کہانی کی کہانی
’’یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے، جو گھر والوں سے دور ایک معمولی سی تنخواہ کی نوکری کرتا ہے۔ اپنے کنبے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وہ ایک دوست کی صلاح پر قرض لے لیتا ہے اور گھر جانے سے پہلے بہت ساری خریداری کرتا ہے۔ شام کو وہ دوست کے ساتھ ایک پارک میں جاتا ہے، جہاں کبھی وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آیا کرتا تھا۔ اگلے دن گاڑی میں بیٹھ کر وہ اس شہر کی جانب چل دیتا ہے جہاں کئی انہونیاں اس کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔‘‘
عبد المنان سے وہ میری آخری ملاقات تھی۔
اس کے بعد سے اسے دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس گئیں۔
جب بھی دفتر کے کیمپس میں داخل ہتے ہوئے آدم قد چہار دیواری پر نظر پڑتی تو نگاہوں میں عبد المنان روشنی کے جھماکے کی طرح نمودار ہوتا۔
اس کا دبلا پتلا جسم۔ دھونکنی کی طرح پھولتا بچکتا سینہ تیزی سے ہلتے ہوئے ہاتھ ۔۔۔ ہاتھوں کی جنبش میں عجیب سی بے چینی اور اضطراب۔۔۔ جیسے زیادہ تیز ہوئے تو ساری دنیا کو الٹ کر رکھ دیں گے آس پاس کے دفاتر کے ملازمین کی بھیڑ اس کے گرد جمع رہتی۔
’’یہ دنیا ان پیٹ بھروں نے جہنم بنا دی ہے۔۔۔ اور ہمیں گلی دنیا میں جنت کے بہلاوے دیے جاتے ہیں۔۔۔ مجھے کوئی بتائے کہ اس نرک میں جیتے جی موت جھیلتے ہوئے سورگ کے لائق کوئی رہ پائے گا۔۔۔ اٹھو۔۔۔ آنھیں کھولو۔۔۔ ایک زبردست چھلانگ لگاؤ اور پیٹ بھروں کی چھاتیوں کو۔۔۔‘‘
اس کی تقریر کے اس طرح جذباتی اور گرما گرم حصے لوگوں کے خون کی حرارت میں اضافہ کردیتے۔ تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے آس پاس کی عمارتیں کانپنے لگتیں۔
ان دنوں عبد المنان بے حد پریشان تھا۔ نئی نئی ملازمت تھی۔ عرصۂ دراز تک بے روزگاری جھیلنے والے عبد المنان کی آنکھوں میں چھوٹے بڑے کئی سپنے چھپے تھے۔ مگر اس کا سب سے بڑا خواب دنیا کو بدلنے کا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام نے اس کے ارادوں کو متزلزل نہیں کیا تھا۔کیونکہ وہ بہت دنوں سے اسے غلط راستے پر مڑجانے والا گمراہ ہراول دستہ سمجھتا تھا۔
’’عبد المنان صاحب آپ دفتر بہت دیر سے آتے ہیں؟‘‘ افسر اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہتا۔
’’جناب بہت پریشانیوں میں مبتلا رہتا ہوں۔۔۔ میری جگہ کوئی دوسرا ہو تو جینا بھول جائے۔۔۔‘‘
افسر آگے کچھ بولنے کی ضرورت نہ سمجھتا۔
نیچے چائے کے ڈھابے پر وہ بتاتا کہ اس کی پریشانیوں میں نت نئے اضافے ہوتے جارہے ہیں۔ بھائی کی پڑھائی۔ ماں کی لاعلاج بیماری۔ بہن کی شادی، بچوں کے کھلونوں کی فرمائشیں۔۔۔ اور ۔۔۔ اب اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ اپنے اور گھر والوں کے لئے اس نے کیا کیا۔۔۔ ان کے لئے بھی تو اس کے کچھ فرائض ہیں۔۔۔ مزے لے لے کر چائے کی چسکیاں لینے والا اور بات بات پر قہقہے لگانے والا بندہ ہاتھوں میں چائے لیے ہوئے بس سوچتا ہی رہ جاتا۔ خالی خالی نگاہوں سے اونچی بڈلنگ اور آسمان کی طرف گھورتا ہوا۔
’’کیا ڈھونڈتے ہو عبد المنان۔۔۔ کس کی تلاش میں ہو۔۔۔؟‘‘ کوئی اسے دور سے آواز دیتا ہوا سوال کرتا۔
اس کے قلب میں کوئی عمارت ڈہتی رہتی۔
’’بیٹے۔۔۔ اس بار تمہارے لیے بیٹری سے چلنے والی گاڑی ضرور لاؤں گا۔۔۔ اور ہاں بیٹی ۔۔۔ تمہاری وہ ہنسنے اور رونے والی گڑیا بھی۔۔۔‘‘
’’اماں۔۔۔ تمہاری دوائیں۔۔۔ بھائی۔۔۔ تمہاری کتابیں۔۔۔ رجنی پام دت کی انڈیا ٹوڈے کا نیا اور مہنگا ایڈیشن بھی۔۔۔‘‘
اسے جھنجھوڑنا پڑتا۔
’’یار یہ بستر نہیں جو آرام سے لیٹ کر خواب دیکھ رہے ہو۔۔۔ یہ چائے کا ڈھابا ہے۔۔۔ جس جگہ تم بیٹھے ہو، وہ اینٹوں کے سہارے پر ٹکی بوسیدہ بنچ ہے۔۔۔ سر پر زیادہ بوجھ لیے اس پر بیٹھے رہوگے تو چرمراکر نیچے آرہے گی۔۔۔‘‘
’’آں۔۔۔‘‘ وہ چونکتا۔
’’ تم نے ٹھیک کہا ۔۔۔ لیکن جہاں ہم ہیں اس سے بھی نیچے کیا۔۔۔‘‘
چائے ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ اس وقت بغل کی گلی سے ایک لاغر سی کتیا اپنے آدھے درجن پلوں کے ساتھ آتی اور کھانے پینے کی چیزوں کی آس میں ڈھابوں کی طرف دیکھتی ہوئی تھکے تھکے قدموں سے آگے بڑھ جاتی۔ پلّے کوں کوں کرتے ہوئے اس کے پیروں سے لپٹے رہتے اور کتیا بھونکتی ہوئی اپنے پیروں سے انہیں پرے دھکیلتی رہتی۔
ایک گائے پھلوں کے عرق نکالنے والے خوانچے والے کو غافل دیکھ کر پھلوں پر منھ مارنے کی کوشش کرتی اور دکاندار سے ڈنڈے کھاتی ہوئی آدمیوں سے ٹکراتی ہوئی جان بچاکر بھاگنے کی کوشش کرتی ۔ کئی آدمی ٹھوکر کھاکر گرتے اور حواس باختہ ہوکر اٹھتے ہوئے اپنے کپڑے جھاڑنے لگتے۔
’’عبد المنان درا الگ چلو۔۔۔ کچھ باتیں کرنی ہیں۔۔۔‘‘
میں نے اسے بتایا، ’’گبندوں کی تاراجی کے دوسرے دن تم نہیں آئے۔۔۔ کچھ لوگ بے حد خوش تھے۔۔۔ جیسے کوئی گڑی ہوئی دولت ہاتھ لگی ہو۔۔۔ بڑا زہربھرا ہوا ہے۔۔۔ ارے بھائی ہسٹری بتاتی ہے ہم تو یہاں کے اصلی باشندے ہیں۔۔۔ ہم سے غیروں سا سلوک وہ کرتے ہیں جو خود حملہ آور رہے ہیں!‘‘
عبد المنان نے کہا، ’’چھوڑو ان فالتو باتوں کو۔۔۔ بنیاد پرستوں کے ہتھکنڈوں سے میں خوب واقف ہوں۔۔۔ ہم نے بھی تو حکمرانوں کی سائیکی سے نجات حاصل نہیں کی۔۔۔ محکوموں کے درد کو سمجھیں گے تو وقت کی حکمت سمجھ جائیں گے۔۔۔ جانتے ہو اس دن ہزاروں بودھ بھکشوؤں کے دکشا سماروہ میں کیسی کیسی تلخ حقیقتیں سامنے آئیں۔۔۔ یقین جانو سمجھ دار لوگ ابھی بھی اس ملک میں بستے ہیں۔۔۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔ بودھم شرنم گچھامی۔۔۔‘‘
علاقے علاقے سے اینٹیں جمع ہورہی تھیں۔ فضا میں پھر سے زہر بھرا جارہا تھا۔ سڑکوں پر چلنا دشوار ہوگیا تھا۔ کب کہاں کس کی شامت آجائے کہنا مشکل تھا۔
اس نے کہا، ’’بھائی جیسے بھی ہو مجھے اپنے بچے کے لئے بیٹری سے چلنے والی گاڑی بیٹی کے لئے ہنسنے رونے والی گڑیا خریدنی ہے اور بہن کی شادی کے لئے پیسے جٹانے ہیں۔‘‘
میں نے عبد المنان کو مشورہ دیا کہ وہ پی ایف یا تھریفٹ سوسائٹی سے قرض لے کر اپنے یہ مسائل حل کرلے۔ لیکن اپنی زندہ دلی سے کنارہ کش نہ ہو۔ یوں ہاتھوں میں چائے کا کپ لے کر بغیر پیے ہوئے اسے ٹھنڈا نہ کردے۔ عبد المنان نے دونوں جگہ درخواستیں دیں۔ ایک جگہ سے قرض کی منظوری مل گئی۔ عبد المنان بے حد خوش تھا۔ قرض لے کر کم لوگ اتنا خوش ہوتے ہوں گے۔
میرے ساتھ چل کر اس نے چھٹی کی درخواست پیش کی۔ اپنے شہر کے لئے ریزرویشن ٹکٹ لیا۔ دو دن بعد اس کی گاڑی تھی۔
اپنے گھروالوں کے لئے اس نے جم کر خریداری کی۔۔۔ اس دن تو اس کا رویہ ہی بدلا ہوا تھا۔ جو عبدا لمنان کم قیمت کی چیزوں کے پیسے دینے میں مول تول کرتا، وہ اس دن دکانداروں کو منھ مانگی رقم دے رہا تھا۔ سب کے لئے ا س نے کوئی نہ کوئی تحفہ خریدا۔ بہن کی شادی کے لئے الگ سے خریداری کی۔ بیوہ ماں کے لئے رنگین ساری۔ میں تھوڑا معترض ہوا۔ لیکن اس نے کہا کہ کبھی تو وہ بھی گلابی رنگ کا حصہ بنے۔ سفید اور سیاہ نے اسے بہت پہلے بھری جوانی میں ضعیفی کی زنجیر پہنا دی۔ بیٹے کے لئے بیٹری والی قیمتی گاڑی اور بیٹی کے لئے ٹیپ ریکارڈر سے بولنے والی گڑیا۔
زبردستی اس نے مجھے اچھے ہوٹل میں گریل اور پراٹھے کھلائے۔ خود یوں کھا رہا تھا جیسے زندگی میں پہلی بار اچھا کھانا نصیب ہورہا ہو۔ مرچ سے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ آنکھیں پونچھتا اور گوشت پر ٹوٹتا ہوا عبد المنان مصور کی کسی عجیب سی کیفیتوں والی تصویر کا مرقع پیش کر رہا تھا۔ قرض لیے گئے پیسے کی یہ شاہ خرچی مجھے اچھی معلوم نہ ہوئی۔ وہ کئی پلیٹ گریل اور متعدد پراٹھے صاف کر گیا۔ لیکن میں۔۔۔ اس کا دوست ہونے کے ناطے اس کی حالت پر ترس آرہا تھا۔ ایک پلیٹ پر ہی میں نے اکتفا کیا۔
چھٹی کی درخواست وہ دے چکا تھا۔ دو دن کے بعد کے ریزرویشن نے اس کے گھر پہنچنے کی بیتابی بڑھا دی تھی۔ دوسرے روز اس نے مجھے بوٹینکل گارڈن چلنے پر آمادہ کرلیا۔ اس طرح وہ دو بر س پہلے بیوی بچوں کے ساتھ وہاں جانے کی یاد کو تازہ کرنا چاہ رہاتھا۔
’’وہ دیکھو۔۔۔ اسی ہاتھی پر میرے بچے نے سواری کی تھی۔۔۔ بڑا دلیر ہے میرا بیٹا۔۔۔ اسے ہاتھی پر چڑھاتے ہوئے میں ڈر رہا تھا لیکن وہ ذرا بھی خائف نہ تھا۔۔۔ اس چھوٹی سی عمر میں ہاتھی کی سواری کرتا رہا۔۔۔‘‘ عبد المنان نے دور جاتے ہوئے ہاتھی کو دیکھ کر بتایا۔
کچھ آگے بڑھنے پر بچوں کی ٹرین کے لئے بنے خوبصورت اور دلکش ڈونالڈ ڈک نگر اسٹیشن کے پاس پہنچ کر پھر وہ یادوں میں کھوگیا۔
’’یار کمال ہے، چلڈرن ٹرین کے ناہموار ہچکولوں کے بیچ بھی وہ بچہ سیٹ پر مستقل کھڑا رہا اور اچک اچک کر شرمیلی بلی، مور، ہرن، شیر ببر، تیندوے اور مختلف جانوروں کے پنجروں کو دیکھتا رہا۔ ہاتھ ہلاہلا کر انہیں اشارہ کرتا رہا۔۔۔ تالیاں بجا بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتا رہا۔۔۔‘‘
میں نے محسوس کیا کہ عبد المنان اپنے بچے کو یاد کر کے قلبی سکون حاصل کر رہا ہے۔ بیوی کی باری بھی آئی۔۔۔ اور اس کے ہونٹوں پر عجیب سی دلفریب بند بند سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
’’وہ سیدھی سادی عورت سیٹ پر گھونگھٹ نکالے اس طرح سکڑی سمٹی بیٹھی رہی جیسے سہاگ رات میں بستر کے کونے پر بیٹھی ہوئی دلہن شوہر کی آمد سے پہلے آنے والے نامانوس لمحوں کے تصور سے خوف میں مبتلا ہو۔۔۔ اس نامراد نے کہیں انجوائے نہیں کیا۔۔۔ ہر جگہ قافلے سے الگ خاموش تماشائی کی طرح مبہوت بنی رہی۔۔۔ بینڈ باجوں کے بیچ شامل باجا۔۔۔ یوں سمجھو کہ سلک کپڑے میں سوتی پیوند۔۔۔‘‘
عبد المنان حسب معمول اپنے بیانیہ میں بیچ بیچ میں چھوٹی چھوٹی تشبیہیں اور استعارے بھی گڑھتا جارہا تھا۔
ہم لوگوں نے بوٹنگ کی۔۔۔ اس لئے کہ اس نے دو سال پہلے اپنے بچوں کے ساتھ کشتی کاسفر بھی کیا تھا۔ ’سانپ گھر‘ بھی گئے۔۔۔ کیوں کہ اس کے بچوں کو سانپ دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جیسا کہ اس نے بتایا خود وہ سانپوں سے بے حد ڈرتا تھا۔ اس کے بچپن کا ایک بھیانک واقعہ اس کے ذہن پر اب تک ثبت تھا۔ جب اس کا باپ سانپ کی زد میں ہلاکت کا شکار ہوا تھا۔ سارے جادو منتر رائیگاں چلے گئے تھے۔ کوئی علاج کام نہ آیا تھا۔ جس پر پڑوس کی عورتیں اس کی ماں کے ہاتھوں کی سہاگ کی چوڑیاں توڑ رہی تھیں، اسے یہ سب قدرت کا انوکھا اور ناگزیر کھیل معلوم ہوا تھا۔۔۔ اب تو یہ سب یاد کر کے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔۔۔ بچوں کی ضد کے آگے اس نے گود میں میں اٹھااٹھا کر کریت، کوبرا، اجگر اور متعدد سانپوں کے نظارے انہیں کرائے تھے۔
’’تعجب ہے میرے بچوں سانپوں سے نہیں ڈرتے۔۔۔ شاید ہمارے بعد کی پیڑھی سانپوں سے نہیں گھبراتی۔۔۔ ہم ہی ہیں جو سانپوں سے اس قدر خوف کھاتے ہیں۔۔۔‘‘
اس نے بتایا کہ عمرانی ارتقا کی یہ کڑی اطمینان بخش ہے کہ مستقبل میں بچوں کے لئے سانپ مسئلہ نہیں رہیں گے۔
اسی ٹی اسٹال پر اس نے چائے بھی پی جہاں اس نے بیوی بچوں کے ساتھ ناشتہ کیا تھا۔ اس کے بچو ں کو سموسے بے حد پسند تھے اور اسے خالی پیٹ میں چائے پر چائے۔ دو گلاس پانی اور ایک کپ چائے۔۔۔ دن بھر یہی سلسلہ جاری رہتا۔
غرض اس روز اس نے بوٹینکل گارڈن میں میرے ساتھ گھومتے ہوئےاپنے گھر والوں کو جی بھر کر یاد کیا۔
دھوپ کی شدت کم ہونے لگی تھی۔ دن اب زوال کی طرف مائل تھا۔ فضا پر مردنی سی چھانے لگی۔ چڑیا گھر کی سیر کے لئے آئے ہوئے لوگوں پر پژمردگی طاری ہونے لگی تھی۔ مجھے واپسی کا خیال آیا، ناگاہ میں نے محسوس کیا کہ وقت سے پہلے ہی لوگ واپس جانے لگے تھے۔ گیٹ تک پہنچتے پہنچتے فضا کی خموشی سناٹے میں تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میں نے خطرے کی بو سونگھتے ہوئے اس سے سرگوشیوں میں کہا، ’’معاملہ کچھ گڑبڑھ معلوم ہوتا ہے۔۔۔ زندگی کے حقیقی چڑیا گھر میں سانپ گھر کے شیشے شاید ٹوٹ گئے ہیں۔۔۔ فوراً واپس چلیں۔۔۔‘‘
شاہراہ پر گاڑی موٹر کا نام و نشان نہیں تھا۔۔۔ اکا دکا ٹمپو ہوا سے باتیں کرتے ہوئے بنا کسی مسافر کی پروا کیے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن تھے۔
داڑھی والے گیٹ مین نے ہم دونوں کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے اشارے سے بلاکر دھیمی آواز میں کہا، ’’شہر میں کشیدگی ہے۔۔۔ ابھی بھی خبر ملی ہے۔۔۔ اپنے علاقے میں ذرا سنبھل کر جائیے گا۔۔۔‘‘
دیکھتے دیکھتے چاروں طرف عجیب خو ف و ہراس چھاگیا تھا۔۔۔ چڑیا گھر سے نکلے ہوئے سارے لوگ بلاتفریق مذہب و ملت اپنی اپنی جانوں کے تحفظ کو لے کر گہرے خوف میں مبتلا تھے۔ کاٹو تو لہو نہیں۔ سب ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ چکے تھے۔
مجھے لگا کہ یہ انسان چڑیا گھر کے اندر سلاخوں میں بند جانوروں سے بھی زیادہ بے بس، محصور اور محتاج ہیں۔ دیکھتے دیکھتے فضائی چادر کا رنگ گہرا ہونے لگا۔ خوف و دہشت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ عورتوں اور بچوں کے چہروں سے سیرو تفریح کی ساری مسرت غائب ہوچکی تھی۔ ہر چہرہ پیلیا کے مریض کی طر ح زرد نظر آرہا تھا۔
عبد المنان کا پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا جنون ختم ہوچکا تھا۔ بیوی بچے سب کے سب ذہن سے محو ہوچکے تھے۔ اس وقت یہی اندیشہ غالب تھا کہ اپنی رہائش گاہ تک کسی طرح محفوظ و سلامت پہنچ جائے۔ اس نے مجھے پیدل چلنے کا مشورہ دیا۔ ہم دونوں اتفاق سے ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ ہم لوگ کسی طرح اپنے علاقے میں پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ زہر چاروں طرف پھیل چکا ہے۔ ہلکی سی چنگاری بھی سب کچھ جلاکر خاکستر کرسکتی ہے۔
عبد المنان کو اب بیوی بچوں کی سلا متی کی فکر ستانے لگی۔ میں اس حق میں نہیں تھا کہ وہ اس ماحول میں اتنا طویل سفر اختیار کرے، لیکن اور چارہ کیا تھا۔ چارو ناچار اسے جانا ہی تھا۔
میں اسے سی آف کرنے اسٹیشن گیا تھا۔
عبد المنان سے وہ میری آخری ملاقات تھی۔
اس کے بعد سے اسے دیکھنے کے لئے میری آنکھیں ترس گئیں۔
ٹرین کھلنے سے پہلے تک وہ بیوی بچوں کے بارے میں باتیں کرتا رہا تھا۔ بڑی حفاظت سے اس نے ان کے لئے خریدے ہوئے تحفے اپنے سرہانے رکھے۔ رخصت ہوتے وقت اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
وہ اس سے میری آخری ملاقات تھی۔
روانہ ہوتی ہوئی ٹرین کی کھڑکی سے ہلتے ہوئے اس کے کانپتے ہاتھ اور خوف سے اس کا زرد چہرہ اب تک یاد ہے۔
اس کے بعد وہ نہیں لوٹا۔
وہ جس علاقے میں گیا تھا وہاں انسانی اجسام پھول گوبھیوں میں تبدیل ہوگئے تھے۔
مجھے یقین ہے کہ اس کا سانپوں سے نہ ڈرنے والا بچہ ضرور زندہ بچ گیا ہوگا۔
اس کے بعد سے میں بیمار رہنے لگا۔ شاید مجھے علاج کی ضرورت ہے۔ ایک مخصوص خواب مجھے پریشان کرنے لگا۔
چاروں طرف اونچے اونچے اسکائی اسکریپر آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔
چشم زدن میں ان کے درمیان سے ایک بچہ نمودار ہوتا ہے۔
دیکھتے دیکھتے وہ جوان ہوتا ہے اور مجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا ہے۔
’’ہیلو انکل۔۔۔ وی مسٹ بی ہیپی ان انڈیا۔۔۔‘‘
اس کے ہاتھوں میں ہتھیار ہے۔
دور کہیں سے دھماکوں کے درمیان اونچی اونچی بلڈنگوں کے زمین دوز ہونے کی آوازیں آرہی ہیں۔ میں اس کے چہرے پر غور کرتا ہوں۔ اس کے چہرے کے نقوش میں عبد المنان کی نمایا جھلک ہے۔ وہی سانپوں سے نہ ڈرنے والا بچہ۔
میں امن پسند روشن خیال شہری ہوں۔ اس بچے سے مجھے ڈر لگنے لگا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.