Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھوک

MORE BYصبا ممتاز بانو

    یہ رات کا پچھلا پہر تھا۔ کمرے میں سکوت طاری تھا لیکن کوئی تھا جو بول رہا تھا۔ ٹی وی تو بند تھا پھر وہ کون تھا۔؟ میں نے اردگرد دیکھا۔ وہ مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔

    میں نے اپنے بسترکی طرف دیکھا۔ وہ میرے ساتھ ہی لیٹا ہوا تھا۔ کمال ہے کہ وہ میرے اس قدر نزدیک تھا اور میں اس کی آواز کی سمت کا تعین نہیں کر پایا تھا۔ شاید یہ نیند کا غلبہ تھا۔

    ”اسے کیا ہوا۔ یہ تو بڑے سکون سے سو رہا تھا۔ اب یہ کراہ کیوں رہا ہے۔ کیا چاہیے اسے۔“

    اس نے مجھے دیکھا اور جھجھکتے ہوئے مجھے بتایا کہ ”وہ بھوکا ہے۔ یہ بھوک اسے مار ڈالےگی۔“ اس کی نقاہت زدہ آواز نے مجھے پریشان کر دیا۔

    نصف شب گزر چکی تھی۔ گلیاں سنسان تھیں۔ بازار بند تھے۔ فضا میں چڑیلیں اڑ رہی تھیں۔ جن بھوت بازاروں میں پھر رہے تھے۔ یہ کون سا وقت تھا۔ میں کہاں جاتا۔؟ کیا لاتا۔؟ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میرے حواس معطل ہوئے جا رہے تھے۔ میں نے اس کے اضطراب کو محسوس کیا۔ اس کا جسم ا نتہائی گرم ہو چکا تھا۔ اس کی نگاہوں میں التجا تھی۔ میں تو چھ ماہ سے گھر میں بند پڑا تھا۔ میری بیوی مجھے چھوڑکر جا چکی تھی۔ میں آج کل ایک ایسی عورت کی یادوں سے کھیل رہا تھا جو میری بیوی نہیں تھی مگر بیوی بننا ضرور چاہتی تھی۔ کبھی وہ سامنے سے ہنستی ہو ئی آتی تھی اور کبھی پیچھے سے۔ میں اس کے گلابی بدن کی خوشبو سے محظوظ ہوتا ہوا اس کو اپنے جسم میں بسانے کی کو شش کرتا رہتا تھا۔ بیوی کے ناممکن ہونے نے مجھے ممکنات کی طرف دھکیل دیاتھا۔ میں پھر سے اس سے ملنے کی آس اپنے من میں جگا بیٹھا تھا جس کو میں نے کبھی خود چھوڑا تھا۔

    ”کتنی حسین تھی وہ۔ کتنی کومل تھی وہ۔ پری زاد۔ اس کا نام بھی تو کو ملتا تھا۔“

    ایسی ہی ایک سرد رات تھی جب میں سو رہا تھا۔ اچانک مجھے لگا کہ جیسے کسی نے مجھے پکارا ہو۔ میں نے سخت سردی میں بھی کمبل اپنے بدن سے اتارا۔ کھڑکی سے باہر جھانکا۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ من اور بیاکل ہو گیا۔ کشمیری شال سے خود کو لپیٹا اور باہر نکل گیا۔ وہ میرے فلیٹ کی سیڑھیوں کے نیچے کھڑی اپنا بھیگا بدن سکھا رہی تھی۔ پناہ کی تلاش میں اسی کی آواز مجھ تک پہنچی تھی۔

    لباس اس کے سفید دودھیا جسم کو چھپا نہیں پا رہا تھا۔ وہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ میرے سامنے مو جود تھی۔ اس کے بدن کی چڑھائیاں اور اترائیاں بہت کشش لیے ہوئے تھیں۔ میرادل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ میرے نفس کی گھنٹی بج چکی تھی۔ اپنی اپنی بھوک کی چھتری تلے ہم دونوں بھیگ رہے تھے۔

    ایک دوسرے تک پہنچ جانے والے ہی تو ایک دوسرے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ جو نہی میں اس کے پاس پہنچا۔ اس نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ زمین میرے قدموں کو کھو چکی تھی۔ میں نے یہ جاننے کی بھی کو شش نہیں کی کہ وہ کون تھی؟ میں اس کو اپنے گھر میں لے آیا اور اپنا ایک کرتا پاجامہ اسے پہننے کو دیا۔

    اس نے اپنا تر لباس اتار دیا۔ کیا ہوشربا سین تھا؟ میں اس سے لپٹ جانے کو تیار تھا لیکن اس کے پیٹ کی بھوک راہ میں حائل تھی۔ میں نے اس کی فرمائش پر اس کے لیے پراٹھا تیار کیا۔ سالن گرم کیا۔ پھر چائے کے دو کپ بنائے۔ میری نگاہ بار باراس کی سڈول پنڈلیوں پر جا ٹھہرتی توایک برہنہ گڑیا پینڈولم پر گھو منے لگتی۔ پیٹ کی بھوک پھوک میں بدلی تو میں اگلی بھوک کی سیڑھی پر چڑھ گیا۔ بجلی کوتو بارش میں جانے کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے مگر آج مجھے اس کا یہ شیوہ بہت بھایا۔

    میں نے موبائل کی ٹارچ جلائی۔ اس کے ضو فشاں بدن نے کمرے کی تاریکی میں سحر پھونک دیا تھا۔

    بستر پر دعوت شباب انگڑائیاں لے رہی تھی۔ قریب راگ ہوس بج رہا تھا۔ کتے زور زور سے بھونک تھے۔

    میرے ہمسائے میں بندھا ایک گدھا بھی ہنکار رہا تھا۔ میں نے ساری آوازوں کو ازار بند میں بند کرکے بستر پر پھینک دیا۔ اب وہ تھی اور میں تھا۔ پھر اس رات کو میں نے اس کی خواہشوں کے مطابق بسر کیا۔ بھوک مٹانے سے اور بڑھتی رہی۔ محفل خوب سے خوب تر جمتی رہی۔ رات گزرتی رہی۔ دن بھی اپنا تھا لیکن دن چڑھے وہ چلی گئی۔

    پھر وہ ہر رات آتی رہی۔ میں اس کے لیے خوان پروستا۔ وہ شکم سیر ہو کر بستر کی سلوٹوں میں اضافہ کر دیتی۔ میں واحد بھوک کے کرب میں مبتلا تھا اور وہ دوہری بھوک کے۔ ایک دن ا س نے مجھے بتایا ”کہ اب وہ ایک ماہ میرے پاس رہےگی۔ اس کی بوڑھی ماں مر چکی ہے۔ اب وہ آزاد ہے کہ جسے چاہے خاوند بنائے اور جتنا عرصہ چاہے جس کی بیوی بن کر رہے۔

    پابندی دھواں بن کر ماں کے بدن میں سما چکی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ ہمیشہ کے لیے میر ے پاس رہہ جائے لیکن مجھے ہمیشگی سے نفرت تھی۔

    پھر ایک ماہ کے لیے میں اسے پہاڑوں پر لے گیا۔ جہاں وہ میٹھے پانی کا چشمہ بن کر میری ذات پر بہتی رہی اور میں قطرہ قطرہ اس کو پیتا رہا۔ بڑے ہی خوب صورت سے دن تھے۔ وہ جب نہا دھو کر شب خوابی کا لباس پہنتی۔ اس کے بدن کا انگ انگ دکھائی دیتا۔ میں جب اس کے بدن کی زمین پر خوب گھوم پھر لیتا تو سفید تارے اس کی ٹانگوں پر چمکنے لگتے۔ وہ پرسکون ہو کر آنکھیں موند لیتی اور میں بھی اپنے آپ سے غافل ہو جاتا۔

    ہم ایک ماہ حسین وادیوں میں گزار کر آ چکے تھے۔ اب وہی فلیٹ تھا اور بزم آرا تھیں۔ اب تو کتے بھی نہیں بھونکتے تھے۔ اب تو گدھے بھی خاموش ہو چکے تھے۔ اب تو بس اس کی آواز ہوا میں رقص کرتی تھی۔ اب تو سرور کی بستی میں ہم دونوں مدہوش ایک دوسرے کی بانہوں میں پڑے رہتے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ ”وہ اپنی ماں کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اس کی ماں کے ناکارہ خاوند نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ پھر اس نے اور اس کی ماں نے جینے کا راستہ مردوں کے ساتھ ہم آغوشی میں تلاش کر لیا تھا۔“

    ماں کے مر جانے کے بعداب وہ بےآسرا اور تنہاتھی لیکن اس اکیلی ذات کا بوجھ مجھے گوارا نہ تھا کیونکہ میں اکیلا نہیں تھا۔ میں سانپوں میں پل بڑھ کر جوان ہو ا تھا۔ میرے لیے انہیں چھوڑنا ممکن نہیں تھا۔ اگر میں انہیں چھوڑ بھی دیتا تو وہ مجھے ڈس لیتے۔ ان کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا تھا۔ میں تو ایک لمحے کی پیاس بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ مجھے بےموت مرنے کا بھی کوئی شوق نہیں تھا۔

    انہی دنو ں گاؤں سے میراچھوٹا بھائی آ رہا تھا۔ وہ کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا۔ میں نے اسے چلے جانے کو کہا۔ وہ چار وناچار جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ میں نے اسے اسٹیشن پر چھوڑا اور گھر آکر بےفکری سے سو گیا۔ آلودگی کی شال کو میں کب تک اپنے بدن پر لپیٹے رہتا۔ مجھے ایک پاک صاف رضائی کی تلاش تھی۔ ماں میرے لیے لڑکیاں تلاش کر رہی تھی۔ اس نے ایک بڑی خوب صورت لڑکی کی تصویر مجھے بھیجی۔ مجھے لگا کہ یہ تو وہی تھی جس کی مجھے تلاش تھی۔ ہم شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ میں اسے گاؤں سے شہر میں لے آیا۔ بھائی کی ملازمت دبئی میں ہو گئی۔ وہ باہر چلا گیا۔ اب وہ تھی اور میں۔ چار برس گزر گئے۔ بچے کی کوشش میں ہم دونوں پریشان رہنے لگے۔ پھر مجھے یرقان ہو گیا۔ بیماری نے مجھ سے میرا رنگ روپ ہی نہیں، اسے بھی چھین لیا۔ بچہ نہ ہو تو شوہر ہی نہیں، بیوی بھی پابند نہیں رہتی۔ وہ خواہشوں کے جنگل میں دنگل کھیلنا چاہتی تھی۔ میں علاج کرا رہا تھا۔ اس دوران اس کی زندگی میں اس کا سابقہ محبوب آ گیا۔ کب تک وہ اس سے دور رہتی۔ پاکیزہ عورت کو بھی اگر کوئی ہستی اپنے دام میں لا سکتی ہے تو وہ عورت کا شوہر ہوتا ہے یا اس کا محبوب۔ وہ جانا چاہتی تھی میں نے اسے جانے دیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ بیک وقت دو مردوں کے ساتھ سوئے۔

    ویسے بھی میرے ساتھ ساتھ سوتے ہوئے اسے مرنے کا غم کھائے جاتا تھا۔ جب موت کا خوف سینے میں لرزاں ہو تو بدن کہاں سکون پاتا ہے۔؟ ایک دوسرے کے بدن پر حکومت کی عملداری ختم ہو چکی تھی۔ اب وہ غلامی کی زنجیروں کو توڑ دینا چاہتی تھی، مجھے بھی کسی کو غلام رکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ میں نے اسے آزاد کر دیا۔

    ہم دونوں ایک دوسرے کے سامنے اسٹیشن پر کھڑے تھے۔ اس کے سر پر آج آنچل نہیں تھا۔ مجھے پروا بھی نہیں تھی۔ اس کا سڈول سینہ میرے سامنے تھا مگر میں نے پڑاؤ ا س کی آنکھوں میں ڈال رکھا تھا۔ اس کا محبوب اس کو لینے کے لیے اسٹیشن پر موجود تھا۔ اس نے جاتے وقت میرے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔ میں نے اس کے جوڑے ہوئے ہاتھوں کو کھولا اور احساس جرم سے آزاد کر دیا۔ اس کے محبوب نے اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھام لیا۔ برسات مسرت میں آنسوؤں کی نمی بھی تھی لیکن حلق صرف میرا کڑوا تھا۔ وہ اپنا لہنگا سنبھالتی ہوئی ٹرین پر سوار ہو گئی۔

    لہنگے میں چھپی بلبل کو بھی اب کسی اور کے پاس جانے کی خوشی تھی۔ یہ بلبل بھی مردانہ مزاج کی تھی۔ کہاں ایک سے تسکین پاتی تھی؟۔ میں کچھ دیر تک ٹرین کے چلنے سے اٹھنے والی گرد کے بگولوں کو دیکھتا رہا۔ جب سب کچھ صاف ہو گیا۔ میں چل پڑا۔ اب چھ ماہ سے میں تنہا تھا۔ یہ جو آج بھوکا تھا، وہ کبھی آجاتا اور کبھی چلا جاتا۔ مجھے اس کی کوئی زیادہ پروا بھی نہیں تھی۔ اب کل رات کو وہ میرے پاس آیا تھا اور جانے کو تیار نہیں تھا۔ میں نے اسے اپنے بستر پر سلا دیا۔ وہ بھوک سے کلبلانے لگا۔ اس کی بھوک نے مجھے بھی بےچین کر دیا۔ میرے موبائل پر تھرکتے ہوئے اجسام بھی اس کی بھوک کی تسکین کرنے میں ناکام ہو چکے تھے۔ اس نے رو روکر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ مجھے گھر سے باہر نکلنے پر زور دینے لگا۔

    میں نے باہر جھانکا۔ سرد رات اور ہلکی ہلکی بارش۔ کشمیری شال کی آنکھیں مجھ پر ہی لگی ہوئی تھیں۔ میں اسے لپیٹ کر باہر نکل گیا۔ سرد جھونکوں نے میرے جسم کو ہلاکر رکھ دیا۔

    ”کم بخت اسے بھوک بھی اس وقت ہی لگنی تھی۔ میں اسے کوسنے لگا۔

    میں نے سیڑھیوں سے نیچے جونہی قدم رکھا۔ کسی کے رونے کی آواز نے مجھے پریشان کر دیا۔

    میں نے اندھیرے میں اپنے موبائل کی روشنی اس پر ڈالی۔ ایک پانچ سالہ بچی رو رہی تھی۔ اس کا فراک تیز ہوا سے اڑ رہا تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی بھی تو نہیں تھا۔ وہ اکیلی تھی۔ شاید راستہ بھٹک گئی تھی اور بھوکی بھی تھی۔ میں نے اسے گود میں اٹھایا۔ میں اسے فلیٹ پر لے آیا۔ اب مجھے اس ننھی جان کی بھوک مٹانے کی فکر ہو رہی تھی۔

    میں نے اسے دودھ کا ایک گلاس اور سیب کھانے کو دیا۔ اس کے بھوکے جسم میں جان آئی تو مجھے اس کی بھوک کی سوجھی جس نے اس سرد موسم میں بھی مجھے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ ابھی بھی چیخ رہا تھا۔ شاید بچی کی بھوک میں اس کی چیخوں کی آواز دب گئی تھی اور مجھے سنائی نہیں دی تھی۔ میری توجہ کے پل پر وہ لڑھک گیا تھا۔

    بچی کو نیند آ رہی تھی۔ میں نے سوتی ہوئی بچی کو اس کے ساتھ لٹا دیا۔ اس نے ایک نگاہ اس معصوم پر ڈالی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔ پھر اس کی لمحہ بہ لمحہ طمانیت نے بچی کی سانسوں کو مدھم کر دیا۔ اس کے بھاری ہاتھ تلے بچی کی دبی دبی سانسوں نے میرے فلیٹ کے پچھواڑے کے قبرستان کے مردوں کو جگا دیا۔ دروازہ زور زور سے بجنے لگا۔ وہ سب اسے لینے آئے تھے۔

    میں نے گھبرا کر دروازہ کھولا۔ وہ بھی میرے سامنے کھڑی تھی۔ روشنی اس کے بدن کے آر پار ہو رہی تھی۔ میں نے پہلی بار بچی کے چہرے پر اس کی مماثلت پر غور کیا۔

    ”تمہاری بچی تمہارے پاس پہنچ گئی۔“ کوملتا میرے سامنے کھڑی تھی۔

    میری آنکھوں اور اس کے گالوں جیسی بچی بےدم پڑی تھی۔ الفاظ کی تپش سے میرا بدن جلنے لگا۔ میرے دماغ میں اس کی بات سن کر سائیں سائیں ہونے لگی۔ کوئی عفریت میرے وجود پر حملہ آور ہوا ہی چاہتی تھی کہ وہ جلدی سے آیا۔ اس نے میرا بازو پکڑا۔ مجھے اندر دھکیل لیا۔ دروازہ بند کیا اور قہقہہ لگاکر بولا۔

    ”ارے مورکھ۔ بھوک تو بھوک ہوتی ہے۔ بھوک کاکوئی رشتہ ناہیں۔ بن بیاہی عورت، بن مانگی بچی۔ کاہے کی عزت، کاہے کی اپنی۔۔۔“

    میرا ضمیر مدہوشی میں جھولنے لگا۔ میں نے سرشاری کی لہروں کو اپنے بدن میں کھیلتے دیکھا اور شیر کی کھال پر لکھ دیا۔

    ”بھوکا شیر اپنا پڑاؤ ہمیشہ تسکین کے ڈیرے پر ڈالتا ہے۔“

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے