Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شکر گزار آنکھیں

حیات اللہ انصاری

شکر گزار آنکھیں

حیات اللہ انصاری

MORE BYحیات اللہ انصاری

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو فسادیوں کے ایک ایسے گروہ میں شامل ہوتا ہے، جو ایک ٹرین کو گھیر کر روک لیتا ہے۔ گروہ ٹرین میں بیٹھے مسلمانوں کو اتار لیتا ہے۔ ان میں ایک نوبیاہتا جوڑا بھی ہوتا ہے۔ وہ شخص نوبیاہتا جوڑے میں دولہے کو مار دیتا ہے اور پھر دلہن کی التجا پر اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ مگر مرتے وقت دلہن کی آنکھوں میں کچھ ایسا جذبہ تھا جسے وہ ساری زندگی کبھی بھلا نہیں پایا۔

    (۱)

    اکتوبر 47 سے پہلے میرے سینے میں ٹپکتے ہوئے سات سات چھالے تھے اور ساتوں نے مل کر دل کو پھوڑا بنا دیا تھا۔ ماں باپ کے قتل کا چھالا۔ جوان بیٹے کے قتل کا چھالا۔ دودھ پیتی بیٹی کے قتل کا چھالا۔ اور جیون سنگھی گھر کی لکشمی کے قتل کا چھالا۔ اللہ اکبر کے نعروں۔ پاک داڑھیوں اور نمازی پیشانیوں نے ان کے مظلوم جسموں کے اندر سے کس کس بےدردی سے روح نکالی ہے اور میری بیوی کے ساتھ کیسی کیسی شر مناک حرکتیں اور معصوم بچوں کا ماں کی آنکھوں کے سامنے قیمہ بنایا جانا۔ اف فوہ۔۔۔ میں خود کیسے بچا اور بچ کر کیسے شرنار تھی کیمپ تک آیا یہ بھی ایک المیہ داستان ہے اور پچھلی داستانوں کی طرح زخموں اور آنسوؤں کی لمبی لڑی۔۔۔ پہلے تو ان داستانوں کے بیان کرنے کی مجھ میں ہمت ہی نہ تھی۔ اب ہمت تو ہے۔ پر قدرت نہیں۔ کیوں کہ جتنے الفاظ اظہار درد کے میرے پاس ہیں دل ان سب کو نکما قرار دیتا ہے۔

    گزشتہ منگل یعنی میرے پتر جنم سے پہلے یہ تمام ہولناک منظر دن میں سینکڑوں بار میرے دل میں آ آکر گھوم جاتے تھے۔ جاتے وقت مجھے کھولتے کڑھاؤ میں جھونک جاتے تھے۔ جس میں جلتے جلتے، جھلستے جھلستے، میں مجسم شعلہ بن جاتا تھا اور پھر ایٹم بم بن کر ساری اسلامی دنیا پر گرتا تھا۔ اسے بھسم کر ڈالتا تھا اور خود بھی بھسم ہو جاتا تھا۔ گزشتہ منگل کو میں آدھی رات تک کروٹیں بدلتا رہا۔ پر پلک سے پلک نہ لگی۔ گھنگھور گھٹا برس کر نکل چکی تھی۔ شرنار تھی کیمپ کے گرد جگنو جگمگا رہے تھے اور زخموں کو مہکانے والی ہوا چل رہی تھی اتنے میں باؤلے پپیہے نے صدا دی۔ پی کہاں! پی کہاں! یہ صدا دل میں بندوق کی گولی کی طرح اتر گئی اور مجھے میری جنم بھومی میں اڑا لے گئی۔

    ہائے وہ بھرا پرا گھر! وہ چہل پہل، ہائے وہ ہنسی اور چہلیں! ہائے وہ نت نئے ارمان! ان یادوں سے کیمپ جیل خانہ بن گیا۔ زندگی اندھیری ہو گئی اور میں بے اختیار کیمپ سے نکل کر دیوانہ وار ویرانے کی طرف چل کھڑا ہوا۔

    میں بہت تیزی سے ایک سمت چلا جا رہا تھا۔ بھاگا جا رہا تھا۔ بھاگا جا رہا تھا۔ گویا لپک کر میں گزرے ہوئے دنوں کو پکڑ رہا ہوں۔ نہ جانے کتنی دیر تک میں چلا اور کتنی دور نکل آیا۔ ایک بار ہوش جو آیا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ایک کھنڈر نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ وہ اپنے ساتھ بہت سی پامال قبریں بھی لایا ہے۔ بیچ میں ایک ٹوٹا پھوٹا گنبد ہے۔ جو آخری تاریخوں کے چاند کی روشنی میں اپنی اکلوتی انگلی سے پھٹے ہوئے بادلوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ مردہ مسلمانوں کا استھان! میرے دل میں ایک ساتھ سکون و جلن کے جذبات پید اہوئے۔ دفعتاً میری نگاہ ایک جہ رک گئی۔ قبروں کے بیچ میں ایک قبر انگڑائی لے کر اٹھی اور اٹھ کر میری طرف بڑھی۔ مسلمان! میں ٹھٹھا اور خوف اور انتقام کے مختلف جذبات کی وجہ سے اپنی جگہ مذبذب ہو کر کھڑا رہ گیا۔ جب دیکھا کہ مرنے والا بڑھتا ہی چلا آ رہا ہے تو کڑک کر پوچھا، ’’ہندو ہو کہ مسلمان؟‘‘ وہ شخص بالکل میرے پاس آ گیا اور سکون سے بولا، ’’وہ تو ہندو ہے۔‘‘

    ’’وہ کون؟‘‘

    ’’یہی۔‘‘

    ’’کیا یہاں کوئی شخص اور بھی ہے؟‘‘

    اس نے ادھر ادھر گھوم کر دیکھا اور پھر کہنے لگا۔

    ’’نہیں تو۔‘‘

    ’’میں تم سے پوچھتا ہوں تم کون ہو۔ ہندو ہو کہ مسلمان؟‘‘

    ’’میں؟ میں؟ میں نے اس پر ابھی تک غور نہیں کیا۔‘‘

    ’’تم جھوٹے ہو۔ یقیناًمسلمان ہو۔ لیکن ڈر کے مارے چھپا رہے ہو۔‘‘

    ڈر کس کا؟ ’’کیا کوئی مجھے ڈرا رہا ہے؟‘‘

    یہ کہہ کر وہ شخص بہت اطمینان سے پاس کی قبر پر میری طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ الجھے بالوں، خاک اور تنکوں کا ایک جھنڈ تھا۔ جس نے مہینوں سے پانی۔ کنگھی یا قینچی سے ملاقات نہیں کی تھی۔ خود رو جھاڑیوں کی طرح اس کی مونچھیں اور ڈاڑھی تھیں جنہوں نے ہونٹوں اور ناک کے نتھنوں کو ڈھک لیا تھا۔ سر کے بالوں کی لٹیں اس طرح گالوں اور پیشانی پر جھول رہی تھیں جیسے گڈریے فقیر کی الگنی پر چیتھڑے۔ مہینوں کے مریض کی طرح اس کے چہرے پر خون کی چھینٹ تک نہ تھی۔ لیکن اس تمام آخور کے اندر اس کی آنکھیں اس طرح چمک رہی تھیں جیسے گہرے کنوئیں کے نیچے موتی سا آب شیریں۔ جس میں سمندروں کو الٹ پلٹ کر دینے والی آندھیاں تک ہلکی سی جنبش بھی نہیں پیدا کر سکتی ہیں۔ اپنی آنکھوں کے سکون اور اعتماد کی وجہ سے وہ شخص اس فساد و خون والی دنیا کی مخلوق ہی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ میں اس سکون کو دیکھ کر گھبرا سا گیا۔ لیکن پھر میرا مضطرب دل مچلنے لگا۔ کہ میں تو اس کی نظروں کے کا فوری پھائے اپنے زخموں پر لگاؤں گا۔ میں بیٹھ گیا اور اس کی نظروں میں ڈوبنے سا لگا۔ دفعتاً اس کی آنکھوں نے پلکوں کے اندر غوطہ مارا اور کچھ اس کل سے تڑپ کر نکلیں کہ مجھے خوف محسوس ہونے لگا۔ ان آنکھوں میں سکون اور اعتماد کے علاوہ کچھ اور بھی تھا کوئی ڈراؤنی اور گھنونی سی شے۔ اسے محسوس کر کے میں نے اپنے کو ان آنکھوں کے ہپنا ٹزمی اثر سے آزاد کیا اور چلنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے اٹھتے ہوئے دیکھ کر وہ شخص بولا۔

    ’’تم مجھ سے کیوں نفرت کرتے ہو؟ میں وہ تو ہوں نہیں۔‘‘

    ’’وہ کون۔ مسلمان؟‘‘

    ’’نہیں۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔ بلکہ اس نے تو کئی مسلمانوں کو قتل کیا ہے اور مسلمان عورتوں سے مزے لوٹے ہیں۔‘‘

    ’’آخر وہ ہے کون؟‘‘

    وہی وہی۔ تم اسے نہیں جانتے۔ اچھا تو بیٹھو میں بتاتا ہوں کہ وہ کون ہے۔

    (۲)

    ایک ٹرین کے کپارٹمنٹ میں چالیس پچاس مسلمان مرد عورتیں اور بچے بھرے ہوئے تھے۔ یہ سب کے سب پناہ گزیں تھے۔ کوئی زخمی تھا۔ کوئی بیمار تھا۔ کوئی فاقوں سے مر رہا تھا۔ کوئی گھر بار کی بربادی پر واویلا مچا رہا تھا۔ کوئی اپنوں کے قتل پر آنسو بہا رہا تھا سب ہولناک حقیقت سے امید موہوم کی طرف جا رہے تھے۔

    کیوں کہ ٹھہرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ قافلے کے سازو سامان کی یہ حالت تھی کہ اگر کسی کے ایک پاؤں میں جوتا ہے تو دوسرے میں ندارد۔ ایک جوان عورت کے کپڑے اس طرح تار تار تھے کہ ستر پوشی ناممکن تھی۔ ایک مرد کو کہیں سے ایک شکستہ لہنگا مل گیا تھا جسے اس نے کمر سے لپیٹ کر تہمد بنا لیا تھا۔ لیکن کسی کو ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہ تھی اور سکت بھی نہ تھی۔ سب اپنی اپنی آگ میں غوطہ مارے غائب تھے۔ بڑے سے بڑے دکھی کی پکار۔ بڑے سے بڑے بز رگ کی صدا ان کے کانوں کے اندر نہیں جا سکتی تھی۔ لیکن ایک کونے میں انسانیت کی کچھ مہک بھی تھی۔ ایک نئی نویلی دلہن اپنے زخمی دولھا کو بڑی بہادری اور چالاکی سے خونخوار قاتلوں کے نرغے میں سے نکال لائی تھی۔ دولھا کے بازو پر تلوار کا گہرا زخم تھا اور وہ بےہوش پڑا تھا۔ مسافروں میں ایک ڈاکٹر بھی تھا۔ جس نے زخم دیکھ کر کہا تھا کہ اگر کہیں سے گرم پانی اور صاف کپڑا مل جاتا تو میں زخم دھو کر باندھ دیتا۔ پھر کوئی خطرہ نہ رہتا لیکن اس دنیا میں گرم پانی کیسا، پینے کے لئے پانی ملنا محال تھا۔ دلہن کے افشاں بھرے آنچل کے ٹکڑے سے زخم باندھ دیا گیا تھا۔ اور دلہن زخمی بازو کو گود میں لئے بیٹھی تھی اور مہندی لگے ہاتھ دولھا کے سر پر اس طرح پھیر رہی تھی جیسے اس سے زخموں کو بھرنے میں مدد ملےگی۔ نئی نویلی دلہن نہ رو رہی تھی اور نہ اپنا دکھڑا سنانے کے لئے بے چین تھی۔ ہاں جب اس سے کوئی خاص طور سے پوچھتا تھا تو وہ مختصر الفاظ میں بتا دیتی تھی کہ کس طرح اس کے گھر پر حملہ ہوا کس طرح اس کا سر تاج زخمی ہوا اور کس طرح وہ موقع پا کر اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں کو خدا کو سونپ کر دولھا کو بچا کر لے بھا گی اور پیٹھ پر لاد کر ایک میل چل کر ریل تک آئی۔

    ریل چلی جا رہی تھی اور سب اپنی اپنی حالت میں کھوئے ہوئے تھے۔ کہ ایک زبردست دھماکا ہوا اور پھر ریل رک گئی۔ اس کے رکتے ہی دس پندرہ مسافر جو کمپارٹمنٹ میں ادھر ادھر منہ ڈالے پڑے ہوئے تھے بپھرے شیروں کی طرح کھڑے ہو گئے کسی نے تھیلے کے اندر سے اور کسی نے بستر کے اندر سے کرپانیں، تلواریں اور خنجر نکال لئے اور بجلی کی طرح چمک کر مسافروں پر ٹوٹ پڑے۔ بات کی بات میں دس بارہ مسافروں کو خون آلود جا نکنی سے ہم آغوش کر دیا۔ مرنے والے چیخنے لگے اور جو بچ رہے تھے ان کی گھگھی بندھ گئی اور وہ سیٹوں کے نیچے چھپنے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔ بھاگنے کی کوئی راہ نہ تھی۔ کیوں کہ ریل کے نیچے بھی دونوں طرف مسلح جان لیوا سورما کھڑے ہوئے کہہ رہے تھے۔

    ہندو مت اونچا ہو!

    مہاتما گاندھی کی جے!

    مسلمانوں کا ناش ہو!

    ایک عورت بھاگنے کے لئے کھڑکی سے کودی۔ نیچے جو سورما کھڑے تھے انہوں نے فوراً اسے پکر لیا اور جس طرح کوئی کیلا چھیلنا ہے اس طرح آناً فاناً میں سورماؤں کے تجربہ کار ہاتھوں نے اسے مادرزاد ننگا کر دیا۔ پھر وہ مشتاق ٹائپسٹ کی طرح اپنی ہوس کی جلن ٹھنڈی کرنے لگے۔ ایک طرف لوٹ مار ہو رہی تھی تو ایک طرف برہنہ عورتیں اکٹھا کی جا رہی تھیں۔ تاکہ ان کا جلوس نکالا جائے اور پھر ان کو شرمناک سے شرمناک موت سے ہم آغوش کیا جائے۔ یہ سب کچھ اس تیزی سے ہو رہا تھا جیسے کوئی ذہین بچہ رٹے ہوئے پہاڑے فرفر سنا دے۔ نئی نویلی دلہن جو ایسے حادثوں کو اپنی آنکھوں سے ایک بار پہلے خود دیکھ چکی تھی اور درجنوں بار ایسی عورتوں سے سن چکی تھی جو ان کا شکار ہوئی تھیں۔ دلہن جانتی تھی کہ ان باتوں کی ابتدا کیا ہوتی ہے اور انتہا کیا۔ وہ ایک نظر میں بھانپ گئی۔ کہ صورت حال کیا ہے اور فیصلہ کر لیا کہ کیا کرنا چاہیے۔ اس نے اپنا دوپٹہ لپیٹ کر تکیہ بنا کر دولھا کے زخمی بازو کے نیچے رکھ دیا اور اٹھ کر اندر اور باہر کے سورماؤں پر ایک نظر ڈالی پھر بےدھڑک ایک سورما کے پاس جا کر کہنے لگی،

    ’’مہاشے جی میری ایک بنتی ہے۔‘‘

    ’’بنتی؟ ہوں۔ ہم تو تم کو چوراہے کی کتیا بنا کر چھوڑیں گے آخر ہم اپنی ماں بہنوں کا انتقام کیسے لیں؟ ہائے ری مسلمنٹی۔ یہ ابھار۔۔۔ جانی۔۔۔!‘‘

    سورما نے اپنے خنجر کی نوک دولھن کی ایک چھاتی میں ذرا سی چبھو دی جس سے کرتے پر خون جھلک آیا۔ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ پر وہ بھاگی نہیں۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا وہ کھڑا ہوا تھا۔ دلھن اس کی طرف مڑی اور بولی۔

    ’’مہا شے آپ ہی ایک عورت کی پرارتھنا سن لیجئے۔‘‘

    وہ کڑے تیوروں سے بولا۔

    ’’تمہارے مسلمان بھائیوں نے بھی کسی دکھی ہندو عورت کی پرارتھنا سنی ہے۔‘‘

    دلہن نے ہاتھ جوڑ کر لجاجت سے کہا۔

    ’’میری پرارتھنا صرف اتنی ہے کہ آپ مجھے ان (دولھا کی طرف اشارہ کر کے) کے سامنے ابھی مار ڈالئے۔‘‘ ’’بس میں بہت احسان مانوں گی۔ خدا کے لئے۔ ایشور کے لئے۔‘‘

    دلہن کی باشدری کا قصہ وہ سن ہی چکا تھا۔ شاید اس وجہ سے یا شاید اس کے گڑ گڑانے کی وجہ سے بہر حال کسی وجہ سے وہ پجیپ گیا۔ اسے دلہن پر رحم آ گیا۔ اس نے دلہن کی کلائی پکڑ کر ایک جھٹکے میں اسے دولھا کے پاس لا کر کہا۔

    ’’لے تیری خوشی سہی۔‘‘

    اس نے دلہن کے خنجر کا بھر پور ہاتھ مار دیا۔ دلہن ایک چیخ مار کر دولھا کے پاس گر پڑی۔ اس کی بجھتی ہوئی زندگی کی آخری بھڑک اس کی آنکھوں میں سیتا کا پریم بن کر آ گئی۔ اور اس نے ان آنکھوں سے شوہر کو نظر بھر کر دیکھا۔ پھر گھوم کر اس نے قاتل کی طرف دیکھا۔ جب اس نے قاتل کی طرف دیکھا ہے تو اس کی پریم کی لیک سچی شکر گزاری کی مہک میں تبدیل ہو چکی تھی۔ کتنی شکر گزار تھیں وہ آنکھیں۔۔۔

    ’’اف۔ فو۔ مانو وہ کہہ رہی تھیں۔ تم نے مجھ بے یارو مددگار عورت پر جو احسان کیا ہے اس کے لئے میرا رواں رواں تمہارا شکر گزار ہے۔ پر افسوس میں زبان سے شکریہ تک نہیں کہہ سکتی۔ مگر یقین کرو کہ اس کی پیاری یاد لے کر مر رہی ہوں۔ رخصت۔‘‘

    دلہن نے اپنا دم توڑتا ہوا ہاتھ دولھا کے زخمی بازو پر رکھا۔ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور ایک ہچکی لے کر ختم ہو گئی۔

    ’’بیان کرنے والے نے اپنا قصہ جاری رکھا۔ کہنے لگا۔ ایک پرانی بات ہے۔ فساد اور خوں ریزی سے پہلے جب کبھی وہ اپنا خنجر صاف کیا کرتا تھا تو اس کو اس کی آبدار سطح کے نیچے ایک عکس نظر آتا تھا اور جب کبھی اس سے آنکھیں چار ہوتی تھیں تو وہ کہتا تھا۔ دیکھ اس آبدار خنجر کو کسی کمزور پرمت چلانا۔ جواب میں وہ کہتا تھا۔ میرے من! ایسی بزدلی میں کبھی نہ کروں گا۔‘‘

    نہ جانے کتنی بار اس عہد کی تصدیق ہوتی۔

    جب خنجر دلہن کے سینے سے باہر آیا ہے تو دلہن کی شکرگزار آنکھوں سے اس کی آنکھیں بھی چار ہوئی تھیں اور اس کے دل میں سما گئی تھیں۔ دن پر دن گزرتے گئے۔ پر وہ آنکھیں اس کے من میں اسی طرح بسی رہیں۔ وہ اپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں کو دیکھتا تو وہی شکر گزار آنکھیں نظر آتیں۔ چاند تاروں کو دیکھتا تو وہی شکر گزار آنکھیں نظر آتیں۔ جس طرح گھنگھور گھٹا برس کر نکل جانے کے بعد دھنک نکل آئے، ایسادھنک جس کا ہر رنگ نگاہوں میں چبھا جا رہا ہو جیسے جار جٹ ساڑی میں سڈول جسم اسی دھنک کی طرح، وہ آنکھیں اس کے دل میں کھلی ہوئی رستی تھیں۔ وہ احسان مند آنکھیں، وہ شکر گزار آنکھیں۔

    وہ کیا کہتی تھیں؟ کیا پیام دیتی تھیں؟ یہ اس کو معلوم نہ تھا مگر وہ دیتی تھیں کوئی پیام۔ وہ آنکھیں چکھنے میں مٹھائی کی ڈلیاں تھیں مگر خاصیت میں رائفل کی گولیاں۔ چھونے میں برف کی کنکریاں تھیں پر حلق سے اتارنے پر زہر میں بجھی ہوئی انیاں۔

    بیان کرنے والے کی نظروں سے سارا سکون رخصت ہو چکا تھا اور اب ان میں ایسی وحشت اور مظلومیت تھی کہ جی چاہتا تھا اس کی ہمدردی میں سر پھوڑ لوں۔ بیان کرنے والا ذرا دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ پھر آسمان کی طرف سر اٹھا کر بولا۔

    ’’وہ شکر گزار آنکھیں۔‘‘ میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو وہ بادلوں سے گھرا ہوا تھا۔ ایک تارے کا بھی پتہ نہ تھا۔ بیان کرنے والا ٹھنڈی سانس بھر کر بولا۔ پھر ایک عجیب حادثہ پیش آیا۔ ایک رات میں نے اس پر اچانک حملہ کر دیا۔ جب وہ اپنا بچاؤ کرنے لگا تو ہم دونوں میں سخت کشتی ہوئی۔ آخر صبح ہوتے ہوتے میں نے ایک داؤ سے اسے پچھاڑا اور اپنے قبضے میں کر لیا۔ اب وہ چیختا ہے۔ چلاتا، خوشامدیں کرتا ہے۔ گڑگڑاتا ہے پر میں اسے نہیں چھوڑتا ہوں۔ جانتے ہو میں اس کے ساتھ کیا کرتا ہوں؟

    یہ کہہ کر بیان کرنے والے نے اپنے کپڑوں کے اندر سے ایک خنجر نکالا اور مجھے دکھا کر کہنے لگا۔ میں اس پر بڑا احسان کرتا ہوں وہ یہ کہ اسی خنجر سے اس کے جسم کو چھید چھید کر ان پیاری پیار شکرگزار آنکھوں کو نگینوں کی طرح ان میں جڑتا رہتا ہوں۔ بیان کرنے والا یہ کہہ کر ہلکی سی مردہ ہنسی ہنسا۔ جو زہر خند سے مشابہ تھی اور بولا۔ بس اتنا ہی قصہ ہے۔

    قصے کا سر پیر میری سمجھ میں نہ آیا۔ پھر کچھ خیال کر کے میں نے ڈپٹ کر کہا۔

    ’’بتا کہ تونے اس سورما کو کہاں چھپا رکھا ہے؟ تو ضرور مسلمان ہے اور ایک بہادر ہندو کو سسکا سسکا کر مار رہا ہے۔‘‘

    اس نے سادگی سے میری طرف دیکھا اور پوچھا۔ تم اسے دیکھو گے؟ اچھا یہ ٹارچ لو۔ جب میں کہوں جلا دینا۔ اس شخص نے تلے اوپر، تلے اوپر، نہ جانے کتنے کرتے پہن رکھے تھے۔ ان کو آہستہ آہستہ اتار کر بولا۔

    ’’ٹارچ روشن کرو۔‘‘

    میں نے ٹارچ روشن کی تو دیکھا‘ ہوں کہ اس شخص کا سینہ اور بازو زخموں سے گندھے ہوئے ہیں۔ بعض گھاؤ تازے ہیں۔ بعض پرانے اور بعض بعض تو اتنے پرانے کہ پک پک کر سڑ گئے ہیں اور ان میں کیڑے بج بجا رہے ہیں۔ وہ شخص بولا۔

    ’’یہ ہے وہ سورما اور یہ دیکھو وہ پیاری شکر گزار آنکھیں۔‘‘

    اب جو میں نے غور سے دیکھا تو واقعی اس شخص نے خنجر کی نوک سے گوشت میں سینکڑوں آنکھیں کھو دلی تھیں۔ وہ شخص ایک رستے ہوئے زخم کو چٹکی سے مل مل کر کہنے لگا۔ یہی ہیں وہ پیاری شکر گزار آنکھیں۔

    ملنے سے زخم اس طرح بہنے لگا جیسے کسی سل کے مریض کا اگالدان الٹ گیا ہو۔ اس کی آنکھوں میں پھر وہی قابل رشک سکون آگیا۔ سارا قصہ میرے لئے ایک ایسا معما تھا جس کا بوجھ لینا دل کو گوارا نہ تھا۔ میں نے پوچھا۔

    ’’تم خود کون ہو؟‘‘

    ’’میں۔۔۔ میں وہی خنجر کے اندر نظر آنے والا عکس ہوں۔‘‘

    اس رات میں نے جانا کہ بہادر مظلوم لاکھ درجے خوش نصیب ہوتا ہے بزدل ظالم سے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے