Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھاگ بھری

ہاجرہ  مسرور

بھاگ بھری

ہاجرہ مسرور

MORE BYہاجرہ مسرور

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے نئی نئی پریکٹس شروع کی تھی۔ میڈیکل کالج کے زمانے میں، میں نے اپنے آپ پر روپوں کی کیسی کیسی بارش ہوتے نہ دیکھی تھی۔ ا پنے بڑے بڑے پروفیسروں کی لمبی لمبی کاریں دیکھ کر آدمی اور سوچ بھی کیا سکتا ہے۔ مگر جب ڈگری لے کر اس بازار میں آئی تو معلوم ہوا کہ گلی کے اندر حقیر سے کمرے پر بورڈ لگاکر بیٹھنے سے وہی دولت واپس آنا مشکل ہے جو بیوہ ماں کے زیورات بک بک کر فیسوں اور کتابوں پر خرچ ہوئی۔ آگے چل کر میں نے کیا رخ اختیار کیا، یہ ایک الگ قصہ ہے، جس کا ذکر کرنا اس موقع پر ضروری نہیں۔

    ہاں تو ان دنوں جب پہلی بار مجھے دور دراز کے ایک گاؤں میں زچگی کا ایک کیس کرنے کی دعوت ملی تو میں کافی خوش ہوئی۔ بظاہر میں نے منہ بنایا اور اپنے بے شمار مر یضوں کی پریشانیوں کا ذکر کیا لیکن جب سیدھے سادے مچھیل پیغامبر نے میرا بھاؤ ایک دم بڑھادیا تو میں فوراً تیار ہوگئی۔ دوسوروپے روز کے کم نہیں ہوتے۔ میں حیران رہ گئی کہ شہر کی دوسری چلتی ہوئی ڈاکٹرنیوں سے بچ کر یہ میرے پلے کیسے پڑگیا۔

    میں نے جلدی سے اندر جاکر والدہ سے ذکر کیا لیکن وہ خوش ہونے کی بجائے کچھ پریشان ہوگئیں۔۔۔ کہ ہٹاؤ دور کی بات ہے، جو ان کنواری لڑکی لاکھ ڈاکٹر ہو پھر بھی۔۔۔ والدہ کی اس پھر بھی سے میں بھی پریشان ہوئی لیکن پھر ایک ترکیب سمجھ میں آگئی۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ وہ دوڑ کر سائیکل پر جائے اور کالج میں کم از کم چھ دن کی چھٹی کی درخواست دے آئے اور ساتھ ہی میں نے گھر کی پرانی ملازمہ مائی کو سفید شلوار کرتا پہنواکر بطور نرس ساتھ چلنے پر آمادہ کر لیا۔ جب واپس اپنے مطب کے اجڑے کمرے میں گئی تو یہ بات بھی فوراً طے ہوگئی کہ نرس کو دس روپے روز ملیں گے۔

    پھر میں نے پوچھا کہ ’’وہاں ٹرین یا بس کس وقت جائے گی؟‘‘

    ’’کارلایا ہوں۔‘‘ جواب ملا۔

    اور میں یہ سوچ کر پریشان ہوگئی کہ د یہات سے شہرتک پہنچتے پہنچتے کار کہیں اتنی بے کار نہ ہوگئی ہو کہ راستے میں پریشانی اٹھاناپڑے۔ لیکن جب میں اپنے دومحافظوں کے ساتھ والدہ کو دعائیں پڑھتے چھوڑ کر نکلی ا ور گلی طے کرکے سڑک پر آئی تو تازہ تازہ کیڈی لک دیکھ کر میرے چہرے کا رنگ ضرور بدل گ یا۔ میں پچھتائی کہ میں نے فیس اور زیادہ کیوں نہ مانگی۔ راستے میں میرے چھوٹے بھائی نے کرید کرید کر کئی بار یہ معلوم کیا کہ ہم ضلع سرگودھا کے ایک جاگیردار کے ہاں جارہے ہیں۔ جاگیردارانی مصر تھیں کہ لاہور سے ڈاکٹرنی بچہ جنانے آئے۔ بڑے ارمانوں کی پہلی زچگی تھی۔

    کئی گھنٹے کے سفر کے بعد ہم لاہور سے مختلف دنیا میں وارد ہوئے۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک بڑی سی حویلی ہماری منزل تھی۔ بڑی سی بیٹھک کے دروازے پر پیلی پڑتی دھوپ میں ایک درجن شکاری کتوں کو شام کا راشن تقسیم ہو رہا تھا اور دس بارہ آدمی ان کتوں کی زنجیروں سے لپٹے ہوئے تھے۔ ہماری آمد پر وہ چونکے لیکن پھر کتوں کی زنجیروں پر جٹ گئے۔ اسی پیلی دھوپ میں گدے دار کرسی پر میرے دوسو روپے روز کے داتا ملک گل نواز آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ سفید نیلی سلک کی تہمد اور نیلی سلک کی قمیص سرپر بغیر کلاہ کی بھاری پگڑی اور کلائی پر باز۔ باز ملک کے ہاتھ پر رکھی ہوئی تازہ تازہ فاختہ کے پر بکھیر بکھیر کر گوشت نوچ رہا تھا۔ یہ وقت باز کے راتب کا بھی تھا۔

    کیڈی لک کے اس مالک کا تصور میں خواب میں بھی نہیں کرسکتی تھی مگر پھر بھی اس ماحول سے میں کافی مرعوب ہوگئی۔

    ’’ڈاکٹرنی صاحب بڑی تکلیف اٹھائی آپ نے، میں آپ کو خوش کردوں گا۔‘‘ ملک نے گہری نظروں اور بھاری آواز سے بیک وقت کہا۔

    گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ ملک صاحب کی صورت اس بادشاہ سے ملتی ہے جس کی تصویر میں نے اسکول کے زمانے میں کسی کتاب میں دیکھی تھی۔ ماتھے تک پیچ درپیچ بڑی سی پگڑی، بڑی گھنی مونچھیں، کرسی پر آلتی پالتی مارے اور ہاتھ پر باز بٹھائے۔ بس مانگ کیا مانگتا ہے، کہنے کی کسر تھی۔

    زنان خانے کا ماحول، لباس اور سجاوٹ کی تبدیلیوں کے ایسا ہی تھا جیسے عموماً ہمارے پرانے ٹھاٹ کے بڑے گھروں میں ہوتا ہے۔ صحن میں رنگین پیڑھیوں پر کافی سے زیادہ عورتیں رنگین تہمد اور موٹی ریشمی کنارے والی چادریں لپیٹے متفکر شکلیں بنائے بیٹھی تھیں اور ایک کھیس سے ڈھکے ہوئے پلنگ پر ایک بوڑھی عورت فکر مند سی بیٹھی نسوار سڑک رہی تھی۔ میں نے اندازہ لگالیا کہ یہ گھر کی بڑی بوڑھی ہوں گی۔ حقیقتاً یہی ملک کی والدہ بڑی ملکنی تھیں۔ مجھے امید تھی کہ وہ اٹھ کر میرا استقبال کریں گی لیکن وہ امید پوری نہ ہوئی۔ میں ٹھٹکتی ہوئی پلنگ کے قریب رک گئی۔

    بوڑھی ملکنی نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے دوشالے کا پلو سر کا کر گردن سے لے کر ناک تک ڈال لیا اور اب میں صرف اس کی تیز آنکھیں ہی دیکھ سکتی تھی جو مجھے سختی سے گھور رہی تھیں۔ مجھے اتنا غصہ آیا کہ میں نے جی میں دعا کی کہ اللہ ان سب عورتوں کے دردزہ ہونے لگے۔

    ’’مریض کہاں ہے؟‘‘ میں نے اٹک اٹک کر پوچھا۔ سب عورتیں جنگلی ہرنیوں کی طرح گردنیں اٹھا اٹھاکر مجھے حیرت سے گھورنے لگیں۔

    ’’بیمار کہاں ہے؟‘‘ اب کے میری مائی نے انتہائی کرخت زبان میں سوال کیا۔

    ’’اللہ کا نام لو، بیمار یہاں کہاں؟‘‘ ایک عورت نے دونوں طرف چھدی ہوئی ناک کی چھپر نما کیلیں چمکاکر بڑی ہی کرخت آواز میں جواب دیا۔ سب کی معاندانہ نظریں مجھی پر جمی تھیں۔ میں نے سمجھا میں دیر میں پہنچی ہوں، اس لیے سب کی نفرت کا نشانہ ہوں۔ شاید بے چاری ختم ہوچکی اور میں افسوس میں ڈوبی ہوئی دوبارہ ملک کی صوفوں سے ٹھنسی ہوئی بیٹھک میں پہنچ گئی۔

    ’’افسوس ہے ملک صاحب میں مریضہ کو نہیں دیکھ سکی۔‘‘ میں نے دیکھا کہ اس فقرے سے میرے بھائی کے چہرے کا رنگ یوں اڑ گیا جیسے اسے صدمہ پہنچا ہو، ظاہر ہے کہ میرے بھائی کو تعلیم کے لیے فیس کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ مگر ملک صاحب کے پیلے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

    ’’افوہ ڈاکٹرنی صاحب، میں نے ابھی تک والدہ سے ذکر نہیں کیا تھا کہ لاہور سے ڈاکٹرنی بلائی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ملک صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔

    ’’مگر ملک صاحب اب اندر جانے سے کیا فائدہ؟‘‘ میں نے گردن جھکاکر کہا۔

    ’’ڈاکٹرنی صاحب آپ برا نہ مانیں جی، دراصل میری والدہ رسم و رواج کے خلاف جانا پسند نہیں کرتیں، اسی لیے میں نے پہلے ذکر مناسب نہیں سمجھا۔‘‘ وہ ذرا شرماکر بولے۔ اور میں کچھ نہ سمجھ کر الجھتی ان کے ساتھ ہولی۔

    لیکن گھر کے اندر پہنچ کر ملک اور بڑی ملکنی میں جھک جھک شروع ہوگئی۔ وہ بار بار میری طرف اشارہ کرکے منہ بناتی اور بیٹے سے کہتیں، ’’بیمار، بیمار، ہنہ بیمار کہتی ہے۔‘‘ یہ قصہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ بعد میں ملک نے گہری گہری نظروں سے مجھے دیکھ کر دھیرے سے بتایا، ’’بڑی ملکنی کو آپ کی یہ بات ناگوار گزری ہے کہ آپ نے پہلے پہل کی زچہ کو بیمار کہہ دیا۔ زچگی آپ جانتی ہیں کہ بڑی مبارک چیز ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

    ’’وہ سامنے محل میں ہے۔‘‘ ملک نے ایک لمبے کمرے کے دروازے کی طرف یوں اشارہ کیا جیسے گوہر مقصود کا پتہ دے رہے ہو ں اور میں بجائے ہنسنے کے اور کھسیاکر رہ گئی۔

    صرف ایک دروازے والے لمبے سے اندھیرے کمرے میں زچہ کو دیکھنے کے لیے پہلے مجھے کھڑکیاں اور روشن دان ڈھونڈنے کے لیے نظریں دوڑانا پڑیں اور پھر مایوس ہوکر میں ان عورتوں کی طرف متوجہ ہوگئی جو اس کمرے میں موجود تھیں۔ ا یک سڑی بڑھیا، ہونے والی ماں کا پیٹ پکڑے پلنگ پر چڑھ بیٹھی تھی اور اس جیسی کئی عورتیں اس کے ہاتھ پاؤں اور سر دبا رہی تھیں۔ سب نے مجھے اس طرح دیکھا کہ میں نے زچہ کے بجائے محل کی آرائش دیکھنا شروع کردی۔ کمرے کے ہر کونے میں بچھے ہوئے رنگین پلنگ اور خوبصورت کھیس۔ دیواروں پر قسم قسم کے برتن، آئینے اور پنکھے۔ تو یہ محل ہے۔ میں نے سوچا۔

    زچہ تیس پینتیس سالہ عورت تھی، جو اپنے علاقے کے تمام زیورات سے مزین تھی۔ اگر اس کے دردزہ نہ ہو رہا ہوتا تو کافی خو بصورت نظر آتی۔ میں نے اپنی مائی سے مخاطب ہوکر کہا کہ زچہ کو فوراً اس ٹھنسے اور گھٹے کمرے سے کسی اور جگہ منتقل کردیا جائے۔ مائی نے عورتوں کے سامنے تجویز رکھی اور ہلڑ سا مچ گیا۔ انگلیاں ناکوں اور ہونٹوں پر پہنچ گئیں اور ہلڑ میں بڑی ملکنی ہانپتی ہوئی آگئیں۔ میری تجویز ایوان کی متفقہ رائے سے مسترد ہوگئی۔ کیونکہ اس قسم کا کمرہ زنان خانے کا ’’محل‘‘ کہلاتا ہے اور ضروری ہے کہ گھر کی بہو اسی جگہ اپنے بچے کو جنم دے۔

    ’’عورتیں کمرہ خالی کردیں۔‘‘ میری دوسری تجویز بھی نامنظور ہوگئی۔ کیونکہ غیر عورت کے ہاتھ میں زچہ کو سونپ د ینا ان کے نزدیک حماقت ہے۔ لہٰذا میں نے مائی سے کہا کہ وہ زچہ کے پائنتی کھیس کی اوٹ کرے تاکہ میں مر یضہ کا معائنہ کرسکوں۔

    پہلی زچگی تھی۔ مریضہ نے بتایا کہ ’’بڑی منتوں مرادوں کے بعد یہ دن پورے ہوئے ہیں۔ ورنہ پہلے تو کبھی نومہینے پورے ہی نہ ہوتے۔ ایک فقیرنی کہتی تھی، ایک جان رہے گی، ماں یا بچہ۔ میم صاحب دونوں کو بچاؤ۔ بڑا انعام د یں گے۔ خوش کردیں گے۔‘‘ مریضہ درد اور خوف سے سفید ہو رہی تھی۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ یہ سن کر ممنونیت سے مریضہ کے آنسو نکل آئے اور ناک سے رطوبت بہہ آئی۔ رومال سے اس کے آنسو پونچھ چکنے کے بعد ناک پونچھنے میں بڑی دقت ہوئی کیونکہ ہیرے کی بڑی بڑی کیلوں سے نتھنے ڈھکے ہوئے تھے۔

    میں نے دینے کو تسلی دے دی مگر یہ قصہ سن کر خود پریشان سی ہوگئی۔ پکی عمر کی اولاد ذرا مشکل سے ہوتی ہے اور پھر زچہ کو درد بھی بڑے بے تکے تھے اور بچے کے قلب کی حرکت سست۔ میں نے اللہ میاں سے دعا کی کہ عزت رکھ لینا، ورنہ واپسی کے لیے کیڈی لک تو کیا خاک ملے گی۔

    رات آگئی اور عورتیں بدستور آپس میں بولتی رہیں اور باری باری مر یضہ کا جسم دباتی رہیں۔ مائی نے ا یک دفعہ چپکے سے کہا کہ میں بھی مریضہ کا پیٹ پکڑلوں کیونکہ عورتیں کہتی ہیں یہ ڈاکٹرنی مفت خوری ہے، ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ میں نے مائی کے حکم کی تعمیل کی۔ جب مریضہ زور سے کراہنے اور ہونٹ کاٹنے لگی تو میں نے سب عورتوں سے باہر نکل جانے کو کہا۔ لیکن کئی عورتیں لپکیں ا ور پلنگ کے پاس دو اینٹیں رکھ دیں اور سب مل کر زچہ کو اٹھانے لگیں۔ تاکہ وہ اینٹوں پر اکڑوں بیٹھ جائے۔

    ’’بسم اللہ خیر اللہ۔‘‘ مریضہ ان کے حکم کی تعمیل کر رہی تھی اور میں یہ صورت حال دیکھ کر خوف سے چیخ پڑی۔

    ’’سب چھوڑ دو۔ بھاگ جاؤ یہاں سے، تم لوگ اسے مارڈالو گے۔‘‘ عورتیں اس مداخلت پر ہلڑ مچانے لگیں۔ مائی نے مریضہ کو بازوؤں سے پکڑ کر لٹادیا اور مجبوراً بغیر کسی لوٹ کے بچہ سب کے سامنے ایک کمزور سی آواز میں رونے لگا۔

    مبارک سلامت کا شور اٹھا اور باہر سے جتنی عورتیں اندر آسکتی تھیں آگئیں۔ باقی دروازے میں سے اندر جھانکنے کی کوشش کرنے لگیں۔ میں دیکھ رہی تھی کہ اس وقت زچہ کی حالت خراب ہے۔ میں نے بلیڈنگ کم کرنے کے لیے اسے انجکشن کہینوں کے ٹہوکوں کے درمیان دیا۔ سوئی دیکھ کر کئی عورتیں درد سے کراہ اٹھیں۔ زچہ کو غش آگیا تھا۔ اچانک باہر بندوقوں کے فائر ہونے لگے اور پھر ڈھول نفریاں بجنے لگیں۔ اس کے بعد رسموں اور شگونوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا اور کئی بار میری توجہ زچہ کی طرف سے ہٹ ہٹ گئی۔

    ظاہر ہے کہ میرے لیے یہ ساری چیزیں دلچسپ تھیں، مگر یہ عجیب بات تھی کہ اس کے گھر کے تمام حاضرین کا رویہ ابھی تک میرے لیے دوستانہ نہیں تھا، حالانکہ میں نے کئی رسموں میں دوسری عورتوں کی دیکھادیکھی روپے بھی دیے لیکن چونکہ مجھے قدم قدم پر زچہ و بچہ کی زندگی کی خاطر ان سے جھگڑنا بھی پڑتا تھا اس لیے میری دلجوئی اوپر ہی اوپر گئی۔

    رات بھر ڈھول بجی۔ زچہ کو پوری نیند لینا چاہیے تھی کیونکہ اسے بخار تھا۔ مگر وہ اس ہنگامے میں اتنی دلچسپی محسوس کر رہی تھی کہ میں مجبوراً خاموش ہوجاتی۔ صبح جب میں ناشتہ کے لیے، ملک صاحب کے بلاوے پر بیٹھک میں گئی تومیرے بھائی نے بتایا کہ باہر بھی رات بھر آتش بازی چھوٹی اور ملک کے سیکڑوں مزارعوں نے ناچ گاکر صبح کی اور ملک صاحب کو بچے کی پیدائش میں بڑی نذریں ملیں۔ میں ان نذروں والی رسم پر کافی حیران ہوئی۔

    لیکن دوسرے دن میری حیرانی شدید خوف میں تبدیل ہوگئی جب کہ وہ واقعہ ہوا۔

    ایک تو سردی کا زمانہ، اس پر سے سویرے ہی سے بادل آنا شروع ہوگئے۔ میں نہانا چاہتی تھی کیونکہ مجھے اپنے جسم پر منوں غلاظت لپٹی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ یہ تو میں نے بالکل طے کرلیا تھا کہ اس گھر میں میری سب سے تناتنی ہے، اس لیے میں نے نہانے کے لیے گرم پانی کسی سے طلب نہ کیا۔ رات بھر کی جگائی کے بعد بخار کی شدت میں تھوڑی سی نیند لینے کے بعد جب زچہ نے میری طرف کروٹ لی اور اس کی آنکھیں ہیروں کی کیلوں کے ساتھ چمکیں تو میں نے اس سے کہا، ’’کیا نہانے کے لیے گرم پانی مل جائے گا؟‘‘

    ’’بسم اللہ ضرور نہاؤجی۔‘‘ اور پھر اس نے مسکراکر بچے کو گھیرے بیٹھی ہوئی عورتوں میں سے ایک سے کہا کہ ’’بھاگ بھری سے کہو کہ میم صاحب کے لیے پانی گرم کردے۔‘‘ زچہ کو انجکشن دینے کے بعد میں نے مائی سے کہا کہ سوٹ کیس سے میرے کپڑے نکالے۔

    ’’کپڑے تو جی تمہیں میم صاحب ہم انعام میں دیں گے۔‘‘ زچہ نے میٹھی ادا سے مسکراکر کہا۔ اور مجھے بہت برا لگا، خدا جانے یہ گنوار ملکنی مجھے کوئی دائی خدمت گار سمجھتی ہے جو بیٹا جننے کی خوشی میں جوڑا دے گی۔

    ’’ہم ڈاکٹر ہیں مالکنی، اپنی مقررہ فیس لیتے ہیں جوڑے نہیں۔‘‘ میں نے غور سے منہ بناکر جواب دیا اور وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگی۔

    ’’میم صاحب تم نے ہماری خدمت کی ہے، پھر ہم تو سبھی کو کچھ دیں گے۔ اللہ نے یہ دن دکھایا ہے۔‘‘

    ’’اچھا اچھا میری مائی کو دے دینا میں تو۔۔۔‘‘

    اتنے میں ایک دس بارہ سال کی لڑکی بھدر بھدر اندر آگئی۔ خوبصورت تندرست، چمپئی سا رنگ، ماتھے پر مہین گندھی ہوئی مینڈیوں کی محراب، کانوں میں چا ندی کے بندے۔ یہ بھاگ بھری تھی۔

    ’’ہم اسے بھی جوڑادیں گے، بیٹا جو ہوا ہے۔‘‘ زچہ مجھے اپنی بات کا قائل کرنے پر تلی ہوئی تھی۔

    اور بھاگ بھری مجھے د یکھ کر ایک دم شرمانے لگی۔

    ’’پانی رکھ دیا بھاگ بھری، میم صاحب کو غسل خانے لے جاؤ۔‘‘ زچہ نے اس سے کہا۔ اور میں نہانے چلی گئی۔ نہاتے ہوئے میں جھلا جھلا کر سوچتی رہی کہ کیسے لوگ ہیں، کسی کی پوزیشن تک کو نہیں جانتے۔ جوڑا دے گی مجھے، ہنھ!

    جب میں نہاکر سرپر تولیہ لپیٹے نکلی تو گیلے بال سکھانے کے لیے صحن میں بیٹھ کر آتی جاتی دھوپ میں سیانے لگی۔ بھاگ بھری نے کسی کونے سے مجھے دیکھا اور دوڑ کر مٹی کے کنکروں والی انگیٹھی لاکر میرے پاس رکھ گئی۔ اس وقت بھاگ بھری میرے دل کو بھاگئی۔

    گھر میں بڑی چہل پہل تھی۔ عورتوں پر عورتیں امڈی چلی آرہی تھیں۔ اس وقت پھر گانے بجانے کا پروگرام تھا۔ اچانک ملک صاحب کھانستے کھنکارتے زنان خانے کی طرف آئے۔ مجھے گہری گہری نظروں سے دیکھا۔ زچہ بچہ کے بارے میں دو ایک باتیں دریافت کیں اور پھر بڑی ملکنی کی طرف چلے گئے۔ چند منٹ بعد وہ دوبارہ باہر چلے گئے۔

    ’’بھاگ بھری! بھاگ بھری! ملک جی نہائیں گے، تولیہ باہر غسل خانے میں رکھ آ۔‘‘ بڑی ملکنی نے حکم دیا۔ اور بھاگ بھری اسی طراری سے بھدر بھدر بھاگتی مردانے غسل خانے کی طرف چل دی۔

    گانے بجانے کی تیاریوں کو د یکھ کر میں بور ہونے لگی۔ میں اطمینان سے سوجانا چاہتی تھی۔ میرے خیال میں زچہ کو بھی سکون سے سوجانا چاہیے تھا۔ لیکن کوئی بس نہ چلا۔ میں نے اس وقت سوچا کہ کسی مغربی مصنف کا قول ہے کہ دیہات صحت بخش قبریں ہیں۔ مگر میرے اللہ یہ قبریں کتنی پرشور ہیں، کتنی ضدی ہٹیلی لاشیں، کتنی یکسانیت ہے۔ میں تو ہوں ہی شہر کا کیڑا، مگر شرط بدکر کہہ دوں کہ شہر کے مرغی یا کتے تک کو یہاں لے آؤ تو مراقبے میں جاکر جان دے دیں۔ میں نہایت تلخی سے سوچتی رہی، سوچتی رہی۔ مجھے اپنے روز کے دوسوروپوں کا خیال تک نہ آیا اور پھر جیسے موت کے مراقبے میں جھو نک کھاگئی۔ درحقیقت مجھے سخت نیند آرہی تھی۔

    اچانک بھاگ بھری روتی گھسٹتی میرے پاس سے گزری۔ اس کا منہ سرخ ہو رہا تھا۔ دفعتاً وہ ڈگمگائی اور زمین پر گرپڑی۔ اس کا نیلا تہمد خون کے دھبوں سے لال ہو رہا تھا۔ میں دوڑ کر اسے اٹھانے لگی۔ کائیں کائیں شروع ہوگئی۔ اور پھر ایک دم باورچی خانے سے ایک عورت دوڑتی ہوئی آکر مہین سریلی آواز میں رونے بین کرنے لگی۔ یہ بھاگ بھری کی ماں تھی۔ بھاگ بھری نے فوراً آنکھیں کھول دیں۔

    ’’مائے! ملک جی! ملک جی مائے!‘‘ بھاگ بھری نے ماں کی طرف ہاتھ پھیلاکر کہا اور آنکھیں بند کرلیں۔ پھر ماں زور زور سے بین کرنے لگی۔ ظاہر ہے کیا ہوچکا تھا۔ میں کنواری لڑکی بن کر دہشت سے کانپ رہی تھی۔ تمام عورتیں اکٹھی ہوگئیں۔ مائی مجھے کپکپاتا دیکھ کر سہارے سے زچہ والے کمرے میں لے آئی۔ اچانک صحن میں بڑی ملکنی کی دبنگ آواز شور کرنے لگی۔ مائی دوبارہ ٹوہ لینے باہر چلی گئی۔ میں سن سی بیٹھی رہی۔

    تھوڑی دیر بعد ذرا سی خاموشی طاری ہوگئی۔ زچہ اب تک آنکھیں پھاڑے باہر کی آوازوں پر کان لگائے ہوئے تھی۔ جب مائی باہر سے آئی تو اس نے چپکے چپکے قصہ مختصر کرکے سنایا کہ بڑی ملکنی بھاگ بھری کی ماں کو روک رہی تھی کہ بچہ والے گھر میں رونا مت ڈالو لیکن وہ اپنی بچی کی حالت کی بین ہی کرتی گئی تو بڑی ملکنی آپے سے باہر ہوگئیں کہ تیری لڑکی خود مستانی ہوئی ہے۔ تولیہ رکھ کر وہاں رکی کیوں؟مرد ہے کیا کرے؟ اور یہ بھی کہا کہ بڑی بیٹی کی عزت کی دہائی دینے والی آئی۔ وہ دن بھول گئی جب تیرا خاوند کھیتوں پر ہوتا تھا اور تو ملک جی کی بیٹھک میں ہوتی۔

    بھاگ بھری کی ماں نے رو رو کر اپنی ہم چشموں سے فریاد کی تو بڑی ملکنی اور بھی جل گئیں کہ دیکھیں کون ہیں مریم بیبیاں، جنھیں تو پکار رہی ہے۔ اس پر وہ دھیرے دھیرے خاموش ہوگئی۔ بھاگ بھری کی ماں جب رونے سے باز نہ آئی تو ملکنی نے اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ جاتے ہوئے وہ بھاگ بھری کو لے جانا چاہتی تھی۔ مگر جواب ملا، ’’نہیں جائے گی، آج کام بہت ہے حویلی میں، سب رشتے ناطے والے جمع ہیں۔ ایسی کون سی موت آرہی ہے بھاگ بھری کو۔۔۔‘‘

    ’’ہائے لونڈیا خون سے تربتر ہے، تو بہ میری، کیسے بے وقوف لوگ ہیں، خواہ مخواہ بھاگ بھری کی ماں کو اور غصہ دلایا، وہ ایسے غصے میں گئی ہے کہ پولس لائے گی، دیکھ لینا۔‘‘ مائی نے ’’ختم شد‘‘ کے طور پر ایک زوردار آواز کھینچی اور سوچ میں غرق ہوگئی۔

    میں نے ڈرتے ڈرتے زچہ کی طرف دیکھا۔ وہ خاموش ا و رسنجیدہ لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے پہلو میں اس کا منتوں اور مرادوں کا پہلا بچہ گنڈوں اور تعویذوں سے گندھا پڑا تھا۔ میں نے سوچا اُف انسان کے ساتھ شیطان کیوں لگا ہوا ہے۔ اب یہ پہلا بچہ دیکھو اور باپ کے لیے جیل کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ خیر چاہے مجھے زچہ پر کتنا ہی رحم کیوں نہ آئے، میں تو سچی گواہی دوں گی، بھلے ہی مجھے دوسوروپے روز کے نہ وصو ل ہوں۔

    اس کے بعد باہر صحن میں زور زور سے ڈھول ڈھمکنے لگا اور کسی بول کے گیت گونجنے لگے۔

    میں اس موقع پر ڈھول کی آواز سے ہول گئی۔ گیت کے بول سن کر اداس لیٹی ہوئی زچہ کو جیسے ہوش آنے لگا۔ اور اس نے مینڈھیوں سے گتھا ہوا سر آہستہ سے بچے پر جھکادیا اور اسے ہولے سے چوم کر موہوم طریقے پر مسکرائی، ایسی محتاط مسکراہٹ جیسے وہ مکڑی کے جالوں جیسی ہو، اور وہ ڈر رہی ہو کہ کہیں کوئی تار ٹوٹ نہ جائے۔ میں نے ایک آہ بھر کر کہا، ’’بچے کی قسمت بھی کیسی ہے۔‘‘

    ’’نصیبوں والا ہے، جیو میرے لال۔‘‘ زچہ نے چونک کر جواب د یا۔

    میں نے سوچا مجھے بچے کے بارے میں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی۔ ماں کا دل بڑی سے بڑی مصیبت اور تباہی کی ذمہ داری بھی اپنے بچے پر نہیں ڈالے گا مگر پھر بھی میں نے اپنی قانون دانی سب کی سب اس کے سامنے اگل د ی۔ وہ تعجب اور خوف سے آنکھیں پھاڑے میری باتیں سنتی رہی اور پھر ایک لمبی سانس لے کربچے کو چومنے لگی۔ بخار سے یا نہ جانے کیا سوچ کر زچہ کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ میں خاموش ہوگئی۔ حویلی کی انگنائی میں ڈھول کے ساتھ گیتوں کے بول لہراتے رہے۔ ایک عورت اندر آئی اور اس نے زچہ پر جھک کر کچھ کہا جو میں نہ سن سکی، وہ چلی گئی۔

    میں نے زچہ کا ٹمپریچر لیا۔ بخار اور بھی تیز ہوگیا تھا۔ بچے کو بھی بخار تھا۔ میں اب یہاں سے جلد از جلد چھٹکارا پانا چاہتی تھی۔ ہو تو یہ بھی سکتا تھا کہ میں دوائیں دے کر رخصت ہوجاتی مگر مجھے اپنے پاؤں میں ایک زنجیر سی بندھی معلوم ہو رہی تھی۔ ظاہر ہے یہ زنجیر کون سی تھی؟

    تھوڑی دیر بعد وہی عورت آئی جو ذراقبل زچہ سے کھسر پھسر کر گئی تھی۔ اب اس کے ساتھ بھاگ بھری تھی۔ بھاگ بھری کی آ نکھوں میں وہ شرم نہیں تھی جو میں نے پہلی بار اس کمرے میں آتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھی تھی۔ وہ کواڑ کا سہارا لیے چپ چاپ میری طرف دیکھ رہی تھی۔

    ’’میم صاحب اس کا بھی علاج کرو۔‘‘ زچہ نے میری طرف لجاجت سے دیکھ کر کہا اور میں اس دیہاتی جاگیردارنی کی عظمت کے سامنے سناٹے میں آگئی۔ بھاگ بھری کی تکلیف کا جو بھی مداوا ممکن تھا، میں نے کیا۔ بھاگ بھری اس وقت کتنی بے حس ہو رہی تھی۔

    ایک اور دن گزر گیا۔ دودھ اترنے کی وجہ سے سے زچہ کا بخار بہت تیز ہوگیا۔ وہ بار بار غافل سی ہوجاتی۔ لیکن اسی دن میں واپس چل د ی۔ شاید میں زچہ کی حالت دیکھ کر ایک دن اور رک جاتی، لیکن اسی دن بھاگ لینے میں میری مائی کا شدید اصرار شامل تھا۔

    قصہ یوں ہوا کہ میں صبح صبح اپنے بھائی کے ساتھ قیمتی صوفوں سے ٹھنسے ہوئے دیوان خانے میں مرغ اور پراٹھوں کا ناشتہ کر رہی تھی اور ملک صاحب مجھ سے زچہ بچہ کی خیریت پوچھ چکنے کے بعد باہر دھوپ لے رہے تھے اور ان کے شکاری کتوں کو صبح کا راتب تقسیم ہو رہا تھا۔ قریب ہی کہیں ڈھول نفیریاں بج رہی تھیں۔ اور اس لمحے میں نے طے کیا کہ دو ایک دن او ر رہنا چاہیے۔ پیسے بن رہے ہیں۔

    اس لمحے کے بعد قریب کے ایک مکان کی اوٹ سے نکل کر بھاگ بھری کی ماں آتی نظر پڑی۔ جاڑے کی دھوپ میں اس کا سیاہ تہمد، سرخ لمبا کرتا اور گہری زرد چادر چمک رہی تھی۔ وہ دھیمی چال سے چل رہی تھی۔ اس کے سرپر ایک بڑا تھال تھا۔ جو گوٹا لگے سرخ دوپٹے سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے اور بھی کئی عورتیں تھیں، وہ بھی کچھ نہ کچھ سر پر اٹھائے ہوئے تھیں۔ اور مرد بھی تھے۔ بعض ناچ رہے تھے اور بعض ڈھول نفیریاں بجارہے تھے۔ بھاگ بھری کی ماں کی قیادت میں یہ جلوس بالکل قریب آگیا۔ راتب پر جھگڑتے ہوئے۔ کتے بھونکنے لگے۔ ڈھول کی دھم دھم اور اچکتے پھاندتے مردوں کی ہاؤہو سے ملک صاحب کے ہاتھ پر بیٹھا ہوا باز ایک دم اڑا اور اپنی جگہ پر آبیٹھا اور سب کے بعد اکڑتے بروتے گھوڑے کی لگام ایک شخص کی طرف اچھال کر تھانیدار ملک صاحب کی طرف بڑھا۔

    حویلی کی ڈیوڑھی سے عورتیں سیلاب کی طرح باہر آگئیں۔ بہت سے ریشمی کپڑوں والیاں دیوان خانے میں بھی گھس پڑیں۔ میرا بھائی گھبراکر باہرنکل گیا اور میں نے عورتوں کے ہجوم میں دھکے کھاتے ہوئے دیکھا کہ بھاگ بھری کی ماں نے تھا ل اتار کر ملک صاحب کے قدموں کے قریب رکھ دیا۔

    ’’بچے کے کپڑے آئے ہیں۔‘‘ کا شور اندر سے باہر تک برپا تھا۔ میں ایک دم مائی کو ڈھونڈنے اندر بھاگی۔ آنگن خالی تھا۔ زچہ خانے میں زچہ پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھی اور بھاگ بھری کی مینڈھیاں اس کے ہاتھ میں تھیں اور اس کا چہرہ بالکل ویسا ہی ہو رہا تھا جیسے وہ دردزہ میں مبتلا ہو۔ مجھے دیکھ کر وہ چونک پڑی۔

    ’’بدتمیز نے پانی بستر پر گرادیا۔‘‘ وہ مجھ سے مخاطب ہوئی۔

    اور اس کا چہرہ ایک دم یوں پرسکون اور آسودہ ہوگیا جیسے وہ ابھی ابھی بچہ جن کر فارغ ہوئی ہو۔ بھاگ بھری کے دونوں گالوں پر انگلیوں کے سفید نشان ابھرے ہوئے تھے اور بستریا کمرے میں پانی کا نام تک نہ تھا۔ میں نے جلدی سے مائی کو ڈھونڈ کر اس سے کھسرپھسر کی، وہ شدت سے میری ہمنوا ہوئی اور ہم فوراً چلنے کو تیار ہوگئے۔ مجھے ان لمحات میں یوں لگ رہا تھا جیسے میں اکیلے گھر میں ہوں۔ ایسے گھر میں جس کی دیواریں گرچکی ہوں۔

    گھر پہنچ کر تین دن کے چھ سو روپے والدہ کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے بڑے زور کی بحث شروع ہوگئی۔ صحیح یا غلط؟ مطلب یہ کہ میں نے فوراً چلے آنے میں حماقت کی یا نہیں۔ والدہ کہتیں بالکل ٹھیک کیا۔ بھائی کہتا خواہ مخواہ گھبراکر بھاگیں۔

    اس سے پہلے کہ اس کا کوئی فیصلہ ہو۔ میں یہ بتادوں کہ کرتہ ٹوپی کے جس جلوس کی قیادت بھاگ بھری کی ماں کر رہی تھی، وہ تھانیدار کے گھر سے آیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے