Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بسرجن

شبیر احمد

بسرجن

شبیر احمد

MORE BYشبیر احمد

    وہ پارک میں بیٹھا مونگ پھلی چبا رہا تھا! انگلیوں کی انگوٹھیاں نچا رہا تھا!

    انٹریو دینے جب کبھی کلکتہ آتا تو شام کو اس پبلک پارک میں چلا آتا اور باؤنڈری وال پر بیٹھ کر ہوڑہ پل، ودّیا ساگر سیتو، آتی جاتی کشتیوں اور لہروں کو تکتا رہتا۔ کبھی لمبی لمبی سانسیں کھینچ کھینچ کر بھستریکا، کبھی چھوٹی چھوٹی سانسیں باہر نکال نکال کر کپال بھاتی اور کبھی ناک کے سوراخوں کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے باری باری دبا دباکر انلوم بلوم کرتا اور جب ان پرنایموں سے فارغ ہو جاتا توجیب سے ٹھونگا نکال کر مونگ پھلی چباتا اور رہ رہ کر انگوٹھیاں نچاتا۔

    اس روز بھی وہ یہی کر رہا تھا کہ یکایک بوڑھا نمودار ہوا، گیروے رنگ کا جبّہ اور گلے میں ردراکش کی مالائیں پہنے۔ ڈنڈے کو مڑوڑکر سانپ کی طرح بل دیتا ہوا اس کی جانب بڑھنے لگا۔ قریب آیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا، ‘’انٹریو ہو گیا؟’’

    وہ چونک پڑا۔ مڑکر دیکھا، ‘’آپ! آپ یہاں! آپ کو تو میں نے۔۔۔’’

    اندرنیل ذہن پر دباؤ ڈالنے لگا اور پھر بولا، ‘’ہاں ہاں! حسن آباد، حسن آباد اسٹیشن پر اور۔ ۔۔ کئی مرتبہ اچھا متی کے کنارے بھی۔۔۔ دیکھا ہے۔’’

    اس کے بعد اس نے گمبھیر لہجے میں پوچھا، ‘’لیکن آپ یہاں؟ اس وقت؟’’

    ‘’میں یہاں! وہاں! جب جہاں، تب وہاں! پرنتو تو نے بتایا نہیں۔ انٹریو ہو گیا؟’’ بوڑھے نے اپنا سوال دہرایا۔

    ‘’ہاں! لیکن آپ کو کیسے پتا کہ میں انٹریو دینے آیا تھا؟’’

    بوڑھے نے آنکھ میچتے ہوئے کہا، ‘’مجھے سب پتا ہے! سب کچھ! بھوت، بھوش سب!’’

    ‘’اور برتمان؟’’

    ‘’ارے مورکھ! سمے کا چکر بہت تیز گھومتا ہے!’’ وہ پیشانی پر بل ڈال کر بولا، ‘’اتنا تیز کہ اس میں ورتمان کا کوئی استھان نہیں! تیرا بھوش اجول ہے، بس ایک بادھا ہے۔’’

    ‘’بادھا! کیسی بادھا؟’’ اندرنیل کے چہرے پر مسکراہٹ سکڑنے لگی۔

    ‘’ہاں، بادھا ہے۔ ایک بادھا ہے۔’’ بوڑھے نے ڈنڈا زمین پر ٹھونک کر سر ہلاتے ہوئے کہا۔

    ‘’لیکن میں تو ہر روز اخبار میں اپنی راسی ملاتا ہوں۔ آج بھی ملائی ہے۔ مجھے تو کوئی بادھا وادھا نظر نہیں آئی۔’’

    ‘’راسی ملانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ یدی راسی کا سمبندھ بھاگ سے ہوتا تو ایک ہی دن جنم لینے والے لاکھوں لوگوں کے بھاگ ایک جیسے ہوتے۔ چھوڑ ان باتوں کو۔ میں کہتا ہوں، ایک بادھا ہے، تو بادھا ہے۔’’

    ‘’بادھا، ہونہہ!’’ اس نے پیشانی پر بل دیتے ہوئے کہا، ‘’کیسی بادھا؟’’

    بوڑھے نے کہا، ‘’اپرادھ کی بادھا۔’’

    ‘’اپرادھ کی بادھا!’’

    ‘’ہاں، اپرادھ کی بادھا! اور جب تک یہ بادھا دور نہیں ہوگی، تو روزگار نہیں کر سکتا!’’

    ‘’لیکن اپرادھ کا روزگار سے کیا سمبندھ؟’’ اندرنیل نے حیرت سے پوچھا۔

    بوڑھے نے ندی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ‘’ندی کا سمبندھ سمندر سے ہے، سمندر کا بادل سے اور بادل کا بارش سے۔ اس لیے بارش کا سمبندھ ندی اور سمندر سے ہے۔ ہر بستو کا ہر بستو سے سمبندھ ہے!’’

    اتنا کہہ کر بوڑھا مسکرایا، سانپ نماڈنڈے سے اس کی پیشانی کی طرف اشارہ کیا اور تیزگامی سے جانے لگا۔

    اندرنیل تعجب سے اسے تکتا رہا! دوچار قدم چلنے کے بعد بوڑھا رکا۔ گردن کو خم دے کر بولا، ‘’اور ہاں! سن، آج رات کو ہلسا سنبھل کر کھانا، کانٹا چبھنے کی سمبھاؤنا ہے!’’ یہ کہہ کر بوڑھا چلا گیا۔

    اس دن اندرنیل پارک میں دیر تک گم صم بیٹھا رہا۔ ایسا گم صم کہ چکر ریل کی آخری ٹرین کب چلی گئی اسے خبر ہی نہ ہوئی۔

    (دو)

    تری دیب بابو با رسوخ آدمی ہیں۔ سیاست اور باگدہ پالن ان کا خاص مشغلہ ہے۔ پنچائت سمیتی کے سبھا پتی ہیں۔ پارٹی نے یقین دلایا ہے۔ اگر ضلع پریشد پر قبضہ ہوا تو اس بار سبھادی پتی بنا دیئے جائیں گے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اگر ان کا بیٹا کاروبار سنبھال لے تو وہ آئندہ الیکشن میں اپنی پوری قوت جھونک دیں گے۔ لیکن اندرنیل عجب لڑکا ہے۔ اسے سیاست سے سروکار ہے، نہ کاروبار میں دلچسپی! اپنی قسمت خود بنانا چاہتا ہے۔ خود سے اپنے پیروں پر کھڑا ہو نا چاہتا ہے۔ نوکری کرنا چاہتا ہے۔ درجنوں انٹریو دے چکا ہے۔ اس بار بھی ایک انٹریو دے کر پارک میں بیٹھا مونگ پھلی چبا رہا تھا کہ بوڑھا پھر وارد ہوا! بولا، ‘’کہا تھا نا، جب تک بادھا دور نہیں ہوگی، تو روزگار نہیں کر سکتا! انٹریو ونٹریو سے کوئی لابھ نہیں!’’

    ‘’اپرادھ! ایک اپرادھ اور پھرسکھ ہی سکھ! آنند ہی آنند! یہ کہہ کر بوڑھا جانے لگا۔ لیکن جاتے جاتے مڑا اور بولا، ‘’سر سنبھال کے رکھنا، چوٹ لگنے کی سمبھاؤنا ہے!’’ اور پھر تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا جھاڑیوں میں گم ہو گیا!

    بوڑھے کو دوسری بار دیکھ کر اندرنیل حواس باختہ ہو گیا۔ اس دن بھی اسے تعجب ہوا تھا، جب رات کے کھانے میں اس نے ہلسا مچھلی دیکھی تھی اور کھاتے وقت کانٹا اس کے مسوڑے میں چبھ گیا تھا۔ وہ درد سے کرہا اٹھا تھا۔ ماں نے ساری کا آنچل اس کے منہ میں ڈال کر بڑی احتیاط سے کانٹا نکالا تھا۔ خون بھی نکل آیا تھا۔

    ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ٹرین کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ آخری لوکل تھی۔ وہ اسٹیشن کی طرف لپکا۔ ٹرین سرسراتی ہوئی پلیٹ فارم سے نکلتی جا رہی تھی۔ اس نے دوڑ لگائی اور کسی طرح ٹرین میں سوار ہو گیا۔ دروازے کے پاس سے ایک شخص کندھے پر دودھ کا کنستر لیے گزر رہا تھا۔ گاڑی نے خاصی رفتار پکڑ لی تھی۔ اندرنیل خود کو سنبھال نہ سکا اور کنستر والے سے جا ٹکرایا۔ دم بھی نہیں لے پایا تھا کہ سامنے بیٹھے شخص نے کہا،’’ بھائی، پیشانی سے خون بہہ رہا ہے!’’

    اندرنیل نے جھٹ سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پیشانی پر پھیری۔ دیکھا، خون کا دھبہ ہے۔ دوسرے ہی لمحہ بوڑھے کی آواز اس کے کانوں میں گونج اٹھی، ‘’سر سنبھال کر رکھنا۔ چوٹ لگنے کی سمبھاؤنا ہے!’’

    ‘’تو کیا اب اپرادھ!’’ وہ سہم گیا! ایک انجانے خوف نے اسے آ گھیرا۔ اس کے بعد اندرنیل میں تبدیلی آتی گئی۔ اب اس نے نوکری کے لیے درخواست دینی بند کر دی۔ سارا سارا دن ادھر ادھر سرگرداں پھرنے لگا۔ کھسیاتا ہوا، بدبداتا ہوا، ‘’اپرادھ! ایک اپرادھ اور پھر سکھ ہی سکھ! آنند ہی آنند!’’ اور سوچنے لگا کیسے روزگار کی راہ میں حائل وہ رکاوٹ جلد سے جلد دور ہو جائے۔

    ایک دن رات کے ایک بجے وہ چوراہے پر جا پہنچا۔ خبطی کی طرح چکر لگانے لگا۔ نائٹ پٹرولینگ دستے نے اس حال میں دیکھا تو اسے گھر جانے کو کہا۔ لیکن وہ راضی نہ ہوا۔ کہنے لگا، ‘’مجھے گرفتار کر لو! اتنی رات گئے چوراہے پر اس طرح پھرنا کیا اپرادھ نہیں؟ میں نے اپرادھ کیا ہے۔ گرفتار کر لو مجھے۔’’

    انسپکٹر نے پہچان لیا کہ سبھا پتی کا بیٹا ہے۔ اس نے التجا کی، ‘’اندرنیل بابو، جیپ میں بیٹھئے، آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں۔’’

    لیکن اندرنیل بضد تھا، کہتا جا رہا تھا، ‘’میں نے اپرادھ کیا ہے! گرفتار کر لو مجھے!’’

    اس روز پولس والے اسے بزور گاڑی میں بیٹھا کر گھر لے آئے۔ گاڑی کی آواز سن کر ماں دوڑی باہر آئی۔ تری دیب بابو بھی پیچھے پیچھے نکلے۔ انسپکٹر نے سارا ماجرا سنایا۔ ماں نے لپک کر بیٹے کو سینے سے لگا لیا۔ سسک کر بولی، ‘’کیا ہوا بیٹا؟ کیا ہوا اندو؟ کہاں چلا گیا تھا، میرا لال۔’’

    تری دیب بابو نے بیوی کو ڈانٹ پلائی، ‘’تمہار ے اسی لارڈ پیار نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔’’ اتنا کہہ کر انھوں نے دھوتی کا کونچا مٹھی میں دبایا اور پھنپھناتے ہوئے اندر چلے گئے۔

    (تین)

    اور دوسرے دن اندرنیل اچھامتی کے کنارے دیوانہ وار پھر رہا تھا۔ اس کے ذہن میں کیا آیا کہ اس نے اچانک ندی میں چھلانگ لگا دی۔ تیرتا ہوا اس پار جانے لگا۔ اچھامتی ندی کے اس پار بنگلہ دیش ہے۔ چنانچہ بی۔ ایس۔ ایف۔ کے جوان فوراً حرکت میں آ گئے۔ کشتی لے کر دوڑ پڑے۔ اسے کھینچ کر باہر نکالا۔ ایک جوان نے کہا، ‘’ارے، یہ تو سبھاپتی جی کے سپتر ہیں!’’

    اندرنیل پاگلوں کی طرح چیخ رہا تھا، ‘’ندی پار کرنا اپرادھ ہے۔ میں نے اپرادھ کیا ہے۔ مجھے گرفتار کرو۔ مجھے گرفتار کرو۔۔۔’’

    اور اس بار بی۔ ایس۔ ایف۔ والے اسے گھر چھوڑنے آئے۔ تری دیب بابو سے کہا، ‘’سبھاپتی جی، لگتا ہے ان کی مانسک حالت ٹھیک نہیں۔ آپ سے بنتی ہے۔ انھیں ندی کنارے جانے نہ دیں۔ آتنکواد کے خلاف مہم تیز ہے۔ چوکسی بڑھا دی گئی ہے۔ گولی چلا دینے کا آرڈر ہے۔’’

    بی۔ ایس۔ ایف۔ والے جا چکے تھے، لیکن تری دیب بابو اپنی جگہ کھڑے رہے۔ منہ پھاڑے! بت بنے! ماں اور بیٹے کو گھورتے رہے!

    اور ایک دن اندرنیل نہر کے اس پار چلا گیا۔ ہاں، آبادی کی دوسری جانب ایک نہر ہے اور نہر کے اس پار ایک کشادہ میدان، جہاں ہر بدھ کو ہاٹ لگا کرتا ہے۔

    اس روز بھی بدھ تھا۔ وہ ہاٹ میں سارا دن سرافگندہ پھرتا رہا۔ دکانداروں کو دھمکاتا رہا۔ خریداروں سے الجھتا رہا۔ ہر کوئی اس کے باپ کی پوزیشن کا خیال رکھ کر غصہ پی جاتا۔ اس کے پاگل پن کو نظرانداز کر دیتا اور جب وہ شام کو لوٹ رہا تھا تو اس کی نگاہ فوڈ انسپکٹر پر پڑی۔ اسی پنچائت سمیتی کے دفتر میں اس کی پوسٹنگ تھی۔ وہ بھی اسی ناؤ پر سوار تھا۔ اسے دیکھتے ہی اندرنیل بدبدایا، ‘’اپرادھ! ایک اپرادھ اور پھر سکھ ہی سکھ! آنند ہی آنند!’’ اور اس نے بے چارے انسپکٹر کے گال پر ایک طمانچہ جڑ دیا۔ ناؤ میں کھلبلی مچ گئی۔ بات تھانے دار تک پہنچ گئی۔ تھانے دار نے تری دیب بابو سے دھیمے لہجے میں کہا، ‘’سر، وہ سرکاری ملازم ہے۔ شکایت بی۔ ڈی۔ او۔ نے فارورڈ کر دی، تو آپ جانتے ہی ہیں، میں بھی سرکاری ملازم ہوں۔۔ اور سر، یہ اندرنیل بابو کو ہوا کیا ہے؟ دن بھر ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہیں؟ آئے دن کچھ نہ کچھ کر بیٹھتے ہیں۔ انھیں کسی ڈاکٹر کو۔۔۔’’

    تری دیب بابو نے تھانے دار کو ترچھی نگاہوں سے گھورا۔ تھانے دار کی زبان لڑکھڑا گئی، ‘’سر، میرا مطلب ہے۔۔۔! سر، آپ تو جانتے ہیں۔۔۔’’

    ‘’او۔ سی۔ صاحب، میں جانتا ہوں، مجھے کیا کرنا ہے۔ آپ جایئے، اپنا کام کیجئے۔’’ اور تری دیب بابو پیشانی پر بل دے کر تھوڑی دیر کچھ سوچتے رہے، پھر اوپر نیچے سر ہلاتے ہوئے بڑبڑانے لگے، ‘’ہاں، اب کچھ کرنا ہی ہوگا!’’

    دوسرے دن بیوی کے کان میں کچھ کہا اور بستر پر پھیل گئے۔

    ماں منہ بسور کر بیٹے سے بولی، ‘’اندو، تیرے بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ ڈاکٹر نے آرام کرنے کو کہا ہے۔ لیکن انھیں کون سمجھائے۔ ضد کر رہے ہیں، گھیری پر جانے کو۔ کہہ رہے ہیں، ‘’کل پرنیما ہے اور ابھی تک جھانکا (بانس کے تراشے سے بنا پنجرا نما پھندا) نہیں ڈالا گیا۔ پارٹی کا فون پر فون آ رہا ہے۔ اگر آج رات سے جھانکا نہیں ڈالا گیا تو باگدہ مچھلیاں مر جائیں گی۔ نقصان تو نقصان، مارکٹ میں بدنامی بھی بہت ہوگی۔ اس لیے اب مجھے ہی گھیری پر جانا ہوگا۔ تو بابا کے کمرے میں سو جانا۔ انھیں وقت سے دوائیاں دیتے رہنا، دیکھ، یہ گولی اور یہ سیرپ۔۔۔’’

    ماں کی بات پوری بھی نہیں ہو پائی تھی کہ اندرنیل نے چونک کر کہا، ‘’تو گھیری پر جائےگی! وہ بھی رات کو!’’

    ‘’تو بتا کیا کروں! کون جائےگا؟ بول!’’

    اندرنیل تھوڑی دیر خاموش کھڑا نیم وا آنکھوں سے ماں کا چہرہ تکتا رہا۔ پھر دھیرے سے بولا، ‘’ٹھیک ہے! میں چلا جاؤں گا!’’

    (چار)

    اس روز اندرنیل رات کو گھیری پر گیا۔ کمپنی کی دو ائرکنڈیشن وین پہلے ہی پہنچ چکی تھیں۔ ہر جھانکے میں دس کلو، بارہ کلو باگدائیں پکڑی اور وین پر لادی جا رہی تھیں۔ صبح صادق تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ساڑھے چھ ٹن سے زیادہ باگدائیں پکڑی گئیں۔ کمپنی والوں نے بائیس لاکھ روپے نقد اندرنیل کے حوالے کئے۔ اندرنیل بانس کے پل سے ہوتا ہوا مچان پر چڑھ گیا۔ روپے کی تھیلی کھولی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اتنے ڈھیر سارے روپے ایک ساتھ اس نے کبھی دیکھے نہ تھے۔ پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار کے کرارے کرارے نوٹوں کے پلندے! وہ انھیں دیر تک گنتا رہا! کبھی جلدی جلدی اور کبھی ٹھہر ٹھہر کر!

    گھر لوٹ کر جب اس نے روپے کی تھیلی ماں باپ کے سامنے رکھی، تو انھوں نے بیٹے میں خوش آئند تبدیلی محسوس کی۔ ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی! تیر نشانے پر لگ چکا تھا۔

    دوسرے دن بھی اندرنیل گھیری پر پہنچا۔ لاکھوں کی باگدائیں پکڑیں اور فروخت کی گئیں۔ اندرنیل نے اسی طرح مچان پر بیٹھ کر دیر تک روپے گنے اور تھیلی چھاتی سے چمٹائے گھر آیا۔

    یہ سلسلہ پانچ دنوں تک چلتا رہا۔ چھٹے دن اندرنیل نے تری دیب بابو سے کہا، ‘’بابو جی، کیوں نا، ہم کھال (نہر) کے اس پار والے کھیت کو بھی گھیری میں بدل کر باگدہ پالن کریں؟’’

    کاروبار میں بیٹے کی دل چسپی دیکھ کر تری دیب بابو پھولے نہ سمائے۔ کہنے لگے، ‘’واہ! تو نے تو میرے منہ کی بات چھین لی۔ کئی دنوں سے میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ ایک کام کر، میری وہ اٹیچی لا۔’’

    اور تری دیب بابو اٹیچی سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکال کر بیٹے کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے، ‘’دیکھ یہ ان کسانوں کی لسٹ ہے، جن کی زمینیں ہمارے کھیت کے آس پاس ہیں۔ انھیں سرکار نے زمینیں کاشتکاری کے لیے دی ہیں۔ تو ایک کام کر ان لوگوں کی ایک کواپرٹیو بنا۔ میں تجھے اس کا چیئرمین بنا دوں گا۔’’

    اور دیکھتے دیکھتے کواپرٹیو تیار ہو گئی۔ تقریباً ڈیڑھ سو بیگھا زمین یکجا کی گئی۔ کمر تک گہری مٹی کھود کر اینٹ بھٹوں کو بیچی گئی۔ جو پیسے حاصل ہوئے ان سے زمین کے ایک کونے میں کنکریٹ کے تین پروسیسنگ ٹینک بنائے گئے اور نہر سے پانی کھینچنے کے لیے ڈیزل پمپ سیٹ خریدے گئے۔ جن کسانوں کی زمینیں لی گئی تھیں ان سبھوں کو سستی مزدوری پر باگدہ پالن کے کام میں جوت دیا گیا۔ ٹینکوں میں پن (باگدہ کے انڈے) کی دیکھ بھال ہو، یا ہر دس دن بعد ایک سے دوسرے ٹینک میں ان کی تبدیلی۔ فڈ اور دوائیں دینے کی ذمہ داری ہو یا انھیں گھیری میں منتقل کر کے رات رات بھر بانس کے مچان پر بیٹھ کر پہرہ دینے کا کام۔ ہر کام کے عوض روزانہ ستّر، اسّی روپے محنتانہ طے تھا۔ کسان بھی خوش تھے۔ زمین تو انھیں مفت میں ملی تھی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پردھان، پارٹ بو کر آخر انھیں ملتا بھی کیا تھا اور پھر تری دیب منڈل جیسے نیتاؤں سے وابستگی تو اپنے آپ میں ان کے لیے ایک قابل رشک بات تھی۔ غرض یہ کہ چند ہی مہینوں میں نئی گھیری باگدہ پالن کے لیے تیار ہوگئی اور بھلا ہوتی بھی کیوں نہیں، اچھامتی ندی سے نکلنے والی اس نہر کا پانی ویسے تو میٹھا ہے، لیکن جب ندی میں جوار آ جاتا ہے اور سندر بن کے راستے خلیج بنگال کا نمکین پانی اس میں بھر جاتا ہے تو یہ نہر میٹھے اور نمکین پانی کا آمیزہ بن جاتی ہے۔ اس آمیزہ میں باگدائیں خوب پھلتی پھولتی ہیں۔ عام دنوں میں جھینگا مچھلی کی یہ نسل کیچڑ مٹی میں دبی بیٹھی رہتی ہے، مگر جب چاند کی روشنی فضا میں پھیلتی ہے، تو یہ کیچڑ سے نکل کر سطح آب پر آ جاتی ہے۔ اندرنیل کی اس نئی گھیری میں بھی اب باگدائیں سطح آب پر آنے لگی تھیں۔ چنانچہ جال پھینکے گئے۔ ٹنوں باگدائیں پکڑی گئیں۔ چار رات تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔

    آج پانچویں رات تھی۔ رات بھر جال ڈالنے، باگدہ پکڑنے، وزن کرنے اور وین پر لادنے کا کام چلتا رہا۔

    (پانچ)

    پوپھٹ چکی تھی۔ فضا میں ہلکی ہلکی روشنی پھیل گئی تھی۔ پرندوں کی چہچہاہٹ سے پورا ماحول گونج اٹھا تھا۔ کمپنی والے روپوں سے بھری تھیلی اندرنیل کو دے کر چلے گئے تھے۔ مزدوروں کی ٹولی بھی جا چکی تھی۔ پہرہ دار مچان پر بیٹھے اونگھنے لگے تھے۔ گھیری کی تہ سے اٹھنے والی بدبو شمال مشرق سے آنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں میں تحلیل ہو رہی تھی۔ رات بھر کے کام سے پگڈنڈیاں کیچڑ آلود ہو چکی تھیں۔ اندرنیل چھاتی سے روپوں کی تھیلی چمٹائے پگڈنڈیوں پر پیر جما جماکر سڑک کی جانب بڑھتا جا رہا تھا کہ کسی نے اچانک اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ چونک پڑا! مڑ کر دیکھا۔ سامنے بوڑھا کھڑا تھا، اپنے مخصوص بھیس میں۔ اندرنیل نے بوڑھے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا، ‘’آپ، یہاں! اس وقت!’’

    ‘’میں یہاں! وہاں! جب جہاں، تب وہاں!’’ بوڑھے نے پتلیاں نچاتے ہوئے کہا، ‘’اپرادھ! ایک اپرادھ او پھر سکھ ہی سکھ! آنند ہی آنند!’’

    ‘’لیکن آپ کی بات تو جھوٹ نکلی۔ دیکھئے، بنا کوئی اپرادھ کیے ہی مجھے کتنا اچھا روزگار مل گیا ہے، لاکھوں روپے کمانے کا!’’ اندرنیل نے روپے کی تھیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    بوڑھے نے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ سجائی اور گردن کو جنبش دیتے ہوئے کہا، ‘’اچھا! سچ مچ، تونے کوئی اپرادھ نہیں کیا؟’’

    اندرنیل نے چھاتی تان کر کہا، ‘’نہیں میں نے کوئی اپرادھ نہیں کیا۔’’

    بوڑھا لمحہ بھر خاموش کھڑا رہا اور پھر ڈنڈا نچا کر بولا، ‘’اپجاؤ زمین پر باگدہ پالن اپرادھ نہیں؟’’

    ‘’باگدہ پالن اپرادھ!’’ اندرنیل بدبدایا۔

    بوڑھے نے آنکھیں موند لیں اور دھیمے لہجے میں کہنے لگا، ‘’ہاں، اپرادھ ہے، گھور اپرادھ۔ اس کے علاوہ بھی تونے کئی اپرادھ۔۔۔!’’

    اس نے اپنی بات پوری بھی نہ کی تھی کہ اندرنیل نے گھٹنوں کے درمیان روپے کی تھیلی دبائی، جسم کا اوپری حصہ موڑ کر دونوں ہاتھوں سے بوڑھے کی گردن دبوچ لی۔ پوری طاقت سے کھینچا اور گھیری میں پھینک دیا۔

    ‘’چھپاک!’’ سے ایک آواز ابھری اور دوسرے ہی لمحہ فضا میں خاموشی چھا گئی۔

    پانی کی سطح پر بننے والا دائرہ رفتہ رفتہ آنکھوں سے اوجھل ہوتا چلا گیا!

    (ذہن جدید، نئی دہلی، مارچ تا اگست ٢٠٠٨ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے