چاندی کے تار
کہانی کی کہانی
’’ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے، جو اپنی معشوقہ کی کسی اور سے شادی ہو جانے کے بعد اسے خط لکھتا ہے۔ اس خط میں وہ اسے ہر اس بات کا جواب دیتا ہے، جو اس نے اس سے کبھی پوچھا بھی نہیں تھا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ اس سے ٹوٹ کر محبت کرتی تھی مگر وہ نظر انداز کر دیتا تھا۔ ان کی شادی کی بات بھی چلی تھی اور اس نے انکار کر دیا تھا۔‘‘
اب جبکہ تمھاری شادی ہو چکی ہے اور تم ایک دوسرے شخص کی آغوش میں جا چکی ہو، مجھے تمہیں خط لکھنے کا حق حاصل ہو گیا ہے۔ گویا ایک عجیب سی بات ہے کہ جب تم خط لکھتی تھیں تو میں جواب دینے سے قاصر تھا اور اب میں تمھیں خط لکھ رہا ہوں لیکن تم اس خط کا جواب دینے سے معذور ہوگی، میرے لئے یہ بوجھ بھی نا قابل برداشت ہےکہ میں ایک شادی شدہ عورت کو خط لکھوں کیوں کہ میں جانتاہوں کہ اس خط کا تمھارے خاوند پر کیا اثر ہوگا۔ اگر چہ میں اس امر کی پوری کوشش کروں گا کہ یہ خط سیدھا تمھارے پاس پہنچے اور تمھارے خاوند کو اس خط کا علم ہی نہ ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خط تمھارے شوہر کو مل جائے، یو ں ہی ڈاکیہ غلطی کر سکتا ہے اور اس کے بعد جو کچھ ہوگا اس کا تصور بھی کر سکتا ہوں، کیوں کہ ایک ہندوستانی شوہر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی دوسرا مرد اس کی بیوی کو خط لکھے۔
اور پھر یہ حقیقت اس پر آشکار ہو کہ اس کی بیوی کسی اور سے محبت کرتی ہے اور اب تک یہ راہ و رسم جاری ہے، اس بھید کا کسی ہندوستانی خاوند پر کھلنا، کوئٹہ کے بھو نچال کے مترادف ہوگا، وہ اپنے شباب کی غلطیوں کو نظر انداز کر سکتا ہے، آخر ہر شخص شادی سے پہلے محبت کرنا چاہتا ہے اور کرتا ہے، اگر اسے موقع مل جائے لیکن یہ حق شاید عورت کو حاصل نہیں، وہ تو محض ایک جانور تصور کی جاتی ہے جو ماں باپ کی کڑی نگاہوں میں مقید رہتی ہے، ایسی عورتوں کے لئے شوہر ایک مقدس چیز ہے، اجنتا کی تصویر کی طرح محض ایک دیوی جس پر جذبات کا اثر نہیں ہو سکتا، جس پر ماحول کبھی حاوی نہیں ہو سکتا، جس پر زمانے کے نشیب و فراز کا کوئی اثر نہیں، آج کل کی لڑکیاں اس امر کی گواہ ہیں کہ زمانےکی بدلتی ہوئی رونے، حالات اور ماحول نے ان پر کیا اثر کیا ہے اور اگر باتوں کو لوگ سمجھ جائیں تو شاید دنیا میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد آدھی رہ جائے، خاوند عورتوں کو پیٹنا چھوڑ دیں اور ہر گھریلو جھگڑے کے بعد طلاق کی دھمکی نہ دیا کریں۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے، دراصل بات یہ ہے کہ اگر یہ خط تمھارے خاوند کو مل جائے اور تمھیں وہ لعنت ملامت کرے یا پیٹے تو ان باتوں کو نظر انداز کر دینا اور ان تکلیفوں کو ماضی کے خوش گوار لمحوں کی خاطر سہہ لینا، گو میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی توقع کرنا محض بےوقوفی ہے کیوں کہ تم مجھے گالیاں دوگی، لعنت بھیجوگی اور کہوگی کہ کیوں بیٹھے بٹھائے ایک فتنہ اٹھا دیا لیکن میں اس فتنے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتا ہوں، گو تمھارے لئے یہ فتنہ اسی دن ختم ہو گیا جس دن تمھاری شادی ہوئی۔
لیکن میں ابھی تک کنوارا ہوں اور یہ فتنہ سوسو کر جاگ اٹھتا ہے اور مجھے باربار پریشان کرتا ہے، یہ میری پریشانیاں میری نشونما کے لئے اچھی نہیں، یہ کسک جو دل میں بار بار اٹھتی ہے اسے ایک بار کیوں نہ نیست و نابود کردوں، تمھاری محبت کا قصہ میرے لئے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا کہ ایک سائنس داں کے لئے جراثیم کی ایک نئی سلائیڈ، جو اس نے ابھی ابھی تیار کی اور خوردبین کے نیچے رکھ کر اسے نہایت انہماک سے دیکھ رہا ہو، گو تمھاری محبت کا قصہ پرانا ہو گیا اور اس پر شادی کا رنگ چڑھ گیا، لیکن میرے پاس چند ایسی چیزیں ہیں جو مجھے بار بار تمھاری یاد دلاتی ہیں، تمھاری چند مسکراہٹیں، تمہارے خط، تمھارا ریشمی رومال جو تم نے دیوالی کے روز اپنی ننھی بنّو کے ہاتھ بطور تحفہ بھیجا تھا، گو تمھاری مسکراہٹوں کی جگہ اب نئی مسکراہٹیں آ چکی ہیں، ان کی جگہ اب اور دلفریب ہونٹوں نے لے لی ہے اور ان کا اثر میرے کمزور اعصاب پر زیادہ پڑتا ہے لیکن ان مسکراہٹوں میں بناوٹ ہے اور ان میں وہ شے لطیف نہیں جو تمھارے تبسم میں تھی، تمھارا تبسم بالکل البیلا، انوکھا اور نرالا تھا۔
شاید تم نے پہلی بار مسکرانا سیکھا تھا، اس مسکراہٹ میں ایک نیاپن تھا، جس میں آنے والے شباب کی صبح تھی، ایک انجان معصوم مسکراہٹ، بناوٹ سے کوسوں دور، ایک بھیگی ہوئی صبح کی طرح شگفتہ، ترو تازہ، شبنم کی طرح ٹھنڈی اور چمکدار، شعلہ کی طرح سرخ اور آگ لگانے والی۔۔۔ و۔۔۔ ر۔۔۔ لیکن میں اب ان مسکراہٹوں کو بھول چکا ہوں، اب صرف ان کا تجزیہ کر سکتا ہوں، بالکل ایک ڈاکٹر کی طرح جو ایک مرض کو دوسرے مرض سے تشخیص کر لیتا ہے۔
اب بھی کوئی نہ کوئی میری طرف دیکھ کر مسکرا لیتا ہے اور یہ مسکراہٹ بجلی کے کوندے کی طرح مجھ پر حملہ کرتی ہے، حملہ نہایت شدید ہوتا ہے، سر تا پا ایک جھرجھری سی آ جاتی ہے، لیکن دوسرے لمحے میں میں سنبھل جاتا ہوتا ہوں اور مسکراہٹ کا تجزیہ کرنے لگتا ہوں۔
ہم ایک مشینی دور سے گزر رہے ہیں، ہم اس زمانے میں پیدا ہوئے جب پانی اور ہوا پر انسان نے قابو پا لیا ہے، ہم وقت، رفتار اور فاصلے پر حاوی ہو چکے ہیں، اب روحانی باتوں کا زمانہ نہیں، بالکل مادی چیزوں کا تذکرہ ہوتا ہے اور اس لئے مسکراہٹیں بھی مادی ہو گئی ہیں اور جب کوئی میری طرف مسکرا کر دیکھتا ہے، سوچنے لگتا ہوں کہ اس مسکراہٹ کا کیا مطلب ہے، اگر میں بھی مسکرا دوں تو مجھے کیا فائدہ پہنچے گا اور اگر نہ مسکراؤں تو کیا نقصان ہوگا۔
آج کل ہر چیز نفع اور نقصان کے معیار پر پرکھی جاتی ہے، لیکن تمھاری مسکراہٹوں میں وہ بات نہ تھی، اگر ہوتی تو آج مجھے یوں نہ یاد آتی۔ تم اسی بات کو لو کہ صرف ایک مسکراہٹ پر کتنا جھگڑا چل رہا ہے، آج کل تو بال کی کھال اتاری جاتی ہے، ہر چیز کا نفسیاتی پس منظر تلاش کرنا پڑتا ہے اور اس کا اثر اعصاب پر دیکھنا پڑتا ہے اور پھر تجزیہ، اب یہ محبت نہیں ہے، محض سردردی ہے، ایک بہانہ ہے اپنے آپ کو ختم کرنے کا، لیکن کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
شاید یہ اقدار پرانی اقدار سے اچھی ہیں، ہو سکتا ہے، اگر ہم ان اقدار کو اپنے آپ پر حاوی ہونے دیں، آہستہ آہستہ عمل پذیر ہونے دیں، تو شاید زمانہ بدل جائے اور ہم ایک نئی دنیا بسالیں۔ لیکن مجھے اس قسم کے روحانی فلسفے سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی مجھے آج ان’’sms‘‘ پر بحث کرنی ہے کہ فلاں چیز اچھی ہے یا بری ہے، میری مرکز نگاہ تو آج تم ہو اور تمھیں بھول کر آج خشک بے جان فلسفوں پر بحث کرنا بےوقوفی ہے۔ شاید مجھے کچھ دن اور زندہ رہنا ہے کیوں کہ ایک جوتشی نے چند دن گزرے مجھے بتایا کہ میں جلد مر جاؤں گا، میں جوتشی کے چہرے کی طرف برسوں سے جھوٹ بولنے سے اس کے خدوخال مسخ ہو گئے تھے، چہرے پر ایک قسم کی نحوست برس رہی تھی۔
اور اس پتھریلی سڑک پر بیٹھے ہوئے نہ جانے اسے کتنے برس ہو گئے تھے اور کون جانتا ہے کہ اس نے کتنوں کے ہاتھ دیکھے اور ان کی قسمت کا جائزہ لیا، کتنوں کو اس نے اس نا امیدی کو سر کرنے کی ترکیبیں بتائیں لیکن سڑک پر گزرنے والے نے کبھی یہ سوچا، کہ وہ کیوں بیس سال سے اس خاک آلود سڑک پر بیٹھا ہوا ہے، جہاں گندگی اور غلاظت کے انبار لگے ہوئے ہیں اور پیشاب کی بو سے پھیپھڑے جھلس جاتے ہیں، کیا ان بیس سالوں میں اس کی قسمت کا ستارہ کبھی بلند نہ ہوا، کیا وہ ترکیبیں تجویزیں جو وہ دوسروں کو بتاتا تھا، کبھی اس نے اپنے اوپر نہیں آزمائیں، کیوں یہ پتھریلی زمین اس کی بنجر زندگی کا ایک اہم جزو بن گئی۔
کیا سڑک یوں ہی پتھریلی رہےگی اور اس پر چلنے والوں کا ستارہ کبھی بلند نہ ہوگا، میں نے چاہا کہ اس جوتشی کو کھری کھری سناؤں اور اسے کہہ دوں کہ وہ کیوں جھوٹ بول کر اپنی روح کو گزند پہنچاتا رہا ہے، لیکن زندگی میں صرف روح ہی ہوتی تو میں اس سے یہ بات پوچھ لیتا، لیکن زندگی میں روح کے علاوہ پیٹ بھی ہے، جو روح سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، روحانی تسلی کو خیرباد کیا جا سکتا ہے لیکن پیٹ کی بھوک کو خیر باد کہنا مشکل ہے۔
مگر تمھیں ان جوتشیوں اور راہ گیروں سے کیا فائدہ؟ یہ لوگ تو ان انسانوں کے لئے وقف ہیں جنھیں اور کوئی کام نہیں ہوتا، تمھیں تو اس زندگی سے بہت کام لینے ہیں اور ایک کام یہ بھی کرنا ہے کہ تمھیں میرا یہ بےسروپا خط بھی پڑھنا ہے، یہ ایک احمقانہ بات ہےکہ قصہ تو محبت کا شروع ہوا اور میں پیٹ کا قصہ لے بیٹھا، دراصل یہ دونوں چیزیں ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ ان دونوں پر افسانی زندگی کا دارومدار ہے، اگر انسانی زندگی کا دارومدار نہیں تو کم از کم میری زندگی کا انحصار ان ہی دو چیزوں پر ہے، اگر میں تمھیں اپنا نہ بنا سکا تو اس میں تمھاری محبت کا قصور نہیں، بلکہ ان حالات کا جن پر قابو نہ پا سکا اور اگر حالات پر قابو پا لیتا تو آج شاید تم میری آغوش میں ہوتیں اور مجھے یہ خط لکھنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔
میں نے تمھیں پہلی بار اس وقت دیکھا، جب تم پانچویں جماعت میں پڑھتی تھیں، یوں ہی تم ایک دن میرے کمرے میں آ گئیں، یوں ہی نہیں بلکہ تمھیں ایک کام تھا، اس وقت گو تمھارا قد چھوٹا تھا، پتلا سا جسم اور خدوخال نہایت تیکھے۔ تمھارے خدوخال نے مجھے بالکل نہیں اکسایا، بلکہ اس بےباکی، اس بے تکلفی نے جو تم نے میرےساتھ برتی، تم نے بغیر کسی جھجھک کے کہہ دیا، کہ بہن جی انگلش ریڈر مانگتی ہیں، میں تمھاری صورت کا جائزہ لے رہا تھا۔
تم نے خود ہی الماری کھولی اور کتاب تلاش کرنے لگیں، میں تمھاری بے باکی پر اور بھی حیران ہوا، تمھارے سر سے دوپٹہ سرک گیا تھا اور تمھارے سیاہ بال میری نظروں میں الجھنے لگے، اس دن مجھے تمھارے بال اچھے لگے تھے، کتنے سیاہ اور لمبے تھے، تم نے جلدی ہی کتاب ڈھونڈلی اور پھر چلی گئیں، یہ تھی پہلی ملاقات، کتنی بےجان، بےلذت اور فروعی، جس کا ذکر کرنا نہایت فضول معلوم ہوتا ہے، صرف ایک لفظ میں اس ملاقات کے اثر کو بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ تم اس دن نہایت بےباک تھیں اور تمھارے بال سیاہ اور لمبے تھے اور دو سال کے بعد جب تم مجھے ملیں تو میں تمھیں پہچان نہ سکا۔
ان دو سال میں تم کیا سے کیا ہو گئی تھیں، اس دن مجھےتمھارے بال اچھے لگے تھے، آج تمھارا قد بنچ کی طرح لانبا اور نازک اندام۔ میں نے سروسے اس لئے تشبیہ نہیں دی کہ یہ تشبیہ پرانی ہو چکی اور زیادہ استعمال سے اس لفظ کی خوب صورتی مٹ چکی ہے، بنچ کا درخت تم نے نہیں دیکھا ہوگا، کیوں کہ شہروں میں بنچ کے درخت نہیں ہوتے، سرو بہت ہوتے ہیں اور میں تمھارے تصور کو بہت دور لے جانا چاہتا ہوں تاکہ شادی کے ماحول سے نکل کر تم چند ساعتوں کے لئے اس دنیا میں آ جاؤ جہاں میں سانس لے رہا ہوں تاکہ تم بھی ماضی کے واقعات سے میری طرح لطف اندوز ہو سکو۔
تم اگر اکیلی ہوتیں تو میں تمھیں زیادہ انہماک سے دیکھتا اور ایک نقاش کی حیثیت سے تمھارے خدوخال کا جائزہ لیتا، لیکن تمھارے ساتھ ایک اور لڑکی تھی جس کا حسن صبح تمھاری مونہی صورت پر حاوی ہو رہا تھا، اس کا کھلا ہوا چہرہ، غلافی آنکھیں اور رس بھرے ہونٹ تمھارے لمبوترے چہرے اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور پتلے پتلے ہونٹوں کے مقابلے میں زیادہ اچھے لگے، تم اس دن شرم و حیا سے سمٹی ہوئی تھیں اور وہ زیادہ بے باک نظر آ رہی تھی، اسے اپنے جسمانی حسن کا احساس تھا، اسی لئے وہ اٹھلا اٹھلا کر چلتی تھی۔
اور اس کا ابھرا ہوا سینہ مجھے زیادہ پسند آیا۔ جس میں شباب کی ساری تازگی پنہاں تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جوانی ایک سیل آتشیں کی صورت میں ان بلندیوں کے نیچے کروٹیں لے رہی ہے اور یکایک اس دن مجھے معلوم ہوا کہ اس مشینی دور میں بھی عورت کا شباب زندہ ہے، ازل سے لے کر ابد تک اس شباب میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انسانوں کی حرکات، سکنات، ان کا نصب العین ان کی معاشرت ان کی اخلاقی، سیاسی قدریں بدلتی رہی ہیں، لیکن عورت کا شباب اسی شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔ صدیوں کا آہنی چکر شباب کی رعنائیوں، لطافتوں اور کیفیتوں کو نہیں کچل سکا۔
اب بھی بیسویں صدی میں ایک مرد ایک عورت کے لئے پاگل ہو سکتا ہے، ایک عورت کے لئے تخت و تاج چھوڑ سکتا ہے۔ لیکن تمھاری سہیلی کو اس بات کا احساس نہ تھا کہ اس کا حسن اتنے تباہ کن نتائج پیدا کر سکتا ہے، وہ ایسے چلتی تھی گویا اسے لوگوں کی کوئی خاص پرواہ نہ تھی، اگر لوگوں کی نظریں اس کے سینے پر پڑتی تھیں تو پڑتی رہیں اور اگر اس کا کرتا ضرورت سے زیادہ ابھرا ہوا ہے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں اور تم۔۔۔ تمھارا قد لمبا تھا، جسم پتلا سا تر ناری کی بیل کی طرح لچکتا ہوا اور پھر تم کچھ حد سے زیادہ شرمیلی ہو گئی تھیں، تمھارے چلنے کا انداز ہی بھدا تھا، گردن نیچے کر کے کبھی کبھی مڑ کر دیکھنا کبھی چھپ کر کنکھیوں سے، کبھی لبوں پر مسکراہٹ ہے تو کبھی لب جامد ہیں، کبھی تمھارا سر ہلتا تھا تو کبھی ہاتھ اور اپنی سہیلی کے ساتھ کھسر پسر کرنا اور اس کے ساتھ لپٹ لپٹ کے چلنا مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا اور جب تم گلی کے موڑ پر پہنچیں تو تم نے مجھے ہاتھ سے نمستے کی، مجھے امید تھی کہ تم اس طرح کروگی۔
تم ایسی لڑکیاں نہایت ہی جذباتی ہوتی ہیں۔ تم پوچھ سکتی ہوکہ مجھے کیوں کر معلوم ہوا کہ تم ایسا ہی کروگی، محض تجربے کی بناء پر مجھے معلوم ہے جو لڑکی زیادہ شرمیلی اور خاموش ہوتی ہے وہ اکثر تصور کی دنیا میں ڈوبی رہتی ہے، اسے خود نمائی کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی، اس کے خیالات زیادہ حسین اور رنگین ہوتے ہیں۔ لیکن جو لڑکی زیادہ ہنستی ہے، جسے اپنے حسن کا ضرورت سے زیادہ احساس ہوتا ہے وہ جذباتی کم اور کاروباری زیادہ ہوتی ہیں، ایسی لڑکیاں اشارے کم کیا کرتی ہیں، خط کم لکھتی ہیں، شاید وہ سمجھ جاتی ہیں کہ آخر انھیں ایک دن شادی کرنا ہے تو پھر ان جھنجھٹوں سے کیا حاصل۔ ان اشاروں اور خطوں سے کیا ملےگا، چھپ چھپ کر ملنا، مڑ مڑ کر دیکھنا، نگاہوں سے مسکرانا، ایسی باتیں انھیں فضول لگتی ہیں، وہ جی بھر کےہنس لیتی ہیں، وہ مردوں سے کم ڈرتی ہے اور شرم، ڈر اور جھجھک کے غلاف کی پناہ نہیں لیتیں۔ ان کی جنس کا اظہار ان کی خودنمائی میں ہوتا ہے اور شاید یہ طریقہ دوسرے طریقوں سے بہتر ہے۔
لو۔۔۔ میں پھر نفسیاتی چکر میں الجھ گیا، مجھے اس سے کیا کہ فلاں عورت جذباتی ہے، فلاں نمائش پرست ہے یا فلاں عورت ایسی ہو سکتی ہے یا ہو جائےگی۔ ان باتوں کے لئے میرے پاس وقت نہیں ہے، تو ہاں اس ملاقات کے بعد تمھاری عادات بدل گئیں، مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے تم نے اپنے آپ کو اور زیادہ سکیڑ لیا ہے۔ بالکل لاجونتی کی بیل کے پتوں کی طرح جو ذرا سے لمس سے سکڑ جاتے ہیں، اگر چہ تمھارا قد لمبا ہوتا جا رہا تھا اور تمھاری آنکھوں میں ایک نئی چمک پیدا ہو رہی تھی لیکن تم ضرورت سے زیادہ گھٹی گھٹی نظر آنے لگیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمھارے ذہن پر ایک بوجھ سا ہے جس کا احساس تمھیں نہا یت شدت سے ہو رہا ہے، مجھے کیا معلوم کہ گھر والوں سے تمھارا کیا رویہ تھا، شاید تم گھر میں ہنستی ہوگی، کھل کر باتیں کرتی ہوگی لیکن میں کامل وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ملاقات کے بعد جب بھی تم گلی میں ملیں تو تم مجھے دیکھ کر گھبرا گئیں اور پھر مجھے دیکھ کر بھاگ گئیں اور ایک دن میں نے تمھارا تعاقب بھی کیا کہ معلوم کروں کہ تم مجھے دیکھ کر کیوں بھاگتی ہو۔ لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا، تم نے دو تین بار اس طرح کیا اور میں بہت سٹ پٹایا کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے، تمھاری یہ حرکتیں کیا معنی رکھتی ہیں، ان چند مہینوں میں کیا کچھ ہو گیا کہ تم مجھے دیکھ کر ٹھٹک جاتیں یا پھر جلدی سے بھاگ جاتی ہو اور پھر ایک دن عقدہ کھلا۔ جب ماں نے مجھ سے کہا کہ بڑے چودھری کے گھر سے سگائی کے لئے کہہ رہے ہیں۔ ’’تمھاری کیا رائے ہے۔‘‘ پھر میں سمجھ گیاکہ تم کیوں جھینپ جاتی ہو اور مجھے دیکھ کر گھبرا جاتی ہو اور میری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہو، تمھارے حسنِ تخیئل کی میں داد دیتا ہوں کہ منٹوں ہی منٹوں میں تم مجھے کہاں سے کہاں لے گئیں۔
اماں نے پھر پوچھا کہ’’تمھاری کیا رائے ہے۔‘‘ ان کا مطلب تھا کہ میں ہاں کر لوں میں ان دنوں بی اے فیل ہو چکا تھا اور اپنے چچا کی دکان پر بیٹھا کرتا تھا، میرے چچا شہر کے مشہور ڈاکٹر تھے اور ان کی یہ رائے تھی کہ میں بھی اس دوکان پر کام کروں اور اسی طرح ڈاکٹری سیکھ لوں اور پھر اس شہر میں ڈاکٹری کی دوکان کھول لوں، تجویز کتنی معقول تھی، لیکن مجھے بالکل نا پسند تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ مجھے عطائیوں سے نفرت ہے، گو میں یہ بات جانتا ہوں کہ اگر میں ڈاکٹری سیکھ لیتا تو اس وقت تک کافی روپے کمائے ہوتے، ڈاکٹر گردھاری لال اور ڈاکٹر تارا سنگھ دونوں نے میرے سامنے ہی پریکٹس شروع کی، دونوں نے ڈاکٹری کا امتحان کہیں سے پاس نہ کیا تھا لیکن جاہل لوگوں کو جاہل تر بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ چند دوائیں ایک چھاتی دیکھنے کا آلہ اور تھرمامیٹر خرید کر انسان ایک مکمل ڈاکٹر بن جاتا ہے اور اس کے بعد وہ مریضوں کو جہنم میں بھیجے یا جنّت میں، لیکن مجھے یہ طریقے پسند نہیں، میں ہر چیز کو مکمل طور پر دیکھنا چاہتا ہوں اس لئے میں نے ڈاکٹر بننے کا خیال ترک کر دیا۔
لیکن تمھارے والد کا اصرار بڑھتا گیا اور وہ سگائی پر زور دینے لگے، تمھارے پیغام بھی مجھے ملتے رہتے تھے اور جو کچھ تم نے اپنے رشتہ دار ہریش سے کہلوا دیا، وہ مجھے یاد ہے، ان سے کہو کہ وہ سگائی کر لیں۔ میں اس بےباکی کی داد دیتا ہوں کہ تم نے مجھے ہمیشہ کے لئے منتخب کر لیا اور تم نے ہر ممکن طریقے سے کوشش کی کہ سگائی ہو جائے اور آخر یہ باتیں شہر میں پھیل گئیں اور شہریوں کی زبان پر چرچا ہونے لگا، اس چھوٹے شہر میں تمھارے والد کا کافی رسوخ تھا، اس لئے اس بات نے کافی اہمیت اختیار کر لی اور اکثر دوستوں نے مجھ سے کہا، بھئی سنا ہے تمھاری سگائی ہو گئی ہے، بھئی خوب ہے اچھی نبھےگی، میرے دوستوں نے تمھیں اکثر دیکھا ہوگا اور تمھارے حسن کی بےباکیوں نے انھیں پریشان بھی کیا ہوگا۔
ان کے تعریفی فقرے جو وہ ہم دونوں پر کستے تھے، ان میں ان کی جنسی بھوک کا وحشیانہ اظہار تھا، اب تم نے ہمارے گھر آنا بند کر دیا، کیوں کہ ماں نے ہاں کر دی تھی اور تمھیں اس بات کا پورا یقین ہو گیا تھا کہ اب تمھاری شادی اس گھر میں ہوگی، تمھارے پیغام میرے پاس پہنچتے تھے، گھر کا دروازہ ذرا اونچا کرا لو، میں روز بروز لمبی ہوتی جا رہی ہوں۔ پرسوں آپ نہایت ہی گندے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ’’کیا شہر میں نائی کوئی نہیں۔‘‘ آپ نے میری طرف دیکھا نہیں اور میرے قریب سے گزر گئے۔ میں اکثر چھ بجے شام کو گلی والے درخت کے قریب کھڑی ہوتی ہوں اور اپنی سہیلیوں سے باتیں کرتی ہوں، تم بھی اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں سے گزرا کرو اور اس طرح کئی اور احکام جو میں کبھی نہ بجالا سکا۔ اس کی بہت سی وجہ ہیں، مجھے کچھ اس قسم کے عشق سے نفرت ہو گئی ہے، گو میں سمجھتا ہوں کہ تمھارے لئے یہ بات نئی تھی بالکل نئی، کیوں کہ تمھارے جسم کی تشکیل یہ ظاہر کر رہی تھی کہ یہ جوش بالکل نیا ہے، یہ ابال شاید پہلا ابال ہے، اس کی اٹھان ہی نرالی ہوتی ہے اور انسان اس حالت میں اتنا بے قابو ہو جاتا ہے کہ اسے اونچ نیچ کی پرواہ نہیں رہتی۔
اگر میری بھی اولین محبت ہوتی تو شاید میں بھی یہی کرتا اور ہم دونوں نہ جانے کیا کر بیٹھتے، لیکن میں اس سے پہلے ایک عورت سے محبت کر چکا تھا اور وہ بھی ایک شادی شدہ عورت سے۔ اگر چہ یہ پڑھ کرہنسو گی کہ ایک مجرد انسان ایک شادی شدہ عورت سے کیوں کر محبت کر سکتا ہے، تمھاری طرح میرے دوست بھی مجھ پر ہنستے ہیں، ہندوستان میں محبت کی قدریں ابھی پرانی ہیں، یہاں ایک شادی شدہ عورت کی طرف دیکھنا فعلِ بد سمجھا جاتا ہے، سماج کہتا ہے، وہ عورت تو دوسرے کی ہو چکی، اب تمھارا اس پر کیا حق ہے۔ اب تم اس کی طرف کیوں دیکھتے ہو، شادی شدہ عورت کی شخصیت تو ایک شخص کی ملکیت ہو چکی، اب تم کیوں جھک مارنے پر تلے ہوئے ہو، لیکن یہ سچ ہے کہ مجھے اس عورت سے محبت تھی اور اس کے بعد آج تک کسی اور سے محبت نہ کر سکا، اگر تم اس عورت کو دیکھتیں تو اس عورت کو دیکھ کر منہ پھیر لیتیں۔ وہ خوب صورت نہ تھی، لیکن میں نے اس سے جی بھر کر محبت کر لی۔ یہ میرے شباب کا اولین عکس تھا، جس شدت سے میں نے اس عورت کو چاہا، وہ گرمی، وہ تڑپ، وہ اضطراب میرے جسم میری روح میں پھر کبھی نہ آ سکا۔
یہ ایک لمبی سر گزشت ہے، جس کا انجام نہایت بھیانک ہے، اس عورت کے لئے میں بدنام ہوا اور اسے بھی میرے لئے کافی ذلت اٹھانی پڑی، پانچ سال ہوئے وہ مر گئی۔ لیکن اس کی یاد ابھی تک زندہ ہے، اس کی محبت کی تپش باقی ہے جس سے میں اکثر بےچین ہو جاتا ہوں، ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جس طرح تم اپنے آپ کو میرے لئے پریشان کرتی رہی ہو اسی طرح میں اپنے آپ کو اس عورت کو پانے کے لئے پریشان کرتا رہا ہوں، میں تو خیر بامراد رہا، مگر تم میرے ہاتھوں کے لمس سے بیگانہ رہیں، لیکن محبت اور شادی میں فرق ہے، میں اس عورت سے محبت کر سکتا تھا شادی نہیں اور تمھارے ساتھ شادی کر سکتا ہوں محبت نہیں، میں نے کوشش کی میں تم سے محبت کر سکوں لیکن ایسا نہ کر سکا، اکثر تمھارے خدوخال میری آنکھوں کے سامنے آ جاتے اور میں نہایت باریکی سے ان کا تجزیہ کر سکتا اور ان میں طرح طرح کے نقص نکالتا اور یہ سوچتا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تمھاری آنکھیں بڑی بڑی ہوتیں اور تمھاری ٹھوڑی ضرورت سے زیادہ لمبی نہ ہوتی اور اگر تمھارا نچلا ہونٹ ذرا موٹا ہوتا تو زیادہ خوب صورت ہوتا۔
اور اگر تمھاری آنکھوں کی پلکیں زیادہ گھنی ہوتیں تو تمھاری آنکھوں کی چمک زیادہ نمایاں ہو جاتی اور پھر تم نہایت بے ڈھنگے پن سے لمبی ہوتی جا رہی تھیں، کولہوں اور کمر میں کوئی تناسب نہ تھا، اگر کمر پتلی تھی تو کولھے متناسب نہ تھے اور باقی جسم پر بھی اتنا گوشت نہ تھا کہ تمھارے اعضاء زیادہ متناسب ہو جاتے، اس قسم کے گھناؤنے خیال جو شرافت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں رکھتے، مجھے ستایا کرتے۔ اس عمل کو روکنا میرے بس میں نہ تھا، لیکن ان خامیوں کے باوجود تم میں جاذبیت تھی، اتنی جاذبیت کہ میں تم سے شادی کر سکتا تھا، لیکن محبت نہیں، محبت کے لئے کچھ اور چاہیے، ایک خاص قسم کا حسن۔۔۔ ایک قسم کا۔۔۔ کیا کہوں۔۔۔!
تم تو مجھے پسند تھیں، صرف پسند، میں تمھیں پسند کر سکتا تھا اور تمھیں پسند کر سکتا ہوں اور شادی بھی کر لیتا، اگر حالات اجازت دیتے، ہاں حالات۔۔۔ شاید تم ہنس دو اور کہو کہ ہندوستان میں ہر انسان شادی کر لیتا ہے خواہ اس کے حالات اچھے ہوں یا برے، شادی تو ان کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ موت، لیکن زندگی میں موت گوارا نہیں کی جاتی، میرے تمام دوستوں نے شادیاں کر لی ہیں، گو ان کے اقتصادی حالات مجھ سے بہتر نہ تھے تو کیا میں شادی نہ کر سکتا تھا، اب تو میں نے بی۔ اے۔ بھی کر لیا تھا اور اگر چاہتا تو کسی بنک یا گورنمنٹ کے کسی محکمے میں نوکر ہو جاتا اور تمھارے دل کی آرزؤں کو پورا کر دیتا، لیکن میں ان چیزوں سے بہت گھبراتا ہوں، تمھارے والد نے مجھے سگریٹوں کی ایجنسی لینے کے لئے کہا تھا، کہنے لگے کہ سگریٹوں کی ایجنسی میں بہت فائدہ ہے، گورنمنٹ کی نوکری میں کیا دھرا ہے۔ یہ ایجنسی لے لو اور کام کرتے جاؤ، ساری دنیا سگریٹ پیتی ہے اور خاص کر اس شہر کے لوگ تو سگریٹ اور نسوار کا خوب استعمال کرتے ہیں اور ایجنسی کے ساتھ نسوار کا بھی ٹھیکہ لے لو تو وارے نیارے ہو جائیں گے، چند ہی برس میں میری طرح ایک عالیشان مکان بنوالوگے اور لڑکوں اور بچوں کے درمیان ایک باعزّت انسان بن جاؤگے، سگریٹ کی ایجنسی اور۔۔۔ نسوار۔۔۔ نسوار سے مجھے نفرت ہے، لیکن میں سگریٹ پیتا ہوں اور جب کبھی حد سے زیادہ مغموم ہو جاتا ہوں تو کمرے میں بیٹھ کر سگریٹ کا دھواں فضا میں بکھیرتا رہتا ہوں، فضا میں دھواں پھیلتا رہتا ہے، بکھرتا رہتا ہےاور میرے پریشان آوارہ خیالات دھوئیں کی سفید لہروں میں تحلیل ہوتے رہتے ہیں۔
کچھ اس طرح مجھے تسکین ہو جاتی ہے، یوں ہی چھوٹی سی فروعی باتوں سے تسکین ہو جاتی ہے، نہ جانے کیوں، لیکن ایجنسی لینے سے تو رہا۔۔۔ نسوار۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔ مکان بنانے کی خواہش نہیں اور باعزت انسان بننا میں نے کبھی قبول نہیں کیا، ان دنوں میں خود بھی نہیں جانتا تھا کہ میں کیا کر سکتا ہوں اور کیا کروں گا، ایک بےکیف سی آوارگی، میرے دل و دماغ میں بسی رہتی، کوئی چیز پسند نہ آتی تھی، دوکان پر کام کرتے کرتے تنگ آ گیا تھا، جی چاہتا تھا کہ شہر چھوڑ کر بھاگ جاؤں، آخر میں کیا چاہتا ہوں اس متعلق میں سوچتا رہتا، کاش میں کہیں کلرک ہی بھرتی ہو گیا ہوتا اور ساٹھ روپے ماہوار لےکر تم سے شادی کر لی ہوتی اور ان چھ سالوں میں کم ازکم چھ بچّے پیدا کیے ہوتے۔
شاید مجھے تسکین ہوتی اور لوگوں سے کہہ سکتا کہ میں نے بھی دنیا میں کچھ کام کیا ہے، آخر میں اپنے دوستوں کے نقشِ قدم پر کیوں نہ چلوں، اگر انہیں حق حاصل ہے کہ وہ ہر سال ہندوستان کی آبادی میں ایک فرد کا بغیر سوچے سمجھے اضافہ کردیں تو میں کیوں دریا کے کنارے کھڑا رہوں، کیوں نہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھولوں، لیکن میں ایسا نہ کر سکا اور میں اکثر سوچتا رہتا کہ میں کیا چاہتا ہوں، میں کیوں پریشان ہوں اور آہستہ آہستہ مجھ پر یہ بات آشکار ہونے لگی کہ مجھے کلرکی سے نفرت ہے، مجھے ان ساٹھ روپوں سے نفرت ہے، مجھے ان بچوں سے نفرت ہے، مجھے انسانوں کی کمینگی سے نفرت ہے، یہ کیوں ہر طرف غلاظت ہی غلاظت نظر آتی ہے، کیوں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے، چھتوں پر اندھیرا، تنوں پر اندھیرا، چولھے پر اندھیرا۔ روٹیوں پر اندھیرا اور آہستہ آہستہ یہ اندھیرا بڑھتا جاتا ہے، کائنات کے ذرّے ذرّے پر چھا جاتا ہے، انسان کے ریشے ریشے میں سمائے جاتا ہے۔
آہستہ آہستہ مجھے اس نظام سے نفرت ہونے لگی، جہاں اس قسم کا اندھیرا پھیلا رہتا ہے۔ کیوں نہ میں اس اندھیرے کو چیروں، اس اندھیرے کی قبا کو پھاڑ دوں، تاکہ روشنی کا منبعِ اعظم پھوٹ پڑے۔ کم از کم ان چھوٹے مکانوں میں روشنی تو آ جائے، ان چھوٹے کمروں میں جہاں ایک جگہ میاں بیوی اور بچّے ہوتے ہیں چمک آ جائے، جہاں مہینے میں ساٹھ روپے ملتے ہیں اور کھانےوالے افراد آٹھ ہوتے ہیں، جہاں شادی کے بعد عورتیں جلد بوڑھی ہو جاتی ہیں، جہاں ان کی آنکھوں کی چمک بہت جلد غائب ہو جاتی ہے اور ان کی ملائم مخروطی انگلیاں برتن صاف کرتے کرتے ٹیڑھی ٹیڑھی ہو جاتی ہیں، جہاں ان کے چہرے کی ہڈیاں باہر نکل آتی ہیں اور ہڈیوں پر چمڑا اتنا سخت اور کھردرا ہو جاتا ہے کہ دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔
جہاں ان کے گالوں کے گڈھے اتنے گہرے ہو جاتے ہیں کہ ان میں جنسی بھوک کسی ہوئی چمگادڑوں کی طرح کراہتی ہے، وہ سیاہ بال جن پر ان کا خاوند جان چھڑکتا تھا، آج بوٹ پولش کے برش کی طرح خشک اور کھردرے ہو گئے ہیں، آنکھوں کی تابانی کہاں گئی، وہ میٹھی شہد جیسی آواز کہاں غائب ہو گئی اور انسان کیوں گنوار اور حیوان بن جاتے ہیں، بے روح، صرف چلتی پھرتی ٹانگیں اور ان پر کپڑوں کے خول اور اندر کچھ بھی نہیں۔۔۔ دکھائی نہ دینے والا انسان اور آہستہ آہستہ یہ حقیقتیں مجھ پر بار گراں ہو گئیں، دل میں اس نظام کے خلاف ایک جذبہ بھڑکنے لگا لیکن اس دوران میں چند لمحے ایسے بھی آئے کہ میں اپنے آپ کو کوسنے لگا۔
تمھاری یاد کا جال آہستہ آہستہ مضبوط ہو رہا تھا اور شہر میں رہتے ہوئے یہ نا ممکن تھا کہ میں تمھیں بھول جاتا یا نظر انداز کر دیتا، تمھاری باتیں اکثر مجھ تک پہنچتیں، تم اکثر مجھے کہیں نہ کہیں مل جاتیں، کبھی کبھی اپنے نوکر کے ساتھ کبھی سہیلیوں کے ساتھ اور کبھی اماں کے ساتھ، تمھاری آنکھوں کا حزن و ملال تمھاری نگاہوں کی ذرا سی جنبش مجھے کبھی کبھی پریشان کر دیتی اور پھر تمھارے والد نے کچھ عرصے سے مختلف تحائف ہمارے گھر بھیجنا شروع کر دیئے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ سگائی کی بات پکی ہو گئی لیکن میں جانتا تھا کہ یہ کام ہونے والا نہیں، گھر والے اکثر مجھے نوکری کے لئے مجبور کرتے، لیکن میں گھر والوں کو یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ نوکری اچھی ملتی نہیں اور اس طرح آنے والے خطرے کو ٹالتا رہا، آخر تمہارے والدین نے مجھ سے تنگ آکر پوچھ ہی لیا۔۔۔ کہ میری کیا رائے ہے؟ کب تک شادی کرنے کا ارادہ ہے۔ پہلے پہل میں نے سوچا کہ میں انھیں گول مول جواب دے دوں، کیوں کہ میں تم سے رشتہ ناطہ توڑنا نہ چاہتا تھا۔
کون چاہتا ہے کہ اس سنہری جال کو توڑ دیا جائے جس میں آرزوؤں، تمناؤں اور خواہشوں کا تانا بانا لگا رہتا ہے، کم ازکم میں تو نہیں چاہتا تھا کہ تم میرا کورا جواب سن کر مجھ سے روٹھ جاؤ اور میں تمھاری مسکراہٹوں سے اتنی جلدی محروم ہو جاؤں، تمھاری نگاہوں کی نوازش سے محظوظ نہ ہو سکوں، تمھاری باتیں اکثر مجھ تک پہنچ جاتی تھیں، جن سے میرے جذبہ مردانگی کو کچھ تقویت ملتی تھی، لیکن میں یہ بھی نہ چاہتا تھا کہ تمھارے والدین کو ہمیشہ کے لئے تاریکی میں رکھوں۔ اگر میں شادی کرنا نہیں چاہتا تو کم ازکم ہندوستان میں اور نوجوان موجود ہیں، جو تمہارے لبوں کو چومنے کے لئے بے قرار ہیں، اس لئے میں نے تمھارے والد سے صاف صاف کہہ دیا کہ جب تک میں اپنے لئے کوئی اچھا سا کام تلاش نہ کر لوں؛ شادی نہیں کروں گا، تمھارے والد نے کہا، شادی کر لو اور شادی کے بعد لڑکی ہمارے گھر میں رہےگی اور جب تک تم کسی اچھے عہدے پر فائز نہیں ہوتے، لڑکی کے اخراجات کے ہم ذمہ دار ہوں گے۔
تجویز کتنی معقول تھی کہ خرچ تو تمھارے والد کریں اور بچےمیں پیدا کرتا جاؤں، لیکن یہ کب تک ہو سکتا تھا، آخر ایک نہ ایک دن مجھے اپنے بچوں کا باعزت باپ بننا پڑےگا، میرا ضمیر اس ذلت کو برداشت نہ کر سکا، کیوں کہ اس نظام میں ایک اچھی جگہ حاصل کرنا ایک مہم سر کرنا ہے اور چونکہ میں ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں اور طبقاتی کشمکش کی بہیمیت اور شقاوت ہر روز بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر شخص ایک دوسرے کا گلا گھوٹنے کے لئے تیار ہے اور اگر متوسط طبقے کا کوئی فرد اس خلیج کو پاٹنا چاہے یایہ کوشش ہی کرے تو اس کے ساتھی ہی اس کی ٹانگ کھینچتے ہیں اور عرشی طبقے والے لوگ کب یہ گوارا کرتے ہیں کہ کوئی زمینی آدمی ان کے محلوں میں قدم رکھ سکے اور اس کرب انگیز کشمکش میں وہ انسان نہیں رہتا، ایک بے روح، بےجان لوتھ بن جاتا ہے اور مجھےتو اس روشنی کےمینار کو پانے کے لئے کافی جد و جہد کرنی تھی۔
میرے پاس کسی بڑے آدمی کی سفارش نہ تھی، رشوت اور تحفوں کے لئے اتنا روپیہ نہ تھا اور انگلینڈ سے کوئی ڈگری بھی لے کر نہ آیا تھا، کوئی رشتہ دار کسی اعلیٰ عہدے پر فائز نہ تھا، تو ان حالات میں میں کیسے ایک اچھی جگہ حاصل کر سکتا تھا، صرف کلرکی اپنا منہ کھول رہی تھی اور وہ بھی ساٹھ روپوں کی کلرکی جو آج کل جنگ کے زمانے میں ٹکے پر بکنے لگی تھی اور پھر ہر پڑھا لکھا نوجوان کلرک بن کر اپنے آپ کو افلاطون سمجھتا ہے اور بچے پیدا کرنے سے ذرا نہیں جھجکتا اور کبھی کبھی تمھاری سنہری آرزوؤں کا جال میرے قریب آجاتا تو میرے صبر کے بند ٹوٹ جاتے اور میں سوچتا کہ مجھے کیا غرض ہےکہ میں اپنے آپ کو یوں برباد کردوں، ازل سے لےکر ابد تک یہ اندھیرا چھایا ہواہے۔
اور آج تک کوئی شخص اس اندھیرے کو دور نہ کر سکا بلکہ یہ اندھیرا دن بدن زیادہ گہرا ہوتا گیا اور میں اس روشنی کے مینار کو پانے کی بے سود کوشش کر رہا ہوں کیوں نہ میں اپنے آپ کو اس اندھیرے کے وسیع اور بے پایاں سمندر میں پھینک دوں اور ہمیشہ کے لئے اس میں غرق ہو جاؤں اور پھر اس اندھیرے میں تمھارے ہونٹ چمکنے لگتے، تمھارے گال تمتمانے لگتے، تمھارے لانبے لانبے بال سر سے لےکر پاؤں تک چھا جاتے، تمھاری آنکھوں میں سنہری آرزوئیں ناچنے لگتیں اور میں تمھیں پکڑنے کی کوشش کرتا، تاکہ تمھارے سیاہ بالوں میں اپنے آپ کو چھپا لوں اور تمھاری آتشیں خواہشیں مجھے چاروں طرف سے گھیر لیں اور ہم دونوں اس اندھیرے سمندر میں باقی انسانوں کی طرح لڑھکتے رہیں، کم ازکم تمھارے ہونٹوں کا لمس مجھے ہمیشہ کے لئے ان اقتصادی جھنجھٹوں سے آزاد کر دےگا، لیکن میں نے سگر یٹوں کی ایجنسی لے کر شادی کرنا گوارا نہ کیا۔۔۔ جاہل !
شاید مجھے عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کی کبھی آرزو نہ ہوئی، بلکہ مجھے ان لوگوں سے نفرت سی ہو گئی ہے اور اسی طرز بودو باد سے، اس معاشرت سے، اس تہذیب و تمدن سے میں روشنی کے مینار کو پانا چاہتا ہوں اور اس کی نورانی کرنو ں کو دنیا میں بکھیرنا چاہتا ہوں تاکہ اس پھیلے ہوئے بے پایاں اندھیرے میں کچھ کمی ہو جائے، لیکن آج تک روشنی کے مینار کو کون پا سکا ہے، یہ سرمایہ دار قوتیں ہمیں اسی روشنی کے مینار کے نز دیک بھٹکنے نہیں دیتیں، میں یوں ہی اس بحث میں پڑ گیا۔
جیسے لوگ سرمایہ دارانہ نظام کو نہیں سمجھتے، ان باتوں سے کچھ بننانہیں ہے۔ ناحق میں اپنے دماغ کو پریشان کر رہا ہوں، اب تم شوہر والی ہو، ایک بچے کی ماں ہو اور تمھارا گھر ہے اور معلوم نہیں تم کیا ہو اور کیا ہو جاؤگی، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمھارا شوہر لوہے کا بیوپار کرتا ہے، آج کل لوہے کی اشد ضرورت ہے اور لوہے کی قیمت تو سونے کے برابر ہے، آج کل تمھاری چاندی ہے، کہاں سرمایہ دارانہ نظام کی باتیں اور کہاں لوہا اور سونا۔ دراصل ہماری ذہنیت بھی سرمایہ دارانہ ہو گئی ہے، ہم خطوں میں بھی ان چیزوں کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے، خیر چھوڑو ان باتوں کو، اس کے بعد کیا ہوا، تم جانتی بھی ہو، تم نے میرا انتظار کیا، ایک سال، دو سال، تین سال، شاید کہیں نوکری مل جائے۔ لیکن میں نوکری کرنا ہی نہیں چاہتا تھا، اس لئے نوکری کہاں ملتی، آخر تمھارے والدین نے تنگ آکر تمھارے لئے پھر اور ڈھونڈھنا شروع کر دیا اور میں اس دوران میں تمھارےطعنے سنتا رہا اور آخر تم کب تک میرا انتظار کرتیں، ہر مرد ایک آسودہ زندگی گزارنا چاہتا ہے تو پھر تمھیں حق تھا کہ تم اپنے رویےکو بدل دیتیں اور اپنی زندگی ایک نئے قالب میں ڈھالتیں اور پھر ایک دن تمھاری بارات آ گئی۔
میں اس دن اسی شہر میں تھا، تمھارے والدنے مجھے مدعو نہیں کیا، شاید یہ ناراضگی کا اظہار تھا، کہ میں نے کیوں شہر کے ایک بڑے آدمی کی بات نہ رکھی اور نا طہ توڑ دیا، تم جس طرح مجھے بھول گئیں میں اس کی تعریف کرتا ہوں اور جس خوشی سے تم نے اپنے خاوند کے گلے میں ہار ڈالا، اس کی بھی داد دیتا ہوں، تمھاری سہیلیوں نے مجھے بتایا کہ تم بہت خوش تھیں، یہ باتیں سن کر مجھ پر صدمہ ہوا لیکن تمھاری اس نئی روش نے مجھے ذہنی تقویت بھی دی، زندگی کے ایک نئے زاوئیے سے آگاہ کر دیا۔
تم نے میری یاد کو دل و دماغ سے اس طرح خارج کر دیا جس طرح ایک نئی دلہن شادی کے چند مہینوں بعد اپنا لال جوڑا اتار پھینکتی ہے۔ مجھے معلوم ہے تم ہنستی کھیلتی اپنے خاوند کے ساتھ چلی گئیں۔ تم مجھے پیر پور کے اڈے پر ملیں، جب تم گونے کے بعد واپس آ رہی تھیں، تمھارا خاوند تمھارے ساتھ تھا، وہ کچھ وجیہہ نہ تھا یہ محسوس کرکے مجھے خوشی ہوئی، کم ازکم وہ مجھ سے زیادہ خوش شکل نہ تھا بلکہ میں تو نہایت فراخدلی سے اسے بھدا کہہ سکتا ہوں، لیکن تم خوش تھیں، تم نے ایک نہایت قیمتی ساڑھی پہن رکھی تھی، جس کا روپہلی کنارہ تمھارے سیاہ بالوں کو چوم رہا تھا۔ تمھارے چہرے کا صرف ایک حصہ دکھائی دے رہا تھا، اس لئے میں تمھاری خوشی اور انبساط کا پورا اندازہ نہ کر سکا، تم نے مجھے دیکھ کر آنکھیں پھیر لیں اور جوار کے لہلہاتے کھیتوں کی طرف دیکھنے لگیں اور پھر لاری چل پڑی۔
تم نے شادی کرکے اس گھر یلو زندگی کو اچھی طرح دیکھ لیا ہوگا، یہ زندگی کوئی اتنی اچھی نہیں، اس میں کوئی خاص جاذبیت نہیں، ساس اور نند کے جھگڑے، سا س اور بہو کے جھگڑے، خاوند اور بیوی کے جھگڑے اور پھر اقتصادی جھگڑے، مزاج کی ناموافقت اور طرح طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے زندگی اجیرن ہو جاتی ہے، لیکن تم ایک ہندوستانی عورت ہو اور ہندوستانی عورت کے لئے شادی ہی زندگی کا سب سے بڑا عطیہ ہے اور اسی لئے تم نے اس زندگی کو اپنا لیا ہوگا، نہیں تو اس کے سوا کیا چارہ ہے۔
میں ابھی تک اکیلا ہوں، بالکل اکیلا اور تنہا، دن رات روشنی کا مینار میری آنکھوں کے سامنے ناچتا رہتا ہے، میں اسے چھو نہیں سکتا، اس تنہائی میں کبھی کبھی تم یاد آ جاتی ہو۔ صرف تم ہی نہیں بلکہ کچھ اور عورتیں بھی، جن سے میں محبت کر چکا ہوں، اب ان سب کی یاد معدوم ہوتی جا رہی ہے اور اب یہ حالت ہے کہ نہ تو میں محبت کر سکتا ہوں اور نہ شادی۔ اب صرف ایک جسم سے پیار کر سکتا ہوں، جہاں میں آج کل رہتا ہوں وہ جگہ شہر سے الگ تھلگ ہے اس کے باوجود اس جگہ میں اتنی کشش ہے کہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ شاید اس جگہ میں اتنی کشش اور جاذبیت نہ ہوتی اگر سامنے والی کوٹھی میں ایک لڑکی نہ رہتی ہوتی جس کامیں ذکر کرنے والا ہوں، ہمارے یہ پڑوسی نہایت امیر و کبیر ہیں، ایک عالی شان کوٹھی میں رہتے ہیں، باہرہمیشہ کاریں کھڑی رہتی ہیں لیکن مجھے ان کاروں اور عالی شان کوٹھیوں سے دلچسپی نہیں بلکہ ایک لڑکی سے ہے جو اس کوٹھی میں رہتی ہے۔ میں نے آج تک ایسی حسین و جمیل لڑکی کہیں نہیں دیکھی۔ یہ لڑکی نہیں بلکہ ایک مکمل عورت ہے، عورت اور لڑکی میں فرق ہوتا ہے، بس وہی فرق جب تک تمھاری شادی نہیں ہوئی تھی تم لڑکی تھیں، جب تم نے شادی کر لی تم عورت بن گئیں۔ لیکن ہماری پڑوسن شادی کے بغیر ایک مکمل عورت ہے، یہ ایک بیسویں صدی کا معمہ ہے۔
ایک دن وہ مجھے بس میں مل گئی، جس حقارت سے اس نے میری طرف دیکھا، وہ آج تک میرے سینے میں بچھو کے ڈنک کی طرح رینگ رہی ہے، اس نے یوں ہی سرسری نظروں سے میرے کپڑوں کا جائزہ لیا، جیسے میری روح کپڑوں میں مقید ہے اور میرا جسم ایک بےجان شے ہے۔ وہ میری سرخ نکٹائی دیکھ کر مسکرائی، جس کی گرہ زیادہ استعمال کی وجہ سے میلی ہو گئی تھی، پھر اس کی نظر میرے ہئیت کی طرف گئی جس کا اوپر والا حصہ کافی دبا ہوا تھا، میں نے پتلون کی کریز کو درست کیا لیکن میرے بوٹ جن پر دو ماہ سے پالش نہ ہوئی تھی، میری سراسمیگی پر خشمگیں ہو گئے، اس دن میں نے جرابیں بھی نہ پہنی تھیں، دراصل میں جرابیں پہنتا بھی نہیں اس دن مجھے اپنے جمالیاتی مذاق پر بہت غصہ آیا۔
پتلون کے نچلے حصے اور بوٹوں کے درمیان میری ٹانگوں کا حصہ برہنہ تھا جس پر سخت سخت بال اگے ہوئے تھے، بوٹوں کے تسمے میری آوارگی پر ایک قہقہہ لگا رہے تھے، شرم سے میں غرق غرق ہو گیا اور ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔ میں نے اپنے بھونڈے پن کو چھپانے کی بہت کوشش کی، لیکن مجھ میں اور اس لڑکی میں کافی تفاوت تھا۔ ایک وسیع خلیج حائل تھی، اس کو پاٹنا میرے لئے نا ممکن تھا، اس خلیج میں کاریں، کوٹھیاں، ڈنر سٹ، نوکر، نوکرانیاں، چاندی کے سکّے، بینک کے نوٹ، خوب صورت عورتیں، حریری پردے، وہائٹ ہارس، چھری کانٹے سب کچھ تیر رہے تھے اور میں دوسرے کنارہے پر کھڑا تھا، اس کی اس تمسخر آمیز مسکراہٹ کا مطلب سمجھ گیا، لیکن اس کی آنکھیں جن پر وہ ہمیشہ ایک آسمانی رنگ کا چشمہ چڑھائے رہتی ہے، اصلیت کو چھپانہ سکیں، وہ آنکھیں مغموم تھیں۔
ان آنکھوں نے دنیا کی خلاء کو دیکھ لیا تھا، اتنی دولت ہوتے ہوئے اور حسن کی فراوانی کے باوجود یہ آنکھیں بےچین تھیں، یہ آنکھیں ُداس تھیں۔ ان میں زندگی کی لاحاصلی نمایاں تھی جیسے وہ کسی کا انتظار کرتے کرتے تھک گئیں لیکن اندھی نہ ہو سکیں، چاندی کے سکے بہت کچھ کر سکتے ہیں، ان سکوں سے خوشی کے لمحےخریدے جا سکتے ہیں، شایداس نے بھی کسی کو چاہا اور اس کی محبت پروان نہ چڑھ سکی، لڑکی نے منہ پھیر لیا اور ساتھ والی کریسچین لڑکی سے گفتگو کرنے لگی، لڑکی کی آنکھیں افسردہ ہوتی گئیں، اس کے دل کی گہرائیوں کا عکس اس کی آنکھوں میں تیر رہا تھا اور آنکھیں صاف کہہ رہی تھیں کیوں جوانی کو امنگوں کو کچلا جائے، یہ جوانی کب تک رہے گی، یہ دنیا ہر چیز کو بھول جاتی ہے، انسان اپنے آپ کو بھول جاتا ہے، کیوں نہ اپنے آپ کو ان رنگین پردوں میں چھپایا جائے۔
یہ سنہری ناریہ تھرکتے ہوئے بازو، یہ ناچ گھر، آنکھوں میں پیر کا ہلکا ہلکا نشہ، ٹانگوں کا تھرکنا اور کسی کے بازو کمر میں حمائل اور ناچنا پھر ناچ کر چور ہو جانا، کیوں نہ اس زندگی کو اپنا یا جائے، لیکن یہ نشہ ہر وقت قائم نہیں رہتا اور ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی جگہ بدمزدگی لے لیتی ہے، کبھی کبھی سوچتا ہوں، مجھے کیا، یہ عورت میرے دائرے سے باہر ہے، میرے حلقے سے باہر ہے، میں کبھی اس کے جسم کو چھو نہیں سکتا میں کسی کو پانے کی ناکام کوشش کرتا ہوں۔
جس کو حاصل کر سکتا تھا، جس کے ہونٹوں کو چوم سکتا تھا، اس کو دوسرے کے حوالے کر دیا اور آج ایک ایسی عورت کو پانے کی تمنا رکھتا ہوں جس کے ہونٹ دوسرے انسانوں کے لئے وقف ہو چکے ہیں لیکن انسان ہمیشہ اس چیز کو پانے کی کوشش کرتا ہے جو اسے ملتی نہیں، میں اپنی بے وقوفی پر ہنستا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کیوں اکیلا ہوں، میں کیوں سایوں کے پیچھے بھاگتا ہوں، میں کیوں نہ کسی کے جسم کو ہمیشہ کے لئے خرید لوں تاکہ اس نا ختم ہونے والی افسردگی اور تنہائی سےرہائی پا سکوں، کیا میں ایسا کر سکوں گا اور اگر کر بھی لیا تو تمھیں کیا۔۔۔؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.