Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چار آنے

MORE BYسہیل عظیم آبادی

    باپ کچہری چلا گیا تو ریاض نے اطمینان کی سانس لی۔ جیب میں ہاتھ دے کر چونی ٹٹولی اور مطمئن ہو گیا، وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں بھانڈا نہ پھوٹ جائے، کہیں اس کی ماں خرچ کے لئے پیسے نہ مانگ بیٹھے، باپ اپنی جیب میں ہاتھ دے اور چونی غائب پائے، مگر اسے یہ سوچ کر تھوڑی دیر کے لئے اطمینان ہو جاتا کہ باپ کی جیب میں پیسے کافی تھے۔ دوسرے یہ کہ سارے پیسے رشوت کے ہیں، پھر بازار سے خریداری کرتے آئے تھے، کہاں یاد ہوگا، وہ اپنے باپ کی عادت کو جانتا تھا، وہ کبھی بھولے سے بھی پیسوں کا حساب نہ رکھتا تھا، مگر پھر بھی اس کا دل خیال ہی سے دھک دھک کرنے لگتا کہ کہیں چوری کھل نہ جائے۔

    آخری سہارا بس ایک تھا اور وہ یہ کہ اگر کہیں اور کسی طری چونی کے غائب ہونے کا پتہ چل گیا تو وہ صاف کہہ دے گا کہ معلوم نہیں اور چونکہ کبھی چوری کا الزام اس پر نہیں لگا، اس لئے باپ آسانی کے ساتھ یہ سمجھ لےگا کہ چونی کسی طرح کھو گئی اور اسے اپنی بےپروائی پر افسوس آئےگا مگر پھر بھی یہ خیال کہ کہیں پتہ چل گیا، تو۔۔۔ خیر نہیں۔ لیکن یہ نوبت ہی نہ آئی، اس کے باپ نے کچہری جاتے وقت اس کی ماں کو روپے دیے۔ ایک ایک پیسہ جیب سے نکال کر گنا۔ اس نے چونی غائب ہونے کی شکایت نہ کی، ریاض کا سارا ڈر مٹ گیا، اس نے سوچا کہ آج خوب مزا آئےگا، اسکول میں بڑھیا سے چنیا بادام اور حلوائی سے مٹھائی لے کر کھا ئےگا، دوسرے لڑکے اس کو رشک کی نظر سے دیکھیں گے جیسے اور روز وہ دوسروں کو دیکھتا ہے۔

    اس نے جلدی جلدی اپنی کتابیں درست کیں اور دروازے سے باہر نکل کر گلی میں آیا۔ بغل میں کتابوں کا بستہ تھا اور ایک ہاتھ جیب میں، وہ برابر چونی کو دیکھتا اور سوچتا جا رہا تھا کہ اسے کس طرح خرچ کرےگا، کون سی چیزیں کھائےگا اور اس دعوت میں کن کن دوستوں کو شریک کرےگا، اب اسے پکڑے جانے کا ذرا بھی ڈر نہ تھا۔ وہ اپنے خیالات میں الجھا ہوا گلی سے باہر سڑک پر آیا۔ بازار میں زندگی پوری طری دوڑ رہی تھی، اس نے چاروں طرف نظر گھما کر دیکھا اور سوچنے لگا کہ کون سی چیزخریدی جائے، پاس ہی فٹ بال کی ایک دوکان تھی۔ اس نے ایک فٹ بال دیکھا اور دل ہی دل میں افسوس کرنے لگا، اگر ۲ روپے باپ کی جیب سے نکال لیتا تو وہ فٹ بال خرید سکتا مگر۔۔۔

    اس نے دل ہی دل میں سوچا ٹھیک ہے، لوڈو کا ایک سٹ خریدا جا سکتا ہے، چار ہی آنے کو ملتا بھی ہے، خرید کر اسکول لے جاؤں، وہاں سارے دوست، ساتھی میری خوشامد کریں گے کہ ”میں انہیں کھیل میں‘‘ شریک کر لوں، ہاں یہ ٹھیک ہے، لوڈو خریدنا چاہئے۔ وہ دوکان کی طرف بڑھا مگر، مگر پھر جب گھر واپس آؤں گا تو کہاں رکھوں گا، ماں پوچھےگی، باپ کہےگا کہاں سے لائے؟ تو کیا جواب دوں گا۔ اس کا خیال بدل گیا، لوڈو خریدنا‘‘ کسی طرح مناسب نہ تھا۔ پھر اس کا دماغ بالکل خالی تھا اور وہ چاروں طرف بازار میں نظریں گھما گھما کر دیکھ رہا تھا، یکایک اس کا ایک ساتھی نصیر آتا ہوا نظر پڑا، نصیر ابھی دور ہی تھا، ریاض نے اس کو آواز دے کر بلایا۔ نصیر آیا، دونوں ساتھی اسکول کی طرف بڑھے، نصیر نے پوچھا، ’’ادھر ادھر تم کیا دیکھ رہے تھے؟‘‘ ریاض کی نظر یکایک پان والے کی دوکان پر گئی، دوکان بڑے سلیقے سے سجی ہوئی تھی، پان وغیرہ کے علاوہ بہت سی‘‘ بوتلوں میں رنگ رنگ کا پانی بھرا رکھا تھا، پھر شربت، سوڈا، لمیونڈ کی بوتلیں، ریاض کے دماغ میں ایک بات یکایک آ گئی، لیمونڈ پینا چاہئے، اس نے نصیر کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا، ’’یار بڑی پیاس معلوم ہورہی ہے، لیمونڈ پینا چاہئے۔‘‘

    نصیر نے جلدی سے کہا، ’’ہاں یار، ہم کو بھی پلاؤگے نا؟‘‘ ریاض نے ذرا منعمانہ انداز میں کہا، ’’واہ یہ بھی کہنے کی بات ہے؟‘‘ دونوں پان والے کی دوکان پر پہنچے، اب سوال یہ تھا کہ لیمونڈ کی ایک بوتل خریدی جائے یا دو، ایک بوتل میں کیا ہوگا، کون پئے گا اور کون نہیں، ریاض سوچنے لگا، لیکن نصیر کو ایک بوتل پلا دیں، اس نے تو کبھی کوئی چیز خرید کر نہیں کھلائی، بڑا بخیل ہے، مگر بیچارے کے پاس پیسے ہی نہ ہوں گے، کہاں سے کھلائے بیچارہ۔ ریاض نے پان والے سے کہا، ’’دو بوتل لیمونڈ دو۔‘‘ پھر وہ نصیر کی طرف مخاطب ہوا اور بولا، ’’یار نصیر! بڑی پیاس معلوم ہو رہی ہے، تم اپنی بوتل میں سے بھی تھوڑا سا ہمیں دے دینا۔‘‘ نصیر نے بڑی خوشی کے ساتھ کہا، ’’ہاں یار ضرور۔‘‘ پان والے نے بوتلیں کھول کر دیں، ایک بوتل ریاض نے اپنے منہ سے لگائی، دوسری نصیر کو دی، ساتھ اتنا کہہ دیا، ’’سب مت پی جانا یار!‘‘

    ریاض نے جلدی جلدی پانی پینا شروع کیا، ایسا نہ ہو کہ نصیر ساری بوتل ختم کر دے۔ نصیر نے بھی یہی سوچا۔ جتنا زیادہ پینے کا موقع ملے پی لے، ریاض برابر تیزی کے ساتھ پیتا گیا، لیکن نصیر نے آدھی بوتل ختم کر کے آہستہ آہستہ پینا شروع کیا، وہ چاہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ پی لے، مگر پھر بھی کچھ چھوٹ جائے ورنہ ریاض خفا ہو جائےگا۔ پھر کبھی کوئی چیز نہ کھلائےگا، ریاض نے جب اپنی بوتل خالی کر دی تو نصیر نے بادل نخواستہ بوتل ریاض کی طرف بڑھا دی، بوتل میں ایک چوتھائی پانی موجود تھا، لیکن ریاض نے بوتل لیتے ہوئے کہا، ’’سب پانی پی گئے نا یار!‘‘

    ’’کہاں تو، آدھا بھی تو نہیں پیا۔۔۔‘‘ ریاض نے زیادہ بحث نہیں کی، بوتل میں جتنا لیمونڈ بچ رہا تھا اسے پی گیا، اس کے بعد بوتل پان والے کو دے دی اور جیب سے چونی نکال کر دی، پان والے نے دو انی واپس کر دی، ریاض نے دوانی لے کر پھر اسے واپس کر دی اور بولا، ’’ہمیں پیسے دے دو۔۔۔‘‘ پان والے نے دو آنے پیسے دے دیے، ریاض نے پیسے جیب میں رکھے، دونوں ساتھ ساتھ اسکول کی طرف چلے، ریاض راستہ میں ہر چیز کو ایک خاص نظر سے دیکھتا جا رہا تھا، اگر اس کا بس چلتا تو سارے بازار کو خرید لیتا، لیکن یہ بات اس کے بس سے باہر تھی، ایک تو پیسے کم، دوسرے چوری کھلنے کا‘‘ ڈر، بلکہ چوری کھلنے کا ڈر اسے اتنا زیادہ تھا کہ دو آنے میں سارا بازار مل جاتا، تو بھی وہ نہ خریدتا۔

    ریاض جب اسکول پہنچا تو دیر ہو چکی تھی، مار کھا نا ضروری تھا، ریاض اور نصیر دونوں اسکول کے پیچھے ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوکر سوچنے لگے، کیا کرنا چاہئے، بہت دیر تک سوچنے کے بعد فیصلہ ہوا کہ آج اسکول سے غیر حاضر، دو تین گھنٹے کی بات ہے سنیچر کا دن ہے، سویرے ہی چھٹی ہو جائےگی، گھر چلے جائیں گے۔ سوموار کے دن ایک درخواست لیتے آئیں گے، اس پر باپ کے ”جعلی‘‘ دستخط بنائیں گے، دونوں کو اطمینان ہو گیا، وہ دونوں پھر اسکول کے احاطے سے نکلے اور بازار کی طرف چلے۔ بازار میں پوری رونق تھی، ریاض کی نگاہیں ہر طرف بہکنے لگیں، اس کا دل بڑھا ہوا تھا، وہ چاہتا تھا، کہ پسند کی کوئی چیز نظر آئے، اس کی جیب میں دو آنے پیسے تھے۔ وہ سارے بازار میں اپنے کو کسی سے کم کسی حالت میں بھی نہ سمجھتا تھا، ہر چیز کو خرید لینے کے لئے اس کا دل چاہتا تھا، مگر دو مجبوریاں تھیں، ایک تو یہ کہ پیسے کم تھے۔ دوسرے کوئی ایسی چیز خریدنے پر کسی حال میں بھی آمادہ نہ تھا، جس کو دیکھتے ہی اس کے ماں باپ سوال پر سوال کر بیٹھیں کہ یہ کہاں سے لے آئے۔

    وہ بازاروں میں چلتا گیا، نصیر اس کے ساتھ تھا۔ بغل میں کتابوں کا بستہ تھا اور دوکانوں پر نگاہیں۔ ہر چیز کو وہ ایسی نظر سے دیکھتا جا رہا تھا جیسے ہر چیز کے متعلق اپنی پسندیدگی یا نا پسندیدگی کا فیصلہ کر چکا تھا۔ لیکن پاؤں کہیں نہیں رکتا ہے، اس کے پاؤں تھکنے لگے تو وہ ایک بڑی دوکان کے پاس رک گیا۔ ایک اطمینان کی سانس لی اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ یکایک اسے پکوڑیوں والا نظر آیا، معلوم ہوا جیسے ریاض کو وہ چیز مل گئی جس کی اسے بہت دیر سے تلاش تھی۔ نصیر کا اس نے ہاتھ پکڑا اور تیزی کے ساتھ اس طرف بڑھا، نصیر اس کے ساتھ کھنچتا چلا گیا، دونوں پکوڑی والے کے چبوترے کے پاس پہنچ گئے، ریاض نے ایک خاص انداز سے پوچھا، ’’کیوں جی پکوڑیاں تازہ ہیں نا؟‘‘

    ’’ہاں بابو جی۔۔۔‘‘ بوڑھے پکوڑی والے نے جواب دیا۔ ریاض نے شان کے ساتھ کہا، ’’دو ایک ایک پیسے کی۔‘‘ بوڑھے نے دونوں کو ایک ایک پیسہ کی پکوڑی دی، دونوں نے کھا لی، ریاض کا دل نہ بھرا، اس نے کہا، ’’ایک پیسے کی اور دو۔۔۔‘‘ بوڑھے نے دی۔ نصیر اس کا منہ دیکھنے لگا، اس کی نگاہوں میں شکایت تھی، اس نے کہا، ’’کیوں یار اکیلے ہی کھاؤگے؟‘‘ ریاض نے کہا، ’’نہیں یار۔۔۔‘‘ اور پانچ پکوڑیوں میں سے دو نصیر کو دے دیں، دونوں نے کھائیں، مگر دل کسی کا نہ بھرا۔ ریاض نے ایک پیسے کی پکوڑی اور بھی خریدی، دو پھر نصیر کو دیں، اس نے شکایت کی، ’’یار ہم کو کم دیتے ہو۔۔۔‘‘

    ’’پیسہ جو ہم خرچ کرتے ہیں۔‘‘ ریاض نے ذرا شان کے ساتھ کہا۔ نصیر چپ ہوگیا، لیکن ریاض کو نصیر کا اعتراض برا معلوم ہوا، اس نے دل میں سوچا کہ حد درجہ نا شکرا آدمی ہے، کھلاتا ہوں، الٹی شکایت کرتا ہے، خود کبھی کچھ کھلاتا نہیں، اس کا دل تھا کہ اور بھی کچھ کھائے مگر وہ آگے بڑھا۔ اب اس کی جیب میں چار پیسے رہ گئے تھے، مگر گھر پہنچنے سے پہلے وہ سب کو خرچ کر دینا چاہتا تھا، ایسا نہ ہوکہ جیب میں پیسوں کی آواز ہو اور ماں باپ کوئی پوچھ بیٹھے۔ وہ اور آگے بڑھا۔ اس کا گھر بھی نزدیک آتا جا رہا تھا، وہ سخت پریشان تھا کہ ان پیسوں کو کس طرح خرچ کیا جائے۔ یکایک اس کے دماغ میں بات آئی پان کھانا چاہئے۔

    دونوں پان کی دوکان پر پہنچے، وہاں پان بنانے کو بھی کہہ دیا، پان والا بنانے لگا تو خیال آیا کہ ماں منہ دیکھ کر پوچھےگی، پان کہاں کھایا، اس نے نصیر سے اپنی رائے کہہ دی، مگر ”نصیر کا دل‘‘ چاہ رہا تھا۔ اس نے سمجھایا کہ پان والا نہ مانےگا، دوسرے گھر جانے سے پہلے نل پر منہ دھو لےگا، لیکن ریاض کی رائے سگریٹ پینے کی ہوئی، آخر دونوں نے پان کھایا اور سگریٹ بھی خرید کر پینے لگے۔ انجن کی طرح بھک بھک دھواں دھواں منہ چھوڑتے آگے بڑھے۔ تھوڑی دیر میں سگریٹ ختم ہو گیا، اسکول کا وقت بھی پورا ہو گیا، ریاض کو جلد گھر پہنچنے کی فکر ہوئی۔ دیر ہوئی اور ماں نے سوالوں کی بوچھاڑ سے بدحواس کر دیا، وہ سگریٹ کا دھواں اڑاتا ہوا سیدھا گھر کی طرف چلا۔ کبھی وہ پوری شان کے ساتھ دھواں منہ سے چھوڑتا اور کبھی ڈر جاتا کہ کوئی بڑا بوڑھا دیکھ نہ لے۔ اگر کسی نے شکایت کر دی تو مار کھانا ضروری ہے۔

    اس طرح وہ اپنے مکان جانے والی گلی کے قریب پہنچ گیا، یکایک اس نے سگریٹ کو پھینک دیا، اب اس کے گھر پہنچنے کا وقت ہو چکا تھا، وہ تیزی سے بڑھا، لیکن پان یاد آ گیا۔ وہ پانی کے نلکے پر کھڑا ہوکر منہ دھونے لگا، خوب اچھی طرح دھویا، اس کو منہ دھونے کا بےحد افسوس ہو رہا تھا، مگر وہ منہ دھوتا رہا، منہ دھوکر ہٹا، اور گھر کی گلی میں گھسنا ہی چاہتا تھا کہ یکایک اسے یاد آ گیا، دو پیسے ابھی اور باقی ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہی بھانڈا پھوڑ دیں، وہ بہت گھبرایا، ان پیسوں کو کس طرح خرچ کیا جائے۔ وقت بھی کم ہے، نصیر بھی جا چکا، نہیں تو اسی کو دے دیتا کہ رکھ دے، آس پاس میں کوئی چیز بک بھی نہیں رہی تھی، وہ چاروں طرف آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا، اس کو بار بار خیال آتا تھا کہ انہیں بھی خرچ کیوں نہ کر دیا، مگر اب کیا ہو!

    وہ گلی کے سامنے کھڑا سوچ رہا تھا اور کوئی بات اس کے دماغ میں نہیں آ رہی تھی، وہ بہت گھبرایا ہوا تھا، وقت پر اسے گھر پہنچ جانا چاہئے، یکایک ایک بڑھیا ڈنڈا ٹیکتی آتی دکھائی دی، ریاض کو جیسے کوئی کھوئی ہوئی بات یاد آ گئی، وہ تیزی کے ساتھ بڑھیا کے پاس پہنچا اور اس کو جھنجھوڑ کر پوچھا، ’’بڑھیا پیسہ لےگی؟‘‘

    ’’جئے میرا بیٹا۔۔۔‘‘ اس نے ہاتھ پھیلا دیا، بڑھیا دعائیں دینے لگی، لیکن ریاض نے سنا تک نہیں، اس نے دونوں پیسے اس کے ہاتھ میں رکھے اور اپنے گھر والی گلی میں گھس گیا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے