Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چائے کی پیالی

محمد حسن عسکری

چائے کی پیالی

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    حالانکہ وہ یہ دیکھنا تو چاہتی تھی کہ اس ایک سال کے دوران میں کون کون سی نئی دکانیں کھلی ہیں، کون کون سے پرانے چہرے ابھی تک نظر آتے ہیں، وہ گورا گورا سنار کالڑکااب بھی دکان پر بیٹھا ہوا اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتا رہتا ہے یا نہیں، سنگر کے ایجنٹ کے یہاں وہ ننھی سی سینے کی مشین ابھی تک سامنے رکھی ہے یا بِک گئی۔ مگر جب تانگے والے نے شہر سے باہر باہر جانے والی سڑک پر تانگہ موڑا تو اس نے کوئی احتجاج نہ کیا، بلکہ اپنی نگاہیں گھوڑے کی طرف پھیرلیں۔ وہ گزرتے ہوئے مکانوں پر دوسری نظر ڈال کر انہیں اتنی اہمیت ہی کیوں دے! وہ اس زبردست تحریص کا اتنی کامیابی سے مقابلہ کرسکے ھپر خوش تھی، اور خود کو بڑا ہلکا اور سُبک محسوس کر رہی تھی جیسے وہ کسی بڑی آزمائش سے اپنے آپ کو صحیح و سالم نکال لائی ہو۔ اس نے اطمینان کا گہرا سانس لیا، اور سیٹ پر خوب کھل کر بیٹھ گئی۔

    بے شمار دوڑتی ہوئی لکیریں تانگے کے نیچے سے نکلی چلی جارہی تھیں، ہیچ مقدار اور ناچیز، بلکہ مضحکہ خیز لکیریں، اور وہ بلندی پر بیٹھی ان کی سراسیمگی سے لُطف اٹھا رہی تھی۔ اگر وہ بازار کے راستے سے جاتی تو گھوڑا گِن گِن کر قدم رکھتا، اور وہ کسی نہ کسی دکان کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوجاتی۔ اتنی بات تو ضرور تھی کہ دکاندار اسے دیکھ کر چونک سے پڑتے، ان کی نگاہیں دور تک اس کا پیچھا کرتیں، اور وہ سوچتے، ’’افوہ، اب یہ کتنی شاندار ہوگئی ہے، اس کے بال کیسے چمکیلے ہیں، اور کپڑے کتنے عمدہ ہیں!‘‘ مگر ان کے دل میں تجسس اورتحیر کبھی نہ پیدا ہوتا، اور نہ ان کی آنکھوں کی چمک یہ پوچھتی، ’’کون ہے بھئی یہ؟ کہیں باہر سے آئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ اس کے برخلاف ان کاانداز تو سرپر ستانہ ہوتا، اور ان کے خیالات کچھ اس قسم کے ہوتے، ’’بھئی ہماری اس لڑکی نے تو خوب رنگ روپ نکالا ہے! شاباش، شاباش!‘‘ جیسے اس کے رنگ روپ نکالنے میں ان کی کوششوں کو بھی دخل ہو، اور وہ اس سے زیادہ اپنے آپ کو ایسی پر تجمل چیز کے حصول پر مبارک باد دے رہے ہوں۔ ان کی ہلکی زیر لب مسکراہٹ سے معلوم ہوتا کہ وہ یہ پوچھنے والے ہیں، ’’کہو، اچھی تو رہیں، بہت دن میں دکھائی دی ہو۔‘‘ یا پھر جیسے انہیں یہ توقع ہو کہ وہ ان کی طرف شناسانظروں سے دیکھ ہی تو لے گی۔ سڑک کے گڑھے تک یہ پروا نہ کرتے کہ اب وہ یہاں کے ’’مشن گرلز اسکول‘‘ میں نہیں پڑھتی۔ جس پر دھندلے اردو حرفوں میں ’’لڑکیوں کا مدرسہ‘‘ لکھا رہتا ہے، بلکہ ایلی نگر کے ’’کرسچین گرلز انسٹیٹیوٹ‘‘ کی طالب علم ہے۔ اور نہ وہ اس پر خفیف ہوتے کہ وہ جھٹکے دے دے کر اسے ہلائے ڈال رہے ہیں۔ وہ تو بس زمین پر پڑے پڑے گستاخانہ کہتے رہتے، ’’ارے، اب تم سے کیا وہ، تم کوئی غیر تھوڑی ہو۔ مہینوں تم ادھر سے اسکول آتے جاتے گزرتی رہی ہو۔ نہ جانے کتنی بار تمہارے ٹھوکریں لگی ہیں۔ اور ایک دفعہ تو شاید تمہارے پیر میں موچ بھی آگئی تھی۔‘‘ بس بالکل اس بسکٹ بنانے والے کی طرح جو اسے دیکھ کر اپنے کالے ہاتھوں اور چہرے سمیت کھڑا ہوجاتا اور کہتا، ’’اوہ، یہ تو وہی ہے عیسائی کی۔۔۔‘‘ اور دُکانوں کی چھجوں اور پردوں کے سائے تو دونوں طرف سے اسے گھیرلیتے، کھسکتے، رینگتے، گھسٹتے، اس کے پیچھے چلے آتے، اس کے قدموں سے لپٹے جاتے، اس کے جسم سے کہیں نہ کہیں چپک جانے کی کوشش کرتے، بے کسی کے لہجے میں، بھنچے ہوئے گلے سے کہتے، جیسے دم توڑ رہے ہوں، ’’بس ایک لمحہ ٹہرجاؤ۔۔۔ بس ایک نظر۔۔۔ اپنے پرانے سایوں کی طرف۔‘‘ اور ان کی یہ عاجزی اور منت سماجت بیکار نہ جاتی۔ اس کے ڈھیلا پڑتے ہی وہ اس کے دل میں گھس آتے اور سینے میں ٹانگیں پھیلاکر سوجاتے، یہاں تک کہ اس کاسر ڈھلک جاتا، سانس ہلکا بھاری پتھر ہوجاتا، اور اس پر کسل مندی طاری ہوجاتی جس میں بے چینی بھی شامل ہوتی۔ لیکن تانگے والی کی صرف ایک اضطراری حرکت نے اسے ان تمام پسیجی ہوئی، چپچپاتی الجھنوں اور جھنجھٹوں سے بچالیا تھا۔ وہ اب کتنی آزاد اور ہلکی پھلکی تھی، اس کی شخصیت پگھل کر دوسری چیزوں میں نہیں ملی جارہی تھی۔ وہ اپنا آپ تھی، صرف اور محض۔۔۔ مس ڈولی روبنسن۔۔۔ بغیر کسی جمع تفریق کے۔ گلابی فراک، سفید ڈوپٹہ، اور اونچی ایڑی کا کالا جوتا پہنے ہوئے، سفید چکنی پنڈلیاں تانگے پر مضبوطی سے جمی ہوئی، کہنی تکیے پر، سنہرے بندے دونوں طرف جھول جھول کر چمکتے ہوئے، احتیاط سے بنے ہوئے کالے بال، اور پاؤڈر کی خوشبو۔ اگر کوئی اسے ’’ڈولی‘‘ کہہ کر پکارلیتا تو وہ تانگے پر پیرمار کر کہتی، ’’کیا فرمایا جناب نے؟ ڈولی؟ مگر، معاف کیجیے گا، میں تو مس روبنسن ہوں، کرسچین گرلز انسٹیٹوٹ ایلی نگر کی ساتویں کلاس کی طالب علم۔ اور میں موجود تو ہوں آپ کے سامنے۔ دیکھ لیجیے، بھلا میں ڈولی ہوسکتی ہوں؟‘‘ اگر وہ محض مس روبنسن بننا چاہتی تھی تو یہاں بھی کوئی سایہ، کوئی سیڑھی، کوئی دہلیز، کوئی گڑھا ایسا نہ تھا جو خواہ مخواہ ضد کیے چلاجاتا، مگر تھمو تو۔ ہم تو تمہیں مدتوں ڈولی کے نام سے جانتے رہے ہیں۔‘‘ شہر کے باہر باہر جانے والی سڑک کی انفرادیت پسند کوٹھیاں اپنے آپ ہی بڑی خوددار، پرتمکنت اور بے نیاز واقع ہوئی تھیں، وہ باہر کی طرف دیکھتی ہی نہ تھیں۔ اگر وہ اس پر بڑی مہربان ہوتیں تو ذرا سا مسکراکر کہہ دیتیں، ’’اچھا، تو آپ کا نام مس روبنسن ہے! جی، بہت خوب۔‘‘ ان کوٹھیوں کے مطالبہ سے تو وہ یوں آزاد ہوگئی۔ مگر دوپہر کا سورج تو عملی طور سے اس کی مدد کر رہا تھا۔ ایک سخت گیر آقا کی طرح اس نے اپنی نگاہِ گرم سے سارے سایوں کو گھیر گھیر کر سامنے سے بھگا دیا تھا، اور وہ سہم سہم کر دیواروں سے لپٹے جارہے تھے۔ تیز دھوپ نے عمارتوں کوایسی آنچ دی تھی کہ ان کا رنگ ونگ سب اڑ گیا تھا، اور ان کے دل سے خودنمائی کے ولولے نکل چکے تھے۔ اب تو وہ جلی بھنی کھڑی تھیں، جیسے کہہ رہی ہوں، ’’چاہے دیکھو، چاہے نہ دیکھو۔ جہنم میں جاؤ۔‘‘ جہنم میں جاؤ! ان کی چڑچڑاہٹ اور کوسنے بھی کتنے مضحکہ خیز تھے۔ تم روٹھے، ہم چھوٹے! تانگے کے تختے پر اس کے پیر کا دباؤ اسے برابر یاد دلائے جارہا تھا کہ اسے اِن گردوپیش کی چیزوں پر عادی ہونے کا حق حاصل ہے کیونکہ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ وہ مس روبنسن ہے جس کے بازو گول اور گداز ہیں، اور آستینوں سے باہر نکلے ہوئے، اور پھر یہ بھی کچھ کم نہیں کہ وہ ایلی نگر سے آرہی ہے جہاں شیشے کی طرح جھلکتی ہوئی کوٹھیاں ہیں، شاندار اسٹیشن، اور فرح ناک کمپنی باغ۔ اگر وہ یہاں کی عمارتوں کی طرف دیکھ رہی ہے تو اس کے یہ معنی تھوڑے ہیں کہ وہ اس کے لیے جاذب نظر ہیں۔ اب کیا وہ آنکھیں بند کرلے؟ اگر وہ رشک و حسد سے پھنکی جارہی ہو تو خیر کر بھی لے۔

    اب تک تو وہ اپنے آپ کو ہر قسم کے جادو سے بڑی صفائی کے ساتھ بچاتی آئی تھی، مگر جب وہ اڈے کے قریب منڈی میں پہنچی تو اسے اپنی محبوب شخصیت کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔ یہاں کے تربوزوں کے ڈھیروں، اناج کی گاڑیوں، اکوں، گھاس والیوں، بھوری مونچھوں والے کسانوں، گڑ کی جلیبیوں پر بھنکتے ہوئے تتیوں اور لوہے کی دکانوں کی دوسرے شور و غل سے اوپر سنائی دینے والی ٹھناٹھن کے درمیان ’’مس روبنسن‘‘ ایک بے معنی سی بات ہوکر رہ گئی تھی۔ عجیب یا مضحکہ خیز نہیں۔۔۔ محض مہمل اور ناقابل توجہ۔ جیسے مسٹر تربوز یا میڈم گاڑی۔ یہاں تو وہ محض ایک تانگے میں ایک لڑکی تھی یا، رعایتاً، ایک عیسائی لڑکی۔ بس جیسے ایک اکے میں دومرد، چار عورتیں، پانچ بچے، یا گاڑی میں لگا ہوا پہیہ۔ یا ڈھیر میں ایک تربوز۔ ہر چیز کی ہیئت معین تھی، واضح، روشن، قطعی، پوری طرح اپنی لکیروں کے درمیان۔۔۔ نہ کہیں سے رنگ بہا ہوا، نہ کہیں دھندلا۔ ہر چیز کی اپنی فردیت تھی۔۔۔ علیحدہ، ٹھوس، مستقل، جری، اپنی جگہ پر مطمئن، مرنجان مرنج نہ تو وہ دوسروں کی شخصیت کاایک حصہ دبالینا چاہتی تھی، اور نہ گڑگڑاکر التجائیں کرتی تھیں کہ انہیں کوئی اپنے اندر مدغم کرلے۔ بڑا غضب تو یہ تھا کہ وہ عداوت پر بھی آمادہ نہ تھیں۔ ڈھیر میں دبا ہوا تربوز بھی چین سے نیچے پڑا تھا، اور اسے اوپر والے تربوز سے کوئی شکایت نہ تھی۔ اور پھر ان سب نے ایک دوسرے کی فردیت کااحترام کرنے کا کچھ ایسا سمجھوتہ کرلیا تھا، اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ رہنے کی ایسی کوشش کر رہی تھیں کہ یہاں آتے ہی ہر چیز اپنا اختصاص اور ندرت کھودیتی تھی۔۔۔ ایلی نگر کی مس روبنسن بھی۔ مس روبنسن کے لیے بھی اپنی شخصیت کو منوانے کی کوشش کرنافضول اور غیراہم بن گیا تھا۔ نمک کی کان میں آکر نمک بن جانے کے خلاف مدافعت نہیں ہوسکتی تھی۔ ظاہر میں تو وہ یہاں کے بے ڈھنگے پن پر ہنس رہی تھی، مگر مشکل تو یہی تھی کہ وہ اس سب سے بیزار نہیں تھی۔ اس پر تو ایک مطمئن تعطل کی کیفیت طاری تھی۔

    یوں تو منڈی اور اڈے کا تھوڑا سا درمیانی فاصلہ بھی کوئی بہت روح افزا نہ تھا، اپنا یہی ایک آدھ پان اور سوڈا واٹر کی دکان تھی، یا پھر درختوں کے نیچے نائی کے لڑکے اپنے بکسوں سے ٹیک لگائے، ایک دوسرے سے بیٹھے گپ لڑا رہے تھے۔ مگر پھر بھی اسے ایک قسم کی رہائی کااحساس ہو رہاتھا۔ اس کا حسیاتی جمود ختم ہوگیا تھا، اور اب وہ کم سے کم اپنا ردِعمل تو معین کرسکتی تھی۔ اس کا پیر ایک مرتبہ پھر تختے کواسی طرح دبارہا تھا، تکیہ پھر اس کی کہنی کے نیچے واپس آگیا تھااور خود تانگہ بھی پہلے سے اونچا تھا۔ وہ یہ بتاسکتی تھی کہ سامنے والی دکان کے گلاس میں سوڈاواٹر اس کے لیے ناقابل قبول ہے۔ وہ اس علم سے بھی لطف اندوز ہوسکتی تھی کہ نائی کے لڑکے جو اسے کن انکھیوں سے دیکھ رہے تھے اور زور زور سے بولنے لگے تھے، اس کی آنکھوں اور رخساروں کو پھڑکا سکتے ہیں، اس کے ہونٹوں کو مائل بہ تبسم کرسکتے ہیں، مگراس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اتنا بھی نہیں جتنا سنیما کے پردے پر نظر آنے والی ایکٹریس کا، کیونکہ وہاں تو وہ دو آنے دے کر کم سے کم ایکٹریس کے گالوں کے گڑھے پر سسکیاں بھرنے کا حق خر ید لیتے ہیں۔ مگر مس روبنسن اپنے جادو کے اڑن کھٹولے میں ان کی خیالوں تک کی پہنچ سے باہر تھی۔

    لیکن فرحت کی یہ لہریں دیر پا ثابت نہ ہوئیں۔ اڈے پر پہنچتے ہی وہ گھڑگھڑاتے ہوئے اکوں، لاریوں کی قطاروں، موٹر کے ہارن کی آوازوں، اکے والوں کی لڑائیوں اور لاریوں کے ایجنٹوں کی صداؤں کے نرغے میں پھنس گئی۔ یہ بات نہیں کہ ایلی نگر کی مجلا و مصفا اور پرسکون فضا میں رہنے کے بعد یہ شور و غوغا، یہ ہنگامہ رستاخیز، اور یہ گرد کے بادل اسے ناگوار گزر رہے ہوں اور اس نے دو ایک بار ’’فوہ۔۔۔ فوہ!‘‘ کرنے کے بعد منہ پر رومال رکھ لیا ہو۔ یہ چیزیں تو سب جانی پہچانی تھیں، اور اتنی معمولی اور بے ضرر معلوم ہو رہی تھیں جیسے وہ روز یہاں آتی رہی ہو۔ وہ پہلی ہی نظر میں پہچان گئی کہ وہ نیلے رنگ کی لاری جکھیڑے جاتی ہے، اور لال رنگ کی ٹیکم پور، اور وہ ٹوٹی ہوئی چھتری والا اکہ بہت سست چلتا ہے، اور وہ ڈاڑھی والا آدمی چنگی کا منشی ہے۔ کوئی بھی چیز پرعناد نہ تھی۔ بلکہ اگر وہ چاہتی تو گرد وپیش کی ساری چیزیں بڑے فخر و مباہات کے ساتھ اس کا خیرمقدم کرنے کے لیے تیار تھیں۔ مگر، نہ جانے کیوں، وہ مس روبنسن کی شخصیت کو پھیلاکر اس ماحول پر مسلط کردینے کے خیال سے ہی اپنے دل کو بیٹھتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ اور نہ اس سے یہ ہوتا تھا کہ ڈولی بن کر اپنے آپ کو ان چیزوں کی گود میں دیدے۔ وہ تو پہلو بدلے جارہی تھی، سمٹتی تھی، سکڑتی تھی، طرح طرح سے اپنے بازو کوسامنے لاتی تھی جیسے کوئی وارروک رہی ہو۔ کبھی تو یہ چاہتی تھی کہ تانہد چلتا ہی رہے، چلتا ہی جائے، اور کبھی یہ کہ بہت سے اکے سامنے ہوجائیں اور تانگہ رکا کھڑا رہے یہاں تک کہ شام ہوجائے اور وہ بغیر کسی کی نظر پڑے اپنی لاری میں بیٹھ جائے۔ اس کی حالت بس بالکل اس نوخیز لڑکی کی طرح تھی جو اپنی ماں کی نگاہوں سے اپنا پیٹ چھپاتی پھرے، اور اگر کبھی ایسا حادثہ رونما ہوجائے تو گھنٹوں ہونٹ کاٹتی رہے۔ وہ اپنے قصبے کی لاری کو جائے پناہ سمجھ کر اس کی طرف بڑھ بھی رہی تھی، اور اس کے خیال سے جھجک بھی رہی تھی، کیونکہ وہی تو سب سے زیادہ مانوس چیز تھی اور اسی کی تو اسے ذرا ذرا سی تفصیل یاد تھی۔ جب اس کی اپنی لاری کے بجائے کہیں اور کی لاری سامنے آتی تھی تو اسے خوشی ہوتی تھی کہ چلو تھوڑی دیر کو تو اور بلاٹلی۔ مگر جب اس کی لاری کے ایجنٹ نے تانگے کے قریب آکر کہا، ’’کہاں جانا ہے؟ ٹیکم پور؟‘‘ تو اسے ایک گونہ تکلیف ہوئی۔ اس خیال سے کہ وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا جیسے اسے پہچانتا نہ ہو۔ اس نے بڑی گلو گرفتہ آواز سے جواب دیا، ’’ہاں۔۔۔ نہیں۔ سعد آباد۔‘‘

    ’’وہ کھڑی ہے لاری آخر میں۔‘‘ ایجنٹ نے ایک اکے کی طرف جاتے ہوئے کہا، ’’وہ بھورے رنگ کی۔۔۔ بس تیار ہے۔‘‘

    تانگہ رکنے سے پہلے ہی اس نے تانگے والے کو پیسے پکڑا دیے اور جلدی سے نیچے کود پڑی۔ لاری میں دو ایک مسافر اندر کی طرف بیٹھے تھے، اور ڈرائیور کھڑکی سے ٹیک لگائے، اسٹیرنگ وھیل پر پیر رکھے سونے کی کوشش میں سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ پہلے تو ڈولی نے تکلفات کو بالائے طاق کردینا چاہا، مگر ہونٹوں تک آتے آتے اس کے لفظ بدل گئے۔ اس نے مشکوک لہجے میں پوچھا، جیسے اسے ڈرائیور پر اعتماد نہ ہو، ’’کہاں جائے گی یہ لاری؟‘‘

    ’’سعد آباد۔‘‘ ڈرائیور نے سر پھیر کر جواب دیا۔

    حالانکہ ڈرائیور کا رویہ ایسا تلطف آمیز نہ تھا، مگر اس کی آواز سنتے ہی ڈولی کو ایسا معلوم ہواجیسے سرد، سنسناتی ہوئی ہواؤں کے درمیان یکایک ایک کمرے نے آکر اسے چھپا لیا ہو۔ لاری کے انجن کالمس تک اس کے لیے اسم اعظم کی وہ تختی بن گیا تھا جو اسے ہر قسم کے آسیبوں سے محفوظ رکھ سکتی تھی۔ اس نے ڈرائیور کو اور ملائم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’کَے بجے جائے گی لاری؟‘‘

    ’’لاری۔۔۔؟ یہی کوئی ڈھائی تین بجے۔‘‘

    ’’تو کَے بجے۔۔۔؟ ٹھیک۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ بس تین بجے چل پڑے گی لاری۔‘‘

    وہ اپنی کوشش کے نتیجے کے بارے میں متذبذب تھی۔ دو ایک لمحے دیکھنے کے بعد اس نے پوچھا، ’’اور اب کیا بجا ہوگا؟‘‘

    ڈرائیور نے سامنے کے شیشے، کھڑکی، اور تیل کے ڈبوں کو ٹٹولنے کے بعد جواب دیا، ’’کوئی ایک ہوگا۔‘‘

    گو یہ جواب کچھ بہت زیادہ تسلی بخش نہ تھا، مگر ڈولی نے فیصلہ کرتے ہوئے کہا، ’’اچھا تو۔۔۔‘‘

    اب تک ڈرائیور کی غنودگی پر اس کی مردانگی غالب آچکی تھی، اور اسے یہ بھی خیال آگیا تھا کہ آخر پادری صاحب سے سلام دعا ہے ہی۔ اس لیے وہ اٹھ بیٹھا اور کلینر کو دو تین آوازیں دیکر ڈولی کا سامان اوپر رکھ دینے کے لیے کہا۔

    سامان کی طرف سے تو وہ جلد ہی مطمئن ہوگئی، مگر جگہ کامسئلہ ابھی درپیش تھا۔ وہ باہر ہی سے کھڑی کھڑی اندر کاجائزہ لے رہی تھی۔ پیچھے کی طرف ایک بڑھیا تنگ پائنچوں کا پیجامہ پہنے، پیر اوپر رکھے بیٹھی تھی، اور اپنے پوپلے منہ سے پان چبا رہی تھی۔ اس کے سامنے کی سیٹ پر ایک آدمی جو اس کا بیٹامعلوم ہوتا تھا، بیٹھا ایک گٹھڑی کو ٹھیک کر رہا تھا۔ بیچ کے حصے میں رجسٹروں کے ایک ڈھیر کے قریب نکر پہنے ہوئے اور چھوٹی چھوٹی مونچھوں والاایک جوان سا آدمی تھا جو گھبرا گھبراکر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد رومال میں بندھے ہوئے پھلوں کو جو اس کے پاس رکھے تھے اور قریب کھسکا لیتا تھا۔ ڈولی کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ آخر کہاں بیٹھے، اور ادھر دھوپ اب ناقابل برداشت ہوئی جارہی تھی۔ وہ بیچ کا دروازہ کھولنے والی ہی تھی کہ ڈرائیور نے سر اٹھاکر کہا، ’’بیٹھو، اندر بیٹھو۔ بس اب چلے ہے لاری۔‘‘

    گو ’’بیٹھو‘‘ ذرا چونکا دینے والی بات تھی، مگر اس کی آواز سن کر ڈولی کے دل میں یہ امید پیدا ہوگئی کہ آخری فیصلہ ڈرائیور پر چھوڑ دینے سے خود اس کابوجھ تو ہلکا ہوجائے گا۔ اس لیے اس نے ڈرائیور کی طرف بڑھتے ہوئے کہا، ’’ہاں۔۔۔ اچھا۔۔۔ کہاں بیٹھوں؟‘‘

    ’’یہاں آجاؤ، بیچ کی سیٹ پہ۔‘‘ ڈرائیور کو فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی۔

    ’’ہاں۔۔۔ لیکن۔‘‘ ڈولی نے ڈرتے ڈرتے اپیل کی۔ ’’اگر آگے۔۔۔‘‘

    ’’آگے۔۔۔؟ آگے تو جی، آج دروغہ جی جارہے ہیں۔ آگے تو ان کی جگہ ہے۔‘‘

    مگر جب ڈولی اسی طرح کھڑی رہی اور ہلی تک نہیں تو ڈرائیور نے ایک لمبی سی انگڑائی لی، اور کانکھتا ہوا نیچے اتر آیا۔ ’’آگے بیٹھو ہو۔‘‘ اس نے نصیحت آمیز انداز میں کہا، ’’بیٹھ جاؤ۔ ہمیں کیا وہ ہمارے سے چاہے کوئی بیٹھے۔ لیکن دروغہ جی جارہے ہیں آج۔‘‘

    ڈولی نے اندر بیٹھتے ہوئے اس طرح دروازہ بند کیا جیسے وہ اپنے مورچے کے لیے بالکل آخر تک مقاومت کرنے پر تلی ہوئی ہو۔ گو گدّا اتناموٹا نہ تھا کہ سیٹ کی لکڑی کو اسے تکلیف دینے سے روک سکے، مگر وہ حالات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ اس لیے تیل کے ڈبوں کے درمیان جہاں تک ہو سکا اس نے اپنی ٹانگیں پھیلالیں، اور اپنے بدن سے گرمی نکالنے اور سانس ٹھیک کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ کئی منٹ تک رومال سے ہوا کرنے کے بعد اسے اتنا ہوش آیا کہ وہ کسی اور طرف متوجہ ہوسکے۔ جب اس نے یکایک یہ دیکھا کہ لاری میں دونوں طرف آئینے لگے ہوئے ہیں جن میں اس کا چہرہ نظر آرہا ہے، تو اسے بڑی حیرت ہوئی۔ مگر دوسری نگاہ نے حیرت کو کسمساہٹ میں تبدیل کردیا۔ اس کے بال جگہ جگہ سے نکلے ہوئے تھے اور گرد سے بھورے ہوگئے تھے۔ گرمی نے اس کے چہرے کو تمتما دیا تھا، اور وہ گرد آلود ہو رہاتھا۔ خشک پپڑیوں نے اس کے ہونٹوں کی سرخی زائل کردی تھی، اور اس کی آنکھیں میلی اور متوحش تھیں۔ اس نے شرماکر گھبراتے ہوئے رومال سے بالوں کو جھاڑا۔ زور زور سے چہرے کو رگڑا، اور بار بار ہونٹوں پر زبان پھیری یہاں تک کہ وہ دانتوں سے چھل بھی گئے۔ آخر اس نے جھنجھلاکر آئینے کی طرف سے نگاہ پھیرلی، اور باہر کی طرف دیکھنے لگی۔ برابر والی لاری پر مس کجّن کی تصویر لگی ہوئی تھی، ستاروں والی ہری ساڑھی، لمبے لمبے بندے، پتلی سی ناک جس میں کیل چمک رہی تھی، سرخ چہرہ، بڑی بڑی سرمگیں آنکھیں، مگر یہ تصویر تو اسے آئینے کی یاد دلائے دے رہی تھی۔ اس لیے اس کی نگاہیں آگے بڑھ گئیں، اور وہ اپنی آنکھوں کے کونوں کو پلکوں سے بند کرکرکے تصویر کی طرف جانے سے روکنے لگی۔ لاریوں کی قطار کی قطار کھڑی تھی مگر اسے صرف ان کے انجن اور مڈگارڈ نظر آرہے تھے۔ سامنے دو اکے والوں نے ایک کسان کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے، اور اپنے اپنے اکوں کی طرف کھینچ رہے تھے۔ دو ایک خوانچے والے، پانی پلانے والا اور چند کلینر جمع ہوگئے تھے اور آدھے ایک اکّے والے کو شہ دے رہے تھے اور آدھے دوسرے کو۔ اخبار والا نانبائی کی دکان کے سامنے تخت پر کچھ تھکا ہوا سا بیٹھا تھا۔ وہیں برابر میں ایک آدمی بیٹھا سائیکل کی مرمت کر رہا تھا، اور اس کے گرد تین چار لوگ کھڑے جلدی کرنے کا تقاضہ کر رہے تھے۔ اس کے بعد سڑک پر کنکروں کاایک اونچا سا ڈھیر تھا جس پر بالٹی رکھ کر ایک تانگے والا اپنے گھوڑے کو دانہ کھلا رہا تھا۔ سڑک کے پار ایک وسیع و عریض میدان تھا، خشک اور بالکل سفید، دھوپ کی سختی کے باوجود مطمئن اور ساکن، بے نیاز، جیسے کوئی معمر اور جہاں دیدہ روایتی فلسفی۔ ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ میدان سے ہلکے ہلکے غبار کا بادل اٹھتا تھا، اور آہستہ آہستہ اوپر چڑھ جانے کے بعد نڈھال ساہوکر کھیتوں میں کٹے ہوئے گیہوں کے سنہرے انباروں کی طرف اڑتا چلاجاتا تھا۔ کھیتوں سے کچھ دور آگے پیڑوں کی قطار تھی جن میں سے کسی گاؤں کی کچی دیواریں او رچھپر دکھائی دے رہے تھے۔ کبھی کبھی کوئی عورت یا بچہ درختوں سے باہر نکل آتا تھا، اور ایک آدھ منٹ تک نظر آنے کے بعد پھر غائب ہوجاتاتھا۔

    وہ بہت دیر تک مکمل انہماک کے ساتھ سامنے دیکھتی رہی۔ اس نے محسوس کیا تھا کہ اس کاجسم ایک نورانی اور لطیف مادے کی شکل میں تبدیل ہوکر تفکرانہ انداز میں اس میدان کی وسعتوں پر چھاگیا ہے جس کے دونوں کنارے ہوا سے اڑتی ہوئی چادر کی طرح اوپر اٹھے ہوئے ہیں۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا تھا جیسے اس کی روح اپنے جسم کو وہیں چھایا ہوا چھوڑ کر علیحدہ ہوگئی ہو، اور ایک ننھی سی ابابیل کی طرح کبھی تو ڈراؤنے خوابوں کی خوف و ہراس کے ساتھ اور کبھی بہار کی شاموں کے سکون و بہجت کے ساتھ سارے میدان پر چٹ چٹاتی پھر رہی ہو۔ ٹانگیں ملاکر اور بازوؤں کو دونوں طرف پھیلاکر، سر کو کچھ تو اضمحلال اور کچھ جذبہ تسلیم و رضاکی سرشاری سے نیچے ڈھلکائے ہوئے، وہ بگولوں کے ساتھ اوپر چڑھتی چلی گئی تھی جو اسے فضا میں معلق چھوڑ کر نیچے اترجاتے تھے، اور وہاں سے آسمان کی متخیل نیلاہٹیں اسے اپنے اندر کھینچ کر بے حس بنادیتی تھیں۔ وہ ایک آم کے پیڑ سے لگ کر گاؤں کی ایک کچی دیوار کو ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی تھی، اس نے آم کے پتوں کی تروتازہ کردینے والی خوشبو سونگھی تھی، فضا کی طراوت اور خوابناکی اس کے جسم میں اترگئی تھی، اور وہ کچی دیوار اسے اپنی پرانی ہمجولی معلوم ہونے لگی تھی۔

    اسی لیے جب پیچھے دروازہ کھلنے کی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تو اس کی نگاہیں بڑی ہچکچاہٹ کے بعد سامنے سے مڑیں۔ ایک اکّے میں سے دو تین عورتیں، بچے اور کچھ مرد اترے تھے، اور اب ان کا سامان لاری پر رکھا جارہا تھا۔ ڈولی کو پیچھے پھر کر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس دوران میں پچھلے حصے میں چند آدمی اور بیٹھ چکے تھے۔ ان کے قریب ہی نیچے چاٹ والا اپنا خوانچہ لیے بیٹھا تھا جسے دیکھتے ہی بچوں نے پیسہ مانگنا شروع کردیا تھا، اور اپنی ماؤں کو اوپر چڑھنے کی بھی اجازت نہ دے رہے تھے۔ اب کچھ لاریاں قطار میں سے نکل کر تیل لینے کے لیے پٹرول کے پمپ کے پاس جمع ہو رہی تھیں، اور ان کے کلینر زور زور سے آوازیں لگا رہے تھے تاکہ چلتے چلتے بھی جتنے مسافر اور مل سکیں لے لیں۔ لاریوں کے چلنے کی آوازیں سنتے سنتے اور ان کی نقل و حرکت کو غیردلچسپی سے دیکھتے دیکھتے یکایک ڈولی کی نظر ایک مکان پر پڑی جو پٹرول کی دکان کے قریب بن رہا تھا، اور جس کی طرف اس نے ابھی تک خیال کیا ہی نہیں تھا۔ پہلے یہاں خالی زمین پڑی تھی جہاں کتے اپنی کھلاڑیوں سے گرداڑاتے رہتے تھے، اور کبھی کبھار کوئی خوانچے والا سستانے کے لیے آبیٹھتا تھا۔ لیکن اب تو وہاں پا ڑیں لگی ہوئی تھیں اور ایک نیا مکان بناکھڑا تھا، بس چھت پوری ہونے کی کسر تھی۔ مکان کے اندر اندھیرا سا تھا، اور اس کی زمین ابھی تک سیلی ہوئی تھی۔ اس میں کچھ ایسی ہلکی ہلکی، پرکیف اور ذہن کو کند کردینے والی خنکی تھی جو ڈولی کی ٹانگوں اور سینے میں سمائے جارہی تھی، اس کے شانوں کو ڈھیلا اور خون کو سست کیے دے رہی تھی۔ داہنی طرف کچھ خوانچے والے بیٹھے تھے جنہیں دیکھ کر اسے خیال آیا کہ جب وہ گھر پہنچے گی تو اس کا چھوٹا بھائی فریڈی اس کا بستر کریلے گا، اس کاٹرنک کھولنے کو بیتاب پھرے گا یہ دیکھنے کے لیے کہ بوا اس کے واسطے کیا لائی ہیں اور جب وہ کچھ نہ پائے گاتو بہت مایوس ہوگا اور شاید مچلنے بھی لگے۔ لاری کے آٹھ آنے اور سامان اٹھانے والے کے ایک آنے کے بعد بھی اس کے پاس چار آنے بچتے تھے۔ ایک آنہ برنس کو خط لکھنے کے لیے بھی سہی، تین آنے میں کچھ نہ کچھ لیا جاسکتا تھا۔ اس لیے وہ اتر کر پھلوں والے کے پاس گئی، اور ایک منٹ تک اس کے ٹوکرے کو بے خیالی سے دیکھنے کے بعد پوچھا، ’’سنترے کیا حساب دیے ہیں؟‘‘

    امیدوں سے بھرے ہوئے لہجے میں پھلوں والے نے کہا، ’’پانچ پانچ پیسے دے رکھے ہیں میم صاحب۔‘‘

    ’’پانچ پیسے کا ایک؟‘‘

    ’’ہاں، پانچ پانچ پیسے، بڑے میٹھے ہیں، میم صاحب۔ لو چکھ کے دیکھو۔‘‘

    ’’نہیں، نہیں، رہنے دو۔‘‘ اس نے تین آنے کو پانچ پیسے سے تقسیم کرتے ہوئے کہا، ’’تین تین پیسے نہیں؟‘‘

    ’’تین تین پیسے کی تو خرید بھی نہیں ہیں، میم صاحب۔‘‘ پھل والے نے اپنی باطل امیدوں کی اصلیت سے آگاہ ہوکر طنز سے کہا۔ ’’ہو، کیلے لو۔ پانچ پیسے کے دو دیے ہیں۔‘‘

    ڈولی اب بھی اپنی تقسیم کے نتیجے سے مطمئن نہ تھی۔ اس نے آدھی مایوس ہوکر پوچھا، ’’کچھ کم نہیں کروگے؟‘‘

    ’’کم؟ اجی، تمہیں نہیں لینا وینا۔ لاؤکیلا، میں چلوں۔‘‘ اور پھر پھل والے نے ایک گزرتے ہوئے کسان کو پکار کر کہا، ’’لو چودھری، چوس لو، رسیلے ہو رہے ہیں رسیلے۔‘‘

    یکایک اس کے حلق میں ڈاٹ سی اڑگئی، اور سانس لینے کی کوشش میں کنپٹیوں کی رگیں ابھر آئیں، اس کے شانے خودبخود کام کرنے والے مدافعتی آلات کی طرح نیچے جھک گئے اور بازو سخت ہوکر سینے پر آگئے۔ اسے یہ معلوم ہونے لگاکہ جیسے وہ جگہ جہاں وہ کھڑی تھی دفعتاً بلند ہوگئی ہے، اور ساری دنیا کی نظریں اس کی طرف اٹھ گئی ہیں اس کا گلاصاف ہوتے ہی پیر اپنے آپ بسکٹ والے کی طرف مڑگئے، اور اس نے تین آنے پھینکتے ہوئے کہا، ’’بسکٹ۔‘‘

    ’’بسکٹ؟‘‘ یہ محض ایک لفظ بسکٹ والے کے لیے کسی قدر مبہم تھا۔ اس نے پوچھا، ’’ایک آنے درجن والے، کہ تین پیسے درجن والے؟‘‘

    ’’کوئی سے۔‘‘ ڈولی نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔ اس نے بغیر کچھ کہے سنے تین بنڈل ہاتھ میں پکڑ لیے اور تیز قدم اٹھاتی ہوئی اپنی جگہ پر واپس چلی آئی۔ مگر بیٹھنے کے بعد تو اس کادل اس تیزی سے دھڑدھڑ کرنے لگا جیسے اب نکل کے بھاگنے والا ہو۔ ہر کھٹکے کے ساتھ دل تھوڑا سا نیچے کھسکتا معلوم ہوتا تھا۔ اس کی چھاتیاں بڑی، بوجھل اور گرم ہوگئی تھیں، اور ان میں کوئی چیزابل رہی تھی، سنسنا رہی تھی، گول گول چکر لگارہی تھی۔ ماتھے پر اور ناک کے نیچے پسینہ تھا کہ آئے چلا جارہاتھا جسے خشک کرنے کی کوشش میں اس کاسانس بھاری اور دشوار بن کر اس کے دل کی حالت کو اور بے قابو کیے دے رہاتھا۔ وہ جنیس نیچی ہوسکتی تھی ہوگئی، اور ڈوپٹہ سر اور خون سے بھرے ہوئے گالوں پر کھینچ لیا۔ ڈوپٹے کے لمس میں تسکین تھی، دلاساتھا، ہمدردی اور غمگساری تھی، شفقت اور محبت، اور آخری وقت تک اس کا ساتھ دینے اور محافظت کرنے کا وعدہ۔ اس کی کھال سے ڈوپٹہ کیا چھوا تھاآگ پر پانی پڑا تھا۔ اس کاجسمانی اضطراب آہستہ آہستہ مدھم پڑتا گیا، اور چند ہی منٹ میں اس کے خون اور سانس کی رفتار بالکل متوازن ہوگئی۔ مگر وہ ایسی گرانی اور تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی جیسے ایک دن کے بخار کے بعد۔

    تھوڑی ہی دیر بے حرکت رہنے سے سیٹ کاتختہ اس کے چبھنا شروع ہوگیا۔ دو ایک جماہیاں لینے سے بھی اس کی تسکین نہ ہوئی، اس کا جی چاہ رہا تھا کہ لمبی سی انگڑائی لے، یا ٹانگوں کو خوب تان کر پھیلادے۔۔۔ لاری کے فرش کی مخالفت کے باوجود۔ مگر لاری کے لوہے سے زورآزمانا اس کی ٹانگوں کے مان کانہ تھا، اور انگڑائی لینے میں یہ خدشہ تھا کہ اس کا ڈوپٹہ پھسل جاتا، اور بازو اونچے اٹھتے جہاں سب کی نظریں ان پر پڑتیں۔ جب پہلو بدلنے سے کام نہ چلا تو اس نے ڈرائیور کو پکار کر بلایا، اور وقت پوچھا۔

    ’’اب چلے ہے۔‘‘ ڈرائیور نے کہا، ’’گھبراؤ کیوں ہو۔‘‘

    ’’مگر ویسے بجاکیا ہے؟‘‘

    ’’سوا دو بج رہے ہیں اب۔‘‘

    ابھی پورا پون گھنٹہ باقی تھا اور یہاں بیٹھے بیٹھے اس کی رانیں پتھر ہوئی جارہی تھیں۔ پہلے تو وہ مارے کوفت کے اپنی سیٹ کی پشت پر ڈھلک گئی، مگر اسے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ لاری والوں کے قاعدے کرم کے قانون سے کسی طرح کم اٹل نہیں ہیں۔ اس نے کسی المیہ کی ہیروئن کی سی شان کے ساتھ اپنے آپ کو تن بہ تقدیر چھوڑ دیا، اور بسکٹوں کے بنڈلوں سے کھیل کھیل کر اپنا دل بہلانے لگی۔ اس نے سوچا کہ وہ بسکٹوں کو بیٹھک میں چھپادے گی، اور پھر اندر جائے گی۔ فریڈی اسے دیکھتے ہی ’’ڈولی بوا، ڈولی بوا۔‘‘ چیختا دوڑے گا، اور آکر اس کی ٹانگوں سے لپٹ جائے گا۔ وہ پوچھے گا، ’’ڈولی بوا کیا لائی ہو؟ دکھاؤ۔۔۔ انگریزی مٹھائی لائی ہو۔۔۔؟ تم کہہ گئی تھیں!‘‘ جب اسے سارے سامان کی تلاشی لے چکنے کے بعد بھی کچھ نہ ملے گا تو وہ ٹھن ٹھنانے لگے گا۔ وہ اسے چھیڑ چھیڑ کر ہنستی رہے گی، یہاں تک کہ جب وہ بالکل ہی رودے گاتو وہ چپکے سے ایک بنڈل چھپاکر لائے گی اور کہے گی، ’’اچھا، آنکھیں بند کرو، دیکھو، ہم تمیں ایک چیز دیں۔‘‘ فریڈی یقین نہیں کرے گا، اوربڑی دیر کی بحث کے بعد آنھیں ئ بند کرے گا۔ وہ اس کے ہاتھوں میں بسکٹوں کا بنڈل دے دیگی، جسے دیکھ کر فریڈی کاچہرہ مسکراپڑے گا، اور وہ اسے گود میں اٹھاکر خوب پیار کرے گی۔ جب فریڈی بسکٹ کھانے لگے گا تو وہ اس کے ہاتھ سے بسکٹ چھین لے گی، اور کہے گی، ’’ہم جب دیں گے بسکٹ جب تم ہمیں پیار کرو گے۔‘‘ فریڈی اپنے چھوٹے چھوٹے ہونٹ اس کے گال سے لگادے گا جیسے کوئی اوس سے بھیگا ہوا گلاب رکھ دیا۔ اس کے جسم میں رس اترتا چلاجائے گا اور وہ فریڈی کی ٹانگوں کو اپنے پیٹ پر بھینچ لے گی۔ اس کے گال پر فریڈی کا تھوک لگ جائے گا، مگر وہ اسے صاف نہیں کرے گی، بلکہ یوں ہی رہنے دے گی۔ اس طرح یہ تینوں بنڈل کم سے کم ایک ہفتے تو چلیں گے۔ گو اس نے جلدی میں پورے تین آنے پھینک دیے تھے، مگر خیر ٹھیک ہے۔ اب وہ برنس کو لفافہ کے بجائے کارڈ بھیج دے گی۔ چلتے ہوئے برنس نے بڑا پکا وعدہ لیا تھا خط لکھنے کا۔ چونکہ وہ وعدہ کرآئی ہے، اس لیے چھٹیوں بھر اسے خط بھیجتی رہے گی، لفافہ نہ سہی تو کارڈتو ضرور۔۔۔ مگر کارڈ پر لکھا ہی کتناجائے گا؟ بہر حال وہ کوشش کرے گی کہ لفافہ بھیجے۔ کبھی کبھی وہ فریڈی کا پیسہ چھپا لیا کرے گی۔ مشن کے اشتہاروں کی ردی بیچ کر بھی کچھ پیسے جمع ہوسکتے ہیں۔ اور جب پاپا تنخواہ لایا کریں گے تو وہ ایک دو آنے لے لیا کرے گی۔ اسی طرح جب ماما چماریوں کو بایبل سناکر ناج لایا کریں گی تو کسی کسی دن وہ ان سے ناج لے لیا کرے گی، اور پاپا کے پاس پڑھنے والے لڑکوں میں سے کسی کو بازار بھیج کر اس کے پیسے منگوالیا کرے گی۔ وہ کم سے کم پندرہ دن میں ایک دفعہ تو ضرور خط بھیجے گی۔۔۔ کل رات وہ اوربرنس دونوں ڈیڑھ بجے تک ایک چارپائی پر لیٹی باتیں کرتی رہی تھیں یہاں تک کہ ان کے پیر اور آنکھوں کے پپوٹے ٹھنڈک محسوس کرنے لگے تھے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ہوئے تھیں، اور باتوں کے جوش میں بعض اوقات ان کے سینے مل جاتے تھے۔ ان کے تھوک نگلنے کی آواز بار بار ہوا میں گونجتی تھی۔ دونوں کے بازو جل رہے تھے، مگر ان کا مس کتنا راحت بخش تھا، اس کا جی چاہتا تھا کہ یہ بازو بس یوں ہی ملے رہیں، مگر بغیر کسی خاص سبب کے اسے کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کوئی خفیہ کام کر رہی ہے اور ڈر ہے کہ لوگ کہیں دیکھ نہ لیں، اور پھر اس راحت کے احساس کی شدت بھی اس کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اس لیے اسے بار بار بانہیں الگ کرنی پڑتی تھیں۔ اس رخصت کی رات برنس نے اپنے سارے راز جنہیں وہ ہمیشہ چھپاتی رہی تھی، ایک ایک کرکے بتادیے تھے۔ اس نے سنایا تھا کہ ایک دن جب کہ سارا اسکول مل کر سنیما گیا تھا تو ایک لڑکا جو اس کے پیچھے بیٹھا تھا، برابر اس کی طرف دیکھتا رہا تھا۔ برنس نے بھی چند مرتبہ مڑکر اس کی طرف دیکھاتھا، اور اندھیرے میں اس نے ایک پھول برنس کی گود میں پھینک دیاتھا۔ لیکن برنس کی داستانوں میں سب سے زیادہ دلچسپ اس لڑکے کا قصہ تھا جو اسے چھٹیوں میں ملا تھا جب وہ اپنے گھر گئی ہوئی تھی۔ یہ قصہ سنانے سے پہلے اس نے رکتی ہوئی آواز میں کہا، ’’ذرااور قریب کھسک آؤ۔‘‘ برنس نے اپنا بازو مضبوطی سے اس کے گرد ڈال لیا تھا، اور اس کی کمر تھپ تھپاتی جاتی تھی۔ اس کا دل بڑے زور سے دھڑک رہا تھا، اور جسم سے لپٹیں اٹھ رہیں تھیں۔ لڑکے کا نام اس نے دیوی داس بتایا تھا جو اس کے بھائی کے ساتھ پڑھتا تھا، اور بڑا گورا اور خوبصورت تھا، اور ریشمی سوٹ پہن کر آیا کرتا تھا، دیوی داس کی خوش مزاجی نے اس کی مدافعت پر جلد قابو پالیا تھا۔ جب اس کابھائی ادھر ادھر ہوتا تو وہ اسے گود میں بٹھا لیتا تھا، اور خوب بھینچ بھینچ کر پیار کرتا تھا، ’’اور وہ‘‘ برنس نے اپنی ٹھوڑی سے سینے کی طرف اشارہ کرکے لفظ چباتے ہوئے کہا تھا، ’’یہاں ہاتھ رکھے رہنا تھا۔‘‘ قصہ سناتے سناتے برنس نے رک کر تکیئے سے سر اٹھا لیا تھا، اور چند لمحے اس کی طرف دیکھتے رہنے اور آنکھیں جھپکانے کے بعد ملتجیانہ لہجے میں کہا تھا، ’’ڈولی، ہم پیار کرلیں تمہیں؟‘‘ اور اس کی خاموشی کو رضامندی پر محمول کرتے ہوئے اس نے اپنے گرم ہونٹ ایک طویل بوسے کے لیے اس کے گالوں پر رکھ دیے تھے، اس کے بوسے کے نیچے ڈولی کو ایسا اطمینان، بے فکری، اور محفوظ ہونے کا احساس حاصل ہوا تھا جیسے چھوٹے سے کینگرو کواپنی ماں کی تھیلی میں بیٹھ کر۔ قصے کے دوران میں اس نے اپنی ٹانگیں اکڑا اکڑا کر یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ برنس کی ٹانگوں سے دور ہیں، مگر اس کا سینہ ہر سانس کے ساتھ خود بخود آگے کھسکتا چلا جاتا تھا، اس کے روکنے کے باوجود۔ اپنی اپنی چارپائیوں پر لیٹنے کے بعد بھی وہ کتنی دیر تک جاگتی رہی تھیں، اور بار بار چادروں سے منہ اور ہاتھ نکال کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ لیتی تھیں۔ چلنے سے پہلے وہ دونوں ساتھ ساتھ پھرتی رہی تھیں۔ اگر ان میں ذرا سا بھی فاصلہ ہوجاتا تھا تو ایسی کھنچن محسوس ہوتی تھی جیسے ان کے بدن جڑے ہوئے ہوں۔ برنس کی آواز میں کیسی نرمی اور حسرت اور حلق میں گھٹے ہوئے آنسوؤں کی نمی تھی۔ برنس کی جدائی کی وجہ سے وہ آج بہت دیر تک اداس رہی تھی، خصوصاً ریل میں۔ وہ کھڑکی پر کہنی رکھے باہر دیکھتی رہی تھی۔ کھیت، جھاڑیاں، تار کے کھمبے، درخت قریب آنے کے بعد ناچتے ہوئے گھوم کر افق کی طرف نکلے چلے جاتے تھے، گویا وہ اسے ذرا سا دلاسا بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ انہیں دیکھتے دیکھتے اس کے سینے اور گلے میں ایک ہیجان سا پیدا ہوگیا تھا۔ بار بار اس کے سینے کے بیچوں بیچ کوئی چیز ٹھہری ہوئی محسوس ہوتی تھی جو اندر اترتی چلی جاتی تھی۔ اس کا جی چاہا تھا کہ سر کھڑکی پررکھ دے، اور نزع میں پھڑپھڑاتے ہوئے پرندے کی طرح اپنا سینہ دیوار کے ٹھنڈے ٹھنڈے تختے سے لگادے، اور ساری دنیا سے غافل ہوجائے۔ جب وہ لال لال پل آیا تھا تو اسے ذرا ڈھارس بندھی تھی کہ اس نظارے سے اس کی افسردگی دور ہوجائے گی۔ مگر ان دیووں کی سی سرخ ٹانگوں سے جو اسے دریا کے نیلے نیلے، چمکتے ہوئے پانی کو اچھی طرح دیکھنے نہ دیتی تھیں اور اس دَھڑ دَھڑ اور گھڑڑ گھڑڑ سے وہ اتنی بیزار ہوئی تھی کہ اگر جلدی ختم نہ ہوجاتا تو وہ مارے وحشت کے رو دیتی۔۔۔ اسے کچھ پتہ نہیں رہاتھا کہ باقی لڑکیاں کیا کر رہی ہیں، ہاں، کبھی کبھی جولیا کی بیٹھی ہوئی آواز، یا گریس کی چیخیں جسے شاید لڑکیاں ہمیشہ کی طرح تنگ کر رہی تھیں، یا آئرین کا بلند قہقہہ ایک لمحے کے لیے اس کے وجود کے پگھلاؤ کو روک لیتا تھا۔ برنس تو اب تک اپنے گھر بھی پہنچ لی ہوگی، وہ اپنے بھائی بہنوں سے باتوں میں مشغول ہوگی جو اس کے گرد جمع ہو رہے ہوں گے۔۔۔ برنس دھوپ سے سفید پلیٹ فارم پر اتری ہوگی، اور اس کے ہرے جوتوں کی ایڑیاں پتھروں پر کھٹ کھٹ بولی ہوں گی۔۔۔ اس نے قلیوں کو پکار کر اپنا سامان اتارنے کے لیے کہا ہوگا۔ اسٹیشن آنے سے پہلے ہی۔۔۔

    برنس کی گاڑی اسٹیشن کے قریب آہی رہی تھی کہ ڈرائیور نے بھڑ سے دروازہ کھول کر ڈولی کی توجہ اپنی طرف منعطف کرلی۔ لیکن کہیں سر اور ہاتھ ہلانے جلانے کے بعد جاکر وہ یہ سمجھ سکی کہ حالات کا رخ کیا ہے۔ لاری پوری بھر چکی تھی، اور اب ڈرائیور گاڑی چلانے کے لیے ہینڈل نکال رہا تھا۔ پیچھے سے کئی آوازیں آئیں، ’’لو بھئی، چلی تو کسی طرح!‘‘

    ’’کچھ معلوم بھی ہے؟‘‘ ڈرائیور نے کلینر کو ہینڈل دیتے ہوئے کہا، ’’پورے دس منٹ پہلے چھوڑ رہا ہوں۔‘‘

    لاری کاانجن بھربھرانے لگا۔ ننھے ننھے چکر اس کے پیروں میں داخل ہوئے، اور گول گھومتے ہلکی ہلکی چھلانگیں مارتے، اوپر چڑھتے چلے گئے، اور پنڈلیوں، رانوں، پیٹ، چھاتیوں، بغلوں، بازوؤں، کانوں، اور انگلیوں کے پوروں میں پھیل گئے۔ اس نے اپنی پیر سامنے کی لوہے کی چادر پر رکھ دیے تاکہ اس کے پیر اور جھن جھنانے لگیں۔ مگر ایک دفعہ چکروں کا ایک ایسا زبردست ریلا آیا کہ وہ دھکاپیل میں آگے نہ بڑھ سکا، بلکہ پیٹ کے نچلے حصے میں اٹک کر ادھم مچانے لگا، یہاں تک کہ ڈولی نے بجلی کی سرعت سے پیر کھینچ لیے اور اپنے دونوں گھٹنے خوب کس کر ملالیے۔ لاری اسے ہلکے ہلکے جھکولے دیتی آگے بڑھی مگر وہ ابھی رینگ رینگ کر ہی چل رہی تھی کہ پٹرول کے پمپ کے پاس پھر رک گئی۔

    ’’کیوں بھیا۔‘‘ کسی نے پچھلے حصے سے پکارا، ’’کیا اور بٹھاوے ہے؟ یہاں سے پہلے ہی گھٹے جارہے ہیں، مرے یار۔‘‘

    مگر ڈرائیور نے اِسے ناقابل اعتنا سمجھتے ہوئے دروازہ کھولا اور اتر کر پمپ والے سے دو گینھ تیل بھر دینے کے لیے کہا۔۔۔ پمپ کے اجلے صاف شیشے میں نقرئی سیل اٹھلا اٹھلا کر ٹھمک ٹمکا کر اوپر چڑھنے لگا۔ سب سے زیادہ جو چیز ڈولی کو پسند آئی وہ چھوٹے چھوٹے بلبلے تھے جو ابلتے ہوئے شفاف تیل میں شریر پر یوں کی طرح دوڑتے پھر رہے تھے۔ پٹرول کی بو کے باوجود اس نے سر نہیں پھیرا تھا، اور تیل کو چڑھتے اترتے دیکھتی رہی تھی جس سے اس کی طبیعت شگفتہ ہوگئی تھی، اور اس کی ہنسلی کی ہڈیوں میں سرسراہٹ سی ہونے لگی تھی جو اسے مسکرانے پر مجبور کر رہی تھی۔

    لاری گزرتے ہوئے اکوں کو گرد کے بادلوں میں چھپاتی پھر روانہ ہوئی۔ ڈرائیور گاڑی کو ٹھیک رفتار پر لارہا تھا۔ جیسے ہی اس کا ہاتھ کلچ پر پہنچتا تھا، ڈولی سانس کو حلق ہی میں روک کر کسی گمنام اور مبہم توقع کے ساتھ اپنے سینے کو جو اس وقت انتظار، ارتعاش، کیف اور درد کی ملی جلی کیفیتیوں کی شدت سے ایک کھنچاؤ اور اینٹھن محسوس کر رہاتھا، ہوا پر جس کی ہستی اسے ٹھوس اور مرئی معلوم ہو رہی تھی آگے جھکا دیتی تھی، ایسی خودسپردگی اور یقین کے ساتھ جیسے کسی دیوی کے سامنے اپنے آپ کو بھینٹ چڑھا رہی ہو اور جب کلچ کی چیخ ختم ہوتی تھی تو گویا وہ ایک گولی کی شکل اختیار کرکے اس کی ران میں گھس آتی تھی جسے وہ زور لگاکر وہیں کے وہیں روک لیتی اور آگے نہ بڑھنے دیتی تھی، اور ساتھ ہی اپنی پنڈلیوں کے پٹھوں کو ایسی سختی سے اکڑاتی تھی جیسے ان کے ڈھیلے پڑتے ہی اس کی زندگی بھی گل کر بہہ جائے گی۔

    سعد آباد کی سڑک پر مڑنے کے بعد لاری کی رفتار کینڈے پر آگئی، اور اب ڈولی کے اعصاب کو کلچ کے زیر و بم کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ ادھر سے ادھر کھسک کھسک کر اس نے گدے کا ایک حصہ دریافت کرلیا جو نسبتاً نرم تھا اور جہاں سے اس کی ٹانگیں پہلے سے زیادہ پھیل سکتی تھیں۔ دروازے کی طرف کاحصہ مدور تھا، ایسا گول کہ اسکی کمر اس میں بالکل ٹھیک آتی تھی۔ اس نے اپنے جسم کو اس حلقے کی آغوش میں گرادیا، اور کھڑکی کو مضبوطی سے تھام لیا جیسے اسے وہاں سے علیحدہ کردیے جانے کا خوف ہو۔ اگر لوگ دیکھ نہ رہے ہوتے تو شاید وہ اپنا گال بھی دیوار سے لگادیتی۔ ہوا گرم تھی، اور لاری کا دروازہ باہر سے جل رہا تھا، مگر اس کے باوجود اس کااضمحلال کوسوں دور چلا گیا تھا۔ اپنے اعضاکو آرام دینے کی خواہش ہی بجائے خود ایک منفرد اور مستقل کیف بن گئی تھی جس سے ہر ہر بند پورے شعور اور ادراک کے ساتھ لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ہر ہر چیز میں اسے روشنی، تازگی، دلچسپی، ندرت اور گرمیوں کی صبح کا سا تبسم نظر آرہا تھا، جیسے کسی عجیب و غریب سرزمین میں ایک سیاح کو۔ اس آرام کے لمحے میں وہ اپنی آنکھوں کو دور دور دوڑانا نہیں چاہتی تھی، بلکہ اپنی توجہ کو صرف سڑک کے کناروں تک محدود کیے ہوئے تھی اور جب سڑک کا پہلا پتھر تک ایک فوری جادو کے زیر اثر دلفریب بن گیا ہو تو پھر کسی اور عجوبے کی تلاش میں آنکھوں کو سرگرداں کرنے سے کیا فائدہ! دھوپ سے چمکتی ہوئی سڑک سیدھی پھیلی ہوئی تھی، اور ایک ہمیشہ آگے بڑھتے ہوئے نقرئی ستارے پر ختم ہوتی تھی۔ سڑک کے کنارے درخت بھی تھے، مگر تیز دھوپ نے ان کی آدھی شخصیت اپنے اندر جذب کرلی تھی۔ لاری عجب خوداعتمادی اور پندار کے ساتھ بے نیازی سے چلی جارہی تھی۔ اسکی آواز دور سے سنتے ہی بیل گاڑیاں جلدی جلدی بالکل سڑک کے کنارے پر ہوجاتی تھیں، اور شہر سے لوٹتے ہوئے کسان ایسے گھبراتے تھے کہ بجائے الگ ہٹ جانے کے سڑک کے ایک طرف سے دوسری طرف بھاگنے لگتے تھے۔ لاری کی رفتار اور خصوصاً بیل گاڑیوں پر اس کی فوقیت ڈولی کے دل میں رفعت کااحساس پیدا کر رہی تھی، اور اسے کچھ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے مادے کی نجاست میں اس کی آلودگی اوروں کی نسبت کم ہوگئی ہے۔ انجن کی بھن بھناہٹ نے اسے دوسرے مسافروں کی گفتگو اور بحث و مباحثہ کی چیخ چاخ سے محفوظ کردیا تھا۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ اس تھر تھراہٹ نے اس کے گرد ایک اثیری حلقہ بن دیا تھا جہاں، اس کے خیال کے مطابق، اسے کوئی نہ دیکھ سکتا تھا، اور اس لیے پوری آزادی کے ساتھ اس کے نتھنے پھول سکتے تھے، آنکھیں چمک سکتی تھیں، ہونٹ کھل سکتے تھے اور بند ہوسکتے تھے، اور چہرہ جو رنگ چاہے اختیار کرسکتا تھا۔ اپنے اس قلعہ بند گوشے میں سے وہ سڑک کے گزرتے ہوئے نظاروں کی سیر کر رہی تھی۔ وہ کئی ٹیلوں، مزاروں، کنوؤں اور باغوں سے اچھی طرح آشنا تھی، بلکہ بعضے بعضے درخت تک ایسے تھے جنہیں وہ پہچان سکتی تھی۔ رہٹ والے کنویں کو دیکھتے ہی اس نے بتادیا تھا کہ اب اس کے بعد کہجور کے پیڑ والا باغ آئے گا۔ شہر سے دو میل آگے کنجروں کا ایک نگلہ تھا جہاں کچھ مرد اور عورتیں بیٹھے سینکوں کے چھاج اور سر کیاں بنایا کرتے تھے۔ اول تو ڈولی کو اِن لوگوں کے بڑھے ہوئے بالوں اور وحشت ناک حلیوں ہی سے کچھ کم دلچسپی نہ تھی، مگر دو دفعہ اس نے یہاں ایک چھوٹے قد اور دہرے بدن کی عورت دیکھی تھی جس کی بڑی بڑی پر فن آنکھیں ہر وقت چاروں طرف گھومتی رہتی تھیں، اور جس کی غیرمتعدل چھاتیوں کی نظروں کو شرمادینے والی جنبشوں نے اس پر موٹے موٹے حرفوں میں ’’نامناسب‘‘ اور ’’مشتبہ‘‘ لکھ دیا تھا مگر جو اِن ہی اوصاف کے سبب سے قابل توجہ بن گئی تھی۔ ڈولی نے لاری سے سر نکال کر اسے بار باردیکھا تھا، اور آج بھی وہ اسے کم سے کم ایک نظر دیکھنا چاہتی تھی۔ مگر جب لاری وہاں سے گزری تو نگلے کے باہر کوئی بھی نہ تھا۔ صرف تین بچے آپس میں لڑ رہے تھے۔ لیکن ڈولی کو کوئی خاص مایوسی نہ ہوئی، اور وہ پھر سڑک کی نت نئی سیروں کی طرف متوجہ ہوگئی۔۔۔

    مگر صرف ایک چیز تھی جسے وہاں پانے کے لیے وہ پہلے سے تیار نہ تھی، اور جسے وہاں پاکر اسے تعجب ہوا۔ یہ ایک نیا اینٹوں کا بھٹا تھا۔ چاروں طرف پکی ہوئی اینٹوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، ایک بہت اونچی چمنی سے ہلکا ہلکا دھواں نکل رہا تھا، اور چند مزدور ٹوکریاں لیے ہوئے ادھر ادھر پھر رہے تھے، مگر بھٹے کارقبہ اتنا بڑا تھا کہ یہ جگہ پھر بھی بے طرح خالی خالی نظر آرہی تھی۔ ایسے ہی اڈے پر ایک نیا مکان بن رہا تھا جس کی اینٹ اینٹ میں ایسی طمانیت بخش نمی تھی کہ ڈولی کا دل چاہ رہا تھا کہ اینٹوں پر ہاتھ رکھے رہے، سیلی ہوئی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو سونگھے، اور کونے میں کھڑے ہوکر وہاں کے ہلکے ہلکے اندھیرے کو اپنے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہوئے سنے۔ اس مکان کی تری کی یاد اس کے خیال کو جاڑے کی ان شاموں کی طرف لے گئی جب اسکول کے فیلڈ کے ہر طرف سے دھیما دھیما دھواں ہلکے ہلکے اٹھ کر وہاں باقی بچی ہوئی لڑکیوں کو حلقے میں لے لیتا تھا، اور بیرونی دنیا سے ان کا تعلق منقطع ہوجاتا تھا، اور اسکول انسانی آبادی سے کوسوں کے فاصلے پر کوئی یکہ و تنہا اور مسحور خطہ بن جاتا تھا، اور وہاں کی رہنے والیاں مقید شہزادیاں۔ کھلی ہوئی بانہوں اور ٹانگوں پر جاڑے کی ٹھنڈک ایسے آکر لگتی تھی جیسے کسی نے برفیلا ہاتھ رکھ دیا ہو، اور کندھے اور سینے تھرتھرانے لگتے تھے۔ مگر موسم میں کچھ ایسی گم گشتگی اور اپنے آپ کو سپرد کردینے کاتقاضا تھا کہ دوچار لڑکیاں جھوٹ موٹ کھیل میں مشغول باقی رہ ہی جاتی تھیں۔ ا یسے ہی وقت وہ نیلے سوٹ والا لڑکا ادھر سے گزرتا تھا، جب تھوڑی دور سے بھی اچھی طرح شکل پہچاننے میں نہ آتی تھی۔ مگر وہ چہار دیواری سے جتنا ممکن تھا قریب ہوکر چلتا تھا، اور ڈولی کی طرف دیکھتا جاتا تھا۔ تین دن کے اندر ہی ڈولی کو اس کی نظروں کی سمت کے بارے میں کسی شبہ کی گنجائش نہ رہی تھی، اور وہ بھی اس کے انتظار میں چہاردیواری کے قریب سے قریب ٹہرے رہنے اور کم سے کم ایک بار اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دینے پر مجبور ہوگئی تھی۔ نہ معلوم وہ اتنا اکیلا اکیلا کیوں معلوم ہوتا تھا۔ نہ صرف یہ کہ اس کے ہمراہ کبھی کوئی ساتھی نہ دیکھا گیا ہو، بلکہ اس کا چہرہ بھی ہمیشہ کسی سوچ میں ڈوبا رہتا تھا۔ جب ڈولی کی نگاہیں اس سے مل جاتی تھیں تو ان آنکھوں کی پرتفکر اداسی ایک مختصر ترین لمحے کے لیے اس کے دل میں بھی کسک پیدا کردیتی تھی۔ نیلے کوٹ میں سے اس کے گورے گورے ہاتھ باہر نکلے ہوئے کیسے اچھے معلوم ہوتے تھے، اور اس کے چمک دار بالوں اور پرمتانت چال کے تصور نے اس کی کتنی راتوں کو مشغول رکھا تھا۔ وہ گرمیوں میں بھی آتا رہا تھا اور جاڑوں کی دھند ہٹ جانے کے بعد اَب اس کے ہونٹ بھی صاف نظر آنے لگے تھے جن سے اس کے مزاج کی نرمی اور محبت اور اس کے دل کی حسرتناکی ٹپکتی تھی۔ وہ آج بھی یقیناً آئے گا، مگر میدان کو بالکل خالی پاکر بہت مایوس ہوگا۔ وہ کس طرح پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا رہے گا، اور ہر لمحے اس کی مایوسی بڑھتی چلی جائے گی۔ وہ دو تین دن برابر آئے گا، مگر آخر اس کی امید بالکل ٹوٹ جائے گی۔۔۔ اس کے رنج کا خیال خود ڈولی کے دل میں بار بار ٹھونکیں سی مار دیتا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کاش وہ آج ٹہر گئی ہوتی! جب وہ گزر رہا ہوتا تو وہ کسی سے پکار کر کوئی ایسی بات کہتی جس سے یہ ظاہر ہوجاتا کہ وہ چھٹیوں میں گھر جارہی ہے، یا کوئی اور تدبیر اختیار کرتی۔ اس سے کم سے کم یہ تو ہوتا کہ اس کو اتنی شدید مایوسی کا مقابلہ نہ کرنا پڑتا۔۔۔ شاید وہ اسے اپنی کوئی یادگار دیتا۔ مثلاً وہ اپنا رومال چہار دیواری کے اندر پھینک دیتا۔ یہ بھی تو ممکن تھا کہ کوئی دیکھ نہ رہا ہوتا، اور وہ اسے پکار کر کہتی، ’’ذرا سنیے۔۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں کل چھٹیوں میں گھر جارہی ہوں؟‘‘ وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہتی کیونکہ اس کا چہرہ خود اس سے کہیں زیادہ کہہ دیتا۔ وہ چہاردیواری کے پار چلا آتا، اور دونوں کسی چیز پر بیٹھ جاتے۔ سڑک پر ایک راہ گیر بھی نہ چل رہا ہوتا، اور میٹرنیں وغیرہ سب اسکول کے اندر ہوتیں۔ وہ اس کے کندھوں کے گرد بازو ڈال لیتا، اور اسے پیار کرتا۔۔۔ مگر سنیما میں تو اس نے دیکھا تھا کہ گالوں کے بجائے ہونٹوں کا بوسہ لیا جاتا ہے۔۔۔ اس لیے فلم کی ہیروئن کی طرح اس کا چہرہ آہستہ آہستہ اوپر اٹھتا اور سر پیچھے کو جھک جاتا، وہ اس دعوت کو رد نہ کرسکتا، اور اس کی ٹھوڑی اپنے انگوٹھے اور انگلی سے پکڑ کر ایک لمحہ دیکھتے رہنے کے بعد اس کے ہونٹوں پر ہلکے سے اپنے ہونٹ رکھ دیتا۔

    فلمی ہیرو کی طرح اس کے ہونٹ پتلے اور نرم ہوتے۔۔۔ خود ڈولی اپنے جسم کو اس سے جس قدر قریب ممکن تھا لگادیتی اور اپنے گوشت میں اس کے بدن کی گرمی داخل ہوتے ہوئے محسوس کرتی۔۔۔ گرمیاں یکایک جاڑوں میں بدل جاتیں، اور ہر طرف سے دھواں اٹھ کر انہیں دوسروں کی نظروں سے محفوظ کرلیتا۔ گرمیوں کی شام کی واقعیت اور آنکھوں کو تکلیف دینے والی عامیت اور خاکیت کی جگہ جاڑوں کی پراسراری، ابہام اور ماورائیت لے لیتی۔ بتدریج تاریک ہوتے ہوئے لمحوں کی بیدرد گریز پائی وہیں کی وہیں جم کر رہ جاتی۔ وہ ایک دوسرے سے اپنا جسم لگائے ہوئے پیار کی باتیں کرتے رہتے، کرتے رہتے، یہاں تک کہ ان کی یکجائی کا ایک ایک لمحہ ابدیت سے ہمکنار ہوجاتا۔۔۔ بخارات کی طرح دھجی دھجی ہوکر اڑتے ہوئے اندھیرے سے جدوجہد کرنے والے اکیلے ستارے کی روشنی میں وہ کتنے معصوم، آمیزش و آلائش سے پاک، اور مصفا و منزہ معلوم ہونے لگتے، جیسے آدم و حوا عرش بریں کے سائے میں اپنی ملاقات کے پہلے دن۔۔۔ بہجت و مسرت کی اس فراواں منظری کے ساتھ ساتھ ڈولی کے تحت الشعور میں طرح طرح کے تہدید آمیز خدشے اور دغدغے جڑ پکڑ رہے تھے۔ جب وہ اپنے تخیل کی سحر کاری سے اچھی طرح لطف اٹھاچکی، اور کسی بچی بچائی چیز کے کھوج میں ذرا سا رکی، تو وہ فتنے اپنی کمیں گاہ سے باہر نکل آئے۔ یہ خیال اسے بار بار ڈرائے دے رہا تھا کہ اگر کہیں ایسا ہوا کہ چھٹیوں کے بعد وہ اسے نظر نہ آیا تو۔۔۔؟ ممکن ہے وہ اس دوران میں کہیں باہر چلا جائے، یا اتنی دور مکان لے لے کہ وہاں سے آنا مشکل ہوجائے، یا پھر کسی اور کی طرف متوجہ ہوجائے اور وہ نیلا سوٹ کسی اور سڑک پر نظر آیا کرے اور یہ بھی بالکل قرین قیاس ہے کہ اتنے دن تک نہ دیکھنے کے بعد اسے ڈولی پسند نہ رہے، اور وہ ایک غیر دلچسپ چیز کے پھیر میں آنا محض حماقت سمجھنے لگے۔ اور کیا خبر کہ وہ شروع سے ہی ڈولی کو کوئی اہمیت نہ دیتا ہو اور محض تفنن طبع کے لیے اس سے نظربازی کرتا رہا ہو اور اب اس مذاق سے اس کا دل بھر جائے۔۔۔ اگر وہ نہ آیا تو ڈولی کی دنیا کیسی ویران ہوجائے گی۔ کھیل ویل میں اس کا بالکل جی نہ لگے گا، وہ بار بار سڑک کی طرف دیکھے گی، مگر ہر دفعہ اس کی نگاہ کسی خوانچے والے یا کسی بڈھے ٹہلنے والے سے ٹکراکر واپس آجایا کرے گی۔ چند دن تو وہ رات تک ٹہل ٹہل کر انتظار کرے گی، مگر پھر اس کا دل اتنا رنجیدہ اور بیزار ہوجائے گا کہ وہ سب سے پہلے واپس ہوجایا کرے گی۔ وہ جھنجلا جھنجلاکر اپنے ہونٹ چبایا کرے گی اور بولنا بالکل کم کردے گی۔۔۔ اسے چاہیے تھا کہ پہلے سے حفاظتی تدابیر اختیار کرتی تاکہ وہ کم سے کم اسے یاد تو کرلیا کرتا۔ مثلاً وہ دیوار کے اس طرف کوئی چیز گرادیتی، اور اس سے دوستانہ مگر انکسار کے لہجے میں کہتی، ’’مہربانی سے ذرا اسے اٹھا دیجیے۔‘‘ جب وہ اٹھاکر دیتا تو وہ اس کامسکراکر شکریہ ادا کرتی اور وہاں سے ہٹنے سے پہلے چند لمحے ٹھٹکی رہتی، اور کئی دفعہ متشکرانہ اس کی طرف دیکھتی۔ تب تو یقین تھا کہ وہ اس کے دل میں جگہ پالیتی اور وہ چھٹیوں کے بعد بھی آنا نہ چھوڑتا۔۔۔ یا پھر کسی دن ہمت کرکے اور ساری دنیا سے مخالفت پر کمر باندھ کے وہ اسے روک لیتی اور پوچھتی، ’’کیا آپ کو میں اچھی نہیں لگتی؟ کیا آپ کومیرا رنگ پسند نہیں ہے، یا میری شکل میں کوئی خرابی ہے؟ آخر آپ اتنے الگ تھلگ اور بے پروا سے کیوں نکلے چلے جاتے ہیں؟ میں تو آپ کے خیال میں راتوں کو کتنی کتنی دیر تک جاگتی رہی ہوں، یہاں تک کہ میرا سرمارے درد کے پھٹنے لگا ہے۔ کلاس میں بیٹھے بیٹھے بھی میں آپ کے بارے میں سوچنے لگی ہوں، اور ٹیچر نے جو کچھ کہا اس کا ایک لفظ بھی نہیں سن سکی ہوں۔‘‘ وہ خاموشی سے سنتا رہتا، اور آخر کہتا کہ۔۔۔ مگر کون جانے کہ وہ کیا کہتا! یا پھر کسی دن ایسا ہوتا کہ دونوں ساتھ بیٹھے ہوتے اور وہ اس سے شرماتے ہوئے کہتی، ’’آئیے، لو، لائک، ہیٹ (Love, Like, Hate) کھیلیں۔۔۔ میں سلیٹ کے ایک طرف کسی کانام لکھ دوں گی اور آپ کو دکھاؤں گی نہیں، آپ دوسری طرف Love یا Like یا Hate لکھ دیجیے۔‘‘ وہ پہلے اَوروں کے نام لکھتی، جن کے مقابلے میں وہ کبھی تو Hate لکھ دیتا اور کبھی Like، اور جب وہ اسے نام دکھاتی تو دونوں خوب قہقہے لگاتے۔ آخر میں وہ اپنانام لکھتی، اور بے چینی سے اس کے لکھنے کاانتظار کرنے لگتی، وہ سیٹ پر Love لکھ دیتا، اور جب سلیٹ الٹی جاتی تو وہ ظاہر میں تو جھینپ کر مسکراتے ہوئے نیچے دیکھنے لگتی، مگر اس کے دل میں خوشی کا دریا امنڈ آتا، اور آنکھوں میں آنسو جھلکنے لگتے۔ اور پھر وہ۔۔۔ مگر نہ جانے پھر وہ کیا کرتا! شرماکر بھاگ جاتا؟ یا اس کے گلے میں ہاتھ ڈال دیتا؟ ممکن ہے کہ ڈولی کے کپڑے اسے پسند نہ آئے ہوں۔۔۔ کیسا اچھا ہو اگر چھٹیوں کے بعد جب وہ لڑکاادھر سے گزرے تو وہ ایمی کا سا ریشمی فراک پہنے ہو۔ سفید زمین پر چھوٹے چھوٹے سبز پھولوں والا، جس کے گریبان پر خوبصورت سی بو بنی ہوئی تھی۔۔۔ ایمی نے بڑے فخر سے اپنا فراک سب کو دکھایا تھا اور وہ اس کپڑے کی قیمت دو روپے گز بتارہی تھی۔۔۔ دام تو بہت زیادہ ہیں۔۔۔ مگر ایسا بھی کیا ہے۔۔۔ جب وہ گھر پہنچے گی تو اس کی ماما کہیں گی، ’’ڈولی، دیکھو تمہاری آنٹی نے آگرے سے تمہیں فراک بھیجا ہے۔‘‘ اور جب وہ فراک نکال کر لائیں گی تو وہ بالکل ویسا ہی ہوگا۔۔۔ یا پھر وہ یوں کہیں گی، ’’تمہارے پاپا دلّی گئے تھے۔ وہاں انہوں نے ٹکڑوں والے کی دکان پر فراک کا ایک کپڑا دیکھا۔ انہوں نے سوچا کہ ڈولی کے لیے لیتا چلوں۔ بڑا سستا مل گیا وہ، بس ایک فراک کا ہی تھا۔‘‘ وہ ماما سے جگہ پوچھ کر بھاگی بھاگی جائے گی، اور کپڑا نکال کر دیکھے گی تو وہ وہی سبز پھولوں والا ہوگا۔۔۔ وہ اپنے فراک کو بہترین وضع کاترشوائے گی، اور گریبان پر سیپ کے نیلے بٹن ٹکوائے گی۔ جب وہ اسے پہنے گی تو کیسی اچھی معلوم ہوگی۔ وہ اس دن ڈوپٹہ بالکل نہ اوڑھے گی۔ اول تو ڈوپٹے سے گریبان کی ساری خوبصورتی چھپ جاتی ہے، دوسرے ڈوپٹہ کیا ہوتا ہے عذاب جان ہوتا ہے۔ ہر وقت سنبھالتے رہو، ہاتھ ادھر ادھر ہلاؤ تو پھنس جائے۔

    مسلمان سے لگنے لگتے ہیں ڈوپٹہ اوڑھ کر۔۔۔ یہ اچھے قاعدے ہیں اسکول کے باہر جاؤ تو ڈوپٹہ اوڑھ کر جاؤ، ساڑھی نہ پہنو، میٹرن کے بغیر کہیں نہ جاؤ۔۔۔ وہ میٹرن ایک چڑیل ہے، ذرا سامنے سے کھسکنے نہیں دیتی۔ گرجا سے لوٹتے ہوئے کتنی مرتبہ اس کا جی چاہا کہ کمپنی باغ کے اندر سے ہوکر چلے، مگر میٹرن نے ایک نہ مانا۔ اور کھیل کے میدان میں بھی ایسی کنسوئیاں لیتی پھرتی ہے جیسے چوری کی سازش ہو رہی ہو۔۔۔ اور ہاں، ساڑھی پہننے میں بھلا کیا نقصان ہے؟ آخر گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کی لڑکیاں بھی تو ہیں۔ وہ رنگ برنگ کی ساڑھیاں پہن کر جاتی ہیں لاری میں دس بجے۔۔۔ یہاں صبح پانچ بجے ہی اٹھا کر بٹھادیا جاتا ہے۔ اٹھنے میں دیر کرو تو ایک چیخ پکار، آفت۔ چاہے نیند کے مارے آنکھیں بند ہوئی جارہی ہوں، مگر چل کر ناشتے کی روٹی پکاؤ۔ یہ بھی تو نہیں کہ اس کے بدلے ایک ٹکیا ہی زیادہ مل جائے۔ وہاں تو الٹی میٹرن صاحبہ چلاتی ہوئی آئیں گی، ’’اس مہینے میں گھی بہت خرچ ہوگیا۔ مجھے دکھاکر لیا کرو روز۔‘‘ اور پھر اوپر سے چھوٹی لڑکیوں کی ضدیں، ’’وہ لیں گے ہم، وہ بڑی ہے۔‘‘ کام کے وقت تو پڑی سوتی رہیں، اور جب سب ناشتہ واشتہ تیار ہوگیا تو چلیں نخرے کرتی وہی۔ یہ جی چاہتا ہے کہ بس دھمک دے اٹھاکے، اور کچھ نہ کرے۔ یہ سب ہنگامہ ختم ہو چکے تو پھر چلو اسکول۔ وہاں الگ مصیبت، سوال کیوں نہیں کیے؟ مضمون کیوں نہیں لکھا؟ دم مارنے کی مہلت ملے تو کچھ کیا بھی جائے۔ پلنگ پہ پڑکے بھی تو چین نہیں ملتی، حکم ہے کہ دس بجے کے بعد کسی کی آواز سنائی نہ دے۔۔۔ اور ہاں، اسکول میں ایک گھنٹے کی چھٹی ملے تو چلو، کھانا پکاؤ۔ اتوار کا دن ہو تو بچیوں کی جوئیں دیکھو، میلے میلے، الجھے ہوئے سر، جنہیں چھونے کو بھی جی نہ چاہے۔ بیٹھے کریل رہے ہیں انہیں۔۔۔ کسی دن سیر کو بھی جانا نصیب ہوجائے تو میم صاحب ساتھ، انگریزی بولنے کی مشق کراتی ہوئی۔ آگے آگے پکارتی چلتی ہیں، ’’پلیز کھم ٹومی۔‘‘ (Please come to me) اور پھر لڑکیوں کی قطار اس فقرے کو دہراتی ہے۔ اگر میم صاحب نے سن لیا کہ کسی لڑکی نے ’’کھم‘‘ کے بجائے ’’کم‘‘ کہا ہے تو بس اب اس کے پیچھے ہیں، جب تک وہ بالکل صحیح انگریزی لہجے میں لفظ ادا نہ کرے اس کا پیچھا چھوٹنا مشکل۔ یہ سیر کیا ہوئی مصیبت ہوئی۔ نہ کسی چیز کو دیکھ سکو نہ کچھ۔ بس قواعد سی کرتے جاؤ اور ایسے ہی واپس آجاؤ۔۔۔ اس کے مقابلے میں گورنمنٹ اسکول کی لڑکیاں ہیں۔ اپنا ٹھاٹھ سے دس بجے نکلتی ہیں لاری میں۔ جیسے کپڑے جی چاہتا ہے پہنتی ہیں۔ کوئی روک نہ ٹوک۔۔۔ اگر وہ بھی گورنمنٹ اسکول میں ہوتی تو کیسا مزہ رہتا۔ وہ اطمینان سے مو سلاکر اٹھتی، اور اپنی گلابی ساڑھی پہن کر اسکول جایا کرتی، وہ اس نیلی لاری کی کھڑکی سے لگ کر بیٹھتی، اور اس کی کہنی باہر نکلی رہتی۔ اس کے بالوں کی ایک لَٹ ہوا سے اڑتی جاتی، اور ساری دنیا اس کی نظروں کے نیچے سے کھسکتی رہتی۔۔۔ مگر وہاں کی فیس کتنی زیادہ تھی۔ وہاں ساتویں کے پانچ روپے لیے جاتے تھے، حالانکہ یہاں وہ صرف چندے کے چار آنے دیتی تھی۔۔۔ فیس زیادہ سہی، مگر اس کا وہاں داخل ہوجانا کچھ ایسا ناممکن بھی نہ تھا۔۔۔ گھر جاکر وہ پاپا سے کہے گی کہ وہ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول میں پڑھنا چاہتی ہے۔ پاپا تھوڑے سے اصرار کے بعد راضی ہوجائیں گے۔ چھٹیاں ختم ہونے پر وہ اپنا سرٹیفکٹ لینے اسکول جائے گی، وہاں اسے ایمی ملے گی۔۔۔ ایمی کتنا بنتی ہے۔ دیکھو تو زرد، دبلی پتلی، جیسے بھوکوں ماری بلی۔ اور اپنے آپ کو خوبصورت سمجھتی ہے بھلا! اسٹیشن پر کیسا بن بن کر چل رہی تھی۔ ٹرین میں سے ہرگزرتے ہوئے لڑکے کی طرف جھانک کر دیکھتی تھی جیسے وہ اس پر دیوانہ ہی تو ہوگیا ہے۔ وہ ہروقت یہ دکھانے کی کوشش کرتی رہتی ہے کہ وہ بہت امیر ہے۔ اپنے کپڑے ہر ایک کو دکھائے گی، ان کی قیمتیں بتائے گی، طرح طرح سے یہ جتائے گی کہ وہ اسکول کی پوری فیس دیتی ہے اور سب دوسروں کی معاف ہے۔ اسٹیشن پر بھی جب دوسری لڑکیاں ملائی کا برف لے رہی تھیں تو وہ ہاتھ میں ریشمی رومال ہلاتی ہوئی اسٹال پر گئی تھی اور ایسی آواز میں کیک اور لیمنیڈ مانگا تھا کہ سب سن لیں۔۔۔ ایمی اس سے پوچھے گی، ’’سرٹیفیکٹ کیوں لے رہی ہو تم، ڈولی؟‘‘ وہ بڑے فخر سے جواب دے گی، ’’میں تو اب گورنمنٹ اسکول میں جارہی ہوں!‘‘ ایمی اس کی طرف رشک سے دیکھتی رہ جائے گی، اور وہ وہاں سے کندھے اور سراٹھائے چلی آئے گی، اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھے گی۔ پھر وہ روز دس بجے نیلی لاری میں گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول جایا کرے گی اور لڑکیوں کے ساتھ ہنستی بولتی، روز طرح طرح کی ساڑھیاں پہن کر، کپڑوں کا خیال آتے ہی اسے یاد آیا کہ دراصل وہ سبز پھولوں والے فراک کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس نے ارادہ کرلیا کہ جب وہ پہلے پہل فراک پہنے گی تو اس دن نہاکر اچھی طرح بال بنائے گی، ان میں گلاب کا پھول لگائے گی، چہرے پر سیل کھڑی (جو اس کے ہاں بطور پاؤڈر کے استعمال ہوتی تھی) ملے گی، اور جوتے کو پالش سے خوب چمکالے گی۔ اسی دن وہ اپنے چار آنے والے بندے بھی نکالے گی جن میں اودی گولیاں لگی ہوئی ہیں۔ پہلے وہ خود آئینہ دیکھ کر اطمینان کرلے گی کہ وہ واقعی اچھی بھی معلوم ہوتی ہے یا نہیں۔

    پھر وہ جمیلہ کے یہاں جائے گی۔ اس کے باہر نکلتے ہی سارے دیکھنے والے حیران رہ جائیں گے۔ راستے میں اسے طاہر، ایوب اور دیپ چند ملیں گے۔ ان کی یہ ہمت تو نہ ہوگی کہ اس سے کچھ بولیں، مگر وہ ہمیشہ سے زیادہ تیز نظروں سے اس کی طرف گھورنے لگیں گے، آنکھوں سے ایک دوسرے کی طرف اشارے کریں گے، اور ان میں سے ہر ایک اپنے کوٹ کا کالر کھینچ کھینچ کر اور خواہ مخواہ انگریزی لفظ بول بول کر یہ دکھانے کی کوشش کرے گا کہ وہ دوسروں سے زیادہ فیشن ایبل اور پڑھا لکھا ہے۔ مگر وہ ان کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھے گی، اس کی رفتار کی ہمواری میں کسی قسم کا فرق نہ پڑے گا اور وہ بڑی متانت اور وقار کے ساتھ گزری چلی جائے گی۔ تاہم اس کا دل بلیوں اچھل رہا ہوگا، اور اس کی آنکھوں کے پپوٹے پھڑپھڑانے لگیں گے۔ وہ بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ کو روک سکے گی۔ سقے کی شبراتن بھی اس وقت اپنا ٹاٹ کا پردہ اٹھائے جھانک رہی ہوگی۔ وہ بھی اسے دیکھ کر بڑی متعجب ہوگی۔ وہ آہستہ سے پکارے گی، ’’ڈولی!‘‘ اور ہاتھ کے اشار ے سے اسے بلائے گی۔ مگر ڈولی اس کی طرف دیکھ کر ذرا سامسکرادے گی، اور آگے بڑھتی چلی جائے گی۔ اور جمیلہ تو بالکل مبہوت رہ جائے گی، وہ ڈولی کی طرف پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھے گی، اور جمیلہ تو بالکل مبہوت رہ جائے گی، وہ ڈولی کی طرف پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھے گی، اور اس کا نچلا ہونٹ لٹکا رہ جائے گا۔ وہ اپنے ڈوپٹے کو خوب پھیلاکر اچھی طرح نیچے کھینچ لے گی جیسے اپنے تنگ پائنچوں کے پیجامے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہو۔ اس کی آنکھوں میں چکاچوند پیدا ہوجائے گی، اور وہ مارے رشک کے تھوڑی دیر تک کچھ نہ بول سکے گی۔ اس کی اماں بھی مسکرا مسکراکراس کی طرف دیکھیں گی، اور فقرہ چست کرنے کی فکر میں کہیں گی، ’’افوہ، آج تو بڑے ٹھاٹھ سے ہو، ڈولی!‘‘ پھر جمیلہ کی بھی زبان کھلے گی، ’’ہاں، ڈولی، آج تو بہت ٹھاٹھ میں ہو!‘‘ وہ اس دن جمیلہ کے ساتھ ساتھ نہ پھرے گی۔ اگر کہیں باورچی خانے وغیرہ میں اس کے فراک پر دھبہ لگ گیا تو؟ وہ بس ایک جگہ جاکر پلنگ پر بیٹھ جائے گی اور تھوڑی ہی دیر میں چلی آئے گی یہ کہہ کر، ’’اچھا، اب تم کام کروگی۔ میں چلوں۔‘‘ وہ جمیلہ کو بتائے گی، ’’اسے بو (Bow) کہتے ہیں۔‘‘ وہ بہت سے نئے فیشنوں کا ذکر کرے گی، اور کئی انگریزی لفظ بولے گی جنہیں سن سن کر جمیلہ بہت مرعوب ہوگی، اور شرم کے مارے ان کا مطلب بھی نہ پوچھے گی، بلکہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرے گی کہ ہاں، وہ سب سمجھ رہی ہے۔۔۔ بالکل جاہل ہے جمیلہ بھی۔ پاؤڈر کو پوڈر کہتی ہے بھلا! اردو تک تو آتی نہیں اسے۔ اور یہ لوگ بنتے ہیں بہت وہ کہ ہم بہت بڑے زمیندار ہیں۔ کپڑے تو ذرا صاف نہیں رکھ سکتی۔ بس صبح پہنے اور شام کو میلے۔ اس کے کپڑے کتنے گندے رہتے ہیں، اور ان میں سے پسینے کی بو آتی رہتی ہے۔ بالوں کو تو بالکل جھاڑ رکھتی ہے۔ کبھی یہ بھی تو نہیں کرتی کہ ذرا بیٹھ کر ان میں کنگھی ہی کرلے۔۔۔ شاید عید کے دن کچھ اچھے کپڑے پہنتی ہو تو پہنتی ہو۔ اب کی عید کو اس کا جی چاہا تھا کہ ذرا جاکر دیکھے کہ جمیلہ نے کیسے کپڑے پہنے ہیں، مگر وہ اس خیال سے رک گئی کہ کہیں اسے ندیدہ نہ سمجھا جائے۔۔۔ اس کے یہاں جمیلہ کے گھر سے سویاں آئی تھیں، اور اگلے دن جب وہ گئی تھی تو جمیلہ نے کہا تھا، ’’تم کل نہ آئیں، ہم تو تمہارا انتظار کرتے رہے۔ آتیں تو ہم تمہاری دعوت کرتے۔‘‘ جمیلہ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ایسے کسی کے گھر بے بلائے نہیں جایا کرتے۔۔۔ وہ اب کے کرسمس پر ضرور جمیلہ کی دعوت کرے گی، اور انگریزی میں رقعہ لکھے گی جسے ترجمے کی کتاب میں سے نقل کیا جاسکتا ہے۔ رقعہ دیکھ کر جمیلہ کچھ نہ سمجھ سکے گی اور پوچھے گی، ’’کیا ہے یہ؟‘‘ تب وہ اسے مطلب سمجھائے گی۔ مگر جمیلہ کہیں باہر تو نکلتی نہیں۔۔۔ تو کیا ہے؟ وہ خود جمیلہ کے ابا سے کہے گی کہ وہ اسے جانے دیں۔ اس کے کہنے سے وہ اجازت دیدیں گے۔ پھر جمیلہ آئے گی رات کو برقعہ میں لپٹی لپٹائی، سمٹتی ہوئی۔ وہ اسے کرسی پر بٹھائے گی۔ جمیلہ کو میز پر بیٹھ کر کھانا عجب معلوم ہوگا اور وہ کچھ سٹ پٹاسی جائے گی۔ جب جمیلہ پلاؤ کو ہاتھ سے کھانا شروع کرے گی تو وہ جلدی سے اس کی طرف چمچہ بڑھائے گی، ’’لو، لو، چمچے سے کھاؤ۔‘‘ جمیلہ بڑی شرمندہ ہوگی، اور ادھر ادھر دیکھنے لگے گی۔ وہ جمیلہ کو فلموں کے قصے، اسکول کے کھیلوں کاحال اور میم صاحب کی باتیں سنائے گی جو اسے پریوں کے ملک کی داستانیں معلوم ہوں گی جہاں کی سیر کا وہ خیال تک نہیں کرسکتی۔ خصوصاً یہ سن کر اسے بڑی حیرت ہوگی کہ فلم دکھانے سے پہلے سنیما میں اندھیرا کردیا جاتا ہے۔۔۔ میز پر کیک دیکھ کر جمیلہ دل میں تعجب کر رہی ہوگی کہ یہ کیا چیز ہے؟ آخر وہ خود ہی جمیلہ کی طرف کیک بڑھاتے ہوئے کہے گی، ’’لو، کیک لو۔۔۔ یہ کیک ہے۔ انگریزی ہوتا ہے یہ۔ اسے انڈوں سے بناتے ہیں۔‘‘ وہ یہ بھی پوچھ لے گی، ’’تم نے چاکلیٹ کھائی ہے، جمیلہ؟ انگریزی مٹھائی ہوتی ہے وہ۔۔۔ اتی بڑی بڑی تخیارں سی ہوتی ہیں۔ بڑی مزیدار ہوتی ہے۔ ہمیں تو میم صاحب بانٹا کرتی ہیں۔‘‘ وہ اسے یہ بھی سنائے گی کہ ریل میں لڑکیاں کتنا ہنستی ہیں، گاتی ہیں، مذاق کرتی ہیں، اور کیسا کیسا لطف رہتا ہے۔ جمیلہ للچا للچا کر رہ جائے گی، اور کچھ کھسیانی سی ہنسی ہنسنے لگے گی۔۔۔ وہ جمیلہ کو یہ بات بتائے یا نہ بتائے کہ اسٹیشن پر ایک لڑکا۔۔۔

    ایک مٹھی ریت آکر اس کے چہرے پر اس بری طرح گرا کہ اس کی آنکھیں اور منہ کرکرانے لگے۔ ہوا بہت تیز ہوگئی تھی، اور درخت دیوانہ وار ہل رہے تھے۔ آسمان گرد سے بالکل اَٹ گیا تھا، اور خالی کھیتوں میں دور دور تک بگولوں نے اٹھنے اور پھر گرنے کا سلسلہ باندھ رکھا تھا گویا انہوں نے ایک دوسرے سے شرط بد رکھی تھی۔ برمے کی طرح چکر بناتے ہوئے اوپر چڑھنے کے باوجود ان کے ناچ کو کسی قدر دلچسپی سے دیکھا جاسکتا تھا، مگر نیچے گرنے میں ان کی سستی، ٹھیراؤ، نیم رضامندی اور ہچکچاہٹ ناقابل برداشت تھی۔ بعضی دفعہ تو وہ ایسے معلق ہوجاتے تھے گویا انہوں نے بالکل ہمت ہاردی ہے اور اب بالکل آگے نہ بڑھیں گے۔ ان کی کاہلی دیکھ دیکھ کر ڈولی اپنے آپ سے تنگ ہوئی جارہی تھی، اور اس کا جی چاہ رہا تھا کہ شیشے پر مکا مارے یا کوئی ایسی ہی وحشیانہ حرکت کرے جس سے کم سے کم یہ تو معلوم ہو کہ اس کے اندر زندگی ہے۔ کھیت بالکل صاف پڑے تھے، صرف کہیں کہیں کھونٹیاں دکھائی دیتی تھیں۔ بعض جگہ خالی کھیتوں کے پار تھوڑی سی گرد آلود ہریالی بھی زمین کے قریب قریب بچھی ہوئی نظر آتی تھی، خشک اور تر کا یہ میل گنجی چاند کی طرح ایسا گھناؤنا تھا کہ ڈولی کو کچھ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ کھیت اس کے پیٹ میں سے اٹھ کر حلق میں اڑ گئے ہیں اور اسے قے سی آرہی ہے۔ سڑک کے درخت اس کی بائیں آنکھ کا نشانہ باندھ کر تیر کی طرح اڑتے ہوئے آتے تھے جیسے اس کے دماغ کو توڑ کر پار ہوجائیں گے، مگر جب وہ قریب پہنچتے تھے تو جلدی سے بچ کر نکل جاتے تھے۔ ڈولی اس پر بالکل تیار تھی کہ وہ اس کا سر پھوڑدیں، مگر اس کے لیے یہ پرفریب مذاق بہت تکلیف دہ تھا۔ اس کاسر درد سے پھٹا جارہا تھا۔ اور آنکھوں میں پانی بھر بھر آتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے ڈلے جل رہے تھے، اور پلک جھپکانے سے بجائے تسکین کے الٹی چبھن ہوتی تھی۔ پیچھے بیٹھنے والے چیخ چیخ کر بے معنی بحثیں کر رہے تھے، اور اتنے لوگ ایک ساتھ مل کر بول رہے تھے کہ لاری مینارِ بابل بن گئی تھی۔ ایک آدمی اپنی آواز دوسرے سے بلند کرنے کی کوشش کر رہا تھا، ’’ارے جناح، جناح۔۔۔ نے تو وہ کیا جو۔۔۔‘‘ چند آدمی ’’کسان۔۔۔ کسان۔۔۔‘‘ کہہ کر اپنی بات شروع کرنے کا موقع ڈھونڈ رہے تھے، مگر دوسرے آدمی ان کی بات کاٹ کر خود بھی ’’کسان۔۔۔ کسان‘‘ کہنا شروع کر دیتے تھے۔ ڈولی ہزار کوشش کر رہی تھی کہ اس طرف سے کان بند کرلے، مگر پھر بھی کوئی نہ کوئی لفظ ضرور آکر اس کے مغز میں ڈھیلے کی طرح لگتا تھا۔ انجن نے الگ غوں غوں، غوں غوں مچا رکھی تھی جس کی دھن پر چکر کھاتے کھاتے اس کا سر بالکل مفلوج ہوگیا تھا اور گرا پڑ رہا تھا۔۔۔ اس سے پلک تو نہ جھپکائی جاتی تھی، مگر اس کے پپوٹے اب ڈلوں کے کانٹوں کے عادی ہوچکے تھے۔ اس نے ہرچہ باد اباد کہہ کر اپنی آنکھوں کو نیم باز چھوڑ دیا، اور بالکل بے حرکت ہوگئی۔ آنکھوں کا کھلا ہوا حصہ پانی سے ڈھک گیا جس کی چپک نے پلکوں کو نیچے کھینچ لیا اور اس کی آنکھیں آخر بند ہوگئیں۔۔۔ نیند میں ہونے کے باوجود وہ انجن کی بھن بھناہٹ صاف سن رہی تھی، مگر وہ اس کے سونے میں مخل ہونے کے بجائے اسے لوری دے رہی تھی اور دوسری مداخلتوں سے بچارہی تھی۔ وہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ بہت تیزی سے آگے بڑھتی چلی جارہی ہے مگر اس سے زیادہ اسے زمان و مکان کا کوئی شعور نہ تھا۔ وہ اپنا جسم تک کھو بیٹھی تھی۔ وہ کسی لطیف شے میں بھی تبدیل نہ ہوئی تھی، بلکہ محض ایک شناخت، صرف ایک خیال، ’’میں‘‘ باقی رہ گئی تھی۔ اس کے چاروں طرف ایک بھوری تاریکی تھی جس میں کبھی کبھی پھیکی سی سفیدی کے دھبے دکھائی دے جاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہہ سکتی تھی کہ وہ انجن کی بھن بھناہٹ کے اندر سفر کر رہی ہے۔ صرف ایک دفعہ اسے سر کے بال اور پیشانی کا تھوڑا سا حصہ نظر آیا تھا جسے اس نے پہچان لیا تھا کہ آئرین کا ہے، مگر وہ ایک جھلک کے بعد ہی غائب ہوگیا تھا، اور اندھیرے کی روانی پھر اسی طرح جاری ہوگئی تھی۔

    لاری کے ایک دھچکے سے اس کی آنکھ کھلی۔ لاری ایک گاؤں کے پاس سے گزر رہی تھی، سڑک کے ایک طرف جھونپڑی کے سامنے ایک عورت کٹی کاٹ رہی تھی، اور دوسری طرف کائی سے ڈھکا ہوا ایک تالاب تھا جس میں تین چار بھینسیں تیر رہی تھیں اور سر اٹھا اٹھا کر لاری کی طرف دیکھنے لگی تھیں۔ بچے اپنا کھیل چھوڑ کر کھڑے ہوگئے تھے، اور انتظار کر رہے تھے کہ لاری آگے بڑھے تو اپنے گلے سے ہارن بجاتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگیں۔ ڈولی کا درد تو اب اچھا ہوگیا تھا، مگر سر بھاری تھا اور آنکھیں نیند کی وجہ سے اچھی طرح کھل نہ رہی تھیں۔ اس کے علاوہ اسے کچھ زکام سا بھی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اسے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے اس کا سر تو بالکل بے حس ہوگیا ہے اور اس کے بجائے ٹھوڑی کسی گہری سوچ میں غرق ہے۔ اس نے گردن اکڑاکر انگڑائی لی، اور سڑک کے نظاروں میں دلچسپی لینے کی کوشش کرنے لگی تاکہ اس کی گرانی کچھ دور ہوجائے۔ گاؤں سے تھوڑی دور آگے ایک بچہ روتا ہوا جارہا تھا جو لاری کو دیکھ کر چپ ہوگیا، اور اس نے ننگی ٹانگوں پر سے اپنے کرتے کادامن سمیٹ کر ایک ہاتھ میں اوپر اٹھالیا، اور لاری کی طرف دیکھنے لگا۔ ایک بیل گاڑی میں ایک عورت بیٹھی تھی جس نے اپنا زرد ڈوپٹہ دانتوں میں دبا رکھا تھا، اور جس کی ناک میں سونے کی کیل چمک رہی تھی۔ مگر ڈولی کو اس کے پیلے پیلے دانت بالکل پسند نہ آئے، اور وہ لاری کے لیمپوں کی طرف دیکھنے لگی۔ لیمپ تو کچھ ایسی معلوم ہو رہے تھے جیسے لاری سے جڑے ہوئے ہی نہیں ہیں، وہ تو گیا ہوا میں معلق تھی اور ایک تعجب خیز ہم آہنگی کے ساتھ لاری کے آگے آگے بھاگ رہے تھے۔۔۔ مگر ان چیزوں کے ساتھ وہ اپنی مصنوعی دلچسپی کو زیادہ دیر تک قائم نہ رکھ سکی اور اسے یقین ہوگیا کہ اپنا دل بہلانے کے لیے اسے اپنے اندر ہی کوئی چیز تلاش کرنی پڑے گی۔ کئی یادوں اور واقعوں کو رد کردینے کے بعد اسے خیال آیا کہ صرف ’’غزل الغزلات‘‘ ہی سے اس کی کاربرآری ہوسکتی ہے جس سے اس کا تعارف برنس نے کرایا تھا۔ ایک رات وہ بائبل لیے ہوئے اس کے پاس آئی تھی اور لجاتے ہوئے نیچی آواز میں اس سے کہا تھا، ’’تم نے یہ دیکھا ہے، ڈولی؟‘‘ اس نے ’’غزل الغزلات‘‘ کا ایک صفحہ کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا تھا اور اپنے آپ سیدھی بیٹھ کر مضطرب انداز میں دانتوں سے ناخون کاٹنے لگی تھی اور جب ڈولی کو بھی اس میں بہت مزا آیا تو وہ اپنی دریافت کی کامیابی پر بہت مسرور ہوئی تھی۔ ان دونوں نے پوری ’’غزل الغزلات‘‘ کو کئی دفعہ ساتھ بیٹھ کر پڑھا تھا اور ڈولی نے اکیلے میں بھی، یہاں تک کہ اسے کئی مزیدار حصے یاد ہوگئے تھے۔ اور اس کے کتنے ہی ویران اور آزردہ لمحوں میں رنگینی کا سامان بن چکے تھے۔۔۔ اس دن کہ جب اسے پہلی بار ی احساس ہوا تھا کہ وہ لڑکا اس کی طرف دیکھتا ہوا چلتا ہے، وہ رات کو پلنگ پر لیٹی ہوئی دیر تک ان حصوں کو یاد کرتی رہی تھی۔ اس نے اپنی رانیں خوب بھینچ لی تھیں، باہیں تکیے کے دونوں طرف پھیلاکر الٹی لیٹ گئی تھی، اور چھاتیوں کو پلنگ سے لگاکر سینے کی پوری قوت سے دبایا تھا جس کی ہلکی سی کسک میں اسے انتہائی لطف ملا تھا۔۔۔ ان ٹکڑوں کو یاد کرنے سے پہلے اس نے ہر طرف سرگھماکر اچھی طرح اطمینان کرلیا کہ کہیں لاری میں کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا، جیسے وہ اپنے بدن کا کوئی حصہ عریاں کرنے والی ہو۔ اس کے بعد اس نے آہستہ آہستہ ایک ایک دو دو جملے دہرانے شروع کردیے تاکہ وہ ہر ایک سے پوری طرف فیض یاب ہوسکے۔۔۔ ہماری ایک چھوٹی بہن ہے۔ ابھی اس کی چھاتیاں نہیں اٹھیں۔۔۔ تیری دونوں چھاتیاں دو آہو بچے ہیں۔ تیری ناف گول پیالہ ہے۔۔۔ وہ اپنے منہ کے چوموں سے مجھے چومے۔۔۔ میرا محبوب جو رات بھر میری چھاتیوں کے درمیان پڑا رہتا ہے۔۔۔ میرے محبوب کی آواز ہے جو کھٹکھٹاتا ہے اور کہتا ہے، میرے لیے دروازہ کھولو، میری محبوبہ! میری پیاری! میری کبوتری! دیکھ تو خوبرو ہے۔ دیکھ تو خوبصورت ہے۔۔۔ اس کا بایاں ہاتھ میرے سر کے نیچے ہے اور اس کا داہنا ہاتھ مجھے گلے سے لگاتا ہے۔۔۔ اس پر ڈولی کو یاد آیا کہ کرسمس کی چھٹیوں میں جب ایک دن فریڈی کہانیاں سنتا سنتا اس کے پاس سوگیا تھا تو وہ رات بھر اس کی گردن میں ہاتھ ڈالے رہا تھا۔ وہ خوب گرم رہی تھی، اور اسے بڑی گہری نیند آئی تھی۔ اس لیے اس نے ارادہ کرلیا کہ اب کے چھٹیوں بھر فریڈی کو اپنے پاس سلائے گی۔۔۔ ایسے ہی جب ایک دفعہ برنس اس کے ساتھ سوئی تھی تب بھی وہ نیند میں بالکل بے ہوش ہوگئی تھی۔ اگلے دن صبح کو عیسائیوں کا سالانہ جلوس نکلنے والا تھا جس کے لیے وہ دن بھر کام کرتی رہی تھیں۔ وہ تھک کر چور ہوگئی تھیں، اور انہیں پھر صبح سویرے اٹھنا تھا۔ برنس کا تو اتنا براحال تھا کہ اس سے ہلا بھی نہ جاتا تھا۔ اس لیے وہ اپنے کمرے کو نہ گئی بلکہ ڈولی کے ساتھ ہی سورہی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے حال سے بالکل غافل ہوگئیں۔ مگر پھر نہ جانے یہ کیسے ہوا کہ ان کی باہیں ایک دوسرے کے گلے میں پڑگئیں اور ٹانگیں الجھ گئیں۔۔۔ صبح کو وہ تقریباً ایک ساتھ جاگیں، اور انہیں اپنی کیفیت دیکھ کر تعجب بھی ہوا۔ مگر ان کے سینے مل رہے تھے، اور ان کے گلگلے پن اور نرماہٹ میں ایسی خاموش ہنسی تھی کہ وہ پندر منٹ تک ویسے ہی لیٹی ایک دوسرے کی طرف دیکھتی رہیں۔ اٹھ جانے کے بعد بھی وہ شرما اور لجا نہیں رہی تھیں بلکہ ایسی مطمئن تھیں جیسے کوئی غیرمعمولی بات ہوئی ہی نہ ہو۔۔۔ وہ دونوں جلوس کے ساتھ گئی تھیں۔ جلوس کتنا لمبا تھا! آگے آگے بڑے پادری صاحب تھے، ان کے بعد مرد، پھر عورتیں، پھر لڑکیاں، اور آخر میں پھر مرد۔ وہ اور برنس دونوں ایک لائن میں چل رہی تھیں، اور گانے کے بیچ میں چپکے چپکے باتیں کرتی جاتی تھیں۔ سب ایک ساتھ مل کر گارہے تھے، اور گانے کے ٹکڑے لمبی لمبی سلاخوں کی طرح معلوم ہوتے تھے جن کے دو دو تین تین کے مجموعے ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ ہوں اور مشین کی طرح اٹھ اور گر رہے ہوں۔۔۔ ہاتھوں میں مییں گاڑ کر سولی پہ چڑھا دیا۔ یسو نے تیرے واسطے اپنا لہو بہادیا۔۔۔ اور وہ بھجن بھی گایا گیا تھا، یشو یشو من میں آجا، ہم کو بچا جا، پاک بناجا۔۔۔ یہ گانا اسے اچھا تو معلوم ہوتا ہے لیکن خود گاتے ہوئے بڑی شرم آتی ہے۔ اب یہ کوئی اچھی بات ہے کہ سڑکوں پر سب کے سامنے گاتے پھرو؟ اسی دن ایک بیٹھی ہوئی ناک والا لڑکا جو ہاکی اسٹک لیے سائیکل پر جارہا تھا، جلوس کو دیکھ کر اترپڑا تھا اور اس کی طرف شریر اور ندیدی آنکھوں سے دیکھنے لگا تھا۔ خصوصاً جب وہ اپنے پان میں سنے ہوئے چھوٹے چھوٹے دانت نکال کر ہنا تھا تو اسے اتنی نفرت ہوئی تھی کہ اس نے ڈوپٹہ سر اور چہرے پر کھسکا لیا تھا اور بہت دیر تک خاموش نیچی نظریں کیے ہوئے چلتی رہی تھی۔۔۔ ہاں، ایمی جلوس کے دن بڑی خوش رہتی ہے، اسے اپنے کپڑے اور خوبصورتی دکھانے کا موقع مل جاتا ہے نا! گاتے ہوئے ہر طرف نظریں دوڑاتی رہتی ہے کہ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں یا نہیں۔۔۔ اس کے امیر ہونے کی وجہ سے لڑکیاں بھی اس کی چاپلوسی کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مشن کاولیم سنگھ بھی۔ آج بھی کہ جب وہ ریل میں لڑکیوں کی نگرانی کے لیے بھیجا گیا تھا، وہ ایمی کی خوشامد میں لگا رہا تھا اور دن کو تو وہ گاڑی سے قدم باہر نکالنے پر بھی ٹوک دیتا تھا۔ مگر ایمی سارے اسٹیشن پر گشت لگاتی پھر رہی تھی اور وہ اسے ایک لفظ نہ کہہ رہاتھا۔۔۔ اور اب تو وہ اپنے آپ کو قابل بھی سمجھنے لگی ہے۔ آئرین نے اسے بتایا تھا کہ ایمی کو اب کے فرسٹ آنے کی امید ہے۔ کہیں آئی نہ ہو! اب تک ہمیشہ ڈولی فرسٹ آتی رہی ہے اور اس دفعہ تو مس جونسن نے اسے اپنے گھر بلاکر پڑھایا تھا۔۔۔ بہت ہی اچھی ہیں مس جونسن! ان کاجوان ہنس مکھ چہرہ، اور اس پر سنہری عینک، کتنا خوبصورت معلوم ہوتا ہے اور اس پر تو وہ بہت ہی مہربان ہیں۔ سب سے زیادہ نمبر اسی کودیتی ہیں اور اس سے بڑے نرم لہجے میں بات کرتی ہیں۔ امتحان کے قریب بیچاریوں نے خود اسے بلاکر پڑھایا تھا اور اس سے کہہ دیا تھا کہ اگلی کلاس میں وہ شروع سال سے ہی ان کے پاس پڑھنے آیا کرے۔ ایک دن جب وہ ان کے ہاں بیٹھی سوال نکال رہی تھی وہ اس کے پیچھے آکھڑی ہوئی تھیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی اور بال ٹھیک کرتی رہی تھیں۔۔۔ جب وہ گلابی ساڑھی پہنتی ہیں تو ایسی خوبصورت معلوم ہوتی ہیں کہ اس کا جی چاہتا ہے ہلکے سے ان کا گال چوم لے۔ کتنی مرتبہ اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ ان سے کہہ دے کہ وہ ان سے کتنی محبت کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ انہیں اپنے سینے سے لگالے اور اپنے بازوؤں میں لیے رہے، مگر وہ ہر بار شرما شرماکر رہ گئی ہے اور ان سے اپنے دل کارازنہیں کہہ سکی ہے، ایک مرتبہ وہ اسے اپنے ساتھ سنیما بھی لے گئی تھیں۔ وہاں سے وہ کئی گانے بھی یاد کرلائی تھی۔۔۔ اب کیسے چھپوگے سلونے ساجنا اب کیسے چھپوگے۔۔۔ ان کے ساتھ تو وہ چلی بھی گئی، ورنہ ویسے تو وہ سنیما کے لیے ترستی ہی رہتی ہے۔ مگر کیا کرے، اسکول والے کم بخت ذرا نہیں نکلنے دیتے۔ ایمی سے ’’اچھوت کنیا‘‘ اور ’’پکار‘‘ کی تعریف سن کر اس کا کیسا کیسا جی لوٹا ہے کہ کسی طرح اسے بھی دیکھنے کو مل جائیں، مگر بس تڑپ تڑپ کر ہی رہ گئی۔۔۔ اب کے جب وہ چھٹیوں کے بعد لوٹے گی تو ضرور کوشش کرے گی کہ سنیما جانا مل جائے۔۔۔ وہ مس جونسن ہی سے کہے گی کہ وہ سنیما دیکھنا چاہتی ہے۔۔۔ یا یوں بھی ہوسکتا ہے کہ کسی دن وہ کلاس میں بیٹھی پڑھ رہی ہو، اور یکایک اس کے خالہ زاد بھائی جوزف سامنے آکھڑے ہوں۔ وہ نیلا سوٹ پہنے ہوئے ہوں گے، اور ان کے سنہری عینک لگی ہوگی۔ لڑکیاں بھونچکا ہو ہوکر ان کی طرف دیکھیں گی، اور یہ بوجھنے کی کوشش کریں گی کہ وہ کس سے ملنے آئے ہیں۔ جب وہ اسے بلائیں گے تو سب لڑکیاں اسے رشک کی نگاہوں سے دیکھیں گی اور پھر پڑھنے سے ان کادل اچاٹ ہوجائے گا۔ جب تک وہ کھڑے رہیں گے وہ کن انکھیوں سے باہر دیکھتی رہیں گی۔ وہ اس سے کہیں گے، ’’ڈولی، میں ابھی ابھی آرہا ہوں۔ آج کل یہاں ’’اچھوت کنیا‘‘ ہو رہاہے۔ ہمارے ساتھ چلو شام کوسنیما۔‘‘ وہ خوشی خوشی تیار ہوجائے گی اور شام کو اپنی گلابی ساڑھی پہن کر ان کے ساتھ سنیما جائے گی۔۔۔ جوزف بھائی کے سنہرے بال کیسے چمکتے ہیں اور ان کے گورے رنگ پر نیلا سوٹ تو بہت ہی سجے گا۔۔۔ وہ سنیما ہال میں بیٹھی ان سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی ہوگی اور اتنی خوش ہوگی کہ عمر بھر میں کبھی بھی نہ ہوئی ہوگی۔ وہ دیکھے گی کہ وہ گانا۔۔۔ بن کی چڑیا بن کے بن بن بولوں رے۔۔۔ جیسے ایمی نے گاگا کر سارے اسکول میں پھیلا دیا ہے، کس موقع پر گایا جاتاہے۔ گھنٹی بجے گی، اور ہال میں اندھیرا چھا جائے گا، اور پھر پردے پر۔۔۔

