Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بوڑھی گنگا

طاہرہ اقبال

بوڑھی گنگا

طاہرہ اقبال

MORE BYطاہرہ اقبال

    اسٹیمر کے دائیں بائیں چھٹتے جھاگ دار بلبلے دولی کے خیالات کی طرح بوڑھی گنگا کے سینے میں ڈوبتے اُبھرتے تھے۔ دولی کے پراگندہ دِل و دماغ کی طرح چنگھاڑتے کراہتے احتجاج کرتے اور پھر مقدر کی طرح بے بس ہو جاتے۔ پرانا روغن اترا اسٹیمرکنارے چھوڑ رہا تھا۔ جس کے دروازوں کے قبضے، کھڑکیوں کے شیشے، فرش کے پھٹے اور کیبنوں کی دیواریں دولی کے وجود کی طرح چٹختی حال دُھائی مچاتی گنگا کی کثافتوں میں غرق ہو جاتی تھیں۔ کیلوں کے ٹہنے، پتے، ناریل کے خول، باسی گلی سڑی سبزیاں اک پوری تہہ تھی جو فرش آب پر بچھی تھی اور کشتیوں اور اسٹیمروں کے سنگ تیر رہی تھی۔ جیسے پانی کے اوپر اک شہر آباد ہو گیا ہو۔ اتنا ہی آلودہ جتنا کہ خود ڈھاکہ شہر اتنا ہی گنجان جتنا بنگلہ دیش، جیسے یہ اسٹیمر نہ ہو ڈاؤن ڈھاکہ کی کھولیاں ہوں جن میں آدھا بنگال بند ہو گیا ہو۔ بوڑھی گنگا کے اس چھور پر کئی خالی اسٹیمر لنگر ڈالے کھڑے تھے جن کے کیبن صرف سے مل مل کے دھوئے جا رہے تھے۔ زنجیروں سے بندھی بالٹیاں بھر بھر ملاح عشرے پر کھینچتے سیاہ کیچڑ پانی سے نہاتے ایک دوسرے پر الٹاتے بنگلہ گیت گاتے ننگے بھوکے موج مستی کرتے۔ دولی نے سوچا پتہ نہیں یہ ملاح اتنے خوش خوش کیوں رہتے ہیں۔ شاید پانی کی سنگت میں کوئی خوشی والا تعویذ گھلا ہے یا شاید مہینوں بعد ہم جنسوں کی صحبت دیوانہ بنا دیتی ہے۔

    مخالف سمت سے ٹکراتی ہوا کا تھپیڑا ناریل کی گھاس جیسی جھلسی ہوئی خشک جلد پر اس نے سہارا۔

    ’’یہ مرد جات تو سدا کا لاپروا بےایمان۔۔۔ مہیلا کا شریر جیسے چاہے نوچے ہڈیاں بچ رہیں تو کسی نوکا میں کسی جھونپڑے میں چھوڑ خود ناریل کے پیڑوں کی گودی میں بھرے ڈاب لیے بندر سا چڑھ جائے۔ سارے دکھ تو ناری جات کے لیے، بوڑھی گنگا جیسے پرانے اور تعفن چھوڑتے ہوئے۔‘‘

    دولی کا کھرنڈ بھرا ماضی پیپ سا رِسا۔

    آلودہ پانیوں پر تیرتا یہ گنجان آباد شہر ایسی ہی دکھن بھری عورتوں کی ٹیسوں سے کراہتا تھا۔ بانس کی تیلیوں جیسی پسلیوں اور بھات سے خالی تھالی جیسے چپکے ہوئے پیٹ والی زیادہ تر ان عورتوں کو دولی جانتی تھی۔ یہ سب وہی تھیں جو ڈھاکہ کے پاش علاقوں کے جدید فلیٹوں میں دو تین ہزار ٹکا کے عوض بوا کا کام کرتی تھیں۔

    شام ڈھلے جب سورج کی ٹکیا بوڑھی گنگا کے کثیف پانیوں میں منہ چھپا رہی ہوتی ہے تو گلشن ون گلشن ٹو کی بالکونیوں میں بوائیں ان بچوں کے یونیفارم استری کر رہی ہوتی ہیں، جنھیں کل صبح انگریزی طرز کے مہنگے سکولوں میں پڑھنے جانا ہے۔ ان پاش علاقوں میں ناریل کے اونچے لمبے پیڑوں کی گودیوں میں بھرے کچے ڈاب اور کیلوں کے بڑے بڑے پتوں کی بغلوں میں رنگ بدلتے چتری والے گچھے دیکھ کر انھیں اپنے بچوں کا دھیان بار بار ستاتا ہے جو دور کسی برساتی جھیل کے پانیوں میں گھری بانسوں کی جھونپڑی میں نانی کے گرد جمع بھات پکنے کا انتظار کرتے ہیں جن کے خالی پیٹوں کے مقابلے میں بھات کی یہ مقدار بہت کم ہو گی، جس سے ان کا آدھا پیٹ بھرے گا آدھا خالی رہ جائےگا۔ جب کہ ان کی ماں ان سے بہت دُور کسی بڑے گھر کے صحت مند بچوں کے لیے اس وقت بریانی ماچھ پکا رہی ہوتی ہے اور باپ نجانے ڈھاکہ چٹاگانگ راج شاہی کس بڑے شہر کی کس سڑک پر سائیکل رکشہ چلا رہا ہوگا اور روز کا جو سو ٹکا کمائےگا تو پچاس دوسرے شوہر کے بچوں کی ماں اپنی تیسری بیوی کی ہتھیلی پر رکھے گا تو پچاس ٹکہ دارو میں اڑا دےگا۔

    اسٹیمر لکڑی کے جھولتے ہوئے پل کی بغل سے گزرا جس کی ریلنگ سے کتنے نشئی مدہوش لٹک رہے تھے۔ اکڑے ہوئے جسم ٹھہری ہوئی پتلیاں، ساکن جلد نیلے کچر ہونٹ جیسے موت کا عمل گزرے کئی گھنٹے بیت چکے ہوں۔ دولی نے ہڈیوں کی مٹھ بنے ریلنگ سے آدھے لٹکتے ہوئے مکھیوں بھرے چہرے والے نشئی کو دیکھا تو دُکھ سے سوچا شاید اُس کے دونوں بڑے بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ دولی کو جب کبھی کچھ یاد کرنے کی فرصت ملتی تو اسے اپنے تین شوہروں کی یادگار چار بچوں میں اپنے پہلے شوہر کی شبیہہ رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ پہلا شخص تھا جس نے بانسوں پر کھڑے پھونس کی چھت والے جھونپڑے میں پہلی بار اس کی گہری گلابی رنگ ساڑھی کا پلو اس کے سیاہ چکنے بالوں سے سرکایا، تب بلاؤز میں سے جھانکتے پیٹ کی پلیٹ میں جیسے بنگالی چیرویں آنکھ دھری تھی چکنے گالوں سے ناریل کا تیل ٹپکتا تھا اور اس کے بدن کی رنگت اور ملائمت پر راہو مچھلی کا گمان ہوتا تھا اور اُس کے لبوں کی ساخت میں عنابی شلپا کھلے تھے۔ بنگالی آنکھوں کے جادو میں امراکارس بھرا تھا۔ ان تمام ملائمیتوں، رنگتوں، چکناہٹوں اور رسوں کو پہلی بار چکھنے والا یہ متوا تھا جس کا وجود تالکا (Storeapple) جیسا سخت لیکن اندر سے ایسا ہی نرم اور میٹھا جیسا تالکا کا اندرونی گودا، آم جیسا نرم پیلا اور مزے دار جس کا شربت بنا کر پینا ان کی بڑی عیاشی تھی لیکن متوا کے بدن کا یہ شربت نشے کی کرواہٹ میں یوں زہر ہوا کہ تلچھٹ کی طرح وجود کے پیندے میں بیٹھتا چلا گیا کہ دولی کو لگتا کہ اگر کبھی اس کی کوئی نس کہیں سے پھٹ گئی تو خون کی بجائے پاؤڈر باہر چھلکنے لگےگا۔

    اک رات وہ اسے جھونپڑے میں مدہوش پڑا چھوڑ کر ڈھاکہ جانے والے اسٹیمر میں سوار ہوئی بلبلے اڑاتے دھواں مارتے غلیظ کیبنوں والے اِسی اسٹیمر میں اسے اپنا دوسرا شوہر ہمیش ملا جس نے اس کے سنگ اگنی کے پھیرے لیے تھے اور ایک لڑکی کی سوترمالا پہنا کر اک رات کھولی میں سوتے ہوئے اُسے یوں چھوڑ گیا جیسے وہ کبھی جھونپڑے میں متوا کو سوتا چھوڑ آئی تھی۔ اسے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کھولی کا چھ ماہ کا کرایہ بھی اب اسے اپنے بدن کے رس میں سے چکانا ہے، کرایہ تو رابرٹ نے یکمشت ادا کر دیا لیکن اُسے چرچ لے کر کبھی نہ گیا۔ البتہ چھ مہینے کے کرائے کے عوض اسے اک لڑکا دیا۔ دو سال بعد دولی کو بڑے شہروں کی ہوشیاری سمجھ آنے لگی تواحساس ہوا کہ روز روز آنے والے یہ مہمان جو کچھ دے جاتے ہیں وہ اس کھولی کے کرائے اور اُس کے حصے کے بھات سے کہیں زیادہ ہے تو بس اس نے اس درمیانی واسطے سے نجات کا سوچا اور بوڑھی گنگا کے برساتی دریا کو پرانے اسٹیمر کے غلیظ ترین غسل خانوں والے تھرڈ کلاس کیبن میں چاروں بچوں کو بھرکر دھان کے کھیتوں میں گھرے اپنے گاؤں میں واپس لوٹی لمبے بانسوں پر ٹنگی جھونپڑی میں ماں کے پاس انھیں چھوڑا جہاں کیلے کے باغات بانسوں کے جنگل، ناریل کے پیڑ جھیلوں میں تیرتے تھے لیکن یہ دھان، کیلے اور ناریل ان کھیت مزدوروں سے ایسے ہی اچک لیے جاتے ہیں جیسے باڑھ ان کے جھونپڑے پل بھر میں کہیں بہا لے جاتی ہے۔ چند جھونپڑوں پر مشتمل اس کے گاؤں میں داخلے والی جس جھیل پر دو بانس باندھ کر پل بنایا گیا تھا یہی جھیل جب بارشوں میں بپھرتی تھی تو سارے کھیت سارے باغ، جنھیں سیراب کرتی اُنھیں خود ہی نگل جاتی ہے اور جب باڑھ اُترتی تو بانسوں پر ٹنگے گاؤں بھر کے جھونپڑے جھیل میں بچھے ہوتے، جہاں کبھی کوئی نو کا زندہ یا مردہ لاشوں کو نکالنے نہ پہنچ پاتی۔ کئی بار تو الائچی کے پیڑوں کی شاخوں سے لپٹے ڈھانچے وہیں لٹکے رہتے اور بھوکے گدھ کوے اپنا پیٹ بھرتے۔

    اب کی بار باڑھ گزر چکی تھی۔ جھیل کے گدلے پانیوں میں گلابی شلپا لمبی ٹہنیوں کی گردن پر کھلے تھے۔ چوڑے پات جھیل کے پانیوں کو ڈھکے تھے جن کا کاہی زدہ سکوت اب تک ریسیکیو کی کسی نوکا نے نہ چھڑا تھا اُس کی ماں کی آنکھوں میں بنا آنسوؤں کے ماتم تھا۔ ان کا نہیں جنھیں باڑھ اپنے ہمراہ لے گئی ان کا جن کے پیٹ پسلیوں سے نیچے اتر کر ریڑھ کی ہڈی میں دھنس گئے تھے۔ بنا بلاؤز کے چار گز کی سوتی دھوتی کا پلو کمر کو ڈھکتا تو سینہ ننگا ہو جاتا۔ سینہ ڈھکتا تو کمر کی ٹیڑھی میڑھی ہڈیاں کھل جاتیں چڑ مڑ جھڑیوں کا گچھا شاید اب ستر پہننے کی ضرورت سے ہی عاری تھا۔ وہ پانی سے بھرے کھیتوں جیسی آنکھیں جن کی ساری فصلیں باڑھ نگل گئی تھی۔ پلو میں نچوڑتی گلے ہوئے ناریل کے بالوں جیسی جٹائیں کھجاتی، پسلیوں میں دھنسا پیٹ منہدم سینہ اور کمر کا بوسیدہ چمڑا کھلا رہ جاتا جیسے بھوکے گدھ کوّوں کے لیے دعوت عام ہو۔

    اس نے ماں کو وچن دیا وہ اس کے لیے بلاؤز والی ساڑھی لائےگی۔ وہ اپنے ان چار بچوں کے لیے جو اس کے پاس چھوڑے جا رہی ہے۔ اتنا بھات کما کر بھیجے گی کہ ان کا پیٹ بھر جایا کرےگا لیکن تھالی میں ابھی بھات بچا رہےگا ان کے گالوں پر شلپا کھلیں گے اور بالوں سے ناریل کا تیل چوائےگا۔

    دولی نے مٹھی بھر ابلے ہوئے چاولوں سے پیندا ڈھکی سلولائڈ کی تھالی کی سمت ہاتھ بڑھایا ہی نہیں ماں بھی بھوکی ہی رہ گئی۔ چاروں بچے سنے ہوئے پنجے چاٹتے رہے۔ ان انگوری سنہری کھیتوں کی بھوک سے تیورا کر وہ واپس پلٹی اگلے روز وہ پھر ڈھاکہ میں تھی۔ ڈھاکہ جہاں سٹیچنگ یونٹ بھرے ہیں،اور روئی کے برادے آلودگی بن کر پورے شہر میں اُڑتے پھرتے ہیں جہاں کی جدید تعمیرات کے لیے مزدوروں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ جہاں مغربی طرز کے بنگلے اور فلیٹ ہواؤں کو چھو رہے ہیں، جن کی چھتوں پر پھول پھلواری کھل رہی ہیں جن میں بڑے بڑے پنجروں میں پالتو شیر، ریچھ اور کتے بند ہیں،جن کے گیٹ کھولنے کو با وردی گارڈ تعینات ہیں، جنھیں لمحہ بھر کو ٹک کے بیٹھنا نصیب نہیں کبھی لیموزین، فراری، کبھی مرسڈیز جتنا بڑا گیٹ کھولنا ہوتا ہے اتنا ہی بڑا سیلوٹ بھی مارنا ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد بنگال نے بہت ترقی کی ہے۔ بڑے محلات کی تعمیر میں بڑی گاڑیوں کی درآمد میں لیکن ان کے سامنے بچھی سڑکیں وہی ٹوٹی پھوٹی، کھڈوں بھری، تنگ موڑ کاٹتی کھولیوں اور ڈھابوں میں گھستی ہوئیں، جہاں گھنٹوں ٹریفک جیم رہتا ہے جو مچھروں اور فقیروں کی تھوک منڈی معلوم ہوتا ہے۔ دھان منڈی اور ڈاؤن ڈھاکہ کی چار چار ہاتھ کی گنجان گلیوں میں ٹھُنسے ہوئے کھوکھے، جیسے شہد کے چھتے کے بے شمار سوراخ پتہ نہیں کتنی مکھیاں اندر بھری ہوں، ہزاروں انسانوں کی کترنیں بکھری ہوئی کہیں مانگنے کو بڑھے ہوئے ہاتھ،معذور ٹانگیں کہیں بسورتے چہرے، کہیں محض بالوں کی الجھی چوٹیاں، سائیکل رکشہ ،ہتھ ریڑھیاں، جھومتے جھامتے نشئی۔ سنارگاؤں میں کھڈیوں پر کپڑا بنتی ہوئی ڈھانچہ عورتیں، اردگرد پھیلے پانیوں میں اترتے دھان کے کھیت، ناریل، الائچی کے پیڑ، جن پر بھوک بھوت کی طرح سوار ہے اور ایک یہ گلشن ون گلشن ٹو کے محلات ایک ہی شہر میں کتنی دنیائیں آباد ہیں۔ نیچے اور اوپر بچھی اس اسٹیمر کی منزلوں کی طرح دولی کو لگتا اوپر والوں کا سارابوجھ ساری غلاظتیں ان نیچے والوں پر لدی ہیں۔

    دولی نے انھی محلات میں پناہ لینا مناسب سمجھا۔ وہ کہیں بھی باہر کھولی آباد کرتی تو خرچ وہ ہوتی کھاتا کوئی اوپر والا، عورت کی کمائی کے دعویٰ دار کتنے پیدا ہو جاتے ہیں۔ نکھٹو شوہر، کانسٹیبل، ٹھیکیدار، کرایہ دار، اگرچہ ابھی دولی کے گالوں، بالوں اور آنکھوں سے ناریل کی چکنی آب چھٹی نہ تھی لیکن اس نے ان صحت مند سیٹھ بچوں کے لیے ماچھ بھات پکانے اور تالکا کا شربت بنانے کو ترجیح دی، جو اس ملک کی مخلوق معلوم ہی نہ ہوتے تھے۔اور یہ مچھروں کی ہم شکل مخلوق بھی یہی کی باسی تھی۔ چار خانہ بوسیدہ دھوتیوں پر ذرا ذرا ٹی شرٹیں پہنے شاید کپڑے کی کمی نے جسامتوں کی کوتاہی کا ناپ لیا تھا۔ اسی لیے لمبا ڈک بھرنا تیز چلنا، دوبھر لگتا، بھات کے پھکوں کی چپچپاہٹ موسموں کی سیلن، پانیوں کی ٹھہری ہوئی امس شاید حرکات و سکنات کی کاہلی بن گئی تھی۔ جھیلوں، دریاؤں میں بھرا پانی آسمانوں سے برستا پانی ندی نالوں میں اترتا پانی اور بوڑھی گنگا کے پر آلائش سینے میں زہر بنتا اور ماچھ کی فصل قتل کرتا ہوا پانی، ارے بنگال میں تو پانی بھی عذاب کی شکل ہے۔ خارج بھی اور بھیتر بھی فساد برپا کر دیتا ہے۔

    انھی نم موسموں کی کسمساہٹ اور بدن کی سیلن کی سستی بعض اوقات دولی کو بھی پچھاڑ دیتی وہ ہفتے میں ایک دو بار ڈیٹ پر چلی ہی جاتی۔ میکسی کی جیب میں جو اضافی روپے چھپا کر لاتی وہ مختلف شوہروں کے چاروں بچوں کے لیے لنڈا بازار سے کپڑے خریدنے میں صرف ہوتے۔ دولی کے لیے ہر شوہر سے نفرت اور دوری کی اپنی اپنی حدیں تھیں لیکن یہ چاروں بچے اپنے اپنے باپوں کی شبیہوں کے باوجود اُسے یکساں ہی پیارے تھے۔ ان کے لیے کپڑے، جوتے خریدتے ہوئے دولی کو کبھی احساس نہ ہوا کہ چاروں کس کس ہتیہ چار کی پیداوار ہیں اور جن کے نطفے ہیں وہ نجانے کتنے مزید کس کس کی کوکھ میں بھر چکے ہیں۔ بھلا کوکھ کو محافظت کا دُکھ کیوں عطا ہو گیا۔ کینگرو کی تھیلی جیسی یہ مہیلا جات سب سمیٹ لیتی ہے کسی کو بھی زشت ترش کہہ کر پھینکتی کیوں نہیں۔ حالانکہ انتقام لینے کو ہی تو وہ ظالم اپنی اولاد گروی رکھ جاتے ہیں لیکن یہ ناری جس نام پر تھوکتی ہے اسی کا تھوکا ہوا چاٹ چاٹ کر پالتی ہے۔

    آج بھی وہ ایک بڑا بیگ بھر کر ہمراہ لا رہی تھی۔ اسے علم تھا کہ ان تین چار مہینوں میں اس کے چاروں بچے کتنے پھل پھول چکے ہوں گے۔ جب تھالی میں بھات ختم ہونے کے بعد چپچپاتی ہوئی انگلیاں چاٹتے چاٹتے بوسیدہ چٹائی پر سو جائیں اور گٹھڑی بنے بدن رات بھر پھیلتے نہیں سکڑتے ہوں اس خوف سے کہ اس مٹھی بھر جھونپڑے میں اگر ٹانگ کی سلاخ دوسرے کی پسلی کے چھاج سے ٹکرا گئی تو نجانے کتنی تیلیاں چٹخ جائیں گی۔ جھیلوں، جوہڑوں، تالابوں کی گدلی سطح پر پھسر کر سوتے مچھر اِن جھونپڑوں میں اگتی بھوک میں سے بھی اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔ سوکھی ٹانگیں، موٹے سر اور باہر کو الٹے ہوئے پیٹ، مچھروں کی ہم شکل یہ مخلوق اپنا پیٹ کہاں سے بھریں کے دھان تو باڑھ میں بہہ جاتے ہیں اور باپ نشے میں نجانے کن اجنبی سڑکوں کے ہجوم میں گم ہو جاتے ہیں۔ اسٹیمر اب رفتار پکڑ چکا تھا۔ بیچ دریا پانی بتدریج شفاف ہو رہے تھے جھاگ برف سا گاڑھا اور سفید تھا۔ جس کی اچھال کے پیچھے نواب سلیم اللہ خان کے محل کی بلند محرابیں دھندلا رہی تھیں، جس کے سبزہ زاروں پر گھومتے ہوئے سیاح بنگلہ دیش کی آزادی کی داستان اس اسپیکر سے سن رہے تھے جو مائیک ہاتھ میں پکڑے ایک رٹی رٹائی تقریر بار بار دُہرا رہا تھا، جس کے سامنے لگے ٹینٹ میں بچھی ساری کرسیاں خالی تھیں۔ بوڑھی گنگا پر تنے طویل پل کے نیچے مدہوش نشئی کچھ بھی سننے سے قاصر تھے اور موٹے موٹے ہندو سیٹھ ناریل اور کیلوں کے ڈھیروں پر بیٹھے بانس کی تیلیوں جیسی پسلیوں والے اورچارخانہ لنگوٹوں والے کالے بھجنگ بنگالیوں کی پشت پر بوریاں لدوا رہے تھے۔ مقرر کہہ رہا تھا۔ آج کے دن بنگال آزاد ہے۔ بنگالیوں نے یہ آزادی بہت قربانیوں کے بعد حاصل کی ہے۔ کتنے برسوں ہمارا لہو پاکستانیوں نے چوسا ہے۔ ہمارے بھائیوں کا خون بہایا ہے۔ ہمارا ہتیہ چار کیا ہے لیکن اب ہم آزاد ہیں اور ترقی کر رہے ہیں۔۔۔ دولی نے سوچا: یہ کیا کم ترقی کی ہے کہ آزادی کے بعد یہاں ابارشن لیگل ہے۔ یہ اعزاز تو یورپ کو بھی حاصل نہیں ہے۔ کنڈوم کی مشینیں مفت لگی ہیں جتنے چاہو بیگ میں بھر لو اگر پھر بھی پھنس جاؤ تو این جی اوز پیریڈ ریگولر کرنے کو جگہ جگہ کیمپ لگائے بیٹھی ہیں۔

    ملک کی آزادی کے بعد عورت کو بھی آزادی ملی ہے کہ وہ مرد کی غلامی سے نجات پا گئی لیکن یہ کیا کہ پیٹ کی غلامی میں جکڑی گئی۔ بے باپ کے بچوں کی زنجیروں میں بندھ گئی، جن کے پیٹ کی آگ بچوں کی جدائی کی سلگن نے اور بڑھکا دی ہے جسے مہیلا نجاۃ این جی اوز بھی سرد نہیں کر پاتیں۔ یہ مہیلا تو جیسے دِل کے ریشے چھیل چھیل پٹ سن کی رسن سی گوندھ دی ہو اور پھر اسے گنگا کے آلودہ پانیوں میں پھینک دیا گیا ہو گلنے، سڑنے، ٹوٹنے اور راکھ ہو جانے کے لیے۔ نجانے یہ کوکھ کیوں سمیٹ لیتی ہے۔ اپنے اندر ہر زیادتی، ناپسندیدگی، زبردستی، مجبوری کو تخلیق بنا ڈالتی ہے۔ اسے پسند، ضرورت یا خواہش کا اختیار کیوں نہیں ہے۔ یہ فطرت بھی عورت کے ساتھ زیادتی کر جاتی ہے۔ وہ ڈھاکہ کی سڑکوں پر چار خانہ دھوتیوں میں ستر لپیٹے سائیکل رکشہ کھینچتے سوکھے سڑے بنگالیوں کو دیکھتی تو سوچتی پتہ نہیں کہاں کہاں چھوڑ آئے ہوں گے اپنی اپنی غلاظت کس کس کوکھ کو پابند کر کے خود آزاد اور لاپروا ظلمی کوکھ والی نہ نگل پائے نہ اُگل کہ اپنا ہی ماس لہو پھینکنے خود کی ہی کانٹ چھانٹ کرنے کی آزادی تو ملی لیکن اس دل کی تیلیاں وجود کے پٹ سن کو سلگاتی کیوں رہتی ہیں۔۔۔

    اسٹیمر یک دم ہچکولے کھانے لگا۔شاید کیلوں یا پٹ سن کی گلی سڑی گانٹھیں تہ سے ابھر کر پہیوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ اسٹیمر کے نچلے حصے میں ناریل بھرے تھے۔ دوسری منزل میں انسان ٹھنسے تھے اوپر والی منزل میں بنے چھوٹے چھوٹے کیبنوں کو تالے لگے تھے۔ پتہ نہیں کس میں کیا بھرا تھا یا پھر بھرنے کو ابھی خالی تھے۔ اُسے خود سے ان کی مماثلت لگی۔ منہ بند پھوڑے جیسے نجانے کتنا مواد بھرا ہو اندر بظاہر خالی خالی دماغ جیسے۔ بنا بازوؤں کے ذرا سی صدری پہنے گھٹنوں سے ذرا نیچے چار خانہ دھوتی باندھے ملاح کشتیاں اور کینو کھے رہے تھے سطح دریا اسٹیمروں اور بوٹس سے چھٹتے خالی پیٹ بلبلوں سے اٹی تھی، جن میں مچھلیاں اوندھے منہ غوطے لگاتیں۔ ملاح گیت گاتے اور مسافر عشرے پر رقص کرتے تھے۔ اسٹیمروں کی نالیوں سے غلیظ سیاہ پانیوں کی جھاگ چھٹتی، جیسے خوفناک تاریک جبڑوں میں سارے اسٹیمر بوٹس کینو کشتیاں اور نوکائیں نگل جائیں گے۔ دولی کو لگا اس کی سوچیں بھی ویسی ہی پراگندہ ہو کر جھاگ اڑانے لگی ہیں۔ اس نے بغل میں پڑی اپنی پوٹلی کو ٹٹولا، سیلے بسکٹ، ہواڑ چھوڑتے رس، کچے امرا اور سیاہ تالکے، جن کی ہمک سیاہ کیچڑ پانیوں میں رچتی فلائی اوور کے نیچے لمبی سرنگ میں بھرے نشئیوؤں کے نیم مردہ جسموں کو چار خانہ دھوتیوں اور ٹی شرٹوں والے نحیف نزار مزور پھلانگ رہے تھے۔ کیلوں اور ڈاب کی گانٹھیں خشک ناریل کے ڈھیروں سے ٹیک لگائے بیٹھے موٹے موٹے سیٹھ انھی پھولے ہوئے پیٹوں میں اسے اپنا تیسرا شوہر رابرٹ نظر پڑا۔ اس نے حقارت سے تھوکا جو بلبلے بھری پانی کی کثیف تہہ میں کہیں جذب ہو گیا اور رابرٹ کے ہم شکل بیٹے کی یاد میں وہ کراہی وہ چاروں بچوں میں سے زیادہ تنومند گردن اور کھلے ہاتھ پیر والا تھا۔ رابرٹ کی نفرت اس تیسرے بچے کی شباہت میں دولی پر کھلکھلائی تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دی۔منظر بدلتے رہے ٹیرسنگ کھیتوں کو جھیلوں سے پمپ کر کے پانی دینے والے کسانوں میں اسے اپنے پہلے شوہر کی شبیہ دِکھائی دی۔ نشے کی لت سے پہلے وہ ایسے ہی بنا آستینوں کے صدری پہنے اور چار خانہ دھوتی گھٹنوں سے اُوپر کسے دو بیگھ کاشت کرتا اور اس کے جھونپڑے میں باڑھ کے دِنوں میں دھان بچا رہتا۔ اس نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی شکنتلا کی میکسی کے گھیر کو شلپا کی قے سے ذرا پرے کھسکایا۔ شلپا کی اپنے دوسرے شوہر سے علیحدگی کو سال سے اوپر ہو چلا تھا لیکن یہ آج متلا رہی تھی۔ دولی نے شکنتلا کی ریشمی میلسی کو پوروں میں مسلا ’’ایٹا کوتو کورے۔‘‘

    ’’اری خود کہاں جڑا مالکن نے دیا۔‘‘

    شکنتلا نے بوڑھی گنگا کے کثیف پانیوں میں بنتے بھنوروں میں کیلوں اور گلے ہوئے ناریل کو گھومتے ہوئے دیکھا، جیسے انھی پر سوار ہو۔ ’’اس بار کتنے جڑے۔‘‘

    ’’اری کیا جڑنا، دو ہزار بنگلے سے ملتا ہے، ڈیٹ پر جانے کی چھٹی بھی مالکن ہفتہ بھر میں ایک بار ہی دیتی ہے۔ اس میں کتنا کما لو یہی دو چار سو ٹکا۔ اس میں سے بھی سنتری سے چوکیدار تک کتنوں کے منہ بند کرنا ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’جب مال زیادہ ہوگا تو دام ایسا ہی لگےگا، سبھی تو اٹھ کر ڈھاکہ چلی آئی ہیں، جیسے باقی سارے بنگال میں تو ہیجڑے بستے ہوں۔‘‘

    درگا دیوی نے اپنے موٹے موٹے ہونٹوں کو چبا ڈالا جیسے ان نوچیوں کو چبا رہی ہو جنھوں نے ڈھاکہ کا منہ ہی دیکھ لیا تھا۔ کتنی کساد بازاری تھی کہ وہ جو خود اپنا اڈا چلاتی تھی۔ آج کسی بنگلے میں برتن مانجتی تھی۔

    ’’اچھی آزادی ملی بنگال کو ساری ہی دھندے پر لگ گئیں۔ بھوک کی برداشت ہی ختم ہو گئی۔ پابندی تھی تو بھوک بھی کم ستاتی تھی۔ آزادی کیا ملی ہر ایک پیٹ کے بدلے بکنے لگی پر مول تو مال دیکھ کر ہی لگتا ہے نا۔‘‘

    تلسی نے گلابی بلاؤز پر سنہری بارڈر والا پلو جھلا کر کندھے پر پھینکا، سخت گندھے آٹے کی سی رنگت والی پیٹ کی پلیٹ میں دھری ناف کی نشیلی آنکھ کا کونا دبایا۔ اسٹیمر میں موجود مردوں نے آنکھیں جھپکائیں اور چلائے۔

    ’’آ ماتا آ کہ بھالو باشی۔‘‘

    دولی کی ملاقات ہر چار چھ مہینے بعد ان سبھی عورتوں سے اسی اسٹیمر میں ہو جاتی تھی۔ سب کی رام لیلا ایک۔ دو تین شوہر چھوڑ چکے ہیں۔ اگلے کی تلاش ہے۔تو کئی ایک یہ تلاش اب چھوڑ چکی ہیں۔ کئی شوہروں کی نشانیاں دُور کسی گاؤں میں پٹ سن کے گھاس پھونس سے بنے جھونپڑے میں نانی کے پاس پل رہے ہیں کہ نانی کو نانا چھوڑ گیا ہے۔ چھ شوہروں کی نشانیاں رکھنے والی سروجنی نے اپنی دھوتی نما ملی دلی بکھری بکھری ساڑھی کے پیٹی کوٹ کے اندر لٹکتی تھیلی کو باہر نکالا۔ ’’یہ ٹکے آخر چار چھ مہینے ان چھ کا پیٹ کیسے بھریں گے۔ اب تو ڈیٹ بھی نہیں ملتی۔‘‘

    اس نے ماتھے کو دونوں ہاتھوں سے دھپ دھپ پیٹا۔ اری لگتا ہے اب تو بھیک ہی مانگنا ہوگی۔ یہ بنگالی سیٹھ تو اتنے کنجوس ایک ٹکا بھی تین بار ناخن پر بجا کر دیں۔ ‘‘سروجنی کی بنگالی آنکھوں کی بجھی جوت سے آنسوؤں کے کتنے دِیپ جلے۔ کبھی یہی شلپا کے ہم شکل ہونٹ اور ناریل کے پیالوں سے رسیلے لب بازار میں پوری قیمت پاتے تھے۔ شاید زیادہ کے لالچ میں اچھا مال جلدی جلدی میں اٹھ گیا اور اب وہ گلشن ٹو کے ایک جدید فلیٹ کے باتھ روم صاف کرتے ہوئے کتنی بار پھسلتی دیوار کا سہارا لے کر کمر کے درد سے کراہتی اور اپنے چھ شوہروں کو گٹر سے بھی زیادہ غلیظ گالیاں بکتی جو اس کی ہڈیوں کا سارا گودا چاٹ گئے تھے۔ اب یہ بے رس درد بھری ٹیڑھی ہڈیاں کسی فٹ پاتھ پر بھیک مانگنے کو ڈال دی جائیں گی۔

    اسٹیمر کی گھرگھراہٹ میں سروجنی کی کراہیں دب گئیں۔ یہ آج اسٹیمر میں ہنگامہ سا کیوں ہے۔

    کسی مرد نے جواب دیا۔’’ سوراج ڈے ہے آج۔‘‘

    آج بنگال نے پاکستان کے مظالم سے نجات حاصل کی تھی کیونکہ وہ بنگال کے پٹ سن کا سارا سونا ،ناریل کا سارا تیل، سارادھان بھات چھین کر لے جاتے تھے اور ہمیں پٹ سن کی رسیاں بٹنے، کیلوں کے گچھے توڑنے اور باڑھ میں ڈوبنے کو چھوڑ جاتے۔ لیکن اب یہ سب کون لے جاتا ہے۔ گھاس پھونس کے جھونپڑوں کے تنکے باڑھ کے سامنے اتنے ہی بے بس ہیں جتنے پاکستان کے راج میں تھے۔ بھات کی تھالی اتنی ہی خالی ہے جس میں کتنے ہاتھوں کی اُنگلیاں یکبارگی ڈوبتی ہیں اور ہتھیلی کے پیالے میں چند چاول ہی بھر پاتے ہیں۔

    دھچکا کھا کر اسٹیمر کی سپیڈ بڑھی۔ سروجنی نے اسٹیمر کو کئی گالیاں بکیں دھچکے سے دوہری ہوئی کمر کی ہڈی کو سیدھا کیا۔

    ’’ارے کیسا سوراج ڈے کتنی امیدیں تھیں بڑھاپے کا سہارا بنےگی۔ ادھر سولہواں سال لگا ادھر سمگل ہو گئی پاکستان یہ بھی حیا نہ آئی وردھیوں کے دیش میں تو نہ جاتی۔‘‘

    تلسی ہنسی تو سارے مرد اس کے قہقہے میں شامل ہو گئے۔

    تھی جو پاکستانی کا نطفہ وہ بھی پاک سرزمین کا محافظ۔

    ’’وہی ایک پاک سرزمین والوں کی تھی کیا ہزاروں نے اور نہیں جنے جو آج سوراج ڈے منا رہے ہیں۔ یہاں کوئی منڈی نہیں تھی کم بخت کے بکنے کو۔‘‘ سروجنی بنا بلاؤز کے ساڑھی کا کثیف پلو منہ سر پر لپیٹ کر سسکیاں لینے لگی اور سولہ سالہ بیٹی کو کوسنے دیتی رہی۔

    بوڑھی گنگا کے چھوڑ بہت دور رہ گئے تھے نواب سلیم اللہ کلے محل کے بلند و بالا ستون اور چو برجیاں دُھندلاہٹ میں گم ہو چکی تھیں۔ جہاں کبھی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی،جس نے پاکستان بنایا تھا اور جہاں موجود بنگالی مقرر سامعین کو بتا رہا تھا کہ بنگال کی آزادی کی پہلی اینٹ پاکستان بنا کر رکھی گئی لیکن یہ پاکستان بھی ہم پر انگریزوں کی طرح مسلط ہو گیا جس سے آزادی کے لیے ہم نے دو لاکھ بھائیوں کی قربانی دی، جن کے خون سے رنگین یہ دھرتی آزاد ہوئی۔ اسٹیمر کے عشرے پردیش بھگتی کے گیت گائے جا رہے تھے رقص کرتے ہوئے نوجوان آزادی کا جشن منا رہے تھے جن کے بڑوں کی اجتماعی قبریں شہید مینار میں پھیلی تھیں۔ اسٹیمر کے عشرے سے شہید مینار کی بلند تکون دکھائی دے رہی تھی جو بنگلہ دیش کی آزادی کی علامت تھا جس کے گرد گھاس سے ڈھکے بڑے بڑے قطعات پر Grave Yard کی تختیاں لگی تھیں یعنی یہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں شہید ہونے والوں کی اجتماعی قبریں تھیں۔ شہید مینار کے گرداگرد چوکور پختہ جھیلیں بہتی تھیں جن کے گدلے پانیوں میں عنابی شلپا کھلے تھے۔

    شہید مینار کے تکونے ستون نظر آتے ہی آزادی کے نعرے پر جوش ہو گئے۔ شراب کی بوتلوں کے ڈاٹ کھل گئے۔ گنگا کی سطح پر بھرے اسٹیمر اور نوکاؤں پر برقی قمقموں میں کتنے رنگ جھلملاتے تھے جیسے پانی کے اندر آگ سی لگی ہو اب ملاح اور مسافر خالی بوتلیں دریا میں پھینکنے آزادی کے نعرے لگاتے لگاتے لڑھکنے لگے۔ کئی وہیں اوندھا گئے۔آج آزادی کی رات ہے۔ سروجنی نے تیل ٹپکاتے گال اور سیاہ چکنے بالوں کے جوڑے بنارسی پٹی والی ساڑھیوں میں ملبوس عورتوں پر نگاہ کی۔ آج پانچ سو ہزار ٹکا ضرور بن جائےگا۔ ابھی گماشتے آئیں گے ایک ایک کے کان میں کچھ کہیں گے کبھی انکار میں سر ہلائیں گی کبھی اقرار میں اور پھر پلو ہلاتی پیچھے پیچھے چل پڑیں گے۔

    رات گنگا کے پانیوں جیسی سیاہ پڑ رہی تھی۔ اسٹیمروں کی روشنیاں تیز تھیں جیسے ستاروں بھرا آسمان پانی پر اتر آیا ہو۔

    اب عرشے پر دھما چوکڑی کرنے والے نچلی منزل میں بیٹھی عورتوں کے کانوں کان گزرنے لگے سب سے پہلے سروجنی اٹھ کے گئی اور فسٹ کلاس والے کیبن میں گم ہو گئی جوان عورتیں تو بس ایک ہلے میں ہی اپنی جگہیں خالی کر گئیں جیسے باڑھ کا ایک ہی ریلا پکی فصل بہا لے گیا ہو اور پھر یک دم ریٹ گر گئے اس تھرڈ کلاس کے کیبن میں عورتیں تاکنے والوں کی مسلی مسلی جیبیں مندے کی خبر دے رہی تھیں۔ اسٹیمر میں بیٹھی رہ جانے والی عورتیں اپنے گھروں کو جا رہی تھیں اور اپنی جمع پونجی میں جو اضافہ بھی ہو سکے اسے چھوڑنا نہ چاہتی تھیں۔ اس لیے ریٹ مزید گر گیا۔ سو سودا طے کیے بنا ہی اشارہ پا کر چلنے لگیں۔ دولی جس ناٹے قد کے آدمی کے پیچھے پیچھے چلی وہ اس کے دوسرے شوہر سے مشابہت رکھتا تھا وہ اس کے ساتھ کبھی نہ اٹھتی لیکن یہ آخری پیشکش تھی ورنہ اسے رات بھر کیبن میں رہ جانے والی بوڑھی عورتوں کے خراٹے سن کر گزارنی پڑتی۔ نقصان صرف پیسے ہی کا نہ تھا اپنی ناقدری کا دکھ اس ایک رات میں اس کا کتنا رس نچوڑ کر ناریل کے گھاس کی طرح کتنا خشک اور بد رنگ بنا جاتا۔ لیکن تالے والے کیبن میں موجود شخص کو پہچان کے شعلے کی لپک نے اس خشک گھاس کو پکڑ لیا۔ وہ اس کا دوسرا شوہر ہی تھا جو اسے ڈاؤن ڈھاکہ کی ایک مچھروں بھری کھولی میں سوتا چھوڑکر چلا گیا تھا کیونکہ اگلے مہینے وہ اس کی بیٹی کو جنم دینے والی تھی اور کچھ وقت کے لیے بےکار ہو جانے والی تھی۔

    اسٹیمر نے زور سے دھکا کھایا۔ شاید ناریل کے کئی بورے غرقِ دریا تھے جو یکدم سطحِ دریا پر ابھر آئے تھے۔ ہمیش اس سے یوں لپٹا جیسے برسوں کے بچھڑے پریمی اچانک کسی ایسے جزیرے میں مل گئے ہوں جہاں کی تمام آبادی کو کسی آفت نے نگل لیا ہو اور بس وہ دونوں ہی بچے ہوں۔ نفرت کی پوری طاقت سے دولی نے اسے پرے رگیدا۔ وہ اس اچانک افتاد سے لڑکھڑاکر کیبن کے بند دروازے سے بجا۔ اسٹیمر کے انجن کا شور شب کی تاریکی میں خوفناک ہو کر گرجنے لگا اور ایک برتھ والے کیبن کے سارے جوڑ جیسے کھل گئے۔ اس نے کیبن کی بند کھڑکی کے شیشے سے سر ٹکا کر جیسے خود کو ناگہانی خوف کے حملے سے سنبھالا۔

    ’’ویسے تو میں پانچ سو ٹکا مول کرتی ہوں لیکن آج سوراج کی رات ہے اس لیے ہزار ٹکا ہوگا۔۔۔ بول قبول کہ نہیں۔‘‘

    ہمیش زور سے ہنسا اوپر عرشے پر بجتے انڈین گانے تیز چیخ سی بن گئے تھے، جس میں اسٹیمر کے انجن کی آواز جیسے دھاریں مارتی گلے مِل رہی ہو۔ قطار در قطار سارے کیبنوں کے بند دروازوں سے نسوانی اور مردانہ قہقہوں کی آوازیں شہوت میں گھلیں باہر ٹپکیں۔ ہمیش پھر دیوانہ وار آگے بڑھا۔ ’’اری دولی تو۔ قسم بھگوان کی کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تجھے۔ ہم آج بھی پتی پتنی ہیں۔ ہمارے درمیان طلاق تھوڑی ہوئی تھی۔ دولی تو آج بھی میری۔۔۔‘‘

    ’’تیری پتنی ہوگی تیری ماں، سودے کی بات کر ہزار ٹکا یا پھر دروازہ کھول کیبن کا۔۔۔‘‘

    ہمیش برتھ پر ڈھ سا گیا۔ کیبنوں سے نکلتی مرد و زن کی دھیمی دھیمی شہوت بھریں آوازیں جیسے اسے نڈھال کر گئیں۔

    ’’دیکھ کیسا اتفاق ہے آج یہاں کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو اپنی ہی پتنی کو ٹکے بھر کے لایا ہو۔ پر چل تیری مرضی۔۔۔‘‘

    ہمیش نے سستی برانڈی کا گھونٹ بھرا ’’لے تو بھی پی۔‘‘

    ’’دولی نے بوتل پر ہاتھ مارا، مجھے مت بہکا، مطلب کی بات کر ورنہ دروازہ کھول۔۔۔‘‘

    بوتل گری تو فرش پر سرسر جھاگ سی ابلنے لگی۔

    ہمیش کھڑا ہوا ٹوٹی ہوئی بوتل کو پیر مار کر اوپر اچھالا جھاگ بھرا پانی دولی کو بھگو گیا اس کے چکنے گال لاٹیں مارنے لگے۔

    ’’اری تو تو بڑی ظلمی ہو گئی ری۔۔۔ یہ پکڑ گن لے پورے دس نوٹ ہیں۔۔۔ اب میرے بچے کا بول۔ یہ تو مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ لڑکی ہوئی ہے۔ اب اتنی سی تو ہو گئی ہوگی۔‘‘

    ہمیش نے دونوں بالشت جوڑیں اور پھر۔ بوتل کا ڈاٹ بک کر کے اُٹھایا۔ جھاگ کا قطرہ اُچھل کر دولی کی آنکھ میں آنسو سا اٹک گیا اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ بنگالی رس گلے سے ہونٹ رسنے لگے۔

    بچے کا نام زبان پر مت لا تیرا کیا لگا ہے رے اس پر دولی نے دس نوٹ اچک کر بیگ میں رکھ کر تالا لگایا۔۔۔

    ’’چپ کر کے گاہک بن اور اپنے پیسے پورے کر باپ کا ناٹک نہ کر مجھے اور بھی کئی کام ہیں۔‘‘ ہمیش کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں سب بند ہو گیا نوٹ بھی اور لڑکی بھی بس دولی سامنے تھی۔ اُس نے بوتل دولی کے منہ سے لگائی۔

    ’’یہ تو پی مجھے یاد ہے۔ تو پی کر ہی مست ہوتی ہے ورنہ کھانے کو دوڑتی ہے۔‘‘ ہمیش نے سینہ کھول کر قمیض اچھالی جو کیبن کے دودھیا بلب کو ڈھک گئی۔

    ’’لے اب لڑ مجھ سے کاٹ لے مجھے۔۔۔‘‘

    برانڈی کے کئی گھونٹ دولی کے خشک حلق میں اتر گئے تھے اور اس کے بوسیدہ تھکے ہوئے جسم میں اک تازگی اور قوت آ گئی تھی۔

    رات کالی تھی لیکن جشنِ آزادی کے قمقمے پورے اسٹیمر کو شہر چراغاں بنائے ہوئے تھے۔ تھرڈ کلاس کے کیبن میں رہ جانے والی عورتیں اونگھ گئی تھیں اور انھیں دیکھنے کو اب وہاں کوئی گاہک نہ بچا تھا۔ تلسی بڑبڑا رہی تھی۔

    ’’کیسی آزادی ہے کہ مہیلا کا ادھمان ہو رہا ہے ارے ہم ناکارہ ہو گئیں جو کل تک۔۔۔ پاکستانی فوجیوں سے بھی ٹکے طے کرتی تھیں یہ کیسی سوراج ہے کہ اپنے ہی دھتکار رہے ہیں۔‘‘ وہ منہ پر ساڑھیوں کے پلو ڈالے کبھی روتیں کبھی بین ڈالتیں تو کبھی خراٹے لینے لگتیں۔ جو سب اسٹیمر کی گھرگھراہٹ میں کہیں لپیٹ جاتا۔

    بوڑھی گنگا کے پانیوں میں رات گھل گھل کر دھل گئی تھی۔کثیف پانیوں کی ساری آلائشیں تہہ میں اتر چکی تھیں۔ سطحِ آب پرسکون تھی۔ سورج سنہری گلابی عنابی رنگ لہروں پر بکھیر رہا تھا۔ جس کی پہلی پہلی گلابی کرنیں پیالوں سے بھنوروں میں بھر رہی تھیں۔ دریا کے کنارے کیلوں کے ڈنٹھلوں ناریل کے چھلکوں اور سیاہ کیچڑوں سے بھرے تھے۔

    اسٹیمر لنگر ڈال چکا تھا۔ کشتیوں کا جھولتا ہوا پُل نشئیوں اور مکھیوں سے اٹا تھا۔۔۔ جس سے مسافر بچ بچ کر گزر رہے تھے۔

    اب اسٹیمر کو صرف مَل مَل کر رات بھر کے جشنِ آزادی کی کثافتیں دھوئی جا رہی تھیں۔ دولی پر صرف ملے پانی کی بوچھاڑ پڑی تو وہ ہڑبڑا کر جاگی۔ اسٹیمر دھونے والے ہنسے۔

    ’’اری تو ابھی آزادی کا جشن ہی منا رہی ہے۔ دُنیا اپنے گھروں کو بھی پہنچ گئی۔‘‘ اس نے ہڑبڑا کر ادھر ادھر ہاتھ مارا۔ بچوں کے کپڑوں اور پیسوں والا بیگ کھانے کی اشیاء والی پوٹلی، دونوں چیزیں کدھر تھیں۔

    ’’ہمیش‘‘

    اس کے حلق سے نکلنے والی چیخ بوڑھی گنگا کے آلودہ پانیوں میں آلائش بن کر کہیں تہ میں اتر گئی۔ جہاں آزادی کے دِن کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے