مستی چھائی ہوئی تھی اور خوشی کا عالم یہ تھا کہ نیند کے ساتھ میرا رشتہ بالکل ٹوٹ چکا تھا۔ بار بار بند آنکھیں کھل کر اصرار کرتیں کہ بستر سے اٹھ کر میں اس ای میل (E-mail) کو پھر سے پڑھوں جو شام کو دہلی سے آیا تھا اور جسے میں کئی بار پہلے بھی پڑھ چکا تھا۔ لیکن دل تھا کہ کسی طور چین لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ بالاخر بستر سے چھلانگ لگاکر میں نے ای میل کا مضمون پھر سے پڑھا۔ عبارت مجھے قریب قریب یاد ہو چکی تھی۔ ایک کے بعد دوسرا جملہ خود بخود ذہن میں ابھرتا چلا آیا اور میرے موٹے موٹے ہونٹ لگاتار مسکراتے رہے۔
اٹھارہ نومبر، دوہزار دو۔
ڈئیر بمل،
میں لندن آ رہی ہوں، دسمبر کی اکیس تاریخ کو وہاں پہنچ جاؤں گی۔ ویزے کے واسطے پاسپورٹ داخل کروا دیا ہے۔ لیکن اس بار عقلمندی یہ بھی ہے کہ ملٹی پل ویزے (Multiple Visa) کی رقم بھر دی ہے۔ تمہیں تو معلوم ہے کہ میرے پاؤں میں پیدائشی چکر ہے۔ وہ ایک مقام پر ٹک کر نہیں بیٹھتے۔ انڈیاسے چار پانچ ماہ باہر ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ فون پر اطلاع کر دوں گی کہ کس ائیر لائنز اور کس فلائٹ سے آ رہی ہوں۔ لیکن اس بار ائیر پورٹ پر تم وقت سے پہنچ جانا۔ پچھلی مرتبہ کی طرح انتظار مت کروانا۔ یہ کرسمس اور نیا سال میں لندن میں منانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ نئے سال کی شام میں ٹرافلگار اسکوائر کا وہ نظارہ میں بھلائے نہیں بھولتی جب بگ بین (Big Ben) کاگھڑیال رات بارہ بجنے پر گھنٹے بجانا شروع کرتا ہے تو ہزاروں کی تعداد میں وہاں کھڑے لوگ اپنی شناخت، قوم، رنگ، نسل اور مذہب کو فراموش کرکے ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں، چومتے ہیں اور صدق دل سے نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں۔ اس سمے مجھے ہر رنگ اور ہر مذہب کے لوگ ایک سے لگتے ہیں۔ پھر عوام کا رقص، شور شرابہ، جلتی بجھتی پھلجڑیاں، آتش بازیاں، رنگ برنگی روشنیاں الگ سے اپنا جلوہ پیش کرتی ہیں اور آسمان پر چراغاں ہو جاتا ہے۔ ان لمحات کو میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے اندرسمو لینا چاہتی ہوں کہ وہ میری کتاب کا ایک اہم حصہ ہوگا۔
مضمون لمبا ہو گیا ہے۔ ائیر پورٹ پر وقت سے پہلے پہنچ جانا۔ پلیز انتظار مت کروانا۔
کئی سالوں کے وقفے کے بعد میں اپنے وطن عزیز گیا تھا۔ بھارت کے معاشرتی طبقوں اور عوام میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ نچلی سطح کے غریب غرباء مزیدغریب ہو چکے تھے۔ جب کہ متوسط اور اونچے درجے کے طبقوں میں خوشحالی آئے روز بڑھ رہی تھی۔ میرے رشتے دار اور دوست احباب بھی اپنے رویوں کے ساتھ بدلے بدلے سے تھے۔ وہ مجھ سے زیادہ مغرب زدہ ہو چکے تھے۔ صرف لباس کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ انکے دیکھنے، سوچنے اور محسوس کرنے کاڈھنگ بھی بدلا بدلا سا تھا۔ لیکن بعض دوست ایسے بھی تھے جو اپنی دیرینہ اخلاقی، تہذیبی اور سماجی روایات سے جڑے ہوئے تھے۔ ان میں میرا ایک دوست انور بلگرامی بھی تھا۔ اس نے میرے اعزاز میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کرنا چاہا تھا۔ لیکن میں نے شرکت کرنے سے معذرت چاہی تھی کہ میں اپنی کوئی مطبوعہ یا غیر مطبوعہ کہانی ساتھ لے کر نہیں آیا۔ لیکن میرا جگری دوست کہاں ماننے والا تھا۔ اس نے اپنے ایک بک شیلف میں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کے ایک کتاب نکالی جو دھول سے اٹی پڑی تھی۔ پھر اسے جھاڑ پونچھ کر میرے سپرد کر دیا۔ وہ میرا پہلا افسانوی مجموعہ ’’پہچان کی نوک‘‘ پر تھا۔ اب میرے لیے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی۔ لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، میں مقررہ دن کے مقررہ مقام پر کتاب بغل میں دبائے وہاں پہنچ گیا۔ لیکن تقریب میں جانے سے پہلے میں نے اپنے ہوٹل کے کمرے میں دوتین جام اس غرض سے چڑھائے کہ خود اعتمادی پا کر کہانی پڑھتے وقت گھبراہٹ سے دور رہوں۔
سامعین میں میرے آشناؤں اور دوستوں کے درمیان تارا بھی موجود تھی۔ اسے دیکھنے اور اس سے ملنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ ڈھیلا ڈھالا سا گھٹنوں کو چھوتا ہوا بستنی کرتا۔ ویسی ہی کھلی کھلی سی جینز اور پیروں میں عام سی چپل۔ بال بکھرئے ہوئے، سگریٹ کے کش پہ کش لیے جا رہی تھی۔ وہ بلگرامی کے قریبی دوستوں میں سے تھی۔ پتہ چلا کہ وہ فرانسیسی زبان کے ساتھ وہاں کے ادب اور کلچر سے بھی واقف ہے۔ ہندی زبان میں بھی رواں ہے اور اردو سے تواسے دیوانگی کی حد تک عشق ہے۔ بلگرامی کے تعارف کرانے پر میں نے صدر محفل سے اجازت چاہی اور اپنی کہانی ’’مسیحا‘‘ پڑھنا شروع کی۔ اس کا مرکزی کردار ایک سنکی مصور تھا۔ وہ ملک ملک، شہر شہر اس غرض سے بھٹکتا پھرتا تھا کہ اسے ایک ایسے آدمی کی تلاش تھی جس کی صورت میں اسے دنیا کے ہر شخص کی شکل دکھائی دے۔وہ اس کا پورٹریٹ بنانا چاہتا تھا۔ جس میں وہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ آدمی بنیادی طور پرخود غرض ہے، کمینہ ہے، لالچی ہے، مطلبی ہے، سازشی ہے اور مادہ پرست بھی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انانیت کا مارا اور اقتدار کا بھوکا بھی ہے اور موقع ملنے پرذاتی مفادات کی خاطر فاشسٹ بننے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک دیوانے کا جان لیوا خواب تھا جس کا پورا ہونا ناممکن ساتھا۔ لیکن مصور پکی دھن کا مالک تھا اور اپنی جستجو میں سرگرم عمل بھی، سامعین ہمہ تن گوش تھے۔ تارا بھی ہر جملہ غور سے سن رہی تھی۔ جب کہانی کے اس موڑ پر پہنچا، جہاں مصور کا ایک ادیب دوست اسے سرراہ اچانک مل جاتا ہے۔ وہ مصور کو انتہائی لاغر ٹوٹا پھوٹا پاکر اور اس کے پریشان بال اور بڑھی ہوئی داڑھی دیکھ کر افسردہ ہو جاتا ہے۔ لیکن بیک وقت اسے مصور سے ہمدردی بھی ہو جاتی ہے۔ مٹھیاں بھینچ کر اپنی خفگی کا اظہار کرتا ہے:
’’کب تک بھٹکے رہوگے؟‘‘
’’جب تک سنبھلوں گا نہیں‘‘۔
’’کب سنبھلو گے؟‘‘
’’جب بھٹکنا چھوڑ دوں گا‘‘۔
’’تو پھر تم بھٹکنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔۔۔ ایک جگہ ٹک کر کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’تم واقعی تھرڈریٹ افسانہ نگار ہو۔ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ حرکت زندگی ہے اور جمود موت‘‘۔
میں نے اگلی سطر پڑھنے کو ابھی لبوں کو جنبش دی ہی تھی کہ سامعین میں سے ایک نسوانی آواز تالی کے شور میں ابھری، ’’واہ۔۔۔ واہ‘‘۔ میں نے گردن اٹھا کر دیکھا تو وہ تارا تھی۔ تالی بجاتے ہوئے کہے جا رہی تھی، ’’واہ ۔۔۔ واہ۔ ہر ڈائیلاگ کہانی کی پرتیں کھولتا چلا جا رہا ہے۔ دونوں کردار خود کو واضح کر رہے ہیں۔ ایک کو تلاش رہے ہیں دوسرا اسے روکنا چاہتا ہے‘‘۔
کہانی کے اختتام پر مصور تلاش بسیار کے بعد اپنے مقصد میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ لیکن اس کی خاطر اسے اتنی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ لیکن اسے ذرا بھی افسوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ اپنے انجام سے پہلے ہی واقف تھا۔ کہانی ختم ہوئی تو اسے مجموعی طور پر سب نے پسند کیا۔ بعض معروف ادبی شخصیات نے اپنی دانست کے مطابق اپنے تاثرات بھی بیان کیے۔ چائے کے دوران تارا نے مجھ سے جاننا چاہا کہ اگر اس کہانی کا ہندی ترجمہ ہو چکا ہے تو اس کی ایک کاپی اسے عنایت کی جائے۔ اس لیے کہ وہ اردو اسکرپٹ پڑھ نہیں پاتی۔ لیکن زبان ضرور سمجھ لیتی ہے۔ وہ اس کہانی کو فرانسیسی زبان میں منتقل کرنا چاہتی تھی۔
’’تمہارا بےحد شکریہ۔ کاپی تمہیں ہر حالت میں ملےگی، یہ کہانی بھارت کی ہر زبان میں موجود ہے۔ ترجمے کا کام ساہتیہ اکادمی کی نگرانی میں ہواتھا‘‘۔
میرا دہلی میں جب تک قیام رہا، تارا سے کچھ سرسری اور کچھ تفصیلی ملاقاتیں جاری رہیں۔ ایک دوپہر کو ہم کناٹ پیلس کے نرولا ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ موسم گرم تھا۔ سورج تپ رہا تھا۔ ہوا بھی تھمی ہوئی تھی۔ میں یخ بیر سے دل بہلا رہا تھا جبکہ وہ گہری کالی کافی پی رہی تھی اور ساتھ میں پنیر پکوڑوں کی لذت اٹھا رہی تھی۔ پچھلی ملاقات کے دوران جب میں نے اسے ’’مسیحا‘‘ کا ہندی ترجمعہ پیش کیا تھا تو اس نے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسے نہایت سنجیدگی سے پڑھےگی۔ کیوں کہ کوئی بھی رچنا ہو، اسے سننے میں اور خود پڑھنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ میرا ذاتی خیال بھی یہی تھا کہ کہانی مجمع میں نہ سنانے کی چیز ہے اور نہ سننے کی۔ بلکہ اسے ذاتی طور پر پڑھ کر ہی اس کا ہر پہلو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ پلیٹ سے ایک پکوڑا اٹھا کر بولی۔
’’کوئی بھی لیکھک اس سچ سے آنکھ نہیں چرا سکتا کہ اس کی رچنا میں اس کی سوچ کے اپنے رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔ تمہاری کہانی کا مصور اول نمبر کا قنوطی تھا۔ منفی سوچ رکھتا تھا۔ کیا تم بھی جیون کو اسی نظر سے دیکھتے ہو؟‘‘
’’نہیں تارا نہیں‘‘۔ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا:
’’آدمی خیرو شر کا پتلاہے۔ مصور کی زندگی میں حالات کچھ ایسے رونما ہوئے تھے کہ وہ یکسر قنوطی بن گیا تھا۔ اس کے رویوں میں انسانی فطرت کے تمام منفی رنگ در آئے تھے‘‘۔
وہ بامعنی مسکراہٹ کے ساتھ میری آنکھوں سے ہوتی ہوئی میرے اندرون کا جائزہ لینے لگی۔ میں نے اپنا زاویہ نگاہ پیش کر نا ضروری جانا:
’’دیکھا جائے تو یہ سنسار بڑا سندر ہے۔ جیون انمول شے ہے۔ یگوں کے بعد منش جنم پاتا ہے۔ اسے اپنے علاوہ انسانیت کی بھی قدر کرنی چاہیے‘‘۔
’’بلکہ اسے بدلتی ہوئی اقدار اور حالات کے ساتھ خود کو بھی بدلنا چاہیے‘‘۔
’’ہاں، یہ ضروری ہے۔ ورنہ زندگی ایک ہی مقام پر ٹھہر جائےگی‘‘۔
’’بالکل‘‘۔
میں نے ہر ملاقات میں اسے ملنسار، بلند ذوق اور دنیاوی معاملات میں باخبر پایا تھا۔ ہمارے درمیان دوستی کا پل مضبوط ہوتا جا رہا تھا۔ تارا نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ اس دیش کے نامور ہارٹ سرجن ڈاکٹر بسواس کی بیوی ہے۔ اس نے یورپ میں اعلیٰ تعلیم پا کر کئی طبی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ وہ راجدھانی میں ایک عظیم الشان ہسپتال، جس کی لاگت اربوں کھربوں روپے کی ہوگی وہ اسے ’’تارا ہاسپٹل‘‘ کے نام سے قائم کرنا چاہتا ہے۔وہ دن رات اپنے پروجیکٹ میں مصروف اس کی تکمیل کے خواب دیکھا کرتا ہے۔ لیکن جب کبھی وہ بیرون ملک کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرتا ہے تو اسے بھی ساتھ لے کر جاتا ہے۔ مغربی دنیا اس کے نزدیک بلا کی کشش رکھتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے بچپن سے جو ان ہونے تک اپنے والدین کے ساتھ کئی ملک دیکھ چکی ہے اور یہیں سے اسے سیرو سیاحت کا بھرپور شوق پیدا ہوا تھا۔ اس کے پاؤں میں چکر اس کی یوم پیدائش جنم کنڈلی اور اس کے ستارے کے تحت اتنا جڑا ہے کہ ہر تیسرے چوتھے مہینے اس کے ہاں کوئی نیا ملک، کوئی نیا شہر دیکھنے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے اور وہ بے بس ہو کر رہ جاتی ہے۔
’’اچھا۔ اگر ایسا ہے تو باہر کی دنیا کا تمہیں خاصا تجربہ ہوگا، کبھی لندن آنا ہو تو ضرور ملنا‘‘۔
’’میں لندن دیکھ چکی ہوں۔ وہ شہر مجھے اچھا لگتا ہے اگر وہاں کبھی آئی تو ملاقات رہےگی‘‘۔
میں نے اپنا کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
حال ہی میں میری طلاق ہوئی تھی۔ پانچ سال، سات ماہ اور دس روز شادی شدہ زندگی کے ختم ہونے پر میں خوش نہ تھا۔ لیکن اس حد تک مطمئن ضرور تھا کہ جو خواہش گزشتہ کئی ماہ سے مجھے تڑپا رہی تھی، اسے عملی شکل دینے کا موقع مل گیا ہے۔ لیکن چند روز بھی نہ بیتے تھے کہ اکیلا پن مجھ پر سوار ہونے لگا۔ خاص طور پر شام کے وقت کام سے فارغ ہوکر جب میں گھر میں قدم رکھتا تو کمروں میں پھیلا ہوا سناٹا، کچن میں گہری خاموشی اور ویران دیواریں پریشان کرنے لگتیں۔ لیکن یہ احساس مجھے ضرور حوصلہ دیتا کہ زندگی کا اصلی سفر تو اب شروع ہوا ہے، جسے تن تنہا یا نئی شریک حیات کے ساتھ طے کرنا ہوگا۔ کوئی زمانہ تھا کہ میں جولیا کی محبت میں سر سے پیر تک گرفتار تھا۔ کوئی لمحہ ایسا نہ گزرتا جب میں اس کی دلکش شخصیت کے متعلق نہ سوچتا۔ یہی حال کم و بیش جولیا کا بھی تھا۔ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ وہ عشق ہم دونوں کی زندگی کا پہلا عشق تھا اور ہم اتنے خوش تھے کہ خود کو ALPS پہاڑ کی برفانی چوٹیوں پر کھڑا پا رہے تھے۔ معاشی اعتبار سے ہم دونوں برسر روزگار تھے اور نامور کمپنیوں میں پیشہ ورانہ ملازمت کرتے تھے۔ وہ ایک انشورنس کمپنی سے منسلک تھی جب کہ میں ایک روزنامہ اخبار سے، وہ مجھ سے زیادہ پڑھی لکھی خاتون تھی اور اونچے عہدے پر فائز تھی۔ لیکن اس نے مجھے ازدواجی زندگی کے دوران کبھی یہ احساس نہیں دلایا کہ میں اس سے کم تعلیم یافتہ ہوں اور اس کا کہا یا فیصلہ گھریلو معاملات میں زیادہ وزن رکھتا ہے۔ وہ انفرادی آزادی اور انسانی حقوق کی قائل تھی۔ جمہوری قدروں کی طرفدار اور پاسدار تھی۔ لیکن مجھے ایک خوبصورت سا گل گوتھنا بچہ چاہیے تھا۔ ایک ویک اینڈ کی پہلی شام میں میں نے جولیا کے گوش گزار کیا کہ پانچ برس تو ہم لوگوں نے ہنستے کھیلتے، قہقہے لگاتے اور مزے لوٹنے میں گزار دئیے ہیں۔ اب ہمیں فوراً اپنی فیملی کو بڑھا لینا چاہیے۔ میں خود کو اور تم کو اس بچے میں دیکھنے کے لیے مرجارہا ہوں۔ وہ میرا اندرون جان کر از حد سنجیدہ ہو گئی۔ بولی:
’’بمی، دل تو میرا بھی یہی چاہتا ہے۔ مگر چند مجبوریاں ہیں۔ ہم دونوں کام کاج والے ہیں۔ بچہ کون سنبھالےگا؟ اس کی پرورش کون کرےگا؟ بے بی سٹنگ اور نرسری میں اس کی دیکھ بھال کے لیے اونچے دام ادا کرنے پڑتے ہیں، خیر ہم دونوں کی آمدنی تو اچھی ہے اور ہم برداشت بھی کر سکتے ہیں۔
’’تو پھر پرابلم کیا ہے؟‘‘
’’مجھے ڈپٹی ڈائریکٹر کی جاب پروموشن کچھ دنوں میں ملنے والی ہے۔ فیصلہ ہو چکا ہے، دوسری بات جتنے بھی کمپنی ڈائریکٹر ہیں وہ سب بوڑھے ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی جلد لڑھک سکتا ہے۔ پھر میں خود بخود ڈائریکٹر بن جاؤں گی‘‘۔
گلاس ہمارے آگے رکھے ہوئے تھے۔ مجھے اس کا سہارا لینا پڑا کہ مجھے اپنا دل اگلنا تھا۔
’’تمہاری سوچ اپنی جگہ اور انتظار اپنی جگہ، مگر میں ایک بات کھلے لفظوں میں کہہ دوں کہ میں اولاد کے بغیر نہیں مرنا چاہتا، میں اس میں اپنا خون، اپنا وجود اور اپنی ذات دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
اس نے بھی ہاتھ بڑھا کر گلاس اٹھا لیا:
’’کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟‘‘
’’تم کہہ سکتی ہو کہ ہاں‘‘۔
’’تو پھر تم کو بھی میرا فیصلہ جاننا ہوگا‘‘۔
’’میں سن رہا ہوں‘‘۔
’’میں ڈائریکٹر بننے پر ہی ماں بننا پسند کروں گی‘‘۔
’’ممکن ہے تب تک ہماری عمر اور بھی ڈھل جائے۔ پانچ، سات، دس برس؟ ممکن ہے اور زیادہ؟‘‘
وہ سر کھجانے لگی۔ پھر انتہائی پیار سے مجھے دیکھ کر کہا:
’’میں تمہارے جذبات کی قدر کرتی ہوں۔ میں تمہاری سوچ پر کوئی پہرہ بٹھانا نہیں چاہتی‘‘۔
یہ کہہ کر وہ کچن کی طرف بڑھ گئی۔
اس رات میں نے جولیا کوٹوٹ کر پیار کیا تھا اور اسے منانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ وہ سدا کی طرح مسکراتی رہی اور اپنے مخصوص انداز میں پیار کا جواب پیارسے دیتے ہوئے میرے کان میں سرگوشی کی:
’’تم اولاد کے لیے اتنے DESPRATE کیوں ہو؟‘‘
جانے کیوں پرکھوں کا کہا اور منوکی لکھی ہوئی کتاب ’’دھرم شاستر‘‘ کا حصہ یاد آ گیا اور میں بلا سوچے سمجھے بول اٹھا:
’’ہماری مقدس کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر مرد کنوارا مر جائے یا شادی کے بعد اس کے اولاد نہ ہو تو وہ اگلا جنم آدمی کی جون میں نہیں، کسی جانور کی شکل میں لیتا ہے‘‘۔
یہ سننا تھا کہ جولیا نے اتنے زور سے قہقہہ بلند کیا کہ کمرے کی چھت اڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ بمشکل ہنسی پر قابو پاکر بولی۔
’’مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ تمہاری سوچ ہے۔ تم پچھلے بیس بائیس برس سے (West) میں رہ رہے ہو۔ پڑھے لکھے ہو، کھلا ذہن رکھتے ہو مگر اب بھی پرانے زمانوں کے دقیانوسی یقین تمہاری سائیکی میں رینگ رہے ہیں‘‘۔
’’تم کچھ بھی کہہ لو لیکن سچ یہ ہے کہ میں اولاد کا منہ دیکھے بغیر مرنا نہیں چاہتا۔ میں اس میں اپنی شکل، اپنی ذات دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ آگے چل کر میرے نام کو دنیا میں زندہ رکھےگا‘‘۔
میرا واضح موقف جان کر وہ اس قدر سنجیدہ ہو گئی تھی کہ ہ کوئی دوسری ہی عورت دکھ رہی تھی۔ وہ گہری سوچ میں ڈوبی جانے کیا سوچ رہی تھی؟ میں وثوق سے کہہ نہیں سکتا۔ پھر یکبارگی اس کا چہرہ بامعنی مسکراہٹ سے منور ہو گیا۔ گویا اس نے چند ہی لمحوں میں آنے والی زندگی کا تعین کر لیا ہو۔ بڑھ کر وہ مجھ سے لپٹ گئی اور اپنے لب میرے کان کے قریب لاکر آہستہ سے کہا:
’’آج تم نے منطق کا دامن چھوڑ دیا۔۔۔ حیرت ہے؟ لیکن میں تمہاری خواہش کی قدر کرتی ہوں‘‘۔ وہ مجھے گومگو کی حالت میں چھوڑکر لاؤنج کی طرف بڑھ گئی۔
کوئی دن ایسا نہ گزرتا جب میں جولیا سے کبھی اشاروں میں کبھی ڈھکے چھپے جملوں میں اور کبھی براہ راست دریافت نہ کرتا کہ اس نے فیملی کو بڑھانے کی خاطر کیا فیصلہ کیا ہے؟ لیکن وہ ہاں ہوں کر کے خاموش ہو جاتی۔ کبھی مسکرا دیتی اور کبھی موقع پا کر موضوع بدل دیتی۔ میری خواہش ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتی چلی جارہی تھی اور میری آنکھیں اولاد کا منہ دیکھنے کو ترس رہی تھیں۔ ایک شام کام سے فار غ ہوکر میں گھر پہنچا۔ لاؤنج میں داخل ہو کر میں نے جولیا کو آواز دی۔ وہ مجھ سے پہلے گھر چلی آیا کرتی تھی۔ مسلسل آوازیں دینے پر بھی جب کوئی جواب نہ ملا تو اسے کمروں میں تلاش کیا۔ کھانے کی میز کے وسط میں میرے نام کا ایک لفافہ رکھا تھا۔
’’بمی، کافی سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ تمہاری خواہش اور میرا فیصلہ آپس میں روز روز ٹکرائیں، تکرار ہو اور ہماری زندگیاں تلخ ہوکر اس گھر کو جہنم بنا دیں، بہتر یہی ہوگا کہ ہم الگ ہو جائیں۔ میں تم کو چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ جلد ہی میرا سالی سٹرتم سے فنانس، بینک اکاؤنٹ، فلیٹ، مورگیج اور دیگر امور کے متعلق رابطہ کرےگا۔
میں آج بھی تم کو پسند کرتی ہوں۔ تم نیک سیرت شخص ہو۔ مخلص اور ایماندار۔ دوسروں کے کام آنے والے۔ مگراب تم اپنی خواہش کے غلام بن چکے ہو، جبکہ میری منزل بالکل الگ ہے۔ گڈبائے‘‘۔
ہر شخص کے حالات ایک سے نہیں رہتے کہ وہ تغیر پذیر ہیں۔ آدمی سماجی، معاشی اور داخلی طور پر بدلتا رہتا ہے۔ تارا کے جیون میں بھی کوئی انقلاب آئے اور اپنی گہری چھاپ چھوڑ کر آئندہ کی تبدیلیوں کے لیے جگہ بنا گئے۔ اس نے کئی بار اپنے بدلتے ہوئے حالات مجھے فون پر بیان کئے۔ کبھی ای میل کا سہارا لیا اور کبھی تفصیلی خط تحریر کیا۔ میری کہانی ’’مسیحا‘‘ کا ترجمہ فرانسیسی اخبار ’’لافگارو‘‘ کے ادبی حصے میں شائع ہوا تھا، اس کا ترا شا پاکر مجھے بے پناہ خوشی ہوئی۔ کہانی کے حوالے سے اگلے شمارے میں چند تعریفی خطوط بھی شائع ہوئے تھے۔ تارا نے فون پر جب آگاہ کیا تو میں نے بےساختہ اس سے کہا تھا کہ وہ مجھے انٹر نیشنل رائٹر بنانے پر کیوں تلی بیٹھی ہے؟ دیر تک ہماری ہنسی ایک دوسرے کے کانوں میں مٹھاس چھوڑتی رہی۔سات سمندر پاررہ کر بھی ہم قریبی اور پرخلوص دوست ثابت ہورہے تھے اور ہمارے درمیان عجیب سا تال میل پیدا ہو رہا تھا جیسے ہم ہزاروں میل کی دوری کے باوجود بھی محسوس کرہے تھے۔ پچھلی مرتبہ جب وہ لندن آئی تھی تو میں ہی اسے ہیتھرو ائرپورٹ سے ہلٹن انٹرنیشنل میں لایا تھا (گو ٹریفک میں پھنس جانے کے کارن میں وہاں دیر سے پہنچا تھا) کمرے میں سامان رکھتے ہوئے تارا نے بتایا تھا کہ شام میں اس کا شوہر ویانا سے کانفرنس کے بعد سیدھا لندن پہنچ رہا ہے۔ ہمارے درمیان قریب قریب تین گھنٹے اپنے تھے۔ ہم نے دنیا بھر کی باتیں کیں۔ سماجی، سیاسی، ادبی اور نجی۔ میری طلاق کے تعلق سے اس نے صدق دل سے ہمدردی جتائی تھی۔ بلکہ افسوس بھی ظاہر کیا تھا کہ جولیا مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ اس کے فیصلے پرتارا نے حیرت کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس نے سماجی حیثیت کی خاطر اپنی کامیاب شادی قربان کر ڈالی۔ بات چیت کے دوران اس نے اپنے ناول کا بھی ذکر کیا تھا۔ وہ دن رات اس پر سنجیدگی سے کام کر رہی تھی۔ موضوع اس نے یہ بتایا تھا کہ ڈبلیو ایچ او (W.H.O) کے کئی اونچے عہدوں پر فائز آفیسرز انٹرنیشنل کمپنیوں سے سستی دوائیں بنواکر افریقہ کے پس ماندہ علاقوں میں سپلائی کرتے ہیں اور یوں وہ کرپٹ آفیسرز اپنا بینک بیلنس بڑھا رہے ہیں۔ وہ دوائیں زیادہ اثر نہیں رکھتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان قحط زدہ علاقوں میں اموات تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہےگا؟
تارا واقعی سنیچر کے روز پاؤں میں چکر لیے پیدا ہوئی تھی۔ سنیچر دیوتا جو دیومالا میں شنی کے لقب سے جانا جاتا ہے، سوریہ اور چھایا کا بیٹا ہے۔ اکثر سیاہ فام گھوڑے پر سوار دکھائی دیتا ہے اور مشکلات سے دو چارہوتا ہے۔ لیکن مسلسل سفر اس کا مقدر ٹھہرا ہے۔ وہ تارا کے تن من پر یوں طاری رہتا کہ وہ زیادہ تر سفر میں ہی رہا کرتی۔ بعض دفعہ وہ اوب بھی جاتی مگر مختلف مقامات کی زیارت کرنا اس کا اولین مشغلہ تھا اور ہر تفریح کے بعد اسے روحانی مسرت بھی ملا کرتی۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی اور تنہا اولاد تھی۔ اس کے والد ماجد ہند سرکار کے بزرگ سفیر تھے۔ جس کارن اس نے بچپن سے بالغ ہونے تک دنیا کی کئی راجدھانیاں دیکھ لی تھیں۔ ہر دوسرے تیسرے برس والد کے تبادلے پر ملک کے ساتھ راجدھانی بھی بدل جایا کرتی۔ ماسکو، لندن، تہران، پیرس اور اسلام آباد، وہ ان شہروں کے طول و عرض سے خوب خوب واقف تھی۔ اس کا بچپن پیرس میں گزرا تھا اور وہیں اس نے ابتدائی تعلیم بھی پائی تھی۔ وہاں کی معاشرت، ثقافت اورطرز زندگی نے اس پر اتنا اثر کیا تھا کہ وہ فرانسیسی زبان بھی روانی سے بولنے لگی تھی۔
تارا کی شادی ڈاکٹر بسواس سے دہلی میں، وہاں برسوں سے آباد بنگالی برادری کی موجودگی میں بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ شہر کی برگزیدہ شخصیات، سرکاری عہدے دار، دانشور، ڈاکٹرز، تجارتی لوگ اور فارن سروس کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ لیکن بیاہ سے پہلے جن دنوں تارا کی کورٹ شپ ڈاکٹر بسواس سے چل رہی تھی اس نے ملاقاتوں کے دوران ڈاکٹر بسواس سے پہلے تو ہلکے ہلکے اشاروں میں، پھر علامتی انداز میں اور انجام کار کھلے لفظوں میں گوش گزار کیا تا کہ وہ ایک ہی مقام پر زیادہ دیر ٹک کر نہیں رہ پاتی۔ اس کا من اوب جاتا ہے۔ نہ ہی وہ کسی ایک شخص کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتی ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ دور دور تک قدم بڑھا سکتی ہے۔ کارن یہ ہے کہ وہ اس شخص کی دہرائی ہوئی باتیں، عادتیں، مشغلے اور روئیے برداشت نہیں کر پاتی۔ تبدیلی چاہتی ہے۔ آدمی کو ماحول، اقدار، حالات اوروقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہنا چاہیے۔ مگر سچ کا دامن وہ کبھی نہ چھوڑے۔ ورنہ روزمرہ کی یکسانیت اسے دیمک کی طرح چاٹ جائےگی اور پچھتاوا اس کا مقدر بن کررہ جائےگا۔ بعض اسے نیم پاگل، سنکی اور بھانوری بھی قرار دیتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر بسواس اسکی صاف گوئی، جرات اور بے باک رویوں پر مر مٹا تھا۔ جبکہ تارا سانولی رنگت کی معمولی شکل و صورت کی عورت تھی۔ مگر اس کی بڑی بڑی آنکھیں اتنے غضب کی تھیں کہ وہ بنگال کا جادو جگاتی تھیں اور آدمی ان میں کھو کر رہ جاتا تھا۔ اس کا بدن بھی بڑا کسا کسا تھا، جس کا ہر حصہ مقنا طیسی کشش رکھتا تھا۔ وہ بذات خود تیز فہم، روشن دماغ اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتی تھی۔ ادب سے بھی اس کا لگاؤ گہر اتھا۔ اس نے بنگلہ زبان کی چند کہانیاں غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ کر کے ادبی حلقوں میں اپنی پہچان بنالی تھی۔ ان اوصاف کے پیش نظر کوئی بھی سلجھا ہوا باذوق شخص اس پر آسانی سے فدا ہو سکتا تھا۔ پھر ڈاکٹر بسواس کیونکر بچ رہتا؟ اسے اپنی دلکش شخصیت، سماجی حیثیت، باعزت پیشہ اور خاندانی دولت پر اتنا غرور تھا کہ وہ تارا کو دنوں میں ہی رام کر لےگا اور وہ بےچین آتما ادھر ادھر بھٹکنا بند کر دےگی۔ جب وہ اس کے ہمراہ بیرون ملک میڈیکل کانفرنسوں اور سیمیناروں میں جایا کرے گی تو وہاں ڈاکٹروں اور سرجنوں کے لیکچر سن کر حیاتیاتی زندگی کے متعلق اس کا شعور مزید بڑھے گا۔ پھر اپنے دیش میں ہر ویک اینڈ پر جب وہ پارٹیوں اور کاک ٹیل پارٹیوں میں شامل ہوگی، کبھی اپنے کشادہ فلیٹ میں اور کبھی دوستوں کی رہائش گاہ پر تو یقیناً وہ ان کی آزاد سوچ سے متاثر ہوگی۔ پھر جب وہ پانچ ستارہ ہوٹلوں میں سرمایہ داروں کے درمیان بیٹھی ڈنر کر ے گی اور کروڑوں، اربوں کی لاگت سے پرائیویٹ ہاسپٹل کھولنے کا منصوبہ جانےگی تو وہ اس کے ساتھ خود پر بھی ناز کرےگی۔ نیا ماحول، نئے لوگ اور نئی زندگی شرطیہ اسے راس آئےگی اور ماں بننے پر تو اس کی کایا ہی پلٹ کر رہ جائےگی۔ جب اسے احساس ہوگا کہ بال بچوں کے ساتھ عورت کی اصلی دنیا اس کا گھر ہی ہوا کرتا ہے۔ جسے وہ جنت بنانے میں کوشاں رہتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹر بسواس نے جن خطوط پر سوچا تھا یا تصور کی آنکھ سے دیکھا تھا، وہ عملی صورت اختیار نہ کر پائے۔ اسباب واضح تھے کہ جب مخالف اور متضاد روئیے آپس میں ٹکراتے ہیں تو میاں بیوی کے درمیان انجام اکثر جدائی، طلاق، جبر، گھریلو تشدد یا قتل کی صورت ہوا کرتا ہے۔ تارا اور بسواس کے درمیان بھی تلخی کے ساتھ اختلافات بڑھتے رہے۔ ایک شب ڈاکٹر نے ڈنر کے بعد تارا کی کمرمیں ہاتھ ڈال کر اسے پیار کرنا چاہا۔ مگر اس نے رضامندی ظاہر نہ کی۔ بلکہ ڈاکٹر کا ہاتھ ہٹا کر دو ٹوک لہجہ اختیار کیا:
’’شادی سے پہلے میں تم کو پسند کرنے لگی تھی۔ مگر بیت جانے پر اب تم میرے لیے پرانے ہو چکے ہو۔ میں تم کو اندر باہر سے جان گئی ہوں‘‘۔
’’پھر؟‘‘
’’میں تبدیلی چاہتی ہوں‘‘۔
ڈاکٹر سیانا تھا اور ہر سیانا آدمی دور کی سوچتا ہے۔ ڈاکٹر نے دنیا دیکھ رکھی تھی۔ یوں بھی وہ ایک عرصے سے محسوس کر رہا تھا کہ تارا اس سے کھنچی کھنچی سی رہنے لگی ہے۔ اس کیا شکایات بھی بڑھ رہی ہیں۔ مگر وہ اس کی ہر شکایت کو سنی ان سنی کرتا رہا۔ اپنائیت سے بولا:
’’یہ تبدیلی کل پر چھوڑتے ہیں۔ پھر سب ٹھیک ہو جائےگا‘‘۔
اگلی شام وہ لاؤنج میں خاموش بیٹھے دوردرشن کے چینل پر کوئی سنجیدہ ڈاکومنٹری دیکھ رہے تھے۔ پروگرام عورت ذات کی مظلومیت اور اس کی سماجی محرومی کے متعلق تھا۔ مرد ذات نے کتنی عیاری سے عورت کو کمزور جان کر اس کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا تھا اوراس کاجنسی استحصال بھی کیا تھا۔ بلکہ ذاتی ملکیت سمجھ کر اسے آزادی سے بھی محروم رکھا تھا۔ مگر جدید دور میں عورت تمام BARRIERS کو توڑ کر اپنے حقوق طلب کر رہی تھی اور مرد بے چارہ پریشان تھا۔ میاں بیوی اپنی اپنی سوچ میں گم، نشہ آور مشروب کے گھونٹ بھرتے، گلاس بھی بدل رہے تھے۔ تارا محسوس کر رہی تھی کہ قدرت نے مرد کو جو مخصوص لنگ عطا کیا ہے، وہ اس کے ذریعے عورت کی جسمانی اور حیاتیاتی ضرورت پوری کرتا ہے اور اسی کے ذریعے آئندہ نسلیں وجود میں آتی ہیں۔ اگر قدرت اس پر مہربان نہ ہوتی تو عورت اس سے دور کا بھی واسطہ نہ رکھتی۔ دوسری طرف ڈاکٹر محسوس کر رہا تھا کہ عورت کی سب سے بڑی ضرورت مرد ہی ہے اور وہ ابد تک رہےگی۔ وہ اس کی صحبت کے بغیر نامکمل ہے۔ لیکن وصال کے دوران اگر مرد اسے کسی وجہ سے مطمئن نہ کر پائے تو وہ تبدیلی چاہتی ہے۔ وہ کوئی دوسرا ٹھکانہ تلاش کرتی ہے۔ ڈاکو منٹری ختم ہوئی تو تارا کے کہنے پر ملازمہ نے کھانا پروس دیا۔ میاں بیوی نے کچھ کھایا، کچھ نہیں کھایا، پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ڈاکٹر نے بڑھ کر اپنا بازو تارا کی کمر کے گرد پھیلا دیا۔ اس نے بھی اپنا بازو ڈاکٹر کی کمر میں ڈال کر رضامندی ظاہر کی اوریوں وہ جڑے ہوئے عالیشان خواب گاہ میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹر نے بڑے چاؤ سے کہا:
’’ڈارلنگ، مجھے دو تین منٹ دے دو میں باتھ روم سے ہوکر آتا ہوں۔ بس گیا اور آیا‘‘۔
لیکن ڈاکٹر نے لوٹنے میں سات آٹھ منٹ لگا دئیے اور جب وہ تارا کے قریب آیا تو الگ ہی شخص تھا۔ انار چہرہ، انگارہ آنکھیں، کھڑے بال اور سرخ گالوں پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے۔ بدنی کھیل شروع ہوا تو ڈاکٹر دیر تک تارا کا انگ انگ بھنبھوڑتا رہا، چومتا رہا، چاٹتا رہا۔ اس نے تارا کے بدن پر جگہ جگہ دانتوں کے نشان بھی چھوڑے۔ وہ محسوس کر رہی تھی کہ ڈاکٹر کا پیار کرنے کا ڈھنگ بالکل بدلا بدلا سا ہے۔ اتنے زور و شور سے اس نے کبھی پیار نہ کیا تھا اور نہ ہی اسے کبھی جانور کی طرح کاٹ کر اس کی ہر حس کو بیدار کیا تھا۔ وہ قوت مردانگی کا بھرپور اظہار کر رہا تھا۔ تارا حیران تھی اور پریشان بھی کہ ڈاکٹر میں یہ تبدیلی کیونکر چلی آئی ہے؟ دونوں معمول سے زیادہ دیر تک دنیا سے بے خبر خود میں مشغول رہے۔ وہ پسینے سے تربتر تھے۔ ان کی سانسیں دھونکنی کی طرح چل رہی تھیں اور بال یوں بکھر چکے تھے جیسے ہفتوں انہیں سنوارا نہ گیا ہو۔ ڈاکٹر کا سینہ پھل کر دوہرا ہوا جا رہا تھا اور وہ فخریہ انداز میں تارا کو دیکھ کر احساس دلا رہا تھا کہ اس نے تارا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فتح کر لیا ہے۔ وہ بھی خوش تھی کہ اس کے ہر انگ کا ہر مسام مدتوں بعد کھلا تھا۔ لیکن اس نے بستر سے چادر کھینچ کر اپنا جسم ڈھانپ لیا اور مضبوط لہجے میں کہا۔
’’ڈاک میری پرابلم سیکس نہیں، کچھ اور ہے‘‘۔
’’وہ کیا ہے؟‘‘ اس نے فتح کے نشے میں کہا۔
’’میں نے تم سے کہا تھا کہ آدمی کو ماحول، اقدار، حالات اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلنا چاہیے۔ میں ایک سی زندگی جی نہیں سکتی۔ مجھے شروع میں تمہاری دنیا پسند آئی تھی۔ میں نے خود کو بدلا بھی تھا۔
’’پھر؟‘‘
’’اب مجھے تبدیلی چاہیے‘‘۔
ڈاکٹر نے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے اپنا فخریہ لہجہ برقرار رکھا:
’’آج کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔۔۔ تبدیلی ضرور محسوس کی ہوگئی تم نے؟‘‘
’’ہاں۔ لیکن میں کوئی NYMPHO نہیں ہوں، بیڈروم میں داخل ہو کر تم نے دو تین منٹ کی اجازت چاہی تھی۔ مگر پلٹ کر آئے تو سات آٹھ منٹ بیت چکے تھے۔ اس دوران تم نے انٹراوینس (INTRAVENOUS) انجکشن لیا ہے۔ اس کا اثر جب تم پر ہو گیا تو تم نے میری طرف رخ کیا۔
ڈاکٹر کا ابھرتا ہوا سینہ یک بیک اندر کی جانب چلا گیا۔ چہرے کی سانولی جلد گہری ہو گئی۔ وہ بازی ہار چکا تھا۔ وہ قریب ہی رکھی ہوئی چمڑے کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ تارا اسے نا پسندیدہ نگاہ سے دیکھتی رہی۔ پھر چہرے پر حقارت ابھرتے ہی وہ باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔
اس رات وہ ایک ہی پلنگ پر سوئے تھے۔ لیکن دونو ں ایک دوسرے کی طرف پشت کئے ہو ئے تھے۔ ان کے درمیان دیر تک کوئی بات نہ ہوئی۔ لگتا تھا کہ ان کا تعلق ایک لمبے فاصلے میں بدل گیا ہے اور فاصلہ بھی ایسا کہ جو کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی رہےگا اور ایک انجانے موڑ پر پہنچ کر ختم ہو جائےگا۔
صبح ڈاکٹر اپنے وقت پر اٹھا کہ اسے سرجری پہنچنا تھا۔ وہ وقت کا بڑا پابند تھا۔ تارا اس کے ساتھ ساتھ ہی اٹھ جایا کرتی تھی۔ پھر ڈاکٹر کے واسطے اس کی پسند کا بریک فاسٹ تیار کرتی، جسے ملازمہ پروس دیا کرتی تھی۔ لیکن اس صبح تارا کو آس پاس کا کوئی ہوش نہ تھا۔ وہ گھوڑے بیچ کر سورہی تھی۔ اس کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ ڈاکٹر نے ایک دو بار اسے آواز دے کر اٹھانا بھی چاہا مگر بےسود۔ وہ گہرے خراٹے لے رہی تھی۔ ڈاکٹر تیار ہو ا اور ناشتہ کئے بغیر ہی سرجری کو چلا گیا۔ سورج کی تمازت بڑھی تو ملازمہ نے بیڈروم میں داخل ہو کرتارا کو اٹھایا۔ اس نے غسل کے بعد سیر شکم ناشتہ کیا پھر ضروری سامان باندھا اور کاغذ قلم سنبھال کر بیٹھ گئی۔
’’بسواس۔ میں جا رہی ہوں سدا کے لیے۔ اب میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ جو اہم باتیں میں لکھنے جا رہی ہوں ان سے تمہارے کان خوب خوب واقف ہیں۔ لیکن تم نے ان پر سنجیدگی سے کبھی غور نہیں کیا اور نہ ہی ان کی اہمیت کو جانا۔ مجھے افسوس ہے تم نے اپنے اردگرد جو دنیا بسا رکھی ہے، وہ شروع میں مجھے راس ضرور آتی تھی اور میں خوش بھی تھی۔ شعوری طور پر میں خود کو بدل بھی رہی تھی۔ لیکن ملک در ملک کانفرنسوں اور سیمیناروں میں جا کر اور وہاں مغربی ڈاکٹروں اور سرجنوں سے مل کر اور ان سے تفصیلی گفتگو کرنے پر یہ کھلا کہ وہ سب مغربی دنیا کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ وہ مستقل وہاں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ وہاں دولت کی بہتات ہے، تیسری دنیا کے ملکوں کا ذکر آنے پر ن کے چہروں کی چمک ماند پر جاتی ہے اور وہ خاموش رہ کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ انسانیت کی خدمت کرنا اور غریب غربا کا علاج کرنا عہد رفتہ کی کوئی حسین شے تھی۔ تمہاری کاک ٹیل پارٹیوں میں مجھے بہت کم ایسے لوگ ملے جو اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر سانس بھرتے ہوں۔ ورنہ بیشتر کے پاؤں اخلاقی پستی کی طرف جلد ہی پھسل جاتے ہیں اور تب ان کے حریص، مصنوعی، گھناؤنے چہرے واضح ہو جاتے ہیں، رہے تمہارے قریبی اور وفادار دوستوں کے پاس وہی دہرائے ہوئے پٹے پٹائے لطیفے ہیں، فحش مذاق ہیں اور سستی باتیں ہیں۔ بعض کی تو نظر بھی میلی ہے۔ وہ میرے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، جبکہ وہ شادی شدہ ہیں اور بال بچے دار بھی۔میں تمہارے ساتھ پانچ ستارہ ہوٹلوں میں اپنے دل پر پتھر رکھ کر جایا کرتی تھی۔ یقین جانو وہ مقامات مجھے ایک پل نہیں بھاتے۔ جہاں کا ماحول نمائشی ہو، لوگوں کی باتوں میں کھوکھلا پن ہو، جھوٹ ہو۔ ہر کوئی خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے اور منافق ہونے کا احساس دلائے، ان جگہوں کو مجھ جیسی عورت کیونکر پسند کرےگی؟ درحقیقت سچ تمہاری دنیا کے قریب سے نہیں گزرا اور میں سچ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ تم کو تمہاری دنیا مبارک ہو۔ تمہارے یار دوست اور تمہارا زیر تعمیر اسپتال بھی مبارک ہو۔
مجھے میری دنیا بلا رہی ہے۔ چونکہ میں خود تم کو چھوڑ کر جا رہی ہوں، میں تم سے روپے پیسے کی کوئی امید نہیں رکھتی۔ یوں بھی میرے والدین میرے واسطے اتنا کچھ چھوڑ کر رخصت ہوئے ہیں کہ وہ اگلے جنم میں بھی شاید ہی ختم ہو۔ آخر میں یہ لکھنا بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ کل رات جو گھٹیا، ذلیل اور گھناؤنی حرکت تم نے کی ہے وہ بھلائے نہیں بھولےگی۔ انجکشن لیتے وقت تمہیں ذرا بھی خیال نہیں آیا اور نہ تم نے سوچا کہ تارا تمہاری بیوی ہے؟ کوئی بازاری عورت نہیں؟ HELL WITH YOU تارا سال کی آخری شام ٹرافلگار اسکوائر اور اس کے گرد پھیلی ہوئی سڑکوں پر لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو رہے تھے۔ کھوے سے کھو اچھل رہا تھا۔ سفید، پیلے، سانولے اور سیاہ فام لوگ ہر سو موجود تھے۔ سب کو انتظار تھا کہ کب سال رواں اپنا آخری لمحہ سال نو میں ضم کرکے نیا باب شروع کرتا ہے۔ تارا میری کمر میں بازو ڈالے مجھے گرفتار کئے کھڑی تھی۔ اندھیرا گاڑھا تھا۔ فضا یخ تھی اور ہوا سرد، لیکن چاروں طرف نگاہ دوڑانے پر بھی مجھے وہاں کوئی شخص ایسا دکھائی نہ دیا جو گرم کپڑوں میں ملبوس نہ ہو۔سردی جب مجھے زیادہ پریشان کرتی تو میں بڑے کوٹ کی جیب سے ہپ فلاسک نکال کر وہسکی کے دو تین گھونٹ بھر لیتا اور پھر اسے تارا کی طرف بڑھا دیتا۔ وہ ایک آدھ گھونٹ بھرکر جھر جھری لیتی اور پھر اس کی نگاہیں بگ بین (Big Ben) کے گھڑیال کی طرف اٹھ جاتیں، جو ہم سے زیادہ دور نہ تھا۔ ہم نیشنل گیلری کی سیڑھیوں پر لوگوں میں دبکے کھڑے تھے۔ متحرک سوئیوں کا گلے ملنے کا وقت قریب ہی تھا۔ موسیقی جگہ جگہ سے ابھر رہی تھی۔ امڈتی ہوئی خلقت بےچین تھی۔ پھر وہ پل بھی آ گیا جب سوئیاں بارہ کے ہندسے پر پہنچ کر ایک اکائی کی صورت اختیار کر بیٹھیں اور گجر نے نئے سال کی آمد کا اعلان کر ڈالا۔ روشنیاں روشن ہوئیں تو ٹرافلگار اسکوائر کے اردگرد عمارتیں ساؤتھ افریقہ ہاؤس، کینیڈا ہاؤس اور نیشنل گیلری سب جگمگا اٹھے۔ شور وغوغا ایسا بلندہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ آکاش پر چراغاں ہو گیا۔ میں نے جھک کر تارا کے گال پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے اور اسے چوم کر نئے سال کی مبارک باد دی۔ وہ بےانتہا خوش ہوئی اور اسی جوش کے تحت اس نے اچک کر میرے گال پر جوابی حملہ کر ڈالا۔ پھرہم لپٹے لپٹائے عوامی رقص کاحصہ بن گئے۔ لوگ پی پلارہے تھے، لپٹ رہے تھے، رقصاں تھے اور شور مچا رہے تھے۔ دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر عوام کی تعداد رفتہ رفتہ کم ہونا شروع ہوئی تو ہمیں بھی خیال آیا کہ ہمارا بھی کوئی گھر ہے، جہاں پہنچ کر ہمیں دن بھر کی تھکان اتارنی ہے۔ تارا نے اسکوائر پر بھرپور الوداعی نظر ڈالی اور اسے خود میں اتار کر میرا بازو تھامے انڈر گراؤنڈ اسٹیشن کی طرف بڑھ گئی۔ مسافروں سے لدی گاڑی میں، ہم اپنے اسٹیشن پر بمشکل اترے اور قہقہے لگاتے راہگیروں کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہوئے اپنے گھر پہنچ گئے۔ میں نے فلیٹ کا دروازہ کھولا اور تارا کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ داخل ہوئی تو ابھی بلب روشن ہوا ہی تھا کہ تارا نے اپنی بانہیں میرے گلے میں ڈال دیں اور صدق دل سے کہا:
’’بمل، آج میں اتنی خوش ہوں کہ بیان نہیں کر سکتی۔۔۔ اب میں دن بھر کا ہر واقعہ، ہر منظر اپنی کتاب میں لکھ سکتی ہوں۔۔۔ یوں تو میں یہ نظارہ اکیلی بھی کر سکتی تھی۔ لیکن عورت اکیلی ہوتو گدھ اس کے ارد گرد منڈلانے لگتے ہیں‘‘۔
’’آج میں بہت خوش ہوں کہ تم میرے ساتھ تھیں۔ ورنہ میں ایک عرصے سے اکیلا ہی بھٹکتا پھر رہا تھا اوردنیا تاریک سی لگنے لگی تھی‘‘۔
وہ بالکل میرے جسم سے لگ گئی۔
’’آج دن بھر ہم ساتھ رہے ہیں۔ تمہارا احسان تو چکانا ہوگا؟‘‘
اس کی آنکھوں کی تحریر کو پڑھ کر میں نے اگلا پل ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ فوراً ہی اسے اٹھا کر بانہوں میں بھر لیا اور سیدھا بیڈروم کی طرف بڑھ گیا۔
نئے سال کی پہلی شام میں تارا کی فلائیٹ یوگینڈا کے شہر کمپالا کے لیے بک تھی۔ہم دیر سے اٹھے تھے۔ لیکن اس کے باوجود تارانے دوپہر کا کھانا تیار کر لیا تھا۔ مجھے ایک طویل عرصے کے بعد ایک ہندوستانی عورت کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا پچھلے آٹھ دس دنوں سے نصیب ہو رہا تھا اور میں خوش تھا۔ وہ جب سے آئی تھی، اس نے کچن پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہ طرح طرح کے لذیذ کھانے بنا رہی تھی۔ میں جب کبھی کچن میں داخل ہو کر مدد کرنا چاہتا وہ دہلیز پر ہی میرا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی اور کندھے اچکا کر ایک ادائے خاص سے کہتی: ’’ہمارے پرکھوں نے جب ’’دھرم گرنتھ‘‘ لکھے تھے تو گھر کا چولہا اور رسوئی ناری کے نام لکھ چھوڑا تھا، بولو اب کیا کہتے ہو؟‘‘
میں کیا کہہ سکتا تھا۔ خاموش ہو کر اسے دیکھتا رہا، یہ سوچتے ہوئے کہ اس عورت کے ہاں سچ کے ساتھ علم کا خزانہ بھی موجود ہے۔
ہم کھانے کی میز پر بیٹھے مچھلی کے خوش ذائقہ قتلے چکھ رہے تھے۔ اس نے کاڈ مچھلی کو بیسن، انڈوں اور مسالوں میں گھول کر تل لیا تھا۔ پھر کھاتے وقت وہ جس ڈھنگ سے ان قتلوں کے ساتھ انصاف کر رہی تھی، وہ اپنی جگہ کمال تھا۔ میں سمجھ سکتا تھا کہ بنگالن ہونے کے کارن وہ مچھلی کی دلدادہ ہے۔ مجھے اس کی موجودگی اپنے گھر میں نہایت بھلی لگ رہی تھی۔ دل نے چاہا کہ وہ چند دن مزید رک جائے اور ہم اسی طرح کھاتے پیتے، ہنستے کھیلتے ایک دوسرے کو مزید جان کر وقت گزار دیں۔ کچھ دیر میں جب اس کی پلیٹ قریب قریب خالی ہو چکی تھی تو میں نے دھیرے سے کہا، ’’تارا پلیز، آج مت جاؤ، کچھ دن اور رک جاؤ‘‘۔
وہ میرے غیر متوقع سوال پر چونک اٹھی۔
’’اگلے ہفتے چلی جانا‘‘۔
اس بار اس نے مجھے نہایت غور سے دیکھا کہ میرے من میں کیا ہے اور میرے سوال کے پیچھے کون سا جذبہ کارفرما ہے۔ مجھے یقین سا ہو چلا تھا کہ وہ میری التجا کا بھرم رکھے گی مگر اس کا جواب انکار میں تھا۔
’’نہیں، بمل، میرا آج شام میں کمپالا جانا نہایت ضروری ہے۔ کل ڈبیلو ایچ او (WHO) کے چند ذمہ دار نمائندوں سے ملنا ہے۔ وہ مجھے اس ادارے کے کرپٹ آفیسرز اور ویسٹرن کمپنیوں کے متعلق اہم معلومات مہیا کرنے والے ہیں۔ ورنہ کتاب ادھوری رہ جائےگی‘‘۔
’’ہاں، یہ تو ہے‘‘۔ میں چاروناچار پلیٹ پر جھک گیا۔
’’مگر اتنی فکر کیوں کرتے ہو؟ میں ملٹی پل ویزا لے کر آئی ہوں۔ کبھی بھی تمہارے پاس آ سکتی ہوں‘‘۔
’’ہاں ہاں۔ کیوں نہیں‘‘ میں نے سر اٹھائے بغیر کہا۔
’’اب میں ڈاکٹر سے آزاد ہو چکی ہوں لیکن میرے پاؤں کا چکر ابھی ختم نہیں ہوا‘‘۔
یہ کہہ کر وہ ہنس دی۔ پھرا پنا اندرون سنجیدگی سے واضح کیا:
’’اس کم بخت چکر نے مجھے پریشان کر رکھا ہے اور تنگ بھی، جانے یہ کب، کہاں اور کس صورت میں ختم ہوگا؟ مگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو میں اس کے بغیر ادھوری ہی ہوں‘‘۔
تارا مجھے نوے لاکھ باسیوں کے شہر میں اکیلا چھوڑ کر چلی گئی۔ ایک ہی چھت کے نیچے دس روز تک اکٹھے رہتے رہتے میرے ہاں جینے کی بھرپور تمنا جاگ اٹھی تھی۔ خاص طور پر نئے سال کی پہلی رات میں، جب تارا خودسپردگی کے عالم میں پیش پیش تھی اور میں بھی مدت سے عورت کے نرم گرم جسم سے محروم تھا۔ اس نے جسمانی وصال کے دوران میرا کان ہلکا سا کاٹ کر سرگوشی کی تھی:
’’بمل، تم واقعی ذات کے اصلی پنجابی ہو‘‘۔
میں بےساختہ ہنس دیا تھا اور اپنے متحرک بدن کو قدرے روک کر سرگوشی کی تھی:
’’یہ سب تمہاری صحبت کا اثر ہے۔ پھر تمہارے ہاتھوں کے بنے پکوان کھا کھا کر جوانی لوٹ آئی ہے‘‘۔ جسموں کے ساتھ قہقہے بھی مدغم ہو گئے پھر بدن جاگ اٹھے اور قہقہے دب کر رہ گئے۔
میں جانتا تھاکہ تارا کے جانے کے بعد گھر کی برہنہ دیواریں مزید ویران ہو کر مجھے اپنے حلقے میں لینا شروع کر دیں گی۔ مجھے یہ بھی علم تھا کہ اس کی روانگی میری آتما میں دو تین نہیں تو ایک آدھ چھید ضرور کر جائےگی اور وہی ہوا۔ تقریباً ہر شام گھر لوٹنے پر جب میں اس امید پر کمپیوٹر کھولتا کہ تارا نے دنیا کے کسی کونے، کسی خطے کسی شہر سے چھوٹا بڑا، ای میل ضرور بھیجا ہوگا۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ مایوسی بڑھتی جا رہی تھی۔ فون کی جواب دہ ریکارڈنگ مشین بھی خاموش تھی۔ موبائیل کا تو ذکر ہی کیا؟ لیکن وقت جب ہفتوں میں بدل کر آگے بڑھ گیا تودھیرے دھیرے میری ذہنی حالت بھی بدلتی چلی گئی اور میں محسوس کرنے لگا کہ تارا تو ایک گھنی بدلی تھی جو میرے دل و دماغ پر جم کر برسی اور چپکے سے آگے بڑھ گئی۔ لیکن جانے کیوں میرے من کے کسی کونے میں یہ یقین بھی بیٹھ چکا تھا کہ وہ کہیں اٹک کر رہ گئی ہے اور مجھ تک نہ پہنچنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ ایک شام میں اخبار کا کالم ختم کرکے دیر سے گھر پہنچا۔ کمپیوٹر چند دنوں سے بند پڑا تھا۔ مجھے اس کی ضرور ت ہی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن وہسکی پیتے وقت جب نشہ وسعت پیدا کرکے میرے جذبات کو بیدار کرنے لگا تو تارا چپکے سے میرے ذہن میں کنڈلی مار کر آن بیٹھی۔ چند گھونٹ اور پیئے تو تارا نے سرگوشی کی:
’’بمل اٹھو، جا کر کمپیوٹر کھولو۔ تمہارے نام کچھ آیا ہے وہاں‘‘۔
جھٹ سے گلاس کوایک طرف رکھ کر میں اٹھا۔ کمپیوٹر کھول کر ای میل کا ان باکس چیک کیا۔ واقعی تارا وہاں موجود تھی۔ تین روز سے اس کا پیرس سے بھیجا ہوا ای میل میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں حواس باختہ ہو گیا اور اسی عالم میں ای میل کا متن پڑھنا شروع کیا۔ مگر سطریں اور الفاظ گڈمڈ ہو رہے تھے۔ حواس جب درست ہوئے تو نظر اور دماغ نے اپنا کام شروع کیا۔
ڈئیر بمل۔
کمپالا جس مقصد سے آئی تھی۔ وہ دنوں میں ہی پورا ہو گیا تھا۔ ڈبلیو ایچ او کے نمائندے مددگار ثابت ہوئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس ریکٹ کو دنیا کے سامنے لا کر مکار افسروں کو بے نقاب کیا جائے۔ میں پیرس جانے کو تیار بیٹھی تھی کہ سوڈان میں ڈارفور قحط کا قصہ چل نکلا۔ وہاں مدت سے آباد عرب مسلمان مقامی قبیلوں کے مسلمانوں کو صرف قتل ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کی زمینیں، ان کی آبادیاں اور ان کے گھر بھی جلا رہے تھے۔ میں یواین (UN) کے چند ذمہ دار لوگوں کے ساتھ وہاں کیمپ میں مدد کرنے کو چلی گئی۔ لیکن وہاں بھوکی، ننگی، کچلی ہوئی مخلوق کے لیے نہ تو پانی تھا، نہ روٹی، نہ کپڑا اور نہ ہی دوائیں۔ پھٹے پرانے خیموں میں پڑے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں کنبے خاموش آنکھوں اور سلے ہوئے ہونٹوں سے آکاش کو ہر دم دیکھا کرتے۔ لیکن جب گھڑگھڑاتے ہوائی جہاز یا ٹرکوں کی آواز فضا میں ابھرتی تو ہر کوئی کھانے کے پیکٹ اور پانی کی خاطر گرتا پڑتا دوڑتا دکھائی دیتا۔ ان زندگی نکلے عوام کی بھگدڑ اور بھیڑ دیکھ کر بھگوان سے میرا وشواس اٹھ جایا کرتا اور میں پربھو سے پوچھا کرتی کہ اس کی دھرتی پر اس کے پیدا کئے ہوئے بندے دانے دانے کو محتاج کیوں ہیں، کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگ کیوں رہے ہیں؟ لیکن پربھو خاموش رہتے۔ اس سمے تم مجھے بےحساب یاد آتے۔ اس لیے کہ سنسار میں اب صرف تم ہی رہ گئے ہو، جس کی طرف میں بلا سوچے سمجھے دیکھ سکتی ہوں اور تم کو یاد بھی کر سکتی ہوں۔ میں نے دس روز جو تمہارے ساتھ گزارے تھے وہ میرے جون کے انمول دن تھے۔ اس کی اہم وجہ یہ بھی رہی کہ نئے سال کی آخری رات یا پہلے ابھرتے دن میں، جب ہم نے ٹوٹ کر پیار کیا تھا تو تم چاہت بھرے ایک انوکھے موڈ میں تھے اور میری کیفیت بھی بدلی بدلی سی تھی۔ آتماؤں کے ملاپ کے دوران وہ ایک دوجے کو زیادہ سے زیادہ پہچان رہی تھیں۔ آخر میں تم نے مجھ میں وہ بیج چھوڑا تھا کہ اب تم اپنی اولاد کا منہ دیکھے بغیر اپنے پربھو کے پاس نہیں جاؤگے۔ دوسرا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ خوشیاں مناؤ کہ تمہاری جون سپھل ہو گئی ہے۔ تمہاری اولاد اب دنیا میں تمہارا نام چھوڑ کر جائےگی۔ رہا میرے پاؤں کا چکر تو اسے ہمارے بچے کی پیدائش پر ختم ہی سمجھو۔ مجھے اپنے پہلوٹھی کے بچے کے پالن پوشن اور دیکھ بھال میں اپنا پورا جیون تج دینا ہوگا۔ تم کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔میں جلد لندن آکر تمہارے پاس کچھ دن رکوں گی۔ مگر ہمارا وارث ہماری جنم بھومی بھارت میں جنمےگا اور تمہارا وہاں موجود ہونا ضروری ہوگا۔ یہ سب قسمت کا کھیل ہے اور اس پر ہم بندوں کا کوئی اختیار نہیں۔
میں ای میل پڑھتے پڑھتے چھلانگیں لگا رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.