بساط کا آخری مہرہ
مغرب کی نماز کے بعد صحن کے درمیان قد آور نیم کے بوڑھے، گھنے اور سایہ دار درخت کی چھپر چھاؤں تلے دودھیا بلب کی شفاف روشنی کے پھیلاؤ میں شیشم کی منقش میز پر شطرنج کی بساط بچھا دی گئی۔ میز کے گرد پڑی کرسیاں ابھی خالی تھیں۔ بادشاہ وزیر اپنے ہاتھی گھوڑوں اور پیادوں کے ہمراہ نئے دور کے شاہوں کی طرح مخملیں ڈبے میں بند پڑے ہوئے تھے۔ کیونکہ نئے دور کے شاہوں کے قید خانے بھی کسی محلات سے کم نہیں ہوتے۔
آج دادا ابا اور پوتے عدیل میں وعدے کے مطابق باقاعدہ مقابلہ تھا۔ دادا جی نے پوتے کو چیلنج دیا تھا اور جیت کی صورت میں اپنی پس انداز پنشن سے کمپیوٹر دلوانے کا وعدہ کیا تھا۔ گو کہ عدیل کو شطرنج دادا جی نے ہی سکھائی تھی۔ لیکن عدیل نے اپنی ذہانت سے اس کھیل میں خاصی مہارت حاصل کر لی تھی۔ اس کی ذہانت شطرنج تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں غیر معمولی لڑکا تھا۔ اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے ماں باپ تو پیار کرتے ہی تھے، لیکن اس کی صلاحیتوں کی وجہ سے ہر شخص ہی اس سے محبت کرتا تھا۔ عدیل سے دادا جی کی محبت کی تو کوئی مثال ہی نہیں تھی۔ وہ جان چھڑکتے تھے۔
دادا جی کو اللہ نے ان کی بیوی عابدہ کے بطن سے تین بیٹے دیئے تھے۔ لیکن قدرت سے اپنے بیٹوں کی لمبی عمر کی دعا مانگنے والی عابدہ حسین نہ خود لمبی عمر جی سکیں اور نہ ان کے دونوں بڑے بیٹے۔ یہی وجہ تھی کہ دادا جی اور مولوی مرسلین مسجدوں میں امن و سلامتی کی طویل دعاؤں کے باوجود شہر کے جوں کے توں حالات پر کہا کرتے، کہ یہ دعاؤں کی نامقبولیت کا دور ہے۔
آج سے چند برس پہلے دادا جی کی بہو شہلا کی بعض جسمانی اور گائنی پیچیدگیوں کی وجہ سے ڈاکٹروں نے مزید اولاد کی خواہش بھی پیدا کرنے سے منع کر دیا تھا۔ اس مایوس کن خبر کے بعد اس گھر کی خوشیوں کا محور عدیل ہی تھا اور دادا جی تو عدیل سے بہت ہی محبت کرتے تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ کبھی کبھی خوفزدہ بھی ہو جایا کرتے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اپنے ذہین اور ہوشیار اکلوتے پوتے کی ذہانت دیکھ کر خوفزدہ ہو جائے، لیکن ایسا ہی تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب عدیل آٹھ سال کا تھا۔ اسکول میں وہ ہمیشہ اول آتا۔ اسے ہر طرح کے مقابلوں میں ہرانا گویا ایسا تھا جیسے آپ کسی تیراک سے سمندر کی تہہ میں سے موتی ڈھونڈ لانے کا مقابلہ کریں اور آپ کو تیرنا بھی نہ آتا ہو۔ جب کہ دوسری طرف عدیل کی مثال ایسے تھی، جیسے ذہانتوں کے بہترین رنگ کسی ایک کینوس پر بکھیر دیئے گئے ہوں اور اس شاہکار کا نام عدیل رکھ دیا گیا ہو۔
ہوا یوں کہ اسکول کی سالانہ تقریب کے موقع پر خصوصی مضامین کا مقابلہ منعقد ہوا۔ چھوٹی جماعتوں کے طلبہ اور طالبات کو جو موضوع دیا گیا تھا وہ کراچی کی سیر تھا۔ جب اسٹیج پر عدیل کا نام پکارا گیا تو دادا جی نے دوسری نشست پر بیٹھی ہوئی اپنی بہو شہلا سے پوچھا:
’’تم نے مضمون کو دیکھ تو لیا تھا نا؟‘‘
’’نہیں‘‘۔
’’کیوں؟‘‘
’’اس نے دکھانے سے منع کر دیا۔ کہہ رہا تھا کہ آپ کو وہیں سناؤں گا‘‘۔
’’بھئی پڑھ لینا بہتر ہوتا ہے۔ چھوٹی موٹی غلطیاں دور ہو جاتی ہیں۔ آخر بچہ ہے‘‘۔
’’بہرحال وہ ذہین تو ہے۔ جو بھی لکھا ہوگا اچھا ہی لکھا ہوگا‘‘۔
عدیل نے اسٹیج پر مائیک کے سامنے اپنا مضمون پڑھنا شروع کر دیا تھا:
’’میں آٹھ سال پہلے کراچی میں پیدا ہوا تھا۔ میرے امی ابو کے کہنے کے مطابق میری پیدائش والے دن ہمارے علاقے میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ ابو کی گاڑی خراب تھی اور سڑک پر رکشہ ٹیکسی کچھ موجود نہ تھے۔ ابو نے ہمارے پڑوسی کمال انکل سے گاڑی لے رکھی تھی اور اسی میں امی کو ہسپتال لے کر گئے تھے‘‘۔
وہ تعجب سے عدیل کو دیکھ رہے تھے کہ بھلا کراچی کی سیر سے ان باتوں کا کیا تعلق۔ انہوں نے اپنی بہو کی طرف دیکھا۔ وہ بھی حیرت سے اپنی آنکھوں کو جھپکانے پر مجبور ہو گئی تھی۔
’’آج بھی۔۔۔جب کہ میں آٹھ برس کا ہو چکا ہوں اور آپ کے سامنے اپنا مضمون کراچی کی سیر پڑھ رہا ہوں۔۔۔کراچی کے بعض علاقوں میں کرفیوں لگا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے پہلے دن کا تسلسل اب تک جاری ہے۔ ہمارے محلے میں ایک چھوٹا مگر خوبصورت پارک ہے۔ جس کے درمیان میں ایک خوبصورت تالاب بنا ہوا ہے۔ اس تالاب میں ہم لوگوں نے بطخیں چھوڑ رکھی ہیں۔ اس تالاب کے اوپر ایک سمت لکڑی کا پتلا خوبصورت پل ہمارے شاہد انکل نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بنایا ہے۔ وہیں ایک کونے میں سمندری پتھروں سے بنی ہوئی روکری ہے۔ جس کے پیچھے سے موٹر کی مدد سے پانی بہایا جاتا ہے جو کہ پتھروں پر سے بہتا ہوا جھیل میں آ گرتا ہے۔ لیکن افسوس یہ پارک آپ لوگ نہیں دیکھ سکتے۔ کیونکہ ہمارے محلے کے چاروں طرف نکلنے والے راستوں میں سے ایک کے سوا باقی سب راستے بند کر دیئے گئے ہیں اور اس ایک راستے پر بھی ایک موٹا اور بہت بلند لوہے کا گیٹ لگا دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ دشمنوں سے بچاؤ کے لیے لگایا گیا ہے۔ جب میں نے اپنے ابو سے ایک دن یہ سوال کیا کہ ہمارا دشمن کون ہے، تو ابو نے جواب ہی نہیں دیا‘‘۔
دادا جی اور شہلا کی حیرتوں میں اضافہ ہورہا تھا۔ انہوں نے پنڈال میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ لوگ بھی نہایت دلچسپی سے عدیل کی طرف متوجہ تھے۔ عدیل بڑے انہماک سے اپنا مضمون پڑھ رہا تھا۔ مضمون اس نے کراچی کی سیر کے حوالے سے ہی لکھا تھا۔ جوں جوں وہ پڑھتا گیا اس کے مضمون کا موضوع کھل کر سامنے آنے لگا۔ اب وہ محلے سے نکل کر کراچی کی سڑکوں پر آ گیا، جہاں ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی اور بےہنگم ڈرائیونگ کا ذکر تھا۔ جب سمندر کا ذکر شروع ہوا تو وہاں تیرتا ہوا گندگی کا ڈھیر عدیل کا موضوع بن گیا اور پھر ایک چوراہے پر سبز بتی روشن ہونے کے انتظار میں رکے ہوئے کار سوار کے لوٹے جانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس نے کہا:
’’اگر آپ کراچی کی سیر کرنے نکلے ہیں تو اس بات کا بھی خاص طور سے خیال رکھیں کہ آپ کے آس پاس کوئی موٹر سائیکل سوار یا پیدل شخص آپ کی گاڑی کے قریب آکر اچانک ہتھیار کے زور پر آپ کو لوٹ نہ لے‘‘۔
مضمون ختم ہو چکا تھا۔ پنڈال میں تالیاں گونج رہی تھیں۔ لوگ حیران تھے، شہلا اپنے بیٹے کی ذہانت پر مسکرا رہی تھی اور دادا جی خوفزدہ تھے۔
اسی شب انہوں نے اپنے بیٹے اور عدیل کے ابو سہیل کو ساری صورتحال بتائی۔ سہیل بیٹے کی کارکردگی پر مسکرایا اور بولا:
’’آپ کو تو خوش ہونا چاہیے۔ اس کی ذہانت اور قوت مشاہدہ کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ کو یاد ہے جب میں چھوٹا تھا تو ہر کھلونے، گاڑیوں حتیٰ کہ ریڈیو کے حصے بخرے کر دیا کرتا تھا۔ میری ان ہی حرکتوں پر اماں کہتی تھیں کہ میری طبیعت میں انتشار ہے۔ جب کہ آپ یہ کہتے کہ نہیں وقت آنے پر یہ ان چیزوں کو دوبارہ جوڑنے لگےگا اور پھر ہوا بھی یہی۔ آہستہ آہستہ میں نہ صرف چیزوں کو جوڑنے لگا بلکہ ان کی خامیوں کو دور بھی کرنے لگا‘‘۔
پھر سہیل نے اپنے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا:
’’آپ کو یاد ہوگا کہ ایک دفعہ ہمارا دو بینڈ کا ریڈیو خراب ہو گیا تھا۔ آج وہ خامی بہت معمولی دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ اب میں ایک بڑے ادارے میں ٹیکنیکل یونٹ انچارج ہوں۔ تب اس وقت میں کچھ نہیں تھا۔ آج معمولی دکھائی دینے والی کارکردگی اس وقت معمولی نہیں تھی۔ میری طبیعت کے اس رجحان کو دیکھتے ہوئے آپ نے مجھے ڈپلومہ کروایا تھا اور آج پھر آپ کو یہ ذمہ داری پوری کرنا ہے۔ آپ عدیل کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کریں کہ اسے کیا بنائیں گے‘‘۔
’’ابھی تو وہ بہت چھوٹا ہے۔ میرا خیال ہے کہ سیکنڈری کلاسز تک آتے آتے اس کے رجحان کا اندازہ ہو جائےگا۔ پھر فیصلہ بھی کر لیں گے اور ویسے بھی اب فیصلہ کرنا میرا نہیں تم دونوں میاں بیوی کا کام ہے‘‘۔
اگلے چند برسوں میں تعلیمی میدان میں عدیل کی صلاحیتیں مزید نکھر کر سامنے آئیں۔ چھٹی جماعت میں اس نے اپنے اسکول کی طرف سے حصہ لیتے ہوئے کراچی کی سطح پر کوئز مقابلے میں پہلا انعام جیتا۔ اسکول والوں نے صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اسے ٹیلی ویژن کے کوئز مقابلوں میں بھیجا ،پھر اس کے بعد یہ سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا۔
شہلا اپنے بیٹے کی کامیابیوں پر بہت خوش ہوا کرتی تھی۔ اس کے انعامات، ٹرافیوں، شیلڈوں اور اسناد کو نمایاں جگہ پر سجاتی۔ خوشی تو دادا جی کو بھی بہت ہوتی، لیکن وہ نہ جانے کیا سوچ کر خوفزدہ ہو جاتے۔
ایک دن انہوں نے سہیل سے کہا۔
’’بغیر لگام سرپٹ دوڑتا ہوا گھوڑا نہ تو صحیح سمت سے واقف ہوتا ہے اور نہ ہی صحیح مقام پر ٹھہرتا ہے۔ ہاں اگر سوار کے ہاتھ میں لگام ہو تو پھر وہ جانتا ہے کہ کہاں ٹھہرنا ہے، کہاں تیز دوڑنا ہے اور کس طرف جانا ہے۔ میں عدیل کی صلاحیتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شکست بھی اس دنیا میں کوئی چیز ہے‘‘۔
’’آپ اس کی ہار چاہتے ہیں؟‘‘
’’میرا یہ مطلب نہیں۔۔۔بس ہمیشہ جیت جانا کچھ اچھا نہیں ہوتا۔ تمہارا کیا خیال ہے، ہارنے والا کوئی معمولی آدمی ہوتا ہے؟ نہیں۔۔۔جو کھیلتا ہے وہ ہارتا بھی ہے۔ جو کچھ نہیں
کرتا وہ ہارتا بھی نہیں ہے‘‘۔
خالی پڑی ہوئی کرسیوں پر دادا جی، عدیل اور مولوی مرسلین آکر بیٹھ چکے تھے۔ دادا جی نے مخملیں ڈبا اپنی طرف سرکاتے ہوئے کہا:
’’مولوی صاحب! پہلے ایک بازی آپ کے ساتھ ہو جائے‘‘۔
’’نہیں نہیں۔۔۔یہ بات پہلے سے طے تھی کہ آج کھیل آپ دونوں کے درمیان ہوگا اور سنجیدگی سے ہوگا‘‘۔
دادا جی مہرے بساط پر ترتیب سے لگانے لگے، بادشاہ۔۔۔حاکمیت کی علامت، اقتدار کا سرچشمہ، اس کے کرتوت سیاہ ہو ں یا سفید ہر صورت میں وہ بادشاہ ہی رہتا ہے۔ اپنے مرکز سے کم ہی ہلتا ہے۔ کیونکہ وہ ہل جائے تو اقتدار خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ وزیر۔۔۔بہت چالاک اور ہوشیار۔ ہر جانب نگاہ رکھتا ہے اور ہر سمت چالیں چل سکتا ہے۔ اپنے بادشاہ کی خوشنودی کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے۔ لیکن اس سے بے خبر کہ جب وزارت چھنتی ہے یا دوسرے لفظوں میں پٹ جاتا ہے تو کوئی بھی دوسرا مہرہ بساط کی آخری حد تک جا کر وزیر بن جاتا ہے۔ خواہ وہ جانوروں کی قبیل سے ہو یعنی ہاتھی گھوڑا، یا انسانوں کی قبیل سے یعنی پیادہ، بس شرط ہے تو صرف آخری حد تک جانے کی۔
اور پھر جانوروں کے قبیلے میں سب سے اہم گھوڑا ہمیشہ منفرد چال چلنے کا ماہر نہ جانے کون سا گھوڑا کب کس خانے میں جا بیٹھے پتہ ہی نہیں چلتا۔ شاید اسی لیے اسمبلیوں کی بساط پر ہارس ٹریڈنگ کا کاروبار چمکا اور خوب چمکا۔
پیادے۔۔۔ بےچارے معصوم، لاچار اور بے بس غلام کی طرح۔ ہمیشہ اپنے بادشاہوں کی حفاظت اور اقتدار کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار۔ بس کبھی کبھی کوئی پیادہ بساط سلطنت کی آخری حد تک جا کر وزیر بن جاتا ہے۔ لیکن یہ حد اس کی آخری حد ہوتی ہے۔ اقتدار پھر بھی بادشاہ کے پاس ہی رہتا ہے۔
بساط سجادی گئی تھی۔ میدان تیار تھا صرف طبل جنگ کی دیر تھی۔ دادا جی نے مولوی مرسلین سے کہا:
’’یار مولوی صاحب! آپ دیکھ لینا آج کی بازی میرے ہاتھ رہےگی‘‘۔
عدیل مسکرایا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے دادا شطرنج کے بہترین کھلاڑی ہیں۔ انگریزی اور دیسی دونوں انداز میں ان کے تمام دوستوں میں ان کے جیسا کوئی کھلاڑی نہیں ہے۔ لیکن وہ خود بھی بہت اچھا کھیلتا تھا۔
دوسری طرف دادا جی کے دماغ میں آج شطرنج کی بہترین چالیں سوجھ رہی تھیں۔ آج وہ قطعی سنجیدگی سے معیاری کھیل کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔ آج سے پہلے انہوں نے جب بھی عدیل کے ساتھ شطرنج کھیلی، محض مذاق میں کھیلی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ اپنے ہارنے پر خوب ہنستے، قہقہے لگاتے، شور مچاتے، بہو کو آواز دیتے۔ مٹھائی منگواتے اور بار بار عدیل سے پوچھتے:
’’یہ بتاؤ تمہیں یہ چال سوجھی کیسے؟‘‘
وہ جواب دیتا:
’’دادا جی! آپ سے ہی سیکھی ہیں۔ اسی لیے مجھے پتا ہے کہ آپ کہاں کہاں غلطیاں کرتے ہیں۔ کون کون سی کمزور اور غیر ضروری چالیں چلتے ہیں۔ بس میں وہ چالیں نہیں چلتا‘‘۔
لیکن آج دادا جی واقعی بہت اچھا کھیلنے کے موڈ میں تھے۔ کھیل کا آغاز ہو چکا تھا۔ دونوں نہایت شاطرانہ طریقے سے اپنے اہم مہروں کو بچاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی کھیل میں آپ دوران کھیل اپنے مد مقابل کی صلاحیتوں اور اس کی گہرائی کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدیل محسوس کر رہا تھا کہ آج واقعی دادا جی بہت اچھا کھیل رہے ہیں۔ دونوں کے مہروں میں سے ایک ایک گھوڑا اور چند پیادے پٹے ہوے پڑے تھے۔ دونوں ہی نے اپنے اپنے بادشاہوں کے گرد کڑا حصار باندھا ہوا تھا۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ شطرنج کا کھیل دیکھنے والا خود بھی کھیلنے والوں کی طرح اپنے ذہن میں چالیں سوچ رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ مولوی مرسلین خاموشی سے دونوں کی شاطرانہ چالوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
صحن میں نیم کے بوڑھے، گھنے سایہ دار درخت کے نیچے دودھیا بلب کی شفاف روشنی میں منقش میز پر شطرنج کی بازی نہایت خاموشی سے جاری تھی کہ اچانک دور کہیں سے گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ آہستہ آہستہ ان آوازوں میں کہیں قریب سے چلنے والی گولیوں کی آوازیں بھی شامل ہوگئیں۔ ایک لمحے کو تو ایسا بھی لگا جیسے فائرنگ کرنے والے ہاتھ اپنی انگلیاں ہٹانا بھول گئے ہوں۔ تینوں کھیل میں محو تھے کیونکہ ایسی آوازیں اب شب و روز کا معمول بن گئی تھیں۔
مولوی مرسلین نے خاموشی کے سلسلے کو توڑتے ہوئے کہا:
’’چند مہینے ذرا سکون سے گزرے تھے۔ اب پھر وہی سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے‘‘
دادا جی نے بساط سے نظریں ہٹائے بغیر سر کو یوں جنبش دی کہ جیسے کہہ رہے ہوں:
’’مولوی تم ٹھیک کہتے ہو‘‘۔
مولوی مرسلین دوبارہ گویا ہوئے:
’’آج کے اخبار میں لکھا تھا کہ پچھلے ایک ہفتے میں سو سے زائد افراد مارے گئے ہیں، جن میں زیادہ تعداد پندرہ سے تیس سال کے نوجوانوں کی ہے۔ کیا کر رہے ہیں ہم، کس طرف کو جا رہے ہیں۔ بس اپنی نسل کو تباہ کرنے پر تلے ہوے ہیں۔ افسوس صدا فسوس!!‘‘
بازی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھی۔ دادا جی کے مہروں، بلخصوص وزیر، ہاتھی اور گھوڑے کی پوزیشن سے کھیل پر دادا کی گرفت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ صرف تین چالوں کی، جو دادا جی نے پہلے ہی سوچ رکھی تھیں، کی بات اور تھی، اس کے بعد عدیل کی مات یقینی تھی۔
گولیاں چلنے کی آواز وقفے وقفے سے اب بھی آرہی تھی۔ دور کی ان آوازوں میں اکا دکا قریب کی آواز بھی شامل تھی۔
’’استغفراللہ‘‘
مولوی مرسلین نے اپنا بایاں ہاتھ فضا میں انجانی سمت بلند کرتے ہوے کہا:
’’افسوس ہے ان پر‘‘۔
اور پھر انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ عدیل کی طرف کرتے ہوے مزید کہا:
’’اور شاباش ہے ان جیسوں پر‘‘۔
یکایک دادا جی کی نگاہ عدیل کی طرف اٹھ گئیں، جو کہ سر جھکائے بساط پر پھیلے مہروں کو انہماک سے دیکھتے ہوے اپنی اگلی چال کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسے بازی پلٹنے کے لیے صرف ایک چال چاہیے تھی۔
دادا جی کی نگاہیں عدیل کے چہرے پر جم سی گئی تھیں۔ وہ مسلسل عدیل کو دیکھے جا رہے تھے۔ ذہین اور ہوشیار عدیل جسے ہرانا ایسا ہی تھا کہ آپ سمندر میں سے موتی ڈھونڈ لانے کا مقابلہ کریں اور آپ کو تیرنا بھی نہ آتا ہو۔
آہستہ آہستہ دادا جی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی۔ دادا جی نے کچھ سوچتے ہوے اپنی چال چل دی۔ انہوں نے اپنا گھوڑا جو کہ بہت اہم جگہ بیٹھا ہوا تھا، پیچھے ہٹا لیا۔
بازی پلٹ چکی تھی۔ اگلی دو چالوں میں اب شہہ اور مات عدیل کے ہاتھوں میں تھی۔ مولوی مرسلین نے حیرت سے دادا جی کو دیکھا۔ دادا جی نے مسکراتے ہوے گردن کو ہلکی سی جنبش دی۔ ان کی آنکھوں میں چمک اور نمی دونوں دکھائی دے رہی تھیں۔ گولیاں چلنے کی آوازیں یکایک بند ہو گئیں۔ چاروں طرف عجیب سی خاموشی پھیل گئی۔ پھر درخت پر بیٹھی ہوئی چڑیاں جو کہ فائرنگ کی خوفناک آوازیں سن کر سہم گئی تھیں، اچانک زندگی سے بھرپور آوازوں کے ساتھ چہچہانے لگیں اسی لمحے نیم کے بوڑھے، گھنے اور سایہ دار درخت سے ایک پتّہ ٹوٹ کر زمین کی طرف آنے لگا۔
(۱۹۹۸ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.