کہانی کی کہانی
یہ مشترکہ خاندان کی سربراہ ایک قدامت پسند مسلم خاتون کی کہانی ہے۔ جس کے چھوٹے پوتے پوتیاں ضد کرکے بلی کا بچہ پال لیتے ہیں۔ بلی کا بچہ سارا دن چپ چاپ لیٹا رہتا ہے۔ جیسے ہی دادی اماں کا نماز پڑھنے کا وقت ہوتا ہے وہ ان کے گرد گھومنا اور ان کے کندھوں پر چڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ بلی کے بچے سے تنگ آکر دادی اسے گالیاں دیتی ہیں۔ دادی کی گالیاں محض بلی کے بچہ کے لیے ہی نہیں ہوتی، وہ اپنے مرحوم شوہر کے لیے بھی ہوتی ہیں۔
اس رات پو پھٹنے سے قبل عجیب واقعہ پیش آیا۔
آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی یقین نہ ہوتا تھا اور نہ دل اس حقیقت کو ماننے کے لئے آمادہ تھا، لیکن ہم لوگ اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھ رہے تھے، اسے واہمے کے ذیل میں کیسے رکھا جائے، یہ سمجھ میں نہ آتا تھا۔
لیکن اس عجیب و غریب واقعے کو سنانے سے قبل ہمیں وقت کی سرحد پھلانگ کر کھنڈر کو عبور کرتے ہوئے پیچھے جانا ہوگا۔
ممی کو دادی اماں سے چڑ تھی اور دادی اماں اس بلی کے بچے سے متنفر تھیں۔
لیکن ہم تو بچے ٹھہرے۔
پڑوس کے گھر میں بلی نے روئی کے گالوں جیسے سفید پیارے پیارے بچوں کو جنم دیا تھا تو ہمیں انہیں پالنے کی طلب شدت سے محسوس ہوئی۔ ممی اور پاپا سے اجازت لیے بغیر آنٹی کے سامنے منہ بسورتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔
’’آنٹی ہمیں ایک بچہ چاہئے۔۔۔ وہ سب سے سفید والا۔۔۔ دودھ جیسا۔۔۔‘‘
آنٹی نے ہمیں ایک نظر دیکھا اور پھر بلی کے جسم سے لپٹے ہوئے بلی کے کالے، چتکبرے اور سفید بچوں کو۔ پھر ہم سے مخاطب ہوئیں، ’’ابھی بہت چھوٹے ہیں۔۔۔ ماں کا دودھ پیتے ہیں۔۔۔ دس روز بعد لے جانا۔۔۔‘‘
ہمارے لیے ایک ایک دن گزارنا پہاڑ کاٹنے جیسا ہوگیا۔ پڑھائی لکھائی طاق پر رکھ دی گئی۔ ہوم ورک، کلاس ورک، ہمیں کسی سے کوئی سروکار نہیں رہا۔۔۔ ہم بھائی بہن ہر وقت ان دودھ دودھ جیسے سفیر کھلونوں کے سہانے تصور میں ڈوبے رہتے۔ اسکول ڈائری کے ریمارکس کالم ٹیچروں نے رنگ دیے۔
اپنی نوکری کی مصروفیتوں میں غرق اور حالات کی ستم ظریفیوں میں مبتلا پاپا کو ایک روز مہلت ملی اور انہو ں نے ہماری پڑھائی لکھائی کا اتا پتا دریافت کرنا چاہا تو قیامت آگئی۔ وہ درگت بنی کہ پوچھئے ہی مت۔
لیکن۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں تو کہہ رہا تھا کہ ممی کو دادی اماں ایک بوجھ معلوم ہوتی تھیں اور دادی اماں کو بلی کا بچہ۔۔۔
ایک شام ہم ہاتھ میں فتح کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے اپنے فلیٹ میں داخل ہوئے تو ممی کی پیشانی پر بل پر گئے۔ پڑوسی کی آنٹی نے ہماری گزارش قبول کرلی تھی اورہم نے وہ دولت حاصل کرلی تھی جس کے سامنے پوری زندگی اور دنیا کی تمام رونقیں پھیکی معلوم پڑتی تھیں۔
ممی تو اعتراض و احتجاج کے بعد مان گئی تھیں۔ اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ لیکن دادی اماں اسے قبول کرنے کے لئے کسی طور پر آمادہ نہیں تھیں۔ انہیں رہ رہ کر کمرہ نما بالکونی میں رکھی اپنی چھوٹی سی چوکی، مصلیٰ، کٹورے میں رکھے ہوئے اپنے دانتوں کے سیٹ اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا کی سلامتی خطرے میں دکھائی دے رہی تھی۔ ان کے تمام نکات ہم بچوں نے ایک ایک کر کے اپنے استدلال سے رد کردیے۔
’’بلی کا بچہ ناپاک نہیں ہوتا۔۔۔‘‘
’’وہ کتنا معصوم اور بھولا بھالا ہے۔۔۔‘‘
’’اللہ میاں جانوروں کو پیا ر کرنے والوں کو جنت میں اونچا درجہ عطا کرتے ہیں۔۔۔ وی وِل گیٹ ہیون آفٹر ڈیتھ۔۔۔‘‘
’’ہم اس کی دیکھ بھال کریں گے اور آپ کو تنگ نہیں کرنے دیں گے دادی اماں۔۔۔‘‘
’’پلیز دادی اماں۔۔۔‘‘ ہم سب منت سماجت میں لگے رہے۔
’’آپ لوگ دیکھ بھال کرنے میں لگے رہیں گے اور آپ لوگوں کے بدلے میں پڑھائی لکھائی ہم کرلیا کریں گے۔۔۔ بیوقوف۔۔۔ کم اوقات۔۔۔‘‘
پاپا دفتر سے آئے تو ہم لوگوں کے مکالمات سن کر خشمگیں نگاہوں سے ہمیں گھورتے ہوئے انہوں نے طنز کے نشتر چبھوئے۔
’’اور اس کی مونچھوں اور سانسوں سے دمے کی بیماری جو احتمال ہوتا ہے، اسے بھگتنے کے لئے کون تیار ہوگا۔۔۔ ہم تو جیسے تیسے کاٹ رہے ہیں۔۔۔ تم لوگوں کی زندگی کھوں کھوں کرتے ہوئے وبالِ جان بن جائے گی۔۔۔‘‘
بلی کا بچہ گھر کے تمام بزرگ مکینوں کے لئے مصیبت بن کر نازل ہوا تھا۔ لیکن ہم جو بڑی تمناں اور آرزوں کے بعد اسے گھر میں لائے تھے، کسی بھی قیمت پر اسے خود سے الگ کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔
دادی اماں اور پاپا کے اعتراض و حجت نے فطری طور پر ممی کو اپنا ابتدائی موقف بدلنے پر اور راسخ کردیا۔ وہ ہم بچوں کی صف میں شامل ہوگئیں اور انہوں نے اعلان کردیا۔
’’کوئی حرج نہیں۔۔۔ بچوں کے شوق کو اس طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ ان کا جی بہلارہے گا۔۔۔ ان کے لئے اور کوئی تفریح کا سامان بھی تو نہیں۔۔۔ نئے کرایہ دار ہونے کی وجہ سے کوئی ہمارے بچوں کو گھاس نہیں ڈالتا۔۔۔ آس پاس کا ماحول ایسا نہیں کہ کوئی کھیل وغیرہ کھیل کر اپنا شام کا وقت گزار سکیں۔۔۔ لیکن کان کھول کر سن لو بچو۔۔۔ بلی کا بچہ تو لے آئے ہو۔۔۔ لیکن اپنی پڑھائی لکھائی کے تعلق سے تم لوگوں کی لاپرائی برداشت نہیں کی جائے گی۔۔۔‘‘
ہم بچے ممی کو اپنی طرف داری کرتے دیکھ کر پھولے نہ سمائے۔
دادی اما ں اور پاپا کے اعتراض سے ہمیں یہ فائدہ پہنچا کہ ممی نے ہماری حمایت کی راہ اختیار کی۔ دادی اماں کی طرف کینہ توز نظروں سے دیکھتے ہوئے بلی کے بچے چھوٹے سے گھر کی تعمیر و تشکیل میں وہ ہم لوگوں کی معاونت کرنے لگیں۔
انہوں نے بہت سوچ بچار کے بعد اپنے پرانے کپڑوں کو رکھنے کا بوسیدہ کاٹھ کا بکس بلی کے بچے کے لئے خالی کیا۔ اس بکسے کو کہاں رکھا جائے، اس کا تعین ایک دشوار گزار مرحلہ تھا۔
ممی نے پورے فلیٹ کا بار بار معائنہ کرنے کے بعد کمرہ نما بالکونی کا ایک کونا اس کے لئے مختص کیا۔ برّاق گوری بیوہ دادی اماں کی چوکی سے تقریباً دو گزر کے فاصلے پر۔۔۔ دادی اماں تلملا کر رہ گئیں۔
پاپا نے بات بڑھنے کے ڈر سے خاموشی اختیار کی۔
اختلاف کی صورتوں میں اکثر وہ اسی طرح چپی سادھ لیا کرتے تھے اور اندر ہی اندر گھٹتے رہتے تھے۔
تھک ہار کر بلی کے بچے کے تعلق سے گھر میں پیدا ہوئی ہلچل اور ہم لوگوں کی سرگرمیوں سے وہ بے نیاز ہوگئے۔۔۔ اپنے پلنگ پر آنکھیں موند کر حسبِ معمول نہ جانے کن دنیاؤں میں کھوگئے۔
دادی اماں مصلے پر بیٹھی بدبداتے ہوئے تسبیح پھیرتی رہیں۔۔۔ لرزتے کانپتے ہونٹ کے منطقے پھڑپھڑاتے رہے۔۔۔
ممی کی چاق و چوبند کارروائیاں دیکھنے کے قابل تھیں۔
ہم بچوں کے ساتھ وہ بھی بچہ بن گئی تھیں۔
کچھ ہی دیر بعد بلی کے بچے کا شاندار گھر تعمیر ہوگیا۔
ہم نے چہ چہ، شش شش کرتے ہوئے اس کے گھر میں اہتمام اور احتیاط کے ساتھ اسے لٹایا تو لگا کہ کوئی بہت بڑی منزل سر کرلی گئی۔
حالانکہ ممی دل ہی دل میں پریشان ہورہی تھیں کہ سوا سیر دودھ میں اب بلی کے بچے کو کس کا پیٹ کاٹ کر دودھ دیا جائے گا۔ لیکن بلی کے بچے کے لئے مختص کیا ہوا چھوٹا سا پیالہ ان کے سامنے لے کر ہم کھڑے ہوجاتے تو انہیں لامحالہ اس میں دودھ ڈالنا ہی پڑتا۔ وقت بے وقت ایمرجنسی کے لئے پاپا کی لائی ہوئی روئی کے گالے سے ہم بچے کو دودھ پلارہے ہوتے تو دادی اماں کی پیشانی پر آئی ہوئی شکن اور چہرے کے تناؤ کو دیکھ کر ہمیں بے حد تسکین ملتی۔
ہم لوگوں کی نگرانی، لاڈ پیار، اور بروقت دودھ کی خاطر خواہ خوراک سے دبلا پتلا مریل سا بچہ کچھ ہی دن میں ٹنمنانے لگا۔۔۔ اب اسے اپنے چھوٹے سے گھر کی سرحد چھوٹی معلوم ہونے لگی۔۔۔ ہر وقت اچھل کود کرنا اور تمام کمروں کے چکر کاٹنا اس کا معمول بن گیا۔
جیسے جیسے اس کی سرگرمیاں بڑھ رہی تھیں، دادی اماں کی پریشانیوں میں اضافہ ہورہا تھا۔ دل ہی دل میں وہ کڑھتی رہتیں۔
کبھی کبھی پاپا غصے میں آتے تو ہمیں دو چار طمانچے جڑ دیتے، لیکن بات بڑھنے کے ڈر سے پھر خود ہی چپ لگا جاتے۔ ممی کی زوردار آواز کے سامنے صف آرائی کرتے ہوئے اغل بغل کے فلیٹ کے مکینوں کے سامنے تماشا بننے سے وہ احتراز کرتے تھے۔
اب ہم اسکول جاتے ہوتے تو ممی کو تاکید کرتے کہ اس بچے کو لے کر بالکنی پر کھڑی رہا کریں۔
ہم بجائے ممی اور پاپا کو ٹاٹا اور بائی بائی کرنے کے بلی کے بچے کو ٹاٹا اور بائی بائی کرنے لگے۔ گھر میں بظاہر بڑی رونق آگئی تھی، لیکن اندر ہی اندر ایک سرد جنگ جاری تھی۔
خود ممی بھی کبھی کبھی جھنجھلا اٹھتی تھیں لیکن ایک خاص موقف اختیار کرتے ہوئے پشی پشی کہتے ہوئے لاڈ سے اسے گود میں لے کر اپنی کوکھ سے جنمے بچے کی طرح پیار کرنے لگتیں۔۔۔بلی کا بچہ ادا کھاتے ہوئے میاؤں میاؤں کرنے لگتا۔
اکثر فجر کی نماز کے وقت دادی اماں کی ’’نگوڑے۔۔۔ نامراد۔۔۔‘‘ کی آوازیں آتیں تو پاپا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے۔ ہم لوگوں کی جانب سے خشمگیں نگاہوں سے گھورتے اور پھر لیٹ جاتے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بلی کے بچے کو اپنی سب سے بڑی مخالف دادی اماں کے لئے کچھ زیادہ ہی لپک تھی۔ ان کی جھلجھلاتی ہوئی سفید ساڑی کے ساتھ اپنے سفید روئیں کی مماثلت غالباً اسے ان کی طرف پوری شدت کے ساتھ مائل کرتی۔ میاؤں میاؤں کی رٹ ل گاتا ہوا وہ نماز میں محو دادی اماں کے کندھوں پر سوار ہوجاتا۔
دادی اماں کی نماز میں خلل اندازی پاپا کو بے حد ناگوار گزرتی۔ وہ اٹھتے اور بلی کے بچے کو ان کے کندھے سے اتار کر اس کے بکس کے گھر میں بند کر آتے۔ بے چاری دادی اماں بدبداکر رہ جایا کرتیں۔
پھر یہ تقریباً روزانہ کا معمول بن گیا۔
دادی اماں وضو سے فارغ ہونے کے بعد مصلے پر بیٹھتیں اور بلی کا بچہ جیسے اسی موقع کی کی تاک میں ہوتا۔ میاؤں میاؤں کرتے ہوئے ان کے گرد طواف کرنے لگتا۔
پھر اچک کر کندھے پر چڑھ جاتا۔۔۔ ان کی گردن میں اپنی چھوٹی چھوٹی بانہیں حائل کرنے لگتا۔
ایک عجیب سا احساس ان کے چہرے کی لکیروں سے عیاں ہوتا رہتا۔
کبھی کبھی عاجز آکر ’’نگوڑے، نامراد’’ جیسے کلمات بلبلاہٹ کے ساتھ ادا کرتیں۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ نگوڑے نامراد کی ترکیب وہ اس بلی کے بچے کے لئے استعمال کرتیں یا مرحوم شوہر کے لئے۔۔۔ یا پھر اپنے بیٹے کے لئے۔۔۔ یا۔۔۔
’’اس کائنات کے مالک رب العالمین نے فرمایا، کُن! ہوجا، ظاہر ہوجا، وجود میں آجا۔ کُن فیکون! ہوجا اور وہ ہوگیا۔ تب سے بنی نوع انسان کٹھ پتلیوں کی طرح اس کے اشارے پر ناچ رہے ہیں۔ ڈورے نظر نہیں آتے۔ لیکن ڈوروں کے وجود کا کون منکر ہوگا۔ وہ انگلیاں بھی دکھائی نہیں دیتیں۔ عقب سے اپنے فنی کمالات دکھاتی رہتی ہیں۔۔۔ او ران انگلیوں کی حرکت و ارتعاش کا محرک۔۔۔‘‘
مولوی برہان الدین کا نام اس پورے علاقے میں دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کی عالمانہ تقریر کا شہرہ چار دانگ میں تھا۔
دریاؤں سے بھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے کوزوں جیسے الفاظ سے تقریر دھیمے دھیمے لہجے میں شروع کرتے۔۔۔ پھر رفتار بڑھتے بڑھتے اتنی تیز ہوجاتی کہ معلوم ہوتا کہ سارا کچھ ان کی تقریر کے تلاطم میں بہہ جائے گا۔
اوسط قد، بکھری ہوئی داڑھی، درمیان جسم، چہرے پر معصومیت اور نور۔ جس طرح سے گزرجاتے، پرنام، نمستے اور السلام علیکم کی پکاریں صف بستہ ہوجاتیں۔ مولوی برہان الدین زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ سب کو جواب دیتے جاتے لیکن من تو ڈولتا رہتا۔۔۔ ذہن تو سوچتا رہتا۔۔۔
کبھی کبھی بیل گاڑی ہانکتا ہوا رامو ان کا دل پسند نغمہ گنگناتا ہوا گزر رہا ہوتا تو دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے قدموں پر کسی بے جان ستون کی طرح ساکت ہوکر بیل گاڑی کو ٹکٹکی باندھے لگاتار بس تکتے ہی رہ جاتے۔
’’دنیا بنانے والے
کیا تیرے من میں سمائی
کاہے کو دنیا بنائی۔‘‘
لوگ حیرت زدہ سے مولوی برہان الدین کو استعجاب کی کیفیت میں منجمد ہوتے دیکھ کر رک جاتے۔
جب رامو کی بیل گاڑی اور اس کا پردرد نغمہ ان کی بصارت و سماعت سے غائب ہوجاتے، وہ اپنے من کے اندر کسی بیل گاڑی پر بیٹھ کر خود رامو کی طرح دھند کی جانب بیل گاڑی ہانکتے ہوئے عجیب و غریب راہ اختیار کرتے۔۔۔ ہرطرف دھند کی دبیز چادر۔۔۔ سرمئی اندھیرا۔۔۔ اور دور کہیں دور۔۔۔ مدھم مدھم ٹمٹماتی ہوئی روشنی۔۔۔ اب روشنی دور نہیں۔۔۔ اب منزل آیا چاہتی۔۔۔ لیکن میلوں کی مسافت طے کرنے کے بعد بھی مولوی برہان الدین وہیں کے وہیں ایستادہ رہ جاتے۔۔۔ ہاتھ ملتے ہوئے۔۔۔ پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں۔۔۔
’’مولوی صاحب۔۔۔ کھڑے رہنا ہے تو روّا ادھر پیڑ کی چھاؤں میں آجائیں۔۔۔ گھام میں روّا کے تڑاتڑ پسینہ بہہ رہل با۔۔۔‘‘ کوئی ہمدرد ہلکے سے انہیں ٹہوکا دیتے ہوئے کہتا۔
سچ مچ برہان الدین کے سارے جسم سے پسینے کی دھاریں اس طرح پھوٹ رہی ہوتیں کہ وہ نہائے نہائے سے معلوم ہوتے۔۔۔ چہرے پر عجیب رقت طاری ہوتی۔۔۔ دیر سے کھڑے کھڑے وہ تھک سے گئے ہوتے۔۔۔ چند قدم کے فاصلے پر کھڑا ہوا برگد کا گھنا پیڑ انہیں آوازیں دینے لگتا۔۔۔
برہان الدین بھاری بھاری قدموں سے چلتے ہوئے پیڑ کی گھنی چھاؤں کے نیچے آکر بیٹھ جاتے۔۔۔ صدیوں کی مسافت کی تکان ان کے چہرے سے عیاں ہورہی ہوتی، جسے دیکھنے والوں کی نظروں سے وہ مخفی رکھنا چاہتے۔۔۔ لیکن چاہتے ہوئے بھی کبھی کبھی۔۔۔
دنیا کی بے ثباتی اور تخلیقِ کائنات کی بے جوازی کا عرفان انہیں حاصل تھا۔ لاحاصلی کے مقدر سے ان کی پرانی شناسائی تھی۔ لیکن صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہتے تھے کہ مبادا لاوا پھوٹ کر باہر نکل جائے۔۔۔ پوری دنیا تہہ و بالا ہوجائے۔۔۔ سمندر ساری زمین اور تمام پہاڑوں کو نگل لیں۔ دنیا اور دنیا کے مکینوں کا استحکام و توازن نیست و نابود ہوجائے۔۔۔
ان کے ذہن کے سوالیہ تفکرات نے بھیانک صورت اختیار کرلی تھی۔
سورج سے زمین کا ٹکڑا الگ ہوا تو کائنات میں جانے کس زاویے پر معلق ہوا۔
چاروں طرف عجیب مضحکہ خیز منظرنامے۔
ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی اپنی سرزمین ٹکڑوں میں بٹ گئی۔
خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے تھے برہان الدین۔۔۔
ان کا بس چلتا تو سارے نیتاؤں کو۔۔۔
برگد کے پیڑ نے کہا، ’’آجاؤ میاں۔۔۔ بیٹھ جاؤ۔۔۔ بہت تکھے ہوئے لگتے ہو۔۔۔ کچھ دیر آرام کرلو میری گھنی چھاؤں میں۔۔۔‘‘
برہان الدین ایک گھنی ڈال کے نیچے ٹیلے پر اپنا سر گھٹنوں میں دے کر بیٹھ گئے۔
’’ملک کی فکر چھوڑو۔۔۔ بہت رولیے۔۔۔ کیا حال ہے بچوں کا؟‘‘ پیڑ نے پوچھا۔
انھیں لگا کہ اس نے ایک تیز خنجر ان کے بازو میں اتار دیا ہو۔ انہو ں نے فرط جذبات سے آنکھیں بند کرلیں۔
سر سے پیر تک وہ کانپ گئے۔ ملک کی خاطر سوچتے سوچتے اور گھر گھر جاکر بٹوارے کے خلاف ذہنوں کو ہموار کرنے میں انہیں بیٹوں اور بیٹیوں کی جانب دیکھنے کی فرصت کہاں تھی۔
ایک بیٹا مارکسوادی کی گہری وادیوں میں اتر گیا۔
دوسرا چارواک کے کھلے وسیع و عریض میدان میں سانڈ بن کر گھومنے لگا۔
اور تیسرا گوتم بدھ کے فلسفہ حیات کے حصار میں خدا کی ہستی کا منکر ہوگیا۔
جادۂ اعتدال پر چلنے والا بس یہی چوتھا بیٹا تھا۔۔۔ اوسط ذہن کا۔۔۔ ترقی کے راستے پر متوازن قدموں سے چلتا ہوا۔۔۔ جس کے ساتھ دادی اماں رہ رہی تھیں۔۔۔
یاس بھری نگاہوں سے برہان الدین بے بس تماشائی بننے پر مجبور ہوگئے اور مجرم کی طرح سرجھکائے بے مقصد جیتے چلے جانا ان کا مقدر بن گیا۔
زندگی تکثیرِ معنی اور خبط ِمعنی کا عذاب بن گئی۔
تقسیم ملک اور ہجرت نے سارا کچھ تار تار کر کے رکھ دیا۔ بھیانک طوفان تھمنے کے بعد بھی اندر ہی اندر توڑ پھوڑ میں مصروف تھا۔
بیٹیاں۔۔۔
زیادہ سوچتے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔
تعویذ اور گنڈے بانٹنے، دوسروں کا دکھ دور کرنے اور تقسیمِ ملک کے خلاف چیخ چیخ کر احتجاج کرنے والے مولوی برہان الدین خود اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں لگاتار مات کھاتے چلے گئے۔
لذت یابی کی امنگ پر ڈھلتی عمر کی کنواریاں کب تک بند باندھے رکھ سکتیں۔
لوگ دبی زبان میں طرح طرح کی باتیں کرتے۔
زمانہ عجب چال چل گیا تھا۔
ان کا گاؤں پھیلنے اور گھنا ہونے کے مرحلے میں قصبے میں تبدیل ہوا اور اب شہرہونے کے مرحلے میں داخل ہوگیا تھا۔
کچھ لڑکیوں کا تو وہ نام بھی بھول گئے تھے۔۔۔ یا جان بوجھ کر یاد کرنا ہی نہیں چاہتے تھے، آوارہ مزاج عاشقوں کی لن ترانیوں کے سحر میں گرفتار ہوکر جانے کن دیاروں کی خاک چھان رہی ہوں گی۔
فریب خوردگی کی صورت میں اب لوٹنے کا منہ کہاں رہ گیا تھا۔
لیکن مولوی برہان الدین کی تمام شکستگی اور ٹوٹ پھوٹ کے باوجود چہرے کی معصومیت اور آنکھوں کا تقدس رخصت ہوتے ہوتے بھی اپنے قدموں کے مبہم نشان چھوڑ گیا تھا۔
’’کیسے ہو برہان الدین؟‘‘ برگد کے پیڑ نے پوچھا۔
’’میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘
وہ سٹپٹا کر رہ گئے۔ ان کی مری ہوئی آواز اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکی۔ دبی ہوئی کراہیں نمایاں ہورہی تھیں۔ ضبط کی شدت سے آنکھوں میں سرخ ڈورے نمودار ہوگئے تھے۔ انہوں نے اچٹتی نگاہوں سے آسمان کی جانب دیکھا۔ ان کا ذہن ڈوبنے اور ہچکولے کھانے لگا۔
بھیگی رات میں ان کے بستر کے سرہانے ایک عجیب الخلقت پراسرار بلّا آکر کھڑا ہوجاتا۔
دادی اماں کہتی تھیں کہ ان کا مؤکل تھا۔
آہٹ پاتے ہی دادا کی نیند ٹوٹ جاتی۔ نیم دراز ہوکر بلے کے ساتھ سرگوشیوں میں مصروف ہوجاتے۔ بلّا ان کے گالوں سے اپنے گال سٹاتا۔۔۔ ان کا منہ چومتا۔۔۔ اور پھر ان کے گلے میں اپنی بانہیں حمائل کرتا ہوا ان کے سینے سے لگ جاتا۔
نیم غنودگی کے عالم میں دادی اماں یہ منظر دیکھتیں تو خوف سے ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔۔۔ عجب سی بیزاری اور اضطراب ان کے پورے وجود سے مترشح ہونے لگا۔۔۔ جس سینے پر ان کی جگہ متعین تھی وہاں۔۔۔ گھنٹوں تک اٹھ آئی ساری کو وہ درست کرتیں۔۔۔ ان کی گوری گوری پنڈلیوں سے پھوٹتی ہوئی روشنی ساری کی دیوار چھید کر باہر آرہی ہوتی۔۔۔ دادا بلے کے ساتھ چوما چاٹی میں مصروف رہتے۔۔۔ دو سایے باہم گتھم گتھا اور مربوط دکھائی دیتے رہ جاتے۔۔۔
ان دنوں دادی نئی نویلی دلہن تھیں۔ ان کے مضبوط کسے ہوئے رگ پٹھے اور شریانوں میں چنگاریاں دوڑتی رہ جاتیں۔۔۔ پورے جسم میں سنسنی پھیل کر رہ جاتی۔۔۔ قلب و جان میں شعلے بھڑک اٹھتے۔
پھر دادی کو اپنے میکے کے خانقاہی ماحول میں ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنا احوال بیان کرتے ہوئے طرح طرح کے جتن کرنے پڑے۔
کہتے ہیں کہ بلے کا آنا بند نہیں ہوا۔۔۔ اس کی آمد کے درمیان اب وقفے قائم ہونے لگے۔۔۔ دھیرے دھیرے وقفوں کا وقت بڑھتا گیا۔۔۔ اور دادی اماں کی تشنہ تشنہ آنکھوں سے اب طمانیت جھانکنے لگی تھی۔۔۔ گھر کے معمولات کے دوران اور برتنوں کو مانجھتے ہوئے ہاتھوں کی چوڑیاں کھنکھنانے لگتیں تو دادا مضطرب ہوجاتے۔۔۔ راکھ اور مٹی سے اٹے ہوئے ہاتھوں کا بھی وہ خیال نہ کرتے اور۔۔۔
دادی اماں کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔ ’’پرانی یادیں کیسی فکر انگیز اور لذت انگیز ہوتی ہیں۔۔۔ توبہ۔۔۔ توبہ۔۔۔ اس نگوڑے نامراد کی وجہ سے کیسی کیسی باتیں یاد آتی رہتی ہیں۔۔۔ خدا میری توبہ قبل فرمائے۔۔۔ مجھے معاف کرے۔۔۔‘‘ دادا کو یاد کرتے ہوئے وہ بڑبڑائیں۔
پھر ان پر رقت طاری ہوگئی۔
مرنے کو مر گئے لیکن میرے دم پر مصیبتیں چھوڑ گئے۔۔۔ ہائے نامراد زندگی۔۔۔ تونے موت سے بھی بدتر سلوک کیا ہمارے ساتھ۔۔۔
کچھ توقف کے بعد دل کو تھوڑا قرار آیا تو انہو ں نے سوچا۔
ان کا یہی اوسط درجے کا بیٹا ہی کسی قدر فرماں بردار نکلا کہ اس کے دم سے عزت و آبرو کے ساتھ بڑھاپا گزر رہا تھا۔۔۔ ویسے ان کے شوہر کو تو کسی بیٹے سے کوئی سکھ نہیں ملا۔ تین تو مارکسوارد، چار واک اور گوتم بدھ کی راہ پر چلتے ہوئے بہت پہلے دور جاچکے تھے۔ بس یہی غبی اور کم فہم چوتھا بیٹا ہی ایسا بچ گیا جس کے سہارے بڑھاپے میں چین سے چند سانسیں لینے کا موقع مل گیا تھا۔
لیکن ان کے نامراد شوہر کو تو۔۔۔ انہوں نے سرد آہ بھری۔
بوڑھے برگد کے پیڑ سے مولوی برہان الدین گھنٹوں باتیں کرتے رہتے۔ گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ جاتے۔ الّم غلم سوچتے اور اس کی ڈالیوں سے لپٹ کر روتے رہتے۔ کچھ مفسد ادھر سے گزرتے تو آوازیں کستے۔
وہ سن کر ان سنی کردیتے۔ بے اختیار خالقِ کائنات اور رب العالمین کا شکر بجا لانے لگتے۔۔۔ عزت اور ذلت سب تیرے حکم سے ہے وہ گھٹنوں پر ٹھوڑی رکھ کر آنکھیں بند کرتے ہوئے نیم غنودگی کے عالم میں پہنچ جاتے۔ برگد کا پیڑ ایک بیل گاڑی میں تبدیل ہوجاتا اور وہ دبیز کہرے میں اپنے نحیف بوڑھے بیلو کو ہانکتے، گنگناتے ہوئے افق کے پار نامعلوم ویرانے میں اترتے چلے جاتے،
’’دنیا بنانے والے
کیا تیرے من میں سمائی۔‘‘
اچانک ایک دن ان کے بہترین دوست بوڑھے برگد کے پیڑ کے موکھے سے ایک سانپ نے سر نکالا۔
دادی اماں گھنٹوں دہاڑیں مار مار کر روئی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا پورا گھر، قصبہ اور پورا ملک ان کے آنسوؤں کے سیلاب میں بہہ جائے گا۔ ایسی گہری انسیت اور لگاؤں کا اندازہ تو خود انہیں بھی نہیں تھا۔
وہ دن اور آج کا دن۔۔۔
کہتے ہیں کہ پھر ان کی نامراد آنکھوں نے رونا جانا نہ ہنسنا۔ عجیب سکتے اور ہوکا عالم۔۔۔ وہ اپنی زندگی کی سانسیں پوری کر رہی تھیں لیکن اندر سے ایک مردے کی طرح تھیں جو قبر کے اندر صرف منکر نکیر کے سوالوں پر حرکت کرتا ہے۔
کبھی کبھی دادی اماں کو لگتا کہ ان کو پریشان کرنے والا بلی کا بچہ کہیں اسی بلے کے نطفے سے تو نہیں تھا، جس نے ان کے شوہر کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی اور جس کا طلسم توڑتے توڑتے ان کی جوانی کا آدھا حصہ رائیگاں چلا گیا تھا۔ پھر خود ہی دادی سوچتیں۔ اس بلے کے بچے تو کب کے مر کھپ چکے ہوں گے۔۔۔ اتنے طویل عرصے میں اس کی کئی نسلیں صاف ہوچکی ہوں گی۔ یہ ممکن ہے کہ یہ اسی بلے کے خاندان سے ہو اور ان کی عمر کے آخری حصے میں، ان کی زندگی اجیرن کرنے ان کے پاس آگیا ہو۔
لیکن اب ان کی زندگی میں قبر تک بتدریج پہنچنے کی سپاٹ سی بے کیف غیر حیاتیاتی خانہ پری اور محض رسم ِادائیگی کے سوا کیا رکھا تھا۔
پانچ وقت کی نماز۔۔۔ تلاوت۔۔۔ تہجد۔۔۔ فاتحہ۔۔۔ کبھی کبھی بچوں کو ڈانٹ پھٹکار۔۔۔ بہو کے ستم کے جواب میں ضبط اور دبی ہوئی کراہیں۔۔۔ اور اب یہ نگوڑا نامراد کا بچہ جو ان کی طہارت اور خدائے برتر کی طرف محویت میں حارج ہونے پر کمربستہ رہتا تھا۔
پھر یہ ہوا کہ بلی کا بچہ بڑھتے بڑھتے لمبی چھلانگیں مارنے کے قابل ہوگیا۔ اب وہ فلیٹ کی منڈیر سے اچھل کر نیچے جانے لگا۔ ممی پریشان ہو اٹھتیں۔
ہم بچے اسکول سے آتے، یونیفارم اتارے بغیر کافی دیر تک اس کے ساتھ چوما چاٹی کرتے رہتے۔ ممی کے بہت واویلا کرنے پر کپڑے تبدیل کر کے کھانے پینے اور دیگر معمولات کی طرف راغب ہوتے۔
ایک دن ہم لوگوں کے اسکول روانہ ہونے کے بعد ممی نے دھیان نہیں دیا۔ اپنے کام میں مصروف رہیں۔ اچانک ا نہیں خیال آیا کہ گھر کی اتھل پتھل میں کچھ کمی واقع ہوگئی ہے۔ پُشّی پُشّی کی رٹ لگاتے ہوئے انہوں نے پورے فلیٹ کا چکر لگایا لیکن بلی کا بچہ کہیں سے برآمد نہ ہوا۔
فلیٹ کے باہر کیمپس میں آوارہ کتوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ممی کو معاً خطرے کا احساس ہوا۔۔۔ متوحش انداز میں انہو ں نے ہر طرف چکر لگانا شروع کیا۔۔۔ دو تین کتے جو برابر کیمپس میں آتے رہتے تھے، انہیں سوتا ہوا پایا تو ان کا جی ڈر گیا۔۔۔
کیا پتا۔۔۔ یہ شکم سیری کی نیند ہو۔۔۔ ممی کا اضطراب بڑھتا جارہا تھا۔ بچے اداس ہوجائیں گے۔۔۔ یہ حادثہ ان کے لئے کتنا سوہانِ روح ہوگا۔ ممی نے سوچا۔
انہو ں نے کیمپس کے بغل میں واقع احاطہ بند پلاٹ کا، جس میں لمبی لمبی گھاس اور جھاڑیاں اگ ا ٓئی تھیں، کونا کونا دیکھ ڈالا، لیکن کہیں سے ممی کی پکار کے جواب میں میاؤں کی آواز نہ آئی۔
ان کی مایوسی دیکھ کر دادی اماں سے برداشت نہ ہوا۔ آرتھرائٹس زدہ ٹخنوں کے باوجود وہ بھی فلیٹ سے باہر نکلیں اور انہوں نے بھی لنگڑا کر دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اپنے جانتے بلی کے بچے کو ڈھونڈنے کی پوری تگ و دو کی۔
ہم تو بچے ہی ٹھہرے۔۔۔ اسکول سے واپس ہوئے تو ممی کا لٹاپٹا اداس چہرہ اور دادی اماں کی مضطرب آنکھیں دیکھ کر سمجھ گئے کہ ہماری دنیا لٹ چکی ہے۔ یہ بتانا ناقابلِ بیان ہے کہ ہمیں کس طرح صبر آیا۔
ایک عجیب سی ٹیس رہ رہ کر دل میں اٹھتی کہ پتا نہیں اس بے چارے پر کیا گزری۔۔۔ کسی کتے اسے لپک لیا۔۔۔ یا کسی اور کے گھر میں گھس گیا۔۔۔
کم بخت کو ہماری ساری کوششوں کے باوجود گھر کی شناخت حاصل نہ ہوسکی تھی اور اکثر پہلے ادھر ادھر جاتا تو ہم بھائی بہنوں میں سے کسی کو اسے کھوج کر لانا پڑتا تھا۔
انہی دنوں دادی اماں دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔
جانے کون سا غم تھا، جس کا بوجھ وہ برداشت نہ کرسکیں او ربغیر کسی مہلک بیماری کے ایک روز مصلے پر نماز پڑھتے پڑھتے ہی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
اس بلی کے بچے کی گمشدگی کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ دادی اماں کی رحلت نے ہمیں اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ ہمیں لگا کہ اس دنیا میں اب جینے کا کوئی جواز نہیں رہا۔
پاپا بھی بے حد مضمحل اور تھکے تھکے سے رہنے لگے۔ دفتری پریشانیوں اور ہم لوگو ں کے مستقبل کی فکر سے تو وہ پہلے ہی بے حد ہراساں تھے۔ دادی اماں کے غم نے ان کی رہی سہی توانائی بھی سلب کرلی۔
لیکن وہ عجیب و غریب واقعہ۔۔۔ ابھی اس کی بابت بتانا تو باقی ہی رہ گیا۔
دادی اماں کے انتقال کے چوتھے دن ان کا قل ہونا تھا، فجر کی اذان سے پہلے ’میاؤں‘ کی جانی پہچانی آواز فضا میں گونجی۔۔۔ آواز کچھ پھنسی پھنسی تھی۔ ان راتو ں میں پاپا کی آنکھوں سے نیند اچٹ چکی تھی۔ آواز سنتے ہی ہڑبڑا کر وہ بستر سے اٹھ بیٹھے۔
نیم غنودگی کے عالم میں سوئے ہوئے ہم بچے بھی میاؤں کی آواز سے چونک کر جاگ گئے۔
پاپا کے چہرے پر استعجاب او راضطراب کی عجیب سی لکیریں عود کر آئیں۔ پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹنے لگیں۔
پاپا نے ہمیں چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ ان کا سر جیسے کسی ناقابل برداشت بوجھ کے نیچے دبا ہوا تھا۔ پراسرار آنکھوں میں احساسِ جرم رینگ رہا تھا۔
دبے پاؤں چلتے ہوئے دروازے کی اوٹ سے انہوں نے بالکنی کی طرف جھانکا۔ ہم لوگ ان کے پیچھے کھڑے تھے۔ فضا میں نیم تاریک ملگجی چادر تنی ہوئی تھیں۔ ابھی ابھی فجر کی اذان فضا میں گونجی تھی اور چاروں طرف لاہوتی سکوت طاری تھا۔
ہم لوگو ں نے دیکھا کہ بلی کا سفید بچہ خالی چوکی کی طرف دیکھتا ہوا اچک کر اس پر چڑھ آیا تھا۔ ایک کنارے مڑے ہوئے مصلے کو اس نے اپنے پنجوں کی حرکت سے کھول دیا۔ پھر مصلے کے چاروں طرف بے چینی کے عالم میں طواف کرنے لگا۔
ہم سب سانسیں روکے کھڑے تھے۔ وقت جیسے تھم سا گیا تھا۔ چاروں طرف مکمل سکوت کا عالم طاری تھا۔ پن گرنے کی آواز بھی سنی جاسکتی تھی۔
پھر جیسے دادی اماں نماز کے لئے مصلے پر بیٹھتی تھیں۔۔۔ ٹھیک اسی طرح۔۔۔
ہم دیکھ رہے تھے کہ بلی کا بچہ خاموشی سے دادی اماں کی طرح عبادت میں محو تھا۔
پاپا نے جیسا کہ بعد میں لرزتے ہوئے بتایا، انہو ں نے دو سایوں کو گتھم گتھا نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا۔
دادی اماں کا ہیولا بیٹھے بیٹھے رکوع اور سجدے کی حالتوں سے ہم کنار تھا۔
او ران کے کندھوں پر چڑھ کر اپنی چھوٹی چھوٹی بانہیں ان کی گردن میں حمائل کرتا ہوا بلی کا بچہ ان کے ہمراہ سجدے میں سرنگوں تھا۔
چشم زدن میں سارا منظر ہوا میں تحلیل ہوگیا۔
پاپا دن چڑھے آنکھوں میں نیم تاریکی کا خمار لیے مہمانوں کے درمیان خواب خواب کیفیتوں کو اپنی نحیف بدبداہٹوں سے عیاں کر رہے تھے۔ بعد ازاں ان کی یادداشت تقریباً جاتی رہی۔
اس عجیب و غریب منظر کے بعد بلی کا بچہ کبھی واپس نہ آیا۔
ممی کا پیٹ پونچھن۔
دادی اماں کا نگواڑ نامراد۔
لیکن کیا پتا نگوڑے نامراد کی ترکیب وہ کس کے لئے استعمال کرتی تھیں۔۔۔ بلی کے بچے کے لئے۔۔۔ مرحوم شوہر کے لئے۔۔۔ یا اپنے بیٹے کے لئے۔۔۔ یا۔۔۔
یہ بھید ان کے ساتھ ہی۔۔۔
اب تو ہم ویسے بچے نہیں رہے۔
اب کوئی بیل گاڑی اپنے بوڑھے بیلوں کے ساتھ کہرے سے اٹے ہوئے افق کا سفر اختیار نہیں کرتی۔
لیکن اب بھی کبھی کبھی ہمارے ذہن کی منڈیر پھلانگ کر وہ بلی کا بچہ ہماری سوچ کی بالکنی میں آکر میاؤں میاؤں کرنے لگتا ہے۔۔۔ ہماری بجھی بجھی آنکھیں چاروں طرف دیکھتی ہوئی کچھ ڈھونڈتی رہ جاتی ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.