بھنور میں ایلس
(۱)
ادھر آنکھیں بوجھل ہوئیں، ادھر خواب کے در کھل گئے۔۔۔ پھر جیسے کسی نے انتہائی معصومیت سے صدا لگائی ہو۔۔۔ ’’ایلس آنکھیں کھولو۔۔۔ آنکھیں کھولو نا ایلس۔۔۔‘‘
’’جاؤ نہیں کھولتی۔ ابھی مزے مزے کے سپنے جو دیکھ رہی ہوں۔۔۔ آنکھیں کھلیں تو سپنا ہٹ ٹوٹ جائےگا۔۔۔‘‘
آواز پھر گونجی۔ ’’اچھا خیر چھوڑو، یہ بتا، سپنے میں کیا دیکھ رہی تھی۔۔۔؟‘‘
’’میں نے دیکھا کہ۔۔۔ ایلس کہتے کہتے ٹھہر گئی۔۔۔ نہیں پہلے تم بتاؤ۔۔۔ لوگ مرنے سے گھبراتے کیوں ہیں؟‘‘
’’مر جانا ایک بھیانک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے۔ جہاں آنکھیں بند ہوتے ہی ہم سب سے دور چلے جاتے ہیں۔ وہاں آسمان پر ٹمٹماتے تاروں کی طرح۔۔۔ خود کو نہیں پانے، کھوج نہیں پانے اور ہمیشہ کے لئے کہیں گم ہو جانے کا احساس۔۔۔ نہیں ایلس۔ تم نے بےوجہ مغالطے میں ڈال دیا ہے۔ ہنس مت پگلی، بتاؤ نا، خواب میں کیا دیکھا؟‘‘
’’بتاؤں گی تو ہنسنے لگوگی۔ میں نے دیکھا کہ میں مر گئی ہوں۔۔۔ اور وہاں۔۔۔ آسمان پر جو تارہ چمک رہا ہے نا وہ میں ہوں۔۔۔ اچھا بتاؤ۔۔۔ رات میں آسمان پر چمکنے والے تارے کتنے بھلے اور سندر لگتے ہیں۔۔۔ اچھا سمجھ لو ہم مر گئے ہیں اور مر کر وہاں آسمان میں گل بوٹوں کی طرح چپک گئے ہیں۔ اس تارے کی طرح۔۔۔ تو اس میں گھبرانے کی بات کیا ہے؟‘‘
’’گھبرانے کی بات کیسے نہیں ایلس۔۔۔ ہم اکیلے تھوڑے ہی ہوتے ہیں، ایک خاندان ہوتا ہے اور خاندان سے بچھڑ کر آنکھیں موند لینا۔۔۔ ایک دم سے ہنستی مسکراتی جیتی جاگتی دنیا سے کٹ کر گم ہو جانا۔۔۔ ہوا میں تحلیل ہو جانا۔۔۔ اب جیسے تم ہی سوچ کر دیکھو نا ایلس۔۔۔ تمہارے شوہر ہیں، تمہاری ایک لڑکی ہے۔ اسکول سے آنے میں ذرا سی دیر ہوئی تو کیسے بوکھلا جاتی ہو تم؟بوکھلا جاتی ہونا۔۔۔ اب ذرا سو چو۔۔۔ آنکھیں بند ہو گئیں تو۔۔۔ ان سب کی خیر خبر کون لےگا۔۔۔؟‘‘
’’کون لےگا؟۔۔۔ ایلس ہنستی ہے۔۔۔ ارے تب اپنی خیر خبر یہ خود لیں گے۔۔۔ اس میں گھبرانے کی بات کیا ہے۔ ذمہ داری سب سکھا دیتی ہے۔ ہاں تم نے پوچھا نہیں۔۔۔ میں نے کیا خواب دیکھا۔۔۔ میں نے دیکھا کہ۔۔۔ نہیں ڈرو مت۔۔۔ اپدیش مت دو۔ مرنا سب کو ہے۔ ہم امربیل کھا کر تھوڑا ہی آئے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔۔۔ ہاں تو میں نے دیکھا کہ۔۔۔ اب کیا بتاؤں۔۔۔ ایسی روشنی۔۔۔ چکا چوند روشنی۔۔۔ دودھ کی نہریں۔۔۔ سیب کے باغات۔۔۔ مخمل و کم خواب میں لپٹے حسین خوبصورت چہرے۔۔۔ میں نے دیکھا۔۔۔ ندی کی لہروں کی طرح ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔۔۔ خوب سفید براق لباس میں۔۔۔ اور ہوا کی طرح۔۔۔ لہروں کی طرح میں ان کے درمیان تیر رہی ہوں۔۔۔ میں نے دیکھا کہ میرا جسم بالکل ایسا ہی ہے جیسے ابھی ابھی ہے۔ نہیں اس سے بھی کچھ ہلکا ہو گیا۔۔۔ جیسا کہ کالج کے دنوں میں تھا۔۔۔ اور میں ان دنوں سے زیادہ سندر اور پریوں جیسی ہو گئی ہوں۔۔۔ اور میں نے پایا کہ۔۔۔ جسم کے باقی اعضا اپنی جگہوں پر ہیں۔۔۔ مگر ایک شئے نہیں ہے۔۔۔ دماغ والی جگہ خالی ہے، جیسے مرنے کے بعد نکال لیا گیا ہو۔۔۔ یا صاف کر دیا گیا ہو۔۔۔ اس لئے میں صرف تیر رہی ہوں۔ تیر رہی ہوں۔۔۔ بس تیر رہی ہوں۔۔۔ یوں کہ سوچ نہیں پا رہی ہوں کسی کے بارے میں بھی۔۔۔ اچھا چھوڑ۔۔۔ سپنے کی باقی باتیں رہنے دے۔۔۔ یہ بتانا، لوگ مرنے سے گھبراتے کیوں ہیں؟‘‘
*
لیٹے لیٹے کتاب پڑھتے ایلس کی اچانک آنکھ لگ گئی تھی۔ کتاب ہاتھ سے چھوٹ کر سینے پر آ گئی۔۔۔ لاشعوری طور پر دایاں ہاتھ سینے پر چلا گیا۔۔۔ جلتے ہوئے پھوڑوں کی جگہ۔۔۔ جیسے کسی نے کباب لگانے والی سیخ اچانک اس کے سینے میں اتار دی ہو۔ ’’تھلے‘‘ کی مڑی تڑی چمڑی میں اینٹھن پڑ گئی ہو۔۔۔ کہتے ہیں سینے پر ہاتھ آ جائے تو ڈراونا خواب آ جاتا ہے۔۔۔ مگر ڈراونا کہاں۔۔۔ وہ تو جیسے خواب جزیروں کی نا آفریدہ وادیوں کی سیر میں گم تھی۔۔۔ ہاں نیند اس وقت ٹوٹی جب اشرف کے مکڑے کی طرح رینگتے ہوئے ہاتھ اس کے کندھے تک آکر ٹھہر گئے۔ اس نے دونوں آنکھیں بند کر کے اشرف کے چہرے کو پڑھنا چاہا۔ پھر مزہ لینے کے لئے ایک آنکھ ذرا سی کھول دی۔
اشرف کے تھرتھراتے ہاتھوں نے کتاب اٹھا لی۔۔۔
’’ایلس، سوئی ہو کیا۔۔۔؟‘‘
وہ شرارت سے دونوں آنکھیں کھول کر مسکرا پڑی۔۔۔ ’’نہیں تو۔۔۔ ہاں، ہلکی سی نیند لگ گئی تھی۔‘‘
’’کتاب پڑھ رہی تھی؟‘‘
وہ تیزی سے بچوں کی طرح اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔
اشرف نے اطمینان کی سانس لیا۔ پھر کتاب کی طرف دیکھا۔۔۔ ، روشومین!یہ پڑھ رہی تھی؟‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ وہ علی الصباح، سناٹے کو توڑنے والی۔۔۔ اور نیند سے بوجھل ہو رہے لوگوں کو جگانے والی۔۔۔ چڑیا کی طرح چہچہائی۔۔۔ ’’جاپانی ناول ہے۔ میں اب تک سمجھتی تھی کہ یہ جاپانی کمبخت ایجادوں کے سوا اور کچھ جانتے ہی نہیں۔ چھوٹے ٹھگنے قد والے، ان کے دماغ میں دنیا کو جنت بنانے والے سپنے ہی بستے ہوں گے۔۔۔ مگر دیکھو نا، کتنی عمدہ کہانی ہے۔۔۔‘‘
اشرف نے غور سے اس کے چہرے کو پڑھا۔۔۔ کہا کچھ نہیں۔
ایلس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔ جاپان کی قدیم راجدھانی کیوتو کا عظیم الشان گیٹ روشومین وقت کے ساتھ کھنڈر بن چکا ہے۔ وہاں لا وارث لاشوں کا پایا جانا بہت معمولی بات ہے۔۔۔ کیوتو شہر قدرتی آفات کی زد میں آ گیا۔ ادھر سمورائی کے گھر سے نکالے جانے والا ایک بے بس نوکر ہے جس کے لئے سب سے ضروری شئے ہے؟ اس کا زندہ رہنا۔ نیکی اور بدی سے اوپر اس نوکر کے ساتھ حقیقت صرف اتنی سی تھی۔۔۔ زندہ رہنا اور سوزا کو کے کسی دیوار کے سامنے دم توڑنا۔۔۔ اور اچانک روشومین کے ہولناک کھنڈر میں وہ ایک بوڑھی عورت کو دیکھتا ہے جو لاشوں کے سر کے بال اتار رہی تھی۔ نوکر خوفزدہ ہو کر اصلیت پوچھتا ہے۔۔۔ تو معلوم۔۔۔ بوڑھی عورت نے کیا جواب دیا۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔ میں لاشوں کے سرکے بال اتارتی ہوں، اور ان کی ٹوپیاں بنا کر بیچتی ہوں۔‘‘
’’غلط تو میں بھی ہوں۔ مگر تمہاری طرح ذلالت بھرے کام تو نہیں کرتا، نوکر نے پوچھا، تمہیں ایسا کرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟‘‘
بڑھیا نے کہا، ’’ہو سکتا ہے یہ کام تمہارے نزدیک ذلت بھرا ہوا۔۔۔ مگر بھائی جس عورت کی لاش سے یہ بال میں نے اکھاڑے ہیں کیا وہ مجھ سے بھلی تھی؟ بولو، مجھ سے بھلی تھی وہ؟ نہیں جواب دے سکتے پھر؟ مجھے ایک بُری اور مردہ عورت کے سر کے بال اتارنے کا حق کیوں نہیں؟‘‘
ایلس نے اشرف سے کہا۔ جانتے ہو، اس پر سوزا کو کے یہاں سے نکالے گئے چور نے کیا کہا۔ اس نے کہا۔۔۔ بھولی بڑھیا! یہ اچھی بات ہے۔ گویا زندہ رہنے کے لئے دوسرے کا لٹنا بھی ضرور ہے۔ سو اگر میں تمہیں لوٹ لوں تو یہ بھی کہیں سے غلط نہیں ہو گا کیونکہ اس کے عوض میں اپنی دوزخ شانت کروں گا اور زندہ ہوں گا۔‘‘
ایلس کی آنکھوں میں تجسس کی موجیں تھی۔۔۔ اشرف، لوگ زندہ کیوں رہنا چاہتے ہیں، ممکن ہے موت زندگی سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو۔۔۔‘‘
’’پھر وہی موت، اشرف زور سے چیخا۔ کسی نے کہہ دیا کہ تم مرنے والی ہو؟‘‘
’’اشرف۔۔۔ اس نے جیسے آنکھوں کے رستے پلاش کے پھول بچھا دیئے ہوں۔۔۔ ’’غصہ کیوں کرتے ہو۔۔۔ موت حقیقت ہے تو اس سے بھاگتے کیوں ہو۔۔۔ میں ہوا میں تحلیل ہو گئی تو زمانہ کی چال نہیں رک جائے گی یہ ایسے ہی اس وقت بھی قائم رہے گی جیسے ابھی ہے جیسے اس سے پہلے۔۔۔ جیسے اس وقت تم ہو۔۔۔‘‘
وہ اپنی دھن میں کہے جا رہی تھی۔۔۔‘‘ ایک کھنڈر ٹوٹتا ہے اس پر دوبارہ ایک نئی عمارت تعمیر ہو جاتی ہے۔۔۔ پھر؟ ایک شناخت مٹتی ہے نئی شناخت بنتی ہے۔۔۔ ہم گم ہو جاتے ہیں۔۔۔ ہم سے بھی اچھے لوگ اس دنیا میں آ جاتے ہیں۔۔۔ کوئی کسی پر مسلط، حاوی یا ٹکا نہیں ہے۔ سب اپنی ضرورت ہیں۔۔۔ جیسے وہ لاشوں سے بال اکھاڑ کر ٹوپیاں بناتی ہوئی بڑھیا! روشومین کے کھنڈر میں بڑھیا کو لوٹ کر اپنے زندہ رہنے کا سامان کرنے والا سوزا کو کا نوکر۔۔۔‘‘
پھر وہ تیز آواز میں بولی۔ ’’میں کھو جاؤں گی، تب بھی یہ کارخانہ ایسے ہی چلتا رہے گا، اشرف۔۔۔ سمجھے!‘‘
وہ ہنسی تو ایک کھنک دار ہنسی کمرے میں گونجتی چلی گئی۔ لیکن اس ہنسی میں کہیں کوئی درد انگیز کیفیت نہ تھی۔ ایک بے باک سی بیگانہ روش تھی جو ہمیشہ سے ایلس کے مزاج کا ایک حصہ رہی تھی۔
(۲)
کچھ سال پہلے کی بات ہے۔۔۔
بس کچھ سال۔۔۔ اور کچھ سال میں بہار دروازہ تک آتے آتے ٹھہر گئی تھی۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی دائیں طرف ایلس کا کمرہ تھا۔ کمرے کے ٹھیک باہر جنگل سا تھا۔ کھڑکی کھول کر وہ گھنٹوں فرصت کے اوقات ہری بھری وادیوں کو دیکھتی رہتی۔ اشرف دفتر چلے جاتے تھے اور شاہانہ اسکول۔۔۔ وہ گھر پر ہوتی تو خالی وقت میں سا تھی یا تو کتابیں ہوتیں یا قدرت کے یہ گل بوتے۔۔۔
تب کڑاکے کی ٹھنڈی کم ہونے لگی تھی۔ آموں میں بور آنے لگے تھے۔ کوئل کی کوک سنائی دینے لگی تھی۔ سامنے جلتے انگاروں جیسے، پھولوں سے لدے پلاش کے پیڑ تھے۔ پیڑوں کے بارے میں جاننا اور پہچاننا اسے اچھا لگتا تھا۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے بتا سکتی تھی۔۔۔ کہ یہ ڈھاک ہے۔۔۔ یہ ٹیسو، یہ کھاکھر۔۔۔ چھیولا۔۔۔ اور یہ پلاش۔۔۔ بیوٹیما مونوسپرما یعنی فلیم آف دی فارسیٹ Flame of the forest
*
پلاش کے پھول۔۔۔ بچپن میں ان سے رنگ گندھا کرتی تھی وہ۔۔۔ پانی میں گھول کر کتنے کتنے رنگ چرا لیتی تھی۔
ہوا تیز تیز چل رہی تھی۔ پلاش کے سرخ پھول ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے۔ پھر کوئی تیز ہوا آئی۔ سرد سی ہوا اسے چھوتی ہوئی گزر گئی۔ اس نے دروازہ بند کیا۔ کچھ دیر تک وہیں پر، برف سی جمی کھڑی رہی۔۔۔ یہ سینے کے پاس اینٹھن کیسی ہے؟ چمڑی کے اندر اندر اتر جانے والی اینٹھن؟
رات میں شاہانہ سو گئی تو بے اختیار ہو رہے، اشرف کے، بدن پر مکڑے کی طرح رینگتے ہاتھوں کو اس نے چھاتی کے گڈھوں پر لا کر ٹھہرا دیا۔۔۔ یہاں چھوؤ تو سہی۔۔۔ یہاں۔۔۔ دیکھو‘‘
’’ہاں۔۔۔ کیا ہے؟‘‘
’’کچھ محسوس ہوا۔۔۔؟‘‘
’’نہیں تو۔۔۔؟‘‘
’’نہیں تو۔۔۔؟‘‘
’’کچھ جلن سی ہے۔۔۔ دیکھو نا یہاں کچھ ابھر رہا ہے۔۔۔‘‘
اشرف کے ہاتھوں کی آوارگی میں جیسے خلل پڑ گیا۔ وہ چونک پڑا۔ رات کے اندھیرے میں مکڑے سے سانپ بنتے ہاتھ اچانک خرگوش جیسے نرم اور خوفزدہ ہو گئے۔ ’’ہاں ہے تو۔۔۔ کچھ کچھ۔۔۔ ابھرا سا۔۔۔ ڈاکٹر کو دکھا لینا۔ اب سو جاؤ۔‘‘
اسی کے ساتھ وہ کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔ ابھی کچھ دیر پہلے تک کیسا اتاؤلا ہو رہا تھا۔ اور ابھی اچانک۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر ایک شرارت بھری مسکان اتر گئی۔ خود غرض، مطلبی۔۔۔ وہ بچوں کی طرح ہنسی۔۔۔ لیٹ تو گئی مگر ہوا سے گرتے پلاش کے پھول نظروں میں گھومتے رہے۔۔۔ اس سے ذہن گھومتا تو پھر وہیں چلا جاتا۔۔۔ یہاں چھاتی میں اندر کا گوشت کوئی ایسے گھوڑا موڑ رہا ہے، جیسے دودھ کو اسٹیل کے برتن میں رکھ کر فریج کے Chiller میں رکھ دیا جائے تو۔۔۔؟ کیسے ایک دم سے سوکھ کر برف ہو جاتا ہے۔۔۔ اور اوپر اوپر برف کی تہہ جم جاتی ہے۔ ٹھیک ایسے ہی۔۔۔ چھاتی میں جمے دودھ اور خون کو کوئی چور مچور کر، نچوڑ کر، برف کی جھلیاں بنا کر پیس رہا ہو۔۔۔ اندر تک پورا بدن کنکنا رہا تھا۔۔۔
ایلس کمرے میں آ گئی۔ کمرے میں سوئی ہوئی شاہانہ کو ہولے سے چھوا۔ شاہانہ نیند میں بے خبر تھی۔ ایک دو بار مداخلت بری لگنے کے انداز میں چونکی پھر کروٹ بدل کر نیند میں کھو گئی۔ ایلس نے شاہانہ کے بے حد معصوم شگفتہ لبوں پر انگلی پھرائی۔ یہاں سے ہو کر بیسن کے پاس لگے آئینہ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
بلب روشن کیا پھر دھیرے سے نائیٹی کا، آگے کا ہوک کھولا۔ دو بھڑکتے شعلے نائیٹی سے باہر چھلچھلا پڑے اس نے چھاتیوں پر ہاتھ پھیرا۔۔۔ یہاں۔۔۔
مگر چھاتیاں ویسی ہی روشن تھیں۔ ویسی ہی بھری ہوئی اور کسی کنواری لڑکی کے پستان کی طرح کٹھور۔۔۔ شاہانہ دس برس کی ہو گئی اس نے ان دس برسوں میں اپنا فیگر کتنا مین ٹین کر کے رکھا تھا۔ ایک بار پھر پستان کو چھو کر مطمئن ہو جانا چاہا مگر۔۔۔ چھاتیوں میں پڑی کوئی گرہ اس کے ذہن پر بھی پڑ گئی تھی۔
ایک لمحے کو گھبرا کر، آئینہ میں اپنا خوفزدہ چہرہ دیکھا اس نے۔
’’ایلس! کیا تم خوفزدہ ہو؟‘‘
’’بولو ایلس! کیا اس لئے کہ ایک دن گم ہو جاؤگی تم۔۔۔‘‘
’’ہاں، ابھی عمر ہی کیا ہے صرف 35سال مگر 35 سال کی عمر بھی تو کوئی کم نہیں ہوتی۔ مان لو اگر گم ہو گئی تو۔۔۔؟۔۔۔ کیا اسی لئے خوفزدہ ہو۔۔۔ وہاں، کمرے میں اشرف ہوئے ہیں۔ ایک بہت ہی پیار کرنے والے شوہر۔۔۔ بچوں کی طرح غیرذمہ دار اور بے ترتیب۔۔۔ اور ننھی سی شاہانہ۔۔۔ تم سوچتی ہو۔ سب تمہارے سہارے زندہ ہیں؟‘‘
*
ایلس نے نائیٹی کا ہک بند کیا۔۔۔ کوئی کسی کے سہارے زندہ نہیں ہے ایلس۔۔۔ بس زندہ رہنے کا عمل ہے یہ کہ اصول، قاعدے اور ضابطے کی ایک دیوار اٹھ جاتی ہے۔۔۔ اور اس دیوار کے اندر ہی زندگی تلاش کرنی پڑتی ہے۔۔۔ یہ دیوار ٹوٹ بھی گئی تو، کہیں کوئی فرق نہیں پڑےگا ایلس۔۔۔‘‘
وہ دھیرے سے مسکرائی۔۔۔ اب وہ پوری طرح مطمئن تھی۔۔۔ ایک بار پھر اس نے اپنے سراپا کو غور سے دیکھا۔۔۔ اور کچھ گنگناتی ہوئی کمرے میں آ گئی۔
اس رات ایلس صبح دیر تک گھوڑے بیچ کر سوتی رہی۔ آرام کی نیند۔۔۔
(۳)
کچھ ہی دنوں میں مسز گرووراس کی دوست بن گئیں۔ مسز گروور وہی عورت ہیں، جن سے اس کا علاج چل رہا تھا۔۔۔ سبک اور متین لہجہ۔۔۔ آنکھوں میں مادرانہ شفقت کی بو باس۔۔۔ ہونٹوں میں نرمی اور مٹھاس۔۔۔ بھرے بدن کی ادھیڑ عمر کی عورت۔ بالوں میں سفیدی جھانکنے لگی تھی۔ چہرے سے گھریلو دکھنے کے باوجود کافی با وقار لگتی تھیں گروور۔۔۔
تین چار چھوٹی چھوٹی ملاقات کے بعد ہی مسز گروور نے دھماکہ کیا تھا۔
’’ایلس کنگوجر اور تل چٹا دیکھ کر تمہیں ڈر تو نہیں لگتا؟‘‘
’’نہیں تو مگر کیوں؟‘‘
’’میں ایک انکشاف کرنے جا رہی ہوں۔ انکشاف ہمیشہ چونکانے والا ہوتا ہے۔۔۔ ہو سکتا ہے میرا شک ہو۔۔۔‘‘
’’آپ کہیں تو سہی وہ ہنسی تھی۔ میں دل برداشتہ تب بھی نہیں ہوئی تھی جب شاپن ہار کو اس کی تخلیق میں شکست خوردہ محسوس کیا تھا۔ لوگ اتنے نراشوادی کیوں ہوتے ہیں اوشاپن ہار جیسا آدمی؟ اور مونٹائجین جیسا شخص خودکشی کے بارے میں دلیلیں دے دے کر اس کو صحیح ثابت کرتا ہے۔ کمزور اور بزدل۔ میں اس Spiritual Pessimism پر یقین نہیں رکھتی۔
’’Spiritual Pessimism‘‘۔۔۔ مسز گروور زور سے ہنسیں۔ اسی لئے تم سے باتیں کرتے ہوئے مزہ آتا ہے ایلس۔ ناامیدی میں بھی موہوم سی ہی سہی مگر امید کی کرن ہوتی ہے۔ اچھا بتاؤ تو سہی۔ اگر میں انکشاف کروں کہ تمہیں بریسٹ کینسر ہے تو۔۔۔‘‘
وہ جیسے اچانک ایک پل کو برفانی بارش میں نہا گئی۔ حلق میں کچھ الفاظ اٹک سے گئے۔ آنکھوں میں سراسیمگی تیر گئی۔ اس نے خود کو نارمل بنانے کی کوشش کی۔
’’کیا یہ صحیح ہے مسز گروور؟‘‘
’’میرا شک بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ اور بھگوان کرے میرا شک ہو۔ تمہارے عمر کی عورتوں کو ہمیشہ اس جانب سے فکر مند رہنا چاہئے۔ اگر سینے میں گانٹھ سوجن ہو چھاتی یا آس پاس کی چمڑی دھنس گئی ہو۔ پستان سے پانی رستا ہو۔ ان باتوں پر یوں غور کرو کہ یہ موضوع بھی تمہارے ہاتھ میں دبی کسی دلچسپ کتاب کی طرح ہے۔ تو کیا تم اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش نہیں کروگی۔۔۔ اگر ہے بھی۔۔۔ بھگوان نہ کرے۔۔۔ تو کوئی غم مت رکھنا۔۔۔ انسانی جسم امراض کا گھر ہے۔ کیوں ایلس تم گھبرا تو نہیں گئی۔۔۔؟‘‘
ایلس دونوں ہونٹ آپس میں بھینچتے ہوئے مسکرائی۔ مسز گروور۔۔۔ میں بالکل نہیں ڈری۔ مجھے اچانک کچھ یاد آگ یا۔ وہ جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ الگزینڈر سولزے نیٹسن۔۔۔ یہ نام یاد ہے نا آپ کو۔ آپ نے اس کی کینسر وارڈ پڑھی ہو گی۔ مجھے بس وہ عورت یاد آ گئی۔ یاد ہے ناجو اچانک اپنا سینہ کھول کر اپنے بوائے فرینڈ کے سامین جذباتی ہو گئی تھی۔ Suck it۔۔۔ اسے منہ میں لے لو۔ چوسو! اس کا یقین کرو یہ دہکتا ہوا انگارہ۔ اس کا یقین کرو ابھی یہ اس جگہ ہے اور گواہ رہنا کہ یہ اس جگہ موجود تھا۔ کل یہ آپریشن کے بعد کسی گٹریا ڈسٹ بن میں پھینک دیا جائے گا۔۔۔ مگر گواہ رہنا یہ اس جگہ موجود تھا۔۔۔ اپنی تمام تر شعلہ سامانیوں کے ساتھ۔۔۔ یہ دہکتا ہوا انگارہ۔۔۔‘‘
اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔۔۔
مسز گروور نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’ایلس! کیا تم ڈر گئی ہو؟‘‘
’’نہیں تو۔۔۔ آنسو پوچھتے ہوئے وہ پھر مچل گئی۔ ’’ہولناک مسز گروور۔ انتہائی ہولناک۔ میں کینسر وارڈ کی حقیقت میں گم ہو گئی تھی۔۔۔ مسز گروور آپ قطعی پریشان نہ ہوں۔۔۔ کردار کی حقیقت نگاری نے مجھے کچھ دیر کے لئے گمراہ کر دیا تھا۔‘‘
(۴)
اس انکشاف کے بعد گھر میں اچھا خاصا زلزلہ آ گیا تھا۔ اسے لگا ہر کوئی اس سے نظریں چرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کئی کئی رات اس نے اشرف کو پاگلوں کی طرح بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے بھی پایا۔ کئی بار اندھیرے میں اس نے محسوس کیا کہ اشرف آنکھوں میں سمٹ آئے آنسوؤں کو پونچھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے دیکھتا پا کر مسکرانے کی کوشش میں وہ اور بوجھل ہو جاتا۔۔۔ وہ دیکھ رہی تھی، شاہانہ کے چہرے پر غم کی کالی کالی بدلیاں تیر گئی ہیں۔۔۔ شاید وہ بھی اس انکشاف کے پردے میں بہت کچھ جان گئی ہے کہ ایک حقیقت جیسی شئے، ماں جیسی شفقت کا سایہ ہولے سے ایک دن آنگن کی دھوپ کی طرح گم ہو جائےگا۔
صبح میں اگر وہ دیر سے اٹھتی تو دیکھتی کہ اشرف نے اپنے سارے کام خود ہی انجام دے دیئے ہیں۔ شاہانہ کو اسکول کے لئے تیار کرنا، بریک فاسٹ کے لئے ٹوسٹ اور آملیٹ کا ریڈی میڈ ناشتہ تیار کرنا، کپڑے دھونا، استری کرنا، دھوبی دودھ والے کا حساب رکھنا۔۔۔ اسے لگا، وہ کہیں سے چھوٹ تو نہیں رہی ہے۔۔۔ وہ کچھ کرنا بھی چاہتی تو اشرف نظریں چراتا ہوا اس کے سامنے چھا جاتا۔۔۔
’’ریلیکس ایلس۔ کبھی کبھار آرام بھی تو کر لیا کرو۔‘‘
’’اب آرام ہی تو کرنے جا رہا ہوں ہمیشہ کے لئے۔۔۔‘‘
وہ چاہتی تھی، اشرف اس جملے ہمیشہ کی طرح Wit محسوس کرے مگر اشرف اچانک ہی غمگین ہو اٹھتا، آنکھیں بھر آ جاتیں تو وہ نظریں پھیر لیتا۔ زیادہ جذباتی ہو جاتا تو اس کو بانہوں میں بھینچ لیتا۔ پاگلوں کی طرح۔۔۔ ’’تمہیں کچھ نہیں ہوگا ایلس! کچھ نہیں ہوگا۔۔۔‘‘
*
ایک معمولی سی سرکاری نوکری جس کی امید میں آنکھیں جیسے مستقبل کی زمین میں دفن قارون کا خزانہ دیکھنے کی سعی کر رہی ہوتیں۔۔۔ زندہ رہنے اور مطمئن کر دینے کے احساس سے زیادہ کا ’’اتاؤلاپن‘‘ اسے بے چین بنا دیتا۔ وہ محسوس کرتی۔ سرد و گرم موسموں کی تمازت جذب کرتا ہوا اشرف اب بکھر سا رہا ہو۔۔۔ وہ محسوس کرتی تو کھلی کتاب کی طرح اس کی آنکھوں میں اتر جاتی پھر جھانکنے اور پڑھنے لگتی۔۔۔
’’میں نے کبھی تم سے کچھ زیادہ کی مانگ تو نہیں کی۔۔۔‘‘
’’کبھی خود کو تم پر مسلط تو نہیں کیا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘
’’میں گرم ہوا کی طرح تم پر بار تو نہیں رہی۔ میں نے اتنا ہی چاہا نا، جتنا خود کو چاک کرے چاہ سکتی تھی۔ پھر پاگل کیوں بنتے ہو، خوفزدہ کیوں رہتے ہو؟ مر جاؤں گی تب بھی کچھ نہیں بدلےگا۔ سب ایسا ہی رہےگا۔‘‘
’’وہ اشرف کی سانس سانس میں اتر کر کہتی۔۔۔ ’’ممی ڈیڈی گزر گئے۔ جب زندہ تھے تب ان کی ہلکی سی آہ کراہ اٹھتی تھی، لرز جاتی تھی۔۔۔ اور سوچتی تھی، دعا مانگتی تھی کہ اﷲ میاں انہیں ہمیشہ زندہ رکھیو۔ وہ گزر گئے تو اب گزر جانے کے سوا کوئی سا بھی احساس باقی نہیں ہے۔ آنکھیں کھلنے تک جذبات جسم سے روح کی طرح چمٹے ہوتے ہیں۔۔۔ بس۔۔۔ ڈونٹ بی ایموشنل۔‘‘
’’اس نے دیکھا، اشرف نے ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑا لیا۔ کرسی پر دھم سے بیٹھ گیا۔ کچھ اور نہیں ہوا تو بلند آواز میں رونے لگے۔
وہ جھکی۔۔۔ ’’Spiritual Pessimism۔۔۔ مجھے معلوم ہوتا کہ تم شاپن ہار میں سے ہو تو میں کبھی تم سے شادی نہیں کرتی۔۔۔‘‘
(۵)
اندھیرے کمرے میں جب کوئی نہیں ہوتا تو ایلس دیر تک خلاء میں اپنے سوالوں کا جواب تلاش کرتی رہتی۔ کیا سچ مچ وہ ایک دن گم ہو جائےگی؟ یوں غبارے سے نکلی ہوا کی طرح۔۔۔ پھر کہاں جائےگی۔۔۔ اسے لگتا کہ کوئی اس کے قریب کھڑا ہے۔۔۔ یہاں اس قبر میں لوسی سو رہی ہے۔ تم بھی سو جاؤگی۔
وہ چونک کے اٹھتی ہے۔ پھر تالستائے کے ایوان ایلچ کے بارے میں سوچتی ہے۔ ایوان ایلچ مر گیا ہے۔۔۔ کمرے میں اس کا جنازہ رکھا ہے۔ سوگوار گم سم کھڑے ہیں۔ حالانکہ ماحول ہی کچھ ایسا ہے مگر سب سوگوار ہونے کا ناٹک کر رہے ہیں۔ ایوان کے دوست رشتے دار یہاں تک کہ اس کی بیوی۔۔۔ سب آخری رسوم کے جلد سے جلد فارغ ہونے کے انتظار میں ہیں۔ انتشار اور اضطراب سے الگ ایک ابدی سکون۔
وہ ٹھہری۔۔۔ روح سب سے پہلے بدن سے، اپنا رشتہ کہاں سے منقطع کرتی ہے وہ آہستہ سے جانگھوں پر سے ساڑی ہٹاتی ہے۔ کمرے میں در آئی تیز ہوا کھڑکی کے پردے، جھٹکا کر اس کے پوشیدہ مقام، سے ہوتی ہوئی چپکے سے گزر جاتی ہے۔ یہاں سے۔۔۔ ممکن ہے، یہیں سے عورت اپنے خالق کہلانے کا درجہ حاصل کرتی ہو۔ یہیں سے تسکین کے سوتے پھوٹتے ہوں اور عجب کیا کہ روح کی نجات بھی یہیں سے ہوتی ہو!
پیروں کو عریاں کئے۔ وہ دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرتی ہوئی اس مقام کی ’’سنکری‘‘ گلیوں تک آ کر ٹھہر جاتی ہے۔
(۶)
وقت ہوا کے جھونکے کی طرح اڑا اور ایلس کسی کمزور عمارت کی طرح ڈھ گئی۔ پہلے وہ سوچتی تھی۔ لوگ موت Enjoy کیوں نہیں کرتے۔ ایک انجانی سی منزل؟ جس کو کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ ایک انجانی سی دنیا جس کی دریافت کسی نے بھی نہیں کی۔۔۔ وہ چاہے جنت ہو یا دوزخیا محض تصور ہو۔۔۔ موت اس کے لئے کسی چکا چوند گلیمر کی طرح تھی مگر دھیرے دھیرے تکلیف کی شدت نے اسے تنکا تنکا کھوکھلا کرنا شروع کر دیا تھا۔
جیسے نالے کا منہ کھل گیا ہو۔۔۔ چھاتی کا ناسور اور اس سے رسنے والا مواد۔۔۔ جیسے اندر سے، تھلے کو کوئی شئے چچوڑ ہی رہی۔۔۔ پہلے آئینہ کے سامنے نائٹی کا ہک کھولتے ہی جو شئے آنکھوں میں سب سے زیادہ جگمگاتی تھی اب اس سے گھن اٹھ رہی تھی۔
ہاں وہ تھک گئی ہے۔۔۔ اٹھنے سے چکر آنے لگتے ہیں۔
شاہانہ اس کے پاس آ کر پتھر کی مورت کی طرح ٹکر ٹکر اس کا چہرہ تکتی ہے اور کسی بڑے سمجھدار آدمی کی طرح کہتی ہے۔ ’’ممی! اب مجھے اکیلے کمرے میں ڈر نہیں لگتا میں خود سے کنگھی بھی کر لیتی ہوں۔ مجھے سارے کام آتے ہیں۔ ممی۔۔۔‘‘
اشرف اس سے نظر بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ جیسے اس کے بکھرتے وجود میں دن، مہینے اور برس گن رہے ہوں۔ کبھی کبھی کمرے میں پاگلوں کی طرح ٹہلنے لگتے ہیں۔
جبراً وہ مسکرانے کی کوشش میں صدا لگاتی ہے۔۔۔ ’’اشرف، گھبراتے کیوں ہو۔۔۔ کسی اور کو لے آنا۔۔۔‘‘ وہ ہنستی ہے۔ ’’ذرا سوچو، شاہانہ کی پیدائش کے دو سال بعد سے میں تمہارے لئے کیا رہ گئی ہوں۔ ایک ایسی ضرورت جو تم میرے سوا بھی پوری کر سکتے ہو۔ کسی سے بھی۔۔۔ بس اسی ضرورت کے لئے میں یاد آؤں گی۔‘‘ وہ زور سے ہنسی۔۔۔ ’’یو انڈین! اتنا پڑھ لکھ کر بھی تم لوگ دقیانوسیت کے خول میں کیوں بند رہتے ہو؟‘‘
پھر اس نے اشرف کی گھٹی گھٹی سی آواز سنی۔ ’’مائی ڈارلنگ ایلس!۔۔۔ ایسا کیوں سوچتی ہو؟‘‘
’’اس لئے کہ اب تم لڑتے نہیں، بگڑتے نہیں، ناراض نہیں ہوتے۔۔۔ تم موم بتی کے پگھل جانے کی راہ دیکھ رہے ہو۔ اس نے غور سے اشرف کی آنکھوں میں جھانکا۔ ’’موم بتی جب تک جل رہی ہے۔۔۔ آخری شعلے تک۔۔۔ وہ روشنی تو دے رہی ہے۔۔۔ میں ابھی نہیں مر رہی۔۔۔ جب مروں گی، تب دیکھا جائے گا۔ موت کو عام حقیقتوں کی طرح قبول کرنا سیکھو۔۔۔ جینا سیکھو۔‘‘
زندگی جینا اور ہر لمحے کو Enjoy کرنا۔۔۔ مسز گروور سے یہی تو وہ کہتی ہے۔
*
’’سرخ پلاش کے پھول پھر کھل اٹھے ہیں۔ پچھلے سال بھی کھلے تھے۔ تب سے ایک سال گزر گیا۔ ایک سال زندہ رہی نا۔۔۔؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’اگر مسز گروور! ایک سال پہلے میں اداس ہو گئی ہوتی تو۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گئی۔۔۔ کیوں مسز گروور میڈیکل سائنس کی دنیا میں ایسے معجزے نہیں ہوتے کیا۔۔۔؟‘‘
’’ہو بھی سکتے ہیں؟‘‘
مسز گروور کی لاچاری پر اسے ترس آتا ہے۔۔۔
وہ جانتی ہے۔۔۔ وقت کم رہ گیا ہے۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھ رہی ہے موت میں فاصلہ بہت کم رہ گیا ہے، بہت سی باتیں، بہت سی کتابیں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیں وہ کرنے پڑھنے اور جاننے کی خواہش مند ہے۔۔۔ وقت دریا کا پانی سوکھتا جا رہا ہے۔
پھر اس کا جسم نت نئے عذاب سے گزرتا چلا گیا۔ اشرف اسے لئے لئے پھرتے رہے۔۔۔
اس کونے سے اس کونے، ایک شہر سے دوسرے شہر۔۔۔ آپریشن، ریڈیشن کے مختلف مرحلوں سے اس کا بدن گزرتا رہا۔۔۔ کیمو تھراپی سے تھوڑی راحت ملی تھی لیکن مرض پھر بھی نہیں گیا۔۔۔ ریڈیم، بایوپسی، میموگرافی۔۔۔ میڈیکل سائنس کے ہر جبر کو جھیلنے اور سہنے کے لئے وہ شہروں شہروں اڑان بھرتی ہوئی بمبئی آ گئی تھی۔
*
بمبئی ہاسپٹل۔۔۔ بمبئی دیکھنے کی کتنی خواہش تھی اس کی۔۔۔ مگر وہ ایک کینسر پیشنٹ تھی، اس کی دنیا محض کینسر وارڈ تک محدود تھی، جہاں چیخوں اور کراہوں کو سنتے سنتے اس کے کان پک گئے تھے۔۔۔ ڈاکٹر مریض، سب کے سب اسے کینسر پیشنٹ نظر آنے لگے تھے۔
وہ لہولہان ہوتی رہی۔۔۔ ہوتی رہی۔۔۔ لیکن ایک دن جب برداشت کی قوت ختم ہو گئی تو وہ اشرف کے سامنے پھٹ پڑی۔
’’اشرف سنو! یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے، میرا جسم ان ڈاکٹروں کے تجربے کے لئے نہیں ہے۔ مجھے واپس وہیں لے چلو۔۔۔ مسز گروور کے پاس۔۔۔‘‘
وہ گڑگڑانے کے لہجے میں بڑ بڑائی۔ یقین مانو اشرف یہ وہی پرانے تجربے مجھ پر کئے جا رہے ہیں جہاں سے انہیں کامیابی ملنے کی کوئی امید نہیں۔ اگر کامیابی ملنے کی ذرا سی بھی صورت دکھتی تو میں پہلی عورت ہوتی جو اپنے جسم کو ان کے تجربے کے لئے وقف کر دیتی مگر۔۔۔‘‘
وہ دم گھٹ رہے قیدی کی طرح ہانپ رہی تھی۔ ’’یہ مجھے تھکا رہے ہیں۔ مجھے سب کینسر میں لتھڑے ہوئے نظر آ رہے ہیں جن کے گوشت کی جھلیاں پھٹ گئی ہیں اور ناسور باہر جھانک رہے ہیں۔۔۔ مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔۔۔‘‘
اشرف یخ زدہ لہجے میں بولے۔ ’’ایلس ڈارلنگ! یہ تمہیں ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’نہیں یہ صرف ایکسپریمنٹ کر رہے ہیں۔ الٹراسونوگرافی، فائن نیڈل ایکسپریش سایٹولوجی۔ یہ جسم صرف ایک تجربہ گاہ ہے تمہارے ڈاکٹروں کے لئے۔۔۔ یہ دیکھو۔۔۔‘‘
اچانک، بہت اچانک۔۔۔ ایک بے ہودہ سا واقعہ پیش آیا۔۔۔ اس نے جھٹکے سے اوپری لباس ہٹایا اور اپنے سینے کی گولائیوں کو اس کے سامنے عریاں کر دیا۔۔۔
’’دیکھو۔۔۔ غور سے دیکھو۔۔۔ میں ابھی ابھی پورے ہوش و حواس میں ہوں۔۔۔ اور کوئی ناٹک نہیں کر رہی ہوں۔ میں کینسر وارڈ کی اس عورت کی طرح یہ نہیں کہوں گی کہ دیدار کر لو اور گواہ رہنا کہ یہ کبھی تھا۔۔۔ موجود تھا۔۔۔ دیکھو یہ محض سڑے ہوئے گوشت کا بدبو دار، جھولتا ہوا لوتھڑا رہ گیا ہے۔۔۔ اندر اندر مواد سے بھرا ہوا ہے۔ کیا تم اس سے محبت کر سکوگے۔۔۔ اور اسے دیکھ کر محسوس کر کے مجھ سے۔۔۔؟‘‘
*
اس رات ایلس نے چپکے سے ڈاکٹر کی نظر بچا کر ڈائری میں لکھا۔ زندگی صرف بھلی بھلی ہی اچھی لگتی ہے۔ شاید یہ بات سب کے ساتھ ہے۔ حسین، دلفریب، خوبصورت مناظر اور توبہ شکن پُر کشش جسم۔۔۔ اپنی لٹکتی جھولتی مواد رستی چھاتیوں کو تکتی ہوں تو مجھے نفرت محسوس ہوتی ہے۔ ابھی اس نفرت کو جی سے لگا کر رکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ اس نفرت کے اگنے تک جینے کی خواہش کو برقرار رکھنا چاہتی ہوں۔ اشرف ناامید ہو گئے ہیں۔ مجھے لے کر وہ وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ شاہانہ، مسز گروور اور اپنا گھر۔۔۔ سب مجھے بے صبری سے یاد آ رہے ہیں۔ اپنا شہر اور اپنے گھر کی بات ہی دوسری ہوتی ہے۔۔۔‘‘
(۷)
ڈاکٹروں کے مطابق اس کا بریسٹ کینسر اب تھرڈ اسٹیج میں پہنچ گیا ہے۔ یعنی جینے کے چانس بہت کم رہ گئے ہیں۔ امید، دھندلی سی امیدوں پر پروہ زندہ نہیں تھی۔ وہ فخر سے کہتی تھی۔ یہ کتابیں۔۔۔ ان کتابوں نے مجھے زندہ رکھا ہے۔۔۔ وہ ذرا بھی خود کو چلنے پھرنے کے قابل محسوس کرتی تو مسز گروور کے یہاں پہنچ جاتی۔ وہاں وہ جتنی دیر بیٹھتی، آل انڈیا گائناکالوجی سوسائٹی اور بریسٹ کمیٹی کی رپورٹ کا مطالعہ کرتی پھر مسز گروور سے جرح کرتی۔۔۔ مسزہار کر کہتیں۔ ’’ایلس تم میں زندگی بہت ہے۔‘‘ پھر ان کی آواز بھاری ہو جاتی۔۔۔ ’’میں تمہارے لئے پریئر کرتی ہوں میری بچی۔۔۔‘‘ مسز گروور کی آنکھیں نمناک ہو جاتیں۔
وہ دھیرے سے ہنس پڑتی۔ ’’مسز گروور میں نے عالیشان مکان میں نہیں، عالیشان کتابوں میں پناہ ڈھونڈی ہے۔۔۔ جینا جانتی ہوں مسز گروور۔۔۔‘‘
لیکن شاید بہت دور تک چلتے چلتے وہ ہانپ گئی تھی۔
(۸)
وہ دن بہت عام سا نہیں تھا۔
اور یہ سچ تھا کہ کئی دن سے مسلسل سوچ کر رہ گزر پر چلتے چلتے وہ ہانپ گئی تھی۔ ایلس کو احساس تھا کہ اب بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ مٹھی بھر بھی نہیں، جب اچانک ایک پل میں آنکھیں بند ہوں گی تو پھر نہیں کھلیں گی۔ تب جانے وہ کہاں ہو گی پتہ نہیں، آنکھیں موند جانے کے بعد اس کے پیٹھ پیچھے جو بھی ہو رہا ہے، اس کے دیکھنے کا عمل باقی رہتا ہے یا نہیں۔۔۔ شاید وہ بھی کچھ دیکھنا چاہتی تھی۔ ممکن ہے یہ کہ اشرف کیسے رہتے ہیں، شاہانہ کس طرح زندگی گزارتی ہے۔
وہاں پراسراریت کے جنگلوں کو ہوا کی طرح عبور کر جاتی۔ کوئی شئے ہے جس نے ابھی تک اسے مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔۔۔ آخر وہ شئے کیا ہے۔۔۔ کتابیں۔۔۔ نہیں وہ نہیں مان سکتی۔ یہ کچھ اور بھی ہے۔۔۔ ممکن ہے حقیقت کی تلخی کو وہ اپنی پناہ میں لینے سے خوف کھاتی ہو۔۔۔ مگر نقاہت، چھاتی سے رسنے والے مواد، گوشت کے لوجھڑ چت کو برے، تفتیش کے ہر نئے عمل سے باہر نکل کر وہ صرف یہی سوچ رہی ہے، ایلس راتیں اتنی لمبی کیوں ہوتی ہیں؟‘‘
لیکن تعجب۔۔۔ اس روز رات مختصر ہو گئی اور دن اسی ایک خاص تجربے کے لئے ودیعت کیا ہوا نظر آیا۔
*
اس دن وہ صبح سویرے ہی اٹھ گئی۔ آنکھوں کے آگے سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ اس نے پاس لگے آئینہ میں چہرہ دیکھا۔ خود کو پہچاننا چاہا۔ اپنی بکھرے بکھرے سے بیمار زدہ وجود کو دیکھا۔ پھر جیسے خود سے بڑبڑائی۔۔۔ کیوں، بہت بیمار لگتی ہوں نا، ایلس۔ مرتے وقت لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتی ہوں کہ بیمار کہاں تھی۔۔۔ ابھی سب سوئے پڑے ہیں۔ ۸ بجے شاہانہ کی بس آتی ہے۔۔۔ ساڑھے چھ بجے سے پہلے اشرف اور شاہانہ میں سے کوئی بھی نہیں جاگتا۔۔۔ سب سے پہلے اشرف جاگتے تھے۔ گھڑی کا الارم سن کر۔۔۔ پھر شاہانہ کو جگاتے۔۔۔ ٹوسٹ گرم کرتے، آملیٹ بناتے، ٹفن تیار کرتے، کتابی کھوجتے اور شاہانہ کا ہاتھ پکڑ کر بس تک چھوڑ جاتے۔ اب اس کی جگہ یہ سارا معمول اشرف نے سنبھال لیا تھا۔ اس نے سوچا آج کا دن خدا نے اسے ودیعت کیا ہے۔ وہ اس دن کا بھر پور استعمال کرےگی۔
کپڑوں کی الماری سے اس نے اپنے لئے ایک نفیس ساڑی کا انتخاب کیا۔ پھر اس سے میچ کرتا ہوا بلاؤز لے کر باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ ایک نئے احساس نے جسم کی نقاہت بھلا دی تھی۔۔۔ باتھ روم کا دروازہ بند کر کے اس نے سارے کپڑے ایک ایک کر کے اتار دیئے۔ ایک لمحے کو وہ ٹھہری۔ ہاں، وہ دبلی ہو گئی ہے۔ یہاں سے۔ اور یہاں سے۔۔۔ ناف کے اوپر کا حصہ اور۔۔۔ یہاں تک۔۔۔ جانگھوں پر سے جیسے گوشت کی پرت اتر گئی۔۔۔ بس ایک سال میں کشش نام کی دھوکہ باز چڑیا اس سے اپنا رشتہ توڑ کر اڑ گئی۔ اس نے سوچا۔۔۔ رات کے وقت پہلو بدلتا ہوا اشرف۔۔۔‘‘
دھیرے دھیرے جسم پر ہاتھ پھراتے پھراتے وہ ٹھہر گئی۔ آگ اچانک برف کی طرح سرد کیوں ہے؟ ایک بے حس، بیمار زدہ عورت اس میں کروٹ لے رہی تھی۔۔۔
’’مجھ میں زندگی کیوں نہیں ہے۔۔۔؟‘‘
’’اپنی حرارت گرم جوشی میں کہاں بھول آئی ہوں۔۔۔؟‘‘
*
وہ غسل کر کے اٹھی تو ایک نئی عورت کے ساتھ شادابیوں سے لبریز تھی۔ شاہانہ کو دیر تک پیار کرتی رہی۔ اس کو چوما، گالوں کو سہلایا۔۔۔ شاہانہ میری بچی، میرا پیار،
شاہانہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ فق ہو رہا تھا۔
’’ممی اب میں تمہیں تنگ نہیں کروں گی۔ میں جانتی ہوں، تم بیمار ہو۔‘‘
’’پگلی‘‘ اس نے پھر پیار سے لپٹایا۔ چہرے پر انگلیوں سے لکیر بناتی ہوئی بولی۔ ’’میں بیمار نہیں۔ دھوپ ہوں! آنگن سے دھوپ کیسی اتر جاتی ہے۔ ویسے ایک دن میں بھی کھو جاؤں گی۔ مگر مجھے کھوجنا مت۔۔۔ جو چیز گم ہو جائے اس کا غم مت کرنا۔۔۔‘‘
اس روز، وہ سارا دن شاہانہ سے کھیلتی رہی۔ اشرف بھی اس دن آفس نہیں گئے۔ سارا دن اسے گھورتے رہے۔۔۔ اس دن وہ بہت کم بولے۔ بار بار پلٹ کر اپنی تیز نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دیتے تھے۔ سارا دن وہ ایسے ہی گم سم رہے۔
*
رات ہو گئی۔ شاہانہ کو سلا کر وہ چپکے سے اپنے کمرے میں آ گئی۔ اشرف سگریٹ پی رہے تھے۔ اس نے سگریٹ اس کے ہاتھوں سے چھین لیا۔۔۔ پھر ایش ٹرے میں آگے بڑھ کر سگریٹ بجھا دی۔۔۔ پھر دھیرے ہنسی۔۔۔
’’سنو، میں کیسی لگ رہی ہوں۔۔۔؟‘‘
سارا دن چپ رہنے کے بعد اشرف تیز آواز میں بولے ’’ایلس مجھے جینے دو ایلس۔۔۔‘‘ وہ کانپتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔
’’میں کب جینے نہیں دے رہی ہوں۔‘‘ پیار سے ہاتھ پکڑ کر اس نے اپنی طرف کھینچا۔۔۔ جینے پر سب کا اپنا حق ہوتا ہے، اشرف۔۔۔ جینے کا حق میں کہاں چھین رہی ہوں۔‘‘
’’پھر یہ الجھی الجھی باتیں کیوں کر رہی ہو۔۔۔ آج جو دن بھر کرتی رہیں، وہ سب کیا تھا؟‘‘
’’مجھے لگا، بس آج کا دن ملا ہے مجھے‘‘ وہ کھلکھلائی۔۔۔ ’’ایک پورا دن۔۔۔ ہزاروں لاکھوں سیکنڈ۔۔۔ کئی کئی گھنٹے۔۔۔ وہ گرم ہوا کے تھپیڑے کی طرح گزر گئے۔۔۔ میں گم ہو رہی ہوں اشرف!‘‘
اس نے کپکپا دینے والی سانسوں کی ہلچل سنی۔
’’سنو، تم مجھے یاد نہیں کرو گے۔‘‘
وہ پلٹ کر بولی۔ ’’ایک چیز جو نہیں ہے، اسے یاد کرنے اور جذباتی ہونے سے کیا حاصل؟‘‘ وہ رک رک کر سانس لے رہی تھی۔ ’’میرے پاس شاید بہت کم وقت ہے۔ میں آج کی رات کو یادگار بنانا چاہتی ہوں۔ یاد کرو ایک سال سے تم نے مجھے چھوا نہیں۔۔۔ چھونے کی کبھی خواہش نہیں ہوئی نا۔۔۔ وہہنسی۔ چھونے سے پہلے ایک ڈرپوک مرد تم میں جاگتا ہوگا جسے مجھے چھونے سے گھن آتی ہوگی۔‘‘
اشرف نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
اس نے حکم صادر کرتے ہوئے کہا۔ ’’چلو، کپڑے اتارو، میری بیماری سے مت ڈرو۔ تم گھبرا رہے ہو۔ نہیں میں سڑ نہیں گئی ہوں۔ تمہارا ساتھ دے سکتی ہوں۔ اتنا ول پاور بچا ہے میرے پاس۔‘‘
وہ خود ہی آگے بڑھی۔ اشرف کے کپڑوں کے بٹن میں اس کی انگلیاں الجھ گئیں۔ ایک سڑسڑاہٹ ہوئی، ایک سنسنی سی اندر تیر گئی۔۔۔
وہ آہستہ آہستہ اس پر بچھنے لگی۔ ’’ہاں، پہلے مجھے لگتا تھا کہ تمہارے ہاتھ خوبصورت نہیں ہیں۔۔۔ تمہارے یہاں سے۔۔۔ یہاں تک کا حصہ، وہ سینے پر انگلیوں سے شگاف ڈال رہی تھی۔۔۔ بدصورت ہے۔۔۔ دیکھو نا، کتنی مدت بعد تمہارے اس گلستاں کی سیر کر رہی ہوں۔ میں غلط تھی اشرف۔ تمہارے بدن میں کسی حسین عورت کے خطوط کی طرح گداز اور پیچ موجود ہیں۔‘‘
وہ کھلکھلا کر ہنسی۔ اشرف نے بوکھلا کر سانپ کی طرح سرسراتے اس کے ہاتھوں کو دیکھا۔۔۔ وہ سر کا۔۔۔ پیچھے ہٹا۔ ’’نہیں۔۔۔ خدا کے واسطے۔۔۔ نہیں ایلس۔‘‘
’’بس اپنی موجودگی کا گواہ رہنے تک۔‘‘ اس نے انگلیوں کا رقص بدستور جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’آج تم وہی کرو گے جو میں چاہوں گی۔ اس کے بعد نہ میں چاہوں گی اور نہ اس کے لئے موجود رہوں گی، ہاں تم ہو گے تمہاری دمیا ہو گی، اور تم اپنی ضرورتوں کے لئے آسمان میں سیر کرتی چڑیوں کی طرح آزاد ہو گے۔ چلو مجھے سیراب کرو۔۔۔‘‘
پھر وہ کسی ناگن کی طرح لہرائی، سمندر کی طرح گرجی اور کسی سیلاب زدہ ندی کی طرح بہتی چلی گئی۔
(۹)
قارئین! اس کے بعد کہانی بہت کم بچی ہے۔
ایلس مر گئی۔ شاید اسے اپنے مرنے کا علم ہو گیا تھا۔ اس رات کے بعد ایک رات اس کی زندگی میں اور آئی۔۔۔ مگر وہ بے لذت اور بستر مرگ پر کروٹیں بدلتے ہوئے مریض کی آخری شبکی طرح ہولناک اور اذیت ناک تھی۔۔۔ پھر ایلس ہمیشہ کے لئے بادلوں میں کھو گئی۔ اس شب مرنے سے پہلے کچھ لمحے کی مہلت نکال کروہ اپنی خواب گاہ کی میز پر کچھ لکھ رہی تھی۔۔۔
’’میں موت کو دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔ اس لئے اس کے بارے میں دسیوں طرح کے پُر اسرار تصور آنکھوں میں سجائے تھے۔۔۔ میں جینے کی طرح جیئی اور مرنے کی طرح مر گئی۔ میں اپنے سانس سانس کو بٹور کر اس میں زندگی رکھ کر جینا چاہتی تھی۔۔۔ مرنے سے پہلے میں تشنہ نہیں رہنا چاہتی تھی۔۔۔ مجھے خوشی ہے۔ میں تشنہ نہیں رہی۔ میں نے شاہانہ کو کبھی بےبس اور لاچار نہیں سمجھا۔۔۔ اس لئے کبھی اسے اپدیش نہیں دیا۔۔۔ کسی کے چلے جانے سے کوئی بدنصیب نہیں ہو جاتا۔۔۔ (کاٹی ہوئی لائن۔۔۔) زندگی جس کے پاس ہے۔۔۔ (پھر کاٹی ہوئی۔۔۔) اس میں اس کے ہونے کا احساس ہی اس نیا کو پار لگا سکتا ہے۔ اشرف پر بھی ترس نہیں آتا۔ میں جانتی ہوں۔ (حرف موٹے ہو گئے ہیں) اپنی سب طرح کی ضرورتوں کے لئے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، غلام نہیں ہے۔۔۔ وہ اس ضرورت کو کسی نہ کسی طرح پورا کر لےگا۔۔۔ میں دونوں کی طرف سے مطمئن ہوں۔ دونوں کے سامنے زندگی کے دھارے کھلے ہیں تاوقتیکہ موت نہ آ جائے۔۔۔ ایک انجانے سفر پر نکلتے ہوئے اپنے تجسس کو زندہ رکھنا چاہتی ہوں میں۔ یا یوں کہیں کہ میں چاہتی ہوں۔۔۔ (کچھ سطر کاٹی ہوئی) پتہ نہیں انجانے سفر میں انسان کو کیسا لگتا ہوگا اور یہی چیز مجھے مطمئن کر رہی ہے۔‘‘
اس کے بعد حروف ترچھے ہو گئے۔ جیسے لکھتے لکھتے قلم کی نب ٹوٹ گئی ہو۔۔۔ یا ہاتھ کانپنے لگے ہوں۔ ایک چھوٹی سی لکیر کے ساتھ عبارت ختم ہو گئی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.