چھٹا دروازہ
کہا جاتا ہے کہ عمادالدین شیخ حضرت ابو موسی کرمانی ؒ ہوتے ہوتے پانچوں دروازوں سے گذر کر جب چھٹےد روازے کے سامنے آئے تو اس حالت پر تھے کہ ان کے جسم مبارک پر کپڑا نام کو نہ تھا اور بے شک وہ اس حالت مادر زاد برہنگی میں اللہ کے حضور گڑگڑائے اور استدعا کی کہ وہ اپنی وسیع رحمت سے ان کی محدودستر کو ڈھک دے کہ تحقیق اس غفار ذات سے بہتر کوئی نہیں جو ستروں کو ڈھانپے اور عیبوں کی پردہ پوشی کرے۔
پوچھا گیا،
’’چھٹے دروازے کا قصہ کیا ہے اور اس کا بے ستر ہونے سے کیاربط ہے؟‘‘
فرمایا،
’’چھٹے دروازے کی تفصیل سے پہلے لازم ہے کہ شیخ ؒکی تفضیل بیان کی جاوے۔‘‘
جان لو شیخ ؒبغداد میں بودوباش رکھتے تھے، علم ان کا عرش پر اور مزاج مبارک فرش پر تھا۔ مزید براں اس مرد پر ایمان کی زبان بیان میں ایسی سلیس وآسان تھی کہ پریشاں و پنہاں مضامین کے معنی چشم زدن میں دستیاب ہوں۔ الغرض کتاب کی تفسیر و تاویل میں ان کا کوئی ثانی نہ تھااورہزاروں تشنگان علم آپؒ سے بے حساب فیض یاب ہوتے تھے جو ہمہ وقت علم کی جستجو میں ان کے گرد مانند پروانہ بے تاب رہتے تھے اور اسی سبب آپؒ کے گھر کے دروازے دائم کھلے مانند چشم ہائے بے خواب رہتے تھے۔
یہاں تک کہا جاتا ہے کہ آپؒ کی مبارک صحبت کے اثر سے معرفت سے یکسر بے بہرہ لوگ بھی کامل ولی بن جاتے تھے۔ آپ نے البتہ ہمیشہ شاہان جہان کے دربارہائے عالیشان سے دوری رکھی اور اس ذات بے ہمتا کے در کے فقیر رہے جس کو نہ کسی نے جنا اور نہ اس نے کسی کو۔
تو بیان میں یوں آتا ہے کہ ایک دن عصر کی نماز ادا کرنے نکلے تو علم کے اس دروازے کا سامنا چھٹے دروازے سے ہوگیا اور یوں اس نے، جو’’فعال ما یرید‘‘ ہے، ان کو ایک امتحان میں ڈال دیا۔
اس امتحان کا ذکر آپؒ نے خودہی ایک دن جمعے کے مبارک دن کی عصر کی نماز کے بعد بیان کیا اور یہ عجیب روداد اس صورت سنائی کہ حاضرین محفل دم بخود رہ گئے اور بیشتر پر گریہ نے غلبہ پایا۔
عصر کا اس دروازے سے تعلق بھی عجیب ہے اوریہ شاید یوں ہے کہ آپؒ صلواۃ عصر کو غیر معمولی اہمیت دیتے تھے۔ اسی سبب یہ آپؒ کامعمول تھا کہ آپؒ ہفتے میں ایک بار عصر کی نماز فرات کے دوسری طرف ادا کیا کرتے تھے اور اس واسطے آپؒ ایک کشتی بان کو اجرت دے کردریا پار کیا کرتے تھے۔ جان لینا چاہیئے کہ شیخ نماز کے لئے فرات کے اس پار جانے کی یہ سعی اس باعث کیا کرتے تھے کہ آپ کے پیش نظر یہ تھا کہ وہاں کچھ رفیقوں کے ساتھ مل کر، جو سب کے سب اللہ کی محبت میں حد درجہ مجذوب تھے، عبادت میں اس صورت قیام کریں جیسا اسے کرنے کا حق ہے۔
پوچھا گیا،
’’یا شیخ، آپ کس باعث عصر کا اس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ بے شک یہ ایک نمازہی تو ہے۔‘‘
آپ نے جواب میں پہلے اللہ کی حمد بیان کی، اس کے رسول ﷺ اور ان کی آل پر درود پڑھی،
’’تحقیق حکم دیا عزوجل نے شان جلالی سے نماز کی بابت کہ نمازوں کی حفاظت کیا کرو بالخصوص بیچ والی نمازکی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے با ادب کھڑے رہو تو بس اسی باعث مجھے عصر کی نماز سب نمازوں سے ذیادہ عزیز ہے اور اس کا خاص اہتمام تو یقینالازم ہے۔‘‘
پھر کچھ دیر رکے، اور ایک لمبی سانس لے کر فرمایا،
’’نمازیں تو زندگی کا پرتوہیں کہ بے شک وقت فجر انسان گویا دوبارہ جی اٹھتا ہے اور ظہر تک عہد طفولیت میں رہتا ہے اور پھر عصر میں عین شباب پر آتاہے اور بے شک مغرب تو ڈھلتے سورج کے ساتھ ڈھلتی زندگی کا مظہر ہے اور عشاء کے بعد جب انسان امور حیات سے فراغت پا کر سوجاتا ہے تو وہ جو ہر چیز پر قادر ہے، اس کی روح قبض کرلیتا ہے اور پھر تو جن جن کو مزید زندہ رہنے کا اذن ملے، صرف ان ہی کی روح لوٹا دی جاتی ہے اور وہ سب دوبارہ جی اٹھتے ہیں اور بے شک انسان کی زندگی تو آذان اور نماز کے بیچ کے وقفے جتنی ہے اور یہ اس کااحسان ہے کہ اس نے ہمیں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر اپنے آنسو پونچھے،
’’تحقیق ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور بے شک ہمیں اسی ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔‘‘
دروازے کا واقعہ تو اتنا پرانا نہیں لیکن اس تناظر میں یہ مبرہن رہے کہ نمازوں کی طرف شیخ کا رجحان ہمیشہ سے ایسے نہیں تھا کہ گو حضرتؒ نے سلوک کی منزلیں ضرور طے کیں اور انہیں بلند درجات پر فائز فرمایا گیا لیکن ان کے ایک شاگرد کے بقول ان پر تو ایسا وقت بھی گذرا کہ انہوں نے برسوں ایک بھی نماز نہیں پڑھی۔
اس پر تعجب کا اظہار کیا گیا تو ایک اور شاگرد نے فرمایا،
’’جاننا ضروری ہے کہ شیخ ؒکسی وقت میں بغداد کے ایک بڑے مالدار تاجر تھے اور بے شک وہ تو ایک دینار سے انبار بنانے کا گر خوب جانتے تھے اور اسی باعث کہ دنیا کی طلب میں مخمور تھے، شعائر دین سے یکسر دور تھے۔ بغداد کا سب سے قیمتی گھوڑا آپ کے زیر استعمال رہتا تھا، جسم پر نادر سے نادر لباس اور سارا بدن عطر میں ڈوبا رہتا تھا اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ آپ جس راہ سے گزر جاتے، وہ دنوں تک معطر رہتا اور وہ تو بس اسی طریق پر اپنی حیات بتاتے تھے۔‘‘
چھٹے دروازے کے متعلق انہوں نے فرمایا کہ بے شک مجھے اس کے راز کا پتہ بالکل نہ چلتا اگر مجھے خیر کثیر نہ ملتا کہ بے شک خیر کثیر تو مجھے تو ایک فقیر نے دیا۔
ان سے فقیر کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا،
’’ایک دن خجند کے بازار میں ایک فقیر میرا عبا گیر ہوا۔‘‘
’’میں ایک دینار کے بدلے تجھے خیر کثیر دوں گا بول یہ سودا منظور ہے؟‘‘
میں اس عجیب کلام سے چونکا، اپنی عبا کھنچی اور اس سے از راہ تمسخر استفسار کیا،
’’اے بصارت سے عاری مرد تو کیا دیکھے لیکن میں ملک التجار ہوں اور اپنا نفع اور نقصان خوب دیکھتا ہوں۔ پھر تو بس تجھ پر لازم ہے کہ مجھ پر یہ ضرورآشکار کر اور مجھے دکھا کہ اس ایک دینار کے بدلے مجھے کیا ملے گا کہ میں تو منافع دیکھ کر ہی اپنے پلے سے کچھ دوں گا؟‘‘
وہ فقیر جو خوش الحان تھا بولا،
’’اس دینار کے بدلے میں تجھے قیمتی خزانے کی نشانیاں دوں گا جو تیری دنیا بدل دے۔‘‘
میں نے حد ردجہ تعجب کیا اور اس کی جھولی میں ایک سلطانی دینار ڈالا۔
سکے کی کھنکھناہٹ سنی تو اس فقیر نے کمال لحن سے سورہ التکا پڑھی جو میں نے بصد توجہ سماعت فرمائی۔ مجھ پر رقت طاری ہوگئی اور اس سے کہا کہ بے شک کثرت تو وہ رسی ہے جس کا ایک سرا انسان کے ہاتھ میں اور دوسرا تاریک گڑھے میں ہے۔ میں نے یہ کہااوراپنے آنسو روک نہ سکا۔
تس پر اس فقیر نے گلو گیر آواز میں کہا
’’اے تاجر بلکہ عبادت وہ رسی ہے جس کا ایک سرا انسان کے ہاتھ میں اور دوسرا ایک روشن اور کشادہ باغ میں ہے جہاں نہ تو نعمتوں کا حساب ہے اور نہ ہی ان میں کمی۔ تو پس انسان تو مختار ہے کہ حفرہِ پُرنار کی طرف جائے یا گلشنِ سدا بہار کی طرف۔‘‘
پھر کچھ دیر رک کر کہا،
’’اے تاجر یہ جو میں نے تیرے سامنے تلاوت کی ہیں میرے محبوب کی نشانیاں ہیں، جو مجھے اتنی عزیز ہیں کہ ان کے لئے میں اپنا سب کچھ قربان کر سکتا ہوں۔‘‘
یہ سنا اور میں نے گریبان چاک کر ڈالااور پھر میری دنیا بدل گئی۔
میرا اس روز سے طبعیت کا رجحان کچھ ایسا ہوا کہ امور تجارت میں دلچسپی بتدریج ترک کی اور ہر لمحہ دوست کے ذکر کواپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور اس کے کہے الفاظ کو اپنے لئے لباس۔ یوں اس طور مہینے گذر گئے۔
میں نے دیکھا کہ مال کا خیال میری عبادت میں اڑے آ رہا ہے تو آہستہ آہستہ اپنا سارامال اس کے راستے میں نچھاور کیا اور یوں میرے اور اس کے بیچ راستے کی دھول ہٹ گئی، ہاتھ کا میل ہاتھ سے جاتا رہا۔ راستہ صاف ہوا تو اس پاک ذات سے قربت کا راستہ فرض نمازوں، تہجد، اشراق، چاشت، اوابین، صلوٰۃ التسبیح اور صلوٰۃ الحاجۃ میں ڈھونڈا اور سجدوں میں گریہ و زاری کی۔ گو اس سعی میں تجارت، گھر بار، گھوڑے اور سب سامان گیا لیکن ان سجدوں کی بدولت دل کو سکون ملا۔
بیت
خلوص سجدہ ہر اک حال میں مقدم ہے۔۔۔ وہیں پہ دل بھی جھکا دے جہاں جبیں خم ہے
کہتے ہیں کہ تجارت کی طرف آپ کی عدم توجہی دیکھ کر بد دیانت ملازموں کے ہاتھ جو آیا، لے کر چلتے بنے اور دیکھتے ہی دیکھتے آپؒ پر فاقوں کی نوبت آگئی۔
بی بی نے طعنے دئے، اپنوں نے ملامت کی، شہر میں ہر کس و ناکس نے طنز کیا حتی کہ کچھ دوستوں نے تو انہیں دیوانہ بتلایا لیکن ان کی اللہ سے محبت کے استقلال اور ذکر اورعبادات کے اہتمام میں رتی بھر فرق بھی نہ آیا۔
ساتھی تاجروں نے، جنہوں نے ان کو ہمیشہ خلعت فاخرہ میں دیکھا تھا آپ کو پیوند لگے پیرہن میں پایا تو آپ پر فقرے کسے لیکن آپ ہمہ وقت محبوب حقیقی کے در پر ناصیہ فرسا رہے، اس کے کہے الفاظ پڑھتے رہے اور ایک بھی لفظ شکوے کا اپنی زبان پر نہ لائے۔
کسی راہ چلتے نے ایک دن ان کو سوکھی روٹی پانی میں ڈبو ڈبو کر تناول فرماتے دیکھا تو بصد تاسف کہا،
’’اے ابا موسی اللہ معاف بچائے تیری کثرت تو غربت میں تبدیل ہو گئی اور میں تو بے شک یہ دیکھتا ہوں کہ تیرے اوپر تو مصیبت ہی مصیبت ہے۔ اللہ ہر کسی کو اس بد حالی سے دور رکھے۔‘‘
آپ ؒنے فرمایا،
’’الحمد اس پاک ذات کے واسطے جو زندہ ہے اور قائم ہے کہ گو تو مجھے مصیبت میں گھرا دیکھ کر حزین ہوتا ہے لیکن میں خوش ہوں کہ معیصت سے دور ہوں۔‘‘
چھٹے دروازے کے واقعے سے چند روز قبل کسی ساتھی تاجر نے ایک دن، واسطے استہزا کے، جب شیخ نے ابھی سلام پھیرا ہی تھا، دریافت کیا،
’’یا ابا موسی کیا تیرے ہاتھ سے تجارت کا گر جاتا رہا؟ میں تو بے شک یہ دیکھتا ہوں کہ تیرا خسارہ تیرے نفع سے ذیادہ ہوگیا؟ کیا درحقیت تم نے کوئی ایسی تجارت ڈھونڈی ہے جس سے تیرے گھاٹے کا ازالہ ہوئے، کچھ ہمیں بھی اس کی خبر دو کہ ہم مشتاق ہیں۔‘‘
پھر انتہائی غرور سے مصلحے کے کونے پر پاوں رکھا اور رعونت سے گویا ہوا،
’’ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جو عبادت اﷲ کی طرف سے مقرر ہے وہ بہت ذیادہ ہے اس جنت کے لئے جس کا اس نے وعدہ کیا گیا ہے سو جتنی پنج وقتی عبادت ہم کرتے اس سے زیادہ کی بھلا کیا ضرورت؟ بے شک تجارت کا بین اصول تو ہے کہ سرمایہ بقدر منافع لگانا چاہیئے تو پس لازم ہے کہ جو فرض ہے صرف اس پر اکتفا کیا جائے اور گریز کرنا چاہیئے ہر اس زائد عبادت سے جس سے تجارت میں خلل واقع ہو۔‘‘
آپ ؒاس بات پر بہت ملول ہوئے، فرمایا،
’’اے فلانے اگر ہمیں اس فائدے اور گھاٹے کا، جو اللہ نے مقرر کیا ہے، عشر عشیر بھی پتہ لگ جاے تو خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ہم کاروبار حیات، خوردونوش، اپنی پاک دامن بیبیاں، اپنی جان سے ذیادہ عزیز اولاد حتی کہ سانس لینا بھول کر باقی ماندہ زندگی سجدہ ریز گذاریں اور اسی میں مشغول جان دے دیں۔ بے شک ہم تو اپنے واسطے مقرر کردہ آسانیوں کو اپنا حق اور اسے اس ذات پرجو کریم ہے، مجید ہے اور عزیزہے احسان سمجھتے ہیں۔‘‘
اس پر اس مغرور نے استفسار کیا،
’’تو اے ابا موسی پھر تیرے نزدیک امور زندگی اور دین کے شغل میں کیا تناسب ہو کہ اللہ بھی خوش رہے اور دنیا کا کاوبار بھی چلے کہ بے شک اگر تجارت دنیا سے پہلو تہی برتی جاوے تو میں بھی اپنے لئے تیری طرح فاقے دیکھتا ہوں اور یقینا تہی شکمی تو اللہ کا عذاب ہے جس سے مومن کو تو اللہ دور رکھے ہی رکھے یہود کو بھی اس سے امن دے۔‘‘
آپ نے یہ سنا تو فرمایا،
’’اگر تو دنیا کی رنگینی میں اللہ کو ڈھونڈتے ہو تو یاد رکھو کلمہ دنیا اور اللہ میں صرف ایک لفظ مشترک ہے ہاں دینار اور دنیا میں چار۔۔۔ تو بس عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہے۔ اب یہ تیری مرضی ہے کہ عبداللہ بنتا ہے یا عبد الدینار۔ دوسری بات، یہ تہی شکمی ہی تھی جو اللہ کے رسولﷺ کو بہت مرغوب تھی اور ہماری ماں اور آنجناب کی پاک بی بی نے فرمایا کہ مدینے میں انجنابﷺ نے کبھی بھی متواتر تین روزسیر ہو کر گندم کا کھانا نہیں کھایا اور یہاں تک لکھا آیا ہے کہ آپ ﷺ تو تین تین دن روزے کی حالت میں رہتے تھے۔‘‘
قصہ مختصر جس دن چھٹے دروازے کا واقعہ ہوا اس دن ذی قعد کا چاند نکلے تین دن ہوچکے تھے۔ آپؒ نے نیت عصر کے نماز کی فرات کے اس طرف باندھی اور حسب معمول لب دریا کشتی کا انتظار کیا۔ آپ نے دریا پر نگاہ کی دریا اپنے جوبن پر تھا۔۔۔ پاٹ اس کا چوڑا، خاموش وپر سکون۔۔۔ جیسے ایک پیر کہنہ سالہ، زیرک، مانند افلاطون، جس کے سینے میں سارے جہاں کی حکایتیں مدفون اور وہ پھر بھی لب سلے خاموش اپنے تفکر میں گم، مجنون۔ جہاں آپ کھڑے تھے وہاں درختوں نے سایہ دار جھنڈ کی شکل اختیار کر لی تھی اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چل رہے تھے۔
آپ نے اللہ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کیا اور انسانوں پر عزو جل کی رحمت کو ایک سایہ دارد درخت سے تعبیر کیا کہ تمام انسان، پرند چرند اور حشرات، پودے غرض ہر ذی روح اس درخت کے سائے کے نیچے آجائے اور اپنی مراد حاصل کر لے۔۔۔ کوئی آرام کوئی طعام۔۔۔ مگر پھر بھی اس میں کمی نہ آئے اور یہی نہیں کسی سے اس خدمت کا معاوضہ بھی طلب نہ کیاجاوے۔
آپؒ بہت دیر کھڑے رہے۔ تحقیق آپؒ نے بہت انتظار کیا لیکن کسی کشتی بان کو نہ دیکھا۔ عصر کا وقت نکلا جا رہا تھا۔ اللہ سے ملاقات میں تاخیر کا سوچ کر آپؒ پر بے چینی طاری ہوئی اور گریئے نے غلبہ پایا اوریوں حضرت کی ریش مبارک آنسوں سے تر ہوگئی۔
ابھی اپؒ اپنے خیالات میں مستغرق تھے کہ ایک کشتی، بغیر کسی نا خدا کے، خالی، آپؒ کے سامنے آکررک گئی۔ آپ ؒنے چنداں تعجب نہ کیا اور اللہ کا نام لیکر اس کشتی میں سوار ہو گئے کہ اس پاک ذات نے سواری کو ان کے تابع کیا ورنہ نہ تھے وہ اس کو قابومیں لانے والے۔
کشتی چلتے چلتے ایک بہت ہی خم دار موڑ سے گذری اور آپ ؒنے دفعتا اپنے آپ کو درختوں کے جھنڈ میں پنہاں، ایک پرانے برج، خستہ حال، کے سامنے پایا۔
دور سے اس برج کی حالت یہ تھی کہ اس کا کچھ حصہ پانی میں غرق تھا اور اس کے ارد گرد جھاڑ پھونس نے ایسا منظر باندھا تھا کہ گویا کسی مشاق مصور کی تصویر ہو۔ مستزاد اس پر، شبیہ اس برج کی پانی میں اس صورت پر تھی گویا پانی میں آویزاں ہو، یا جیسے ایک برج زمین میں گڑا اور دوسرا اس کے عین اوپر۔ آپؒ نے مشاہدہ کہ اس برج کی بنا میں توازن تھا گویا ایک میزان میں معلق ہو۔ وہ لمبائی میں تین مکانوں سے ذرا اونچا اور چوڑائی میں ایک مکان یا اس سے کچھ کم تھا۔ اس کا رنگ سفید تھا اگرچہ اس پر عمر گزرنے کے ساتھ کائی جم گئی تھی اور جا بجا اس کی دیواروں میں سوراخ تھے اوراس برج کو ہر طرف سے جھاڑیوں نے گھیر رکھا تھا۔
سامنے سے یہ برج ایک محراب نما صورت پر تھا کہ اس میں ایک دروازہ، صندلی تھا جس پر نقش نگار نفاست اور کاریگری سے بنائے گئے تھے گو اب مرور زماں سے ان کی ہیت تبدیل ہوچکی تھی اور رنگ پھیکا پڑ چکا تھا۔ نیز اس محراب کے دونوں طرف طاقچے بنے تھے جس میں پرندوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ دروازے کے عین اوپر، دائیں اور بائیں دو دریچے منقش تھے جو بند تھے۔
دروازے تک چار یا پانچ سیڑھیاں ایسی بنی تھیں کہ نچلی سے اوپر والی سیڑھی تک جاتے جاتے چوڑائی ان کی بتدریج کم ہوتی جاتی تھی۔ سیڑھیاں اگرچہ سنگ مرمر کی تھیں لیکن پانی کی روش سے فرسودگی کا شکار تھیں اور پہلی سیڑھی تک پانی جب جب لہروں میں آتا تھا تو اسے ڈھانپ لیتا تھا اور پھر کف میں پنہاں جیسے سیڑھی دفعتا اچھل کر باہر آجاتی تھی گویا کوئی نو مشق غواص پانی میں ڈوب کر سانس لینے کے لئے سطح آب پر آئے۔
آپ نے مشاہدہ کیا اور دنگ رہ گئے کہ برج کی جو شبیہ دریا میں معلق تھی اگر چہ وہ برج خستہ حال کی بہو نقل تھی لیکن تزیئن و آرائش میں جیسے معمار اسے ابھی ختم کر کے اٹھے ہوں کہ بے شک وہ خالق کے تخلیق کا شاہکار تھی۔ سفید ایسے جیسے صبح صادق کا نظارہ اور اس کے محراب پر زمرد، عقیق اور نیلم سے بنے بیل بوٹے۔ طاقچوں میں ٹمٹماتی لو والے سنہرے فانوس، دروازہ صندلی چمکتا اور اس پر لگا انکڑہ طلائی۔ آپ حقیقت اور ضد حقیقت کے اس تضاد سے بے حد متعجب ہوئے اور اپنے آپ سے سوال کیا کہ اس تضاد کی بھلا کیا تعبیر ہو کہ مجاز حقیقت سے ذیادہ خوبصورت نظر آئے۔
اسی اثنا میں کشتی برج کے محراب کے سامنے آن رکی جہاں سے برج کا دروازہ بس چند ہی سیڑھیاں دور تھا۔ حضرت نے کشتی سے اتر کر اپنے پائنچے اوپر کئے اور حد درجہ احتیاط کے ساتھ سیڑھیاں چڑھیں اوردروازے کا جایزہ لیا۔
دروازہ پرانا اور دیمک زدہ تھا اور بند تھا۔ آپ قریب گئے تو اندازہ ہوا جیسے اس دروازے کے اس پار کوئی ہے۔ دفعتا اندر سے بچے کے رونے اور کسی عورت کے سسکیوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔
آپ سے صبر نہ ہو سکا اور اس برج کے دروازے پر دستک دی۔
اندر سے کسی نے گلو گیر آواز میں فصیح عربی میں ان کو چلے جانے کا کہا۔
آپ نے پیچھے دیکھا تو وہ کشتی وہاں سے جا چکی تھی اور پیچھے جانے کا راستہ اب مسدود تھا۔ آپ نے سوچا ضرورکسی محصنہ کو مدد کی ضرورت ہے سو واپس پلٹنا نیک خیال نہیں کیا اور اس برج کے اندر جانے پر اصرا رکیا اوراسی غرض سے دوبارہ دروازے پر دستک دی۔
آپ کے اس اصرار پر اس خاتون نے حضرت سے ان کی جوتیاں طلب کیں۔ آپ اس نرالی التجا پر متعجب تو ضرور ہوئے مگر جوتیاں دینے میں کوئی تامل نہ برتااوردروازے کے نیچے سے اپنی جوتیاں سرکادیں۔ دروازہ ایک خفیف آواز کے ساتھ خود بخود کھلتا چلا گیا۔
اندر جا کے آپ نے اپنے آپ کو ایک چوکور نما کمرے میں پایا جس میں نہ تو کوئی خاتون تھیں، نہ بچہ اور نہ ہی ان کے جوتے بلکہ کمرہ تو بے تکی اشیا سے بھرا پڑا تھا۔۔۔ لکڑی کا گھوڑا، چوبی شمشیر، مٹی سے بنی چھوٹی اینٹیں اور کچھ ایسی چیزیں جن میں بچوں کی تفریح کا عنصر ہو۔
انہوں نے نظریں دوڑائیں تو کمرے میں چارروشن دان، دو بڑے اور دو چھوٹے اور ایک آہنی فانوس تھا جس میں چراغ ندارد۔
آپ نے مشاہدہ کیا کہ جس دروازے سے اندر آئے تھے وہ اب غائب ہوچکا تھا اور وہاں صرف دیوار تھی ہاں البتہ ان کے سامنے دیوار میں ایک اور مقفل دروازہ تھا۔
آپ نے حد درجہ تعجب کیا اور سوچا کہ کیا وہ آواز میرے سماعت کا فریب تھی یا یہ کوئی سحر کا کارخانہ ہے۔ آپ کو اپنے استاد کا یہ قول یاد آیا کہ سماعت تو بصارت سے کم تر ہے۔ تب آپ نے استدلال کیا کہ بے شک اگر وہ صرف سماعت پر توکل نہ کرتے اور دروازے کی درز سے نظارہ کرتے تو اس سحر کے کارخانے میں تو نہ پھنستے لیکن اب یہ ملال بے سود تھا کہ واپس جانے کا راستہ مفقود تھا۔
دفعتا آپ کو ایسے لگا کہ آپ کچھ بھی بولنے سے قاصر ہوگئے ہیں۔ اس امر سے آپ کو تشویش ہوئی اور آپ پر گریہ طاری ہوا اور وہ اس باعث کہ شاید انہیں اللہ کے ذکر سے محروم کر دیا گیا ہے کہ ان کی قوت گویائی سلب ہو چکی ہے۔ آپ اس امر سے بہت ملول ہوئے۔ ابھی آپ اس حال پر تھے کہ انہیں دور سے مٹھاس سے بھری، حلاوت میں ڈوبی، شیرینی میں گھلی ملی ایک آواز نسوانی سنائی دی۔
آواز میں اتنی چاشنی تھی کہ شیخ نے فرمایا کہ اسے سن کر وہ تو جیسے مخمور ہوگئے اور پھر نیند نے ایسے غلبہ پایا کہ آپ دنیا اور ما فیہا کو بھول گئے۔
جب ان کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اگرچہ آپ کی گویائی واپس آ چکی ہے لیکن آپ اس کمرے میں پڑی اشیا ء کا نام لینے سے قاصرتھے۔ یہ صورت ذیادہ دیر نہ رہی کہ ایک جوان اور قدرے مبہم نسوانی آواز نے انہیں ایک ایک چیز کا نام سکھا دیا، ان کے درمیان ربط بتا دیا اور یوں آپ دوبارہ نطق پر قادر ہوگئے۔ آپ نے اللہ کا بے حد شکر ادا کیا کہ وہ دوبارہ اس پاک ذات کا ذکر باآواز بلند کر سکتے تھے اور اس سعادت سے محروم نہ رہے۔
یکایک نسوانی آواز رک گئی۔ آپ نے سنا کہ سامنے دروازے کے پیچھے کوئی مرد زورزور سے کلام کر رہا ہے اور کسی کی سرزنش کر رہا ہے۔ آپ دروازے کے سامنے کھڑے ہوگئے اور پھر اس کی درزمیں اندر جھانکا تو اس کے اندر تاریکی تھی۔
آپ نے دروازے پر دستک دی تو اس بار ایک اور نسوانی آواز نے حضرت سے اس کمرے میں داخل ہونے کے عوض آپ کا عمامہ طلب کیا۔ حضرت نے بلا حیل حجت اپنا عمامہ اتارا اور اس دروازے کے نیچے سرکایا اور یوں آپ دوسرے دروازے میں داخل ہوگئے۔
وہ کمرہ عجیب حالت پر تھا کہ اس کا دورازہ روشندانوں سے چھوٹا تھا جو تعداد میں دس تھے، چھ چھوٹے اور چار بڑے۔ یہ کمرہ مرد و زن سے بھرا تھا جو ایک دوسرے میں گم، کچھ کے ہونٹ دوسروں کے ہونٹوں سلے اور کچھ اس سے بھی آگے کی کیفیت میں لیکن آگے کی تفصیل شیخ ؒ نے، جو خود حیا کا پرتو تھے، بتانے سے معذرت کی مبادہ اس سے جذبات کو ابال ملے۔
کچھ شاگردوں نے چشم تصور سے ان کیفیات کا مشاہدہ کیا اور از حد مسرور ہوئے۔
آپ ؒنے دیکھا کہ کچھ لوگ کتابیں ہاتھوں میں پکڑے، کوئی شمشیر سازی کرتے اور چند خطبے دینے میں گم تھے اور کچھ لوگوں ایک دوسرے سے دست و گریبان تھے۔ انہیں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دوسروں کو اس حالت میں گم دیکھ کر ان کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر رہے تھے۔
حضرتؒ کو، اللہ ان پر اپنی رحمت تمام کرے، اس بات کا علم نہ ہواکہ وہ انبوہ کس لئے ایک دوسرے سے غیر شرعی حالت میں متصل تھے ۔ آپ کو سمجھ نہیں آئی اور پھر آپ پر نیند کا غلبہ ہوا۔ جب آپ جاگے تو دیکھا کہ آپ کو احتلام ہو چکا تھا اور مذید دیکھا کہ اگلا دروازہ واہ ہو چکا تھا۔ آپ نے حالت جنابت میں اپنے آپ سے کراہت محسوس کی اور شتابی سے غسل سے فراغت پا ئی اور اگلے کمرے میں وارد ہوئے۔
آپ وہاں گئے تو دیکھ کر اور بھی ششدر رہ گئے کہ اس کمرے کی رنگینی ہی الگ صورت پر تھی۔ وہاں جوان لڑکیاں، خوبرو حسین، زہرہ جبین، نشیب و فراز سب برابر، ہونٹ جیسے برگ گلاب، مجسم شراب پریوں کی مانند انہیں دیکھ رہی تھیں اور شیخ کو ان سے کچھ ایسا التفات پیدا ہوا کہ آپ سب کچھ بھول گئے۔
آپ نے مشاہدہ کیا کہ اس کمرے میں چار بڑے روشندان تھے۔ یہی وہ مقام تھا کہ ان کو عصر کی آذان سنائی دی لیکن آپ نے سستی دکھائی اور جب نماز پڑھی بھی تو آپ ان مہ جبینوں کے نقش و نگار میں اتنے گم تھے کہ ان کو نماز میں رکعتوں کی ترتیب یاد نہ رہی اور وہ مصلحے سے بھی اس مخمصے میں اٹھے کہ انہوں نے قائدہ کب فرمایا اور آیا دو رکعتیں پڑھیں یا پوری نماز۔
یکایک دیکھا کہ پریاں اب ان سے اعراض برتتی ہیں اور اس باعث آپ نے اپنے آپ کو کم مایہ تصور کیا اور اس کمرے سے نکلنے کی سعی کی۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کمرے کی حالت دیکھ کر میری وہ حالت ہوگئی جو اس پیر مرد کی تھی جو ظلمات میں ایک نازنین پر عاشق ہوگیا تھا اور پکارتا تھا،
’’ایک بار دیکھا ہے دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے۔‘‘
اپنی طرف نازنیان شہر گل رویان کو ملتفت نہ پا کر آپ نے بادل نخواستہ اور دل میں واپس آنے کا ارادہ باندھ کر اگلے کمرے کا قصد کیا۔
اس دروازے کے پاس پہنچے تو آپ سے آپ کی نمازیں، اذکار، نوافل حتی تمام عبادات مانگیں گئیں۔ آپ نے دینے میں تامل نہ کیا کہ آپ اس کمرے سے، جن میں آپ کی کوئی وقعت نہ تھی نکلنا چاہتے تھے۔ آپ نے ایک لمبی آہ بھری اور اپنی تمام نیکیاں ان کے حوالے کیں اور اگلے کمرے میں داخل ہوگئے۔
اندر کا منظر الگ تھا اور اس کمرے میں تین بڑے اور دو چھوٹے روشندان تھے۔ یہاں کوئی کسی سے کلام نہ کرتا تھا۔۔۔ بس سر جھکائے اپنے آپ میں گم تھا۔ اس مشقت میں ان کی سانسیں پھول رہی تھیں، زبانیں باہر تھیں، پورے بدن پر پسینہ تھا اور وہ سب تو بس کثرت تعب سے بدحال تھے، جان بلب تھے نڈھال تھے لیکن پھر بھی اسی مشقت میں مشغول تھے۔
آپ نے سماعت کیا کہ اس کمرے میں مسلسل آذان کی آواز آ رہی تھی لیکن کسی کو اتنی فرصت نہ تھی کہ نماز پڑھے۔ آپ نے ان لوگوں کی حالت زار پر حد درجہ افسوس کیا اور تکبر سے ان کو فاسق اور فاجر بتلایا لیکن پھر اپنے غرور سے بھرے کلام پر ندامت کا اظہار کیا اور اللہ سے اس توبہ کی کہ بے شک وہ تواب ہے اور سب سے ذیادہ رحم کرنے والا ہے۔
آپ اس کمرے میں کچھ دیر رہے اور آپ نے دیکھا کہ آپ بھی اس مشقت میں پڑگئے اور ہوتے ہوتے آپ کے پاس بھی سیم و زر کا انبار آگیا ہے لیکن جتنا آپ کو ملتا گیا اتنی ہی آپ کی حرص بڑھتی گئی۔ کثرت تعب سے آپ کے داہنے ہاتھ میں رعشہ آ چکا تھا، بال جیسے جھڑ گئے تھے، آنکھوں کے گرد حلقے اور انگلیوں کے جوڑ دونوں طرف سے ابھر کر آئے تھے۔ آپ اور سیم و زر جمع کرنا چاہتے تھے لیکن یہ سلسلہ ذیادہ دیر نہ رہا اور آپ کو درشتی سے کہا گیا کہ وہ اب دوسرے کمرے میں چلے جائیں۔ مال کی محبت میں گم، آپ نے وہاں سے باہر جانے میں کچھ تردد کا اظہار کیا لیکن دو پہرہ داروں نے انہیں نیزے لہرا کر دکھائے اور آپ نے ناچار، برخواستہ خاطر، وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا۔
آپ جب اگلے دروازے کے قریب پہنچے تو آپ سے وہ سب کچھ، جو آپ نے وہاں سے حاصل کیا تھا، مانگا گیا۔۔۔ حتی کہ ان کا لباس۔ تحقیق وہ تو پانچویں کمرے میں عریاں داخل ہوئے اس صورت کہ آپ نے اپنے عورات کو بائیں ہاتھ سے چھپا رکھا تھا اور داہنے ہاتھ سے آنسوں سے بھری آنکھیں۔ آپ نے اللہ سے دعا کی کہ ان کے ستر پر کسی کی نظر نہ پڑے۔
بیت
اس کی قبولیت میں کوئی شک نہیں رہا
بھیجے ہیں ہم نے اشک بھی اب کے دعا کے ساتھ
گھڑی قبولیت کی تھی، مانگنے والی کی صدا بغیر تعطل کے عرش میں اس کے حضور پہنچی جو بہت ذیادہ سننے والا ہے۔۔۔ دعا قبول ہوئی اور کمرے میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔
چھٹے دروازہ شفاف تھا لیکن اس طرف کچھ نظر نہیں آتا تھا، بس ایک دھندلا سا منظر تھا اور بس اتنا گمان ہوتا تھا کہ دروازے کے اس طرف ایک الگ سی دنیا آباد ہے۔ یکایک ان کو یوں لگا جیسے اس کمرے میں کوئی حضرت داخل ہوئے ہوں۔ آپ اگرچہ ان کو اور وہ ان کو دیکھ نہیں سکتے تھے لیکن آپ نے ان کو اپنی پوری روداد سنائی اور ان سے اس چھٹے دروازے کے متعلق استفسار بہ صد اصرار کیا۔ اس نے سرگوشی میں بتلایا،
’’اس دروازے کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہاں مانتا ہوں کہ بصارت سماعت سے بلند تر ہے اور جو نظر آتا ہے وہ خوشنما ترہے اس سے جسے تم سماعت کرتے ہو۔ اس قابل تحیر منظر کی، جس کا تم مشاہدہ کرتے ہو، البتہ حقیقت کوئی نہیں، یہ تو بلکہ فریب نظر ہے۔‘‘
آپ نے سوال کیا،
’’اس کا کیا ثبوت ہے کہ جو تم کہہ رہے ہو حقیقت ہے۔‘‘
’’مجھے تو اس کا بھی یقین نہیں کہ جو میں کہہ رہا ہوں، میں ہی کہہ رہا ہوں۔‘‘
ابھی آپ اس کشمکش میں تھے کہ یکایک ان کو یوں لگا جیسے اس کمرے میں کوئی دوسرے حضرت بھی داخل ہوئے ہوں۔ آپؒ اگرچہ ان کو اور وہ ان کو دیکھ نہیں سکتے تھے لیکن آپ نے ان کو اپنی پوری روداد سنائی اور دروازے کے متعلق استفسار بہ صد اصرار کیا۔ اس نے سرگوشی میں بتلایا،
’’یہ دروازہ حقیقت ہے اور تم اس کے اس پار گذرو گے تو تم پر حقیقت منکشف ہو جائے گئی۔ لازم ہے کہ تم سے ان تمام کمروں کی بابت سوال ہوگا جہاں تم نے وقت گذار، دولت کمائی اور علم حاصل کیا اور تو اور تم سے تو یہ بھی سوال ہوگا کہ تیری نظریں کہا ں کہاں رہیں۔‘‘
آپ نے سوال کیا،
’’اس کا کیا ثبوت ہے کہ جو تم کہہ رہے ہو حقیقت ہے۔‘‘
’’اس کا کوئی ثبوت نہیں ہاں اس کا مجھے یقین ہے، دل کا یقین۔‘‘
آپ اس مخمصے میں گرفتار چاہتے تھے کہ اس آدمی سے مزید سوال کریں کہ یکایک ان کو یوں لگا جیسے اس کمرے میں ایک اور حضرت بھی داخل ہوئے ہوں۔ آپ اگرچہ ان کو اور وہ ان کو دیکھ نہیں سکتے تھے لیکن آپ نے ان کو اپنی پوری روداد سنائی اور دروازے کے متعلق استفسار کیا،
’’یہ دروازہ آدھا فریب اور آدھی حقیقت ہے اور عقل کی سمجھ سے باہر ہے۔ بہتر ہے تم اس دروازے کے متعلق بھول جاو اور گھوم کر تیسرے کمرے میں دوبارہ پہنچ جاو، جہاں تم نازنینان گل رویان کا نظارہ کرسکتے ہو۔‘‘
’’اس کا کیا ثبوت ہے کہ جو تم کہہ رہے ہو حقیقت ہے۔‘‘
’’آنے والی بات سے زیادہ پر یقین وہ بات ہوتی ہے جس کا تم تجربہ کر چکے ہوتے ہو اور اس پوری بات کا مجھے پورا یقین ہے بھی اور نہیں بھی۔‘‘
آپ نے ان تینوں کے یقین کا جائزہ لیا اور اس دروازے کی طرف بڑھے۔
آپ نے اس دروازے کو دیکھا اور سمجھ گئے کہ اس کی حقیقت معلوم کرنے کی قیمت بہت ذیادہ ہے۔ آپ نے اللہ سے دعا کی کہ وہ اس مخمصے سے نکل آئیں۔ تو پھر گھڑی قبولیت کی تھی، مانگنے والی کی صدا بغیر تعطل کے عرش میں اس تک پہنچی جو دعائیں سننے والا ہے اور دعا قبول ہوئی۔
بیت
چون بر آورد از میان جان خروش
اندر آمد بحر بخشایش بجوش
دفعتا نظارہ فرمایاکہ اللہ نے آپ کی ستر ایک سفید چادر سے ڈھک دی ہے اور اس کے ساتھ ہی کمرہ یکدم روشن ہوا۔ آپ ؒنے ان تینوں اصحاب کی طرف توجہ سے دیکھا اور دیکھ کر آپ ششدر رہ گئے کہ ان تینوں صاحبوں میں سے دو تو بصارت سے با لکل عاری تھے۔
لکھا آیا ہے کہ اس واقعے کے عین تین دن بعدحضرت کرمانی ؒ عالم جوانی میں دنیائے فانی سے گذر گئے۔ آخری سانس لیتے ان کی لبوں پر سورہ طہ کی یہ آیت جاری تھی،
’’بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو۔‘‘
پھر آپ نے آخری سانس میں شہادت پڑھی،
آپ کا وصال ہوگیا۔
آپؒ ایک سفید لباس میں ڈھکے ستر اور اس نماز کے ساتھ، جس میں وہ شریک تو تھے پر نہ تھے وہ اس کے امام اور نہ ہی اس میں مقتدی، چھٹا دروازہ پار کر گئے۔
تو یوں اگرچہ شیخ پر چھٹے دروازے کی حقیقت کھل گئی لیکن ان تشنگان علم پر علم کا یہ فقیدلمثال دروازہ بند ہوگیا جو ان کے کھلے در پر ہمہ وقت علم کی جستجو میں ان کے گرد مانند پروانہ بے تاب رہتے تھے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے، ان کے مرقد کو نور سے بھر دے آمین۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.