Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چاندنی کے سپرد

انور قمر

چاندنی کے سپرد

انور قمر

MORE BYانور قمر

    چاندنی مرطوب مزاج ہوتی ہے۔ زخم کے حق میں مضر ہوتی ہے۔ اگر کوئی زخمی یا زچہ کسی ایسی جگہ ہو جہاں چاندنی پہنچتی ہو اور مریض کو وہاں سے منتقل نہ کیا جاسکتا ہو تو سات پولے جلاکر ایک آدمی کو گواہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’ہم نے اس زخمی کو تیرے سپرد کیا۔‘‘ دوسرا آدمی کہتا ہے، ’’میں اس بات کا گواہ ہوں۔‘‘

    یہ ایک ٹوٹکا تھا جو کسی زمانے میں مروج تھا۔

    لاچار ہوکر کلوا نے جیب سے رومال نکالا اور ڈھاٹے کی طرح اپنے منھ پر کس کر باندھ دیا۔ سڑاند کا زور کچھ کم ہوا۔ اس سے پہلے وہ بدبو کی دلدل میں ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ اس کی ہر حرکت اسے کیچڑ میں زیادہ دھنسائے جارہی تھی۔ گاؤں کی ٹیکریوں پر اُسے سور فضلہ سونگھتے، چکھتے اور کھاتے یاد آئے۔ اس وقت وہ بھی ان میں سے ایک ہوگیا تھا، جسے بمبئی کے مہالکشمی اسٹیشن سے پونہ تک اس بدجانور کے رول کو ادا کرنا تھا۔

    GOOD-TRAINکے ویگنس شہر کی غلاظت کسی فرٹیلائزر کمپنی کو پہنچانے تیار کھڑے تھے۔ ان میں ایک ویگن کا اضافہ ہونا باقی تھا اور وہ تھا باندرہ سلاٹر ہاؤس سے آنے والاچھوٹے، بڑے اور بدجانوروں کے خون سے بھرا ہوا ڈبہ۔ اسے اپنے وقت کے مطابق اب تک پہنچ جانا چاہیے تھالیکن۔۔۔

    نو بج رہے تھے۔ بمبئی کا سورج شہر ہی کی سی برق رفتار زندگی کے RACE پر کلوا کے سر پر شعاعیں پھینک رہا تھا۔ یہ تیز کرنیں کلوا کے سر پر پڑی سیاہ کیپ کے آر پار تو نہیں پہنچ سکتی تھیں لیکن اسے گرما کر اس کے تیل آلودہ بالوں میں پسینے کی چپچپاہٹ ضرور پیدا کر رہی تھیں اور ساتھ ہی پچھلے تین دنوں کے باسی کچرے میں FERMENATION پیدا کر کے تیزاب بنارہی تھی، جو لوہے کے بنے ویگنس کو کسی OXY ACCETALAINE FLAME کی طرح دھیرے دھیرے چاٹ رہاتھا۔

    رنگ ونور میں نہائے ہوئے اس شہر کی غلاظت بھی انقلاب سے پہلے کے شہر شنگھائی کی سی ہوگئی تھی کہ جب دوسری عالم گیر جنگ میں جہاں اس شہر کا تمام شہری نظام درہم برہم ہوا تھا، وہیں حفظان صحت کا محکمہ بھی متاثر ہوا تھا۔ اس وقت اس شہر میں تقریباً چار روز تک بھنگیوں نے پاخانے کی کنڈیاں، گٹریں اور سڑکیں صاف نہیں کی تھیں۔

    کلوا کے لاشعور میں ڈر پیدا ہوچلا تھا کہ اب وہ اپنی بیوی کے بالوں میں مہکتے ہوئے موگرے کی تعریف نہیں کرسکتا۔ وہ اُن اَدھ کلی کلیوں کی نزاکت اور دلکشی سے متاثر نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ شب اس کی نظریں بیوی کے بازو میں لیٹے لیٹے بار بار چھت پر چپکی اس چھپکلی کی طرف اٹھ جاتی تھیں، جو کیڑے مکوڑے کھا کھا کر سست ہو گئی تھی اور پلکیں تک نہیں جھپکا رہی تھی۔ بیوی کے اپنی طرف متوجہ کرنے پر اس نے کروٹ بدلی تھی اور پھر دیوار کے ایک کونے میں تنے مکڑی کے جالے کو تاکنے لگا تھا۔

    اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، چلتے پھرتے اب وہ گندگی ہی تلاش کرنے لگا تھا۔ گھر آتے جاتے وہ مچھلی مارکیٹ کی طرف سے گزرنے لگا تھا۔ وہ جب بھی کسی بدوضع موٹی کالی کلوٹی عورت کو دیکھ لیتا تو اس کے دل میں اس سے مباشرت کرنے کا جذبہ موجیں مارنے لگتا اور جب اس کے نتھنوں میں کوئی بدبو سرایت کرجاتی تو وہ جان بوجھ کر اس فضا سے نکلنے میں وقت لیتا۔

    باسی کھانے، بدمزہ کھانے، بادی پیدا کردینے والے کھانے اسے پسند آنے لگے تھے۔ اس نے داڑھی چھوڑدی تھی۔ زیر بازو اور زیرناف بال بھی وہ نہیں تراشتا تھا۔ ناک میں دیر تک انگلی کرنا اور کام پر سے لوٹنے کے بعد کینواس کے جوتے اور نائیلون کے موزے سونگھنا اس کا محبوب مشغلہ بن چکاتھا۔

    یعنی اس کچرا گاڑی کی سات سالہ ملازمت نے چست و چالاک، ذہین و صحت مند، نفاست پرست اور سلیقہ مند کلورام کو غبی، سست، کند ذہن، بیمار، بدذوق، کاہل اور کلوا بنادیا تھا۔

    ’’سفر کیسا کٹا مادام؟‘‘

    ’’اوہ، فائن!‘‘

    ’’کسی قسم کی کوئی تکلیف؟‘‘

    انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کوئی معزز شخص آگے بڑھ آیا تھا اور آتے ہی اس نے ان کا ہاتھ مصافحہ کے لیے تھام لیا تھا۔ پلیٹ فارم پر بھیڑ اتنی ہی تھی جتنی کسی جنتا یا کسی پسنجر ٹرین کی آمد کے وقت ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس اسپیشل ٹرین سے صرف ایک ہی مسافر اترا تھا اور جو اس وقت پلیٹ فارم کے اس کونے سے اس کونے تک بچھے سرخ قالین پر چلتا ہوا اسٹیشن کے باہر کھڑے ہوئے موٹروں کے کارواں کی طرف بڑھتا چلا جارہا تھا۔

    ’’تو پھر اس قدر بھیڑ وہاں کیوں جمع تھی؟‘‘

    اس بھیڑ میں بہتیرے اس کے محافظ تھے، جو ذہن اور نظر سے ہر شخص کے وجود کو اس طرح الٹ پلٹ رہے تھے کہ جس طرح کوئی چرم فروش بھیڑ بکریوں کی کھالوں کومحفوظ کرنے کے لیے نمک لگاتے ہوئے الٹتا پلٹتا ہے۔

    ’’اس بھیڑ میں اور کون کون شامل تھا؟‘‘

    ’’بڑے بڑے بزنس مینوں کی تعداد بھی خاصی تھی اور ان پستہ قدوں کے پیش رو تھے، بیوریوکریٹس۔‘‘

    ’’بس۔۔۔ اور کسی قسم کا کوئی شخص؟‘‘

    ’’ہاں، ان میں ویسٹرن ریلوے کا چھوٹا سا عملہ بھی تھا۔ جنرل منیجر، چیف انجینئر، چیف پرسنل آفیسر، چیف سیکوریٹی آفیسر، چیف کنٹرولر، چیف کمرشیل سپرنٹنڈنٹ، چیف اکاؤنٹنٹ اور چیف آپریٹنگ سپریٹنڈنٹ سکھ دیو۔‘‘

    ’’سکھ دیو!‘‘

    ’’ہاں سکھ دیو، جو اس وقت وہاں موجود ہوتے ہوئے بھی غائب تھا اور غائب ہوتے ہوئے بھی موجود تھا۔ وہ اس وقت ماؤنٹ ایورسٹ کی طرف دیکھتے ہوئے مول ہلس کی طرف دیکھ رہا تھا، اور مول ہلس کی طرف دیکھتے ہوئے ماؤنٹ ایورسٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔

    وہ اس ایرکنڈیشنڈ ڈبہ کی طرف دیکھ رہا تھا جس سے وہ ابھی ابھی اتری تھیں۔ بوٹے دار سفید ساری میں ملبوس، کشمیری سیبوں کی طرح تروتازہ، گلاب کے پھولوں کی سی مہکتی، کھینچی کمان کی سی ابروؤں اور غزالی آنکھوں پر سیاہ چشمہ چڑھائے ہوئے۔ اور وہ دیکھ رہا تھا کہ لوہے کے بڑے بڑے ویگنس پر شہر کا کچرا لدا ہے۔ غلاظت اتنی اپھن چکی ہے کہ تعفن گہرے سیاہ بادلوں کی طرح فضا پر محیط ہوچکا ہے۔ چیل، کوے اور گدھ ویگنوں پر منڈلائے چلے جارہے ہیں۔ مچھروں، مکھیوں اور ہزاروں قسم کے حشرات الارض نے ان ویگنوں میں اپنا مسکن بنالیا ہے۔

    بھن بھن کی آواز، کوؤں کی کائیں کائیں، چیلو ں کی چرر اور گدھوں کی دھپ سے ویگنوں پر اترنے کی آواز بھی سکھ دیو کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ سڑے ہوئے پھل، سڑی ہوئی سبزیاں، سڑے ہوئے مردار اور سڑا ہوا شہر کا تمام فضلہ ان ویگنوں پر لدا ہوا تھا اور سکھ دیو سوچ رہاتھا کہ اگر وہ اسپیشل یہاں سے گزری اور وہ تعفن براہ راست اس مہمان ویکتی کے نتھنوں کی راہ پھیپھڑوں میں پہنچا تو کیا ہوگا؟

    سکھ دیو نے جیب سے ایوڈی کولن لگا رومال نکال کر ناک پر لگایا، ڈبہ میں بیٹھے ہوئے تمام مسافروں نے یہی حرکت کی۔ دو ایک نے غیرشعوری طور پر کھڑکیوں پر شیشہ کا چوکھٹا گرادیا۔ وہ بدبو آج تمام لوگوں سے اپنا خرچ وصول کرنا چاہتی تھی۔ وہ جتانا چاہتی تھی کہ میں بدبو ہوں۔ میرا بھی کوئی وجود ہے۔

    سکھ دیو کی گاڑی جب بمبئی سینٹرل اسٹیشن پر تھمی تو وہ بڑی تیزی سے اس فرسٹ کلاس کے ڈبہ سے اترا۔۔۔ غیرشعوری طور پر اس نے اب تک رومال اپنی ناک پر لگائے رکھا تھا۔۔۔ اِدھر اُدھر دیکھ کر جب اسے یقین ہوگیا کہ آنے جانے والے مسافر حسب معمول سانس لے رہے ہیں تو اس نے ڈرتے جھجکتے اپنی ناک پر سے رومال ہٹالیا۔ وہاں کی فضا بدبو سے پاک تھی۔ پھر اس نے زور زور سے ہوا اپنے پچکے ہوئے پھیپھڑوں میں کھینچی، تب کہیں جاکر سکھ دیو کی جان میں جان آئی ورنہ مہالکشمی اسٹیشن سے یہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ ادھ موا ہوچکا تھا۔

    ’’سلام ساب۔‘‘ ریلوے کے کسی ملازم کا سلام سن کر اسے اپنا عہدہ او رمرتبہ یاد آیا۔ اس نے گردن ہلاکر سلام کا جواب تو دیا لیکن وہ شخص بڑی دور جاچکا تھا۔ سکھ دیو کا دماغ دراصل معطل ہوچکا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ صبح کی تروتازہ ہوا میں کی گئی سیر، ایک گلاس گورنمنٹ کالونی کا خالص دودھ، ایک نیم برشت انڈا، دو مکھن لگے ہوئے ٹوسٹ، لانڈری میں بڑی نفاست سے PRESS کیا ہوا سوٹ اور گورے گاؤں اسٹیشن پر ’ٹائمز آف انڈیا‘ پڑھتے ہوئے اپنے جوتوں کو پالش کرانے کا کیف کہاں غائب ہوچکا تھا؟

    پس منظر میں اسٹیل کی پیڑیوں پر دندناتی ٹرینیں دوڑ رہی تھیں۔ اسٹیشن کی اونچی، بہت اونچی چھتیں جو لوہے کی فریموں پر ٹنگی ہوئی تھیں اور اپنے اطراف کا تمام شور یکجا کرکے ایک موٹی اور بے ہنگم گونج کی صورت نیچے پھینک رہی تھیں۔ پلیٹ فارم سے پل اور پل سے آفس کی عمارت تک سکھ دیو ملیریا کے اس مریض کی طرح آیا تھا جس کے کانوں میں مچھر کی گنگناہٹ بس کر رہ گئی تھی۔ بڑی میز کے پیچھے پڑی ایک بڑی سی کرسی پر اپنے آپ کو گرانے کے بعد اس نے انٹرکوم پر سکریٹری کو اپنے کیبن میں طلب کیا۔

    ’’وہ اسپیشل کب آرہی ہے؟‘‘

    ’’ٹین ففٹی (10-50) پر سر۔‘‘

    ’’تمہاری گھڑی میں کیا بجا ہے؟‘‘ سکھ دیو نے اپنی رسٹ واچ پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔

    “IT IS EXACTS FIVE PAST TEN SIR.”

    ’’اوہ۔۔۔ صرف پینتالیس منٹ رہ گئے ہیں!‘‘

    سکھ دیو نے اپنے آفس کی کھڑکی سے باہر نظرڈالی۔

    بیس بیس گز پر تعینات ڈھیلی ڈھالی نیلی وردی والوں کے سیاہ جوتے اور پیٹیوں کے بکلوں سے روشنی کا انعکاس ہو رہا تھا۔ جوق درجوق آتی ہوئی لمبی چوڑی کاروں کے شیشوں نے بھی چکاچوند پھیلا رکھی تھی۔

    ’’اچھا مین لائین کا ڈاؤن ٹریک پندرہ منٹ کے لیے رکوا دو اور اسسٹنٹ آپریٹنگ انچارج سے کہو کہ پانچ منٹ میں ایک TROLEY اس ٹریک پر پہنچادیں۔ میں URGENTLY مہالکشمی تک جانا چاہتا ہوں۔‘‘ سکھ دیو کے سکریٹری کا داہنا ہاتھ غیرشعوری طور پر DICTATION لینے کے انداز میں کانپ رہا تھا۔ اس نے اپنے باس کو اس بیمار موڈ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

    آرڈر اوپر سے آیا تھا، فوراً تعمیل کی گئی۔

    چھٹے منٹ پر سکھ دیو دو لائن مینوں اور ایک ٹرالی آپریٹر کی سنگت میں مہالکشمی کی اور اڑا چلا جارہا تھا۔ جوں جوں ٹرالی کلوا کی گاڑی سے قریب ہوتی گئی، توں توں سکھ دیو سے سکھ دور ہوتا گیا۔ گاڑی کے قریب پہنچ کر اس نے ٹرالی رکوادی اور دوڑتا ہوا تین چار ٹریکوں کو عبور کرکے کلوا کے قریب پہنچا۔

    اس وقت کلوا اپنے ادھ کھلے وین میں لوہے کی سیٹ پر بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ اس نے ایک سوٹ بوٹ پہنے شخص کو ٹرالی سے اترکر جب اپنی طرف آتا دیکھا تو اس کی جان پر آسمان ٹوٹ پڑا۔ سکھ دیو نے دس قدم کے فاصلہ ہی سے پکارا، ’’میں چیف آپریٹنگ سپرنٹنڈنٹ سکھ دیو ہوں۔ گاڑی فوراً لوکل ٹریک نمبر سات سے گرانٹ روڈ کی طرف لے جاؤ۔‘‘

    ’’جی صاحب!‘‘ کلوا نے اپنے گلے میں پھنسے ہوئے لقمے کو ہاتھ پھیر پھیر کر نیچے اتارنا چاہا۔ آلو کے ساگ کے ساتھ پوریاں یا پراٹھے مزہ بھی دیتے ہیں اور حلق سے جلدی اترتے بھی ہیں۔ آلو کے ساتھ کے ساتھ باسی روٹی کا مزہ کلوا ہی کو معلوم لیکن حلق سے اترنے کی تکلیف دہ کیفیت کا اندازہ کون نہیں کرسکتا تھا؟ اس نے یہ سوچ کر کہ بھگوان مندر چھوڑ کر اس کے دوارے چلے آئے ہیں، مکمل طور پر ان کا سواگت کرنا چاہا۔۔۔ ایک پل گنوائے بنا ہی اس نے جھوٹے ہاتھ سے ٹوپی اٹھاکر سر پر رکھی اور دوسرے ہی لمحے پیٹ تک کھلے کوٹ کے بٹن لگانے لگا۔

    ذہنی کیفیت میں یکایک ہلچل مچ اٹھنے کی وجہ سے منھ میں پیدا ہونے والا لعاب رک گیا۔ حلق خشک ہوگیا۔ نوالہ اپنا راستہ چھوڑ کر سانس کی نالی میں داخل ہوگیا۔ کلوا نے جان کنی کے عالم میں اپنے اطراف پانی کی تلاش کی۔ سکھ دیو سے دس قدم کے فاصلہ پر نلکا لگا ہوا تھا۔ اس نے اپنی ابلی ہوئی سرخ آنکھوں سے ایک مرتبہ سکھ دیو کی طرف دیکھا اور پھر نکلکے کی طرف۔ قریب تھا کہ وہ چکراکر لوہے کے BUFFER SPRING پر گر پڑتا، سکھ دیو نے دوڑ کر اسے اپنے پھیلے ہوئے بازوؤں میں تھام لیا، پھر بڑی مشکل سے GUARD’S VAN کے لوہے کے بنے فرش پر کلوا کو لٹا کر سکھ دیو نے اپنے ماتحتوں کو آواز دی۔ اس سے قبل ہی وہ اس کے قریب آچکے تھے۔ سکھ دیو کے کہنے پر ایک ٹفن کے ڈبہ میں پانی لے آیا۔ دوسرے نے کلوا کے سر کو اس کی کیپ سے تکیہ دیا۔

    انہیں لمحوں میں وہ تعفن وہ بدبو، وہ سڑانڈ یک بیک سمٹ گئی۔ سکھ دیو کو ان ویگنوں پر منڈلاتے چیل کوؤں اور گدھوں سے کوئی گھناؤنا پن محسوس نہیں ہوا۔ بھنبھناتی مکھیوں اور مچھروں او ردیگر حشرات الارض سے اسے کوئی کراہیت محسوس نہیں ہوئی۔ وہ تقریباً 15منٹ کلوا کے سرہانے بیٹھا رہا اور اس و قت تک بیٹھا رہا جب تک کہ کلوا کی طبیعت بحال نہ ہوگئی۔

    واپس ہوتے ہوئے اس نے کلوا سے کہا، ’’اب تمہاری طبیعت کیسی ہے؟‘‘

    ’’ٹھیک ہے ساب۔ وہ پانی۔۔۔‘‘ کلوا دردمندی سے مسکرایا۔

    ’’تم اپنا بھوجن ہمیشہ یہیں کرتے ہو؟‘‘

    ’’ہاں صاحب۔‘‘

    دو لمحے رکنے کے بعد کلوا نے جھجکتے ہوئے کہا، ’’شما کردیجیے گا ساب، اس ڈیوٹی پر چڑھنے سے پہلے اتنا سمے نہیں ملتا کہ ناشتہ گھر ہی پر کرسکوں۔‘‘

    سکھ دیو لاکھوں اور کروڑوں جرثوموں کو کلوا کے ہر نوالے کے ساتھ اس کے منھ میں جاتا دیکھ رہا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ کلوا کا پیٹ بھی مال گاڑی کا ایک ویگن بن چکا ہے، جس میں شہر کا بہت سا فضلہ بہت لمبے ہاتھوں نے کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے۔

    ’’کوئی بات نہیں۔‘‘ سکھ دیو نے کلوا کے شانے تھپکتے ہوئے کہا۔

    چار چھ قدم چل کر سکھ دیو مڑا، جیسے اسے کچھ یاد آیا ہو، یا جیسے اس نے ابھی ابھی کوئی اہم فیصلہ کرلیا ہو۔

    ’’سنو! ابھی ابھی میں نے تمہیں جو آرڈر دیا تھا ن۔۔۔ ا۔ اس ٹرین کو لوکل ٹریک نمبر سات پر دور تک لے جانے کا۔‘‘

    ’’جی ساب۔‘‘

    ’’وہ میں وِدڈرا (WITHDRAW) کر رہا ہوں۔‘‘

    ’’جی ساب۔‘‘

    دس بج کر پچاس منٹ ہوچکے ہیں۔ وہ اسپیشل آچکی ہے۔ سکھ دیو ریلوے کے عملے کے ساتھ وہاں موجوود ہوتے ہوئے بھی غائب ہے۔ غائب ہوتے ہوئے بھی موجود ہے۔ وہ اس وقت ماؤنٹ ایورسٹ کی طرف دیکھتے ہوئے مول ہلس (MOLE HILLS) کی طرف دیکھ رہا ہے اور مول ہلس کی طرف دیکھتے ہوئے ماؤنٹ ایورسٹ کی طرف دیکھ رہا ہے۔

    وہ اس ایئرکنڈیشنڈ ڈبے کی طرف دیکھ رہا ہے جس سے وہ اتری ہیں۔ کشمیری سیبوں کی طرح تروتازہ، گلاب کے پھولوں کی سی مہکتی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے