اس کا اصل نام محمد صدیق بہت کم لوگوں کو معلوم تھا۔ سڈنی میں وہ چاچا ٹیکسی کے نا م سے مشہور تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی اس کے دن اور رات کا زیادہ حصہ ٹیکسی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہی گزرتا تھا۔ ویسے تو چاچا نے ریڈفرن کی ایک قدیم اور خستہ سی عمارت میں ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا جہاں فرنیچر کے نام پر فٹ پاتھ سے اٹھایا ہوا ایک گدہ اور پیڈی مارکیٹ سے ارزاں داموں خریدا ایک کمبل اور تکیہ تھا۔ ٹی وی اور فریج کی چاچا کو کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ وہ گھر میں رہتا ہی کب تھا کہ ٹی وی دیکھتا اور فریج میں رکھنے کے لئے اس کے پاس تھا ہی کیا۔ چند گھنٹوں کے لئے آتا بھی تھا تو صرف سونے کے لئے۔ اتنا وقت اس کے پاس نہیں ہوتا تھا کہ گھر میں پکاتا اور کھاتا۔ ہفتے کے ساتوں دن چاچا کے لئے ایک جیسے تھے کیونکہ چھٹی وہ نہیں کرتا تھا۔ یوں اس کا اوڑھنا اور بچھونا ٹیکسی ہی تھی۔ ٹیکسی ہی چاچا کا اصل بیڈروم، لونگ روم، ڈرائنگ روم بلکہ ڈائننگ روم بھی تھا۔ وہ جب بہت تھک جاتا، کہیں نہ کہیں ٹیکسی روک کر سیٹ کو پیچھے کی طرف کھسکا کر تھوڑا ساآرام کر لیتا۔ جب بھوک ستاتی تو کسی لبنانی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ سے ڈونر کباب لیتا، ٹیکسی میں بیٹھ کر کھاتا، پانی کی بوتل سے چندگھونٹ لے کر سخت لبنانی روٹی کو حلق سے نیچے اتارتا اور پھر اس کی ٹیکسی سڈنی کی سڑکوں پر رواں دواں ہو جاتی۔ صرف اتوار کی شام چند گھنٹوں کے لئے وہ وقفہ کرتا تھا۔ اس وقفے میں وہ ریڈ فرن مسجد میں ہونے والی قرآن خوانی میں حصہ لیتا، لنگر کا کھانا کھاتا، جاننے والے پاکستانیوں سے کچھ دیر گپ شپ لگاتا اور پھر باہر کھڑی ٹیکسی لے کر سڑکوں پر نکل جاتا۔ ہفتے بھر میں یہی گھنٹہ آدھ گھنٹہ چاچا کی تفریح، آرام یا سماجی میل جول کا وقت تھا۔ اس وقت سے باہر چاچا سے کوئی نہیں مل سکتا تھا۔
چاچا کی زندگی مسلسل سفر میں گزر رہی تھی۔ اس کی گاڑی وسیع و عریض شہر سڈنی کی سڑکوں اور گلیوں میں شب روز چلتی رہتی، مسافر ایک سے دوسری جگہ پہنچتے رہتے اور چاچا کی جیب ڈالروں سے بھرتی رہتی۔ کچھ لوگوں کے خیال میں چاچا جس قدر محنت کرتا تھا اور روزانہ جتنے نوٹ کماتا تھا اور اوپر سے اس کا کوئی خرچ بھی نہیں تھا تو وہ ضرور بہت بڑے بنک بیلنس کا مالک تھا۔ کروڑ پتی تھا۔ لیکن در اصل ایسا کچھ نہیں تھا۔ چاچا کروڑ پتی تو درکنار پتی(شوہر) بھی نہیں تھا۔ اس نے ساری زندگی شادی ہی نہیں کی۔ اسے وقت ہی نہیں ملا کہ اپنے لئے کچھ سوچتا بھی۔ وہ پہلے روپے، پھر رالر اور پھر ڈالر کمانے میں اس قدر مصروف رہا کہ شادی کے لئے وقت ہی نہیں ملا۔ گھر میں اس کا بڑا بھی کوئی نہیں تھا جو چاچا کی شادی کراتا۔ چاچا کے والد کا انتقال ہوا تو چاچا میٹرک کا امتحان دے رہا تھا۔ ماں پہلے ہی داغِ مفارقت دے چکی تھی۔ چاچا سے چھوٹے دو بھائی اور ایک بہن تھی۔ چاچا ہی ان کا باپ اور ان کی ماں تھا۔ بھائیوں اور بہن کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں چاچا نے کوئی کسر روا نہیں رکھی۔ باپ کے مرنے بعد وہ سب کچھ بھول کر روپے کمانے میں جت گیا۔ ریڑھی لگانے سے لے کر بس کنڈیکٹری تک کون سا کام تھا جو اس نے نہیں کیا۔ جب بھائیوں کے تعلیمی اخراجات بڑھنے لگے اور بہن کی شادی کا خرچہ سامنے نظر آیا تو چاچا سعودی عرب چلا گیا۔ کئی سال تک وہ جدہ کی زیرِ تعمیر عمارتوں میں ویلڈنگ کا کام کرتا رہا۔ اس دوران اس کی بہن کی شادی ہوگئی۔ بہن نے چاچا کی شادی کرانے کی کوشش کی لیکن بوجوہ یہ کوششیں منزل تک نہ پہنچ سکیں۔
سعودی عرب سے چاچا کا کنٹریکٹ ختم ہو گیا، وہ پاکستان واپس چلا گیا۔ اس کے بھائی ابھی تک بے روزگار تھے۔ گھر اور بھائیوں کا خرچ پورا کرنے کے لئے چاچا نے ایک ایجنٹ کے ذریعے دو لاکھ روپوں کے عوض آسٹریلیا کا وزٹ ویزہ حاصل کیا اور سڈنی چلا آیا۔ چند ہفتوں کی تگ و دو کے بعد چاچا نے ٹیکسی ڈرائیونگ کا لائسنس حاصل کر لیا۔ بس اس دن سے چاچا کی ٹیکسی کا میٹر آن ہو گیا اور چاچا بھی ٹیکسی کے ساتھ ساتھ مشین بن گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ آسٹریلیا میں مستقل سکونت کے لئے بھی ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ اس کی سادہ لوحی اور کم علمی سے فائدہ اٹھا کر وکیلوں اور مائیگریشن ایجنٹوں نے اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ اس چکر میں چاچا کے ہزاروں ڈالر ضائع ہو گئے۔ آسٹریلیا میں جہاں چاچا جیسے محنت سے کمانے والے لوگ ہیں وہاں اپنے ہی ہم وطنوں کو بلیک میل کر کے ان کی محنت کی کمائی کو ہڑپ کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ چاچا جیسے سادہ لوح اور غیر قانونی تارکینِ وطن اکثر ان مگر مچھوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں ان مگر مچھوں کی نذر کرکے ان کے رحم و کرم پر ڈر اور خوف کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں کبھی کبھار اور کسی کسی کا کام ہو بھی جاتا ہے لیکن اکثر اپنی تمام کمائی لٹا کر بھی یہ جوا ء ہار جاتے ہیں۔
جن وکیلوں اور امیگریشن ایجنٹوں نے چاچا کے ہزاروں ڈالر ہڑپ کئے انہوں نے چاچا کو آسٹریلیا کی شہریت نہیں دلوائی بلکہ ایک ایسی درخواست جو حکومت کی ایک اسکیم کے تحت چاچا نے خود دائر کی تھی اس کی کامیابی کا ذریعہ بن گئی۔ چاچا مایوس ہو کر پاکستان واپس جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک اچانک ہی اس درخواست کا جواب آ گیا۔ چاچا کو آسٹریلیا کی شہریت مل گئی۔
چاچا نے آسٹریلیا میں قیام کے ان چودہ پندرہ سالوں میں جو کچھ کمایا اس میں کچھ وکیلوں کی نذر ہو گیا اور کچھ پاکستان میں اس کے بھائیوں اور بہنوں پر خرچ ہوتا رہا۔ ان چودہ سالوں میں کاغذات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے چاچا ایک بار بھی پاکستان نہیں گیا۔ اس دوران اس کے بھائیوں کی بھی شادیا ں ہو گئی تھیں۔ ایک بھائی نے دو ٹرک خریدے اور اس کا کاروبار چل نکلا۔ چاچا نے مکان بنانے کے لئے بھی اسے رقم بھیج دی۔ دوسرے بھائی نے بہت رقم ضائع کی۔ مختلف کاروباروں میں ناکامی کے بعد بالآخر اس کی سیمنٹ، بجری اور ہارڈ وئیر کی دکان چل نکلی۔ یوں چاچا کی محنت اس کے بھائی کے لئے بار آور ثابت ہوئی اور چاچا نے سکون کا سانس لیا۔ اس کے نئے گھر کے لئے بھی چاچا نے معقول رقم ارسال کر دی۔ چاچا ٹیکسی نے اپنے سال اور ششماہیاں بھائیوں اور بہن کے کاموں کے لئے مختص کی ہوئی تھیں ایک سال اگر ایک بھائی کے کاروبار کے لئے کماتا تھا تو اگلے سال دوسرے بھائی کے گھر لئے شب و روز گاڑی بھگاتا رہتا تھا۔ اگلے چھ ماہ میں جو کچھ کماتا وہ بہن کو بھیج دیتا۔ اس دن تو چاچا کی مسرت دیدنی تھی جب اس کا بہنوئی اس کی بھیجی رقم ایک ایجنٹ کو دے کر امریکہ کا ویزہ لگوانے میں کامیاب ہو گیا۔
انہی چکروں میں چاچا کی عمر کی شام کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے۔ بڑھاپا اپنے ساتھ سو بیماریوں کی سوغاتیں لے آیا۔ پکا ہونے کے بعد چاچا سال کے سال پاکستان جانے لگا۔ ایک ماہ وہاں گزار کر اپنی تھکن اُتارتا اور واپس آ کر پھر وہی شب و روز۔ وہی ٹیکسی اور وہی سڈنی کی سڑکیں۔ بہن بھائیوں نے بہت کوشش کی لیکن چاچا کا گھر نہ بس سکا۔ ویسے چاچا کا گھر تھی بھی کہاں۔ وہ تو مہمان تھا سڈنی میں مالک مکان کا اور پاکستان میں بھا ئیوں اور بہن کا۔ ایک مسافر جس کی کوئی منزل نہیں تھی۔ حالانکہ وہ ساری زندگی اپنوں اور پرائیوں سبھی کو منزل پر پہنچانے کا کام کرتا رہا تھا۔ اسے اپنی منزل کی کبھی فکر بھی نہیں ہوئی۔ وہ دوسروں کے لئے جیتا تھا اور یہی اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ وہ اسی میں خوش تھا۔ اگر سڈنی کا کوئی دوست کہتا بھی کہ بھئی اب تو شادی کرلو بوڑھے ہو چلے ہو بڑھاپا کیسے گزارو گے، تو چاچا کہتا، ”تم میری فکر نہ کرو تم میرے بھائیوں اور بہن کو نہیں جانتے۔ وہ اور ان کے بچے سب میرے ہی تو بچے ہیں۔ میں نے انہیں پالا ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے مجھے بھلا کس بات کی فکر ہو سکتی ہے۔ جب یہاں سے دل بھر جائے گا تو ان کے پاس لوٹ جاؤں گا۔‘‘
سڈنی میں چاچا ٹیکسی اپنی ریکارڈ ساز محنت کی وجہ سے مشہور تھا۔ اسے صرف سڑکوں پر ہی دیکھا جا سکتا تھا۔ اس جیسی محنت کوئی مائی کا لال نہیں کر سکتا تھا۔ اگر وہ کسی کمپنی یا سرکاری محکمے میں ہوتا تو اسے ایوارڈ دئیے جاتے۔ لیکن ٹیکسی ڈرائیونگ میں ایسا ریکارڈ رکھنے اور انعام دینے کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔ یہ روز کی مزدوری تھی جتنی محنت کرو اتنے نوٹ کما کر گھر لوٹ جاؤ اور علی الصبح تین بجے اٹھ کر پھر سڑکوں کی پیمائش شروع کر دو۔ بیمار پڑ جاؤ، چھٹی کر لو یا ٹیکسی خراب ہو جائے تو دیہاڑی ٹوٹ جاتی تھی۔ اسی طرح ریٹائر ہونے کے بعد بھی اس میں نہ تو پنشن تھی اور نہ ہی بڑھاپے کی کوئی انشورنس۔ چاچا ان سب سے بے نیاز ٹیکسی چلاتا رہا۔ جو کماتا ساتھ کے ساتھ پاکستان بھیج دیتا۔ کبھی ایک بھائی کو حج کرا رہاہے تو کبھی دوسرے کے کاروباری نقصان کی تلافی کر رہا ہے۔ کبھی بھانجے کو موٹر سائیکل خرید کر دے رہا ہے تو کبھی بہن کے لئے سونے کا سیٹ بنوار ہا ہے اور کبھی بہنوئی کو امریکہ میں وکیلوں کی فیسیں ادا کرنے لئے ڈالر ارسال کر ہے۔ اپنے رشتہ داروں کی اس طرح مدد کرنے والا بھی پہلے کوئی سڈنی میں نہیں دیکھا گیا۔ یوں چاچا نے یہاں کئی نئے ریکارڈ بنائے۔ اس کا ایک اور ریکارڈ یہ تھا کہ وہ مسلسل پندرہ سال سے کرائے کے ایسے کمرے میں رہ رہا تھا جہاں دوسرے لوگ دو ہفتے بھی بمشکل گزار پاتے۔ آسٹریلیا آنے والے لوگ دو چار برسوں میں اپنے مکان خرید لیتے ہیں اور وہ بھی دو دو کنال پر بنے ہوئے بڑے بڑے مکانات۔ چاچا جتنا کچھ کماتا تھا اس کے لئے ایسا مکان خریدنا چنداں مشکل نہیں تھا۔ لیکن چاچا نے ریڈفرن جیسے خراب علاقے اور اس بوسیدہ عمارت میں کرائے پر رہنے کا جیسے تہیہ کیا ہوا تھا۔ چاچا کو اپنی پراہ تھی کب! اس کا سب کچھ تو اس کے اپنے تھے۔
وقت کا پیہہ چاچا کی ٹیکسی کے پیہیے کی طرح آگے بڑھتا رہا۔ چاچا کی ہمت تو اب بھی جوان تھی لیکن اس کا جسم جواب دے گیا۔ کمر میں درد تو اُسے کئی سالوں سے تھا، اب کاندھے اور پاؤں کی ایڑھی بھی دُکھنے لگی تھی۔ چاچا جب بھی ڈاکٹر کے پاس جاتا ڈاکٹر اسے آرام کا مشورہ دیتے جو اس کے لئے ناممکن تھا۔ حتیٰ کہ اس کے بدن کی ایک ایک ہڈی دکھنے لگی۔ اس حالت میں بھی وہ گاڑی چلاتا رہتا۔ اس کی کمر تو ایسے ہو گئی تھی جیسے سوکھی لکڑی کا تختہ۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ ایک ہی حالت میں مسلسل بیٹھے رہنے سے ریڑھ کی ہڈی میں لچک ختم ہو گئی۔ نوبت یہیں تک رہتی تو چاچا اسے برداشت کرتا رہتا لیکن لکڑی کے اس تختے میں دراڑ پیدا ہو گئی اور وہ بھی ایسی کہ ناقابلِ علاج۔ چاچا معذور ہو گیا۔ ڈاکٹروں کے پاس آرام کے مشورے اور درد کم کرنے والی گولیوں کے سواس کچھ نہیں تھا۔ اوپر سے اس نے ہیلتھ پالیسی بھی نہیں لی ہوئی تھی، لہذا صبر اور درد برداشت کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔
آخر وہ دن آ گیا کہ چاچا ٹیکسی کے نام سے ٹیکسی خارج ہو گئی۔ لیکن ٹیکسی ڈرایؤنگ کے علاوہ اور بہت سارے ناگزیر کام ہوتے ہیں جن سے مفر ممکن نہیں تھا مثلاََ کھانا پکانا، گھر کی صفائی اور بازار سے سودا سلف لانا، ان میں سے کوئی کام اب چاچا کے بس میں نہیں تھا۔ وہ تو بستر سے نہیں اٹھ سکتا تھا، کام کیسے کرتا۔ ایسے میں چاچا کو اپنوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس نے بوریا بستر باندھا اور پاکستان چلا گیا۔
چاچا کی یہ حالت دیکھ کر اس کے بہن بھائیوں کو بہت دُکھ ہوا۔ جس بھائی کے پاس چاچا جا کر ٹھہرا، اس کا ٹرانسپورٹ کا بزنس تھا۔ اس نے بھائی کے علاج معالجے کی کا فی کوشش کی۔ لیکن بھلا درخت سے ٹوٹی ہوئی شاخ پھر کبھی جڑی ہے۔ بڑھاپا، ناتوانی اور ریڑھ کی ہڈی کی شکستگی ایسے مسائل نہ تھے جو چند دن میں حل ہو جاتے۔ ہاں علاج معالجے، آرام اور تیمارداری سے اس روگ کا اثر کم ضرور کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اتنے لمبے عرصے کے لئے بھائی کے پاس وقت نہیں تھا۔ اس کو اپنا کاروبار بھی دیکھنا ہوتاتھا۔ وہ اگر بھائی کی چارپائی کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جاتا تو اس کا تو کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جا تا۔ ایسے کاروبار روز روز تو نہیں شروع کئے جا سکتے۔ لہذا ایک دو ہفتے کی دوڑ دھوپ کے بعد بھائی اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا اور چاچا تنہائی اور بے بسی کا شکار۔ بھائی کی غیر موجودگی میں اسے کروٹ لینے میں بھی دقت کا سامنا کرنا پڑتا۔ بھابھی پرائے خاندان سے تھی۔ اُسے کیا پڑی تھی کہ جیٹھ کے نخرے اٹھاتی۔ بچے اپنی پڑھائی اور کھیل کود میں مصروف ہوتے تھے۔ ویسے بھی انہیں بوڑھے اور معذور چاچا سے کوئی دلچسبی نہیں تھی۔ چاچا جب اس بھائی کے گھر میں تنگ آیاتو ایک دن دوسرے بھائی کے ہاں منتقل ہو گیا۔ آخر وہ بھی اس کا اپنا گھر تھا۔
چاچا کا یہ بھائی گاؤں میں رہتا تھا اور اس کی دکان شہرمیں تھی۔ وہ روز صبح سویرے اٹھ کرشہر چلا جاتااور رات گئے واپس آتا۔ آتے ہی بھائی کی خبر لیتا، دوا دارُو کا پوچھتا، گھڑی دو گھڑی بھائی کے پاس بیٹھتا اور پھر تھکن سے مغلوب ہو کر سونے چلا جاتا۔ بھابی اور بچوں کا رویہ یہاں بھی دوسر ے بھائی کے ہاں سے مختلف نہیں تھا۔ چاچا سارا سارا دن اکیلا ہی کمرے میں پڑا رہتا۔ اُٹھ کر بیٹھنے، ضروریات سے فارغ ہونے اور دوا لینے کے لئے بھی اُسے بعض اوقات پورا دن انتظار کرنا پڑتا۔ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانے یا فزیو سے مساج لینے کا تو اس گاؤں میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بھائی بھی چاچا کو ناقابلِ علاج سمجھ کر صرف تسلی دیتا تھا۔ ایک بوڑھے آدمی کا بھلا اور کیا کیا جا سکتا تھا۔ یہ وقت سب پرآتا ہے اور اسے برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔ شہر والا بھائی ہر ہفتے آتا، چاچا کی خیریت دریافت کرتا اور ہفتے بھر کے لئے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتا۔
اگر بھائی کی اس حالت پر تڑپ رہی تھی تو وہ چاچا کی بہن تھی۔ وہ چاچا کی اس حالت پر بہت کڑھتی تھی۔ ہر دوسرے تیسرے دن شہر سے گاؤں بھائی کو ملنے آتی، اس کے کھانے پینے کی خبر لیتی، اس کی دوا دارُو کا پوچھتی اور دُکھی دل کے ساتھ واپس لوٹ جاتی۔ اس کے بس میں تھا بھی کیا۔ پرائے گھر میں رہتی تھی۔ ساس سسر اور نندوں کے ہوتے ہوئے بھائی کو اپنے گھر رکھ کر اس کی سبکی نہیں کرواسکتی تھی اور نہ ہی اس کے پاس اتنے وسائل تھے کہ بھائی کو علاج کے لئے شہر لے جاتی۔ چاچا سارا سارا دن اور ساری ساری رات بستر پر پڑا ماضی کو یاد کرتا رہتا۔ ان تمناؤں اورحسرتوں کے بارے میں سوچتا رہتا جو بن کھلے مرجھا گئی تھیں۔ جن پر ساری زندگی اس نے تکیہ کئے رکھا وہی پتے اسے ہوا دینے لگے تھے۔ اس کا رشتوں پر پختہ ایمان چکنا چور ہو گیا تھا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ اب تو اس کے پاس کچھ باقی نہیں بچا تھا۔ نہ دینے کے لئے نہ لینے کے لئے۔ اب اسے احساس ہوا کہ وہ کتنا اکیلا، کتنا تنہا اور کتنا بے بس ہے۔ اس کی ساری زندگی، ساری جان توڑ محنت، ساری بھاگ دوڑ اور ساری کمائی اکارت چلی گئی تھی۔
چھ ماہ تک چاچا کبھی ایک بھائی کے گھر اور کبھی دوسرے کے در بدلتا رہا لیکن اس کے اپنے حالات ذرا بھی نہ بدلے۔ اس کے مرض، اس کا درد اور اس کے دکھ بڑھتے گئے۔ اسے سب سے زیادہ اپنا مان ٹوٹنے کا غم تھا۔ جسمانی دکھ درد انسان برداشت کرلیتا ہے لیکن اعتماد اور بھروسے کا گھاؤ اتناگہرا، اتنا اذیت ناک ہوتا ہے کہ اسے برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوتا اس کی ٹیسیں ناقابلِ برداشت ہوتی ہیں۔
ایک دن چاچا کی برادشت ختم ہو گئی اور وہ ’اپنوں ‘ سے دور سڈنی چلا آیا۔ سڈنی میں بھی اس کی زندگی اب آسان نہیں تھی۔ سرکاری اسپتال میں درد کم کرنے والی گولیوں کے علاوہ چاچا کے لئے کچھ نہیں تھا کیونکہ وہ سپیشلسٹ کی فیس ادا نہیں کر سکتا تھا۔ سرکاری سپیشلسٹ کو دکھانے کے لئے مہینوں انتظار کرنا پڑا۔ اس سے پہلے چاچا کو بے یارو مددگار بوڑھوں کے نرسنگ ہوم میں بھیج دیا گیا۔ نرسنگ ہوم میں علاج ہو یہ نہ ہو دو وقت کا کھانا ضرور مل جاتا تھا۔ لیکن کوئی بات کرنے والا، کوئی تیماردار، کوئی دوست اور کوئی غم گسار وہاں نہیں تھا۔ اس کاپہلے بھی سڈنی میں کوئی ایسا وست نہیں تھا۔ چاچا کے پاس دوستیاں پالنے کاوقت کب ہوتا تھا۔ جو اکا دکاجاننے والے تھے ان میں سے بھی اسے کوئی دیکھنے نہیں آیا۔ شایدانہیں خبر ہی نہیں تھی یا ان کے پاس وقت نہیں تھا۔
چاچا کو کسی کے آنے کی امید نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی صدر دروازے پر نظریں جمائے نہ جانے کن کاانتظار کرتا رہتا تھا۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا بس ہر وقت آنکھیں کھولے صدر دروازے کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ ایک دن یہ آنکھیں تو کھلی رہ گئیں لیکن رُوح پرواز کر گئی۔ ایک صبح نرس نے چاچا کودروازہ کھولے، کرسی پر بیٹھے اور دروازے پر نظریں جمائے دیکھا تو اسے گڈ مارننگ کہا۔ چاچا کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہ دیکھ کر اسے شک گزرا۔ جب نرس نے آکر چاچا کو ہاتھ لگایا تو اس کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ چاچا کی لاش ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ رات کے نہ جانے کون سے پہر چاچا کا انتظار ختم ہو گیا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں پھر بھی کھلی رہیں اور ان کا رُخ گیٹ کی طرف تھا۔
چند دن بعد سرکاری ایمبولنس کے ذریعے چاچا کی لاش لڈکمب کے قبرستان پہنچائی گئی اور اُسے سرکاری اہتمام کے تحت دفنا دیا گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.