Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چوکیدار

MORE BYسہیل عظیم آبادی

    رات کو جب گاؤں‘‘ کے سب چھوٹے بڑے چین کی نیند سوتے تو رام لال چوکیدار کندھے پر اپنی پرانی لاٹھی لے کر جھوپڑے سے باہر نکل آتا اور گاؤں کی اندھیری گلیوں میں پھرا کرتا، کہ کہیں کوئی چور تو نہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر پر وہ چلا اٹھتا، ’’جاگ کے سونا۔‘‘ اس کی آواز بڑی ڈروانی تھی، کبھی کبھی رات کو اس کی آواز سن کر بچے ماں سے لپٹ جایا کرتے تھے۔ اس کی آواز سے کسی کی نیند اچٹ جاتی تو اس کو غصہ آتا۔ ہر رات یوں ہی چیختا ہے، نہ چور، نہ چور کا سایہ، خواہ مخواہ نیند خراب کرتا ہے۔

    گاؤں کے کنارے مٹی اور پھوس کا ایک جھوپڑا تھا، یہی رام لال چوکیدار کا گھر تھا، گھر میں آٹھ سال کی ایک یتیم پوتی تھی، اور بس اللہ کا نام۔ بیس سال سے گاؤں میں چوکیداری کرتا تھا، روپیہ مہینہ ملتا تھا، یہی اس کا سب کچھ تھا اور‘‘ اسی میں وہ خوش تھا، پوتی سے اس کو بہت محبت تھی، لیکن جب اس کی گشتی کا وقت آتا تھا تو وہ اس کو جھوپڑی میں اکیلا چھوڑ کر گشت کرنے کے لئے چلا جاتا۔ لڑکی اکیلے ڈرتی تھی لیکن وہ اپنے فرض کو نہ بھولتا تھا، پانی برسے یا طوفان آئے کیا مجال کہ رام لال گشت نہ کرے، کبھی کبھی لوگ اس کو سمجھایا کرتے، کہ رات بھر پھرنے کی کیا ضرورت ہے، ایک دو بار پھر کر دیکھ لو، لیکن رام لال جواب دیتا، مجھے تنخواہ اسی کی ملتی ہے۔ بیس سال کی مدت میں کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ رام لال نے گاؤں میں گشت نہ لگائی ہو۔ کڑاکے کے جاڑے میں بھی وہ بستر کو چھوڑ کر ٹھنڈی ہوا میں ٹھٹھرا کرتا تھا، لیکن اپنے فرض کو کبھی نہ بھولتا۔

    آس پاس کے چوروں کو رام لال کے نام سے نفرت تھی، سب کے سب اس کے دشمن تھے۔ دو تین مرتبہ دو چار نے مل کر اس پر حملہ بھی کیا، لیکن رام لال خود طاقتور تھا، کچھ دیر تک ان کا مقابلہ کرتا رہا، پھر لوگوں کو مدد کے لئے بلایا اور چور اس کو مار بھی نہ سکے، سب اس کے مرنے کی دعائیں مانگا کرتے، لیکن اس گاؤں کی طرف منہ نہ کرتے۔ گاؤں کے زمیندار رام نرائن بابو کے بڑے بیٹےرام چندر بابو ڈپٹی مجسٹریٹ ہوئے، رام لال کو بڑی خوشی ہوئی کہ اس کے زمیندار کے بیٹے ڈپٹی ہو گئے، اب اس کی حالت یہ تھی کہ‘‘ وہ سر اٹھا کر چلتا تھا۔ جب تھانہ میں حاضری دینے کو جاتا تھا تو دوسرے چوکیداروں سے خود کو بڑا سمجھتا۔ کیونکہ اس کے زمیندار کے بیٹے ڈپٹی تھے اور دوسروں کے نہیں۔ وہ نہایت ہی فخر کے ساتھ لوگوں سے کہا کرتا، ’’ڈپٹی صاحب تو میری گود میں کھلائے ہوئے ہیں، اب میں دفعدار ضرور ہو جاؤں گا۔‘‘ دوسرے چوکیدار اس کی باتوں کو سنتے اور ایک سانس لے کر رہ جاتے تھے، سب کو یقین تھا کہ رام لال ضرور دفعدار ہو جائےگا۔

    ڈپٹی صاحب درگا پوجا کی چھٹیوں میں گھر آئے، رام لال نے اپنی وردی نکالی اور پہن کر سیدھا ڈیوڑھی پر پہنچا، ڈپٹی صاحب گھر میں تھے، رام لال باہر بیٹھا رہا، اس کی خوشی کا اندازہ کرنا مشکل تھا، اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا، وہ سوچ رہا تھا کہ ڈپٹی صاحب آئیں گے، میں ان کو اس طرح سلام کروں گا، وہ مسکرا کر جواب دیں گے، اور پوچھیں گے، ’’ تو کیسا ہے؟‘‘ میں کہوں گا، ’’سرکار کی کرپا ہے‘‘ ڈپٹی صاحب ہنس دیں گے۔ رام لال اس خیال سے ہی خوش ہوگیا، جیسے اس کو بہت بڑی دولت مل گئی۔ بڑے کی مہربانی کے ساتھ ایک ہنسی ہی غریب کے لئے بہت بڑی دولت ہے۔ رام لال انہی خیالوں‘‘ میں بیٹھا رہا اور گھنٹوں گزر گئے۔

    پٹواری صاحب نے کہا، ’’ارے وہ ابھی تھکے آئے ہیں، سو گئے ہوں گے۔‘‘ رام لال بولا، ’’جب وہ سوکر اٹھیں گے تب ہی میں بھی جاؤں گا، آ گیا ہوں تو بغیر حاضری دیے کیسے جاؤں؟‘‘ پٹواری جی اپنے کاموں میں لگ گئے اور رام لال اپنے خیال میں مست بیٹھا رہا۔ صبح کے وقت آیا تھا، شام ہونے کو آئی تو ڈپٹی صاحب گھر سے باہر آئے۔ رام لال نے جھک کر سلام کیا، ڈپٹی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ ایک معمولی چوکیدار کے سلام کا جواب کیسے دیتے، وہ سمجھے کہ شاید کچھ انعام مانگنے آیا ہے۔ رام لال کھڑا ہی رہا کہ شاید اب وہ کچھ بولیں، لیکن ڈپٹی صاحب نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں اور اپنے چند رشتہ داروں کے ساتھ باتیں کرنے لگے۔ رام لال اس امید میں بیٹھا رہا کہ اب ان کی بات ختم ہوگی اور ڈپٹی صاحب میری طرف دیکھیں گے اور باتیں کریں گے، ڈپٹی صاحب دوسروں سے باتیں کر رہے تھے، لیکن رام لال خوشی میں یہ سمجھ رہا تھا کہ ڈپٹی صاحب اسی سے باتیں کر رہے ہیں۔

    جب ان کے رشتہ دار چلے گئے تو ڈپٹی صاحب اٹھے اور باہر آئے، رام لال نے پھر جھک کر سلام کیا، اب ڈپٹی صاحب کھڑے ہوگئے اور رام لال ان کے ہونٹ کو دیکھنے لگا کہ اب ہلیں، اب ہلیں۔ ڈپٹی صاحب نے بڑے سوکھے طور سے کہا، ’’کیا مانگتا ہے؟‘‘ رام لال کا دل بڑھ گیا اور خوش ہوکر بولا، ’’حضور حاضری دینے آئے تھے۔‘‘ ڈپٹی صاحب بولے، ’’دیکھ لیا، تم زندہ ہے، جاؤ اب۔‘‘

    رام لال سلام کر کے سر جھکائے واپس چلا آیا، اس کو ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے اس کے دل میں چھری بھونک دی ہے، اس کو وہ وقت یاد آ گیا جب رام چندر بابو اس سے کہا کرتے تھے، ’’رام لال طوطا کا بچہ لا دو۔‘‘ اور‘‘ کہتے تھے، ’’جب ہم ڈپٹی ہوں گے تو تم کو اپنا چپراسی بنائیں گے۔‘‘ اس کے آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ اس کے دل میں اس کے سوا اور کوئی آرزو نہ تھی کہ ڈپٹی صاحب اس سے مسکراکر ایک جملہ کہہ دیں۔ لیکن وہ یہ سمجھا کہ اس میں میری ہی کوئی خطا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے شکایت کر دی ہے کہ رام لال گشت نہیں کرتا، اسی وجہ سے ڈپٹی صاحب خفا ہو گئے۔

    رات ہوئی۔ سب لوگ سو گئے۔ رام لال اپنے گھر سے لاٹھی لے کر نکلااور گشت لگانے چلا گیا۔ اس کی اکلوتی پوتی کی طبعیت خراب تھی، رام لال دن بھر غائب رہا۔ وہ بھوک سے روتی رہی تھی، مگر رام لال کو اس کی بیماری کا خیال نہ ہوا، گھر سے نکل پڑا، گاؤں میں پہنچ کر ایک بار کڑک کر اس نے زور سے آواز دی، ’’جاگ کے سونا‘‘ اور آگے بڑھ گیا،، تھوڑی دور جا کر پھر آواز دی اور آگے بڑھ گیا، اسی طرح آواز دیتا، گاؤں کا گشت لگا کر واپس آیا۔ ایک گھنٹہ بعد پھر نکل کھڑا ہوا اور سارے گاؤں کا چکر کاٹ کر واپس آیا اور اسی طرح رات بھر چکر لگاتا رہا، وہ سمجھ رہا تھا کہ اب ڈپٹی صاحب ضرور خوش ہو جائیں گے۔ اگر کسی نے شکایت کردی ہوگی تو ان کا غصہ ختم ہو جائے گا،، اسی طرح کے دل خوش کرنے والے خیالوں میں مگن ہو کر سو رہا۔

    صبح ہوئی، اٹھا، منہ دھوکر بیٹھا ہی تھا کہ زمیندار کا پیادہ آیا اور بولا، ’’تمہیں ڈپٹی صاحب بلاتے ہیں۔‘‘ رام لال خوش ہوکر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کو بڑی خوشی تھی کہ آخر ڈپٹی صاحب نے بلایا۔ رات کو پہرہ دیا ہے اس سے وہ خوش ہو گئے، ضرور کسی نے شکایت کی تھی، اسی لئے رنج تھے، رام لال جھوپڑی کے اندر گیا اور اپنی پھٹی ہوئی پگڑی سر میں لپیٹ لی، ہاتھ میں لاٹھی لے کر پیادہ کے ساتھ چل پڑا۔ زمیندار کے بنگلہ پر آیا تو ڈپٹی صاحب سامنے ہی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے، رام لال نے باری باری سب کو جھک کر سلام کیا، ڈپٹی صاحب نے دیکھتے ہی گرج کر کہا، ’’تم بوڑھا ہو گیا مگر بالکل گدھا ہے۔ رات بھر کاہے کو چلاتا پھرتا ہے، کوئی ڈاکہ والا تھوڑا ہی بیٹھا ہے۔‘‘

    رام لال بولا، ’’سرکار ہم تو روز پہرہ دیتے ہیں۔‘‘ ڈپٹی صاحب نے ڈانٹ کر کہا، ’’ہاں پہرہ دیتا ہے، پاگل کہیں کا، رات کو سونے نہیں دیتا، خبردار جو آج سے آواز سنی، گھر میں سویا کیوں نہیں رہتا؟‘‘ رام لال سر جھکائے گھر چلا گیا، اس کا دل بہت کڑھا ہوا تھا، پھر بھی اپنے کاموں میں لگا رہا، غریب کو کام سے کب چھٹی ہوتی ہے، اس رات رام لال نے گاؤں میں گھومنا بند کر دیا، کسی نے اس کی آواز نہ سنی۔

    ہونے والی بات، دو چار دنوں کے اندر ہی ڈپٹی صاحب کے گھر میں چوری ہو گئی، صبح کو رام لال اٹھا تو اس کو معلوم ہوا، جانے کی ہی فکر میں تھا کہ زمیندار کا پیادہ آیا اور بولا، ’’ڈپٹی صاحب بلا رہے ہیں۔‘‘ رام لال اس کے ساتھ چلا گیا، ڈر رہا تھا، اور غریب ڈرتا کیسے نہیں، جب پہرہ‘‘ دیتا تھا تو بات سننی پڑتی تھی اور اب ڈپٹی کو یہ تھوڑے یاد رہےگا کہ انہیں نے پہرہ دینے کو منع کر دیا تھا، اسی خیال میں الجھا ہوا رام لال بنگلہ پہنچا، ڈپٹی صاحب‘‘ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں، دیکھتے ہی غریب پر جھپٹ پڑے اور جتنی گالیاں دے سکتے تھے دیں، دو چار تھپڑ بھی بوڑھے رام لال کی قسمت میں لکھے تھے مل گئے۔

    تھانیدار آیا، چوری کی رپورٹ لکھائی گئی اور وہ چلا گیا، ڈپٹی صاحب رام لال کی جتنی شکایتیں کر سکتے تھے، ختم کردیں۔ نتیجہ اور تو کچھ نہ نکلا، البتہ رام لال کی نوکری جاتی رہی اور اس کے بعد چوری روز کی بات ہوئی۔ یہ کہانی بہت پرانی ہے، اب نہ رام لال ہے اور نہ ڈپٹی صاحب، مگر اس کہانی کو لوگ اب بھی دہرایا کرتے ہیں۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے