اسٹیج بنا ہوا تھا۔ کلکتہ۔ بمبئی۔ احمد آباد۔ نواکھالی۔ بہار۔ قتل۔ خون۔ خون کی ندیاں۔ خون کے دریا۔ خون کا سمندر۔ نفرت اور تشدد۔ تعصب اور نفرت۔ عورتوں کی بے حرمتی۔ بچوں کی لاشیں۔ لاشوں کے پہاڑ۔ ایک خونیں آسمان کی طرف لپکتے ہوئے ہزاروں شعلے۔۔۔ اور ایک کلدار ہتوڑے کی طرح یہ خیال اس کے دماغ پر چوٹ لگاتا رہا کہ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ شیواجی پارک شانتی دل کے ممبر آزاد ہند فوج کے ایک مسلمان سپاہی کو اپنی حفاظت کے لیے رکھنے کو تیار نہیں ہیں۔۔۔

    اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ آزاد ہند فوج کے شاندار تاریخی کارنامے بےکار تھے۔ تمام جنگ آزادی بے کار تھی۔ تمام دیش بھکتوں اور شہیدانِ وطن کی قربانیاں بےکار تھیں۔ تمام قومی نعرے، تمام قومی تحریکیں، تمام قومی لیڈر، ہر شخص بےکار تھا۔ ہر چیز بے کار تھی۔ شیواجی پارک شانتی دل بےکار تھا۔ اس سلسلے میں نرمل کا کام بےکار تھا۔ اس کا بمبئی میں رہنا بےکار تھا۔ اس کی زندگی ہی بےکار تھی۔۔۔ اس لیے کہ ہندو اور مسلمان کے ٹھپے آزادی اور ہندوستان سے زیادہ اہم ثابت ہوئے تھے۔

    اسے شانتی دل کمیٹی کے وہ سب ممبر اس وقت تعصب اور نفرت اور خطرناک جہالت کے دیوتا معلوم ہوئے جو اپنی آتشیں آنکھوں سے اس کو گھور رہے تھے۔ جو اسے بھسم کر لینے کے لیے اس کی طرف بڑھے آ رہے تھے۔ وہی دس نہیں، بلکہ ہر طرف سے لاکھوں راکششوں کے دل کے دل اس کی طرف بڑھے آرہے تھے۔ ان میں چوٹی والے بھی تھے اور داڑھی والے بھی۔ ہندو بھی اور مسلمان بھی، بنگالی، بہاری، مرہٹہ، گجراتی، پنجابی، پوربی پٹھان اور سب اس کے خون کے پیاسے۔

    ’’بھاگ!‘‘ نرمل کے دھڑکتے ہوئے دل نے اسے للکارا۔

    ’’بھاگ!‘‘ اور نرمل نہ صرف جلسے کے ختم ہونے سے پہلے ہی شانتی دل کے دفتر سے بھاگا بلکہ ایک دن بھارتی کے ساتھ بمبئی سے بھی بھاگ آیا۔

    ’’کہاں چلیں؟‘‘ بھارتی نے پوچھا۔

    ’’جہاں یہ قتل و خون نہ ہو، جہاں اخبار نہ ہو، ریڈیو نہ ہو، جہاں ہندو نہ ہوں، مسلمان نہ ہوں، جہاں چاقو، چھریاں، برچھے، بھالے، تیزاب، غنڈے، موالی نہ ہوں۔ دور۔۔ دنیا اور زندگی سے دور۔۔۔!‘‘ اور بھارتی نے سوچ کر کہا، ’’اجنتا؟‘‘

    احمد نرمل کو چھوڑنے اسٹیشن پر آیا۔ گاڑی چلنے لگی تو اس نے کہا، ’’اچھا ہے، چند روز کے لیے تبدیل آب و ہوا کر آؤ۔ مگر اگلے اتوار کو شانتی دل کا جلسہ ہے جس میں چند تجویزیں پیش کرنے والا ہوں، اس میں تمہاری موجودگی ضروری ہے۔‘‘ اور جب نرمل نے کہا، ’’میں اب شانتی دل کے جلسے میں کبھی نہ جاؤں گا۔‘‘ تو احمد نے چلتی ریل کے ساتھ بھاگتے ہوئے کہا تھا، ’’تم اس کام کو ادھورا چھوڑ کر نہیں بھاگ سکتے، نرمل۔‘‘

    ’’ادھورا کام!‘‘

    ہنہ۔ یہ اجنتا کے سنگ تراش اور مصور۔ یہ بھی تو اس آخری غار کو ادھورا ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ نہ جانے کیوں۔ کیا واقعہ پیش آیا کہ آٹھ نو سو برس تک درجنوں نسلوں کی مسلسل محنت کے بعد اس غار کو وہ ادھورا چھوڑنے پر مجبور ہو گئے؟ تمہارا کیا خیال ہے، بھارتی۔۔۔ پر بھارتی وہاں نہیں تھی۔ نہ گائیڈ تھا۔ کوئی نہیں تھا۔ نرمل کی آواز غار کی پتھریلی دیواروں سے ٹکراتی ہوئی، غلام گردش میں گھوم کر پھر واپس لوٹ آئی۔ شاید وہ اس اندھیرے، ادھورے غار کے کسی کونے میں اپنے خیالات میں گم ہو گیا تھا اور بھارتی اور گائیڈ یہ سمجھ کر باہر چلے گئے تھے کہ ممکن ہے وہ تنگ آکر واپس چلا گیا ہو۔ اس کو اس غارمیں گھومتے کافی عرصہ ہو گیا ہوگا کیوں کہ دروازے کے باہر جو سامنے والی سرسبز پہاڑی نظر آتی ہے، وہ کالی پڑ چکی تھی، شاید آفتاب غروب ہو چکا تھا۔۔۔ ایک بڑھتی ہوئی گھٹن کی طرح غار میں اندھیرا چھایا جا رہا تھا۔

    نرمل باہر جانے کے لیے قدم بڑھا ہی رہا تھا کہ اس نے ایک مشعل کو اپنی طرف آتے دیکھا اور وہ یہ دیکھ کر متحیر رہ گیا کہ جو کوئی بھی یہ مشعل لیے آ رہا تھا وہ غار کے تنہا دروازے سے داخل نہیں ہوا تھا بلکہ مخالف سمت سے آ رہا تھا۔ پھر اس نے سوچا کہ شاید گائیڈ اسے ڈھونڈتے ہوئے غار کے کسی دوسرے اندھیرے کونے میں چلا گیا ہو اور اب لوٹ رہا ہو۔ مگر اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، جب اس نے دیکھا کہ مشعل ہاتھ میں لیے ہوئے جو آدمی گیروے رنگ کی کفنی پہنے ہوئے آیا تھا اس کو کسی کی تلاش نہیں تھی۔ اس نے ایک ادھورے ستون کے سہارے مشعل لگا دی اور اپنی کفنی کے کسی جھول میں سے ایک چھینی اور ایک ہتھوڑا نکال کر پتھر کو چھیلنے لگا۔ نرمل اس کی طرف بڑھنے والا ہی تھا کہ اس نے دیکھا کہ ویسی ہی گیروے رنگ کی کفنیاں پہنے منڈے ہوئے سر کے درجنوں بھکشو مشعلیں لیے غار کے اندھیرے عقب میں سے نکلے چلے آ رہے ہیں۔

    ان میں سے کسی نے بھی نرمل کی طرف توجہ نہیں دی۔ سب اپنی اپنی چھینیاں اور ہتھوڑے نکال کر چھت اور دیواریں چھیلنے یا ستونوں کو گول بنانے میں مصروف ہو گئے۔ چند دیوار پر مٹی کا لیپ کر کے اس کی سطح ہموار بنا رہے تھے تاکہ جب دیوار اکھڑ جائے تو مصور اپنی تصویروں کے رنگین نقوش بنا سکیں اور غارپتھر پر لوہے کی چوٹ پڑنے کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ چند منٹ تو نرمل اس پُر حیرت منظر کو دیکھتا رہا۔ پھر اس سے نہ رہا گیا اور وہ اس سنگ تراش بھکشو کے پاس گیا جو سب سے پہلے غار میں داخل ہوا تھا۔

    ’’معاف کیجیے، میں آپ کے کام میں مخل ہو رہا ہوں، مگر مجھے آپ لوگوں کو مصروف دیکھ کر بڑا تعجب ہو رہا ہے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’اس لیے کہ میں سمجھتا تھا کہ اس غار کی تعمیر ادھوری ہی ہے، اور یہ ادھورا ہی رہےگا۔‘‘

    ’’دنیا کی تعمیر بھی ادھوری ہے، انسان بھی ادھورا ہے۔ مگر ان کی تکمیل ہونی چاہیے۔‘‘ اس جواب کو نرمل کچھ سمجھا اور کچھ نہ سمجھا۔ پھر اس نے پوچھا، ’’آپ کب سے کام کر رہے ہیں؟‘‘

    ’’نو سو برس سے۔‘‘

    ’’نو سو برس؟ آپ کا مطلب ہے کہ آپ کی عمر۔۔۔‘‘

    ’’میں اور مجھ سے پہلے میرا باپ اور اس سے پہلے اس کا باپ اور اس سے پہلے اس کا باپ۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اور اس کے بعد تیسری نسل۔ آتما کے چکر کی طرح کام کا چکر تو چلتا ہی رہتا ہے۔‘‘

    ’’آپ کا نام؟‘‘ نرمل نے بات چیت کو ذاتی رنگ دینے کی کوشش کی۔

    ’’میرا نام؟ کچھ نہیں۔ ہم سب بے نام ہیں۔‘‘ اور نرمل کو یاد آیا کہ اس نے ان تمام غاروں میں کسی سنگ تراش یا کسی مصور کا نام کھدا ہوا یا لکھا ہوا نہیں دیکھا تھا۔

    ’’پھر آپ کس لیے اتنا کام کرتے ہیں؟‘‘

    ’’کام کسی غرض سے نہیں کیا جاتا۔ انسان کام سے اپنی پیدائش کا مقصد پورا کرتا ہے۔‘‘

    ’’تو یہ کام کب ختم ہوگا؟‘‘

    ’’کون جانتا ہے۔‘‘

    ’’اس غار کو۔۔۔‘‘

    ’’پورا ہونے میں دو سو برس لگیں گے۔ اس کے بعد دوسرا غار اور اس کے بعد تیسرا۔۔۔‘‘

    ’’تو کیا اجنتا کی تکمیل کبھی نہ ہوگی؟‘‘

    ’’ہوگی۔۔۔ جب انسان کی تکمیل ہوگی۔‘‘ نرمل کی شک پرستی اس کی حیرت پر غالب آئی اور اس نے کسی قدر تلخی سے پوچھا، ’’مہربانی کرکے مجھے سمجھائیے کہ ہزاروں برس سے جو آپ جیسے ہزاروں آدمی اتنی محنت کر رہے ہیں، یہ کیوں اور کس لیے؟ یہ پہاڑ کی گود سے ترشے ہوئے غار، یہ مجسمے، یہ تصویریں، یہ صناعی، یہ مصوری؟ یہ کیوں اور کس لیے؟‘‘ اس کی آواز میں تلخی کے بجائے جوش اور غصہ آتا گیا، ’’بہتر ہوتا کہ اتنی محنت پتھروں میں گلکاری کرنے کے بجائے انسانوں کو انسان بنانے میں صرف کی جاتی، تاکہ آج وہ ایک دوسرے کا خون نہ کرتے ہوتے۔ آپ لوگوں نے سنگ تراشی اور مصوری کے یہ جادو گھر ہمیں دھوکا دینے کے لیے بنائے ہیں۔ یہ غار دنیا سے، اصلیت سے، سچائی سے فرار سکھانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔‘‘

    سنگ تراش بھکشو کے چہرے پر ایک عجیب پرسکون مسکراہٹ تھی۔ جس میں تلخی کا شائبہ بھی نہ تھا، صرف محبت اور رحم اور عمیق ادراک۔ اس نے اپنے کام سے نظر ہٹائے بغیر سر ہلا کر نرمی سے کہا، ’’نہیں۔‘‘ نرمل کو اس آدمی کی مسکراہٹ، اس کے صبر و سکون پر غصہ آ رہا تھا۔ اس نے چلا کر کہا، ’’تو پھر اجنتا کا کیا مقصد ہے؟ اجنتا کا کیا پیغام ہے؟‘‘

    ’’سنو۔‘‘ اور صرف اتنا کہہ کر وہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ غارمیں مکمل خاموشی تھی صرف پتھر پر لوہا پڑنے کی آواز۔ نرمل منتظر رہا کہ بھکشو اس کو اجنتا کا فلسفہ، اجنتا کا پیغام سنائےگا، مگر اس کی زبان سے ایک لفظ نہ نکلا۔ صرف اس کی چھینی کی کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ اور پتھر کے پتلے پتلے پتر چھل کر فرش پر گرتے رہے۔

    ’’تو کیا تم نہیں بتاؤگے کہ اجنتا کا پیغام۔۔۔؟‘‘ مگر دفعتاً نرمل کے اندھیرے دماغ میں سمجھ کی ایک کرن چمکی اور اس کی زبان پر جملہ ادھورا رہ گیا۔ غار میں مکمل خاموشی تھی، صرف پتھر پر لوہے کی چوٹ پڑنے کی آواز۔ یہی تھا اجنتا کا پیغام، جسے وہ بھکشو نرمل کو سنانا چاہتا تھا۔ نرمل کی آنکھوں میں سمجھ کی نئی چمک دیکھ کر وہ راہب اپنی معصوم ادا سے مسکرایا، اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور نرمل کو ایسا معلوم ہوا جیسے اسے دفعتاً دنیا کا سب سے بڑا خزانہ مل گیا ہو۔ آب حیات۔ اکسیر۔ اس قیمتی نسخے کے سامنے ہر چیز ہیچ تھی۔ اسے اجنتا کا پیغام مل گیا تھا۔ نہ جانے کب تک وہ اس غار کے کونے میں بیٹھا ہوا پتھر پر لوہے کی چوٹ پڑنے کی آوازوں کو سنتا رہا۔ کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ۔ اور ہر بار جب لوہے کی چھینی پتھر کی دیوار پر پڑتی تھی، نرمل کو معلوم ہوتا کہ وہ زبانِ حال سے کہہ رہی ہے۔

    عمل! عمل! عمل! کام! کام! کام! محنت! محنت! محنت!

    عمل سے پتھر موم کی طرح چھیلا جاتا ہے۔ عمل سے پہاڑ کی چٹانیں کاٹی جاتی ہیں۔ عمل سے پتھر میں گلکاری کی جاتی ہے۔ عمل سے تصویروں میں زندگی کا رنگ بھرا جاتا ہے۔ عمل سے انسان انسان بنتا ہے۔ عمل ہی عبادت ہے۔ عمل خود عمل کا انعام ہے۔۔۔

    کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ

    پتھر پر لوہے کی چوٹ پڑنے کی آواز۔ آج نہیں تو کل، سوبرس میں نہیں تو ہزار برس میں، یہ پتھر ضرور چھل کر، ترش کر سنگ تراشی اور مصوری کے نادر نمونے بنیں گے۔ ایک دو کے ہاتھوں نہیں، ہزاروں مل کر ان کو تراشیں گے۔ نسلوں کے بعد نسلیں اس کام کو جاری رکھیں گی۔ یہ کام کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اس کی منزل کمال فن ہے۔

    کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ

    پتھر پر لوہے کی چوٹ پڑنے کی آواز۔ آج نہیں تو کل، سوبرس میں نہیں تو ہزار برس میں، انسان کی فطرت کے پتھر چھل کر، ترش کر، حسن اور خوبصورتی، فن اور علم کے نادر نمونے ضرور بنیں گے۔ ایک دو کے ہاتھوں نہیں، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں، تمام انسان مل کر ان کو تراشیں گے۔ نسلوں کے بعد نسلیں اس کام کو جاری رکھیں گی۔ اس کی منزل تکمیل انسانیت ہے۔

    کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ

    پتھر پر لوہے کی چوٹ پڑنے کی آواز۔ نرمل نے دیکھا کہ راہب اپنے کام میں اتنا مستغرق تھا کہ اسے معلوم بھی نہ ہوا کہ کب ہتھوڑے کی چوٹ اس کے انگوٹھے پر پڑی۔ زخم سے لال لال لہو کی بوندیں ٹپک کر پتھریلی فرش پر گر رہی تھیں۔ اور دفعتاً نرمل کو وہ تمام تصویریں یاد آ گئیں جو اس نے ان تمام غاروں میں دیکھی تھیں۔ ہزاروں برس کے بعد بھی کتنے تازہ، کتنے شاداب تھے ان کے رنگ۔ اور نہ جانے کیوں نرمل نے سوچا کہ ان تصویروں کی لالی میں انسان کے خون کا رنگ ہے۔ جبھی تو وہ اتنی جیتی جاگتی ہیں۔ جبھی ان میں اتنی زندگی ہے۔۔۔

    شاید وہ سو گیا۔ شاید وہ اپنے خیالات میں کھو گیا۔ جب اس کو ہوش آیا تو غار طلوع آفتاب کی دھیمی دھیمی ترچھی کرنوں سے روشن ہو رہا تھا۔ مگر ہر طرف سناٹا تھا۔ نہ وہ سنگ تراش تھے۔ نہ مصور۔ نہ مشعلیں۔ تو کیا اس نے خواب دیکھا تھا۔۔۔؟ شاید۔۔۔ کتنا عجیب خواب!

    اس نے سوچا، ’’ہاں۔ خواب ہی ہوگا۔ رات بھر اس ماحول میں گزار کر کوئی تعجب نہیں کہ میرے تخیل نے ایک کیفیت پیدا کر دی ہو۔‘‘ مگر باہر جاتے وقت جب وہ اس ستون کے قریب سے گزرا جس کو اس کے خواب والا راہب تراش رہا تھا، تو اس نے دیکھا کہ ستون پرایک پھول کھدا ہوا ہے جو کل نہیں تھا۔ یا شاید یہ بھی اس کا واہمہ ہی ہو۔ پھر کچھ یاد آکر اس کی نظریں فرش پر گئیں۔ وہاں سرخ موتیوں کی طرح تازہ خون کی کئی بوندیں پتھر پر بکھری ہوئی تھیں۔

    نرمل بھارتی سے ملے بغیر اسٹیشن پہنچ گیا۔ اگلے دن اتوار تھا اور اسے شانتی دل کے جلسے میں احمد کی تجویزوں کی حمایت کرنے کے لیے پہنچنا ضروری تھا۔ بمبئی سے، فساد سے، زندگی سے، کوئی قرار نہیں تھا۔ ریل میں ایک ہم سفر نے پوچھا، ’’آپ شاید اجنتا ہو کر آ رہے ہیں؟‘‘

    اور نرمل نے جواب دیا، ’’جی نہیں۔ میں اجنتا کی طرف جا رہا ہوں!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے