چٹانوں پر سہ پہر کی سنہری دھوپ پھیل چکی تھی۔ پہاڑی گھاس کے چھوٹے چھوٹے تختوں میں کیڑے پھدک رہے تھے۔ پاس کے ایک چھوٹے درخت کی سب سے اونچی شاخ پر ایک کوا مسلسل چیخ رہا تھا۔
دور سے ناہموار راستوں پر اچکتا پھلانگتا ایک بوڑھا راستہ میں کچھ تلاش کرتا چلا آ رہا تھا۔
بوڑھا کچھ دور چلتا پھر جھک کر دیکھتا اور پھر چلنے لگتا تھا۔
اس کی کمر پر چمڑے کے تسمہ سے ایک تھیلا بندھا ہوا تھا۔ داہنی طرف بھی ایک تھیلا لٹک رہا تھا۔ سر پر دہقانوں جیسی ایک پگڑی تھی۔ جسم کے اوپری حصہ پر ایک میلی سی صدری تھی۔ نچلے حصہ میں ایک بڑے گھیر کی شلوار جس کے ٹخنوں میں دو پیوند لگے تھے جو جیب کا کام بھی دے رہے تھے۔ اس کے اندر کچھ کھڑبڑاہٹ ہو رہی تھی۔
اس کے داہنے ہاتھ میں ایک سیاہ چمکدار ٹیڑھی سی لکڑی تھی۔ بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں بہت سی انگوٹھیاں پھنسی تھیں۔ جن پر عجیب ڈراؤنی سی شکلیں بنی تھیں۔ دونوں ہاتھ کی کلائیوں میں فیروزی رنگ کی تسبیح نما مالائیں پڑی تھیں۔ ایسی ہی ایک سیاہ دانوں کی مالا اس کی گردن میں بھی تھی۔ جس کے درمیان میں دو تصویریں لٹک رہی تھیں۔ ایک جانور کچھ سور سے مشابہ تھا۔ دوسرا بلی یا بڑا نیولا معلوم ہو رہا تھا۔ ہار کے ایک حصہ میں ایک پرانی نعل اور ایک جگہ کسی پرند کا سیاہ پر لگا ہوا تھا۔
بوڑھا ایک نظر زمین پر ڈالتا اور مطمئن انداز میں سامنے دیکھتا ہوا بڑھتا چلا آ رہا تھا۔
گھاس کے تختوں میں چھپے ہوئے کیڑے اس کی آہٹ پر پھدک کر دور چلے جاتے تھے۔ بوڑھے کے سر پر بہت سے مچھر چکر لگا رہے تھے۔
کوا اسے دیکھتے ہی اور زور سے چیخنے لگا۔ کبھی بے چین ہوکر درخت کی سب سے اونچی شاخ پر بیٹھتا اور کبھی درخت کے آس پاس چکر لگانے لگتا۔ پھر شور مچاتا درمیانی شاخوں تک آتا اور اچانک ہی فضا میں تیرتا ہوا چیخنے لگتا۔
دور سے ایک بادامی رنگ کا کتا بھونکتا ہوا ادھر ہی آرہا تھا۔ جیسے ہی وہ بوڑھے کے پاس پہنچا یک دم ٹھٹھک گیا۔ کچھ ثانیوں تک آنکھیں میج کر بوڑھے کو دیکھتا رہا۔ پھر ہلکی سی بف کر کے جدھر سے آیا تھا اسی طرف بھاگ نکلا۔
اس تمام وقفہ میں بوڑھا بڑھتا چلا آ رہا تھا اور کوّا اسی طرح چیخ رہا تھا۔
جب بوڑھا درخت کے نزدیک آ گیا تو بے چینی سے زمین پر کچھ تلاش کرنے لگا۔ پھر درخت کے نیچے آکر ٹھہر گیا۔پھر پشت سے تھیلا اتارکر وہیں بیٹھ گیا۔ بغل والا تھیلا اب اسی سیاہ لکڑی پر رکھا تھا اور پگڑی اس کے زانوں پر رکھی تھی۔ وہ خاموشی سے اپنی شلوار میں کچھ تلاش کرنے لگا۔ پھر تھیلے سے کچھ نکال کر چبانے لگا۔ اس کے بعد ایک بوتل نکال کر اس کا سیال پینے لگا۔
اوپر والی شاخ سے کوّا بوڑھے کو دیکھ رہا تھا۔ گھاس میں چھپے کیڑے اب آہستہ آہستہ بوڑھے کی طرف رینگ رہے تھے۔
اچانک درخت کی اندھیری شاخوں میں حرکت ہونے لگی۔ بوڑھا چونک کر اوپر دیکھنے لگا۔
کوا چیختا ہوا فضا میں تیر رہا تھا۔
کک۔ کون۔ کون ہو تم؟ بوڑھا شاخ بہ شاخ نیچے ہوتے ہوئے وجود کو دیکھ کر بولا۔
وہ سایہ اب درخت کی سب سے نچلی شاخ پر آکر رک گیا تھا۔
بابا۔ مجھے بہت زور سے پیاس لگی ہے اور بھوک بھی۔
بوڑھے نے ایک لمحہ اس لڑکی کو دیکھا پھر سر ہلاتا ہوا اپنے تھیلوں پر جھک گیا۔ ایک تھیلے سے اس نے کچھ ٹکڑے نکالے۔ دوسرے تھیلے سے بوتل نکال کر اس شاخ سے لپٹی ہوئی لڑکی کو تھما دی۔
لڑکی نے جلدی سے دو تین ٹکڑے منھ میں ڈالے اور بغیر کچلے ہوئے انھیں نگلنے لگی۔ جب آنکھوں سے پانی بہنے لگا تو بوتل سے سیال اپنی حلق میں انڈیل لیا۔ پھر اپنی ابکائی کو روکنے کے لئے د رخت سے چمٹ گئی۔
بابا یہ ٹکڑے کتنے خشک کڑوے اور بدبودار ہیں اور سیال سے بھی عجیب سی بدبو آ رہی ہے۔ جیسے بوچڑخانہ سے ٓاتی ہے۔
بوڑھا خالی خالی نظروں سے لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔
کوّا سامنے کی چٹان پر بیٹھا خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔
گھاس کے کیڑے رینگتے رینگتے بوڑھے کے سامان میں گھسے جا رہے تھے۔
دور ایک چٹان کی آڑ میں وہ پہلا والا بادامی کتا پانچ اور کتوں کے ساتھ بڑے غور سے بوڑھے کو گھور رہا تھا۔ سب کے روئیں کھڑے تھے۔ رہ رہ کر چاروں طرف دیکھ بھی رہے تھے۔
بوڑھے نے لڑکی سے پوچھا۔ بیٹی تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟ یہاں پہاڑی پر کیوں بیٹھی ہو؟
لڑکی نے زور سے ابکائی لی اور سرخ سرخ گوشت کے سالم ٹکڑے سرخ قے کے ساتھ باہر نکل پڑے۔ وہ تھوڑی دیر تک اوع اوع کرتی رہی۔ پھر دامن سے منھ خشک کر کے دانتو سے زبان کھرچ کھرچ کر تھوکنے لگی۔
بوڑھا سوالیہ انداز میں اسے دیکھ رہا تھا۔
لڑکی نے پوچھا۔ بابا پانی نہیں ہے؟
بوڑھا خاموش رہا۔
لڑکی نے کہا۔ میں شہر دخانیہ کی شہزادی ہوں۔
شہر دخانیہ۔ وہ تو بہت دور ہے۔ بوڑھے نے حیرت کا اظہار کیا تو لڑکی رونے لگی۔
ہاں با با۔ (وہ بڑبڑانے لگی) کیا انجام ہوگا۔ کیا انجام ہوگا۔ کیا اس سے کچھ مختلف جو میرے اہل شہر کا ہوا۔
بوڑھا اب بھی خاموش رہا۔
لڑکی بڑبڑاتی رہی۔ ہمارے پاس کوئی ایسا عمل ہوتا کہ ہم مستقبل کے بارے میں جان کر قدم اٹھا سکتے۔ کیا ہم ہمیشہ تاریکی کو نور فرض کرتے رہیں گے۔ پھر وہ بوڑھے سے مخاطب ہوئی۔ بابا۔ کیا تمام موجود کا وجود صرف ہمارے فرض کر لینے سے ہے۔ ورنہ موجود واقعی موجود نہیں ہوتا۔
بوڑھا اب بھی خاموش رہا۔
تو کیا جب ہم نہ ہوں گے تو بھی کسی کے فرض کر لینے سے موجود ہو سکتے ہیں اور وہ درختوں سے لپٹی ہوئی پرچھائیاں جنہیں ہم مفقود سمجھ چکے ہیں۔ پھرموجود ہوں گی؟
پرچھائیاں؟ بوڑھا حیرت سے لڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔
ہاں با با۔ پرچھائیاں۔
وہ شہر پرچھائیوں کا تھا۔ سارا دن پرچھائیاں موجود رہتیں۔ لیکن رات ہوتے ہی ان سب کی آنکھوں، کان اور ناک سے گاڑھا کثیف، سیاہ دھواں خارج ہونے لگتا۔ جس کا سلسلہ کئی گھنٹوں تک رہتا اور سب سکون سے بیٹھے دھوئیں کا اخراج کرتے رہتے۔ پھر اپنے قریب کسی درخت، کسی ستون اور برج سے چپک کر رات بسر کر لیتے اور صبح ہوتے ہی وہ سب پھر اپنے قالب میں واپس آنے لگتے۔ یہاں تک کہ دوپہر دن گزر جاتا۔
اچانک ہم میں سے ایک، ایک دن چیخ پڑا۔
دوڑو۔ تیار ہو جاؤ۔ کہ آج یوم جمعہ ہے۔ دجال اپنی اکلوتی آنکھ لیے نمودار ہوگا۔ اس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں شہد بھری ہوئی روٹیاں ہوں گی۔ اب ہمارا بین الممالکی دور ادبار آ چکا ہے۔ اس لیے کہ آفتاب، وہ دیکھو، سوا نیزی کی طرف مائل ہے۔ ہاں۔ ہوکے رہےگا ظہور، چمکے گی پھر برقِ طور، یاغری۔ ی ب۔ نوا۔ آ۔ آ۔ آز۔ ہوں گا۔ ہے کرم۔ کرم نگاہِ کرم۔ کرم نگا۔ یقین نہ ہو تو دیکھ لو۔ آج ابھی سے گاڑھا سیاہ دھواں سرسوں کے پھولوں پر محیط ہے کہ نہیں؟ ہم سب خوف کے بادل سے بھیگتے ہوئے سرسوں کے پودوں کی تلاش میں نکل پڑے کہ شاید واقعہ۔۔۔ لیکن درمیان میں ہی رات آ گئی اور ہم سب اپنی اپنی جگہ ٹھہر کر اپنے مسامات سے دھواں خارج کرکے درختوں سے لپٹ گئے۔
اسی رات تیسرے پہر کی نوبت بجے خاصی دیر ہو چکی تھی کہ اچانک شہر کے ایک حصہ سے کھڑکھڑ کی آواز ابھری۔ پھر گھنگھرؤں کی آواز آئی۔ چھن چھنن اور ہمیں لگا کہ بہت سے تارے فضا میں کوندے۔ لپکے اور سمٹ کر غائب ہو گئے۔ کچھ ہی لمحوں بعدبہت سی خواب آمیز سسکیاں ابھرنے لگیں۔ ذرا ذرا سے وقفہ کے ساتھ تمام رات یہ ہنگامہ جاری رہا۔
صبح جب ہم سب متشکل ہونے لگے تو یہ دیکھ کر ہم سب اپنی بےساختہ چیخوں کو نہ دبا سکے کہ۔۔۔
ہم میں سے بہت۔ اب ہم میں نہیں ہیں اور بہت سے ساتھی۔ بریدہ۔۔۔ حیران و پریشن ہمارے گرد و پیش نظریں دوڑا رہے ہیں۔ جیسے وہ اپنی کچھ اشیا ہم میں تلاش کر رہے ہوں۔ ان میں کسی کے صرف ایک کان ہے۔ کسی کے دونوں نہیں۔ کسی کا ایک ہاتھ غائب ہے کسی کے دونوں۔ کسی کی ایک ٹانگ ہے۔ کسی کے کمر سے نچلا حصہ غائب ہے۔ کسی کا صرف کمر کے نیچے کا حصہ موجود ہے۔ کسی کا سر غائب ہے۔ کسی کا آدھا سر لگا ہوا ہے۔
ہمیں بعد میں محسوس ہوا کہ ہم سورج بلند ہو جانے تک مسلسل چیختے رہے ہیں۔ جب دوپہر ہونے لگی تو سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ بہت سے بریدہ جسموں کے مالک اپنے ادھورے پن کے ساتھ ہمیں دیکھتے۔ ہمارے ساتھ ساتھ گھومتے رہے۔ تنگ آکر ہم رات کا انتظا رکر نے لگے۔ خوفزدہ اور بےچین انتظار کیا۔ یہ سب یوں ہی رہیں گے یا ان کے باقی ماندہ اعضا وہی عمل دوہرا سکیں گے۔ یعنی دھوئیں کا اخراج کر کے ہی شب بسری کریں گے۔
رات ہوتے ہی جب ہمارے اعضا دھواں اگلنے لگے تو ہم چیخ چیخ کر پراگندہ ہو گئے۔ اس لئے کہ وہ سب بریدہ لوگ اسی طرح کھڑے حیرت سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے اور ان کے اعضا رات کی سیاہی میں دمادم چمک رہے تھے۔ ہم سب نے اسی ہیجان میں رات کے دوپہر گزار دیے۔ تیسرے پہر کی نوبت بجتے ہی اچانک شہر کے مختلف حصوں سے پھر وہی کھڑکھڑاہٹ گونجنے لگی۔ گھنگھرو بجنے لگے اور اسی طرح وقفوں کے ساتھ روشنی کے جھما کے ہونے لگے۔ پھر ایسا لگا جیسے سارا شہر مل کر بآواز بلند سانس لے رہا ہو۔
ہم سب گڑگڑاکر نہ جانے کیا دعائیں کرنے لگے۔ سنسناہٹ گھنگھرؤں کی آواز اور روشنیوں کے جھماکے سارے شہر کا گشت لگا رہے تھے۔ دبی دبی سسکیاں ہمارے ارد گرد حصار بنا رہی تھیں۔
اچانک ایک قریبی درخت کی طرف ایک بہت طویل و عریض شے لپکتی ہوئی نظر آئی۔ سیاہ و پر اسرار۔ سنسناہٹ کے ساتھ ہی گھنگھرو بھی بڑھتے چلے آ رہے تھے۔ درخت کے پاس آکر ایک دم وہ شے نیچے کی طرف جھپٹی۔ گھنگھرو بھی بڑھتے چلے آرہے تھے۔ درخت کے پاس آکر ایک دم وہ شے نیچے کی طرف جھپٹی۔ گھنگھرؤں میں شور اٹھا اور روشنیوں کے بہت سے جھماکے ہوئے۔ پھر ایک ساتھ بہت سی سسکیاں ابھریں۔ ہم نے دیکھا کہ وہ سیاہ و پراسرار شے گھسٹتی ہوئی ایک دھبہ کی طرح دور ہوتی جا رہی ہے۔
تھوڑی دیر بعد جب ہم اپنے اعصاب کو قابو میں لاکر دیکھنے کے قابل ہوئے تو دور اندھیرے میں ویسے ہی بہت سے بریدہ جسم چمک رہے تھے اور بےچینی سے ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔
ہم صبح کی آمد کے لئے منتیں ماننے لگے اور صبح اپنے اپنے قالب میں لوٹتے ہوئے سب ہی دعا خواں ہو گئے کہ اب ہمارے شہر میں کبھی کوئی رات نہ آئے۔
سارا دن ہم تحفظ کے بارے میں صرف سوچتے رہ گئے اور پھر شام آگئی۔ ہم نے پوری کوشش کی آج ہم اپنے عمل کو روک سکیں۔ یعنی دھوئیں کا اخراج ہی نہ ہو۔ تاکہ ہم پرچھائیں بن کر درختو ں سے لپٹنے پر مجبور نہ ہوں اور اس ہیبت ناک سیاہ دھبے کو پھر نہ دیکھنا پڑے۔ تاکہ ہم خوف زدگی کے اس نیلے دریا سے باہر آ سکیں۔
لیکن شام ہوتے ہی دھوئیں کا اخراج ہونے لگا۔۔۔ اور سارا شہر چیخ چیخ کر روپڑا۔ روک دو۔ روک دو۔ ہمیں رات نہ دو۔ رات کا عذاب ہم پر سے ساقط کر دو۔ لیکن ہم سب اپنے عمل میں مصروف رہے۔ رات کو ہماری قوتِ سامعہ نوبت کی تیسری آواز کو ہی گھیرے رہی۔
اور تیسری نوبت کے ساتھ ہی شہر کے ایک حصہ سے سنسناہٹ اٹھنے لگی تو ہم خاموش و بےبس ایک ٹک فضا میں گھورنے لگے۔
اچانک دور سے ایک پرچھائیں بھاگتی ہوئی نظر آئی۔ وہ اپنے راستہ کے تمام درختوں، ستونوں اور برجوں کے نیچے ٹھہر ٹھہر کر کچھ کہہ رہی تھی لیکن ہم صرف اس کے ہلتے ہوئے ہاتھ ہی دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح وہ اس اونچے درخت تک آئی جو ہم اہل قلعہ کے لئے مخصوص تھا۔ وہ نیچے سے ہی ہاتھ ہلا ہلاکر چیخنے لگی۔ پھر ہیجان سے رونے لگی۔ ہم نے سامنے دیکھا تو تمام پرچھائیاں پراگندہ ہوکر اپنے مسکنوں سے باہر آ گئی تھیں اور مختلف سمتوں میں بھاگ رہی تھیں۔ نیچے کھڑی ہوئی پرچھائیں ان کی طرف دوڑ پڑی۔ جب وہ تمام پرچھائیاں غائب ہو گئیں تو وہ پھر ہماری طرف پلٹی اور چیخنے لگی۔
یقین کرو۔ میں نے خود دیکھا ہے۔ ہماری مکمل تباہی آ چکی ہے۔ اس سے فرار ناممکن ہے۔ وہ۔۔۔ ایک بوڑھا شخص ہے۔
کون ایک بوڑھا ہے۔ ہم نے پوچھا۔
وہ۔۔۔ وہی گھنگھرؤں والا۔ روشنی کے جھماکوں والا۔ جسموں کو بریدہ کر کے چمکانے والا۔ اس کے سر پر پگڑی ہے۔ جب وہ چلتا ہے تو شور ہوتا ہے۔ اس کے پاس دو تھیلے ہیں۔ تیسری نوبت پر وہ ظاہر ہوتا ہے اور فصیل شہر کے پاس ٹھہر کر پشت سے ایک جال نکالتا ہے۔ اس جال میں چھوٹے چھوٹے بہت سے چاندی سونے کے گھنگھرو بندھے ہیں۔ جال کی گھنڈیوں میں ہیرے اور لعل شب چراغ ٹنگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنا جال فضا میں لہراتا ہے تو سنسناہٹ ہوتی ہے۔ ساتھ ہی گھنگھرو بجنے لگتے ہیں۔ پھر اندھیرے میں وہ ہیرے اور لعل آگ کی چنگاریوں کی طرح چمکنے لگتے ہیں۔ تب وہ جال کو ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔ وہ سنسناتا ہوا معینہ نشانہ کی طرف لپکتا ہے۔ پرچھائیاں اس جال میں قید ہو جاتی ہیں تو وہ ڈوری کو اپنے پاس کھینچنے لگتا ہے۔ پھر وہ اپنے داہنے گھٹنے سے ایک چمکتی ہوئی ڈبیہ نکالتا ہے اور جال میں سے ایک ایک پرچھائیاں نکال کر اس میں بند کر لیتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے۔ پرچھائیاں بہت حسرت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
جب اس کے پاس ڈبیاں ختم ہو جاتی ہیں تو وہ دوسرے تھیلہ سے ایک کوڑا نکالتا ہے اور جال میں مقید پرچھائیوں کو بےتحاشہ مارنے لگتا ہے۔ پرچھائیاں بے بسی سے اپنے مختلف اعضا کھوتی رہتی ہیں۔ جہاں سے وہ درہ ان کے اعضا کاٹ دیتا ہے وہاں چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ انہیں رات میں چمکنے بھٹکنے کے لئے جال سے باہر نکال دیتا ہے اور خود نہ جانے کہاں غائب ہو جاتا ہے۔
میں نے خود سنا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کل وہ آخری بار اس شہر میں آئےگا اور تمام پرچھائیوں کو گرفتار کر لے جائےگا۔
درختوں سے لپٹی ہوئی تمام پرچھائیاں اپنے مسکنوں سے کود کر مختلف سمتوں میں بھاگ چلیں۔ صرف میں اس اونچے درخت پر رہ گئی تھی۔
صبح ہوتے ہی جب میں متشکل ہونے لگی تو قلعہ کی سمت جانے کی بجائے دروازہ کی سمت دوڑی۔ پھر مجھے ہوش نہیں۔ کیا ہمارے اہل شہر اپنے بریدہ جسموں کو سنبھالے کسی فیصلہ کے منتظر ہیں؟ کیا وہ پرچھائیاں ہمارے فرض کر لینے سے موجود ہوجائیں گی۔ کیا وہ کسی تجربہ یا عذاب کا شکار ہوئی ہیں؟
بوڑھا خاموشی سے آسمان دیکھ رہا تھا۔
کوا سامنے کی چٹان پر بیٹھا تھا۔
پہاڑی گھاس کے کیڑے اب ایک قطار میں واپس جا رہے تھے۔ بادامی رنگ کا کتا اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ اور نزدیک آ چکا تھا۔ سورج چٹان کے آخری سرے پر لرز رہا تھا۔
کوا۔ دور افق کی طرف اڑ گیا۔
بادامی رنگ کا کتا۔ مع پانچ ساتھیوں کے کچھ دیر بوڑھے کو دیکھتا رہا پھر ہلکی سی ’بف‘ کر کے ایک سمت بھاگ نکلا۔
لڑکی۔ شاخ پر بیٹھ گئی۔ اس کے منھ۔ کان۔ ناک اور آنکھ سے سفید سفید بھاپ نکلنے لگی۔ پھر وہ بھاپ گاڑھے کثیف دھوئیں میں تبدیل ہو گئی اور تیزی سے اخراج ہونے لگا۔
بوڑھا۔۔۔ اپنے تسمہ لگے ہوئے تھیلہ پر جھکا ہوا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.