بس میں سفر کرنے کا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ ہر وقت ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک دن میں نے بس لی۔ کنڈکٹر سے دس روپے کا ٹکٹ مانگا۔ کنڈکٹر دیکھنے میں موٹا تگڑا تھا، اس کی توند باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ چوڑی پیشانی اور آنکھوں پر پرانے زمانہ کی عینک لٹک رہی تھی۔ اپنی عینک کے اوپر سے اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور پوچھا، کہاں جانا ہے؟
’’آکاشوانی!‘‘ میں نے کہا۔
اس نے ٹکٹ دیا اور ٹکٹ لینے کے بعد میں اپنی سیٹ پر جاکر بیٹھ گیا۔ بس لال بتی پر رکی اور پھر ہری بتی کے ساتھ اسٹارٹ ہو گئی۔ بس کے اسٹارٹ ہوتے ہی ایک آدمی بس کی طرف لپکا۔ بس کی رفتار تیز ہو گئی تھی۔ لیکن کسی طرح وہ بس میں سوار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ سیدھا کنڈکٹر کے پاس گیا اور کہا، ’’بس اتنی دیر سے آتی ہے اور رکتی بھی نہیں۔ میں ابھی گرتے گرتے بچا۔‘‘ کنڈکٹر نے اس آدمی کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔ کنڈکٹر کی مسکراہٹ دیکھ کر اس سے رہا نا گیا، اس نے پوچھا، ’’یہ بس کہاں جا رہی ہے؟‘‘
’’آکاشوانی!‘‘ کنڈکٹر نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا۔
’’بس آکاشوانی جا رہی ہے اور بورڈ ’امبیڈکر نگر‘ کا لگا رکھا ہے، کیوں؟ کنڈکٹر نے نظر اٹھا کر اپنی عینک درست کی اور معصومیت سے کہا، ’’غلطی ہو گئی، ابھی اسے ٹھیک کر دیتا ہوں۔‘‘
کنڈکٹر کے معافی مانگنے کے بعد بھی اس شخص کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ بس میں موجود دیگر مسافروں نے بھی اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بڑ بڑاتا رہا۔ بس کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کی زبان بھی چل رہی تھی۔ میں نے کنڈکٹر کو غور سے دیکھا۔ اچانک وہ اپنی سیٹ سے اٹھا۔ ایسا لگا کہ اب اسکے صبر کا پیمانہ چھلک گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ ابھی کنڈکٹر اس آدمی کو دوچار ہاتھ لگا دیگا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
وہ اٹھا اور معصومیت سے بولا، ’’بھائی! آپ بس میں بیٹھیں گے یا بورڈ پر!‘‘ یہ سن کر تمام مسافروں کے قہقہوں سے بس گونج اٹھی۔ اس آدمی نے سب کو دیکھا اور خاموشی سے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.