Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھوک اور خدا

شاہین کاظمی

بھوک اور خدا

شاہین کاظمی

MORE BYشاہین کاظمی

    گہرے رنج کی بکل میں سرسراتے وسوسے ڈسنے لگے تھے بقا داؤ پر لگی ہو تو سانسوں میں زہر گھل جاتا ہے اور فیصلہ دشوار تر۔۔۔ ہوا اس کے دل کی طرح بوجھل تھی شام اندھیرا اوڑھے پربتوں سے سرک کر راستوں پر بچھی تو لوگ تھکے تھکے قدموں سے گھروں کو لوٹنے لگے زولو اُن کے دلوں میں پنپتے گہرے رنج میں لپٹے وسوسوں سے بخوبی آگاہ تھا جانتا تھا دلاسا بھوک مٹاتا ہے نہ خوف۔۔۔ پیٹ خالی ہو تو الفاظ وقعت کھو دیتے ہیں۔۔۔ ایسا کئی مہینوں سے ہو رہا تھا خوراک کے تیزی سے ختم ہوتے ذخائر اور پیروں تلے دھول اڑاتل جھلسی ہوئی دھرتی آج ایک عرصے بعد دیوتاؤں کے مکٹ چڑھائے وہ سب محو رقص تھے ڈھول کی تھاپ پر تھرکتے قدم اور لبوں سے پھوٹتے خوشحالی کے نغمے۔

    ’’اے بوندوں پر حکمرانی کرنے والے‘‘

    دھرتی کے لب پیاسے ہیں

    شمالی ہوا نے کھیتوں سے ہریالی چوس لی ہے

    چاند طلوع ہوتا ہے تو دھند اُسے نگل لیتی ہے

    اے آسمانی دریچوں میں رکھے چراغوں کے مالک

    مویشیوں کے تھنوں میں خشک ہوتا دودھ

    اور دھرتی کی اجڑی کوکھ

    دل گہنا رہے ہیں

    اے روحوں کا گریہ سننے والے

    امکان سے یقین کی سحر کب پھوٹےگی دل گہنا رہے ہیں

    طربیہ گیت دعا اور پھر التجا میں ڈھل گئے لیکن دھرتی کی کوکھ بانجھ ہی رہی جھیلیں کیچڑ بنیں تو ہجرت کا نقارہ بج اٹھا۔ جنم بھومی کو الوداع کہنا کب آسان ہوتا ہے لیکن لمبی کلغی والے پرندے سفید پروں کو پھیلاکر آسمانی وسعتوں کی طرف لپکے اور نظروں سے اوجھل ہوئے تو دل جیسے اچھل کر حلق میں آ گئے۔۔۔ نقارے کی ہر چوٹ دل پر پڑتی محسوس ہوئی جھیلوں پر ویرانی کا راج تھا بھوک کا رقص شروع ہوا تو بوڑھے زولو کے چہرے کی جھریوں کی طرح زمین کی کوکھ میں اترتے تابوتوں میں اضافہ ہونے لگا۔۔۔ بہت سی آنکھیں اس پر مرکوز تھیں لیکن اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔

    ’’آسماں رنگ بدل ک گیا ہے’’

    ’’اب کیا ہوگا؟’’

    ’’مناجات کی تاثیر کیا ہوئی؟’’

    ’’ہم لہو کی قربانی دیں گے’’

    سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے لیکن اس نے ہاتھ اٹھا کر سب کو خاموش کروا دیا۔

    ’’سمے کا اَسپ منہ دوسری طرف کیے بھاگ رہا ہے بوند اور دھرتی کے وصل میں زمانے حائل ہیں بھوک دروازوں پر دستک دی رہی ہے مناجات کی تاثیر مر چکی تم میں سے جو بھی اپنی بقا کے لئے قبیلہ چھوڑ کر جانا چاہے وہ آزاد ہے’’

    مجمع پر سکوت طاری تھا۔ زولو کا خاندان کئی صدیوں سے روحانی پیشوا کے طور پر قبیلے کی چھاؤں بنا ہوا تھا۔ لوگ جانتے تھے اِ

    س کا دیوتاؤں سے خاص رابطہ ہے۔

    ’’کیا دیوتا ناراض ہیں؟’’

    ’’ہاں گمراہی انھیں غضب ناک کرتی ہے’’

    ’’انھیں منانے کا کوئی اپائے؟’’

    اور پھر پورا قبیلہ خوراک کے باقی ماندہ ذخائر چٹانی مندر کے بڑے غار تک لے آیا راشن مقرر ہوا قربانی اور مناجات کے خصوصی دور ہوئے دیوتاؤں کی مکٹ پہن کر مقدس رقص کا آغاز ہوا سیاہ بکرے کے خون سے دیوتا کو غسل دے کر روٹھے ہوئے بادلوں کو پکارا گیا۔

    ہم اپنے خون میں رچے گناہ کے احساس کو

    اِس مقدس آگ میں بھسم کرتے ہیں

    اے روحوں کو پا ک کرنے والے

    اپنی آسمانی سلطنت کے در کھول

    کہ مناجات کو سندِ قبولیت عطا ہو

    اے ازل سے زندہ رہنے والے

    ہمارے کشکول میں سانسوں کی بھیک ڈال

    ہمارے بازوؤں میں اتنی طاقت ہے کہ زمین کا سینہ چیر سکیں

    ہوا ہمارے لئے مسخر کر اور بادلوں سے پانی اتار

    سینے شق ہونے لگے آنکھیں تھک گئیں وسوسے گہرے رنج کی بکل میں سرسراتے رہے روحیں گریہ کناں تھیں لیکن آسمانی در کھلنے تھے نہ کھلے زولو کی جہاں دیدہ نگاہیں ہواؤں کا رخ پہچان چکی تھیں اس نے آخری بارا پنا سیاہ دھاری دھار چوغہ زیب تن کیا اور عصا تھامے چٹانی مندر کے سامنے کی طرف نکلے ہوئے حصے پر نمودار ہوا لوگ زمین پر گر کر اس کی ثنا کرنے لگے اس کے بوڑھے چہرے کی جھریوں میں لپٹی اداسی اور ملال صاف پڑھا جا سکتا تھا۔

    ’’ہم ڈوگان اس دھرتی کے سپوت او اپنے پرکھوں کی ہڈیوں کی پاسداری پر متعین . دیوتاؤں کے مکٹ ہمارے لیے خاص عطا تھی ہم نے انھیں صدیوں سے سینے لگائے رکھا لیکن اب شاید دھرتی کبھی گابھن نہ ہو گی میں اپنے تمام تر اختیارات استعمال کرتے ہوئے آج اس مقدس ڈوری کی گرہ کھول کر تم سب کو آزاد کرتا ہوں اس سے پہلے کہ بھوک بدن کو چاٹ لے یہاں سے شاداب زمینوں کی طرف نکل جاؤ‘’

    یہ کہہ کر اس نے مہا دیوتا کے گلے میں پڑی یگ مالا توڑ دی اور تھکے تھکے قدموں سے وہیں چھجے پر بیٹھ گیا۔ وقت کب تھما ہے جواب تھم جاتا گاؤں دھیرے دھیرے خالی ہونے لگا بس چند خاندان بچے تھے جنہوں نے زولو کو چھوڑنا گوارا نہ کیا آج آخری رقص تھا زولو جانتا تھا آج کی خوراک ذخیرے کی آخری خوراک تھی۔

    ’’کل کیا ہو گا؟’’ سب کے ستے ہوئے چہروں پر لکھا سوال زولو کے اعصاب توڑ رہا تھا۔ جانے کس پاداش میں بادل اس دھرتی سے ایسے روٹھے کہ دھرتی بنجر ہو گئی آج گاؤں کے اجڑے ہوئے گھروں میں صرف بھوک اور مایوسی کا بسیرا تھا ’’وہ اس کا تیس ہزار ڈالر دینے کو تیار ہیں۔‘’ تمبارا کے چہرے پر افسردہ سی مسکان ابھری۔ شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے فیصلہ مشکل ضرور تھا لیکن کرنا تو تھا زولو نے اپنے بوڑھے بدن کی تمام تر طاقت صرف کرکے تمبارا کی طرف دیکھا جوآنکھوں میں ایک انجانی اُمید کی جوت جگائے اسے ہی دیکھ رہا تھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ تمبارا نے قیمتی لکڑی سے تراشی گئی قبیلے کے مہا دیوتا کی صدیوں پرانی مورتی کپڑے میں لپیٹی اور قریبی قصبے کئی طرف چل دیا جہاں بیرونی دنیا آنے والے چند خریدار اس کے منتظر تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے