Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بساط

MORE BYسفینہ بیگم

    وہ بستر پر سیدھا لیٹا ہوا مسلسل چھت کو گھورے جا رہا تھا۔ آنکھوں میں گہری سوچ کا انبار لیے ہوئے اس کا ذہن دور کسی نقطہ پر اٹک کر رہ گیا تھا۔ آہستہ آہستہ آنکھوں میں سرخی کے ڈورے پھیلتے جا رہے تھے۔ گویا دیمک اپنا جال تیزی سے پھیلا رہی ہو۔

    ”ابّا! شطرنج کیسے کھیلتے ہیں؟“

    ذاکر نے سوال کیا

    ”کیوں بیٹا؟ آج تمہیں یہ شطرنج کا خیال کیسے آیا؟“

    عبد الحمید نے عینک ہٹاتے ہوئے پوچھا۔

    ابّا میرے اسکول میں شطرنج کا مقابلہ ہوتا ہے۔ بچّے اس میں حصہ لیتے ہیں۔ میں انہیں کھیلتے ہوئے دیکھتا ہوں لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آتاابّا! اس میں سفید اور کالے خانے کیوں ہوتے ہیں؟سارے سفید یا سارے کالے خانے کیوں نہیں ہوتے؟ اور ابّا گھوڑا ایک، دو، ڈھائی چال کیوں چلتا ہے؟اور راجہ پیادوں کے پیچھے کیوں رہتا ہے جبکہ وہ تو محافظ ہے۔ اسے تو آگے رہنا چاہئے۔“

    وہ پیشانی پر بل ڈالے سوالوں کا پلندہ لئے ابّا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ ساتویں جماعت کے طالب علم کے ان سوالات پر ابّا نے جواب دیا،

    ”بیٹا! ہر کھیل کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور کھیل اسی کے مطابق کھیلا جاتا ہے۔“

    ذاکر نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا لیکن الفاظ جیسے اس کے حلق میں ہی رہ گئے اور وہ ابا کے اس جواب سے چہرے پر بے اطمینانی کے تاثرات، کھیل اور اصول کی کشمکش لئے پلٹ گیا۔ ابا اسے جاتا دیکھتے رہے۔ وہ اماں کے پاس کمرے میں داخل ہو گیا تو ابّا اخبار کی طرف متوجہ ہوئے اور انہماک سے مطالعہ میں غرق ہو گئے۔

    اس نے بائیں جانب کروٹ لی لیکن اس کروٹ سے اس کے چہرے پر ایسے آثار نمایاں ہوئے گویا کہ اس کا پورا جسم زخمی ہو گیا ہو اور سارے زخم ناسور بن کر اس کے بدن کو چمٹ گئے ہوں۔ وہ سامنے رکھے ہوئے خالی گلاس کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔ اس کا جسم نیم مردہ نظر آ رہا تھا۔

    ”ذاکر کے ابا! میں تو کہتی ہوں۔۔۔ جو کلکٹر صاحب کہہ رہے ہیں وہ بات مان لو۔ پھر برائی بھی کیا ہے۔ ہمارا ہی فائدہ ہے۔“

    سلیمہ بیگم نے نل پر برتن دھوتے ہوئے کہا

    ”نہیں سلیمہ۔۔۔ میں حلال کے چار پیسوں میں زندگی گذار سکتا ہوں۔ لیکن غلط طریقہ سے پیسہ کمانا مجھے منظور نہیں۔“

    ”میں تو ذاکر کی وجہ سے کہہ رہی ہوں، اس کی پڑھائی بھی اتنی مہنگی ہے۔۔۔ کل کلاں کوپریشانی اٹھانا نہ پڑے۔ اور آپ کی ایمانداری دھری کی دھری رہ جائے۔“

    برا سا منھ بنا کر کہتے ہوئے انہوں نے برتن اٹھائے اور اندر چلی گئیں۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ پرندے دانہ جمع کر کے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ پورے آسمان پرہلکی سرخی چھائی تھی۔ عبدالحمید نے کرسی سے ٹیک لگائے دور فلک تک نگاہ دوڑائی، جیسے اپنی نگاہوں کے زیروبم سے آسمان کا کوئی کنارہ پکڑنا چاہ رہاہو۔ آخر کار کوئی کنارہ ہاتھ نہ آیا تو تھک کر آنکھیں موند لیں۔

    اسے کسی پل چین نہیں مل رہا تھا۔ اس نے دائیں جانب کروٹ بدلی۔ اچانک سینہ میں تکلیف کی شدت محسوس کر کے سختی سے آنکھیں بند کر لیں لیکن ان آنکھوں کا سیلاب جیسے آج ختم ہو چکا تھا۔

    ذاکر خون میں لتھڑا ہوا لکڑی کی بنچ پر بے سدھ پڑا تھا۔ اسپتال میں افراتفری کا ماحول تھا۔ بچّوں کی چیخ و پکار، بوڑھوں کی کراہیں، غریب والدین کی آنکھوں میں اپنی بیمار اولاد کے لئے حسرت و یاس اور کرب کا ٹھانٹھے مارتا ہوا سمندر تھا۔ جو اپنی باری کے انتظار میں جگہ جگہ مکھی کی شکل میں بکھرے پڑے تھے۔

    ”ڈاکٹر صاحب۔۔۔ ڈاکٹر صاحب۔۔۔ میرے بچّے کا بہت خون بہہ گیا ہے۔ خدا کے واسطے اسے پہلے دیکھ لیجئے۔۔۔ دیکھئے۔۔۔ دیکھئے۔۔۔ یہ بہت دیر سے ایسے ہی پڑا ہے۔۔۔ کچھ بول بھی نہیں رہا۔“

    عبدالحمید نے راہ میں ایک ڈاکٹر کو روکتے ہوئے التجا کی۔ اس کی آنکھوں سے متواتر آنسو بہہ رہے تھے۔ کبھی وہ اپنے کرتے کی آستین سے آنسو صاف کرتا کبھی ذاکر کی طرف اشارہ کرتا۔

    ”دیکھئے۔۔۔ آپ تھوڑا انتظار کریئے۔۔۔ یہ میرا کام نہیں ہے۔“

    یہ کہتا ہوا ڈاکٹر آگے بڑھ گیا۔ عبدالحمید دیوانہ وار کبھی نرس تو کبھی وارڈبائے سے درخواست کرتا لیکن کوئی اس کی سننے کو تیار نہیں تھا بلکہ ہر کوئی اسے باری کے انتظار کا کہہ کر چلا جاتا۔ عبدالحمید سے برداشت نہیں ہوا تووہ ڈاکٹر کے کمرے میں چلا گیا۔

    ”یہ شخص۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ تو میرے بعد آیا ہے۔“

    اس نے کوٹ پینٹ میں ملبوس آدمی کو دیکھ کر برابر میں کھڑی نرس سے کہا۔ جس کو ڈاکٹر ہاتھ پر پٹّی باندھ رہا تھا اور مسکرا مسکرا کرباتیں بھی کر رہا تھا۔

    ”ہاں تو۔۔۔ یہاں سب چلتا ہے۔۔۔ تمہیں دکھتا نہیں۔۔۔ اس شہر کا بڑا آدمی۔“ کہتے کہتے نرس خاموش ہو گئی اور عبدالحمید کو باہر بھیج دیا گیا۔

    صحن میں بکھرے ہوئے پتّوں کو آج کسی نے نہیں سمیٹا۔ پیڑ سے امرود توڑتے ہوئے بندروں کو بھی کسی نے نہیں بھگایا۔ گھونسلے میں بیٹھے چڑیا کے بچوں کو آج کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ ابّا سے آج پانچ روپے بھی کسی نے نہیں مانگے۔

    دروازہ کھلنے کی تیز آواز نے ماحول کے سکوت کو توڑ دیا، سلیمہ بیگم نڈھال سی کمرے میں داخل ہوئیں اورکھانے کی پلیٹ میز پر رکھ دی۔ آنکھ کے کنارے سے آنسو کی بوند صاف کرتے ہوئے انہوں نے عبد الحمید کے ہاتھ کو اپنی جانب جنبش دی تووہ چت سلیمہ بیگم کی طرف اس طرح گھومے کہ ان کا ہاتھ شیشے کے گلاس سے اس زور سے ٹکرایا کہ وہ ٹوٹ کر پاش پاش ہو گیا اور اس کی کرچیاں کبھی نہ جڑنے کے لیے کمرے کے کونے کونے میں بکھر گئیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے