Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بوڑھے جاگ سکتے ہیں

مشرف عالم ذوقی

بوڑھے جاگ سکتے ہیں

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

    اور وہ واقعہ ہو گیا جس کے بارے میں پون لال سوچتے تھے کہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔۔۔ لیکن کیوں نہیں ہونا چاہئے تھا، کا جواب فی الحال ان کے ان کے پاس نہیں تھا۔۔۔ آخر کیوں نہیں ہونا چاہئے تھا۔۔۔؟ وہ بہت دیر تک بلکہ کہنا چاہئے کہ دوسرے بہت سے سوالوں سے فارغ ہوکر جیسے بس اسی سوال تک لوٹ آتے۔ بالکل ہونا تو یہی چاہئے تھا اور آخر بچوں نے انہیں سمجھ کیا رکھا ہے؟ ایک کھوسٹ بیکار بڈھا۔ بڈھے وہ خود ہوں گے۔۔۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہوں توچندیا کے کالے بال اب بھی ایسے چمکتے ہیں کہ جوان آدمی بھی رشک کھا جائے اور ابھی بھی، انہوں نے جیسے خود کو چھوکر دیکھا اور مطمئن ہو گئے کہ ہاتھوں کی مچھلیاں اور پیروں کے پٹھے تو اس طرح پھڑکتے ہیں جیسے تالاب میں ایک پتھر اچھال دو۔ پھر دیکھو جوش، حرکت اور ترنگیں۔۔۔ اور آخر انہیں ایسا محسوس کرنے کا حق کیوں نہیں ہے۔۔۔ اور انیل۔۔۔ کیا اسے چاہئے تھا، کہ اپنی ماں یا اس سے، یعنی اپنے باپ سے اس طرح کے واہیات سوال پوچھے۔۔۔ کہ آخر آپ۔۔۔

    انہیں تعجب ہے، آداب و اخلاق کے اس صفحہ پر آخر روشنائی کیسے گر گئی جس پر انگلی پکڑ کر بچپن میں انہوں نے انیل کو سبق رٹوائے تھے۔ نہیں۔۔۔ انہیں کسی بات پر تعجب نہیں ہونا چاہئے۔۔۔ مگر۔۔۔ ساٹھ سال کا ایک بوڑھا اپنی مرضی سے اپنی بیوی کے ساتھ سونا چاہے تو بچوں کی نظر میں، اس میں حیرانی کی کون سی بات ہے۔۔۔؟ کیا ساٹھ سال کے بڈھے کو۔۔۔

    نہیں وپن لال، گھر خاندان کا پورا جغرافیہ بدل چکا ہے اور تم بڈھے ہو چکے ہو۔۔۔ ساٹھ سال کے۔۔۔ ساٹھ سال مطلب، ایک بوڑھا کھوسٹ، سامنے ہر پل موت دیکھتا ہوا بڈھا۔۔۔ اور بیوی بھی کیسی۔۔۔ ساٹھ سال کے آدمی کی بیوی۔۔۔ جس کے چہرے کی جھریاں بدن کی جھریوں سے زیادہ اداس اور بے جان ہوں۔ بدن کے ڈھیلے، جھر جھر، لتھڑے مانس، جہاں جگہ بناتی ہوئی دنیا بھر کی بیماریاں ہوتی ہیں اور ہوتی ہے بیزاری، لمبی تھکن۔۔۔ ایسی بیوی جو زندگی کی سیڑھیاں در سیڑھیاں چڑھتی ہوئی، تجسس کے سارے سوال طے کرتی ہوئی آخر میں بس یک بےرس جواب رہ جاتی ہے۔ ایسی بیوی۔۔۔ اور بچے پوچھتے ہیں۔۔۔ آخر آپ کیوں سونا چاہتے ہیں، ساتھ ساتھ؟‘‘

    وپن لال اپنے آپ کو چھو کر ٹٹول کر محسوس کرانا چاہتے ہیں کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ لیکن اندر سے کوئی جھلا کر صاف انکار کر دیتا ہے۔ مان لو اگر ان کی عمر سو برس ہوئی تو۔۔۔؟ ذرا اپنے آپ کو غور سے دیکھو۔۔۔ یعنی اگر چالیس برس اور ہوئی تو۔۔۔ چالیس سال کی عمر بھی اپنے آپ میں بھگوان کی دی ہوئی نعمت ہے۔۔۔ اورچالیس برس اپنے اندر کتنے ہی موسم، بچپن، لڑکپن، جوانی اور ادھیڑ پن کی داستانیں سمیٹے ہے۔۔۔ کتنی کتنی داستانیں۔۔۔ اندر سے کوئی چڑچڑا ہو کر گالیاں بکتا ہے۔۔۔ چہرے کے مانس بھنچ جاتے ہیں۔ ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں۔ وہ ایک بار خود کو چھو کر ٹٹولتے ہیں اور خاموش ہو جاتے ہیں۔ ریٹائر ہو گئے تو کیا ہوا؟ وہ ابھی جوان ہیں۔ اور ابھی بہت دنوں تک جوان رہیں گے اور جوان ہیں اس لئے۔۔۔

    کھانے میں کریلا انہیں کبھی پسند نہیں آیا۔ بڑھاپے کا احساس ان کے پورے وجود کو کریلے جیسا کڑوا بنا دیتا ہے۔ سب سے گھناؤنی چیز بڑھاپا ہے۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ جو عمر ہے۔۔۔ عمر، جو دھیرے دھیرے بڑھتی ہے اور ہمارے معاشرے میں 40پار کرتے ہی اس شخص کو طرح طرح سے دیکھنا شروع کر دیا جاتا ہے۔۔۔ دیکھا، بڈھا کیسے گھور رہا تھا۔ فلاں کی عورت سے کیسے مزے مزے کی باتیں کر رہا تھا۔

    غیرممالک میں تو اس عمر میں آ کر تجربے سانس لیتے ہیں۔ معنویت گہری اور پختہ ہوتی ہے۔ عورتوں کا رجحان بھی ایسے تجربہ کار بوڑھوں کی طرف مخصوص ہوتا ہے۔ مگر ان کے یہاں، اس ملک میں۔۔۔ اب یہ اڑوس پڑوس کی گندی ذہنیت والے، ذرا باہر نکل کر فلم انڈسٹری کی طرف نظر ڈالیں۔ دھرمی در ہے، دلیپ کمار ہیں، جتیندر ہیں۔ اس عمر میں کیا کیا لٹکے جھٹکے ہیں۔ ہیروئنوں کے ساتھ باغوں میں مٹک مٹک کر گانا ہو رہا ہے۔۔۔ اور وہ۔۔۔ وپن لال اس عمر میں سٹھیا گئے ہیں۔ گانا چھوڑ تفریح کے لئے دو بول نہیں بول سکتے۔ آخر کیوں بھئی۔ کیوں کہ وہ ساٹھ برس کے ہو گئے ہیں۔ اس لئے۔۔۔ ساٹھ برس، مطلب ایک مقدس ہستی۔۔۔ اور بچوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اس مقدس ہستی کی پریتما بنا کر، گھرکے کونے کھدرے میں ڈال کر ان کی توہین کر سکیں۔ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکیں۔

    ولو ڈیئر۔۔۔ وپن لال کا شارٹ فارم ہے۔ جب کبھی تنہائی میں ہوتے ہیں تو مزے لے لے کر خود کو اس نام سے یاد کرتے ہیں۔ اور خوش ہوتے ہیں۔۔۔ ولو ڈیئر۔ وہ خود مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔ جانتے ہو اس عمر میں بوڑھے لوگ متقی اور پرہیز گار کیوں ہو جاتے ہیں۔۔۔ نہیں جانتے۔۔۔ ہاہا۔۔۔ تو سنو۔۔۔ نہیں، تم ہنسنے لگو گے۔۔۔ حیرانی کی بات نہیں ہے ولو ڈیئر۔۔۔ بڑھاپا آیا تو محسوس ہوا جوانی کے سارے گناہ ایک طرف۔ اب جو یہ بڑھاپا سامنے ہے۔۔۔ یہ بڑھاپا۔۔۔ اس کا احساس، یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔۔۔ اور ولوڈیئر۔۔۔ ہنسو نہیں۔ یہ انکشاف ہوتے ہی کئی بوڑھے بستر پکڑ کر عبادت اور دھرم سے ناطہ جوڑ لیتے ہیں۔۔۔ نہیں یقین ہے تو بتاؤ۔۔۔ بوڑھے آدمی کو لوگ عبادت اور شردھا کی دستو کیوں بنا دیتے ہیں۔ کیوں کہ گھر کا ایک آدمی گودام میں رکھے، پکے آم کی طرح زندگی کی اتنی گرمی کھا چکا ہے اور اتنا سنکی اور بوڑھا ہو چکا ہے کہ بس۔۔۔ آشیرواد دینے اور پاپ پنیہ کی باتیں چھوٹوں کو بتانے تک زندہ ہے۔۔۔ وپن لال ہنسو نہیں۔ اب تمہیں بھی بچوں نے ایسی ہی پریتما بنا کر گھر کے کونے کھدروں میں ڈال دیا ہے۔۔۔ آشیرواد دینے اور پاپ پنیہ کی باتیں سنانے کے لئے۔

    وپن لال کو لگتا ہے جیسے سب انہیں چڑھا رہے ہوں۔۔۔ انہیں جی بھر کر غصہ آتا ہے۔ پاگل ہیں سب کے سب۔۔۔ بدھو، بےوقوف، جبکہ سب کے سب جانتے ہیں سب کو بوڑھا ہونا ہے ایک دن۔ اگر بوڑھے ہونے سے پہلے مر نہیں گئے تو۔۔۔ پھر جب انہیں بھی ان کی ہی طرح عقیدت کے وار پر چڑھایا جائےگا تو؟ الّو کے پٹھے! باہر سے ہنستے ہنساتے آئیں گے اور ان کے سامنے آتے ہی پتھر بن جائیں گے۔۔۔ ہنسی، قہقہوں اور نگینوں کی باتیں ایسے رک جائیں گی جیسے عبادت گاہ میں، ہاتھ میں چپل لئے احترام سے داخل ہو رہے ہیں۔ بس یہاں تک۔۔۔ اس کے آگے ہماری اپنی آزادی کا شہر ہے اور اس شہر میں ہماری بےباک ہنسی ہے۔ زندہ دلی اور قہقہے ہیں اور عریاں مناظر کی نشیلی وادیاں ہیں۔۔۔

    عریاں مناظر۔۔۔ بوڑھی نسوں میں کھنچاؤ کے لئے کچھ تو چاہئے۔۔۔ شریانوں میں دوڑنے والے گرم گرم خون کے لاوے کو محسوس کرتے ہیں وہ۔۔۔ سب کی سب، آس پاس گھومتی لڑکیاں۔۔۔ ان کی بہو اور پوتیاں تو نہیں ہیں۔۔۔ پھر گرما گرم خیال کے تندور میں سینکی جانے والی روٹیوں تک ان کی پہنچ کیوں نہیں ہو سکتی؟ کیا جل جائیں گے وہ۔۔۔ یا ذہن کچوکے لگانے لگےگا کہ سالے بڈھے حرامی پن سے باز آ۔۔۔ دیکھ اپنی عمر۔۔۔ اس عمر کی تیری پوتیاں ہیں۔ بہو ہے۔ لڑکیاں ہیں۔۔۔ یہ سب ان کی سنسکرتی میں سمائی جھوٹی آستھائیں ہی تو ہیں۔۔۔ سب بھلا ایک کیسے ہو سکتی ہیں۔ بہو بہو ہے، غیر تو غیر ہیں۔۔۔ سب ایک ہوتے تو بھلا سمبندھ کیسے ممکن تھے۔ نہیں وپن لال۔۔۔ غلط اگر غلط ہوتا تو من میں وچار ہی کیوں اٹھتے۔ جب کنوارے پن میں یہ وچار آتے تھے تو سوچتے تھے چلو اب نہیں آئیں گے۔ نلنی آ گئی تو سوچا چلو ایک زندہ کتاب آ گئی ہے۔ کھیلنے، خوش ہونے کو۔۔۔ بستر سے سانٹھ گانٹھ رکھنے اور دوستی نبھائے جانے والے، بھٹکتے سلسلوں کو ایک منزل ضرور مل گئی۔۔۔ مگر منزل کہاں۔۔۔ خیالوں کی حسین آوارگی کی اپنی جنت ہے اور یہ جنت تو عمر کے ہر دور کو ذائقہ دار، لذیذ ترین کھانے کی طرح پسند ہے۔

    وقت گزرا۔ سال پر سال گزرے۔۔۔ انیل، وکاس اور لجو کے ساتھ ذمہ داریوں کی پتوار بھی سنبھالنی پڑی۔ مگر وہ بھٹکتے سلسلوں والی آوارگی کی حسین جنت۔۔۔ مسائل اور الجھنوں سے گھبرا کر وہ اس جنت کے اسیر ہو جاتے ہیں اور ایک ندامت بھرے لطف میں اپنی الجھنیں پیوست کر کے آزاد ہو جاتے۔۔۔ تین بچے۔۔۔ عمر کی ڈالی جیسے اچانک پھلوں سے بھر گئی اور جھک گئی۔۔۔ جھول گئی۔۔۔ پھل نہیں آئیں تو کہاں جھکتے ہیں پیڑ۔۔۔ بچوں میں پر پھوٹتے رہے اور بچوں میں پھوٹتے پروں، کو موٹی موٹی کتابوں سے بھرے تھیلوں کو دیکھتے دکھاتے بھی وہ اپنی نلنی میں جیتے ضرور تھے اور اپنی مخصوص دنیا میں بھی۔۔۔ جہاں گھر، بال بچوں کی فکر سے بے نیاز عریاں مناظر کی نشیلی نشیلی وادیاں ہوا کرتیں اور پھر جیسے پانی میں ایک پتھر چمکا۔۔۔ موجوں میں کچھ دیر ہلچل مچی اور ایک لہر ساری لہروں کو ملاتی ہوئی شانت اور غائب ہو گئی۔۔۔ وپن لال کو کچھ بھی برا نہیں لگتا۔۔۔ کہ اپنی گھر گرہستی کے بعد آوارگی کی اس حسین جنت میں داخل ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔۔ وہ کبھی جرم اور گناہ کے بہاؤ میں نہیں بہے۔ وہ اسے بھی ایک ضرورت مانتے تھے اور کبھی کبھی تو نلنی کے مچلنے پر مذاق میں کہہ دیتے۔۔۔

    ’’آج نہیں۔۔۔ ارے کیا بتاؤں۔۔۔ آج تو تمہاری دودھ والی یا وہ جو تر کاری سبزی بیچنے آئی تھی اس کے سنگ۔۔۔ یا مسز فلاں کے ساتھ۔۔۔ یا پڑوس کی نئی گورنس کے ساتھ خیالی سیر سپاٹے کو نکل گئے تھے۔ بس۔۔۔‘‘

    ’’بک۔۔۔‘‘ نلنی آنکھیں تریرتی تو وہ زور سے قہقہہ مار کر ہنس پڑتے۔ کبھی سناٹے میں جب سارا شہر سو جاتا، نلنی اس کے کھلے سینے کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی ہوئی پوچھتی۔۔۔

    ’’ایسا صرف تم کرتے ہو یا دوسرے مرد بھی۔۔۔‘‘

    ’’کیا جانوں۔ پر سب کرتے ہوں گے۔ کیوں، تم لوگ۔۔۔ تم لوگ نہیں کرتی ہو کیا؟‘‘

    نلنی خفا ہوتی تو وہ ہنستا ہوا کہتا۔ ’’نہیں اس میں برا ہی کیا ہے۔۔۔ رہنا تو ہم تم دونوں کو ساتھ ہی ہے۔ زندگی بھر۔۔۔ میں کسی دوسرے کے پاس تو نہیں گیا۔ کسی کے پاس پہلے تو تم جانے ہی نہیں دوگی۔ دوسرا احساس گناہ۔۔۔ بچپن سے کھونٹ کی طرف خود سے باندھا گیا احساس۔۔۔ پھر نلنی ذرا خود ہی سوچو۔۔۔ رہنا سہنا سب کچھ تمہارے ساتھ ہی ہے اور روز بس ایک سی یاترا۔۔۔ یہ یاترائیں بھی کچھ نیا چاہتی ہیں۔۔۔‘‘

    پھر وہ دیر تک ہنستا ہے۔۔۔ ’’بتاؤ۔ مت بتاؤ نلنی۔۔۔ پر تم لوگوں نے بھی ایسا کوئی راستہ ضرور نکالا ہو گا۔ لیکن تم عورت ہونا۔ پیٹ رکھنے والی۔۔۔‘‘

    وہ دیر تک ہنستے ہیں۔

    ولو ڈیئر۔ چلو سو جاؤ۔۔۔ نیند نہیں آ رہی تو ولیم فائیو لے لو۔۔۔ لیکن سو جاؤ۔۔۔ نہیں سوتا۔۔۔ کیا کر لو گے۔۔۔ بوڑھے کو خود پر جھلاہٹ ہوتی ہے۔ یوں بھی بستر پر لیٹ جانے کے بعد ہوتا ہی کیا ہے۔۔۔ ساٹھ سالہ زندگی کی ضخیم کتاب کھل جاتی ہے اور اس کتاب کے اتنے باب ہوتے ہیں کہ۔۔۔ اور کیسے کیسے باب۔۔۔ بھیانک، جذباتی، رنگارنگ۔۔۔ تب کی نلنی کا، ایک ایک رنگ انہیں یاد ہے۔۔۔ بچوں کی شادی تک یہ رنگ ان کے چہرے کو کیسا شاداب، ترو تازہ اور گرم رکھتا تھا۔۔۔ رات میں نلنی کا ملائم سا بدن بےخیالی میں ان کے بدن پر ایسے پسرا ہوتا کہ نیند کھل جاتی تو وہ بس زیر لب معصوم تبسم کے ساتھ اس منظر کو آنکھوں کے حسین فریم میں سجا کر زندہ کر لیتے۔۔۔ اور پھر صبح خوشبو کی طرح لہراتی تو نلنی چائے کی قلفی تھامے کھڑکی سے جھانک رہی چور، شرارتی شعاعوں کی طرح اسے گدگدانے، اٹھانے پہنچ جاتی۔۔۔

    ’’اٹھو۔۔۔ چائے پی لو۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ ابھی سونے دو، نا۔۔۔‘‘

    ’’ارے اٹھو۔ بچے کیا کہیں گے۔ تم دیر سے اٹھو گے تو بچو پر بھی برا اثر پڑےگا۔‘‘

    سپنا، ایسے ٹوٹتا ہے۔۔۔ بچے، برا اثر۔۔۔ اچھی بھلی زندگی اور زندگی کی رعنائیوں کو، بچوں کی خوشیوں کے آگے بھینٹ کیوں چڑھائی جاتی ہے؟ بچے بڑے ہو رہے ہیں۔۔۔ یہ مت کرو۔ وہ مت کرو۔ ساتھ مت سوؤ۔ کمرہ مت بند کرو۔ دیر تک بیوی کے ساتھ کمرے میں مت رہو۔۔۔ آخر کیوں بھائی۔۔۔ بچے آ گئے تو کیا ماں باپ کی زندگی کا سارا گلیمر ختم ہو گیا۔ ارے ان کی اپنی بھی زندگی ہے۔ حقیقت سے بھری زندگی اور یہ دو آنکھیں جو بچوں ہی کی طرح مسرت اور نت نئی لذتوں سے ہم آہنگ ہونا چاہتی ہیں۔۔۔ بڑھتی عمر کا مطلب یہ تو نہیں کہ ان سارے احساسات کو کچل دیا جائے۔۔۔ ارے کل کو ان کی بھی شادی ہو گی، ان کے بچے ہوں گے۔

    نلنی ان کی باتیں سن کر ہنستی ہے۔۔۔ ’’تمہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ خیالی بستی تو ہے ہی تمہارے پاس۔ گھومنے پھرنے کو۔ میرے سامنے مجھے بتائے بغیر بھی اتنی آزادی تو چھین سکتے ہو تم۔ خیالی بستی والیاں چلی تو نہیں گئیں۔‘‘

    ’’چلی گئیں۔‘‘ ان کو ہنسی آتی ہے۔ ’’وہ بھی بوڑھی ہو گئیں ہماری طرح۔۔۔‘‘

    ’’پھر۔۔۔ اب کیا کرتے ہو؟‘‘

    ’’اب نئی بستیاں آباد ہیں۔ وہ پڑوس والی اجیت کور ہے۔ شانتا منموہن ہیں اور وہ نتاشا۔۔۔‘‘

    ’’نتاشا۔‘‘ نلنی نے پہلی بار سچ مچ کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔۔۔ ’’تمہیں خبط ہو گیا ہے۔ وہ تمہاری لجو کی سہیلی ہے۔‘‘

    ’’لجو کی نا۔۔۔؟‘‘

    نلنی کی آنکھوں میں الجھنوں کی پھوٹتی چنگاریاں تھیں۔۔۔ ’’لجو تمہاری بیٹی ہے اور نتاشا تمہاری بیٹی کی عمر کی۔‘‘

    پہلی بار لگا، نلنی نے مذاق میں ہاتھ نہیں بٹایا۔ ہنسی میں ساتھ نہیں دیا۔۔۔ آنکھیں کسی نشتر کی طرح آنکھوں میں چھپے کسی بوالہوس بوڑھے کی ٹوہ میں ہیں کہ وہ بوڑھا سامنے دکھے تو اس کے ہوسناک تیور کی خبر لی جائے۔ وپن لال کی آنکھوں میں اسی دم اندر بسنے والا وہ خوش مذاق جوان ریت کے تودوں کی طرح گرتا، تڑپتا اور بےدم ہوتا ہوا دکھائی دیا۔

    نلنی سنجیدہ تھی۔۔۔ ’’یہ مذاق بہت ہو چکا۔ اب تمہیں ایسا۔‘‘

    کوئی پگھلا ہوا سیسہ ان کے کانوں میں انڈیل رہا تھا۔۔۔ ’’نہیں سوچنا چاہئے۔۔۔ کیوں کہ۔۔۔ کیوں کہ تم ایک بڈھے خرانٹ ہو۔۔۔ ایک جوان لڑکی کے باپ ہو۔۔۔‘‘

    انہیں احساس ہوا، مذاق ’’بچانے‘‘ والی عمر سے باہر نکل گئی ہے نلنی۔۔۔ جہاں اس کے چہرے کی جھریاں، اس کے چہرے پر بڑھتی عمر کی لکیروں سے زیادہ تجرباتی، مقدس اور عمر دراز ہو گئی ہیں۔۔۔ اتنی مقدس کہ اب یہ حسین آوارگی کے قصے، اس کے سخت ہوتے رخسار پر منقش نہیں کئے جا سکتے۔۔۔ نلنی میں ایک بوڑھی عورت آ گئی ہے۔ اس سے زیادہ عمر کی ایک بوڑھی عورت۔۔۔ جو ایسے مذاق پر انہیں گھور کر دیکھتی ہے۔۔۔ بچوں کی اونچ نیچ پر پھٹکار برساتی ہے۔ لجو کی الٹی سیدھی حرکتوں پر اسے بُری طرح جھڑکتی ہے اور۔۔۔‘‘

    بس، نلنی کی اس بڑھتی عمر سے پہلی بار خوف محسوس ہوا تھا انہیں۔۔۔ اور اپنے گرد ایک حصار کھینچ کر بیٹھ گئے تھے وہ۔۔۔ ہنسی قہقہوں کی باتوں کو دفتر سے واپس آتے ہی، سلانے لگے تھے۔۔۔ کتابوں میں، بچوں کے حال چال میں، ان کی پڑھائی کی رپورٹ میں۔۔۔ ملنے جلنے والے رشتہ داروں میں۔۔۔ اور یہ حصار دھیرے دھیرے وہ گھر باہر دفتر سب جگہ کھینچنے پر مجبور ہو گئے۔ کیونکہ اب لجو بیاہنے کو آ گئی تھی اور وہ رنگین مزاجی کے الزام سے بھی بچنا چاہتے تھے۔

    اس عمر میں اپنی ہی بنائی ہوئی سولی پر چڑھنے کا احساس بھی کم خوفناک نہیں ہوتا۔۔۔ وپن لال گھوم پھر کر نتاشا والی کہانی پر لوٹ آتے۔۔۔ ارے لجو کی دوست ہے تو کیا۔۔۔ وہ جان بوجھ کر تھوڑے ہی گئے تھے۔ خیالی بستی میں۔۔۔ اس عمر میں تو خود پر اتنی گرفت رہتی ہی کہاں ہے اور حرج ہی کیا ہے۔۔۔ نتاشا جب گھر آتی ہے تو بیٹی بیٹی کرتے ان کا بھی منہ نہیں دکھتا۔۔۔ تنہائی میں ضمیر اور اصول سے بھی تھانے دار کے سے انداز میں نپٹ چکے تھے وہ۔ قاعدے قانون اور مذہب کی پڑھی کتابیں بھی کھول کر تنہائی میں بڈھے کو ندامت کا احساس دلا چکے تھے۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ نلنی کی نظروں میں یہ جرم ثابت ہو چکا تھا۔۔۔ اب نتاشا آتی تو نلنی جیسے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جاتی۔۔۔ وہ کیا کر رہے ہیں۔ کہاں گئے ہیں۔ کہاں دیکھ رہے ہیں۔۔۔‘‘

    وپن لال سے برداشت نہیں ہوا تو وہ ایک دن غصّے میں برس پڑے۔ ’’میں نے تو مذاق کیا تھا۔‘‘

    نلنی گم سم سی انہیں دیکھتی رہی تھی۔ جیسے یقین اور بے یقینی کے بیچ کی کھائیاں ناپ رہی ہو۔۔۔ وہ اسے سمجھانا چاہتے تھے کہ نلنی۔۔۔ ہر ذہن کا اپنا ایک چور دروازہ ہوتا ہے۔ سب کا ہوتا ہے۔۔۔ تمہارا بھی ہوگا۔ خود کو ٹٹولو۔۔۔ تب جانو کہ یہ دروازہ عمر کے ہر پڑاؤ پر کھلا رہتا ہے۔ سوال تو صرف اس دروازے میں داخل ہونے کا ہے۔ اب دیکھو۔۔۔ اصول، قاعدے، قانونوں میں لپٹے ہم اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ اس دروازے میں جھانکنے، داخل ہونے سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ اب اگر اس چور دروازے میں اپنا بڑھاپا کچھ دیر کے لئے آرام کرنا چاہتا ہے تو۔۔۔ اسے روکو مت۔۔۔ ٹوکو مت۔۔۔‘‘

    لیکن غلط کون تھا۔۔۔ ہاں جو چور دروازہ کھلا رہ گیا تھا۔ وہاں سے سچ مچ کا ایک بڈھا ان کے اندر اتر آیا تھا۔ وقت کافی گزر چکا تھا۔ بچے کام دھام سے لگ گئے تھے۔ لجو کی شادی کی فکر تھی۔ سو اس کی شادی بھی خوب دھوم دھام سے کر دی۔ ہاں لجو کی بدائی کے بعد سچ مچ ٹوٹ گئے۔ آئینہ میں چہرہ دیکھا تو تھم سے گئے۔۔۔ لگا، سامنے ایک بوڑھا کھڑا ہے اور بوڑھے کے سامنے کھڑی ہے۔۔۔ اس کی موت۔۔۔ عمر، جو دن دن جوڑتی ہے اور کم ہوتی جاتی ہے۔۔۔

    ’’ہاں بوڑھا ہو رہا ہوں۔۔۔ ولو ڈیئر۔۔۔ چڑچڑے ہو کر انہوں نے خود کو ڈانٹا۔ لیکن یاد رکھو ولو۔۔۔ بوڑھا نہیں ہوں گا۔۔۔ نہیں ہوں گا۔۔۔

    بستر پر آئے تو آوارہ خیالوں کی آندھی چل رہی تھی۔ اس آندھی سے لڑتے ہوئے وہ سچ مچ ہانپ رہے تھے۔۔۔ تھوکتا ہوں تم پہ میں۔۔۔ آخ تھو۔۔۔ تم سڑے ہوئے آدمی ہو۔ کتے ہو تم۔۔۔ جیسے ضمیر کو ہوش آ گیا تھا۔ وہ خود سے لڑ رہے تھے۔ ہاں تھوکتا ہوں تم پر۔۔۔ جیسے چاروں طرف سے، اچھالی گئی تھوک سیدھے ان کے منہ پر گر رہی تھی۔۔۔ پہلی بار وہ جسمانی کمزوری محسوس کر رہے تھے۔ اس قدر کہ اب وہ میڈیکل چیک اَپ کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ ہانپتے ہوئے وہ نلنی کے کمرے میں آئے۔۔۔ نلنی کے پاس بیٹھنا چاہا تو وہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔

    ’’ایسے کیوں آ گئے۔۔۔ انیل، وکاس کوئی آ گیا تو۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ مجھے نہیں آنا چاہئے تھا۔‘‘ وہ کمزور آواز میں بولے۔ ’’مجھے سچ مچ نہیں آنا چاہئے تھا۔ اس لئے کہ تم بڑھاپے سے سودا کر چکی ہو۔‘‘

    پھر وہ وہاں رکے نہیں۔۔۔ اپنے کمرے میں واپس لوٹنے تک لگا، پہلی بار ان میں کوئی موج، کوئی ترنگ پیدا نہیں ہوئی تھی۔ دریا میں پتھر اچھالنے کے بعد بھی۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ ڈاکٹر سے رجوع کریں گے۔ کسی اچھے Sexologist سے۔ اب وہ مطمئن تھے۔ انہیں اپنے دوستوں پر حیرت ہوتی تھی۔ جو روگ کو بس ڈھوئے جاتے تھے۔۔۔ ندامت، بچوں کی بڑھتی عمر اور حیرت کے وزنی بوجھ سے دبے، گھٹ گھٹ کر اپنی زندگی ختم کر دیتے تھے۔ اپنی زندگی، جس کا بچوں اور بچوں کی زندگی سے الگ بھی ایک حسین اور انفرادی تصور ہے۔۔۔ بچے بھلا اپنی دنیاؤں سے ان بوڑھوں کے لئے کتنا وقت چرا پاتے ہوں گے اور ایک یہ ہوتے ہیں۔۔۔ بوڑھے لوگ۔۔۔ ’’موت‘‘ سوچتے سوچتے بچوں کے سامنے ختم کر دیتے ہیں۔ اپنی بے رنگ زندگی۔۔۔ اور سچ پوچھو تو سارا قصہ بس ڈاکٹر کے یہاں سے نکلنے کے بعد ہی شروع ہوا تھا۔

    وقت کی سوئیاں کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھیں۔ بچے اپنے اپنے حصوں کی ذمہ داریوں پر دستخط کر چکے تھے۔ اب ان کی اپنی دنیائیں آباد تھیں۔ ان کے سکھ میں ان کا حصہ اتنا بھر ہوتا کہ وہ بچوں سے خیریت پوچھ لیتے۔۔۔ منا کیسا ہے۔ بہو کی طبیعت کیسی ہے۔ ڈاکٹر نے کیا کہا۔۔۔ ایسے میں وہ نلنی کو دیکھتے۔۔۔ وہ بجھی بجھی سی ہوتی۔ نہیں بجھی نہیں۔ اپنے آپ میں سمٹی۔۔۔ اپنی عمر سے تھکی۔ وہ جیسے ابھی سے موت کو سمرپت تھی۔ بچوں کے بچوں میں الجھی اور کھوئی کھوئی۔۔۔ نلنی وکاس کی بچی اشونی کے ساتھ چھوٹی دالان میں سوتی تھی۔ چھوٹی سی کوٹھری۔ عمر نے یہ بھی کرشمہ کیا تھا کہ اب وہ اوپر کے دالان میں سوتے تھے۔ نلنی کی کوٹھری میں ایک چھوٹا سا مندر بھی تھا اور ان کا اپنا کمرہ کتابوں سے بھرا ہوا۔۔۔ موت کے بارے میں ان کا اپنا الگ نظریہ تھا۔۔۔ جیسے وہ سوچتے تھے کہ جو چیز ابھی نہیں ہے اس کے بارے میں زیادہ کیوں سوچا جائے۔۔۔ ہو سکتا ہے۔ باقی بچی زندگی میں ایک لمبی زندگی چھپی ہو۔۔۔ تو اس باقی بچی زندگی کو اداس، بے رنگ کیوں کیا جائے۔ وہ باقی بچی زندگی کو پنیہ کمانے کے ڈھونگ سے الگ رکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے خوب پڑھتے تھے۔

    وہ سمجھتے تھے، میڈیکل چیک اَپ ہونا ضروری ہے۔۔۔ Sex ایک ضروری چیز ہے۔۔۔ ہاں، یہ الگ بات ہے کہ کہیں شادی کے بعد، ایک سمجھوتہ کر لینا پڑتا ہے۔ اندر حرارت تو ہونی چاہئے تھی۔۔۔ تمازت اور حرارت کہ اپنے مرد ہونے کا احساس بنا رہے۔۔۔ آخر بوڑھوں کو یہ حق، حاصل کیوں نہیں ہے۔ Sexologist کے یہاں سے نکلے تو انیل کے دوست ومل سے ملاقات ہو گئی، جو آنکھیں ترچھی کر کے طنز بھری نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں کسی کی بھی بےجا مداخلت کو پسند نہیں کرتے تھے۔

    لیکن اس دن وہی ہوا جو انہوں نے پہلے سے سوچ رکھا تھا۔ شام کو دفتر سے آ کر انیل نے ٹوکا۔

    ’’بابوجی۔۔۔ آپ ڈاکٹر اشوک کے پاس گئے تھے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’لیکن وہ تو۔۔۔‘‘ انیل کہتے کہتے ٹھہر گیا۔

    ’’Sexologist ہے۔۔۔‘‘ ان کی آواز نپی تلی تھی۔

    ’’ہاں وہی تو۔۔۔ مجھے حیرت ہوئی‘‘ ۔۔۔ انیل اپنے کمزور لفظوں سے پریشان تھا۔ یا شاید باپ کے سامنے کچھ اس طرح کے اظہار کے لئے لفظ نہیں جٹا پا رہا تھا۔۔۔

    ’’آخر آپ وہاں۔۔۔؟‘‘

    اس نے نظریں نیچی کر لیں۔

    وپن لال نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ ’’کچھ پرابلم تھی اس لئے۔۔۔‘‘

    ’’کوئی پرابلم تھی تو مجھے بتاتے۔۔۔ میرے کئی ڈاکٹر دوست جاننے والے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں پرابلم کچھ دوسری طرح کی تھی۔‘‘

    انہوں نے دیکھا۔۔۔ انیل نے کچھ سمجھنے کے لئے آنکھیں ملانے کی کوشش کی۔ مگر ان آنکھوں کا درجہ حرارت کچھ اتنا زیادہ تھا کہ وہ تاب نہ لاسکا اور خفگی اوڑھے اپنے کمرے میں لوٹ گیا۔۔۔ رات میں کھانا لگا تو انہوں نے دیکھا، انیل کتنی ہی بار چور نگاہوں سے اس کا جائزہ لیتا رہا۔۔۔ جیسے پس و پیش میں ہو۔ آخر بابوجی کو۔۔۔ ایک کشمکش ان کے اندر بھی چل رہی تھی۔ زندگی کے اتنے پڑاؤ میں کبھی اس طرح کے بے جا سوال سے ان کا واسطہ نہیں پڑا تھا۔

    آخر بچے سمجھتے کیا ہیں۔۔۔ Sexologist کے یہاں جانے میں برائی ہی کیا ہے۔۔۔ آخر اس عمر میں اپنے جذبات کو سلانے کا اپدیش گیتا کے کس ادھیائے میں دیا گیا ہے۔۔۔؟ نہیں۔۔۔ وہ اپنے طور پر مطمئن تھے۔ کھانے سے فارغ ہو کر انگریزی کی جاسوسی کتاب لئے دیر تک پڑھتے رہے۔ خیالوں میں خون کا گرما گرم رقص جاری تھا۔ انہیں اپنی دنیا کو مایوس اور پیروں فقیروں کی دنیا بنانے سے سروکار نہیں تھا۔۔۔ وہ اس عمر میں بھی زندگی کی تمام رعنائیوں اور دھڑکنوں کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ ٹھیک اپنے جوان بچوں کی طرح۔۔۔ اور وہ اپنے آپ سے پوری طرح مطمئن تھے۔

    ڈاکٹر کی دوائی نے اثر دکھایا تھا۔ وقتی طور پر جو کمزوری اور تھکان ان کے اندر پیدا ہوئی تھی وہ کسی قدر دور ہو گئی تھی۔ دو چار روز میں ہی وہ خود کو پہلے سے بہت اچھا محسوس کر رہے تھے۔ انہیں انیل سے زیادہ اپنے معاشرے میں بوڑھوں کے لئے پیدا کئے جانے والے احساس سے شکایت تھی۔ اچھا برا دیکھنے اور سمجھنے کی نگاہ نے ہی نلنی اور انہیں تقسیم کر رکھا تھا۔۔۔ ایسا نہیں ہے، ان کے کئی دوست اپنی بیویوں کے ساتھ آج بھی سوتے تھے۔۔۔ مگر اس معاملے میں نلنی ہی کچھ زیادہ دھارمک اور دقیانوسی ثابت ہوئی تھی۔۔۔ یا پھر بڑھتی عمر اور بچوں کو کھلانے والے احساس نے اسے کسی گمراہ کن مغالطے میں ڈال رکھا تھا۔۔۔ پرانی کتابوں کے پنوں سے ’’جل کمبھیوں‘‘ کی طرح ملائم اور ریشم جیسی نلنی نے سر نکالا تو وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ اب تو نلنی کو دیکھے ہوئے بھی مدت ہو جاتی ہے اور جب سے نلنی نے نیچے اکیلے سونا شروع کیا ہے تو جیسے ان کی دنیا ہی بدل گئی۔۔۔ اب پوچھتی تک نہیں کہ چائے ملی یا نہیں؟ چائے میں کتنی شکر لو گے۔۔۔ دنیا کیوں بدلتی ہے ولو ڈیئر؟

    وہ خود سے پوچھ رہے تھے۔۔۔ بدلتی اس لئے ہے ڈیئر کہ تم دنیا کو اپنی نظروں میں اداس اور بےرنگ کر دیتے ہو۔ جیسے نلنی نے۔۔۔ جیسے اس نے اب تمہارے ذکر تک کو چھوڑ دیا ہے۔ پہلے بستر کی سلوٹوں پر ہاتھ پھراتی تھی۔ ہولے ہولے اور خمار آلود آنکھوں سے صبح صبح، چائے کی قلفی لے کر آتی تھی۔۔۔ وہ رومانی قصّے، بڑھتی عمر کی جھریوں میں کیوں چھپ گئے۔۔۔؟ اس لئے کہ بچوں کی دنیا حسین بنانے کے پیچھے تم اپنی دنیا کو بھول گئے۔۔۔

    نہیں۔۔۔ اس دنیا کو زندہ کرنا ہو گا۔۔۔!

    وہ ایک مضبوط فیصلے کے تحت کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوئے۔ دروازہ کھولا۔ جذبات کی گرمی نے ان کے اندر کے تندور میں آگ لگا دی تھی۔ نلنی کے کمرے تک گئے۔۔۔ کمرہ ہلکا سا بھڑا ہوا تھا۔۔۔ انہوں نے دروازے کو آہستہ سے کھولا۔۔۔ سامنے نلنی وکاس کی بچی اشونی کو جھری بھرے بازوؤں میں دبائے بےفکر خراٹے بھر رہی تھی۔۔۔ سینے سے آنچل ڈھلکا ہوا تھا۔ ٹخنوں تک ساڑی اٹھ گئی تھی۔ کچھ بھی ہو وہ اس منظر کو جو ان احساس کے سہارے دیکھنا چاہتے تھے۔۔۔ ہاں جو ان احساس کے سہارے اور گرم گرم انگاروں پر چلنا چاہتے تھے۔۔۔ وہ جی بھر کر دیکھتے رہے۔۔۔ لیکن وہ اس طرح کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ کسی اجنبی لڑکی کو، خواہ وہ نتاشا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ گھورتے تو کوئی بات بھی تھی۔۔۔ مگر وہ عورت جو چالیس برسوں تک پل پل ان کے پاس رہی۔۔۔ جس کے جسم کے ہر حصے، ہر سرد و گرم کو بخوبی پہچانتے ہیں۔۔۔ وہ اسے اس طرح۔۔۔ اچانک وہ ٹھہر گئے۔۔۔ جیسے برف کی سلیوں میں، اچانک گرم گرم آتشدان سے نکلی سرخ لوہے کی تیلی پیوست کر دی گئی ہو۔۔۔ اور گرم گرم بھاپ سے برف پگھلی ہو۔۔۔ اندر تک۔۔۔ اور گرم تیلی برف میں گھستی چلی گئی ہو۔۔۔ انہوں نے محسوس کیا۔ ہاں نلنی میں ابھی گرمی باقی ہے۔۔۔ اور بچوں کے

    ڈر سے اپنی بزدلی کی جھریوں میں، وہ اس گرمی کو پی کر بھول گئی تھی۔۔۔

    دوسرے دن کھانے پر انہوں نے فیصلہ کن انداز میں وکاس سے کہا۔

    ’’اشونی کو آج سے اپنے پاس ہی سلاؤ۔‘‘

    بہو نوالہ لیتے لیتے ٹھہر گئی۔۔۔

    ’’اماں کو کچھ پریشانی ہے کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ وہ دھیرے سے بولے۔ ’’مجھے پریشانی ہے۔‘‘

    ’’بابو جی۔۔۔ دراصل مجھے دقت ہو جاتی ہے۔ صبح میں دفتر جلد جانا پڑتا ہے۔‘‘

    وکاس بےچارگی سے انیل کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔

    بہو دھیرے سے بولی۔۔۔ ’’کمرے میں مچھر زیادہ ہیں۔ اماں کو وہاں آرام نہیں ہے کیا؟‘‘

    انیل نے کچھ شک سے ان کی طرف دیکھا۔۔۔ ’’اماں آج کل زیادہ کھانسنے لگی ہیں اس وجہ سے تو نہیں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ لقمہ ہاتھوں میں لے کر انہوں نے انیل وکاس اور دونوں بہوؤں کو دیکھا۔۔۔ ’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘

    انیل اور وکاس اب بھی حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔ وہ جیسے اندر ہی اندر ڈھہ رہے تھے۔

    ’’آخر بوڑھے آدمی کو بوڑھی بیوی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔۔۔ تم کیا سوچتے ہو میں نہیں جانتا۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ تم میرے یا ہمارے بارے میں کیا سوچ سکتے ہو۔۔۔ تم نئے زمانے کے ہو۔۔۔ وہ ذرا طنز سے بولے۔۔۔ ’’ماں باپ کے بارے میں یا یوں بھی اچھا برا کچھ بھی سوچنے کی نیتک ذمہ داری تمہاری ہے۔۔۔ رہی ہماری بات۔۔۔ کئی دنوں سے سوچ رہا تھا۔ تم لوگوں سے پوچھوں۔ ایک آدمی کنبہ میں بوڑھا ہو جاتا ہے تو تم یہ کیوں سوچتے ہو کہ وہ ابھی مر جائےگا۔۔۔ یا اس کے مرنے میں بہت کم دن باقی ہیں۔ ایسا تم پورے وثوق سے کیسے سوچ سکتے ہو۔۔۔؟‘‘

    انیل نے شک کی حالت میں انہیں ٹٹولا۔۔۔ ’’میں سمجھا نہیں بابوجی۔‘‘

    ’’سمجھوگے بھی نہیں۔۔۔‘‘ انہوں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔۔۔ اس لئے کہ تمہاری ماں اور ہم میں سے کسی کے بارے میں ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ ہم بس مرنے والے ہیں۔۔۔ اور جب مرنے والے نہیں ہیں تو ساتھ رہیں گے اور رہی ضروری بات۔۔۔ تو رات برات ہم دونوں کو اٹھنے میں تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ بڑھاپے میں پتی پتنی ایک دوسرے کے لئے سہارا ہوتے ہیں۔‘‘

    انہوں نے دیکھا۔ اس آخری جملے سے انیل اور وکاس کے چہرے پر پڑی ہوئی کائی چھٹی تھی۔ گو اب بھی ان کے چہرے بنے ہوئے تھے: جیسے اندر ابھی بھی اتھل پتھ مچی ہو۔۔۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔ باہر دروازے کے پاس نلنی اشونی سے کھیل رہی تھی۔

    رات ہو گئی۔ انہیں لگا جیسے کسی پراسرار طلسم کو توڑتے ہوئے وہ خواب کی دنیا میں واپس آ گئے ہوں۔ شاید برسوں بعد۔۔۔ برسوں بعد نلنی کے جھّری بھرے بدن کی ٹھنڈی آگ چیخی تھی۔ وہ آج بڑھاپے کے احساس کو ایک دم سے بھلانے پر تلے تھے۔۔۔ انہوں نے نلنی کو چھیڑا بھی۔ گدگدایا بھی۔ موج میں آئے تو شرارت سے کمرے میں دوڑایا بھی۔۔۔ جیسا کہ وہ شادی کے وقت تھے۔۔۔ وہ بالکل بچہ بن جانا چاہتے تھے۔۔۔ جیسے نلنی کوئی شہزادی ہو اور شہزادی دیو کے قلعے میں قید ہو۔ وہ نلنی کو اس قید سے کسی شہزادے کی طرح چھڑا کر لائے تھے اور اس فتح کا بھرپور جشن منایا چاہتے تھے۔ وہ موج میں تھے۔ کبھی چٹکلے سناتے۔ نلنی زور سے ہنستی تو انہیں اچھا لگتا۔ انہوں نے پوچھا۔

    ’’اتنے دنوں تک چپ کیوں رہیں؟‘‘

    نلنی ہنسی۔ ’’بچوں میں یاد ہی نہیں رہا کہ ہماری بھی۔۔۔‘‘ وہ اٹک سی گئی۔ ’’اب تمہاری طبیعت کیسی رہتی ہے؟‘‘

    ’’بالکل چنگا۔‘‘ وہ ہنسے۔

    ’’نہیں دبلے ہو گئے ہو۔۔۔ نلنی کے چہرے پر اداسی تھی۔ غلطی میری بھی تھی۔ تمہاری فکر کرنی چھوڑ دی تھی۔۔۔‘‘

    وہ اس کی ذات پر بچھ جا رہے تھے۔۔۔ جیسے پہلی بار، پہلی رات نلنی کو آغوش میں بھرنے کے لئے انہوں نے پلنگ پر پھول سجائے تھے۔۔۔ نلنی کے استقبال کے لئے وہ ان خوشبوؤں کو نلنی کے جسم سے دوبارہ بولتے ہوئے سننا چاہتے تھے۔۔۔ وہ جیسے گہرے نشے میں ڈوب رہے تھے۔۔۔

    ’’سو جاؤ نلنی۔۔۔ مجھے نیند آ رہی ہے۔ سنو۔۔۔ اپنا مندر یہیں لے آنا۔۔۔ ارے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ میری لائبریری، وہ ہنسے۔۔۔ وہ تو اس طرف ہے۔۔۔ تم دن بھر مندر میں رہنا۔۔۔ میں کتابوں میں۔۔۔‘‘ وہ ہنس رہے تھے۔ مگر اب آنکھوں میں غنودگی لہرا رہی تھی۔ سو جاؤں؟

    ہاں سو جاؤ۔۔۔ ’’نلنی نے مسکراتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھا۔‘‘

    ولو ڈیئر۔۔۔ وہ اپنی فتح پر نثار ہو رہے تھے۔۔۔ ولو ڈیئر، بچے بیوقوف ہوتے ہیں جو یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ایک دن بوڑھے جاگ سکتے ہیں۔ تمام بوڑھے جاگ سکتے ہیں۔ نلنی پاس میں لیٹ گئی۔ نیند نے ان پر بُری طرح حملہ کر دیا تھا۔ وہ گھوڑے بیچ کر دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو کر سو گئے تھے۔

    صبح ہو گئی۔۔۔ جیسے وہ ایک دم سے چونک گئے۔۔۔ کوئی ہولے ہولے ان کا سر سہلا رہا تھا۔

    ’’چائے!‘‘

    انہوں نے نظر گھمائی۔۔۔ نلنی کھڑی تھی۔۔۔ کچھ دیر کے لئے وہ ایک دم چونک گئے۔ یہ نلنی شادی کے فوراً بعد والی نلنی سے بالکل الگ نہیں لگ رہی تھی۔۔۔ وہ زیر لب مسکرائے۔۔۔ نلنی میز پر چائے کی قلفی رکھنے کے بعد سامنے سے کھڑکی کا پردہ ہٹا رہی تھی اور دھوپ چھن چھن کرتی ہوئی کمرے میں اتر رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے