Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چوراہے پر ٹنگا آدمی

انور قمر

چوراہے پر ٹنگا آدمی

انور قمر

MORE BYانور قمر

    اس کے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے تھے اور پیر ٹخنوں سے۔ گلے میں رسی کا پھندا پڑا تھا اور وہ چوراہے پر جھول رہا تھا۔ اس کے جسم پر موجود لباس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی ٹیری کاٹ کی سفید قمیص اور ٹیری وول کی سلیٹی رنگ کی پتلون غیر شکن آلودہ تھی۔ سیاہ جوتے پر پالش بھی خوب چمک رہا تھا۔ نائلون کے ذرا سے نظر آتے موزوں کا لاسٹک بھی کسا ہوا تھا۔ اس لیے موزے اپنی جگہ پرچست بیٹھے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ پہننے اوڑھنے کے معاملے میں بڑامحتاط شخص ہے۔

    اس کے پیچھے کو بندھے داہنے ہاتھ میں اٹیچی لٹک رہی تھی، جو کھل چکی تھی۔ اس میں بنے خانوں میں ایک بال پین اور ایک پین ٹنگا ہوا تھا۔ دوسرے سے ایک ڈائری کااوپری سراجھانک رہاتھا۔

    جب بحیرۂ عرب کی طرف سے ہوا کا کوئی جھونکا آتا تھا تو اس کی پیشانی پر بکھرے بال پیچھے کو اڑنے لگتے۔ کھلی ہوئی اٹیچی میں سے بھی اکا دکا کاغذ اڑ پڑتے اور وہ اس رسی پر ٹنگا ٹنگا اِدھر اُدھر جھول جاتا۔ جھولنے کے عمل کے دوران ہر مرتبہ اس کی سیاہ فریم والی عینک ناک سے ذرا نیچے کھسک آتی اور اب ہر لمحہ کی ٹک پر اس کی ناک سے گر پڑنے والی تھی۔

    چرچ گیٹ اسٹیشن کے حلق سے اگلے ہوئے تمام لوگ اس کے داہنی طرف جمع تھے۔ مرین ڈرائیو کی طرف سے آنے والے اس کے سامنے کی طرف جمع تھے اور اس کی بائیں طرف وہ لوگ جمع تھے جو اِدھر اُدھر کی درمیانی سمتوں سے چلے آئے تھے۔

    یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی بہت بڑا لیڈر، کوئی مہاپرش، کوئی مہاتما یا کوئی پیغمبر ان سے خطاب کرنے والا ہو اور یہ سب کے سب بڑی عقیدت سے اس کا خطبہ سننے چلے آئے ہوں۔

    وہ سب کے سب ایک دوسرے کی صعوبتوں سے واقف تھے۔ ان سبوں کو معلوم تھا کہ انہیں کپڑے کیوں ڈستے ہیں! جوتے کیوں کاٹتے یں! کھانا کیوں بدمزہ لگتا ہے اور پانی کیوں نمکین لگتا ہے!

    دلچسپ بات تو یہ تھی کہ اس میں موجود ہر شخص چوراہے پر جھولتے اس شخص کو اپنی شبیہ سمجھ رہاتھا۔ ہر شخص یہ محسوس کر رہاتھا کہ وہ خود چوراہے پر لٹک رہا ہے۔

    اسٹیشن کے پورٹیکو کے اوپر نصب گھڑی نے دس بجائے۔

    نیلکو(NELCO) کی سکنڈ منٹ اور گھنٹہ میں وقت بتاتی گھڑی نے دس بجائے۔

    یونیورسٹی ٹاور کے کلاک نے دس بجائے اور تمام لوگوں کی رسٹ واچوں نے دس بجائے۔ لیکن آج جو دس بجے تھے وہ کل کے سے نہیں تھے اور ممکن ہے کہ آئندہ کل کے سے بھی نہ ہوں۔ کیوں کہ ان تمام لوگوں کو اس وقت اپنی اپنی آفسوں میں اپنے اپنے ٹیبلوں کے پیچھے اپنی اپنی کرسیوں پر موجود ہوناتھا لیکن یہ سب کے سب آج اس چوراہے پر ٹنگے اس آدمی کے گرد جمع تھے۔

    سب کے سب خاموش! سب کے سب موشن لیس (MOTION LESS) غیر متحرک! ان کی تو آنکھیں بھی مجسموں کی آنکھوں کی طرح پتھرائی ہوئی تھیں۔ اور دل! وہ بھی دھڑکنا بھول گیا تھا۔

    ’’کچھ کہو۔۔۔ کچھ کہو۔۔۔‘‘ وہ سب کے سب یک زبان ہوکر بولے۔

    ’’میں کیا کہوں؟ میں کیا کہوں۔۔۔؟ میرے گلے میں پھندا پڑا ہے۔ ہاتھ پشت پر بندھے ہیں! اور پیر حرکت کرنے سے معذور! میں تو اشاروں سے بھی بات نہیں کرسکتا اور نہ یہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوسکتا ہوں۔‘‘

    ’’تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘ ان سبوں نے اس چوراہے پر لٹکے آدمی سے پوچھا۔

    ’’تم ہی بتاؤ۔۔۔ تم سب کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘ اس نے وہی سوال ان سے کردیا۔

    ’’ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔۔۔؟ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ سب ایک دوسرے سے دریافت کرنے لگے۔

    چوراہے پر ٹنگے آدمی نے قہقہہ لگایا، ’’۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا، جب تمہیں خود ہی نہیں معلوم۔۔۔ اور تم سبوں کو نہیں معلوم کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو، تو یہ سوال تم نے مجھ سے کیوں کیا؟ اپنے آپ ہی سے پہلے پوچھ لیتے۔۔۔!‘‘

    ’’تم مہان ہو!‘‘ وہ سب بولے۔

    ’’اس لیے کہ چوراہے پر لٹک رہاہوں؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ تم وہاں کھڑے ہو جہاں سے ہم سب نظر آرہے ہیں۔۔۔ اور ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں سے ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے۔‘‘

    ’’ہر بلندی سے نیچے کی چیز نظر نہیں آتی۔ اونچائی اتنی ہی ہو کہ جہاں سے سب کچھ نظر آسکے۔‘‘

    ’’تو کیا تم بہت اونچائی پر لٹک رہے ہو؟‘‘ ان سبوں نے کہا۔

    ’’ہاں۔۔۔!‘‘

    ’’کیا تمہیں ہم نظر نہیں آرہے ہیں؟‘‘

    ’’مجھے تمہارے سروں کاکالا سمندر نظر آرہا ہے۔۔۔ اور کچھ نہیں!‘‘

    ’’تو کیا تم کچھ نیچے نہیں آسکتے؟‘‘

    چوراہے پر ٹنگے اس آدمی نے پھر قہقہہ لگایا۔

    ’’ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا، تم جانتے ہوکہ میرے گلے میں پھندا پڑا ہے۔ میرے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے ہیں۔ میرے پیر بھی حرکت کرنے سے معذور ہیں۔۔۔ تم ہی بتاؤ کہ میں اپنی جگہ سے کیسے جنبش کروں۔۔۔؟ البتہ تم چاہو تو مجھے نیچے اتار سکتے ہو۔ تم چاہو تو مجھے کم بلندی پر ٹانگ سکتے ہو۔ اور تم چاہو تو مجھے اور زیادہ بلندی پر بھی اٹھاسکتے ہو!‘‘

    ’’ہم تمہیں نیچے اتارنا چاہتے ہیں۔‘‘ ان سبوں نے کہا۔

    ’’میں تیار ہوں۔‘‘

    ’’ہم تمہیں مناسب اونچائی پر ٹانگنا چاہتے ہیں۔‘‘

    ’’مجھے منظور ہے۔‘‘

    ’’ہم تمہیں بہت زیادہ اونچائی پر اٹھادینا چاہتے ہیں۔‘‘

    ’’مجھے یہ بھی منظور ہے۔‘‘ چوراہے پر لٹکے ہوئے آدمی نے کہا۔

    ’’یہ کیا بات ہے کہ تم تینوں حالتوں میں رہنے کو تیار ہو۔‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’اس لیے کہ میں ان تینوں حالتوں میں تم سبوں سے الگ رہوں گا۔ اس لیے خوش رہوں گا۔ بہت زیادہ اونچائی پر بھی۔۔۔ کم اونچائی پر بھی۔۔۔ اور زمین پربھی۔‘‘

    ’’وہ کیسے؟ زمین پر تم ہم سے الگ کیسے رہ سکتے ہو؟‘‘

    چوراہے پر ٹنگے آدمی نے پھر قہقہہ لگایا۔۔۔

    ’’ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا، اب میں کبھی صبح اخبار نہیں پڑھوں گا۔ کبھی چائے نہیں پیوں گا۔۔۔ کبھی بوٹ پالش نہیں کروں گا۔ کبھی داڑھی نہیں بناؤں گا۔۔۔ کبھی ریڈیو نہیں سنوں گا۔۔۔ کبھی کام پر نہیں جاؤں گا۔ کبھی راہ چلتے اشتہار نہیں پڑھوں گا۔۔۔ کبھی کسی کو تھینک یو نہیں کہوں گا۔۔۔ کیوں کہ میں اپنی زندگی کے پہیے کو گھماتے گھماتے بور ہوگیا ہوں۔ بے زار ہوگیا ہوں۔ تھک گیا ہوں۔ وہ پہیا جس محور پر گھوم رہا ہے وہ اپنی جگہ ہی پر قائم ہے۔ جب محور اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا تو پہیا کیوں کر حرکت کرے گا۔۔۔ میں وہیں ہوں جہاں تھا۔ اور اگر محور اب بھی نہ بدلوں تو سالہا سال تک وہیں رہوں گا۔ اس لیے اب محور ہی کوئی اور ہوگا۔ نیا۔۔۔ انوکھا۔۔۔ اچھوتا۔۔۔!‘‘

    دو آدمی دائیں طرف کے درخت پر چڑھ گئے اور دوبائیں طرف کے درخت پر! آناً فاناً انہوں نے رسے کی گرہیں کھولیں اور بڑی آہستگی سے رسہ چھوڑتے ہوئے اس آدمی کو نیچے اتارا۔۔۔

    اس آدمی نے زمین پر قدم رکھتے ہی بڑی اجنبیت سے اس جم غفیر کو دیکھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ان تمام کا اس سے جو اجنبی رشتہ قائم ہوا تھا۔۔۔ وہ اس کی اجنبی نظروں نے توڑ دیا تھا۔ اس کے باوجود وہ اس کی طرف بڑی گرم جوشی سے بڑھے تاکہ اسے گلے لگالیں، اور پوچھیں کہ اب اس کا نیا محور کون سا ہوگا؟ کیوں کہ وہ سب کے سب اپنی زندگی کے پہیے کو ایک ہی غیر متحرک محور پرگھماتے گھماتے بور ہوگئے تھے، بے زار ہوگئے تھے۔۔۔ تھک گئے تھے۔۔۔ اور اس نے وہ جو تازگی، فرحت اور کشادگی کی بات کہی تھی، انہیں بہت پسند آئی تھی۔

    اس نے سب سے پہلے تو اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ اس کے بیگ کے تمام کاغذات دور دور تک بکھرے پڑے تھے۔ اس نے انہیں جمع کیا۔ بیگ میں رکھا اور بیگ بند کردیا۔ جیب سے کنگھی نکالی۔ بال بنائے۔ چشمہ ناک پر درست کیا اور رومال سے منہ صاف کیا۔ پھر آہستہ آہستہ ایک سمت کو چل پڑا۔۔۔ وہ سب کے سب اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔

    وہ ایک بلند و بالاعمارت کے سامنے جاکر رک گیا۔ عمارت کا داخلی دروازہ مقفل تھا۔

    وہ بڑبڑانے لگا، ’’کیا آج چھٹی ہے؟‘‘

    ’’کیا آج میں گھر سے جلدی چلا ہوں؟‘‘

    ’’کیا آج کہیں کوئی ہنگامہ تو نہیں ہوا؟‘‘

    دوسرے روز حسب معمول اس نے اپنے چائے کے پہلے پیالے کے ساتھ اخبار دیکھا اور یہ خبر پڑھ کر ششدر رہ گیا کہ کل فلورا فاؤنٹن کے چوراہے پر ایک شخص نے اپنے گلے میں رسی کا پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔۔۔ جس کی لاش دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہوگئے تھے۔۔۔ اور وہ لوگ اس وقت تک جمع تھے جب تک چوراہے پر ٹنگے اس شخص کی لاش نیچے نہیں اتاری گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے