چاند کی دوسری طرف
کہانی کی کہانی
لڑکے لڑکیوں کے رشتہ کے دوران ہونے والے مکر و فریب پر مبنی کہانی۔ وہ نیا نیا صحافی بنا تھا اور اپنے ایک تھانیدار دوست جبار کے پاس ہر روز نئی خبر لینے جایا کرتا تھا۔ اس دن بھی وہ جبار کے پاس تھا کہ اچانک ایک شخص منع کرنے کے باوجود تھانے میں جبار کے پاس چلا آیا۔ اس شخص نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے تھانیدار کو بتایا کہ اس نے اپنی بیحد خوبصورت بیٹی کے لیے ایک اہل رشتہ طے کیا تھا۔ جب نکاح ہوا تو پتہ چلا کہ دولہا وہ لڑکا نہیں تھا، جسے اس نے پسند کیا تھا۔ بلکہ وہ تو ایک ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔ اس سے مایوس ہو کر پہلے تو اس نے داماد کو ختم کر دینے کے بارے میں سوچا۔ مگر اپنے مقصد میں ناکام رہنے کے بعد اس نے اپنی بیٹی کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
تاج محل ہوٹل کے سامنے سے پہلے بھی کبھی کبھار گزرا ہوں۔ لکڑی کے بھدے سے کیبن اور سیمنٹ کے ٹھڑے والی چائے کی دکان پر ’’تاج محل ہوٹل‘‘ کا بورڈ دیکھ کر مسکرایا بھی ہوں۔ لیکن پچھلے دو مہنےل سے یہ ہوٹل میری زندگی کے نئے راستے کا ایک اہم موڑ بن گیا ہے۔ جہاں میں اپنی پرانی سائیکل کو ہر روز بریک لگاتا ہوں اور ایک پاؤں فٹ پاتھ پر ٹکا کر بے فکروں کی طرح بوڑھے دکاندار سے کہتا ہوں۔’’دو پیالی اسپیشل چائے ادھر بھجوا دو۔‘‘
’’ابھی لیجئے حضور۔ بس آپ کے پہنچنے کی دیر ہے۔‘‘ وہ بڑی مستعدی سے جواب دیتا ہے اور پنکھے سے کوئلے دھونکتا ہوا گلگتی چھوکرا مجھے دیکھ کر مسکراتا ہے اور واقعی ابھی میں اپنی سائیکل کو برآمدے کے پاس روک کر تالا لگاتا ہوں۔ ’’شہہ کے مصاحب‘‘ والے سلام قبول کرتا، جبار کے کمرے میں قدم رکھتا ہوں کہ گلگتی چھوکرا تیر کی طرح وہاں پہنچ جاتا ہے۔ دودھ شکر ملی چائے کی کیتلی اور دو ثابت پیالیوں سے سجی ٹرے جبار کے سامنے رکھ دیتا ہے اسے سلام کرتا ہے اور کمرے سے ہوا ہو جاتا ہے۔
اچھے میزبانوں کی طرح آج بھی جبار نے خود ہی پیالیوں میں چائے انڈیلی، پہلی میری طرف بڑھائی اور دوسری پیالی سے ایسے زور دار گھونٹ لئے جیسے حقے کے پیندے سے چائے کھینچ رہا ہو۔
میرے ساتھ چائے پیتے ہوئے جبار ہمیشہ شعر و ادب کی بات اس طرح چھیڑتا ہے جیسے مدارات کے طور پر کیک کے ٹکڑے مجھے پیش کر رہا ہو۔ یہ لمحے میرے لئے دوبھر ہوتے ہیں کیوں کہ میرے سامنے اپنے ڈیسک انچارج کا چہرہ ہوتا ہے۔ جس نے دفتر میں قدم رکھتے ہی پہلے دن جتا دیا تھا کہ، ’’دیکھئے صاحب خیال رہے۔ یہ افسانہ نویسی تو ہے نہیں کہ جب تک چاہے بیٹھ کر الفاظ کے موتی جڑتے رہے۔ یہاں تو گھڑی کی سوئیاں دیکھ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ سمجھے آپ؟‘‘
میں نے تو اپنے انچارج صاحب کی بات سمجھ لی تھی لیکن جبار کو نہیں سمجھا سکتا تھا۔ اس لئے حسب معمول آج بھی جبار برسوں پہلے پڑھی ہوئی ایک کہانی کا ذکر کر رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرا سر پتھر کا ہو گیا ہے۔ اور میرا جی چاہنے لگا کہ یہ پتھر اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر جبار کے منہ پر دے ماروں لیکن جبار جوں ہی چائے کا آخری گھونٹ لے کر اپنی مونچھیں پونچھتا ہے اور میز کا دراز کھولتا ہے تو میرے دل میں جبار کے لئے اسکول اور کالج کے زمانے والا پیار ہلکورے لینے لگتا ہے۔
’’اچھا یار اب تم اپنے راشن کا کوٹہ سنبھالو۔‘‘ جبار بڑی وضع دار سے یہی فقرہ روز کہتا ہے۔ اس کے باوجود یہ فقرہ سن کر میری مسلسل بے معنی سی مسکراہٹ بے ساختہ قہقہے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جبار کا یہ فقرہ دلچسپ ہو یا نہ ہو۔ اس میں سچائی ضرور تھی۔
’’مجید دیکھو، اندر کسی کو نہ آنے دینا میں کام کر رہا ہوں۔‘‘ جبار نے دروازے والے سپاہی کو روز کی طرح حکم دیا اور تھانے کا روزنامچہ یوں کھولا جیسے کسی امیر مرنے والے کا وصیت نامہ، اور میری نظریں اس پر بھگی مکھیوں کی طرح رینگنے لگیں۔ اس روزنامچے میں درج ہونے والے جرائم ہم دونوں کی روزی کا جواز ہیں۔ جبار چھ سات سال پرانا پولیس افسر ہے اور میں ایک نئے اخبار کا دو ماہ پرانا کرائم رپورٹر ہوں۔ جبار کے ابا پولیس سے ریٹائر ہوئے تو پولیٹیکل برانچ میں ان کی خدمات کے پیش نظر جبار کو ملازمت بی اے کے امتحان کا نتیجہ نکلتے ہی مل گئی۔
میرے ابا سکول ماسٹر تھے اس لئے وہ مجھے اعلی تعلیم کے بعد کم از کم یونیورسٹی لیکچرر تو دیکھنا ہی چاہتے تھے۔ اس لئے میں پڑھتا رہا لیکن مشکل یہ تھی کہ اسکول ماسٹر کی خدمات کے اندراج کا کوئی خانہ تو ہوتا نہیں۔ اس لئے مجھے یونیورسٹی کیا اسکول میں بھی ملازمت نہ ملی۔ اس زمانے میں جبار کبھی ملتا تو کہتا، ’’یار گھر بسانے چلو گے تو رسالوں میں تمہارا نام چھپنے سے کام نہیں بنے گا۔ اس لئے کوئی نوکری ڈھونڈو کوئی نوکری۔‘‘ اور اب بالکل اتفاقا مجھے یہ نوکری مل گئی۔ جسے پکی کرنے میں جبار ایک اچھے دوست کی طرح میری مدد کر رہا تھا۔ وہ نہ صرف اپنے تھانے میں رپورٹ ہونے والے جرائم کی تفصیل مجھے لکھواتا بلکہ دوسرے تھانوں سے بھی میرا کام نکلوا دیتا، ورنہ ایک نئے اخبار کے اناڑی رپورٹر کو دفتر میں اچھی کارکردگی دکھانے میں خاصی پریشانی ہوتی۔
میں نے اپنی نوٹ بک اور پنسل سنبھالی تو جبار نے کل شام سے آج تک ہونے والے جرائم کی تعداد اور پھر سب سے پہلے رپورٹ میں قتل کے کیس کی تفصیلات مجھے بتائیں۔ میں نے ایم اے نفسیات کو بھلا کر خالص ا خباری انداز سے محبت کی مجرم اٹھارہ سالہ خوبصورت مقتولہ کو بدکردار اور ساٹھ سالہ قاتل کو غیرت دار شوہر کا لقب دے کر لکھنا شروع ہی کیا تھا کہ جبار کے کمرے کے باہر ایک ہنگامہ ہوا جس میں مجید اور دوسرے سپاہیوں کی گالیوں کے ساتھ کوئی پاگلوں کی طرح چلا رہا تھا، ’’مجھے اندر اجانے دو۔ ابھی اندر جانے دو‘‘ اور پھر خاصی دھماچوکڑی ہوئی۔
’’نہ جانے کون ماں کا۔۔۔ ہے۔‘‘ جبار نے اپنی حکم عدولی کے خواہش مندان دیکھے آدمی کو گالی دی مگر گالی کا لفظ منہ میں گڑ گڑا کر نگل گیا۔ میری موجودگی میں وہ اب بھی ذرا جھجھکتا تھا۔
’’آنے دو بھائی میں اپنا کام کرتا رہوں گا۔‘‘ میں نے جلدی جلدی پنسل گھسیٹتے ہوئے کہا۔ میں اپنا کام جاری نہ رکھ سکا۔ قتل اور خون کی خبریں بنانا اور بات ہے خون بہتے دیکھان اور بات۔۔۔ اندر آنے والے کے ماتھے سے بہتا ہوا خون اس کے چہرے کو عجیب بھیانک رنگ دیتا ہوا اس کے اوور کوٹ پر ٹپک رہا تھا۔ میں نے چکرا کر اپنے حلق میں ابکائی روکی۔
’’جناب میں نے تو اس آدمی کو صرف اندر آنے سے روکا تھا۔ اس نے اپنا سر دیوار سے ٹکرا کر خود پھوڑا ہے۔ یہ اقدام خود کشی کا کیس ہے۔‘‘ اندر آتے ہوئے سپاہیوں میں سے ایک نے کیس کی نوعیت کا فیصلہ تیزی سے کر دیا اور جبار نے گھور کر اسے دیکھا۔ تھانے کے احاطے میں کسی کا یوں کھلے بندوں زخمی ہونا خاصی اہم بات ہو سکتی ہے۔
’’اسے بٹھا دو۔ اس کا خون بند کرو۔ ٹھنڈے پانی کا کپڑا رکھ کر دباؤ، زخم کو۔۔۔‘‘ جبار نے ہدایات جاری کیں تو کمرے میں موجود ہر شخص نے پہل کرنا چاہی۔ کئی رومال کونے میں رکھی صراحی کے طفیل بھیگ گئے۔ جبار نے اپنا رومال اس کے ہاتھ پر رکھ کر ہتھیلی سے دبا لیا۔ میں نے اپنے رومال سے اس کا خون آلود چہرہ صاف کیا اور اس کا سر کرسی کی پشت پر ٹکا دیا۔ مجید کا بڑا سا رومال اس کے اوورکوٹ سے خون کے دھبے مٹانے کی بے سود کوشش میں کام آیا۔
’’جی بڑی مہربانی آپ کی۔‘‘ اس نے انسانیت سے جبار کا ہاتھ اپنے ماتھے پر سے ہٹا کر اس جگہ اپنا ہاتھ رکھ لیا۔ ہم سب خاموش تھے اور اس کے دہشت زدہ چہرے کو دیکھ رہے تھے۔
’’رپٹ لکھوانا تھی جی۔۔۔‘‘ زخمی اجنبی نے ہانپتے ہوئے کہا۔
’’کس بات کی؟‘‘ جبار نے کرسی پر بیٹھ کر پوچھا۔
’’جی پہلے آپ شروع سے ساری بات سن لیں۔۔۔‘‘ اجنبی نے شرط پیش کی اور میں جبار کی طرف دیکھ کر مسکرایا، جیسے شرط ماننے کی سفارش کر رہا ہوں۔
’’ہوں، اچھا ہر بات سچ سچ بتاؤ۔ کوئی جھوٹ نہ ہو۔ سمجھے؟‘‘
’’اسی لئے تو آپ کے پاس آیا ہوں صاحب۔ زبردستی آیا ہوں۔ جھوٹ کیوں بولوں گا؟‘‘ اس کے لٹکے ہوئے سیاہ ہونٹوں پر ایک حقارت آمیز مسکراہٹ پر مارتی گزر گئی اور ماتھے کے رومال پر رکھا ہوا ہاتھ کانپتا رہا۔
’’صاحب آپ تو جانتے ہیں کہ اپنی اولاد سبھی کو خوبصورت لگتی ہے مگر میری لالی کو پاس پڑوس والے، برادری کنبے والے سبھی خوبصورت سمجھتے تھے۔ کوئی اسے پری کہہ کر پکارتا، کوئی شہزادی۔ کوئی سوہنی۔‘‘ وہ کہتے کہتے رکا۔
’’پھر اس نے آنکھ لڑائی کسی سے۔‘‘ رپورٹ لکھوانے کے اس مریل طریقے سے جل کر کمرے میں موجود ایک سپاہی نے اسے کچو کا دیا۔ ویسے یہ بات ٹھیک ہے کہ تھانوں اور عدالتوں میں حسن کا ذکر عشق کے بغیر آتا ہی نہیں۔ ایسے سوال پر تھانے میں بیٹھے ہوئے کسی بھی باپ کا سر جھک سکتاتھا لیکن بیان دینے والا اچھل کرکر سی پر سیدھا بیٹھ گیا۔ ماتھے کا گیلا رومال اس کی گود میں گرا اور ماتھے کے زخم سے خون کے قطرے پھر اس کے چہرے پر پھسلنے لگے۔
’’دیکھیں جی تھانے دار صاحب۔ آپ بے شک مجھے جوتے ماریں، ڈنڈے ماریں۔ گالی دیں، مگر میری لالی کو کسی نے ایسی بات کہی تو میں۔۔۔ تو میں۔۔۔‘‘ وہ غصے سے کانپتے ہوئے ہونٹ کاٹنے لگا۔
جبار نے سپاہی سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہا اور پھر حکم دیا، ’’اس کے زخم پر ٹھنڈا پانی ڈالو اور دیکھو، پٹی باندھ دو تو اچھا ہے۔ ہاں کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’تاج دین۔‘‘
’’دیکھو تاج دین اپنا سر کرسی سے لگائے رکھو۔ سمجھے؟ کرسی گندی نہ کرو۔‘‘ جبار کے احکام کی تعمیل فوراً ہو گئی۔
’’جی ایسی بات زبان سے نکالی میری لالی کے لئے۔ ہنھ۔ صاحب۔ صاحب جی میری لالی کی نیکی کا حال جس سے مرضٰی ہو جاکر کٹرے میں پوچھ لیں۔ وہ تو جناب جب سے بڑی ہوئی ہے گھر سے اکیلے قدم بھی نہیں نکالا۔ دروازے میں بھی کھڑی نہ ہوئی۔ وہ تو اپنی ماں پر چلی گئی۔ صورت میں بھی، طبیعت میں بھی۔‘‘
’’اچھا تو لالی کی ماں خوبصورت ہے؟‘‘
’’اب کہاں جی۔ ہاں جب اسے بیاہ کر لایا تو سب کنبے برادری کی عورتںط کہتیں تاج دین تیرے گھر تو چاند اتر آیا۔ میری ماں جب تک جیتی رہی اسے بہت تکلیف دیتی رہی، اور جی میں بھی ماں کے کہنے میں رہا۔ پھر بھی لالی کی ماں نے مجھ سے نہ کبھی زبان چلائی، نہ کبھی کچھ مانگا۔ بس میری خدمت کرتی رہی۔ کٹرے میں جاکر جس سے چاہیں پوچھ لیں۔ کبھی کسی نے لالی کی ماں کی طرف انگلی اٹھائی؟‘‘
’’اچھا اچھا۔ ٹھیک ہے۔ آگے بیان کرو۔‘‘ جبار تیزی سے بولا۔
’’جی وہ میرے بچوں کی ماں بنی۔ آٹھویں لالی ہوئی تو۔‘‘ وہ رک کر سوچنے لگا۔
’’لالی پیدا ہوئی تو کیا ہوا؟‘‘ پوچھا گیا۔
’’جی اس کی ماں نے لالی کو میری گود میں ڈال کر کہا، ’’لو تمہارے گھر نیا چاند اترا ہے۔ جناب لالی کی ماں نے سات بچوں میں سے کوئی بچہ میری گود میں اس طرح نہ ڈالا تھا۔‘‘
’’پھر تم نے کیا کہا؟‘‘ میں بے ساختہ بول پڑا۔ میری موجودگی تھانے کی فضا کو یکسر بدل رہی تھی۔
’’جی کہنا کیا تھا۔ بس لالی مجھے سب اولاد سے زیادہ پیاری ہو گئی۔ وہ بھی مجھے بہت چاہتی۔ کسی کی گود میں ہوتی تو مجھے دیکھ کر بانہیں پھیلا دیتی۔ کبھی اس کی ماں اپنے پاس سلا لیتی تو رات کو جاگ کر روتی اور جبھی چپ ہوتی جب میری چھاتی پر لیٹ جاتی۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا، وہ بتاؤ‘‘ جبار اب خاصا بے چین ہو رہا تھا۔
’’جی میں نے پانچ بیٹیاں بیاہیں۔ دو بہویں گھر لایا۔ مگر لالی کی ماں نے میری پسند میں کوئی دخل نہ دیا۔ پھر لالی بڑی ہونے لگی تو ایک رات میرے پاؤں دباتے ہوئے بولی۔۔۔
’’لالی کے بابا میں نے تم سے کبھی کچھ نہیں مانگا۔ اب لالی کے لئے تم سے اس کے جوڑ کا خوب صورت دولہا مانگتی ہوں۔ یاد رکھنا۔ اور جی میں نے اس کی بات گرہ میں باندھ لی۔‘‘
اتنا کہہ کر تاج کی آواز بھرا گئی اور اس نے اپنے ہونٹ بھیچن لئے اور میں نے دیکھا کہ تھانے کے اس کمرے میں موجود سپاہی جھلائے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ان کا بس چلتا تو وہ اپنی انگلیاں اس شخص کے حلق میں ڈال کر ایک ہی بار ساری بات کھینچ کر اپنے افسر کی میز پر رکھ دیتے۔ یہ کیا کہ کبھی لالی کا ذکر اور کبھی لالی کی ماں کے قصے۔ وہ بار بار جبار کی طرف دیکھ رہے تھے جو غالباً میری موجودگی کی وجہ سے بڑا گمبھیر بنا بیٹھا تھا۔ کیوں کہ میں اس بیان میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہا تھا۔
’’ہوں پھر تم کو لالی کے لئے مناسب رشتہ ملا؟‘‘ سوال ہوا۔
’’رشتے تو بہت تھے۔ جاکب۔ لالی کے چچا کے بیٹے، رشتے ناتے اور برادری میں بھی لڑکے تھے۔ سبھی نے لالی کا ڈولا مانگا۔ مگر جی مجھے تو اچھی شکل والے رشتے کی تلاش تھی۔ اس لئے میری لالی سترہ سال کی ہو گئی۔‘‘
میری اور جبار کی آنکھیں بے ارادہ ہی ایک دوسرے کی طرف اٹھ گئیں۔
’’صاحب آپ عقل والے ہیں۔ بیٹی چاہے پنجرے میں بند لال جیسی ہلکی پھلکی ہو پھر بھی سب کہتے ہیں۔ ارے یہ پہاڑ سی بیٹی کا بوجھ کب تک اٹھاتے رہو گے۔ اس کی عمر اب سسرال جانے کی ہے۔‘‘ تاج دین کی غیر ضروری تفصیل سے جبار کے صبر کا پیمانہ چھلکنے لگا۔
’’ہاں ہاں ایسا ہی کہتے ہیں لوگ۔‘‘
’’مگر جی لالی تو کہیں بھی نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ تو اپنے ماں باپ سے اتنا پیار کرتی کہ ایک دن کے لئے بھی اپنی بیاہی بہنوں کے گھر نہ گئی۔ میں بتاؤں صاحب ایک دفعہ اس کی ایک بہن کو ضد ہو گئی کہ رات لالی میرے پاس رہے گی۔ اس پر لالی بچوں کی طرح میرے سینے سے لگ کر رونے لگی اور میرے ساتھ ہی گھر لوٹ آئی۔‘‘
وہ جیسے اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔’’تو پھر کوئی مناسب رشتہ نہیں ملا لالی کے لئے۔۔۔‘‘ میں نے مداخلت بے جا کی۔
’’ہوں تو کوئی رشتہ نہیں ملا تمہاری بیٹی کے لئے۔‘‘ جبار نے فوراً اپنی ڈیوٹی سنبھال لی اور تاج دین چونک اٹھا۔
’’رشتہ ملا جی۔ ایک دن وہ لوگ آپ ہی کی راشن شاپ والے سے پتہ پوچھتے میرے دروازے پر آ گئے۔ انہوں نے افضل حسین ولد محمد حسین کی بڑی تعریفیں کیں۔ اپنا گھر۔ ہاتھ میں ہنر۔ سر پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ مسقط میں اچھی نوکری پر جا رہا ہے۔ شادی جلدی چاہئے۔ انہوں نے جی گھر اور محلے کا پتہ بھی دیا کہ جاکر تصدیق کر لو۔ میں نے کہا پہلے لڑکا دکھاؤ۔ پھر جی انہوں نے لڑکا بھی دکھایا۔‘‘ تاج دین نے ٹھہر کر پانی مانگا۔
’’کیسا تھا لڑکا؟‘‘ جبار نے جلدی سے پوچھا۔
’’لڑکا تو صاحب بڑا لمبا، مضبوط اورجنٹل مین تھا۔ پھولدار قمیض اورکالی پتلون میں ایسا لگتا جیسے پھولوں میں پھول گلاب ہوتا ہے۔‘‘ تاج دین کی آنکھیں یوں چھت کی طرف تک رہی تھیں جیسے وہاں مکڑی کے جالوں کے بجائے گلاب کے پھول کھل رہے ہوں۔
’’پھر تم نے فوراً رشتہ طے کر لیا؟‘‘
’’نہیں جی۔ پہلے اس کے گھر بار کی تصدیق تو کرنا تھی۔ میں جی اس کے محلے پہنچا اور افل حسین ولد محمد حسین کے بارے میں پوچھا۔ کوئی بات بھی جھوٹ نہ تھی۔ میں اس کے گھر بھی گیا۔ اس کی چاچی موجود تھی۔ اس نے میری بڑی خاطر کی۔ میں نے بات پکی کر دی۔ اگر وہ پکے گھر کا مالک نہ ہوتا میری طرح کا مزدور ہوتا تب بھی میں بات پکی کر دیتا۔ لالی کی ماں کو تو اتنا خوش میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔
صاحب سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس کے بعد ہی معلوم ہوا کہ خوش عورت کیسی ہوتی ہے؟‘‘
’’لالی بھی خوش ہوئی؟‘‘ میں پوچھ بیٹھا۔
’’کہیں شریف نیک لڑکیاں اپنے بیاہ پر خوش ہوتی ہیں؟ میں نے تو بتایا صاحب وہ تو ایک دن کے لئے بھی گھر چھوڑنے کو راضی نہ ہوتی تھی۔ اب تو اس کی بارات دوسرے شہر سے آ رہی تھی اور اسے بیاہ کر سمندر پار بھی جانا تھا۔ اسے تو رونا ہی تھا جناب‘‘ یہ کہتے کہتے تاج دین کا گلا بھر آیا۔
’’مہندی والی رات سارا گھر سو گیا۔ مگر وہ سسکیاں لیتی رہی۔ میں جی برآمدے میں لیٹا جاگ رہا تھا۔ اٹھ کر اس کے پاس چلا گیا۔ پھر تو جی وہ مجھ سے لپٹ کر بہت روئی۔ اسے اپنے ہاتھوں کی مہندی کا ہوش بھی نہ رہا۔ وہ بار بار کہتی بابا میں کہیں نہ جاؤں گی تمہیں چھوڑ کر۔۔۔ پھر جی میں نے بے حیائی لاد کر اسے سمجھایا کہ لڑکا شہزادوں جیسا ہے۔ کھاتا پیتا ہے اور وہ اپنے گھر جا کر کتنی خوش رہے گی اور جب وہ خوش ہو گی تو میں بھی خوش ہوں گا۔ بس میری باتیں سن کر میری لالی آرام سے سو گئی۔‘‘
’’اچھا اچھا ٹھیک ہے۔ پھر بارات آئی؟‘‘ جبار بیان کی تہہ تک پہنچے کو بے قرار تھا۔
’’ہاں جی بڑی شاندار بارات آئی۔ پھولوں سے سجی ہوئی۔ بس میں سے براتیوں کے ساتھ باجے والے بھی اترے۔ دولہا نے گلاب کے پھولوں کا سہرا باندھا تھا۔ گلے میں نوٹوں کا اتنا بڑا ہار تھا کہ گھوی ں کو چھو رہا تھا اور جی اس نے کشمیری دوشالہ بھی جسم سے لپیٹا تھا۔ سردی بھی تو بہت ہے آج۔ ہے نا سردی؟‘‘
جبار نے انگریزی میں مجھ سے کہا، ’’یہ تو مجھے پاگل خانے سے بھاگا ہوا لگتا ہے۔‘‘
’’اس کے آ گے کیا ہوا؟‘‘ مجید اپنے افسر کی بے بسی دیکھ کر بولا۔
’’جی ہونا کیا تھا۔ برات آنے پر نکاح ہوتا ہے۔ میری لالی کا نکاح افضل حسن۔ ولد محمد حسنہ مرحوم سے پڑھا دیا گیا۔ تھانے دار صاحب ایک بات تو بتاؤ۔ سہرا کیوں باندھتے ہیں دولہا کے؟‘‘ تاج دین نے جبار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک دم پوچھا۔
تھانے میں آنے والے سوال کا جواب دیتے ہیں۔ سوال نہیں کرتے۔
اس سے پہلے کہ جبار اس گستاخی پر گالی بکتا میں بول پڑا۔
’’ارے تاج دین سرگا اس لئے باندھتے ہیں کہ سرےا الٹا جائے اور مہمان دولہا کی صورت دیکھیں۔‘‘
’’ہاں جی اور پھر دولہا کی شکل دیکھ کر لالی کے باپ پر ہنسیں، طعنیں ماریں کہ ارے تاج دین اپنی چاند جیسی بیٹی کے لئے یہی بھوت جیسا آدمی ملا تھا تجھے؟ کہتا تھا اپنی بیٹی کے لئے اس کے جوڑ کا دولہا لاؤں گا۔ تونے پیسہ دیکھا۔ تونے لالچ کی۔ جی میں توشرم میں گڑ گیا۔‘‘ یہ سب کہتے ہوئے وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔
’’اچھا۔ ہوں۔ تمہارے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ لڑکا کوئی اور دکھایا تھا۔ مجید اسے پانی پلاؤ۔‘‘
دو گھونٹ پانی پی کر اس نے ہونٹ پونچھتے ہوئے پھر کہنا شروع کر دیا۔
’’اللہ بھلا کرے آپ کا۔ آپ سمجھ گئے۔ یہی بات ہے۔ میں نے سب کے سامنے چلا چلا کر کہا۔ مگر کسی نے میری بات کا یقین نہیں کیا۔ یہ دیکھ کر براتی مجھ سے جھگڑنے لگے۔ میں نے کہا۔ میں تھانے میں رپٹ لکھوانے جا رہا ہوں۔‘‘
’’اچھا تو تم دھوکہ دہی کی رپورٹ درج کرانے آئے ہو؟‘‘ ایک کانسٹیبل بولا جیسے کھدے ہوئے پہاڑ سے چوہے کی دم کھینچ رہا ہو۔
’’نہیں جی مجھے تو بزرگوں نے پکڑ لیا اور سمجھانے لگے کہ تاج دین تو غریب آدمی ہے کہاں تھانے کچہریوں میں پیشاھں بھگتے گا؟ وکیلوں کو کھلانے کے لئے کہاں سے لائے گا؟ اور پھر یہ پیسے والے لوگ ہیں جھوٹی گواہیاں پیش کر دیں گے۔‘‘ تاج دین بولتے بولتے رکا۔
’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ جبار نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
’’جی میں نے کہا میں لالی کا ڈولا ان دھوکے بازوں کے حوالے نہیں کروں گا۔چاہے جان چلی جائے۔‘‘ آخری فقرے پر زور سے رویا۔
’’ہوں۔ اس کے بعد تم نے کیا کیا؟‘‘ جبار نے سختی سے پوچھا۔
’’میں اپنی بات پر اڑا رہا۔ باراتی پہلے تو دھمکیاں دیتے رہے۔ پھر اپنی پگڑیاں اور ٹوپیاں میرے بھائیوں کے پیروں پر ڈالنے لگے۔ بزرگوں کے گھٹنوں کو ہاتھ لگائے اور میرے بیٹوں داماد کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگے۔ کئی مہمانوں کو کونے میں لے جا کر جانیں کیا کیا باتیں کیں۔ پھر جی۔ وہ لوگ جو مجھ پر ہنس رہے تھے۔ طعنے دے رہے تھے۔ وہ سب دولہا کے حمایتی بن گئے۔ میرے بھائی مجھے اللہ رسول کا واسطہ دینے لگے اور میرے بیٹے داماد الگ ہو کر یوں بیٹھ گئے جیسے ساری غلطی میری اور پھر جی مولوی صاحب نے کھڑے ہو کر کہا تاج دین بندے کی قسمت میں جو لکھا ہوتا ہے اس کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ لالی اب افضل حسین ولد محمد حسین مرحوم کی منکوحہ ہے جوہوا سو ہوا۔ اٹھو اب دیگ ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ مہمانوں کو کھانا کھلاؤ۔ اور جب میں مولوی صاحب کے کہنے سے بھی نہ اٹھا تو بھائیوں نے اور بیٹوں نے کام سنبھال لیا۔‘‘
’’ہوں۔ پھر تم نے کیا کیا یہ بتاؤ؟‘‘
’’جی میں کیا کرتا مجھے تو سب نے سڑک کے روڑے کی طرح ایک طرف پھینک دیا۔ آپ بتائیں جی میرا کیا قصور تھا جو سب نے میرا اختیار چھین لیا؟ پھر جی وہ سب میری لالی کو رخصت کرنے لگے۔‘‘ وہ پھر چپ ہو گیا۔ کمرے میں بھی سب چپ رہے۔
’’جب لالی سسرال جانے کو نکلی تو عورتوں کے پیچھے لالی کی ماں بھی دوپٹے میں منھ چھپائے باہر آ گئی۔ اس نے مجھے کتے کی طرح ایک طرف ہانپتے پایا تو وہ بات کہی جو پہلے کبھی نہ کہی تھی۔ تاج دین کی سا ہ گردن کی نوکیلی ہڈی تھوک نگلنے کی کوشش میں بار بار حرکت کرنے لگی۔
’’ کیا کہا لالی کی ماں نے؟‘‘ جبار نے پوچھا۔
’’کہنے لگی تاج دینے، تجھے کیا پتہ تیرے جیسے بدشکلوں کے ساتھ چاند جیسی لڑکیاں کس آگ میں جلتی ہیں۔ میری کلی جیسی لالی کو اپنی آنکھوں کے سامنے بھاڑ میں جانے دے رہا ہے۔ تو نے مجھے زبان دی تھی۔ اب دوسروں کی بات مان گیا۔ اگر تو مرد ہے تو اسے نہ جانے دے۔‘‘
’’اس کے بعد تم نے کیا کیا۔ سچ بتاؤ۔‘‘ جبار کرسی پر سیدھا ہو گیا۔
’’سچ کہتا ہوں مجھے نہیں پتہ کیسے خالی دیگ کے پاس پڑی باورچی کی چھری میرے ہاتھ میں آ گئی۔۔۔ اور۔۔۔ اور جی میں۔۔۔ بس میں سوار ہوتی برات کے پیچھے بھاگا۔ افضل حسین بس کے دروازے میں کھڑا تھا۔‘‘ اس نے کانپتے ہونٹوں سے پانی کا گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے لگانا چاہا مگر سارا پانی اس کی اوور کوٹ پرگر گیا۔ کمرے میں موجود ہم میں سے کسی نے بھی کوئی سوال نہ کیا۔ جیسے ہم سب اپنی آنکھوں سے تاج دین کو افضل پر حملہ آور دیکھ رہے ہوں۔
’’اس کے بعد۔ اس کے بعد جی وہ بانہیں پھیلا کر میرے سینے سے لپٹ گئی اور چپکے چپکے کہنے لگی۔ بابا مجھے جانے دیتے۔ یہ آدمی بھی تو تمہارے جیسا تھا۔ تم مجھے کتنا چاہتے ہو۔ یہ آدمی بھی مجھے۔۔۔ اللہ جانے افضل کے بارے میں کیا کہنا چاہتی تھی۔۔۔؟‘‘ تاج دین سوالیہ نظروں سے سب کی طرف دیکھا تو اس کے چوڑے اندھیرے غاروں جےکہ نتھےع لوہار کی دھونکیہ کی طرح پھیلنے سمٹنے لگے اور وہ اپنے پرانے اوورکوٹ کے بٹن کھولتے ہوئے یوں کرسی سے کھڑا ہو گیا جیسے بیٹھا رہا تو اس کا دم گھٹ جائے گا۔
’’اچھا تو تم نے افضل حسین کو۔۔۔‘‘ جبار بولا تو تاج دین نے تیزی سے جواب دیا۔
’’نہیں جی۔ افضل کو لوگوں نے بچا لیا۔۔۔‘‘
تاج دین نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا اوورکوٹ اتارنے کی کوشش کی اور ہم سب نے دیکھا اس کی سفید قمیض پر خون کا بڑا سا دھبہ تھا۔ اتنا زندہ اتنا تازہ جیسے خون اس کے دل سے رس رس کر کپڑے میں جذب ہو رہا ہو۔
اس نے اپنے خون آلود سینے کو اپنی بانہوں کے حلقے میں لپٹ لیا اور پاگلوں کی طرح چیخ چیخ کر رونے لگا۔
’’میری لالی کو کسی نے نہیں بچایا، یہ میری لالی کا خون ہے۔‘‘
’’پاگل گدھے تو نے اپنی معصوم بیٹی کو قتل کر دیا۔ لے جاؤ حوالات میں۔ بند کر دو اس بیٹی کے قاتل کو۔‘‘ جبار دہاڑا تو تاج دین کی چیخیں یک لخت رک گئیں۔ اس نے معصوم حیرت سے جبار کی طرف دیکھا اور سادہیوں کے ساتھ باہر چلا گیا۔
جبار نے جھلا کر ڈبیہ پر دیا سلائی اس زور سے رگڑ کر جلائی کہ میرا دل پٹاخے کی طرح دھڑکا اور مجھے لگا کہ کمرے کا سناٹا شیشے کی مانند تڑخ گیا ہے۔
تب ہوٹل کا گلگتی چھوکرا خالی پیالیاں اٹھانے کمرے میں آ گیا۔ میں نے معمول کے مطابق پچاس پیسے چائے کے اور پانچ پیسے ٹپ کے اس کی ٹرے میں آہستہ سے رکھ دیئے۔ چھوکرا روز کی طرح میرے بجائے جبار کو سلام کرتا باہر چلا گیا۔
’’یار تم نے آج پھر چائے کے پیےس دے دیئے۔ ہوٹل والا میرے حساب میں لکھ لیتا۔‘‘ جبار نے روز کی طرح شکایت آ میز لہجے میں کہا لیکن میں جو اس موقعے پر روزانہ بظاہر مسکراتا تھا اور دل میں ’’چل جھوٹے‘‘ کہتا تھا آج نہ مسکرا سکا نہ دل میں کچھ کہہ سکا۔ میں نے اپنی نوٹ بک کے ان بہت سے صفحات کو ایک ایک کر کے الٹا جن پر میں نے تاج دین کا بیان جوں کا توں لکھ لیا تھا۔ لیکن جنہیں میرے قلم سے چند سطروں کی خبر میں ڈھلنا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.