چپراسی کی گواہی
ایک آفس کے دو برابر کے افسروں میں کسی بات پر بحث شروع ہو گئی۔ ابھی چونکہ دس بجے تھے اس لیے زیادہ لو گ نہیں آے تھے۔ ان افسروں کے علاوہ ایک چپراسی بھی پہنچ چکا تھا جو اتفاق سے اسی کمرے کی صفائی کر رہا تھا، جہاں پر افسروں میں بحث چل رہی تھی۔ دونوں کے درمیان بات پہلے آہستہ، پھر تیز اور پھر گالی گلوج کی سرحدوں کو پار کرتے ہوے جب ہاتھا پائی کی منزل تک پہنچی تب چپراسی سے رہانہ گیا۔ اس نے دونوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے بیچ میں آکر معاملہ ر فع دفع کروا تے ہوے ان دونوں کو ان کے کمروں تک پہنچا دیا، جس کی بناء پر فی الحال ہاتا پائی کا اندیشہ تو ختم ہو گیا مگر بات ختم نہیں ہوئی تھی۔ چونکہ دونوں کو اپنے قلم پر بڑا بھروسہ تھا، اس لیے دونوں نے ایک دوسرے کو سبق سکھانے کی غرض سے ’بڑے صاحب‘ کے نام تحریری شکایت کی شکل میں ایک ایک درخواست لکھی۔ دونوں کی درخواست کا مفہوم تقریباً یہی تھا کہ ’’میں نہایت شریف، ایماندار اور بےگناہ ہوں جبکہ دوسرا بدتمیز، رشوتخور اور نامعقول۔‘‘ دونوں نے اپنی درخواست میں چپراسی کا نام بطور گواہ درج کر دیا تھا۔ جب دونوں کی درخواستیں ’بڑے صاحب‘ کی نظروں سے گزری تو وہ بڑبڑایا۔ ’’بات چونکہ تحریر میں آچکی ہے اس لیے ایَکشن تو لینا ہی پڑےگا۔ مفت مارا جائےگا بیچارہ چپراسی۔۔۔‘‘
’’بڑے صاحب‘‘ نے چپراسی کو بلوایا اور اسے تیز نظروں سے گھورتے ہوے تقریباً گھڑک کر سوال کیا۔ ’’سارا قصہ ایک دم سچ سچ بتاؤ۔ دونوں افسر ایک دوسرے کو کیا کہہ رہے تھے اور زیادتی کس کی تھی؟‘‘
چونکہ چپراسی کو اپنے دونوں موجودہ افسروں سے ایسی بچکانہ حرکت کی توقع نہ تھی اس لیے پہلے تو چند لمحہ وہ بےحس و حرکت سر جھکاے کھڑا یہی سوچتا رہا کہ آخر وہ کس کی طرفداری کرے اور کس کی مخالفت۔ اسے تو دونوں کے درمیان رہنا ہے۔ وہ جس کے بھی خلاف بیان دےگا، موقع ملنے پر وہ اپنی دشمنی اس سے ضرور نکالےگا اور جس کی طرفداری کرےگا، وہ اسے بچانے ہرگز نہیں آئےگا۔
’بڑے صاحب‘ نے اسے خاموش دیکھ کر ذرا سخت لہجے میں کہا۔
’’میرے فیصلے میں تمہارا بیان بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دونوں افسروں کے لیے اور۔۔۔تمہارے مستقبل کے لیے بھی، اس لیے جواب بہت سوچ سمجھ کر دینا۔‘‘ اس تاکید کے بعد چپراسی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’سرکار، صبح کا وقت تھا۔ میرے اور دونوں صاحبوں کے علاوہ اس وقت تک کوئی دفتر آیا نہیں تھا۔ میں صفائی کر رہا تھا کہ آفس والے کمرے سے ان لوگوں کی زور زورسے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ میراقصور یہی ہے کہ میں اپنا کام چھوڑ کر وہاں پہنچ گیا اور دیکھا کہ دونوں صاحب لوگ بہت غصہ میں تھے اور زور زور سے باتیں کر رہے تھے میں نے ا ن لوگوں کو سمجھا بجھا کر الگ کرنے کے بعد ان کے کمروں میں پہنچا دیا۔‘‘
’’میں تم سے پوچھ رہا ہوں کہ دونوں ایک دوسرے کو کیا کہہ رہے تھے اور تم ہو کہ کہانی سنانے لگے۔‘‘ بڑے صاحب نے گھڑکا تو چپراسی نے پھر کہا۔
’’میں یہ کیسے بتا سکتا ہوں حضور کہ دونوں صاحب لوگ ایک دوسرے کو کیا کہہ رہے تھے کیوں کہ وہ لوگ تو انگریزی بول رہے تھے اور حضور تو بہتر جانتے ہیں کہ خادم انگریزی سے یکسر نابلد ہے اور۔۔۔! بس سرکار، مجھے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہنا۔‘‘ اتنا کہہ کر چپراسی خاموش ہو گیا۔ ’بڑے صاحب‘ نے اسے تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھا اور مسکراکر واپس جانے کو کہا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.