Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چاند سی بہو

ذاکرہ شبنم

چاند سی بہو

ذاکرہ شبنم

MORE BYذاکرہ شبنم

    مسز خان آج بہت خوش تھیں، کیوں نہ ہوتیں آج ان کی دلی تمنا جو پایہ تکمیل کو پہنچی تھی، ان کے اکلوتے بیٹے ساجد خان کی شادی اتنی حسین و جمیل لڑکی کے ساتھ ہو رہی تھی، جو صرف حسن میں بے مثال ہی نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھی، ڈگری ہولڈر، ہوشیار کامیاب ترین، زندگی کے ہر موڑ پر بلندیوں کو چھونے والی۔۔۔ اسی بات پر مسز خان کافی اکڑی جا رہی تھیں، وہ اپنے ہونہار خوبرو انجینئر بیٹے کے لیے ایسی ہی بہو لانے کا خواب برسوں سے آنکھوں میں سجائے ہوئے تھیں جو اپنی مثال آپ ہو۔۔۔ اتفاق سے ایک تقریب میں ان کی نظر اس پری جمال پر پڑ گئی اور تبھی انہوں نے اسے اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔ پھر بات آ گے بڑھی اور شادی طئے ہو گئی، اس طرح مسز خان کا یہ دیرینہ خواب آج پورا ہو گیا کہ وہ ایسی چاند سی بہو بیاہ کر لائیں کہ دیکھنے والے بس دیکھتے ہی رہ جائیں۔۔۔ لیکن اس کے برعکس خان صاحب چاہتے تھے کہ وہ اپنی بہن کی لاڈلی بیٹی جو قبول صورت ہونے کے ساتھ ساتھ صوم و صلوٰۃ کی پابند تھی اسے اپنے گھر کی زینت بنائیں۔ مگر اپنی بیگم سے ان کی ساری منتیں بیکار گئیں۔ شوہر کے لا کھ سمجھانے پر بھی وہ نہیں مانیں اپنے فیصلے پر اٹل رہیں۔ وہ دل کی مریضہ تھیں، اس بیماری کے خوف کی وجہ سے خان صاحب کو اپنی بیگم کی خواہش کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔۔۔

    شادی بڑی دھوم دھام سے ہو گئی۔ سارے خاندان میں مسز خان کا سر فخر سے او نچا ہو گیا ہر کسی کی زبان پر ان کی حسین و جمیل بہو کے ہی چر چے تھے۔۔۔ ادھر کچھ دنوں سے مسز خان کی طبیعت ناساز چل رہی تھی وہ سینے کے درد کی شکایت کر نے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تکلیف میں اضافہ ہو نے لگا ہر ممکن علا ج کے باوجود ڈاکڑ نے جواب دے دیا کہ ان کے پاس وقت بہت کم ہے اب دوا سے زیادہ خدا سے دعا کی ضرورت ہے۔۔۔

    وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہی تھیں ان کی سانسیں رک رک کر چل رہی تھیں۔ ان کا دم گھٹ رہا تھا۔ وہ زندگی اور موت سے لڑ رہی تھیں۔ ان کے پا س بیٹھے خان صاحب موت کو اپنی بیگم کے بہت ہی قریب ٹہلتے ہو ئے دیکھ رہے تھے۔۔۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھیں مگر ان کے گلے سے آواز نکل نہیں پارہی تھی، انہوں نے اپنے ہا تھ سے قرآن شریف کی طرف اشارہ کیا، خان صاحب ان کے اشارہ کو سمجھ گئے اور جلدی سے اپنی بہو سے کہا بیٹی وہاں سے قرآن شریف اٹھا لاؤ تمہاری ساس چاہتی ہیں کہ ان کے پا س بیٹھ کر سورہ یٰسین پڑھ کر انہیں سناؤ تاکہ ان کا آخری سفر آسان ہو جائے اور وہ راحت سے اجل کو لبیک کہہ سکے۔۔۔ ان کی بہو نے کلام اللہ تو اپنے ہاتھوں میں لے لیا مگر پاس آ تے ہو ئے کہنے لگیں۔۔۔ ابو یہ تو قرآن ہے۔ میں نے اسے کبھی پڑھا نہیں بلکہ میں نے اسے سیکھا ہی نہیں۔۔۔ میں کیسے پڑھ سکتی ہوں۔۔۔ کیا؟ خان صاحب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور اسی کشمکش کے عا لم میں انہوں نے جیسے ہی اپنی بیگم کی طرف دیکھا تو بیگم کی نظریں اپنی چاند سی بہو پر گڑی ہوئی تھیں۔۔۔ روح جسم سے پرواز کر گئی مگر دونوں آنکھوں سے ندامت کے آنسو صاف چھلکتے دکھائی پڑ رہے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے