کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسکا ہاتھ ،گردن اور جسم کا ہر حصہ الگ الگ ہو گیا ہے۔ بغیر گردن کا اسکا جسم قبر میں پڑا ہے اور وہ اپنے ہاتھوں کو تلاش کرتا پھر رہا ہے جن سے اسے بے حد محبت ہے۔ انھیں ہاتھوں سے اس کی ڈھیروں یادیں وابستہ ہیں، اسلیے وہ ان کے لیے پریشان ہے۔
وہ جب سے اپنے جسم سے بچھڑا ہے دولخت ہو گیا ہے اور اگرچہ وہ پوری طرح صحت مند ہو چکا ہے لیکن اسے لگتا ہے جیسے اس کا دھڑ پتھر ہو گیا ہو یا جسم سے الگ ہو کر اس کی روح ہوا میں تیرتی پھرتی ہو اور حالانکہ اس قبر پر جہاں اس کا گردن کے بغیر جسم دفن ہے اس کے نام کا کتبہ نہیں لگا ہوا ہے لیکن اسے لگتا ہے جیسے ب کی بجائے وہ خود مر چکا ہے یا زندہ در گور ہو گیا ہے اور حالانکہ ب کے جسم کی لگام تھامے جہاں چاہتا ہے اس کے پاؤں سے چلتا پہنچ جاتا ہے اور ب کے ہاتھ پاؤں اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں پھر بھی اسے اپنے ہاتھ پاؤں بہت یاد آتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ ب کا جسم اس کے اپنے جسم سے زیادہ خوبصورت اور تر و تازہ ہے لیکن اسے اپنے جسم کی یاد بہت ستاتی ہے اور وہ کئی بار ب کی ٹانگوں سے چلتا اس قبر پر بھی گیا ہے جہاں اس کے ہاتھ پاؤں اور جسم کے باقی اعضاء دفن ہیں کئی بار اس نے ب کے ہاتھ اٹھا کر اپنے ہاتھوں کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی ہے۔
ہاتھ پاؤں کے علاوہ اسے اپنے کندھے بھی یاد آتے ہیں جن پر اس کا بیٹا جاوید بالکل اسی طرح سوار ہو جاتا تھا جیسے وہ ب کے جسم پر سوار ہے اسے اپنے پاؤں کی چاپ بھی بہت یاد آتی ہے جسے سن کر ناہید کو اس کی دستک سے پہلے ہی اس کے آنے کا پتہ چل جاتا تھا اور ٹانگیں۔۔۔ جن کو وہ برسوں جگہ جگہ لئے پھرا۔۔۔ اور پیٹھ جسے وہ کئی برس تک آرام دہ بستر مہیا نہ کر سکا لیکن اسے سب سے زیادہ اپنے ہاتھ یاد آتے ہیں اور اسے ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے ہاتھوں سے بچھڑ کر ہی خود سے جدا ہوا ہے۔ جب وہ چھوٹا تھا تو ماں اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتی آنکھوں سے لگاتی اور بار بار چومتی تھی۔ پھر اس نے ان ہاتھوں سے تختی لکھنا سیکھا۔ ماسٹر نور محمد سزا کے لئے ہاتھ نکالنے کو کہتے تو وہ ہاتھوں کو پشت کی طرف چھپا لیتا۔ پھر اس نے ان ہاتھوں سے میٹرک کے امتحان کے پرچے حل کئے اور ضلع بھر میں اول رہا ان ہاتھوں سے اس نے کالج کے زمانے میں موٹی موٹی کتابوں کی ورق گردانی کی۔ ناہید کے نام زندگی کے بہترین خطوط انہی ہاتھوں سے لکھے اور کئی بار اس کے ماتھے پر آئی ہوئی لٹ کو سلجھایا۔ جب اس کی ماں بیمار پڑ گئی تو وہ رات رات بھر اپنے ہاتھوں سے اس کا سر دباتا اور اسے اپنے سے دوا پلاتا۔
اپنے ہاتھوں پر اس کی بے شمار یادیں نقش تھیں۔ ہتھیلیوں پر اس کی قسمت کی لکیریں کھدی ہوئی تھیں اور چھنگلی میں اس نے منگنی کی انگوٹھی پہنی تھی۔ جس کے ننھے سے نگینے میں خوبصورت مناظر کی متحرک فلم چلتی رہتی تھی۔
جب اس نے آخری بار اپنے ہاتھوں سے معاہدے پر دستخط کئے تھے تو اپنے ہاتھوں اور بازوؤں کو بار بار چوما اور آنکھوں سے لگایا تھا کاش اس کے اپنے جسم کا کوئی ایسا حصہ باقی رہ جاتا جو آئینے کے بغیر دیکھا جا سکتا کاش کوئی ایک ہاتھ ہی اس کا اپنا ہوتا جو اسے زندہ ہونے کا احساس دلاتا رہتا۔
اسے اپنے بائیں ہاتھ کی کٹی ہوئی انگلی جو کبھی اسے بہت بدنما معلوم ہوتی تھی اور وہ محفلوں میں اسے چھپانے کی کوشش کرتا رہتا تھا، بہت یاد آتی ہے۔ اگر وہ کٹی ہوئی انگلی اسے پھر مل جائے تو وہ ہر ایک کو فخر سے دکھائے اور کہے ’’دیکھو یہ میری اپنی انگلی ہے‘‘۔
مگر اب اسے لگتا ہے اس کا اپنا کچھ نہیں ہے جیسے وہ کرائے کی گاڑی چلا رہا ہے پتہ نہیں کب اسے اسٹیرنگ سے ہٹا دیا جائے اور وہ ہوا میں معلق رہ جائے۔ نجانے کب اس کے ہاتھ سے ب کے جسم کی مہار چھوٹ جائے اور وہ ہوا میں تیرنے لگے اور اس کی گردن کے نیچے خلاء کے سوا کچھ نہ ہو۔
راتوں کو اکثر وہ اپنے بے سر کے جسم کو ہاتھ پھیلائے سڑکوں اور بازاروں میں ٹھوکریں کھاتے دیکھتا ہے۔ تیز رفتار موٹریں اس کے جسم کو کچل کر آگے بڑھ جاتی ہیں تو وہ اٹھ کر گردن کی تلاش میں پھر سے بھاگنا شروع کر دیتا ہے وہ اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا اور اسے آوازیں دیتا ہے لیکن وہ ہاتھ پھیلائے دور ہوتا جاتا ہے اور اس کے ہاتھ نہیں آتا، ہاتھ بھی تو اس کے اپنے نہیں ہیں۔ کبھی کبھی اسے اپنے ہاتھ ہوا میں اڑتے نظر آتے ہیں اور وہ ب کی ٹانگوں پر ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے کبھی کبھی اسے اچانک اپنے ہاتھ جسم کے الگ ہو کر سڑک کے کنارے پڑے ہوئے مل جاتے ہیں تو وہ انہیں ب کے ہاتھوں کی مدد سے اٹھا کر صاف کرتا اور آنکھوں سے لگاتا ہے۔
جب وہ ہوش میں آیا تھا اور مانگے ہوئے ہاتھ پاؤں میں پہلی بار حرکت ہوئی تھی تو صرف ایک بار ب کی بیوی نے اپنے شوہر کے ہاتھ کو بوسہ دیا تھا مگر وہ بوسہ ہاتھ پر چپک کر رہ گیا تھا اور اسے لگتا تھا جیسے وہ زخم کی طرح ہر وقت اس کے ہاتھ سے رستا رہتا ہو مگر وہ ہاتھ اس کا کہاں تھا۔۔۔ وہ تو ب کا ہاتھ تھا اور ب کی بیوی کا اس پر زیادہ حق تھا۔ ہاتھ ہی نہیں اس نے تو ب کا پورا جسم قرض لے رکھا ہے وہ کسی بھی وقت اپنا قرض واپس مانگ سکتی ہے مگر وہ معاہدہ!
معاہدہ اور نکاح کے فارم
اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ الف اور ب کی بیویوں میں سے کون بیوہ ہو چکی ہے ب کی بیوی اس پر قانونی حق نہیں رکھتی لیکن دراصل اس کے جسم پر اسی کا حق ہے اور الف کی بیوی جو دراصل بیوہ ہو چکی ہے معاہدے کی رو سے اب تک ساکن ہے۔
یہ عجیب بات ہے لیکن وہ کیا کر سکتا ہے اس کا تو جی چاہتا ہے کہ وہ رات کو ب کے کندھوں سے الگ ہو کر اپنے گھر چلا جائے اور ب کے بے سر کے جسم کو اس کے گھر کی طرف بھیج دیا کرے۔
اسے اور بھی کئی طرح کی باتوں کی سمجھ نہیں آتی۔۔۔ مثلاً گواہی دیتے وقت ب کے ہاتھ پاؤں کا اس کے بارے میں کیا رویہ ہو گا اور خود اس کے اپنے ہاتھ پاؤں کس کی گواہی دیں گے۔
لیکن ان سب باتوں سے زیادہ اسے ایک اور پریشانی نے گھیر رکھا ہے وہ ناہید کے ماتھے پر آئی ہوئی لٹ سنوارنا چاہتا ہے تو اسے لگتا ہے جیسے یہ لٹ وہ نہیں ب سنوار رہا ہے۔ ناہید فرط محبت سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر دباتی ہے تو اسے لذت کی بجائے رقابت کا احساس ہوتا ہے۔
وہ محبت کے لمس کو ترس گیا ہے اور اسے شک ہے کہ ب کے دھڑ سے اس کی گردن جوڑتے وقت وہ کئی اہم اعصابی تار جوڑنا بھول گئے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.