بوڑھا برگد
جگدیش بابو کو ریٹائر ہوئے سال گزر چکا تھا۔ وہ ہائی اسکول میں تاریخ کے استاد تھے۔ زندگی کا سنہرا وقت ختم ہو گیا تھا۔ اب وہ تھے ان کی تنہائی تھی چند بوسیدہ کتابیں تھیں ایک عدد کمرہ تھا جس کی کھڑکی سڑک کی جانب کھلتی تھی۔ جہاں دیر تک کھڑے وہ راستے پر گزرتی ہوئی بس کار اسکوٹر موٹر سائیکل کو دیکھ کر چند ساعت کو اپنا دل بہلا لیا کرتے تھے۔ اب زندگی بیل گاڑی گھوڑا گاڑی رکشہ اور سائیکل سے بیزار نظر آ رہی تھی۔ برق رفتار انجن نے وقت کی اہمیت بڑھا دی تھی۔ ہر کوئی بھاگا جا رہا تھا نظریں ان سب کا تعاقب کرتیں لیکن نظروں سے اوجھل ہوتے دیر بھی نہیں لگتی۔ وہ کھڑے کھڑے سوچتے رہتے زمین کی گردش وہی ہے سورج اپنی رفتار سے مغرب کا سفر طے کر رہا ہے لیکن اسی مدار پر انسان کی گردش تیز تر ہو گئی ہے ان بچے ہوئے وقتوں کو انسان کہاں کھپائے گا؟
باہر احاطہ میں برگد کا ایک بوڑھا درخت کھڑا تھا جس پر بہار کا زمانہ گزر چکا تھا کافی تنے سوکھ چکے تھے۔ خزاں میں پیلے اور زرد پتے ٹوٹ ٹوٹ کر ہوا میں اڑتے ہوئے دروازے اور کھڑکیوں کے آس پاس ڈھیر ہو جاتے اور شاخ سے علیحدہ ہو جانے پر اپنی بے ثباتی کا برملا اعلان کرتے جنھیں ہوا کا معمولی سا بہاؤ بھی ادھر اُدھر اڑائے پھرتا۔ وہ جھاڑو لگاتے ہوئے انھیں اکٹھا کرتے اور آگ کے حوالے کر دیتے۔ آگ کے اٹھتے ہوئے شعلوں میں چند پتوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر وہ ایک شکستہ حال کرسی پر بیٹھے کبھی گھنٹوں سوچتے رہتے زندگی بھی پھوٹنے کھلنے اگنے مرجھانے ٹوٹ کر بکھر جانے اور آخر کار اپنے وجود کو خاک میں ملا دینے کا نام ہے؟
جگدیش بابو جب گھر میں بیٹھے بیٹھے تنگ آ جاتے جسم بستر پر پڑے پڑے تھک جاتا اور طبیعت حد درجہ بوجھل ہو جاتی تب بے دلی سے اداس و غمگین دل لیے ہوئے ٹہلتے ٹہلتے کبھی بازار کو چلے جاتے ساگ سبزی لے آتے اور کبھی یونہی بوجھل من سے باغیچے اور کھیت کھلیان کی سیر کر لیا کرتے۔ اب ان کی چال میں پہلے جیسا استحکام اور قدم میں پہلے جیسی وہ متانت باقی نہ رہی تھی۔ بازار کی اسی پر رونق سڑک پر اب سناٹوں کا راج تھا سب کچھ سونا سونا لگتا راستے چوراہے وقت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہر چہرہ مرجھایا ہوا معلوم پڑتا ہر چہل پہل اور شور شرابے میں وحشت ٹپکتی اور ہر بیچنے اور خریدنے والا زندگی کی تنگ دامانی کا نوحہ کرتا ہوا اپنی منزل کی جانب رواں دواں دکھائی دیتا۔ کچھ نہیں بدلا تھا سب کچھ وہی تھا صرف زندگی نے مایوسی کی چادر اوڑھ لی تھی جینے کی للک ماند پڑ گئی تھی اور آنکھوں سے بازار کا وہ حسن زائل ہو گیا تھا۔
بس یہی چند مخصوص سرگرمیاں ہی اب ان کی زندگی کا محور تھیں۔ گھر میں ایک فالج زدہ بیوی تھی جو چند مہینوں سے شدید بیمار تھی۔ بیٹا نریش اکثر ڈیوٹی پر باہر رہتا تھا۔ ایک بیٹی تھی جو اب اپنے سسرال کو جا چکی تھی۔ بہو ساتھ تھی جو گھر کا خیال رکھتی تھی۔ صرف دو زندہ لوگ ایک نیم مردہ بیوی اس طویل و عریض گھر میں ایک دوسرے سے بیگانہ نہ کوئی بات چیت نہ من کی بھڑاس مٹانے والی گفتگو نہ قہقہے نہ رعنائیاں پردے اوٹ شرم اور خاموشی اف ائے زندگی تو نے مجھے کس چوراہے پر لا کھڑا کیا؟
ریٹائرمنٹ کے چند مہینوں بعد ہی انہیں شدت سے اس بات کا احساس ستانے لگا کہ انسان کی زندگی میں مشغولیت بھی خدا کی دی ہوئی کسی عظیم نعمت سے کم نہیں۔ انہیں خیال آیا ان کے دوست رحمٰن صاحب جو ان سے پہلے نوکری سے سبک دوش ہو چکے تھے شاید ٹھیک ہی کہتے تھے بے کار آدمی اکثر و بیشتر بیمار رہتا ہے وقت سے پہلے بوڑھا ہو جاتا ہے اور ایک دن اچانک ہی مر جاتا ہے۔ انھوں نے ایک لمحے کو سوچا کب دس بج جاتے تھے کب شام ہوتی تھی پتہ بھی نہیں چلتا تھا اب تو جیسے گھڑی کی سوئی رک سی گئی ہے؟
ایک بار تو انھوں نے ہیڈ ماسٹر صاحب سے جاکر کہا بھی اگر آپ چاہیں تو میں ہر روز مفت میں ایک دو گھنٹہ بچوں کو پڑھا دیا کروں گا میرا وقت بھی گزر جائے گا ہاتھ پیر بھی چلتے رہیں گے دماغ بھی روشن رہے گا اور بچوں کو پڑھا کر مجھے فرحت و سکون کا احساس بھی ہوگا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے ان کی بات غور سے سننے کے بعد ان کے خیالات کی قدر کرتے ہوئے کہا جب کبھی آپ کا دل گھبرائے آپ مجھ سے ملنے اسکول ضرور آ جایا کریں ساتھ بیٹھیں گے باتیں کریں گے ایک کپ چائے بھی پئیں گے، لیکن ایک سبکدوش استاد کا قانون کی رو سے اسکول میں بچوں کو پڑھانا ممکن نہیں یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے۔
طالب علمی کے زمانے سے ہی انہیں قانون کے مکڑ جال دھرم کے بوسیدہ روایتوں اور سماج کے رسم و رواج سے سخت نفرت تھی ان کا ماننا تھا یہ سب کمزوروں کو پھانسنے کے پھندے ہیں جسے ذہین و فطین لوگوں نے بنایا ہے تاکہ تاحیات ان کی نسلوں پر حکمرانی کرتے رہیں یہ کمزوروں کو غلام بنانے کا کارگر حربہ ہے اور کبھی نہ ٹوٹنے والا شکنجہ ہے۔ دولت مند طاقتور حکمران اور سیاسی لوگ کبھی کسی مذہبی روایات ذات پات کی بے جا بندش اور سماج کے سخت اصول اور لایعنی رسم و رواج کو نبھانے کے روادار نہیں رہے۔
بہو رادھیکا اکیلی تھی گھر کا سارا کام کاج اسی کے ذمہ تھا ایک کام کرنے والی بھی تھی لیکن ایک دن اچانک ہی بچے کی طبیعت خراب ہونے کا بہانہ بنا کر ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔ رادھیکا نے فون پر نریش کو بتایا کہ تمہارے باؤجی نے اسے بھگا دیا تاکہ وہ اکیلے گھر میں ادھر ادھر دندناتے پھریں اور مجھ سے آنکھیں چار کریں۔ جگدیش بابو رادھیکا کے کام میں اس کی مدد کرنا چاہتے تھے کبھی کپڑا دھونے میں ہاتھ بٹانے چلے آتے کبھی باورچی خانہ میں چلے جاتے وہ کھانے کے بڑے شوقین تھے اس لیے اپنی پسند کی چیزیں خود ہی بنا کر بہو کا بوجھ کم کرنے کی فکر میں لگے رہتے۔ فرصت کے اوقات میں بہو سے ڈھیر ساری باتیں کرنے کو ان کا دل کرتا لیکن وہی انجانے رشتے وہی بیگانہ سماج وہی پرانے رسم اف! کتنی بندشیں ہیں؟ اور پھر خاموشی تنہائی؟ رادھیکا کو یہ سب بالکل پسند نہ تھا وہ باؤجی سے لاج کرتی اور فوراً ہی گھونگھٹ کاڑھ لیتی لیکن وقت کو گزارنے کا جگدیش بابو کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہ تھا۔
آج صبح اٹھنے میں انہیں دیر ہو گئی تھی۔ بہو نے پہلے ماں جی کو اٹھا کر دیوار کے سہارے ٹیک لگا کر بیٹھایا ناشتہ کرایا پھر باؤجی کو آواز دی لیکن ادھر سے کوئی جواب نہ آیا۔ شک چاہے سچائی کا لبادہ اوڑھے ہو یا وہم کا خوبصورت جامہ زیب تن کیے ہو دونوں ہی حالت میں رشتوں کو تار تار کرنے سے باز نہیں آتا۔ باؤجی اٹھیے طبیعت ٹھیک تو ہے نا؟ لیکن دوسری جانب ابتک خاموشی تھی وہ ڈر گئی اس نے اور قریب آکر آواز لگائی لیکن اس بار بھی کوئی جواب نہ ملا وہ پاس آکر بستر پر بیٹھ گئی اور سر پر ہاتھ رکھ کر دیکھنے لگی کہیں بخار تو نہیں؟ اچانک ہی باؤجی نے کروٹ لی، بے خیالی میں ان کا ہاتھ بہو کے سینے پر پڑ گیا۔ وہ فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ انھوں نے بہو کا ہاتھ پکڑ کر کہا مجھے اٹھا دے بہو طبیعت آج اچھی نہیں لگ رہی ہے، پورا بدن نڈھال سا ہو گیا ہے۔ لیکن رادھیکا نے باؤجی کا ہاتھ جھٹک دیا۔ رادھیکا کے دماغ میں شک نے اب چپکے چپکے پختگی کا روپ دھار لیا تھا۔
ریٹائرمنٹ کے چند مہینوں بعد سے ہی جگدیش بابو اور رادھیکا کے رشتے میں شک کا ایک ایسا شگاف پڑ گیا جو آہستہ آہستہ گہرا ہوتا چلا گیا۔ کبھی اچانک ہی جگدیش بابو کا رادھیکا کے کمرے میں داخل ہونا کبھی اس کے پاس سے گزر کر باورچی خانے میں برتن دھونا کبھی واشنگ مشین میں کپڑے ڈالنا کبھی جھاڑو لگانا یہ سب جگدیش بابو کا محبوب مشغلہ تھا۔ رادھیکا کے کام میں ہاتھ بٹا کر انھیں اچھا لگتا تھا اور گھر کے اس کام میں ان کا وقت بھی گزر جاتا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ ساس کے فالج مارنے کے بعد رادھیکا اکیلی پڑ گئی ہے اس لیے مجھے لازمی طور سے اس کی مدد کرنی چاہیے۔
ایک رات بستر پر لیٹے ہوئے اچانک ہی رادھیکا کو یوں محسوس ہوا جیسے باؤجی اس کے چہرے پر جھکے ہوئے ہیں۔ وہ اچانک ہی اٹھ کھڑی ہوئی کمرے میں کوئی نہ تھا اس نے بلب جلایا اور آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا باؤجی دروازے سے لگ کر کھڑے تھے۔ کیا ہوا بہو سب خیریت تو ہے نا؟ ہاں نیند میں ڈر گئی تھی رادھیکا نے گھبراتے ہوئے کہا۔ آپ اس وقت دروازے پر کیا کر رہے ہیں؟ میں کھونٹی پر قمیض ٹانگ رہا تھا گرمی زیادہ لگ رہی تھی سوچا بنیان پہن کر سو جاوں۔ میں نے تجھ سے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ دروازہ بند کر کے مت سویا کر اسے کھلا رہنے دے، وہ ہچکچائی اس کا ڈر سچائی میں دھیرے دھیرے بدلتا جا رہا تھا۔
رادھیکا ایک شکی اور ضدی قسم کی عورت تھی جس کی خبر نریش نے باپ کو پہلے ہی دے رکھی تھی۔ لیکن اپنی دانست بھر جگدیش بابو شاید اسے قطعاً بھلا چکے تھے لیکن دھیرے دھیرے لاشعور میں پیوست یادیں اچانک ہی باہر آنے لگیں۔ رادھیکا کی نظر میں باؤجی کا رویہ ان چند مہینوں میں اس کے تئیں کافی بدل گیا تھا اور باؤجی کی نظر میں رادھیکا کا برتاو ان کے لیے پورے طور سے بدل چکا تھا۔ پھر بھی انھوں نے سوچا نریش کے مسلسل باہر رہنے سے بہو شاید چڑچڑی ہو گئی ہے۔ میں نریش کو جلد بلاوں گا میں اسے آج ہی فون کرتا ہوں۔ میں بہو کو سمجھا لوں گا ایک اکیلی عورت گھر کا کام کرتے کرتے تھک جاتی ہوگی میں کل ہی کوئی کام والی ڈھونڈ لاتا ہوں۔
جگدیش بابو بستر پر لیٹے ہوئے سوچ رہے تھے کیا ایک مرد اپنی بیوی کے بغیر مکمل ہے؟ کیا وہ عمر کے ہر پڑاؤ میں اپنے خیالات و جذبات پر قابو رکھ سکتا ہے؟ کیا وہ تنہا اتنی لمبی زندگی گزار سکتا ہے؟ اگر نہیں تو سماج کی اس بندش کا کیا مطلب ہے؟ کیا دھرم لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں؟ زندگی پانی کا بلبلہ تو نہیں جو بنے اور فوراً ٹوٹ جائے؟ زندگی ایک حباب تو نہیں جو ہوا میں بکھر جائے اور تحلیل ہو جائے؟ یہ تو ایک طویل سفر ہے جس کا راستہ دشوار گزار پہاڑیوں تپتے ہوئے ریگستانوں ناہموار میدانوں ندی نالوں سے گزر کر شمشان گھاٹ تک پہنچتا ہے۔ کیا اتنا طویل سفر میں اکیلے طے کر پاؤں گا؟ شاید نہیں، بالکل نہیں، کبھی نہیں!
تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔ جگدیش بابو کے لیے اب ہر آہٹ ایک خوشی کا پیغام لاتی تھی۔ وقت کی رفتار کو تیز تر کرنے کا پیغام، مردہ دل کو زندہ کرنے کا پیغام ان کا دل خوشی سے جھوم اٹھتا تھا۔ انھوں نے ایک لمحے کو سوچا جب ملازمت میں تھے تب کسی کا گھر پر بے وقت آنا ان پر کتنا ناگوار گزرتا تھا۔ انسان وقت کی گردش کے آگے بے بس و لاچار ہے کون کہتا ہے انسان حالات کو اپنی قوت و طاقت سے بدل سکتا ہے اپنے عزم و حوصلے سے کچل سکتا ہے۔ مجھ میں اور سامنے کھڑے برگد کے اس بوڑھے درخت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے جس کی زیادہ تر ٹہنیاں کاٹ دی گئی ہیں جس کے جڑ سوکھ چکے ہیں جس کے تنے مرجھا گئے ہیں ہم دونوں وقت کی رفتار کے آگے بے بس و لاچار ہیں اور وقت کے رحم و کرم پر سر خم کیے پڑے ہیں۔ انھوں نے اٹھ کر دروازہ کھولا سامنے رحمٰن صاحب کھڑے تھے۔ آئیے بیٹھیے، انھوں نے رحمٰن صاحب کو بیٹھا کر بہو کو آواز لگائی بہو دو کپ چائے بنا دینا۔
یہ بڈھا مجھے جینے نہیں دے گا ایک خفیف سی آواز فضا میں گونجی۔ گھر کا کام کرو کھانا بناؤ کپڑے دھونا جھاڑو برتن کرنا اس کی سیوا کرو پھر اس اپاہج عورت کی دیکھ بھال کرو۔ میری تو زندگی جیسے جہنم بن گئی؟ اس پر اس بڈھے کے بے کار دوست جب دیکھو ٹپک پڑتے ہیں۔ کانوں پر لرزہ طاری تھا۔ اف! کی ایک مبہم سی صدا نے جیسے انھیں اچانک ہی مٹی کے ڈھیر میں بدل دیا تھا۔ آج اس کی چڑچڑاہٹ غیر متوقع طور پر اچانک ہی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔ بات باؤجی سے بڈھے تک جا پہنچی تھی اس تبدیلی کے پیچھے کچھ اور نہیں بدگمانی کا وہ زہر تھا جو اس کی روح میں سرایت کر چکا تھا جسے رفع کرنا اب شاید جگدیش بابو کے بس کی بات نہ تھی۔ اس بات کی بھنک انہیں بیوی کے ذریعہ پہلے ہی لگ چکی تھی اسی خاطر وہ چند دنوں سے الگ تھلگ پڑے رہتے تھے۔ جو وقت وہ بہو کے ساتھ کام کر کے گزار لیتے تھے اس پر شک و بدظنی کے کالے بادل اب مینھ برسانے کو بالکل تیار تھے۔ شاید یہ پہلی تلخی تھی جس کا احساس انہیں بڑی شدت سے ہوا ان کی طبیعت میں ہیجان کی عجیب و غریب سی کیفیت پیدا ہو رہی تھی لیکن ایسا کیوں کر ہوا وہ یہ سمجھنے سے بالکل قاصر تھے۔ دماغ کے کسی گوشے میں سسر اور بہو بنام باپ بیٹی کی محبت نے کب کا دم توڑ دیا تھا۔
انھوں نے دماغ پر بہت زور دیا۔ آخر اس رشتے کو شک و بدگمانی کے دیمک نے اندر ہی اندر کب اور کیوں کر کھا لیا؟ انہیں یاد آیا مجھے اس دن بہو سے معذرت کر لینی چاہیے تھی میں نے اس دن اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا تھا۔ کیا بہو بیٹی کی طرح نہیں ہوتی؟ شاید نہیں، یہ سب بس کہنے کی باتیں ہیں۔ انھوں نے سوچا باپ کا ہاتھ اگر غلطی سے بیٹی کے نازک حصے پر پڑ جائے تو وہ کبھی ہاتھ نہیں جھٹکتی بلکہ ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ میں لے کر سر سہلانے لگ جاتی ہے۔ بھگوان کے بنائے رشتے اور انسان کے بنائے رشتے کا فرق ان پر روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا تھا۔ آنکھوں سے آنسو جاری تھے انھیں یاد آیا نریش صحیح کہتا تھا۔ باؤجی بیٹی سادھنا کی طرح بہو سے بے تکلف ہرگز نہ ہونا۔ بیٹے کو باپ کی شوخ طبیعت کا بخوبی علم تھا۔ بیٹی اپنی ہوتی ہے اور بہو پرائی۔ بیٹا نریش باؤجی کے بھولے پن کو کافی حد تک جانتا اور سمجھتا تھا۔ انھیں یاد آیا شاید میں بیٹے کا دیا ہوا سبق بھول گیا تھا۔
سائنس کی کتابوں میں لکھا ہے کہ آواز کی رفتار بڑی تیز ہوتی ہے، اگر مدھم بھی ہو۔ ماسٹر رحمٰن نے بہو کی بڑبڑاہٹ سن کر ماسٹر جگدیس کے کان میں آہستہ سے کہا۔ جگدیش بابو کے چہرے پر خفگی کے آثار صاف نمایاں تھے۔ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد انھوں نے کہا ہاں، اور روشنی کی بھی جو مجھ سے چھین لی گئی۔ جگدیش بابو نے آواز کا روشنی سے بروقت موازنہ کیا پھر وہ چند لمحے کو خاموش ہو گئے شرمندگی ان کے شکل پر چھائی ہوئی تھی چہرے پر ایک رنگ آتا تھا ایک رنگ جاتا تھا۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد کہنے لگے، تنہائی مجھے روز قسطوں میں کھائے جا رہی ہے رحمٰن صاحب۔ میں ابھی تندرست ہوں مجھے اپنے اندر جینے کی چاہت پیدا کرنی ہوگی میرے پاس زمین جائیداد دولت مکان سب کچھ ہے میں اتنی جلدی کیسے مر سکتا ہوں؟ شاید مجھے دوسری شادی کر لینی چاہیے؟ تاکہ میں اس نئی عورت سے اپنی بیوی کی کچھ خدمت کرا سکوں اور خود بھی چین و سکون کی زندگی گزار سکوں، بہو تو ساس کی خدمت کرنے سے رہی۔ میں کسی کے رحم و کرم پر زندہ رہنے کا کبھی عادی نہیں رہا؟ بیوی کے تندرست ہونے کی امیدیں مفقود ہو چکی ہیں۔ میں کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آتا؟ ماسٹر رحمٰن نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا لیکن آپ کے یہاں ایک بیوی کے رہتے ہوئے دوسری شادی قانوناً جرم ہے چاہے وہ اپاہج ہی کیوں نہ ہو اور آپ کا دھرم بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ جگدیش بابو نے رنج کی ملی جلی کیفیت میں سر جھکا کر کہا ہاں لیکن میں دھرم میں یقین نہیں رکھتا۔ ماسٹر رحمٰن یہ سن کر خاموش ہو گئے انہیں جگدیش بابو کے خیالات کا پہلے سے ہی علم تھا۔ قدرے توقف کے بعد بولے لیکن سماج و معاشرے کی ریت رواج پر تو یقین رکھنا ہی ہوگا؟ جسے آپ جیسے لوگوں نے ہی بنایا اور پروان چڑھایا ہے۔ ملک حکومت اور قانون کی پاسداری تو کرنی ہی ہوگی؟ پھر ایک گہری خاموشی چھا گئی اور آنسو کے چند قطرے ان کے رخسار کو بھگو گئے۔
چائے آ چکی تھی لیکن اب اس میں پہلے جیسی لذت باقی نہ رہی تھی۔ ایک گھونٹ کی تلخی نے حلق میں جلن پیدا کر دی تھی۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کچھ سوچنے لگے۔ ماسٹر رحمٰن بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے چائے واقعی اچھی نہیں تھی۔ ماسٹر جگدیش بڑی حساس طبیعت کے مالک تھے اور ایسے لوگ تضحیک بالکل ہی برداشت نہیں کرتے، فوراً ہی دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔ وہ برآمدے میں گئے بیوی کا سر چوما اسے پیار کیا اور چائے پئے بغیر ماسٹر رحمٰن کے ساتھ گھر سے نکل پڑے۔ جاتے جاتے انھوں نے برگد کے اس درخت کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھا اور اس سے لپٹ کر آنسوؤں کے چند نذرانے پیش کیے۔ اس کے لٹکتے ہوئے سوکھے تنے کو چھو کر الوداع کہا اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے ماسٹر رحمٰن سے آگے نکل گئے۔ ماسٹر رحمٰن نے انھیں کئی بار آواز دی انہیں روکنا چاہا لیکن وہ نہ رکے۔ ماسٹر رحمٰن نے سوچا شاید وہ بازار جا رہے ہوں کسی دکان میں چائے پئیں گے۔ کہیں سے گپ شپ کریں گے تھوڑی دیر بعد گھوم ٹہل کر خود ہی واپس آ جائیں گے مجھے کچھ دیر کے لیے انہیں اکیلا چھوڑ دینا چاہیے۔ پھر پلکیں جھکیں آنسو کی چند قطرے فرش پر گرے اور رحمٰن صاحب بوجھل دل لیے ہوئے کہنے لگے اس کے بعد ماسٹر جگدیش کبھی گھر واپس نہ آئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.