چچی پاشا
خزانہ
راوی: میلی نیکر پر رینٹھ پونچھ کر قدیر نے اُسی پاک صاف ہاتھ سے ٹاٹ کا پردہ اٹھایا اور بے دھڑک پکارا۔۔۔
قدیر: ’’چچی پاشا!‘‘ چچی پاشا! تیار ہوگئے کیا۔۔۔؟
راوی: سخت گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ جس میں چیل بھی انڈا چھوڑ دے۔ آنگن میں لگے بادام کے درخت کے نیچے ایک تخت مستقل بنیادوں پر بچھا ہوا تھا، جیسے کہ مکان کے نقشے میں شامل ہو۔۔۔ اُسی کے ساتھ پکے فرش پر، ایک پرانی پھول دار چادر پر پیلی مونگ کی بڑیاں سوکھ رہی تھیں۔ کوئل کی گاہے بہ گاہے کوک بتاتی تھی کہ کیریاں جوان ہوکر آم بننے کو بے قرار ہیں۔
قدیر کی نظریں اندر کمرے کی طرف اٹھ گئیں جہاں دن میں بھی اندھیرا تھا۔۔۔ چچی پاشا وہیں تھیں۔
کوئی پچاس کے پیٹھے میں، مہندی سے رنگے گہرے کتھئی بال، آنولے ریٹھے سے دھلے مگر پھر بھی بے چمک۔۔۔ ابھی ابھی تو انہوں نے بادام کے پیڑ تلے، باریک ململ کے دوپٹے سے جھٹک جھٹک کر بال سکھائے تھے۔
اپنے بیش قیمت ساڑھیوں کے خزینے میں سے انہوں نے جامنی رنگ کی چوڑے زرد بارڈر والی ساڑھی پہن رکھی تھی، جو اس بلبلاتی دوپہر کی وحشت میں اضافہ کررہی تھی۔
بال کھولے، ساڑھی پہنے، لپک جھپک تیار ہورہی تھیں۔ صبح بلاؤز پہن کر دیکھا تو مونڈھے اور سینے پر سے لخ لخ ہورہا تھا۔ سلائی مشین کب کی خراب پڑی تھی۔ رحیم چچا کے پاس نہ اتنا وقت تھا نہ پیسہ کے اُسے مرمت کروالاتے۔ چولی پر یونہی ساڑھی کا پلو لپیٹا، تلے دانی سے اودے رنگ کا دھاگہ نکالا اور اطمینان سے بیٹھ کر بلاؤز تنگ کررہی تھیں کہ۔۔۔قدیر نے کھڑکی سے جھانکا۔ افسوس کہ وہ کمینہ لمحہ جس کی وہ تاک میں تھا گزر چکا تھا۔ چچی پاشا اب بلاؤز زیب تن کرکے آئنے میں جاکھڑی ہوئی تھیں۔
آئنے میں عین اُن کے سامنے اُنیس سالہ، جوبن چھلکاتی، لس لس پھسلتی ساٹن کی طرح جوانی لیے زیب النساء کھڑی تھی۔ بلاؤز تنگ کرلینے سے جسم تو کس نہیں جاتا۔ سامنے زیب النساء جامنی لمبا کرتا پاجامہ پہنے کھڑی تھی۔ ناک میں چھوٹی سی چاندی کی بال، کولہے تک آتے گیلے بال، کانوں میں چھوٹی سی سونے کی ڈائمنڈ کٹ بالیاں، جو پھوپھو جانی نے کان چھدائی کرکے پہنادی تھیں۔ محلے میں خوب کھوپرے اور شکر کے حصے بانٹے گئے تھے۔
زیب النساء اپنا سراپا دیکھ کر بے ساختہ بول پڑی:
’’آج تو لڑکے والے میرے کُو دیکھ کے لٹواِچ ہوجائیں گے۔‘‘
آنگن میں سوکھتا قدیر جب نیکر میں ہاتھ ڈال کر اپنے تمام نوخیز اعضاء سے جوجھ کر فارغ ہوگیا تو پھر بے تابی سے آواز دی:
’’چچی پاشا۔۔۔اجی او چچی پاشا۔۔۔ کدھر ہیں۔۔۔؟
مر گئے کیا؟‘‘
آئنے میں اپنی کَسی چارپائی جیسی جوانی کی بلائیں لیتی زیب النساء تو ’’ایّو‘‘ کہہ کر عدم ہوئی اور چچی پاشا چونک کر اپنی ۱۲۰ گز کی غلیظ حقیقت میں لوٹ آئیں۔ اُس دنیا میں زیب النسا، اور دھنک رنگ ساڑھیاں تھیں اور اس طرف ٹوٹا آئنہ، چرچراتی مسہری اور انھیں پکارتا قدیر تھا۔ پلو سنبھالتی باہر تخت تک آئیں اور تڑخ کر بولیں۔
کیا ہے ماٹھی ملے؟
تیار ہوگئی ناں میں۔
قدیر اُن کے ادرک کی طرح سوکھے جسم پر بنارسی جامنی ساڑھی، دونوں ہاتھوں میں حیدرآبادی گوٹ، مسالے کی چوڑیاں، اور چہرے پر سفید تبت پاؤڈر لپا ہوا دیکھ کر بے ساختہ ہنس پڑا۔
چچی پاشا: کیکو ہنس را رئے۔۔۔ بِلوز ذرا ڈھیلا ہے بول کو؟
قدیر: چچی پاشا رحیم چچا پوچھوائے بڑیاں تیار ہوگئے؟ (چچی پاشا کا منہ اترنے لگا۔) اور ادھر آپ شمیم آراء بن کو بیٹھے۔۔۔ کیا جی۔۔۔اِدھر اُدھر دیکھ کر مرکل بڑیاں سوکھ گئے کیا؟
چچی پاشا: (چچی پاشا اُداس چہرہ لیے، تھک کر تخت پر بیٹھ جاتی ہیں۔) میرے کُو نئی مالوم۔۔۔ تم خود دیکھ لؤ۔۔۔خیامت آگئی تو بھی یہ کاماں نئی کرتی۔۔۔ تم جاؤ۔۔۔
قدیر: چچی پاشا اِتی دور سے میرے کُو چپ تو بھی بھگائے۔۔۔ (جاتے جاتے) کیری کا شربت تو بھی پلاؤ چچی پاشا، بہوت پیاس لگ ریٔ۔
راوی: پس منظر سے گانے، کسی پڑوس کے گھر سے بج رہے تھے۔۔۔محسن کے کمرے سے ٹھک ٹھک ٹائپ کرنے کی آواز آنے لگی۔
چچی پاشا: ہو پلاتیؤں۔۔۔ (اٹھ کر ساڑھی درست کرتی ہیں) مگر تم میرے کو ذرا رکشہ تو لادیؤ۔
قدیر: کاں کے واسطے؟
چچی پاشا: یہ ہی اِچ، لالو کھیت، نئی تو پیرکالونی۔۔۔ ذرا ست لڑا ٹوٹ گیا، واں ستار بھائی اچھے سنار ہیں دیکھو۔
قدیر: (پیاس سے بے حال ہوکر) دیوانہ سمجھے کیا میرے کُو؟ دن بھر دونوں میاں بیوی میرے کو لٹو کے جسیا دوڑاتے رہتے۔ (محسن کے کمرے کی طرف دیکھ کر، جہاں سے ہلکی ٹائپ کی آواز مسلسل آرہی ہے)محسن ہے ناں گھر میں، اُس کو بھیجو۔ کوئی کام نئی کرتااُنے!
راوی: قدیر کو اُسی وقت کولہے کی درمیانی لکیر سے مقعد تک کچھ جھر جھری سی ہوئی۔ بے فکری سے سیدھا ہاتھ ڈال کر کھجلی مٹانے لگا اور چہرے پر ایک آسودہ تسکین سی آگئی، چچی پاشا کو بے اختیار ابکائی آگئی۔
چچی پاشا: (چپل کھینچ مارتی ہیں) حرامزدے! تیرے جیسے پلید کو میں آب شولہ پلائیتوں؟ نکل یاں سے۔۔۔ گندی موری کا کیڑا۔۔۔ چل بھاگ۔
راوی: قدیر نے ایک ہاتھ سے چپل کیچ کی، دوسرے پاک ہاتھ سے قریب رکھے اچار کے مرتبان سے لیموں کا ٹکڑا نکالا اور اطمینان سے چاٹتا ہوا باہر نکل گیا۔ چچی پاشا صفائی کی ایک خبطن، فوراً جاکر اچار کو مسلمان کرنے لگیں۔ کوئی سورۃ پڑھ کر بند آنکھوں سے اچار پر دم کیا۔ محسن کے کمرے سے ٹائپ کی ہلکی آواز آتی رہی۔ گھرونچی کے پاس کھڑی ہوکر پیتل کے کٹورے میں پانی نکالا۔ پانی بھی اُن کی طرح نیم مردہ سا ہورہا ہے۔ بالکل پھیکا اور بدمزہ۔ محلے کے بہتیرے گھروں میں فرج، ٹیلی فون اور ٹیلی وژن وغیرہ آچکے تھے۔ لیکن رحیم کریانا اسٹور والے رحیم چچا کی ایسی اوقات کہاں۔ مرغیاں ڈربے سے اندر باہر ہورہی تھیں۔ چچی پاشا نے لالوکھیت یا پیر کالونی، جو کہ اگلا محلہ ہی پڑتا تھا، جانے کا ارادہ جیسے ترک کردیا۔ چھینکے سے روٹی کی چنگیری اتاری۔ باسی روٹی کے ٹکڑے گولیاں بنا بنا کر مرغیوں کے آگے پھینکنے لگیں۔ الھڑ سی زیب النساء بھی ساتھ آکر بیٹھ گئی۔ اور مرغیوں کو دانہ پھینکنے لگی۔ دانہ کم پھینکتی تھی اور ہنستی زیادہ تھی۔ چچی پاشا تو اُس کی بجلی جیسی پھرتی اور چوڑیوں سے زیادہ سریلی ہنسی سن کر جیسے دم بخود ہی رہ گئیں۔
زیب النسا
زیب النسا: ایو میری کالی رانی، لو کھاؤ، کھا کھا کر تم تو بھینس ہوجارئیں! ہی ہی ہی، مگر تم کو کیا مصیبت۔۔۔ تمھارا دولا مرغا تو تمہارے ساتھ اِچ ہے۔ (اُداس ہوکر) میرے دولے پاشا کاں توبھی ہیں؟ مالوم نئیں۔۔۔ اِنے آرا۔ اُنے آرا۔ پن میری شادی ہوکے اِچ نئیں دے ریٔ۔ مالوم؟
’’پس منظر سے اماں کی آواز آتی ہے۔‘‘
اماں: زیبی! آج شام کو آپ وہ کرتنی پین لیؤ۔۔۔ ہو؟ لڑکے والے آرئیں منا۔
زیب النسا: (شرما کر) کون سی کرتنی اماں؟
اماں: وہ اِچ جی۔۔۔ انگوری رنگ کی، جو خیصر کی جماگی میں پہنے تھے آپ۔ بھُل گئے کیا؟ اورنگ آباد کے لوگاں ہیں۔ مگر بہت بڑا کاروبار۔ اچھے سمجھدار لوگاں ہیں۔
راوی: چچی پاشا کو یاد آیا۔ زمین دار، ٹھیکیدار، پھر جمعدار، کلرک، چپراسی ایک ایک کرکے آتے گئے مگر چچی پاشا کا رشتہ نہ ہوسکا۔ مشاطہ نے تو گھر میں ڈیرہ ہی ڈال دیا تھا۔ کم بخت کی چپلیں اور دانت دونوں گھس گئے تھے۔ چپلیں چکر لگا لگا کر اور دانت، کھا کھا کر۔ ایک ایک کرکے زیب النساء نے سارے اچھے جوڑے پہن ڈالے۔ آخر آخر میں تو اُس نے تھوڑا پوڈر اور روژ بھی لگالیا، تھوڑا بہت زیور بھی پہن دکھایا مگر منحوس لڑکے والے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ کسی کو جہیز میں اسکوٹر، کسی کو مکان، کسی کو سرکاری ملازمت اور کسی کو نقد جوڑے کی رقم چاہیے تھے۔ عزت دار ابا کہاں سے بھلا یہ سب لاتے۔
نعمت
راوی: ایسے سادہ گھنگھور دنوں میں ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نعمت تھا۔ مطلب کہ اُن کا چچازاد بھائی نعمت، جو بی۔ اے کرکے نوکری بھی ڈھونڈھ رہا تھا اور محلے کے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا۔ فلم ’چوری چوری‘ اُس نے پانچ مرتبہ دیکھ رکھی تھی۔ زیب النساء کو سنیما جانے کی اجازت نہیں تھی اور اماں کو اُس کا آنا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔
اماں: یہ پُٹا روز روز تمہارے پاس گھس کو کیکُو بیٹھتا جی؟ منہ کالا کرئیں گااُنے۔۔۔
زیب النسا: اَمنی، میرے امتحان کے لیے ذرا ہیلپ اِچ کردیا۔۔۔ اور کیا۔۔۔
اماں: میں بات کرتیؤں خطب بھائی سے۔ بند کرو اس کا آنا جانا، ۱۹ سال کی جوان بچی ہے گھر میں۔ رشتے والے آتے جاتے رہتے۔ دیکھ لیے اُس کو ادھر تو؟
زیب النسا: (ڈھٹائی سے) امنی۔ میں ۲۴ کی ہوری اوں۔ آپ سب کو ابھی تک ۱۹ سال بتاتے تو کیا ہوا۔ پانچ سال سے میرے کو پتلی کے ویسا تیار کرکے، چائے کی کشتی پکڑا دیتے۔ کیا ہوا؟ کوئی لڑکا ہاں کرا؟ نئیں ناں؟ التجا کرکے تو نعمت سے میرا عقد کر دیئو ناں امنی۔۔۔میں ہاتھ جوڑتیوں آپ کے۔
راوی: اماں نے ان ہی جڑے ہاتھوں سے کھینچ کر زیب النسا کو اپنے قریب کیا اور تڑاخ سے ایک تھپڑ اُس کے گال پر جڑکر اندر چلی گئیں۔
اماں کی آواز: نعمت کی ماں مالوم ہے ناں؟ ہندو سے مسلمان ہوئی سو ہے؟ پہلے سُجاتا تھی اب ساجدہ ہے۔۔۔ ایسے نو مسلم کے بیٹے کو میری بیٹی ہرگز نئیں دیتئوں۔
راوی: مرغا مرغی لڑتے لڑتے گھڑونجی پر چڑھ چکے تھے۔ وہاں سے پانی پینے کا کٹورہ گرا تو زیب النساء آنسو پونچھتی اندر چلی جاتی ہے۔ چچی پاشا گم سم سی بیٹھی ہیں۔ اندر ٹائپ رائٹر کی آواز یک لخت بند ہوجاتی ہے
محسن
راوی: چچی پاشا گم سم بیٹھی ہیں کہ محسن ذرا بپھرا ہوا سا اپنے کمرے سے باہر آتا ہے۔ مسلا ہوا کرتا پائجامہ، دبلا پتلا، کمزور سا، جس نے بچپن سے سیدھے بڑھاپے میں زقند لگائی ہو۔ جوانی کہیں راستے میں گم ہوگئی۔۔۔ رنگت گہری سانولی۔۔۔ ہاتھ میں ٹائپ شدہ ایک درخواست لیے آتا ہے۔ تیزی سے آکر ماں کے پاس رک جاتا ہے۔ وہ جامنی ساڑھی پہنے گنگنارہی ہیں۔
’’جانے نہ نظر پہچانے جگر، یہ کون ہے دل پر چھایا‘‘
محسن کے چہرے پر کچھ سوال آکر جیسے خودبخود مٹ جاتے ہیں۔
محسن: اماں پاشا! ابا کب آئیں گے؟ آج میرے کُو اُن سے فائنل بات کرنا ہے۔
چچی پاشا: (پیار سے) ظہر پڑھ کے کھانے کے واسطے آتے۔۔۔ کبھی نئیں بھی آتے۔ مالوم نئیں تم کو؟ (قریب آکر) کیا بات ہے؟ کیا ہونا؟
محسن: کچھ نہیں۔ (ماں کی تیاری دیکھ کر غصہ سا آنے لگتا ہے، جسے دبا کر پھر نظریں نیچی کرلیتا ہے)
چچی پاشا: اِتے غپ چپ کیکو تو بھی، (اپنی جانب سے مذاق فرماتی ہیں)سونٹھ کی ناس لیے کیا؟
محسن: (ذرا بڑھتے غصے سے) اماں پاشا! میں ایک نوکری ڈھونڈا ہوں کرلینے دو۔ بھوت ہوگیا۔ روز کی چخ چخ ہوتی گھر میں۔ میں نئی پڑھ سکتا ایسے ماحول میں۔
’’چچی پاشا اس کے غصے کو اہمیت نہ دیتے ہوئے، سوپ میں چاول چن رہی ہیں‘‘
چچی پاشا: کھچڑی کھٹا بنارئی ہوں۔ کھا کو خامش پڑھائی کرو۔ بول دی میں۔ خمر الدین کا نواسے بی اے۔ ایم اے کرنا۔ کسی قیمت پے۔
محسن: (جھلس کر) بھاڑ میں گیا MA اور چولہے میں گئے آپ کے والد محترم!
چچی پاشا: (حیران ہوکر) اپنے نانا کے واسطے ایسے باتاں کرئیں تم؟ کیا تو بھی ہوگیا؟ بخار ہے کیا منے؟ (ماتھا چھونے لگتی ہیں، محسن بے دردی سے اُن کا ہاتھ جھٹک دیتا ہے)
محسن: مجھے کچھ نہیں ہوا۔ بس انٹر کرلیا۔ ٹائپ شارٹ ہینڈ سیکھ لیا، بہت ہے۔ ذرا گھر کی حالت دیکھیے۔۔۔ قریشی صاب ڈاٹسن کار لالیے ہیں اور ابا ٹوٹی سائیکل پر ایسا آتے جیسے کہ انگلینڈ کی Buick ہو۔ (اِدھر اُدھر دیکھ کر) یہ گھر ہے؟ گھر سے زیادہ یہ آپ کے نظام کا کوئی خستہ حال میوزم لگتا۔
’’یہ سب کہہ کر محسن دھپ دھپ پاؤں مارتا ہوا اندر اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ چچی پاشا اپنی دھن میں مگن، املی کا کھٹا متھنے میں جتی ہوئی ہیں۔ ہاتھوں میں بھاری کڑے چھنکنے سے زیادہ کڑک رہے تھے۔‘‘
چچی پاشا: اِنوں ایسے اِچ ہیں میرے بچے۔ پھٹے پے جامے میں بھی خوش۔ کِتّا بولی میں کہ جاکو گورنمنٹ جاب کرو۔۔۔ مگر۔۔۔ ڈھیٹ ہڈی۔ مغرب کو دکان بند، دوستیاں شروع۔ وہ منحوس پتے کھیلنا نئی تو پھر اجاڑ مشاعرے۔۔۔ ترقی کرتا اِچ نئی یہ آدمی۔ (اطمینان سے ہتھیلی پر کھٹا ڈال کر چکھتی ہیں۔)
’’محسن اپنے کمرے میں آکر ٹائپ رائٹر کے آگے بیٹھ جاتا ہے۔ چچی پاشا کے ہار سنگھار سے بدگمان، باپ کی درویشی سے نالاں اور اپنی سوکھے پن سے خائف۔۔۔ سارا غصہ ٹائپ رائٹر پر نکالتا ہے جو کہ اُس کے نانا کا ہے۔ جھلا کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ ٹہلتے ہوئے ایک رو میں بولنا شروع کردیتا ہے۔‘‘
محسن: اماں پاشا کس خوشی میں یہ سولہ سنگھار کرتے، مالوم نئیں۔ صبح اٹھ کر نیک بیبیاں چولہا چوکی پر اور ہماری والدہ صاحبہ سنگھار میز پر۔ اگر یہ بناؤ سنگھار غریب ابا کے لیے ہوتا تو کیا بات تھی۔۔۔ اُن بے چاروں کو تو اماں پاشا کی طرف سے سوائے مغلضات، طعنے اور پھٹکار کے کچھ نہیں ملا۔ ان تین چیزوں کو بھی میرے درویش ابا یوں کیچ کرتے جیسے کہ تان سین کی طرف اکبر شاہ سچے موتیوں کی مالا اچھال رہا۔ اب اِتا بچہ نہیں رہا میں۔۔۔سب سمجھتا ؤں۔ جب سے بڑا ہوا، ان دونوں کو ساتھ سوتے تو نہیں دیکھا۔ اماں اندر مسہری پر اور ابا بادام کے درخت کے نیچے تخت پر اور مزے دار بات۔۔۔ ابا کو صحن میں بچھے اُس لنگڑے تخت پر وہ نیند آتی جو ٹیپو سلطان کو تخت طاؤس پر بھی نصیب نئی ہوئی ہنگی۔ (محسن ٹہل رہا ہے)ان حالات میں میں جانے کس طرح پیدا ہوگیا۔۔۔ ہوا بھی؟ کہ۔۔۔ (اپنے ہاتھ پاؤں اور شکل کو غور سے دیکھنے لگتا ہے) اماں پاشا سے اس بارے میں سوال کروں گا تو کھڑاواں کھینچ کر ماریں گے اُنوں۔ کہ نا مرد، حرامزادے ماں سے ایسے سوال پوچھتا؟ یا پھر فوراً جاء نماز پر تسبیح کھٹکانے بیٹھ جائیں گے۔ اب ایسے میں کوئی کیا سوال کرینگا۔ (دوبارہ ٹائپ شروع کردیتا ہے)بس یہ اسٹینو گرافر کی نوکری میرے کو مل گئی تو ایک ہی دن سارے سوال، جواب اور حساب کتاب چکتا کردوں گا۔
’’ٹائپ رائٹر کی ٹھک ٹھک تیز ہوجاتی ہے۔ باورچی خانے کا کام کرتی چچی پاشا کھٹا چکھتی ہیں۔ چہرہ کھٹائی کی وجہ سے عجیب کڑوا سا ہوجاتا ہے۔ زیب النساء وہاں سے وہی منہ بنائے گزرتی ہے۔ نعمت پیچھے پیچھے لپکا چلا آتا ہے۔ کاغذ کی پڑیا میں نمک اور ہاتھ میں کچی املی ہے۔ چچی پاشا منہ کھولے دونون کو دیکھ رہی ہیں۔‘‘
نعمت: نمک لگاکو کھاؤ بولا مئیں۔ تم ایسی اِچ کھالیے زیبو؟ (گانے لگتا ہے) ’’یہ رات بھیگی بھیگی یہ مست فضائیں‘‘۔۔۔
زیب النسا: اللہ میرا حلق بھی کٹ گیا اور زبان بھی۔۔۔ دیکھو۔۔۔ (یہ کہہ کر سرخ زبان باہر نکالتی ہے، نعمت فوراً اپنی زبان آگے کرتا ہے)
زیب النسا: ٹھنڈا پانی ہونا میرے کو۔۔۔ برف والا۔
نعمت: (زیب النسا کے چہرے کے بالکل قریب اپنا منہ لے جاکر کہتا ہے)
ابھی ٹھنڈا کرتؤں۔ تم کو بھی اور تمہاری۔۔۔
راوی: آگے جملے تو ادا نہیں ہوسکتے تھے صرف ہوں، ہاں، سانسوں کی پھنکار، سسکیاں اور سرگوشیاں۔۔۔ یہ ہی ترجمان رہ گئی تھیں۔ اُس کے بعد اُن بوسوں کا دور شروع ہوا جو شعلے کی طرح گرم تھے لیکن برف کی ٹھنڈک پہنچا رہے تھے۔ جابر بن حیان کی کیمیا گری بھی ہار مان چکی تھی اُس وقت۔ زیب النساء اُس کے سرسراتے ہاتھوں کو ہٹانے کے لیے پکڑتی تھیں لیکن پھر جانے کیسے خود وہ ہاتھ اپنے کسی اور تشنہ پہلو میں رکھ دیتیں۔ معصوم تو تھیں بے چاری اور نعمت کی محبت میں سرتاپا شرابور۔۔۔ جیسے چائے میں گھلی شکر۔ کسی بھی تجربہ گاہ میں تجربہ کر دیکھو۔۔۔ جدا ہو کر نہ دے۔ اچانک آنگن سے اماں کے آنے کی آہٹ ہوتی ہے۔
نعمت: ارے باپ رے۔ تائی ماں جلدی کیکو آگئے۔۔۔ ابھی تو۔۔۔
’’یہ کہہ کر چھتوں چھت ٹاپ جاتا ہے۔ کھپریل کی چھتوں کی کھڑکھڑاہٹ ہوتی ہے اور زیب النساء بستروں والی کوٹھری میں جا گھستی ہے۔‘‘
اماں: کیا ہورا واں؟ کون تو بھی ہے؟
زیب النسا: چوہا۔۔۔ امنی۔۔۔ یہ بڑا۔۔۔ گھونس کے وسیا۔ (سانس اور آنچل درست کرتی ہیں)
اماں: ہو؟ کاٹا تو نئیں؟ چلو رضائیاں، تو شکاں سب دھوپ میں ڈالو۔۔۔ اُنے سوب مینگنیاں کرائہونگا۔۔۔
’’ہاتھ میں پکڑی ایک سودے کی تھیلی زیب النسا کو تھماتی ہیں‘‘
اماں: پھر یہ کدو گوش پکالو۔۔۔ایٔ کیا مہنگائی ہوگئی ہے دکن میں۔۔۔انگریزاں اِچ اچھے تھے۔ یہ نہرو، جناح کیکو تو بھی ہندوستان پاکستان الگ کرے ہونگے۔۔۔کیا برا حال ہے حیدر آباد کا۔ نہ اچھی سبزی ترکاری ہے نہ اچھے رشتے۔ سوب اچھے خاندانی لڑکے پاکستان جاکے اجڑے دیکھو۔۔۔
(اماں کی نظر یکدم زیب النسا کی گردن پر پڑتی ہے، جہاں سرخ نشان ہیں)
ایٔ یہ کیا زیبی؟ یہ لال لال نشان؟ چوہا کاٹا کیا؟
زیب النسا: (گھبرا کر) کاں؟ کدھر؟ ہاں مکڑی۔۔۔ مکڑی مسلے گئی اماں۔۔۔ چوہا تو چھت سے بھاگ گیا(جھٹ سے اسٹور میں رضائی لینے گھس جاتی ہے)
’’چچی پاشا چولہے کے پاس بیٹھی خیالوں میں کھوئی ہوئی ہیں۔ گرم بگونے کا چرکا لگتا ہے تو سی کرکے ہوش میں آجاتی ہیں۔‘‘
۷۱ء کی جنگ (عالیہ کا monologue)
میں چچی پاشا کے گھر سپارہ پڑھنے جاتی تھی۔ دوپہر ہوئی، امی کو نیند کے جھونکے آنے شروع ہوئے اور میں نے رحل، ململ کا بڑا گوٹ والا دوپٹہ اور بروکیڈ کے جزدان میں لپٹا ہوا سپارہ اٹھایا۔
مجھ سے زیادہ چھوٹے بھیا کو جلدی ہوتی تھی، باہر جانے کی۔ ہم دونوں نہ ہی چچی پاشا کے ٹوٹے دانت دیکھنے کے شوقین تھے اور نہ ہی ہمیں قرآن سے کوئی خاص رغبت تھی۔ بلکہ جب کبھی نماز اور ختم قرآن کی محفل ہوتی تھی، میں تو خیالوں میں رابن ہڈ کی سیریزیا پھر نونہال کی پڑھی ہوئی کسی سبق آموز کہانی کے مزے لے رہی ہوتی تھی۔
ہماری اصل منزل ہوتی تھی کھیل کا وہ میدان، جو عین چچی پاشا کے مکان کے آگے سے شروع ہوتا تھا۔ اُن کے مکان کے باہر ایک چبوترے پر قرآن کو رحل اور دوپٹے کے ساتھ چھپا کر رکھ دیا جاتا تھا۔ قریب ہی سب کی چپلوں کا ڈھیر ہوتا تھا اور ہم دوسرے بچوں کے ساتھ میدان میں کرکٹ، ہاکی، گلی ڈنڈا اور کنچے کھیلنے چلے جاتے۔ پتنگ اور لٹو کے موسم میں اُن دونوں کھیلوں کو فوقیت دی جاتی تھی۔ شرفاء کے اس محلے میں امارت تو ہمیشہ سے مفقود تھی، اب صرف شرافت اور وضع داری رہ گئی تھی۔ اس لیے ہم سب بچے بڑی آزادی سے دوپہر بھر کھیلتے اور سہ پہر کو چچی پاشا سے ذرا سا سبق لے کر سرِشام گھر پہنچ جاتے، جہاں امی ہمارا والہانہ استقبال کرتیں، چائے اور زیرے کے بسکٹ یا گھر کے بنے ہوئے روٹ دیتیں، پھر ہوم ورک کا دور شروع ہوجاتا۔
اُس میدان کی خاص الخاص کشش وہ خندقیں تھیں جو ۷۱ءکی جنگ میں کھودی گئی تھیں۔ چھپن چھپائی میں یا بچوں کی ’’war‘‘ کھیلنے میں کیا مزہ دیتیں، آپ لوگ کیا جانیں۔ ہاتھ سے بنی لکڑی کی تلواریں اور تیرکمان بھی وہاں استعمال کیے جاتے تھے۔
خیر! بات ہورہی تھی چچی پاشا کی۔ مجھے دراصل چچی پاشا سے زیادہ اُن کی حسین اور دلاویز ساڑھیوں میں دل چسپی تھی۔ سرخ، قرمذی، سیاہ، کتھئی، آتشی گلابی، سبز، عنابی ساڑھیاں۔ بنارسی، کتان اور ٹشو کی ساڑھیاں۔ چوڑے بارڈر والی، چار خانے والی، کسی کے مخملی بلاوز پر دبکے اور کارچوب کا کام، کوئی سلمی ستارے کے بیل بوٹے پشت پر لیے ہوئے، کوئی بالکل انگیا کی طرح چست سلا ہے۔ اتنا چھوٹا کہ میری گڑیا کو آجائے۔
یہ تمام ساڑھیاں اور اُس پر حیدرآبادی زیور۔۔۔ست لڑا، جڑاؤ لچھا، چندن ہار، ترمنی،، چندن ہار، حیدرآبادی گوٹ اور نگینے کی چوڑیاں۔۔۔ یہ سب معلومات چچی پاشا نے مجھے فراہم کی تھیں۔
چچی پاشا نے ایک مرتبہ مجھے بتایا تھا کہ اُن زیورات میں سونا آٹے میں نمک برابر ہوتا ہے، باقی موتی اور نگینے اصلی ہیں۔ جھوٹی تو بہت ہیں۔ بعد میں بلقیس خالہ سے کہہ رہی تھیں کہ اصلی ۲۴ کِرات سونا ہے۔ اور یہ بھی کہ جہیز کا یہ خزانہ سنبھال رکھا ہے، محسن کی دلہن کے لیے۔
ایک تو ان کا محسن! کیا بتاؤں! زہر لگتا ہے مجھے۔ ڈھیلا ڈھالا، مریل ٹٹو، سوکھے بانس جیسا۔ ہماری گلی میں ایک کتا تھا، بالکل اُسی جیسا۔ ہاں آنکھیں کمینے کی بڑی بڑی تھیں۔ میں جب بھی لہک لہک کر عمہ پارے سے سورۃ فاتحہ کا ناظرہ پڑھتی تو وہ اپنے کمرے کی جھری سے مجھے ہی تاکا کرتا۔ بدذات!
کسی سے کہیے گا مت۔ ایک مرتبہ ہم دونوں اتفاقاً اکیلے تھے۔ بارش شدید ہورہی تھی۔ بھیا مکر کرکے گھر پر لیٹا تھا۔ چچی پاشا رنگریز کے ہاں گئی ہوئی تھیں، وہاں انہیں دیر ہوگئی تھی۔ دوسرے بچے بھی نہیں آئے تھے۔
میں جاکر برآمدے میں بچھی دری پر بیٹھ گئی اور سبق دہرانے لگی۔ ایک دم سے جیسے زلزلہ آگیا۔ میں سمجھی کہ بارش کی وجہ سے چچی پاشا کی چھت گر پڑی۔ لیکن وہ محسن تھا۔ کمینہ مجھے دونوں بازؤں میں بھر کے اپنے کمرے میں لے گیا۔ بہت غصے میں تھا۔ چہرہ لال بھبھوکا ہورہا تھا۔ عجیب سے مردوں والا، جیسے۔۔۔ جیسے فلموں میں اسلم پرویز کا ہوتا تھا، وہی ولن جیسا۔ پتہ نہیں وہ کیا چاہ رہا تھا۔ میں نے تو کبھی اُس کی کتابوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔ بس ایک دفعہ ٹائپ رائٹر پر دو، تین انگلیاں مار کر اپنا نام لکھنے کی کوشش کی تھی۔ اُس میں کوئی خط کا کاغذ لگا ہوا تھا۔ پتہ نہیں کس کو اتنے خطوط لکھا کرتا تھا۔ جیسے اُس نے مجھے پلنگ پر گرایا، بھیا کی سکھائی ہوئی جوڈو کی لات میں نے اُس کی دو ٹانگوں کے بیچ ماری۔ وہ درد سے اوندھا ہوگیا اور میں رفو چکر۔ پھر کبھی میں چچی پاشا کے گھر اکیلے نہیں گئی۔
خیر۔۔۔! تو بات ہورہی تھی چچی پاشا کے خزانے کی۔ سنتے ہیں کہ اُن کا کوئی کزن نعمت انہیں دغا دے گیا تھا جسے چچی پاشا نے تن من اور دھن سے اپنا شوہر مان رکھا تھا۔ اُس نے لکھنؤ کی ایک امیرزادی سے شادی کی اور پھر پاکستان آگیا، گھر داماد بن کر۔ ایسے ہی امی اور بلقیس خالہ بات کررہی تھی ایک دن۔۔۔ یسین کا ختم تھا اُن کے ہاں۔۔۔ شاید اُن کے میاں کی نوکری چلی گئی تھی اس لیے۔ بڑی عورتیں لہک لہک کر یسین پڑھ رہی تھیں اور ہم بچے ایک طرف بچھی چادر ڑے چیؤں پر ’’یا سلامو‘‘ پڑھ رہے تھے، شاید بلقیس خالہ کی ساس بھی بیمار تھیں۔ کبھی کبھار چیؤں کے ساتھ کوئی کھجور کی گٹھلی بھی آجایا کرتی تھی۔ پڑھنے سے زیادہ مجھے تو اُس میٹھی بوندی اور برفی کا لالچ تھا جو میلاد اور سلام کے بعد ملتی تھی۔
ہاں تو میں کہاں تھی؟ بات ہورہی تھی چچی پاشا کے خزانے کی۔ اب چچی پاشا ہر روز ایک ساڑھی پہنتی ہیں، سجتی سنورتی ہیں اور گھنٹہ بھر کے بعد وہ لباس اتار کر پھر سفید ساڑھی پہن لیتی ہیں۔ ویسے ایک عجیب سی بات اور ہے۔ چچی پاشا کا رنگ گورا، رحیم چچا بھی صاف رنگت کے، یہ محسن نہ جانے کہاں سے گہرا سانولا پیدا ہوگیا۔ کبھی کبھار ویسے چچی پاشا یہ بھی کہتی ہیں کہ محسن ہوبہو اپنے باپ پر گیا ہے۔
اونہہ! پتہ نہیں کیا کھچڑی ہے۔ میں چلتی ہوں۔ اسکول کے لیے دیر ہورہی ہے۔
ویسے ایک دن میں اُن کے زیورات کی صندوقچی ٹٹول رہی تھی تو ایک پرانی میلی سی تصویر نکل آئی۔ کسی اسٹوڈیو کی تھی۔ چچی پاشا جوان ہیں اور کسی گہرے سانولے لڑکے کے ساتھ ایک مصنوعی موٹر پر بیٹھی ہیں۔ پہلے میں سمجھی کہ محسن ہے۔ لیکن چچی پاشا جوان ہیں تو محسن؟ خیر۔۔۔ امی کہتی ہیں گندی باتیں سوچنے سے ناں جنگ چھڑ جاتی ہے۔ ابھی ابھی تو جنگ بند ہوئی ہے۔ مجھے نہیں مرنا کسی گولے بارود سے۔ مجھے جنگ بالکل اچھی نہیں لگتی۔ اس کے بعد آئس کریم، ملائی اور گولے گنڈے کے دام جو بڑھ جاتے ہیں۔
چلیں اچھی والی باتیں کرتی ہوں۔ رحیم کریانہ اسٹور کی۔
رحیم چچا بہت اچھے آدمی ہیں۔ جیسے ہی میرے نانا مجھے آٹھ آنے دیتے ہیں میں رحیم چچا کے پاس بھاگتی ہوں۔ گائے والی ٹافی، دو ببل گم، اور تل کے لڈو لینے کے لیے۔
رحیم چچا اتنے تو اچھے ہیں پتہ نہیں چچی پاشا اُن سے ہر وقت لڑتی کیوں رہتی ہیں۔ بس تھوڑے سے بوڑھے ہیں بے چارے۔۔۔ تو کیا چچی پاشا بھی تو سوکھی پھول جھاڑو کی طرح لگتی ہیں۔۔۔بدرونق سی۔ لاکھ وہ بنارسی ساڑھیاں پہن ڈالیں یا کامدانی والا کھڑا دوپٹہ، اندر سے تو ہوگئی ہیں پھول جھاڑو، وہ بھی پرانی والی۔
رحیم چچا
راوی: مغرب کی اذان سنائی دے رہی تھی کہ آرسی ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر گھر میں داخل ہوئے۔ لہک لہک کر قوالی گنگنارہے تھے۔
’’میرے بنے کی بات نہ پوچھو۔۔۔ میرا بنا ہر یالا ہے‘‘
کبھی کبھی ہلکی سی تالی بھی مار دیتے تھے۔ چچی پاشا تخت پر سفید سوتی ساڑھی پہنے، آنگن میں لگی چمیلی کی بیل سے پھول اتار رہی تھیں۔ سفید آنچل میں ڈھیروں منہ بند کلیاں تھیں۔۔۔ جسے گجرے میں گوندھنے کا ارادہ تھا۔
رحیم: بھئی بیگم! ایک گجرا آج ہمارے لیے بھی گوندھ دینا۔۔۔ کلائی میں لپیٹ لیں گے۔۔۔ (پھر گانے لگتے ہیں۔)
’’موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے سنوریا‘‘
(کن اکھیوں سے بیگم کو دیکھتے ہیں)
’’تُو تو صاحب میرا محبوب الٰہی۔۔۔‘‘
راوی: کوئی پتھر کا مجسمہ بھی ہوتا تو حرکت کرتا یا کم از کم اُس کے چہرے پر کوئی رنگ آتا مگر وہ تو چچی پاشا تھیں۔ رحیم چچابھی گویا ڈھٹائی کے اوجِ ثریا پر فائز تھے۔
رحیم چچا: پوچھو گی نہیں ہم کہاں جارہے ہیں؟
چچی پاشا: جارہے ہوں گے کسی دو ٹکے کی رنڈی کے ہاں!
رحیم چچا: (ہنس کر) لاحول ولا۔۔۔ بھئی آج ڈاکٹر قدیری کے ہاں قوالی ہے۔ چاند کی چودہ ہے ناں۔۔۔(اوپر آسمان میں جگمگ کرتے چودھویں کے چاند کو حسرت سے دیکھتے ہیں) کرتا پائجامہ دھلا رکھا ہے؟ ذرا غسل کریں گے ہم۔
راوی: چچی پاشا کلیوں کو سوئی دھاگے میں پرونے میں اس قدر منہمک ہیں گویا ابھی گھنٹے بھر میں اُن کی بارات آنے والی ہے اور اگر وہ یہ گجرا باندھے تیار نہ ملیں تو بارات لوٹ جائے گی، چچی پاشا کو متوجہ نہ دیکھ کر رحیم چچا کھسیا جاتے ہیں اور خود ہی اندر سے کپڑے اٹھا لاتے ہیں۔ اچٹتی نظر باورچی خانے میں ڈالتے ہیں۔
رحیم چچا: آج تو تم نے ہمارے لیے کھانا بھی نہیں اٹھا کر رکھا۔۔۔ خیرپاجامہ کی تہہ کھول کر ذرا اذار بند ڈال دو گی کیا؟
چچی پاشا: (بھڑک کر جواب دیتی ہیں، گویا اُن کے وظیفے میں خلل پڑ گیا۔۔۔) نفرت ہے میرے کو یہ لکھنؤ کے گلابی لاڈوں سے۔ (جل کر)اذار بند۔۔۔ ارے سیدھے سیدھے ناڑا بولنے کو زبان گھستی کیا تم لوگاں کی؟
رحیم چچا: (مسکرا کر نقل اتارتے ہیں) کیا ’’پھولاں‘‘ جھڑتے بھئی آپ کے منہ سے (خود ہی ازار بند ڈالنے لگتے ہیں) کبھی تو ہنس کر بات کرلیا کرو زیب النساء پورے پچیس سال ہوگئے (پچیس کے لفظ پر چچی پاشا چونک کر انھیں دیکھنے لگتی ہیں) ہم سے ایسا کیا گناہ سرزد ہوگیا ہے، آپ سے عقد کرکے، جو آپ نے آج تلک پیار کی ایک نظر ہم پر نہ ڈالی۔۔۔ ہیں؟ (چچی پاشا بالکل خاموش) ہم نے تو محسن کو بھی باپ بن کر ہی پالا۔۔۔ پھر بھی۔۔۔(خوش دلی سے) جو بھی وجہ ہے، دیکھیے ہمارے مرنے سے پہلے ضرور بتادیجیے گا۔۔۔ورنہ قبر میں بھی بے چین رہیں گے۔ حمام میں پانی ہے؟ ’’موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے سنوریا۔۔۔‘‘ (گنگناتے ہوئے غسل خانے میں چلے جاتے ہیں۔)
’’چچی پاشا گجرا مکمل کرکے اپنی لمبی چوٹی میں گول کرکے باندھ لیتی ہیں۔۔۔ مجال ہے جو رحیم چچا کے لیے پیار کی ایک رمق بھی چہرے پر آئی ہو۔‘‘
رحیم کریانہ اسٹور
راوی: خدا خدا کرکے مئی کا حبس ختم ہوا، کوئل کی کوک میں شدت آگئی اور کالی گھٹا اُمڈ، اُمڈ کر آنے لگی۔ رحیم چچا سائیکل تھامے چلے آرہے تھے۔ رشید نائی کا ریڈیو ’’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر۔۔۔‘‘ بجا رہا تھا۔ وہ ’’گرم حمام‘‘ کے بورڈ کے ساتھ کھڑا تولیے پھیلا رہا تھا۔ ہاتھ کے اشارے سے سلام دعا ہوئی۔ موٹے لٹھے کا علی گڑھ کاٹ پاجامہ، ململ کا چکن کاری پرانا سا کرتا پہنے رحیم چچا سائیکل تھامے چلے آرہے تھے۔ کُل دو جوڑے تھے اُن کے پاس، ہاں ایک سیاہ اچکن ضرور سنبھال رکھی تھی، عید، مشاعروں اور قوالی کے لیے۔ سوتے وقت تہمند اور بنیان پہن لیا کرتے تھے۔
گھر سے دکان اور دکان سے گھر اسی طرح سائیکل کو پہلو میں لیے فخریہ چلتے تھے، جیسے الفنسٹن اسٹریٹ پر میم کے بازو میں بازو ڈالے گورا ساب۔ راستے میں ضمیر انصاری گھڑی ساز کی دکان پڑتی تھی جو عموماً فرشی گدی پر بیٹھے، آنکھوں میں گول سیاہ عدسہ لگائے، گھڑیوں کی کَل اور وقت کی بے ڈھنگی رفتار درست کرنے میں جتے رہتے تھے۔ سلام دعا تو ہر گزرتے شخص سے کرنا اُس زمانے کی روایت اور چچا کا فرض تھا، خواہ وہ شناسا ہو یا اجنبی۔
رکن الدین ٹیلر، سہاگ محل، علی برادرز، صدیق سیٹھ، رشید ہیئرکٹنگ سیلون، اور گرم حمام، ادریس چاکنا مرکزو سری پائے نہاری اور پھر ملباری ہوٹل۔۔۔ان سب کے آگے تو پیرس کی شانزے لیزے کیا معنی رکھتی ہے صاحب۔ اُس مشہور زمانہ ملباری ہوٹل کے ساتھ تھا رحیم کریانہ اسٹور۔ جو اسٹور کاہے کو تھا، فقط اناج، غلہ، مسالوں اور دالوں کا شمشان گھاٹ تھا۔ قدیر اُن کا نائب اُسے سمیٹتا کم اور بکھیرتا زیادہ تھا۔ کم بخت کو دائمی خارش تھی۔
پچھلے ماہ، آس پاس کے بدلتے معاشی حالات کے پیش نظر، رحیم چچا نے اضافی آمدنی کی خاطر ایک منصوبہ بنایا۔ اُن کے خیال میں یہ ایک منفعت بخش کاروبار ہوسکتا تھا۔ انھوں نے غازی کاتب سے، جو شام کے کسی اخبار کے لیے کتابت کرتا تھا، خوشخطی میں ایک بورڈ لکھوایا۔ لکھنؤ سے کراچی آتے ہوئے ایک حاملہ بیوی اور شاعری ہمرہ لائے تھے۔ بیوی نے تو نہیں ہاں شاعری نے وفا ضرور نبھائی۔ بورڈ پر جلی حروف میں ایک شعر لکھوا رکھا تھا،
کھچڑی کے ہیں چار یار
مرکل، گھی، پاپڑ، اچار
یہاں مونگ، ماش اور اُڑد کی دال کے پاپڑ اور بڑیاں دستیاب ہیں۔ نیز گائے کا اصلی گھی اور لیموں کا اچار بھی مناسب نرخ پر دستیاب ہیں۔
اضافی آمدنی کے لیے اس سے بہتر کاروبار رحیم چچا سوچ نہیں سکتے تھے۔ اماں مرحومہ کی خاندانی تراکیب کام آئیں۔ اس کاروبار کا مہورت گھر پر بھی نکالا گیا۔ پکے فرش پر ہی بڑیاں، مرکل، پاپڑ سکھالیتے تھے، دو مرتبان لیموں اور کیری کے اچار کے بن جاتے تھے۔ کئی مرتبہ چچی پاشا سے مدد کی التجا کی لیکن انھوں نے کبھی اس نیچ کام کو دروغ اعتنا نہ سمجھا۔ رحیم چچا بس التجا ہی کرسکتے تھے۔۔۔
رحیم چچا سائیکل تھامے چلے آرہے تھے کہ ضمیر انصاری گھڑی ساز نے آواز دی۔
ضمیر: اجی رکیے حضت! کس قدر کی جلدی ہے آپ کو۔۔۔
راوی: رحیم چچا رک جاتے ہیں سائیکل کو بڑے پیار سے پارک کرتے ہیں اور وہیں دکان کے ایک جھکے ہوئے مونڈھے پر دھنس جاتے ہیں۔ کمر، کولہوں سمیت اندر اور بانس جیسی ٹانگیں اوپر، دور سے دیکھنے پر چہرہ اور گھٹنے متوازی زاویہ بناتے تھے۔
رحیم چچا: جلدی کاہے کی جناب، بس قدیر دکان کے باہر کھڑا سوکھ رہا ہوگا۔
ضمیر: اُس کی پرواہ نہ کریں۔ ابھی یہاں سے گزرا ہے۔ اطمینان سے ملائی چاٹتا جارہا تھا۔ (باریک سی چمٹی سے گھڑی کا ایک پرزہ طشتری میں رکھتے ہیں۔۔۔ سائیکل پر نظر ڈالتے ہیں)آپ کو اس سائیکل پر سوار ہوتے نہیں دیکھا۔ کیوں ساتھ لیے پھرتے ہیں؟ سائیکل نہ ہوئی آپ کی زوجہ محترمہ ہوگئیں۔۔۔ہی ہی ہی
راوی: رحیم چچا مزید مونڈھے میں دھنس گئے۔ ضمیر انصاری نے انجانے میں اُن کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ چچی پاشا اور سائیکل دونوں نے انہیں سواری سے محروم کردیا تھا۔ ضمیر انصاری سے صرف محلے داری نہیں تھی، بلکہ دور پار کی رشتہ داری بھی تھی۔ اُن دنوں ایک گاؤں، قصبے کے لوگ آپس میں رشتہ دار ہوتے تھے۔ ضمیر انصاری سے کچھ چھپانہ تھا۔ اُسی وقت ہلکا سا بادل گرجا اور رحیم چچانے دل ہی دل میں حضرت میکائل کا شکریہ ادا کیا، کہ بروقت گرج کر جان بچالی۔
رحیم چچا: اجی چھوڑیے اس کلموہی کو( سائیکل کو دیکھ کر) بوندا باندی شروع ہوگئی ہے۔۔۔ ملباری کی چائے تو پلوائیں۔
’’اُسی وقت چاؤش بابو ایک لوہے کے چھینکے میں چھ گرما گرم چائے کے گلاس لٹکائے گزرا۔ ضمیر انصاری نے لپک کر دو گلاس اٹھالیے۔ ضمیر انصاری بھی آج گویا رحیم چچا کی خبر لینے کو فارغ بیٹھے تھے۔‘‘
ضمیر: (معنی خیزی سے) دوسری کیوں نہیں لے آتے؟
رحیم چچا: (چونک کر) کیا؟ سائیکل؟
ضمیر: (ہنس کر)میں تو سائیکل ہی کی بات کررہا تھا۔ آپ جانے کیا سمجھے۔۔۔ہی ہی ہی۔ (چائے کی چسکی لے کر) ویسے۔۔۔ اُس بات میں بھی مضائقہ نہیں۔۔۔
رحیم چچا: حسرت سے خاک ہوجائیں گے ہم اُن کو خبر تک۔۔۔
ضمیر: اجی خاک ڈالیے ایسی زوجیت پر۔ اب منہ نہ کھلوایے گا۔۔۔ آخر آپ اُن سے پوچھتے کیوں نہیں کہ ماجرہ کیا ہے؟
رحیم چچا: (چائے اور شعر کے مزے لیتے ہیں۔)
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا
ضمیر: رہنے دیجیے رحیم بھائی۔۔۔ رہنے دیجیے۔
کیوں دائی سے پیٹ کا حال چھپاتے ہیں۔۔۔ کیا مجھے علم نہیں کہ قوالی سن کر آپ کیوں زارو قطار روتے ہیں؟ اُدھر مولانا رومی کا کلام شروع ہوا اور اِدھر آپ نے آہُ و بکا کی، ماتم ڈال دیا۔ شادی کو پچیس برس ہوگئے، انھوں نے آپ پر ایک نگاہِ کرم نہ ڈالی۔۔۔ ایسا بھی کیا گھمنڈ۔۔۔ اور گھمنڈ کس بات کا بھلا؟
راوی: رحیم چچا کی چائے کب کی ختم ہوچکی تھی۔ یوں ہی دکھاوے کو بار بار لبوں سے لگا کر سوکھی چسکیاں لیتے رہے۔ ایک آدھ آنسو شاید گلاس میں ٹپک بھی گیا ہو۔ مینہ ابھی برس کر تھما ہی تھا۔۔۔ اندر باہر سب پانی پانی ہوگیا۔ یونہی ناک سڑکنے کے بہانے آنسو کو پیا اور گویا ہوئے۔
رحیم چچا: عورت وہ گتھی ہے ضمیر میاں کہ بڑے بڑے سورما نہ سلجھا سکے۔ مجھ ناچیز کی کیا اوقات۔۔۔ اور جو اس گتھی کو سلجھانے گیا وہ گویا اپنی جان سے گیا۔
راوی: وضع دار آدمی تھے۔ گھر کی عزت باہر کیسے لٹنے دیتے۔ کھڑے ہوکر صرف اتنا کہا:
رحیم چچا: ماضی سب کا حسین ہوتا ہے۔ یہ اور بات کہ کچھ لوگ حسین ماضی کو سینے سے چمٹائے حال سے بھی بیگانے گزر جاتے ہیں۔ اُن کی مرضی۔۔۔ (جاتے جاتے ایک شعر اور پڑھ جاتے ہیں۔)
نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں میرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
عمدہ چائے کے لیے نوازش۔
’’وہ جاکر سائیکل کا سالخوردہ اسٹینڈ گراتے ہیں اور خراماں خراماں، آداب، تسلیمات کرتے، رحیم کریانہ اسٹور کی جانب سکندرانہ چال سے رواں دواں ہوجاتے ہیں۔ جہاں قدیر بے چارہ انتظار میں کھجا کھجا کر اپنے آپ کو زخمی کرچکا ہے۔ ضمیر انصاری نے آنکھ سے عدسہ لگایا، کان میں گھڑی لگا کر اُس کی ٹک ٹک سنی اور بڑبڑائے۔۔۔‘‘
ضمیر: بڑا خراب وقت چل رہا ہے صاحب۔
نعمت اللہ خان
’’رات گہری ہوچلی تھی۔ پڑوس سے ریڈیوبلند آواز میں بج رہا تھا۔
’’یہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس ہے۔۔۔نغمہ سرا ہیں مناڈے اور لتا جی۔‘‘
یہ رات بھیگی بھیگی، یہ مست فضائیں
اٹھا دھیرے دھیرے وہ چاند پیارا پیارا
محسن ٹھک ٹھک ٹائپ کررہا تھا کہ چچی پاشا خاموشی سے آکر اُس کے پاس پلنگ پر بیٹھ جاتی ہیں۔ بہت خاموش ہیں، جیسے اندر کوئی لاوا پک رہا ہو، یا جیسے کہ محسن کی ولدیت کے راز سے آج پردہ اٹھا ہی دیں گی۔ دولمحے بعد، یوں ہی خاص بات شروع کرنے کے لیے بات چھیڑتی ہیں۔‘‘
چچی پاشا: کیا لکھ رہئے باوا؟ کل کے انٹرویو کی تیاری کرئے کیا؟
محسن: (ٹائپ روک کر، آہستہ سے) جی۔ اسٹینوگرافر کے دل کی رفتار جو بھی ہو، اُس کی ٹائپنگ کی اسپیڈ ۷۰ ہونی چاہئے۔
چچی پاشا: (سرسری سے لہجے میں) ہمارے ایک رشتہ دار تھے، مطلب ہیں۔۔۔ نعمت اللہ خان (بڑی مشکل سے تقریباً ہکلا کر نام بول پاتی ہیں۔ محسن یہ نام سن کر چونک اٹھتا ہے) ذرا مالوم کرو۔ اُدھر کہیں کسی محکمے میں کام۔۔۔
محسن: (بات کاٹ کر بول اٹھتا ہے) ہاں ہاں بالکل ہیں۔ نعمت اللہ خان صاحب!
میری کل ہی تو اُن سے ملاقات ہوئی ہے۔ ذرا گہرے سانولے سے ہیں، لامبے سے؟
’’چچی پاشا خوشی کے مارے پاگل ہی تو ہو جاتی ہیں‘‘
محسن: وہ تو یہاں DC ہیں اماں پاشا! ڈپٹی کمشنر۔ بس دو منٹ کے لیے مجھے ملے تھے۔ اُن کی میز پر تو پاکستان کا چھوٹا سا جھنڈا بھی لگا ہوا ہے۔ معروف آدمی ہیں۔
چچی پاشا: اچھا۔۔۔؟ (خوشی سے لٹکے ہوئے گال تمتما نے لگتے ہیں) کیا بولے؟ تم کو دیکھ کر چونکے؟ میرا پوچھے کیا؟ (ایک دم بول جاتی ہیں پھر غلطی کا احساس ہوتا ہے)
محسن: (یک لخت چونک جاتا ہے) آپ کا کیوں پوچھنے لگے؟ وہ کیا جانیں کہ میں آپ کا بیٹا ہوں۔۔۔(ٹائپ کی ٹھک ٹھک) کون ہیں وہ آپ کے؟
’’ایک معنی خیز خاموشی اور ٹائپ کی آواز‘‘
چچی پاشا: ( ذرا شرما کر) چچ۔۔۔ چچا زاد بھائی۔ ابا جان کے ممیرے بھائی کے لڑکے۔۔۔
محسن: (اپنی بات مکمل کرتے ہوئے) اچھا؟ میں تو آپ سے ذکر کرنے والا تھا کہ۔۔۔ میں۔۔۔ اور۔۔۔وہ۔۔۔ خیر جانے دیں۔ مجھے ہی مغالطہ ہوا ہوگا۔
راوی: دونوں ماں بیٹے پھر خاموش ہوجاتے ہیں۔ محسن ماں کو نظر اٹھا کر دیکھتا ہے اُس کے چہرے پر ایک سوال نامہ سا چھپا ہوا ہے۔۔۔ پورے ۱۰۰ نمبر کااور چچی پاشا پاس ہونے کے لیے ۱۰۰ میں سے ۳۳ نمبر لینے کے لائق بھی نہیں تھیں۔ بیٹے ہی نے دو، چار رعائتی نمبردیے۔۔۔ اور منہ موڑ کر ٹائپ کرنے لگا۔ چچی پاشا کھسیائی ہوئی سے کھڑی ہوگئیں۔
چچی پاشا: اب شولہ پیتے کیا منے؟ کیری کا شربت۔۔۔
محسن: موقعہ ملا تو کل آپ کا ذکر کروں گا اُن سے۔ ویسے مجھے سفارش کی ضرورت نہیں۔ نوکری مجھے ضرور ملے گی۔۔۔ شب بخیر!
راوی: چچی پاشا عجیب خوشی اور غمی کی ملی جلی کیفیت میں جانے لگتی ہیں۔ جیسے کہ بھری بریانی کی پلیٹ میں کوئی غلطی سے زردہ ملادے۔ پلیٹ ایک اور اُس میں دو طرح کے چاول۔ یادیں بھی اسی طرح ہوتی ہیں۔ گھی، تیز مرچوں والی، تیکھی، اور ساتھ ساتھ نرم، گداز، ملائم، میٹھی، خوبصورت۔ اُس رات چچی پاشا ان ہی یادوں کو چکھتی، نگلتی رہیں اور محسن تیزی سے ٹائپ کرتا رہا۔ غریب پریکٹس کررہا تھا یا اپنا غصہ لوہے پر اتار رہا تھا۔۔۔ کون جانے۔
بلقیس
بلقیس: اُن کا اصل نام زیب النساء تھا یا عقیلہ بانو اس سے کسے غرض تھی بھیا! بس جگت چچی پاشا تھیں وہ۔۔۔ ناشتوں سے فارغ ہوکر میں نے دیوار پر سے اُن کے گھر میں جھانکا۔۔۔ آج سرخ دلہن والی ساڑھی پہن کر تمام زیورات سے لدی پھندی ہاتھوں میں مہندی لگا رہی تھیں۔ ہتھیلی پر گول چاند، آس پاس گول ٹپے اور انگلی کی پوروں پر موٹی مہندی جیسے غلاف۔ ارے پہلے پہل تو مانگ میں سندور بھی بھر لیا کرتی تھیں۔ بھٹو کا دور تھا تھوڑا اسلامی دورہ پڑا تھا اُسے۔ محلے میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔۔۔ تو سندور بھرناچھوڑ دیا۔۔۔ لیکن ہار سنگھار میں کمی نہیں آئی۔
’’ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر برقعہ اوڑھے بلقیس چلی آتیں۔ ہاتھ میں فرنی کا پیالہ تھامے جو ترپوش سے ڈھکا ہوا تھا۔‘‘
چچی پاشا: آؤ آؤ بلقیس۔۔۔ کیا لائے؟ خورمہ ہے کیا؟ بکرے کے گوش کا؟
بلقیس: ارے چچی پاشا! کیا ہم دلی والے روزآنہ قورمہ کباب ہی کھاتے ہیں؟ یہ بس ذرا فرنی بنائی تھی، چاندی کا ورق بھی لگایا ہے، دیکھیے!میری شمیمہ بڑی ہوگئی ہے تو ساس نے کہا کہ فرنی بنالو۔
چچی پاشا: اچھا۔۔۔؟ مبارک ہو آپ لوگاں کو۔ پرسوں تو خران پڑھنے آئی تھی بچی۔۔۔
بلقیس: (خوشی چھپاتے ہوئے) بس آج ہی میٹھا برس چڑھا ہے۔ اب ہفتے دس دن تو نماز، قران کی چھٹی۔ عابد اکیلا ہی آپ سے سبق لینے آیا کرے گا۔
چچی پاشا: اچھا اچھا۔۔۔
بلقیس: محسن کے کمرے سے ٹائپ کی آواز نہیں آرہی؟ کہیں گیا ہے کیا؟
چچی پاشا: (ذرا اترا کر) اُنے آج کمشنر آفس میں انٹرویو کے واسطے گیا۔ آج اُس کی اور میری تقدیر بدلنے والی ہے۔
بلقیس: (حسد سے) اچھا۔۔۔؟ کتنی تنخواہ ہوگی اندازاً؟
چچی پاشا: ہزار روپے سے کیا کم ہوگی۔۔۔ پہلی تنخواہ سے میں کار لیوں گی دیکھو، ابھی تک اجاڑ کراچی کا سمندر نئیں دیکھی میں!
بلقیس: (مری آواز میں) بس میں بھی جاسکتی ہیں آپ چچی پاشا۔۔۔۲۰ نمبر بس جاتی ہے، ہم لوگ گئے تھے ناں پچھلے ۱۴ اگست کے دن۔۔۔
چچی پاشا: ارے۔ ہم لوگاں بساں میں کاں جاتے؟۔۔۔اپنی موٹر تھی ابا جان کی، حیدرآباد میں۔۔۔ یہ بڑی۔۔۔
’’بلقیس جھلس کر کوئلہ ہورہی ہے۔۔۔ ضبط کرکے پوچھتی ہے‘‘
بلقیس: اچھا، اچھا(مہندی دیکھ کر) آپ کہیں جارہی ہیں کیا؟ کسی شادی کا بلاوہ ہوگا؟ ربیع الاول جو ہے، ہر طرف شادیاں ہورہی ہیں۔
چچی پاشا: (کھسیا کر) ارے نہیں۔ بس ایسی اِچ۔۔۔ محسن کے ابا فرمائش کرے تو لگالی میں۔ کٹورا دھو کو لاتی ہوں۔
’’چچی پاشا اندر جاتی ہیں‘‘
بلقیس: (پلٹ کر)۔۔۔(monologue)
اونہہ! جھوٹی عورت۔ یہ رحیم چچا کے کہنے پر مہندی لگائیں گی؟ یہ منہ اور مسور کی دال بھیا۔ میاں کو ایسے جوتی کی نوک پر رکھتے تو ہم نے کبھی دیکھا نہ سنا۔ کل رات میں یوں ہی دیوار سے کان لگائے کھڑی تھی، ویسے کن سوئیاں لینا میری عادت نہیں۔ تو بے چارے پوچھ رہے تھے کہ آخر کس بات پر ہم سے ناراض ہو۔۔۔ وہ بھی پچیس سال سے۔ ارے اتنے طویل ترک تعلق کے بعد تو نکاح بھی فاسق ہوجاتا ہے، بہشتی زیور پڑھ رکھی ہے میں نے۔ ساری عورتیں ہر میلاد کے بعد مذاکرہ کرتی ہیں کہ آخر چچی پاشا نے کس کے لیے وہ ساڑھیاں اور زیور سینت کرکے رکھے ہیں؟ گھنٹہ بھر کے لیے سج سنور کر کس کا انتظار کرتی ہیں؟ اور باقی سارا دن پھر بیوہ کا لباس کیوں پہن لیتی ہیں۔ ذرا دیکھو تو۔۔۔ مکان سارا دیمک چاٹ چکی ہے، رنگ وروغن کی اوقات نہیں، رحیم چچا کی سائیکل ہمیشہ پنکچر رہتی ہے۔۔۔ بے چارے روز سائیکل کو دھکیل کر دکان سے گھر چلے آتے ہیں۔ اور بات کرتی ہے موٹر کی۔ ہونہہ!رسی جل گئی بل نہیں گیا۔ میں نے خود دیکھا کہ آج دوسرے دن بھی چولہا ٹھنڈا پڑا ہے۔ بیٹا تو سدا کا بیمار مرگھلا، اُس کا کھانا نہ کھانا برابر۔ میاں کی کسے پرواہ ہے۔ اور باتیں ایسی کرتی ہیں جیسے کہ ممتاز محل کے بعد ان ہی کا نمبر ہو۔ میری شمیمہ اور عابد کو قران پڑھاتی ہیں اور ہدیہ تک نہیں قبول کرتیں۔ لوجی! اکڑ دیکھو، کہ ہم سید ہیں۔ آئیں بڑی سیدانی۔۔۔ کرتوت دیکھو شیطانی! (ذرا آواز کم کرکے) سارا محلہ تھو تھو کرتا ہے کہ محسن تو بالکل بھی رحیم چچا سے نہیں ملتا، مگر ان کا وہی گھمنڈ اور جھوٹا تنتنا کہ وہ تو باپ کی ہوبہو کاپی ہے۔۔۔اوپر سے جو راگ الاپ الاپ کر حیدرآبادی بولتی ہیں تو دل جل کر کباب ہوجاتا ہے۔
’’اتنے میں چچی پاشا کٹورہ دھو کر لاتی ہیں۔‘‘
چچی پاشا: اس میں مصری کی ایک ڈلی رکھ دی میں۔ ابھی کھانا تیار نہیں ہوا ناں بلخیس۔۔۔ محسن کے باوا بولے آج بکرے کے گوش سے دم کی بریانی بناؤ۔۔۔ اُس میں تو بھوت وقت لگتا۔ نئیں؟ خدا حافظ۔
’’بلقیس جھوٹی مسکراہٹ سے پیالہ۔۔۔ اور تُرپوش لے کر یہ جا وہ جا۔‘‘
رنگ لے سنوریا
راوی: اُسی شام جب چچی پاشا کی مہندی اور شام، دونوں کا رنگ گہرا ہونے لگا تھا، تب دروازے پر آہٹ ہوئی۔ چچی پاشا نے سرخ ساڑھی کا پلو ذرا گھونگھٹ کی طرح کاڑھ لیا۔ آج تو انھوں نے آنولے ریٹھے سے بال دھوئے تھے، سہاگ پڑا بھی استعمال کیا تھا اور آمہ ہلدی کے لیپ سے مالش بھی کی تھی۔ بھدی مہندی سے رنگے پیر چمک اٹھے تھے۔ غرض، عرصہ دراز سے گم گشتہ جوانی کو بڑے جتن سے پاس بلایا تھا۔۔۔ چچی پاشا کو محسن کے ساتھ نعمت کے دوڑے چلنے آنے کا اُتنا ہی یقین کامل تھا جتنا کہ اللہ کے ایک ہونے پر۔ محسن نے خوشی سے چچی پاشا کو پکارا۔
محسن: اماں! اماں! ادھر دیکھیں۔۔۔
راوی: چچی پاشا کا سارا جسم کان ہی تو بن گیا تھا کہ اب نعمت کی آواز آئے گی۔ پردہ نہیں جب کوئی خدا سے، بندوں سے پردہ کرنا کیا۔۔۔اور وہ آکر اُن کا گھونگھٹ الٹ ہی تو دیں گے۔۔۔ لیکن محسن کے اماں اماں پکارنے پر حیا آئی کہ ارے بیٹا بھی ساتھ ہے، دونوں کے انمٹ پیار کی نشانی، اُس کا لحاظ بھی تو ہوگا۔۔۔ چلو خود ہی گھونگھٹ الٹ کر دیکھ لیتی ہوں۔ پلٹتی ہیں تو محسن ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ لیے کھڑا ہے۔
محسن: اماں منہ میٹھا کیجیے۔۔۔ ملازمت مل گئی۔ پورے پانچ سو روپے۔۔۔ سرکاری ملازمت۔۔۔ تنخواہ کم ہے (چچی پاشا ہکا بکا، کاٹو تو لہو نہیں، برابر بیٹے کی پشت پر دیکھے جارہی ہیں جہاں کوئی نہیں ہے) لیکن مراعات کافی ہیں۔ (ماں کو جھنجوڑ کر) کیا ہوا؟ آپ خوش نہیں ہوئیں؟
چچی پاشا: ہاں آں۔۔۔ وہ نعمت۔۔۔نعمت اللہ خاں صاحب۔۔۔؟
محسن: ارے ہاں اُنوں ملے تھے۔۔۔ جلدی میں تھے۔۔۔ میں اُن کو آپ کا نام بتایا، بالکل بھی نہیں پہچانے۔۔۔پھر حیدرآباد دکن کا، چنچل گوڑے کا حوالہ دیا تو پھر آپ تھوڑے بھوت اُن کو یاد آئے۔
چچی پاشا: پھر۔۔۔؟
محسن: (مٹھائی خود ہی کھاتے ہوئے) پھر کیا۔۔۔ جلدی میں تھے۔ کل ہی لندن کو جارئے۔۔۔ وہاں سفارت خانے میں ٹرانسفر ہوگیا اُن کا۔ اماں یہ لیں بالوشاہی آپ کو پسند ہے ناں؟ وہی لایا ہوں۔ ابا صبح اچ ڈھیروں دعائیں اور کچھ پیسے دیے تھے میرے کو۔
چچی پاشا: پھر۔۔۔اور کچھ نہیں بولے؟
محسن: اماں کیا پھر پھر کا پہاڑا پڑھتے جارئے آپ۔ ویسے اماں مجھے وہ نعمت صاحب ذرا اچھے نہیں لگے۔ گہرا سانولا رنگ، چہرے پہ مہاسوں کے نشان، موٹی سی توند پر قیمتی سوٹ اور بوٹ۔۔۔ بار بار تو اُن کی بیگم کے فون کالاں آرہے تھے گھر سے۔۔۔اُن سے بالکل بکری کی طرح بات کررئے تھے اُنوں۔ (محسن صحن میں لگے نلکے سے منہ دھوتے ہوئے)ایک ہمارے ابا ہیں۔۔۔ نورانی چہرہ۔۔۔ اس گدائی میں بھی بادشاہ جیسی فاخرانہ چال، مطمئن رہن سہن، جیسے کہ دنیا میں نہ کسی سے لینا دینا ہو اور نہ دل میں کوئی خلش۔۔۔ بے فکر!(سکتے میں بیٹھی ماں کو دیکھ کر)اماں! آج میرے دماغ میں جتنے بھی شک کے کیڑے تھے ناں۔۔۔ وہ مرگئے۔ آپ ٹھیک بولتے تھے، میں ابا کا اچ بیٹا ہوں۔ کِتّے دن سے انوں میرے کو بول رئے پنکچر لگوانے کو، آج نیا پہیہ اچ لگوادیتا ؤں۔ (گنگنانے لگتا ہے۔)کو کو کورینہ۔۔۔ کو کو کورینہ۔۔۔
ہم باپ بیٹا باہر کھاناکھالیں گے آج۔۔۔ آپ کچھ تردد نکو کرو۔
’’یہ کہہ کر نکل جاتا ہے۔ چچی پاشا کسی بیوہ کی طرح بیٹھی رہ جاتی ہیں‘‘
آخری سنگھار
راوی: اگلے دن چچی پاشا نے تیاری کے لیے وہ ساڑھی نکالی جو اب تک نہ پہنی تھی۔ تبت سنو اور پھر پاؤڈر، روژ سے کلے لال سرخ کیے۔۔۔ جیسے کتھک ڈانسر میک اپ کرتے ہیں۔ لمبے کھچڑی بال کھلے ہوئے، کاجل کی موٹی لکیریں کانوں تک جارہی تھی، زرد کانجی ورم کی ساڑھی، جس پر روپہلی بوٹی اور ریشم کے دھاگے کا کام تھا، اُسے پہن کر سجی سنوریں، آج سندور بھی لگایا۔ تمام زیورات پہن کر آئنے میں خود کو دیکھا اور آنگن میں چلی آئیں۔ چہرے پر بلا کا غیض و غضب تھا۔ بالکل کالی ماتا لگ رہی تھی۔ اِدھر اُدھر دیکھ کر، چولہے سے مٹی کے تیل کی بوتل اٹھائی اور اپنے اوپر چھڑکنے ہی والی تھیں کہ محسن کی آواز آئی۔
محسن: اماں باہر جانے سے میری طبیعت میں جولانی آگئی۔ اب دفتر سے آتے اچ آپ کے ہاتھ کا کھانا اور اچار کھاؤں گا۔ آپ بنا کوکر رکھیں گی ناں؟ پہلی تنخواہ سے آپ کے اور ابا کے لیے نئے جوڑے لوں گا، گھر پر رنگ و روغن کرواؤں گا اور ایک کام والی رکھوں گا آپ کی مدد کے واسطے۔ ہو اماں؟ سن رئے؟
راوی: چچی پاشا ماچس اٹھا کر روپڑیں۔ دوڑ کر اندر گئیں۔۔۔ تمام ساڑھیاں نکال کر قینچی سے کترنے لگیں۔ کترتے جاتی تھیں اور ہنستی تھیں۔ جی میں کیا آئی کہ اُسی زرد ساڑھی کو پہنے بدن پر لوٹے بھر بھرپانی ڈالنے لگیں۔ بالکل انیس سالہ زیب النسا جیسی کنواری ہنسی ہنسے جارہی تھی۔ لگتا تھا کسی ان دیکھے کے ساتھ ہولی کھیل رہی ہیں۔ دیوار پر پانی کے جھپاکے مارتی جاتی تھیں۔ بلقیس دیوار سے اچک کر دیکھتی ہے۔ اور دانتوں تلے انگلی دبالیتی ہے۔
بلقیس: بڑھیا بالکل ہی سٹھیا گئی ہے۔
راوی: چچی پاشا اندر جاکر رنگین ریشمی کرتا پائجامہ پہنے آتی ہیں۔ مہندی سے رنگے کتھئی بالوں سے پانی ٹپک رہا ہے۔ دھل کر اندر سے ایک نئی شگفتہ سی جوان عورت باہر نکل آئی۔ قدیر نے ٹاٹ کے پردے سے جھانکا اور دیر تک اس ڈھلتی جوانی کے سرعام غسل کا مفت شو دیکھا کیا۔ اپنے بہکتے ہاتھوں کو قابو کرکے کھنکارا۔۔۔
قدیر: اجی چچی پاشا! اجی او، چچی پاشا!
چچی پاشا: (مڑیں۔) کیا ہے خدیر۔۔۔ کیا ہونا؟
قدیر: وہ چچا بول رئے کہ اُن کو پاخانے لگے ہیں۔ کل جلاب لیے تھے کتے۔۔۔ تو بزار کا کھانا نہیں کھاسکتے۔ آپ پتلی کھچڑی مونگ کی بناتے کیا۔۔۔
چچی پاشا: (بہت مسکرا کر پیار سے) ہو خدیر میاں۔ تم ادھر بیٹھو۔ یہ کھیر کھاؤ میں ابھی کھچڑی بناتیوں۔ اور ذرا محسن کے باوا کو بولو آج جلدی گھر آجاؤ۔۔۔ کوئی خاص کام ہے۔ (پلٹ کر گنگنانے لگتی ہیں)
’’میرے بنے کی بات نہ پوچھو
میرا بنا ہریالا ہے‘‘
راوی: اور قدیر لپالپ کھیر کا دونگا نگلنے لگلتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.