چابی والا کھلونا
آج پھر وہ امیدباندھ کرگھر سے نکلا کہ کوئی اس کے کھلونے ضرور خریدے گا۔ وہ روز اپنے کھلونوں کی جھاڑ پونچھ کرتا‘ تاکہ ان پر دھول نہ جمنے پائے اور اگلے دن پھرکھلونوں کا بڑا سا تھیلا اٹھائے بازار کی طرف نکل جاتا۔ آج اس نے پڑوسی سے پیسے ادھار لے کر اس سے کچھ نئے اور قیمتی کھلونے خریدے جس میں کرتب دکھانے والا بندر، بیٹری والی گاڑی، چابی سے چلنے والی گڑیا، ڈاکٹر کے سامان کا سیٹ، گھر بنانے کے لئے مختلف چیزوں سے بھرا چھوٹا سا بیگ اور دیگر کھلونے بھی شامل تھے۔ اس کے چہرے پر صبح کی پہلی اور اجلی کرن کی مانند ایک خوشگوار چمک تھی۔ وہ رکشا پر سامان رکھے، بازار میں موجود اپنی ماؤں کا ہاتھ تھامے بچوں کی طرف دیکھتا ہوا سوچ رہا تھا۔ آج یہ بچے ضرور اس کی دکان سے کھلونے خریدیں گے۔ رکشا سے سامان اتار کر اس نے اپنا چھوٹاسا کھوکاسجایا اور اس پر کھلونے ترتیب دینے لگا۔ تبھی قریب سے ایک بچے کی آواز سنائی پڑی۔
”مما مجھے یہ والی گاڑی چاہئے۔“
اس نے مڑ کر دیکھا تو بچہ اس کی دکان کی طرف اشارہ کرتا ہوا ماں کا ہاتھ پکڑے اسے کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”نہیں بیٹا ضد نہیں کرتے، میں تمہیں کسی اچھی اور بڑی دکان سے گاڑی خرید دوں گی۔“
”نہیں، مجھے یہی والی چاہئے تو چاہئے۔“ اور ماں زبردستی بچہ کو گھسیٹتی ہوئی بازار کی بھیڑ میں کھو گئی۔
اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔ اس کے ذہن کے پردے پر بس دو لفظوں کی تکرار تھی۔ ”اچھی اور بڑی دکان۔“ تو کیا میرے کھلونے جو اتنے قیمتی ہیں کوئی نہیں خریدے گا۔ کیا مکین کا اندازہ اس کے مکان سے ہوتا ہے میرے پاس مکان تو نہیں ہے لیکن اس کے مکین سب بچوں کو خوشیاں ضرور بانٹتے ہیں۔ تو کیا میں بھی ان کو۔۔۔؟ گاڑی کے تیز ہارن سے اچانک اس کی سوچ کا بھاری بھرکم تھیلا دور جا گرا، اور تمام خیالات چاروں طرف بکھر کر اپنی موت آپ مر گئے۔ وہ خاموشی کے ساتھ میلی کچیلی جھاڑن سے کھلونوں کو صاف کرنے میں مصروف ہو گیا۔
”ابا آج ہمارے لئے کیا لائے۔“
ریاض گھر میں داخل ہوا تو دونوں بیٹیاں اس کی طرف لپکیں اور ابا کے ہاتھ میں کھانے کی کوئی چیز نہ پا کر افسردہ ہوگئیں۔ ریاض نے سوچا جو دوسرے بچوں کو خوشیاں بانٹنے کی غرض سے روز گھر سے نکلتا ہے تاکہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے۔ وہ شاید اپنی بیٹیوں کی آنکھوں میں کبھی خوشی کے دیپ نہیں جلا پائے گا۔ مایوسی کے آسیب نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
”ارے بچو۔۔۔ ابا کو پریشان مت کرو۔ تھکے ہوئے آئے ہیں۔ تم دونوں سو جاؤ جا کر۔“ ریاض کی بیوی نے دونوں بیٹیوں کو کونے میں پڑے ایک چھوٹے سے پلنگ پر لٹا دیا۔ وہ ریاض کے چہرے کو دیکھ کر سمجھ گئی تھی۔ لہذا اس کی دل جوئی میں لگ گئی۔
اگلے دن بالوں میں کنگھی کرتے وقت اسے احساس ہواکہ عمر اس ڈھلتے ہوئے سایہ کی مانند ہے جو دوپہر کی چوکھٹ پر کھڑی ہوئی شام کی آمد کا پتہ دیتی ہے۔ اس کا دل ملول ہو گیا۔ کھلونوں کا تھیلا اٹھائے اس نے اچٹتی سی نگاہ اپنے گھر کے چھوٹے سے کمرے پر ڈالی جس میں اس کا کنبہ رہتا تھا۔ وہ اس کے باپ کی واحد نشانی تھا۔ بنا رنگ و روغن کی دیواریں پر امید نگاہوں سے ریاض کی جانب تک رہی تھیں اور اس پر نصب گھڑی کی ٹک ٹک ان کے حوصلوں میں کمی لاتی جارہی تھی۔ دیوار سے لگے دو پلنگ اور اس سے ملحق ایک قالین بچھا تھا جو اتنا پرانا ہونے کے باوجود ریاض کی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گیاتھا۔ کمرے کے برابر میں باورچی خانہ تھا جس کی چوکھٹ پر پردہ لگایا گیا تھا۔ اس کی دونوں بیٹیاں جو تقریباَ دس اور نو سال کی تھیں، مصنوعی ڈبوں اور تاروں کے ذریعہ ڈاکٹر مریض کا کھیل کھیلنے میں مشغول تھیں اور ان کے چہروں پر سکون و طمانیت کا عکس چھایا تھا۔ اچانک ریاض کو ان کے ہاتھوں میں موٹی موٹی کتابیں نظر آنے لگیں۔ یونیفارم میں ملبوس ان کے جسم یکایک خوبصورت لگنے لگے۔ ان کے سلیقہ سے بنے ہوئے بال، چہروں پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ اور چلنے کے انداز نے ریاض کے اندر جوش و ولولہ بھر دیا۔ فرط جذبات سے اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے۔ ریاض ایسے خوبصورت خوابوں کی پناہ گاہ میں مقید تھا، جن کی تعبیر کے لئے وہ مشکل ترین کام بھی کرسکتا تھا۔ لیکن حالات اس کے موافق نہ تھے۔
”ارے آپ ابھی تک گئے نہیں۔“
ریاض کی بیوی باورچی خانہ سے نکلی تو اس کو دیکھ کر بولی، ریاض کا خواب ایک جھٹکے سے ٹوٹ گیا۔ اس نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ وقت نے ریاض کی زندگی کے خالی کشکول میں موقع کا ایک اور سکہ پھینکا اور وہ اپنے کھلونوں کا تھیلا اٹھائے بازار کی طرف روانہ ہو گیا۔
آج اسے بازار میں خلافِ معمول چہل پہل محسوس ہوئی۔ وہ یہ سوچ کر خوش ہوا کہ شاید اس کے کھلونوں کی خریداری میں اضافہ ہو جائے۔ حسب معمول اس نے اپنے تھیلے کے سارے کھلونے لکڑی کے تختے پر سجائے اور خود ایک چھوٹے اسٹول پر بیٹھ کر گاہکوں کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد ایک چھوٹی بچی اپنے ابا کا ہاتھ تھامے اس کی دکان کے پاس آکر رکی۔
”کہیے صاحب کیا دکھاؤں۔“
”یہ برتنوں کا سیٹ دکھاؤ۔“ ریاض نے ڈبے میں موجود چھوٹے چھوٹے برتنوں کا ایک سیٹ ان کو تھما دیا۔
”ہما بیٹا یہ لو۔ اب تم ان کھلونوں میں اچھے اچھے کھانے پکانااور ابا کو کھلانا۔“
لڑکی چند ثانیے تک اس پیکٹ کو دیکھتی رہی اور پھر اسے اٹھا کر واپس دکان دار کو دے دیا تو ریاض کی آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی۔
”کیا ہو ہما! آپ کو پسند نہیں آیا۔“ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”پھر تم خود بتاؤ۔ کون سا کھلونا چاہئے۔“
ہما نے غور سے سارے کھلونوں پر نظر ڈالی۔ اور ڈاکٹر کے سیٹ پر نظر پڑتے ہی اس نے لپک کر وہ سیٹ اٹھا لیا۔
”ابا مجھے یہ چاہئے۔“
”ارے بیٹا یہ تو لڑکوں کے کھیلنے کی چیز ہے۔ تم اس کا کیا کروگی۔“
”ابا میں لوگوں کو دوا دیا کروں گی۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔
ریاض نے اس معصوم بچی کی طرف دیکھا اور اسے اپنی دونوں بیٹیاں یاد آگئیں، میں بھی اپنی دونوں بیٹیوں کو ڈاکٹر بناؤں گا۔ پھر ان کو ایک چھوٹا سا کلنک کھلوا دوں گاان کے پاس بہت سارے مریض اپنا علاج کرانے آیا کریں گے۔ وہ اپنے پیسوں سے بڑا عالیشان مکان خریدیں گی جس کی دیواریں رنگین اور منقش ہوں گی۔ ایک بڑا سا باورچی خانہ ہوگا جس میں خوبصورت سا دروازہ لگا ہوگا اور۔۔۔
”بھائی صاحب یہ پیک کردو۔“ گاہک کی آواز پر وہ چونک گیا۔ کھلونے کی قیمت ادا کرنے کے بعد وہ دونوں وہاں سے رخصت ہو گئے اور ریاض اپنی سوچوں میں گم دوسرے گاہکوں کا انتظار کرنے لگا۔
سایے لمبے ہو رہے تھے، اور زندگی کی ماچس سے ایک اور تیلی کم ہونے والی تھی۔ اس نے تختے پر موجود کھلونوں پر نظر ڈالی تو اسے ایک عجیب قسم کی مایوسی نے گھیر لیا۔ یہ تمام کھلونے تو ڈاکٹری کی پڑھائی کے لئے ناکافی ہیں پھر۔۔۔ اس کی آنکھوں میں سوچ کی لکیروں نے آہستہ آہستہ اپنا جال بننا شروع کردیا تھا۔ یسری نے بارہویں پاس کرلی تھی اور وہ تن دہی سے موٹی موٹی کتابیں اٹھائے لالٹین کی روشنی میں ان کا مطالعہ کررہی تھی۔ بھائی صاحب میں اس گھر کو بیچنا چاہتا ہوں، کیا قیمت لگ جائے گی۔ یہی کوئی چھ سے سات لاکھ روپے۔ ٹھیک ہے میں ایک ہفتے میں اس کا سودا کردوں گا۔ یسری کو ڈاکٹربنانے کے لئے اتنے پیسے تو درکار ہوں گے ہی۔ تیزی سے آتی ہوئی گاڑی نے اس کے ٹھیلے کے قریب آکر بریک لگائے۔ ریاض گھبرا کر پیچھے ہٹا۔ ایک بار پھر خوابوں کی ڈور اس کی تحویل سے چھوٹ کر دور جا پڑی اور تمام خیالات روڈ پر بکھرے سسک سسک کر دم توڑنے لگے۔
ریاض نے ایک گہری نظر آسمان پر ڈالی اور موسم کے بگڑتے ہوئے تیور دیکھ کر اپنا سامان سمیٹنے لگا۔ رکشا لینے کی غرض سے وہ کچھ دور چلا ہی تھا کہ بوندیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ ہوا کی خنکی اور مٹی کی سوندھی خوشبو بھی اس کے بوجھل دل کو ہلکا نہیں کر پائی، اس کو اپنی آنکھیں جلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ سنہرے خوابوں کی دنیاسے یوں اچانک حقیقت کی دنیا میں قدم رکھنے کا عمل کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی اور اس سے وابستہ خوابوں کا بوجھ اٹھائے انسان مایوسیوں کی قبر میں اتر جائے گا۔ ریاض کو یکایک اپنے ارد گرد کی دنیا خالی لگنے لگی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ تبھی ایک رکشا والے نے اس کے قریب آکر گھنٹی بجائی۔
”چچا! کہاں چلے جا رہے ہو، آج گھر نہیں جانا۔“ اور ریاض بے خیالی کے عالم میں ادھر ادھر ہاتھ چلاتا ہوا اس کی رکشا پر بیٹھ گیا۔ راستے سے اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کے لئے گلاب جامن خریدے۔ اس کا پورا وجود بارش کی بے ہنگم بوندوں میں بھیگ چکا تھالیکن اس کو اس بات کا ہوش نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں منصوبوں اور خیالوں کی پوری کائنات بن چکی تھیں جو وقتاََ فوقتاََ پھیل اور سکڑ رہی تھیں۔
”ارے آپ تو بری طرح بھیگ چکے ہیں۔“ اس نے تولیا اٹھا کر ریاض کے ہاتھوں میں تھما دیااور کھلونوں کا تھیلا ایک کونے میں رکھ دیا۔
”یہ میں یسری اور بشری کے لئے لایا ہوں۔ یہ دونوں اتنی جلدی سو گئیں۔“ اس نے متفکرانہ لہجے میں پوچھا
”ہاں آج پورا دن ڈاکٹر کا کھیل کھیلتی رہیں اور ساتھ والی صبا بھی آگئی تھی۔ اٹھ جائیں گی تو کھا لیں گی۔“
وہ تولیہ اٹھائے غسل خانہ میں گھس گیا۔ کپڑے تبدیل کرکے اس نے سامنے لگے آئینہ میں خود کو بغور دیکھا۔ آج اسے اپنی آنکھوں کے گرد حلقے زیادہ گہرے لگے۔ جھریوں کا ابھار بھی اس کے خوابوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہاتھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا، وہ پہلے سے زیادہ بوڑھے اور ناتواں معلوم ہوئے۔ اچانک اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں کوئی چیز سنسناتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”کیا میں اتنی جلدی۔۔۔ ابھی تو۔۔۔“
رات کے سناٹے میں پلنگ کی مسلسل چرمراہٹ کمرے کی فضا میں خوف تحلیل کرتی جا رہی تھی اور نہ جانے کب یہ چرمراہٹ بند ہوئی کسی کو احساس بھی نہیں ہوا۔ ریاض کی بیوی اور دونوں بیٹیاں اس کے پلنگ کے پاس بیٹھی بلک بلک کر رو رہی تھیں۔ وہ چاندی سے زیادہ شفاف دھلے دھلائے کپڑے میں ملفوف سیدھا لیٹا ہوا تھا۔ یسری ڈاکٹر کا لباس پہنے چیخیں مار مار کر ریاض کو اٹھانے کی کوشش میں ہلکان ہوئی جارہی تھی۔
”ریاض، ریاض اٹھئے، کیا ہوا۔۔۔“ اس کی بیوی اور بچیاں اس پر جھکی ہوئی تھیں۔ وہ پسینہ سے شرابور تھا اور سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ جیسے ابھی اس کو کسی نے قبر سے کھینچ کر نکالا ہو۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کا تکیہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔ وہ بھیانک خواب سایہ کی طرح اس پر سے گذر گیا تھا۔
کیا میں مر چکا ہوں۔۔۔؟
میں زندہ ہوں۔۔۔؟
میں کون ہوں۔۔۔؟
اچانک وہ چارپائی سے اٹھا اور چابی والے کھلونے کی طرح مسلسل گھومنے لگا۔ کیا میں مر چکا ہوں؟ کیا میں زندہ ہوں؟ میں کون ہوں؟ میں کون ہوں؟ میری بیٹیاں ڈاکٹر ہیں۔ میں کھلونا ہوں۔ میری قیمت انمول ہے۔ میں اپنے آپ کو بیچ دوں گا۔ آج ہی میں بک جاؤں گا۔
اس کی بیوی اسے پکڑتی سنبھالتی رہ گئی لیکن گھومتا کھلونا دروازے سے باہر جا گرا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.