بس اسٹاپ
کہانی کی کہانی
اس افسانے کا جائے وقوع بس اسٹاپ ہے، ایک شخص بس کے انتظار میں کھڑا گزرتی بسوں، کاروں اور رکشوں پر بیٹھے لوگوں کے چہرے اور ہر چہرے کےتاثرات دیکھ رہا ہے۔ رفتہ رفتہ آمد و رفت کم ہو جاتی ہے سڑک خالی ہو جاتی ہے وہ تھک کر اپنا بوجھ اپنے صرف ایک پیر ڈال دیتا ہے۔ پھر بھی بس نہیں آتی اور وہ انتظار کا پیکر بنا کھڑا رہتا ہے۔
زندگی کے اس موڑ پر، اس لمحے، مجھے انتظار کرنا تھا، بس انتظار کرنا تھا۔
میں اس بس اسٹاپ پر بس کا انتظار کر رہا تھا۔ میری تپتی ہوئی گھڑی میں ساڑھے بارہ بج رہے تھے اور میں پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔
نام کو تو وہ بس اسٹاپ تھا۔۔۔ نام کو کیا، وہ واقعی بس اسٹاپ تھا کہ بجلی کے کھمبے پر، تین ہاتھ اوپر، سبز رنگ کے ٹین کے ٹکڑے پر لکھا ہوا تھا، Bus stop by request۔ ہاں، اگر آپ بس اسٹاپ پر سر چھپانے کی جگہ بھی چاہیں، تو وہ بس اسٹاپ نہیں تھا۔ نہ تو وہاں کوئی شیڈ تھا اور نہ ہی کوئی پیڑ۔ راکھ کی رنگت کی ایک لمبی ویران سڑک تھی، بجلی کے تاروں کی پرچھائیاں تھیں، باریک اور متوازی اور کھمبے کی پرچھائیں تھیں، ٹھگنی سی، زمین میں دھنسی ہوئی کہ سورج سر کے اوپر تھا۔
میں یہ جان نہ پا رہا تھا کہ اس بس اسٹاپ پر میرے قدم کیسے آن پہنچے تھے۔۔۔ شہر سے دور، اجاڑ بس اسٹاپ، جون کی دوپہر، پینے کو پانی نہیں، دم لینے کو سایہ نہیں اور میری کم بختی کہ ساڑھے بارہ بج رہے تھے اوربس کو ایک بجے آنا تھا۔ میں اس آگ اگلتی ابلتی دوپہر میں اپنے دل کی تسکین کے لئے بھٹک رہا تھا اور بھٹکتے بھٹکتے اس بس اسٹاپ پر آن پہنچا تھا مگر چند ہی لمحوں میں مجھے یہ احساس ہو گیا تھا کہ بس کے آنے تک میرا دل ہی نہ رہےگا، وہیں بس اسٹاپ پر پگھل جائےگا۔
میں نے سوچا کہ لوٹ جاؤں، لیکن کہاں؟ اور پھر کسی اور سواری کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا کہ اجاڑ، جلتے بھنتے بس اسٹاپوں پر رکشا، تانگہ، اسکوٹر یا ٹیکسی کہاں ملتی ہے۔
اب سوائے اس کے کہ بس کا انتظار کرتا اور کوئی چارہ نہ تھا۔
اب میں تھا، دھوپ تھی، سڑک تھی اور بجلی کا کھمبا تھا۔ اس سے بڑھ کر بھلا بس اسٹاپ اور کیا ہو سکتا ہے۔
اس انتظار کے لمحوں میں ایک راکھ کی رنگت کی سڑک ہی تھی جو مرکز نگاہ ہو سکتی تھی اور تھی۔
کہیں کہیں تارکول پگھل گیا تھا اور سڑک گہری کالی ہو گئی تھی اور سورج کی تیز روشنی میں چمک رہی تھی۔
سڑک کو تاحد نظر ناپ تولنے کے بعد میں نے گھڑی کی جانب دیکھا۔ منٹوں کی سوئی پینتیس کے نشان کے قریب تھی۔۔۔ میں نے صرف پانچ منٹوں میں اس جلتے بھنتے ویرانے کا بھرپور جائزہ لے لیا تھا اور ایک بس تھی کہ میری نظروں سے دور، جانے کہاں تھی اور میں دھوپ میں جلتا بھنتا اس کا انتظار کر رہا تھا۔
چند لمحے میں گھڑی کی جانب دیکھتا رہا اور ان چند لمحوں میں مجھے محسوس ہوا کہ میری زندگی کا حصار، میرے گوشت پوست کا حصار، میرے ذہن کا حصار جس میں ساتوں سمندروں کی وسعتیں سمٹی ہوئی ہیں، پل بھر میں بکھرنے کو ہے۔
’’ہم نشچت سمے تک انتظار بھی نہیں کر سکتے۔۔۔ ہماری زندگی کس قدر ناپائیدار ہے۔۔۔!‘‘ میں مسکرا دیا۔ لیکن بس کا انتظار تو میری بےبسی تھی۔
’’ہم جھنجھلاہٹ میں اوٹ پٹانگ سوچنے لگتے ہیں۔۔۔!‘‘ میں پھر مسکرا دیا۔
بس کا انتظار تو میری زندگی تھی۔
میں نے پھر گھڑی کی جانب دیکھا۔ منٹوں کی سوئی جوں کی توں سست تھی۔
میری زندگی، اس سے پہلے، صرف ایک بار بس اسٹاپ پر ٹھہری تھی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میری کنپٹیوں پر سفید بال نہیں تھے۔ میری آنکھیں عینک کی محتاج نہیں تھیں اور مجھے جان لیوا انتظار کی لذت نصیب نہیں ہوئی تھی۔
اور پھر وہ بس اسٹاپ بھی کہیں مختلف تھا۔۔۔ وہاں سر چھپانے کو شیڈ تھا، پیاس بچھانے کو پیاؤ تھا، بھانت بھانت کے لوگ تھے، بھانت بھانت کی آوازیں تھیں۔ لوگ بسوں سے اترتے اور تانگوں پر چڑھ جاتے۔ تانگوں سے اترتے اور بسوں پر چڑھ جاتے۔۔۔ اور اسکوٹر تھے، رکشا اور ٹیکسیاں تھیں۔۔۔ اور ڈھیر سارے، لڑتے جھگڑتے، ہنستے بولتے مسافر تھے۔
میں اس بس اسٹاپ پر بھی بس کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ مجھے یاد نہیں کہ میں کون سی بس کا انتظار کر رہا تھا اور مجھے کہاں جانا تھا۔ اتنا یاد ہے، اس دن بھی جون کی دوپہر تھی۔ دھوپ تیز تھی کہ نہیں، اس کا مجھے اندازہ نہیں کہ میں شیڈ تلے کھڑا تھا۔ ایک دو مرتبہ میری زبان خشک ہوئی تھی اور میں نے پیاؤ سے کنوئیں کا ٹھنڈا اور شہد سے میٹھا پانی پیا تھا۔ گھڑی دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی تھی کہ ان گنت چہرے تھے نظروں کے سامنے۔ شاید میں چہروں سے اکتا کر گھڑی دیکھتا اور مجھے اپنی بس کے انتظار کا احساس ہوتا مگر یہ بھی نہ ہوا کہ کچھ اور ہو گیا۔ اب یہ میری خوش قسمتی تھی یا اس بس اسٹاپ کا اعجاز، کون جانے؟
میں یونہی ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔۔۔ یونہی کہ ہنستے بولتے مسافروں کو دیکھ کر میری نظریں ایک مزدور کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ مزدور جو اس وقت مرکز نگاہ تھا، مجھے یاد ہے، ٹھیلہ کھینچ رہا تھا۔ ٹھیلے کے دونوں بم اس کے گرے ہوئے ہاتھوں میں تھے اور دونوں بموں سے بندھی ہوئی رسی اس کے دائیں کندھے میں پھنسی ہوئی تھی۔ وہ چیونٹی کی چال سے ٹھیلہ کھینچ رہا تھا کہ ٹھیلے پر اس کے قد سے کہیں اوپر تک، آگے پیچھے ٹرنک لدے ہوئے تھے۔ ایک رسی تھی جو ٹرنکوں کو روکے ہوئے تھی، ایک میلا کپڑا تھا جو اس کے بائیں کندھے پر رکھا ہوا تھا۔۔۔ دس قدم ٹھیلا کھینچنے پر وہ رک جاتا۔ بائیں ہاتھ کا بم چھوڑ دیتا، بوجھ اس کے دائیں کندھے اور دائیں بازو پر آن پڑتا۔ وہ تھکا تھکا سا بایاں ہاتھ اٹھا کر بائیں کندھے پر رکھا ہوا میلا کپڑا اٹھاتا، چہرے اور گردن پر پھیلا ہوا پسینہ پونچھتا، کپڑا پھر کندھے پر جماتا اور بایاں بم تھام کر پھر ٹھیلا کھینچنے لگتا۔ پھر دس قدم پر رکتا، پھر پسینہ پونچھتا اور پھر چیونٹی کی چال سے چل پڑتا۔
اتنا مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں نے یہ سوچا تھا کہ اس کی منزل کہاں ہے؟
اس کا ہر دسواں قدم ایک پڑاؤ تھا۔ یہ میں نے جان لیا تھا اور پھر میں نے اس کی منزل بھی دیکھی۔
میری نظروں کے سامنے وہ چوتھے پڑاؤ پر رکا ہی تھا اور اس نے ٹھیلے کا بایاں بم چھوڑا ہی تھا اور بائیں کندھے پر رکھا ہوا میلا کپڑا اٹھانے ہی کو تھا کہ اس کی ٹانگیں کانپ گئیں۔ رسی ڈھیلی پڑ گئی اور ٹرنک اوپر تلے نیچے آن پڑے۔ ایک ٹرنک اس کے سر پر آن پڑا اور ٹرنک کی نوک اس کی دائیں کنپٹی میں اتر گئی۔
اس کے بعد یہی ہوا کہ بسیں رک گئیں، اسکوٹر، تانگے، رکشا، ٹیکسیاں سب رک گئے۔ شیڈ خالی ہو گیا، لوگ بھاگ اٹھے اور پھر چند لمحوں کے بعد بسیں پھر دوڑنے لگیں، اسکوٹر، تانگے، رکشا، ٹیکسیاں سب دوڑنے لگے، شیڈ بھر گیا، لوگ لوٹ آئے۔
اور وہ مزدور جو مرکز نگاہ تھا، اللہ جانے کہاں تھا۔ اوران چند لمحوں میں اللہ جانے کتنا وقت بیت گیا تھا۔
کسی نے کہا تھا، چار بجے ہیں، تو میری توجہ ادھر ہوئی تھی، میری بس کو نہیں آنا تھا اور نہیں آئی تھی اور میں بنا کسی احساس اور مایوسی کے لوٹ آیا تھا۔
ابھی ایک بجنے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔
’’ایک بس اسٹاپ دوسرے بس اسٹاپ سے کس قدر مختلف ہے۔۔۔!‘‘ میں مسکرا دیا۔
میرے لب خشک ہو گئے تھے۔ زبان سوکھ گئی، حلق کانٹا ہو گیا تھا۔
میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ آنکھیں بری طرح جل رہی تھیں۔
’’ایک بس اسٹاپ دوسرے بس اسٹاپ سے کس قدر مختلف ہے۔۔۔!‘‘ میں پھر مسکرا دیا۔
’’ہر بس اسٹاپ کی، ہر نقطے کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔۔۔!‘‘
مسکراہٹ بدستور میرے لبوں پر تھی۔
میں نے پلکیں گراکر چکاچوند آنکھوں میں اندھیرا لانا چاہا مگر میری آنکھوں میں سورج اتر گئے تھے۔ میں نے پھر پلکیں اٹھالیں۔
سڑک جوں کی توں دراز تھی۔ دور دور تک کوئی مزدور نہ تھا، کوئی ٹھیلہ نہ تھا۔
میں اس بس اسٹاپ کا مقدر تھا یا پھر وہ بس اسٹاپ میرا مقدر تھا۔
میں نے کھمبے کی جانب بنا کسی احساس کے دیکھا۔ تین ہاتھ اوپر، سبز رنگ کے ٹین کے اس ٹکڑے کی جانب دیکھا جس پر لکھا تھا Bus stop by request اور پھر مسکرا دیا۔
اور پھر میں نے بجلی کی متوازی تاریں دیکھیں اور پھر اوپر آکاش دیکھا۔۔۔ پھر وہی راکھ کی رنگت کی سڑک تھی جو کہیں کہیں تارکول کے پگھلنے سے گہری کالی ہو گئی تھی اور چمک رہی تھی۔
ایک بجنے میں دس منٹ تھے۔
مجھے تھکن کا شدید احساس ہو رہا تھا۔۔۔ میں نے کھمبے کا سہارا لے لیا۔
’’میں تنہا ہوں۔۔۔ نہیں میں تنہا نہیں ہوں کہ منتظر ہوں۔۔۔!‘‘ میرے سوکھے لب مسکرانے لگے۔
’’میں تنہا نہیں ہوں کہ منتطر ہوں۔۔۔ دس منٹ ہی تو رہ گئے ہیں بس کے آنے میں، بس کے مجھ تک پہنچنے میں۔۔۔ دس منٹ کیا ہوتے ہیں۔۔۔!‘‘ میرے لب جوں کے توں مسکراہٹیں اپنائے ہوئے تھے۔
میں نے دائیں ٹانگ پر جسم کا پورا بوجھ ڈالتے ہوئے بائیں ٹانگ کو تھکن سے نجات دلائی، رومال سے آنکھیں مسلیں۔۔۔ پھر مسلیں۔۔۔ عینک کے شیشے رگڑے اور عینک آنکھوں پر چڑھا لی۔
مجھے تعجب ہوا۔ آخری منٹ درمیان میں کھڑا تھا۔
اور پھر میں نے دیکھا۔ میری تپتی ہوئی گھڑی میں اک بج رہا تھا۔
بس کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا۔
میں تھا، دھوپ تھی، سڑک تھی اور بجلی کا کھمبا تھا اور زندگی کے اس موڑ پر اس لمحے، مجھے انتظار کرنا تھا۔ بس انتظار کرنا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.