لکیر
آج سورج غروب ہونے سے پہلے بادلوں بھرے آسمان پر عجب طرح کا رنگ چھا گیا تھا۔ یہ رنگ سرخ بھی تھا اور زرد بھی۔ ان دونوں رنگوں نے آسمان کودرمیان سے تقسیم کر دیا تھا۔ جس مقام پر دونوں رنگ مل رہے تھے، وہاں ایک گہری لکیر دکھائی دیتی تھی۔ دھیان سے دیکھنے پر محسوس ہوتا کہ لکیر کے آس پاس کچھ سفید سائے ابھر رہے ہیں۔ سفید سایوں میں جب حرکت ہوتی تویہ رنگ اور بھی گہرا ہونے لگتا اور پوری فضا پرخوف وہراس طاری ہو جاتا۔ آج سے پہلے اس قصبے کے آسمان پر کبھی سفید سائے سرخ اور زرد رنگ بکھیر نے میں کامیاب نہیں ہو پائے تھے، مگر آج۔۔۔
اس خوفناک شام کی صبح ایسی نہیں تھی۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ سویرے سے ہی بادل چھائے ہوئے تھے مگر ابھی تک ابرکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کسی سائے نے نواس نہیں کیا تھا۔ سائے جو بظاہر سفید تھے مگر باطن میں سیاہی چھپائے پچھم کی جانب سے ابھر کر دھیرے دھیرے آکاش کے پوربی حصے پر پائوں جمانے لگے تھے۔ سفید سایوں کے آکاش پر چھانے سے پہلے، بادلوں کے ٹکڑے آپس میں کھیلواڑ کرتے کرتے ایک دوسرے میں مدغم ہو جانے کی کوشش بالکل اس طرح کر رہے تھے جیسے بستی کے ہندو مسلمان، پنڈت برج کشور کے انتہائی جتن کے بعد، بھید بھائو کی لکیروں کوپھلانگ کر، ایک دوسرے میں سماتے جا رہے ہوں۔
بھادوں لگے سات دن گزر گئے ہیں، کل کرشنا اشٹمی ہے۔ لہٰذا شام ہی سے مندر کو سجایا جا رہا تھا۔ مندر کے بیچ والے کمرے میں چمکیلے رنگین کپڑوں میں لپٹے جھولے پر پڑے چھوٹے سے کھٹولے میں رکھی کرشن بھگوان کی مورتی کو بڑی عقیدت سے سجایا گیا تھا۔ رات بارہ بجے کرشن بھگوان کا جنم ہوگا، اس کی خبر علاقے کے ہندومسلمان سبھی کو تھی۔ اس بار حمید بڑی بے چینی سے جنم اشٹمی کا انتظار کر رہا تھا۔ حمید، فقیر محمد کا لڑکا تھا اور مسجد کے مکتب سے بھاگ کر اپنے پڑوسی پنڈت برج کشور کی پاٹھ شالا میں پڑھنے بیٹھ گیا تھا۔ پنڈت برج کشور بھی اسے سبھی بچوں سے زیادہ پیار کرتے تھے اور کنہیّا کہہ کر پکارتے تھے۔ جنم اشٹمی کے انتظار میں اس کے اندر بہت سے خواب کرشن بن کر جنم لے رہے تھے اور وہ ان کو خیالوں کے ہنڈولے میں بٹھا کر جھولا جھلا رہا تھا۔
’’نہیں حمیداتنے لمبے پینگ نہیں۔۔۔‘‘ اس روز کسم نے کہا تھا اور پھر حمید نے جھونٹے دینے بند کر دیے تھے۔ کسم پنڈت برج کشور کی لاڈلی بیٹی تھی۔ وہ نیم کی ڈال پر پڑے جھولے سے اتری تو حمید نے کرتے کے چاک کی جیب سے نبولیاں نکال کر اسے دے دیں۔ پکی نبولیاں کھانے کا اسے اتنا ہی شوق تھا جتنا حمید کو بانسری بجانے کا۔۔۔ بانسری کی آواز سن کر پنڈت برج کشور نے گھوم کر دیکھا۔ کسم پیتل کی گگری میں پانی بھررہی تھی اور حمید آنکھیں بند کیے کنویں کے من پر بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ پنڈت جی مسکراتے ہوئے اٹھے اور کنویں کے پاٹ پر پہنچ کر حمید کے سرپر ہاتھ رکھ دیا۔
’’تو سچ مچ کنہیا ہے۔۔۔ بالکل کنہیا۔ اب کے جنم اشٹمی پر تجھے ہی کرشن بناکر ڈولے پر بٹھائوں گا۔‘‘
حمید کو لگا کہ وہ کرشن بن کر ڈولے پر بیٹھا مرلی بجا رہا ہے۔ ڈولے کے چاروں طرف پنہارنیں، ماکھن والیاں اور جوگنیں گھیراڈالے کھڑی ہیں۔ اس کی نظریں بھیڑ کو چیرتی ہوئی کسم کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ وہ غور سے دیکھتا ہے، بہت سی عورتیں دوپٹے اوڑھے اورریشمی غرارے پہنے جازم پر بیٹھی میلا دپڑھ رہی تھیں۔ کسم اماں جان کے پاس ہی بیٹھی تھی۔ کئی عورتیں جب ایک ساتھ میلاد پڑھتی ہیں توساتھ ساتھ کسم کے ہونٹ بھی ہلتے نظر آتے ہیں۔ کسم کے ہونٹ ہل رہے ہیں، حمید کے ہونٹوں پر مرلی دھری ہے۔ مرلی بج رہی ہے یا کسم میلاد پڑھ رہی ہے؟ معلوم نہیں۔ ہاں ایک شور ہے۔ اس کے اندر اس کے باہر۔ بچوں کا شور۔ شاید چھٹی ہو گئی ہے۔ بچے شورمچاتے اپنے اپنے گھر جا رہے ہیں، وہ چونکا اور پنڈت برج کشور کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ پنڈت جی مندر کے اس کمرے میں گئے جہاں کرشن بھگوان کی مورتی ہر وقت ہونٹوں پر مرلی دھرے رہتی ہے۔ حمید دروازے پر جاکر رک گیا اور مورتی کو گھورنے لگا۔ پنڈت جی نے جل چڑھایا آرتی اتاری اور پھر وہ آنکھیں بند کر کے پوجا کرنے لگے۔ حمید بھی پرارتھنا کر رہا تھا۔
’’اللہ میاں جلدی سے جنم اشٹمی آئے اور میں مکٹ پہن کر کہنیا بنوں اور بانسری۔۔۔‘‘
اس کا داہنا پائوں بائیں پیر کو پار کرکے پنجے کے بل ٹک گیا۔ جی چاہا کہ مورتی والی بانسری لے کر اپنے ہونٹوں پر رکھ لے۔ اس کا دل بےچین تھا۔ کہیں سے گڑگڑاہٹ کی آواز آ رہی تھی۔ پھر اس نے ایک دن اوپر دیکھا تو آسمان پر بادل گرج رہے تھے۔ بارش کے آثار ہیں۔ آخر کنہیا جی کے لتے دھلنے ہیں، کل جنم اشٹمی ہے۔ حمید کی بے چینی دور ہوئی، آخر وہ دن آہی گیا جس کا اسے سال بھر سے انتظار تھا۔
اب رات ہو چکی تھی۔ اس کی آنکھوں کی نیند کرشن بھگوان کی مرلی کے سربن کر بجنے لگی۔ مرلی بجتی رہی اوروہ کسم کے سنگ رات بھر مندرکے احاطے میں جمنا کی لہروں کی طرح اچھلتا کودتا رہا۔ مندرکی عمارت اور پاٹھ شالا کے علاوہ احاطے میں ایک دالان بھی تھا، جس کی چھت بہت اونچی تھی۔ چارپہیوں کارتھ نما ایک ڈولا جولکڑی کا بنا تھا مگر پیتل کی نقشیں پتریں جڑی ہونے کی وجہ سے پیتل کا معلوم ہوتا تھا، اسی دالان کے ایک کونے میں رکھا تھا۔ حمید کھیلتے کھیلتے ڈولے کے بیچوں بیچ بنی کرسی پرجا بیٹھا۔ اسے لگا کہ یگ بیتتے جا رہے ہیں۔ وہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی انگلی پرایک چکر ہے جو تیزی سے گھوم رہا ہے۔ اس کا وجود کائنات کے ذرّے ذرّے میں سماتا جا رہا ہے۔ آنکھیں کھلی ہیں۔ وہ سنسار کی ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے۔ سورج کی شعاعو ں کو، تاریک اورسیاہ راتوں کو۔ پھردھیرے دھیرے رات اس کی آنکھوں میں اترنے لگی اور جب بیل گلے میں بندھے گھنگھرو بجاتے کھیتوں کی جانب چل دیے اور مندر کے گھنٹے اور مسجد کے موذن نے صبح کا اعلان کر دیا تو حمید پنڈت برج کشور کی گود میں جاکر سو گیا۔ حمید کا رات بھر گھر سے غائب رہنا، دو دو تین تین دن تک غائب رہنا، فقیر محمد کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ رہس ہو، کرشن کتھا ہو یا راس لیلا، حمید گھر سے غائب۔ جنم اشٹمی پر بھی لوگ رات بھر مندرمیں جمع رہتے، مندر کو سجایا سنوارا جاتا اور آدھی رات کو کرشن بھگوان کے جنم کی رسم ادا ہوتی۔ حمید بھی پچھلے کئی سال سے کُسم سے کھیلتے کھیلتے مندر میں ہی رہ جایا کرتا۔
رات کے دوسرے پہر کی رخصت اور تیسرے پہر کی آمد کا اعلان پنڈت برج کشور نے شنکھ بجا کر کیا۔ تھال میں سجا پرساد بھگوان کی مورتی کے سامنے رکھا تھا۔ پنڈت جی نے دیکھا کہ چاند آسمان پر پائوں جما چکا ہے۔ کبھی کبھی بادلوں کے ٹکڑے گھونگھٹ بن کر چاند کے چہرے کو چھپا لیتے ہیں۔ چاند نکلنے کی کوشش کرتا ہے پھر چھپ جاتا ہے گویا ننھے کشن گوپیوں سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں۔ مندر میں جمع لوگ کیرتن ختم کرکے برت کھولنے کے لیے جل سے بھرے پیتل کے لوٹے میں لونگ، بتاشے اور پھول ڈالتے ہیں اور پھر چاند کی طرف رخ کر کے دھرتی پر جل گراتے ہیں۔ جل دھرتی پر گر رہا ہوتا ہے لیکن ان کی شردھا سوکھے اورپنجر چاند کو سینچ رہی ہوتی ہے۔ حمید سب سے پہلے پرساد لینے کی کوشش میں بھیڑ کو چیر کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ پنڈت جی اس کے چہرے پر چاند کی سی چمک دیکھتے ہیں اور اس کے ہاتھ پر پرساد رکھ دیتے ہیں۔ کسم اس کے برابر کھڑی ہے۔ وہ کسم کو اپنے حصے کا پرساد دے دیتا ہے اور وہ مٹھی بند کرکے آنکھیں موند لیتی ہے۔
’اماں جان نے بڑے پیار سے کسم کو میلاد کا تبرک دیا ہے۔ کسم دونوں ہاتھوں میں تبرک لیے آنکھیں موندے کھڑی ہے۔ حمید بھی اس کے برابر کھڑا ہے۔‘
’’کھائو کسم، پرساد کھائو، کنہیا جی کے جنم کا پرساد ہے۔‘‘
وہ آنکھیں کھول کر حمید کی طرف دیکھتی ہے۔ حمید پھر کہتا ہے۔
’’کھائو۔ جانتی ہوکل کیا ہوگا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ وہ کہتی ہے، ’’کنہیا جی کے ڈولے کا گشت ہوگا۔‘‘
’’کسم پتا ہے اس بار ڈولے پرکشن بن کر کون بیٹھےگا؟‘‘
وہ حمید کی آنکھوں میں جھانکتی ہے اورجانے کیا سوچ کر ہنس پڑتی ہے۔۔۔ کسم کی ہنسی فضا میں تیرنے لگتی ہے اور پھر اس کے ننھے منے جگنوسے چمکتے قہقہے آسمان پر تارے بن کرٹنک جاتے ہیں۔ بادلوں سے جھانکتے تارے دھیرے دھیرے اپنا وجود کھونے لگتے ہیں۔ صبح ہو جاتی ہے اور پھر حمید دیکھتا ہے کہ مندرکے احاطے میں قصبے کے بخشی جی، سیٹھ ڈونگر مل، ویدجی اور دوسرے ذمے دار لوگ جمع ہیں۔ پنڈت جی ان کے درمیان گھرے بیٹھے ہیں۔ بخشی جی پوچھتے ہیں۔
’’ہاں تو پنڈت جی کس بچے کو چنا ہے؟‘‘
پنڈت برج کشور کی آنکھوں میں حمید کا سانولا چہرہ اور اس کی معصوم شرارتیں رقص کرنے لگتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں،
’’کنہیا ہی کرشن بنےگا۔‘‘
لوگ تعجب سے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگتے ہیں اور ویدجی کے منہ سے نکلتا ہے،
’’کیا؟ کنہیا‘‘
پنڈت جی چونک پڑتے ہیں، ’’میرا مطلب ہے حمید۔۔۔‘‘
’’حمید۔۔۔!‘‘ بیک وقت کئی لوگوں کے منہ سے نکلتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے خاموشی چھاجاتی ہے۔ یہ لمحہ صدیوں پر پھیل جاتا ہے۔ پھرایک آواز اٹھتی ہے اور خاموشی ٹوٹ جاتی ہے۔
’’لیکن لڑکا ہندو ہی ہونا چاہیے۔۔۔‘‘
پنڈت برج کشور کچھ کہناہی چاہتے تھے کہ بخشی جی بول پڑے۔
’’پنڈت جی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جنم اشٹمی پر کرشن کسی مسلمان بچے کو بنایا گیا ہو۔۔۔‘‘
سیٹھ ڈونگر مل نے بھی کنکھارتے ہوئے کہا۔
’’یہ تو ٹھیک ہے پنڈت جی کہ ہمیں بھید بھائو مٹا دینے چاہئیں مگر۔۔۔‘‘
’’مگر کیا سیٹھ جی؟‘‘ پنڈت برج کشور بولے، ’’پچھلے برس کا ناٹک اتسو بھول گئے۔ کرشن کاپارٹ کرنے پر ڈپٹی صاحب نے اسے انعام دیا تھا۔۔۔‘‘
’’ناٹک کی بات اورہے پنڈت جی۔۔۔‘‘ سیٹھ ڈونگر مل کی کرخت آواز نے پنڈت جی کے ذہن کو جھنجھوڑ دیا، مگر انھوں نے اپنی بات اس طرح جاری رکھی جیسے کچھ سناہی نہ ہو۔ بولے، ’’اور پھر دسہرے پر جو رام لیلا منڈلی آئی تھی اس میں جس نے رام کا پارٹ کھیلا تھا وہ بھی تو مسلمان ہی تھا۔ کیاتم سب نے اس کی آرتی نہیں اتاری تھی۔ کیا راج تلک والے دن سب نے اس کے چرن نہیں چھوئے تھے۔ کیا اس سمے تم نے اسے رام نہیں مانا تھا۔ ارے سیٹھ جی ہمارا دھرم تو کہتا ہے کہ چاہے پتھر ہو، چاہے مٹی۔ اب وہ جس روپ میں ہے وہی اس کا اصلی روپ ہے۔ حمید تو ابھی بالک ہے اور بالک پوتر ہوتا ہے۔ پھر کیوں اسے کرشن نہیں بنا سکتے۔ وہ تو کنہیا ہے۔۔۔ بالکل کنہیا۔۔۔‘‘ وہ پل بھر کورکے، مستک پر پریم اور بھکتی کی لہریں ابھرنے لگیں، پھر منہ سے لاڈ بھرے یہ شبد نکل پڑے،
’’وہ تو کنہیا ہے، ہمرا کنہیا۔۔۔‘‘
کئی آوازیں ایک ساتھ ابھریں، ’’یہ ٹھیک نہیں ہے پنڈت جی۔ اگر آپ نہیں مانے تو ڈولا نہیں نکل پائےگا۔ ہم دیکھ لیں گے۔‘‘
اور اسی وقت پنڈت برج کشور نے آسمان کی طرف دیکھا۔ کئی سفید سائے آکاش سے اترکر بھیڑ میں شامل ہوتے نظر آ رہے تھے۔
’’پنڈت جی سب آپ کا سمان کرتے ہیں لیکن۔۔۔‘‘
’’لیکن حمید کرشن نہیں بنےگا۔ یہی نا۔۔۔؟ اس دفعہ پنڈت جی کالہجہ سخت تھا۔ لیکن وہ فوراً ہی نرم ہو گئے اور بہت دیر تک لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے۔ بالآخر کافی تکرار کے بعد انتخاب تو حمید کاہی ہوا مگر کچھ لوگ مندر کے احاطے سے نکل کر چلے گئے۔
پنڈت جی نے دوپہر سے ہی حمید کو نہلا دھلاکر کرشن کے روپ میں سجانا شروع کر دیا تھا۔ پہلے پورے بدن پر ہلکا ہلکا نیل پوتا۔ مردار سنگ کو بھگوکر سل پر گھسا، پھر حمید کے چہرے پر اس کا لیپ کر دیا۔ چہرہ خشک ہونے لگا تو گلابی اور نیلا رنگ ملاکر رخساروں پر لگا دیا۔ کمر میں کاچھنی، گلے میں بیجنتی مال، سرپر کارچوبی مکٹ، ہاتھ میں بنسی اور گردن کی بائیں جانب سے کمرکے داہنے حصے تک ایک چمکیلی چندری باندھ کر پنڈت جی نے اپنے کنہیا کو سچ مچ کا کرشن بھگوان بنا دیا۔ کرشن بھگوان نے ہونٹوں پر چاندی کی وہ مرلی رکھ لی جس میں چھ راگ چھتیس راگنیاں بجتی تھیں۔ پنڈت جی ہاتھ جوڑ کر ان کے آگے جھک گئے۔
’’آو پیارے موہنا پلک ڈھانپ توہے لیوں‘‘ ۔۔۔ ’’آئو۔۔۔‘‘
اور پھر پیتل کی تھالی میں گھی کا دیا، پھول، بتاشے، چاول اور پسی ہوئی گیلی ہلدی رکھ کر کرشن بھگوان کی آرتی اتاری گئی۔ ماتھے پر ہلدی کاتلک لگا کر چاول کے دانے پر چپکا دیے اور کرشن بھگوان کو ڈولے کے بیچوں بیچ بنی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ یگ بیتنے لگے، شریر بڑھنے لگا، انگلی پر ایک چکر تھا جو تیزی سے گھوم رہا تھا۔ اب کرشن بھگوان کا وجود کائنات کے ذرے ذرے میں سماتا جا رہا تھا۔ آنکھیں کھلی تھیں۔ وہ سنسار کی ہر چیز کو دیکھ سکتے تھے۔ سورج کی شعاعوں کو تاریک اور سیاہ راتوں کو۔۔۔
رتھ کے پہیے گھومے، آگے باجا پیچھے کیرتن منڈلی اور چرنوں میں آرتی کی تھالی لیے پنڈت برج کشور۔۔۔ گشت شروع ہوا۔ شردھا لو آرتی اتارتے، چڑھاوا چڑھاتے اور بھگوان کے پیر چھوکر ڈولے سے اتر جاتے۔ ڈولا جب گلیوں اور چوپالوں سے گشت کرتے ہوئے مسجد کے قریب پہنچا توآسمان پر سورج بھی اپنا گشت پورا کر چکا تھا اور موذن مغرب کی اذان دینے کے لیے سقاوے پرکھڑا ڈولے کے گزر جانے کا انتظار کر رہا تھا۔ یاترا مسجد کے برابر آکر ٹھہر گئی۔ کیرتن منڈلی بلند آواز میں کیرت گا رہی تھی۔ بھگوان کے آگے دو زانو بیٹھ کر کسی نے آرتی گائی۔
’’جے شری کرشن ہرے، پر بھوجے شری کرشن ہرے
بھگتن کے دکھ سارے پل میں دور کرے
جے سری کرشن ہرے پر بھوجے شری کرشن ہرے۔۔۔‘‘
اور پھر اس نے پوری طاقت سے شنکھ بجا دیا۔ شنکھ کی آواز سن کر باجے والوں نے بھی باجے کی آوازیں تیز کر دیں۔ ان آوازوں کی کوکھ سے ایک بہت بھیانک آواز اسوقت اٹھی جب مسجد کی طرف سے آئے اینٹ کے ایک بڑے ٹکڑے نے کرشن بھگوان کے ماتھے پر خون کی لکیر کھینچ دی۔ بھگوان کے ماتھے سے جب خون کی بوند گری تو آرتی کے تھال میں جلتا دیا بجھ گیا۔ اینٹ کرشن بھگوان کے ماری گئی تھی، چوٹ حمید کے لگی تھی اور آرتی کا دیا بجھ گیا تھا موہنے کنہیا کے خون کی بوند سے۔۔۔ چاروں سمت بے ہنگم شور برپا ہوا۔ چیخ پکار توڑ پھوڑ اور جذبات سے بھری آوازوں نے مسلمانوں کے دروازوں کو گھیر لیا۔ مسجد کے دروازے پر بھی لوگ جمع ہونے لگے۔ پنڈت برج کشور بھیڑ کو چیرتے ہوئے دروازے تک پہنچے تو دیکھا ایک نوجوان مسجد کے دروازے کو کلہاڑی سے گودے چلا جا رہا ہے۔ پنڈت جی نے اس کے ہاتھ سے کلہاڑی چھین لی پھر ایک سمت سے ’’نعرہ تکبیر اللہ اکبر‘‘ کی آوازیں آئیں۔ پنڈت جی دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے تو دیکھا کہ سیٹھ ڈونگر مل اور رامانند لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’’بھیا یہ کیا؟ یہ کیا بھیا۔ ہم سب۔۔۔ ہم سب بھائی ہیں۔ اسی دھرتی پر پیدا ہوئے ہیں اور اسی۔۔۔‘‘ پیچھے سے آواز آئی، ’’ہاں اور اسی دھرتی پر مریں گے بھی۔‘‘ اور اسی وقت سیٹھ ڈونگر مل اور رامانندی ہلاک کر دیے گئے۔ دونوں کے قتل کے بعد شور اور تیز ہو گیا توپنڈت جی کلہاڑی پھینک کر بنداخاں کے دروازے کی طرف بھاگے، جہاں سے ’’جے بجرنگ بلی‘‘ کا نعرہ بلند ہوا تھا۔ وہ جب وہاں پہنچے تو دروازہ شعلے اگل رہا تھا اور اندر عورتوں اور بچوں کی آوازیں بلک رہی تھیں۔۔۔
پنڈت جی نے دیکھا کہ ہر شخص کی آنکھوں میں خوف اور حیرت کے سائے لرز رہے ہیں۔ ہر شخص کے چہرے پرایک سوالیہ نشان تھا، ’’یہ کیسے ہو گیا؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘ مگر پھر بھی سب کچھ ہو رہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی سب کچھ ہو رہا تھا۔ آخر کیسے؟ وہ کون سی طاقت ہے جو نظر نہ آتے ہوئے بھی سب کچھ۔۔۔ اور اسی وقت پنڈت جی نے دیکھا کہ کچھ لوگ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آسمان جو سب کے سروں پر تھا، اس آسمان پر عجب طرح کا رنگ چھا گیا تھا۔ یہ رنگ سرخ بھی اور زرد بھی۔ جس مقام پر دونوں رنگ مل رہے تھے وہاں ایک گہری لکیر دکھائی دیتی تھی۔ دھیان سے دیکھنے پر محسوس ہوتا کہ لکیر کے آس پاس باطن میں سیاہی چھپائے سفید سائے ابھر رہے ہیں اور پوری فضا پر خوف وہراس طاری ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے قصبے کے آسمان پر سفید سائے کبھی سرخ اور زرد رنگ بکھیرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے تھے مگر آج۔۔۔ مگر آج ان سایوں کو دیکھ کر کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ بڑے بڑے گُرز لیے ہماری مدد کو تیار ہیں تو کچھ ان کے ہاتھوں میں ننگی شمشیریں دیکھ کر اپنے اندربےپناہ قوت محسوس کر رہے تھے کہ اچانک یہ سائے آسمان سے اتر کر بھیڑ میں شامل ہو گئے۔ پنڈت برج کشور کی نظر ڈولے پر پڑی تو وہ لرز گئے اور بےتحاشا ڈولے کی طرف بھاگنے لگے۔ پنڈت جی نے دیکھا کہ ایک شخص نے ڈولے پر رکھا پھرسا اٹھا لیا ہے اور کرشن بھگوان اس کے آگے ہاتھ جوڑے ڈرے سہمے کھڑے ہیں۔ تیز دھار والا یہ پھرسا ہر سال ڈولے پر رکھا جاتا ہے اور گشت پورا ہونے پر کرشن بھگوان اسی پھرسے سے کنس کا ودھ کرتے ہیں۔
پنڈت برج کشور کے منہ سے کانپتی ہوئی آواز نکلی، ’’یہ کیا۔۔۔ یہ تو کرشن بھگوان ہیں۔۔۔ کنہیا۔۔۔ ہمرے کنہیا۔۔۔‘‘ ہر پرساد جس نے ابھی ابھی آرتی گائی تھی، بھرائی ہوئی آواز میں مسمسا اٹھا، ’’ناہیں۔۔۔ یہ حمید ہے فقیر محمد کا لڑکا۔‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں ابھریں۔۔۔ ’’ہاں یہ حمید ہے، ایک مسلمان کا لڑکا۔ ہمارے کرشن بھگوان کا اپمان کیا ہے انھوں نے۔ ڈولے پر اینٹ پھینکی۔۔۔ بھگوان کے ماتھے سے خون بہا۔ اوراب دروازے بند کرکے گھروں میں چھپ گئے ہیں۔‘‘ ڈولے پر کھڑا شخص پھرسا ہوا میں اٹھا تے ہوئے دہاڑا۔۔۔ ’’ہم اس کا بدلہ لیں گے۔ ہم آج اسے۔۔۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ پنڈت برج کشور چیخے اوراس کے ہاتھ سے پھرسا چھیننے کی کوشش کرنے لگے۔ مگر اس شخص نے پنڈت جی کو زور سے دھکا دے کر ڈولے سے نیچے ڈھکیل دیا اور پھر حمید کے سر پر پھرسے کا ایک بھرپور وار کر دیا۔
مکٹ، کاچھنی اور بیجنتی مال پہنے کرشن بھگوان ڈولے سے نیچے لڑھک پڑے اوردھرتی پرخون کی ایک لکیر بہت دور تک کھینچتی چلی گئی۔۔۔ کچھ لوگ لکیر کے اِدھر تھے اور کچھ ادھر۔ دونوں طرف شور تھا۔ یہ کہنا مشکل تھا کہ لکیر کے ادھر زیادہ شور ہے یا ادھر۔۔۔!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.