    سامنے وہ سفید دھرم شالہ نظر آرہی تھی جس کے معنی تھے کہ اب گھر قریب آگیا ہے۔ اس علم کے تقریبا ساتھ ہی ساتھ اسے وہ نیا مکان زمین میں سے ابھرتا ہوا دکھائی دیا جو اڈے پر بن رہا تھا اور اگلے جھٹکے میں وہ پورا زمین کے باہر نکل آیا۔ اس مکان کی نمی اور ٹھنڈک اب بھی باقی تھی، مگر اب اس میں کچھ تمکنت، خود اختیاری اور تفکر کا سکوت اور سنجیدگی آگئی تھی۔ اب وہ خواہ مخواہ گُن گُن نہ کر رہا تھا، بلکہ اس نے اپنے رازوں کو چھت کے اندھیرے میں کھینچ لیا تھا۔ یہ اندھیرا اب پہلے سے زیادہ گہرا اور پھیلا ہوا تھا اور اس میں سے چھت بہت اونچی نظر آرہی تھی۔ کونے میں کھڑے ہوکر خود سنسنانے لگنے کے بجائے اب ڈولی کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنا سر اتنا اونچا کردے کہ اندھیرا اسے ڈھک لے۔۔۔ ڈولی نے اپنا اوپر کا جسم اٹھاکر لاری کے باہر پھینک دیا جو شیشے میں سے سورج کی کرن کی طرح آسانی سے نکل گیا اور ڈولی کی طرف منہ کرکے ہوا میں کھڑا ہوگیا۔ وہ گویا نصف مجسمہ تھا، حالانکہ اس کے رنگ میں سنگ مرمر کی سی درشتی نہ تھی، بلکہ اس کے رنگ زندگی کے رنگ تھے۔ یہ مجسمہ بالکل عریاں تھا۔ یہ چہرہ تھا تو ڈولی کا ہی، مگر و ہ کسی قدر لمبا ہوگیا تھا، خصوصاً اس کی کنپٹیوں کے پاس کے حصے اب اتنے ابھرے ہوئے نہ رہے تھے۔ چہرے کے خطوط میں اب وہ ہیجانی بے ترتیبی نہ تھی، بلکہ وہ ایک نورانی سوچ کے ساتھ میانہ وار اوپر سے نیچے آرہے تھے۔ پیشانی بھی کشادہ تھی، اور اس کی متین لمبی پلکیں نیچے جھکی ہوئی تھیں۔ اس کی آنکھیں بھرے بھرے، صاف شفاف سینے پر سے پھسلتی ہوئی، انتہائی سکون کے ساتھ دو سڈول شانوں کے درمیان چھاتیوں کو دیکھ رہی تھیں جو بے داغ، نرم گلابی رنگ کی، موزوں، متناسب، بے جھجک اور مطمئن تھیں۔ وہ آرزوؤں اور تمناؤں کی گدگدی سے پرجوش نہ تھیں، بلکہ ان سب سے اونچی ہوکر محض اپنی خوش کامی اور سیرابی کے احساس ہی سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ اس مجسمے کے انداز میں آرام، قرار، جمالیاتی غور و فکر، اس سے منتج سرشاری اور عبودیت تھی گویا وہ اس حقیقت کے بارے میں سوچ رہا ہو کہ ’’پختگی ہی سب کچھ ہے۔‘‘

    اب اور زیادہ نشانیاں آنی شروع ہوگئی تھیں جو اسے بتارہی تھیں کہ گھر نزدیک آتا جارہا ہے۔ اس تھوڑے سے وقت کو گزارنے کے لیے وہ یہ اندازہ لگانے لگی کہ اس کے یہاں کیا ہورہاہوگا۔۔۔ شاید ماما گبرون کاسایہ پہنے جھاڑو دے رہی ہوں۔۔۔ شاید پاپا بزار سے لکڑیاں لے کر آئے ہوں اور ماما ان پر بگڑ رہی ہوں۔ ممکن ہے کہ وہ بھیگی ہوئی آواز میں آنٹی کی خوش نصیبی کا تذکرہ کر رہی ہوں اور اس کے مقابلے میں اپنی۔۔۔ مگر ڈولی کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ان چند باقی ماندہ لمحوں کو جو بہتر طریقے سے بھی گزارے جاسکتے تھے، خیالات کی اس روش سے مکدر کرلے۔ چنانچہ اس نے نئی ریل چڑھائی۔۔۔ فریڈی اپنی نیلا نکر اور ہری قمیص پہنے گیندسے کھیلتا پھر رہاہوگا۔ وہ اسے دیکھتے ہی چلاکر بھاگے گا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ جائے گا۔۔۔ پاپا ابھی دورے سے واپس آئے ہوں گے اور سائیکل رکھ کر جوتا کھول رہے ہوں گے۔ وہ پوچھیں گے، ’’ارے کون ہے؟‘‘ فریڈی دوڑ کر انہیں بتائے گا، ’’ڈولی بوا آگئیں، پاپا!‘‘ وہ کہیں گے، ’’توآگئی بیٹی ڈولی؟‘‘ اور وہ جواب دیگی، ’’جی ہاں پاپا۔۔۔‘‘ ماما باورچی خانے میں اس کے لیے کوئی اچھی سی چیز تیار کر رہی ہوں گی۔ آواز سن کر وہ باہرآئیں گی اور کہیں گی، ’’آگئیں لو ڈولی بھی! میں تو کہہ ہی رہی تھی کہ اب آتی ہوگی۔ تمہارے پاپا کہہ رہے تھے کہ نہیں، شام تک آئے گی۔ کئی دن سے یاد کر رہاتھا فریڈی تمہیں۔ روز پوچھ لیتا تھا کہ اب ڈولی بوا کے آنے میں کے دن رَہ گئے۔۔۔ اور آج تو صبح ہی سے تیار پھر رہا تھا۔۔۔‘‘ ماما سفید ساڑھی پہنے ہوں گی۔ وہ اسے بتائیں گی کہ اس کے پاپا اس کے لیے ایک چھوٹی سی سفید بلی لائے ہیں جس کی اسے بڑی خواہش تھی۔

    سوچنے کو تو وہ سوچے چلی جارہی تھی، مگر ویسے اس کادل دھکڑ پکڑ کر رہا تھا اور اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہی ہے۔ پھر بھی وہ اس آخری تنکے سے چپٹی ہوئی تھی اور اسے چھوڑنا نہ چاہتی تھی۔ ہر نئی جھونپڑی یا کنواں دیکھ کر اس کے دل پر چرکا سا لگتا تھا اور اس کے گلے کی رگیں چٹ چٹ بول رہی تھیں۔ وہ یہ خیال کرناچاہتی تھی کہ ابھی تو گھر بہت دور ہے، مگر اسے اس کے خلاف ناقابل تردیدشہادتیں ملے چلی جارہی تھیں۔ وہ امید کر رہی تھی کہ لاری مجنونانہ جوش میں قصبے کے پاس سے نکلی چلی جائے گی اور پرک کبھی نہ رکے گی۔ یا قصبہ خود پیچھے ہٹتا چلاجائے گا اور لاری اسے کبھی نہ پکڑ سکے گی۔ مگر یہ علم اس کی جان نکالے لے رہاتھا کہ لاری کا چلنا تقدیر کی طرح اٹل اورناگزیر ہے۔ وہ ہر قسم کے نتائج سے بے نیاز، رکاوٹوں کو توڑتی، کنکروں کو کچلتی، بھاگی چلی جائے گی جیسے کوئی خود سردیو، اور اسے قصبے کے اڈے پر لاکھڑا کرے گی جس کے سامنے وہی گڑھوں والی کنکر کی سڑک بچھی ہے جو اسکے گھر کی طرف جاتی ہے۔ لاری اپنی بھن بھناہٹ پر خود ہی مست ہوہوکر تیز رفتاری سے چلی جارہی تھی اور اسے ڈولی کے جذبات کی مطلق پروا نہ تھی۔ ڈولی بیچاری تو درختوں سے بھی مدد نہ مانگ سکتی تھی، وہ تو پہلے ہی اس کے دشمن بنے ہوئے تھے اور اسے گھر کے قریب لائے جارہے تھے۔۔۔ آخر اس نے ایک گہرا سا سانس لیا اور پانی کے ریلے کے سامنے اپنا سر جھکادیا۔

    اڈے کے قریب پہنچ کرجب لاری کی رفتار کچھ کم ہوئی تو اس کی امید پھر ذرا جاگی کہ شاید لاری اسی طرح رینگتی ہی رہے، ورنہ کم سے کم تھوڑا سا وقت تو اور لگ جائے۔ مگر جلد ہی کلچ ایک درشت کڑڑ کے ساتھ بولا، اور انجن رُک گیا۔ ڈولی کے کانوں میں خاموشی بھربھرانے لگی اور اسے یہ معلوم ہوا کہ جیسے دنیا ڈوبی جارہی ہے۔ سب لوگ لاری میں سے اتر رہے تھے، مگر وہ ہلی تک نہیں۔ آخر جب ایک لڑکے نے آکر اس سے پوچھا کہ ’’اجی سامان چلے گا؟‘‘ تو اس نے ٹھنسے ہوئے گلے میں سے بڑی کوششوں کے بعد ’’ہاں‘‘ نکالا، اور پھر ہاتھ بڑھاکر اس طرح دروازہ کھولا جیسے اب کوئی چارہ نہ رہاہو اور آخر کار اس نے اپنے آپ کو گلوٹین کے تختے پر چڑھنے کے لیے تیار کرلیا ہو۔

    لڑکالاری کی چھت پر سے سامان اتروارہا تھاجس کے انتظار میں وہ سڑک کے اس پار سب سے الگ کھڑی ہوگئی۔ اس کاجسم اتنا بھاری ہوگیا تھا کہ ٹانگیں اچھی طرح بوجھ برداشت نہ کر رہی تھیں۔ اسے اس خیال سے بے چینی ہو رہی تھی کہ لوگ اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ درحقیقت ڈولی کو اس وقت اس کی ذرا بھی پروا نہیں تھی کہ وہ کیا کر رہے ہیں کیا نہیں کر رہے۔ وہ تو بس یہ چاہتی تھی کہ اسے ان کی حرکتوں کااحساس تک نہ رہے۔ اس لیے وہ افق کی طرف دیکھنے لگی۔ ہوا اب بالکل مدھم ہوگئی تھی اور درختوں کی ڈالیاں اپنی مرضی کے خلاف جبراً و قہراً سرسرائے جارہی تھیں۔ زمین کا غبار اٹھ اٹھ کر آسمان پر پھیل گیا تھا اور اس نے آسمان کو گدلا بنادیا تھا۔ گرد کی اس عریض چادر پر سورج کی حیثیت ایک کسی قدر روشن داغ سے زیادہ نہ رہی تھی اور اس سے باہر نکل آنے کی کوششوں میں وہ الٹا اور دھول میں اٹا جارہاتھا۔ چند بنجر کھیتوں پر سے دھوپ ڈھل چکی تھی اور وہ پھٹی ہوئی آنکھوں سے ایسے تک رہے تھے جیسے کسی معتمد شخص نے ان کے ساتھ دغا کی ہو اور اب ان میں گلے اور شکوے کی بھی خواہش باقی نہ رہی ہو۔۔۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے