Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چھوتی تی تی تا

صغیر رحمانی وارثی

چھوتی تی تی تا

صغیر رحمانی وارثی

MORE BYصغیر رحمانی وارثی

    اراؤں۔۔۔ وسطی بہار کا ایک گاؤں اور اس کی ایک صبح۔ ادھر، جدھر آسمان جھکا ہے، دھرتی کی کوکھ سے نوزائیدہ بچے جیسی ملائم، گلابی صبح دھیرے دھیرے پاؤں نکال رہی ہے۔ بیٹھے بیٹھے ریڑھ کی ہڈیاں اکڑ گئی ہیں مجری کی۔ جسم کے ایک ایک حصے میں درد چبھنے لگا ہے۔ ہاتھ کی دسوں انگلیاں پھنسا کر جسم کو اینٹھتی ہے۔ چرر۔۔۔ ر۔۔۔ انگ انگ سے رس ٹپکنے لگا تھا لاج کا۔ چہرہ سرخ ہو اٹھا تھا۔ دھت۔۔۔ جھینپ جاتی ہے۔ زور پڑنے سے پٹھے پر قمیص کی کئی کئی برسات کھائی سلائی بھسک گئی تھی۔ انگلی بھر چاک کے اندر سے گوری چمڑی لجائی لجائی جھانکنے لگی تھی۔

    صبح کاذب سے قبل۔۔۔ ابھی صبح پوری طرح نمودار نہیں ہوئی تھی۔ کونے کھدرے سے کھدبدی چڑیاں کھلی ہوا میں نکل آئی تھیں اور چھت اور اس کی ریلنگ پر پھدکنے لگی تھیں۔ دیکھتی ہے انہیں مجری اور پھدکتی ہے من ہی من اور چہچہاتی ہے پھر شانت ہوجاتی ہے۔ زور زور سے جماہی لینے لگتی ہے۔ رات بھیانک تھی۔ پوری رات اس نے چھت پر بیٹھے بیٹھے گزاری ہے۔ سونا تو دور، چارپائی پر لیٹنے تک کی خواہش نہیں ہوئی تھی اس کی۔

    بناس پوری رات بہتی رہی تھی بلکہ رات اس کا بہاؤ کچھ زیادہ ہی تیز تھا۔ رہ رہ کر اس کی دھار سے ایک عجیب طرح کا شور پیدا ہوتا تھا۔ پوری رات اس نے خوف اور دہشت کے بیچ گزاری ہے۔ رات کا ایک ایک منظر اب تک اس کی آنکھوں میں کسی خوف ناک، ڈراؤنے خواب کی طرح گھوم رہا ہے۔ ریت کی طرح گڑ رہا ہے چبھ چبھ، جگنوؤں کی طرح ٹمٹماتی بے شمار بتیاں۔۔۔ بڑے بھیا کا کھیت خالی ہوچکا ہے۔ بوجھے ڈھوئے جاچکے ہیں۔ عجیب ہے۔ رات کی سیاہی میں سب کچھ دکھائی دے رہا تھا، صبح کے اجالے میں کچھ بھی نہیں۔ سوالیہ نشان لگ گیا تھا اجالے پر۔ اٹھ کر ریلنگ تک آتی ہے۔ پیپل کا درخت پہاڑ کی طرح کھڑا ہے۔ عرصہ پہلے بندھی ہوئی سوت کالی پڑچکی ہے۔ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہی ہے۔

    بناس اب بھی بہہ رہی ہے۔ برسوں سے بہتی آرہی ہے۔ جن دنوں وہ تین ربروالی جانگیا پہنا کرتی تھی اور دو دو چوٹیاں آگے پیچھے لٹکائے نو گھروں میں سے ایک گھر میں غوٹی ڈال چھوتی تی تی تا کا کھیل کھیلا کرتی تھی، بناس کو تب سے بہتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ ضرور بناس میں اور اس کے کنارے پر کھڑے پیپل کے درخت میں کوئی گہرا رشتہ تھا۔ گاؤں میں کئی پیپل ہیں، بوڑھے بوڑھے۔ اور کسی میں کوئی سوت کیوں نہیں لپیٹتا؟

    چھوتی تی تی تا۔۔۔

    نوگھروں میں سے ایک گھر۔ یہ گھر میرا ہے۔ پورے حق کے ساتھ اس میں نشان لگا دیا کرتی۔ گویا خواب دیکھنا اس کا حق ہو۔

    ’’اماں، بناس والے پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی ہیں؟‘‘

    ’’یہ جان کر تو کیا کرے گی؟‘‘

    ’’میں بھی لپیٹوں؟‘‘

    ’’تیرا بیاہ ابھی نہیں ہوا ہے۔‘‘

    یہ گھر میرا ہے۔ چھوتی تی تی تا۔ برسات کے دنوں میں بناس جب پوری طرح بھر جاتی، وہ اپنے کھیت میں کام کرنے والی بنیہار عورتوں کے ساتھ گھاٹ پر چلی جاتی۔ یہ صرف بہانا ہوتا۔ دیکھنا تو ہوتا تھا پیپل کو۔ کیسے لپیٹتی ہیں سوت؟

    چانچر پر بیٹھ کر دونوں پیر پانی میں لٹکا دیتی۔ ڈرپوک پرتھا تھا۔ پانی اسے کاٹتا تھا۔ کئی کئی دنوں پر نہاتا۔ کلوٹا۔

    ’’تم جانتے ہو، پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی ہیں؟‘‘

    وہ ’نا‘میں سر ہلاتا۔ دور سے ہی تاکہ اس کی چھپر چھپر سے بھیگے نہیں۔ کھل کھل ہنس دیتی وہ۔ ’’بدھو۔۔۔ تم بھی نہیں جانتے۔ ابھی میرا بیاہ نہیں ہوا ہے۔ بیاہ ہوجائے گا تو۔۔۔‘‘

    بھیگ بھاگ کر گھر لوٹتی تو اماں ڈانٹتیں، ’’تو لڑکی ذات ہے۔ وہ بھی بڑے گھر کی۔ بنیہاروں (مزدوروں) کے ساتھ تیرا میل جول ٹھیک نہیں۔ بڑے بابو کو پتا چل گیا تو۔۔۔؟‘‘ اماں کی صرف دھونس ہوتی تھی، ڈرانے کے لیے۔ بیٹی کے باپ کا پورا جسم آنکھ اور کان ہوتا ہے۔ انہیں پتا تو ہوتا ہی تھا لیکن انہوں نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ بس گود میں لے کر سمجھادیتے، ’’تم کو ندی میں نہیں جانا چاہیے۔ کچھ ہو ہوا گیا تو ہم کیا کریں گے۔ ہم تو خوب روئیں گے۔ اوں۔۔۔ اوں۔۔۔ اوں۔‘‘ بڑے بابو رونے کا ناٹک کرنے لگتے۔ تبھی وہ زور سے چھینکتی اور بڑے بابو سچ مچ رونے رونے کو ہو جاتے۔

    فوراً آرہ، فاروق حسین کے دواخانہ، مٹھیا والے ڈاکٹر کے یہاں لے جاتے۔ بڑے بابو کافی پڑھے لکھے تھے۔ پہلے زمانے کے بی اے تھے۔ انگریزی فر فر بولتے تھے لیکن انہوں نے کبھی انگریزی دوائی نہیں دلوائی۔ کچھ ہوا نہیں کہ مٹھیا والے ڈاکٹر کے یہاں پہنچ جاتے۔ مٹھیا والے ڈاکٹر پہلے اسے دلارتے پھر اس کے منہ میں دوچار بوند دوائی ڈال دیتے۔ اتنی کسیلی کہ منہ کھرا ہوجاتا۔ پھر میٹھی گولیاں کھانے کے لیے دیتے۔ رفتہ رفتہ وہ اس کی عادی ہوگئی۔ پہلے ہی میٹھی گولیاں ہاتھ میں لے لیتی اور دوائی پینے کے بعد فوراً منہ میں ڈال لیتی۔ چلتے وقت وہ بھی تنبیہ کرتے، ’’ندی کے پانی میں مت کھیلنا۔‘‘

    ’’میں تو کھیلوں گی۔‘‘وہ من ہی من ضد کرتی۔

    بڑے بھیا کو تو پھوٹی آنکھ نہیں بھاتا تھا اس کا ندی پر جانا۔ اس کے کان اینٹھنے جاتے لیکن وہ مانتی کب تھی۔ اس کا کان کئی کئی دنوں تک ٹس ٹس دکھتا رہتا لیکن وہ وہی پر تھا، وہ اور ندی کی چھپر چھپر وہی۔

    اماں نے ہمیشہ لڑکی ہونا سکھایا بڑے گھر کی۔ وہ سمجھ نہیں پاتی، لڑکی ہونا کیا ہوتا ہے؟ لیکن گھر سچ مچ بڑا تھا۔ سولہ کمرے تھے۔ بڑا سا آنگن تھا اور اس میں ڈھیر ساری دھوپ تھی۔ بڑا سا دالان جس میں بڑے بابو ہمیشہ مجمع لگائے رہتے۔ گرام وکاس سمیتی کے مکھیا (صدر) تھے بڑے بابو۔ مکھیا جی۔ ’’جواہر روزگار یوجنا‘‘اور ’’سماجک سہائتا یوجنا‘‘ کی باتیں ہوتی رہتی تھیں دالان میں۔ چوسر بچھا ہوتا تھا اور بہاری حقے کی آگ کو تاڑ کے پنکھے سے جھل جھل کر سلگاتا رہتا تھا۔ دالان کے آگے ایک طرف گوشالہ تھی جہاں سیمنٹ کی بنی نادپر گائے، بھینس اور بیل بندھے ہوتے تھے اور بالکل پھاٹک کے پاس ہرن کے چھوٹے چھوٹے دو بچے کان کھڑا کیے ہمکنے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے۔ وہ ان کا گھر تھا۔ میرا گھر؟ چھوتی تی تی تا۔ پچھلی بار جب گاؤں میں ’’اندرا آواس‘‘کے مکان بن رہے تھے، بی ڈی او صاحب آئے ہوئے تھے۔ بڑے بابو کے نہ چاہتے ہوئے بھی ہرن کے بچوں کو اٹھالے گئے تھے۔ ان کا گھر بدل گیا تھا۔

    اندر زنانہ قطعہ۔ صرف اماں اور وہ۔ اور تھا ہی کون؟ لگتا ہی نہیں گاؤں کا پریوار ہے۔ لیکن گاؤں کا پریوار بھی صرف بڑے بابو کی پرانی باتوں میں دیکھنے کے لیے ملتا تھا۔ پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ لوگوں کاپریوار۔ عورتیں آٹا گوندھنے اور روٹی سینکنے بیٹھتی تھیں تو بانہیں چڑھ جاتی تھیں۔ بہتوں کے یہاں تو روٹی بنتی ہی نہیں تھی۔ دس سیرا تسلے میں چاول کھدکتا تھا۔ لیکن اب گھر گھر میں روٹی بننے لگی ہے۔ چھوٹی چھوٹی پتیلی میں آرام سے گوندھا جاتا ہے آٹا لیکن بڑے بابو کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ چارجنوں سے اوپر بڑھاہی نہیں پریوار۔ بڑے بابو اکلوتے تھے۔ بابا آئی کے گزرنے کے بعد وہ اور ان کے بدن سے دو اور ایک تین۔ اتنا بڑا گھر بھائیں بھائیں۔ بھائیوں کی شادی ہوئی تو خوب خوب رونق بڑھی۔ پورا گھر رنگا پتا کر دلہن بن گیا۔ بنیہاروں میں دھوتی ساڑی بٹی اور پوری رات ڈوم کچ ہوا۔ خوب مزہ آیا۔ ہائے ہلا پسند نہیں تھا بڑے بابو کو لیکن اماں نے ان کی ایک نہ سنی۔ ایک ایک کورکسر نکالی جی بھر کر۔ کہیں سوتیلی نہ کہہ دے کوئی۔

    جب ماں مری تھی وہ تین سال کی تھی اور بڑے بھیا پانچ کے آس پاس۔ اماں آئیں تو چھوٹکا بھیا آیا۔ کیسا تھا لال لال۔ چھوٹی چھوٹی بھینچی آنکھیں۔ دیکھنے میں سرکنڈے جیسا لخ لخ۔ بچپن میں ہی اس کا سر ٹیڑھا ہوگیا تھا۔ پہلا بچہ، اماں بھی اناڑی تھیں۔ کنواری آئی تھیں۔ خود تو سنبھلتی نہ تھیں، بچہ کیا سنبھلتا۔ زیادہ تر سوتا رہتا۔ ایک کروٹ۔ بس ایک طرف سے پچک کر سرٹیڑھا ہوگیا۔ جوان ہوا توایک دم گبرو نکلا۔ بڑے بھیا بھی اس کے سامنے ہیچ۔ ’’یہ بڑے بھیا کا حصہ۔۔۔ یہ بڑے بابو کا حصہ۔۔۔ اور۔۔۔ اور یہ چندا ماما کا حصہ۔۔۔‘‘ اماں نوالوں کا حصہ لگاکر کھلاتیں۔

    جوان تو وہ بھی ہوئی تھی۔ پہلے پہل جب شلوار گندی ہوئی تھی، اماں نے پرانی ساڑھی پھاڑ کر کئی تہہ کرکے اس کے اندر لنگوٹے کی طرح کس کر باندھ دیا تھا۔ بڑا پراسرار تھا سب کچھ۔ جانے کیسے سن لیا تھا اس نے اماں کو بڑے بابو سے کہتے ہوئے، ’’اب اس کی شادی بیاہ کی چنتا کرو۔۔۔‘‘ چھوتی تی تا۔۔۔ تی تی تی تی تا۔۔۔ یہ گھر۔۔۔

    بڑے بابو نے کہا تھا، ’’پہلے گھر میں گھر کرنی آجائیں، پھرمیاں کو وداع کریں گے لیکن اماں تنکا تنکاجمع کرنے لگی تھیں اسی دن سے۔ تب اس کا بناس پر جانا تقریباً بند ہوگیا تھا۔ بہت ضد بھی کی اس نے۔ صرف ایک بار جانے دو بناس پر۔ ایک بار بھی نہیں جاسکی تھی۔ لیکن اس نے اتنا پوچھا تھا، اماں لڑکی ہونا کیا ہوتا ہے؟ اماں کو جواب ہی نہیں ملاتھا۔ دیر تک سوچتی رہی تھیں۔ پھر جیسے کھوئی کھوئی بولی تھیں، ’’جیسے دھرتی۔۔۔‘‘ اور اب چاہ کر بھی وہ ضد نہیں کرسکتی۔ نہیں جاسکتی بناس پر۔ بوند بوند کچھ بھرنے لگا تھا اس کے اندر۔

    کچھ ہی دنوں میں سب کچھ بدل گیا۔ پرتھا گاؤں چھوڑ کر آرہ چلا گیا۔ پرتھاہی کیا، گاؤں کے بہت سارے لوگ آرہ چلے گئے۔ کچھ تو وہیں بس گئے اور کچھ ادھر ادھرمر مجوری کرنے لگے اور جو بچے ہیں۔۔۔

    ایک دم کاٹھ مار گیا مجری کو۔ جلدی سے جھک کرریلنگ کے نیچے ہوگئی۔ آنکھیں نکال کر باہر دیکھنے لگی۔ دکھن ٹولہ کی خلیج میں پرچھائیاں کانپ رہی ہیں۔ اندر ہی اندر کانپنے لگی وہ بھی۔ دھک دھک اتنی تیز کہ دل چھاتی پھاڑ کر باہر آنکلے۔ آنکھوں کو پھیلاکر صاف دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ ایک دوتین پانچ، کئی کئی سانس حلق میں کہیں پھنسی رہی تھی۔ پگڈنڈی پر ان کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ رینگتی ہوئی پرچھائیاں ایک ایک کر پگڈنڈی پر آئیں تو اس کی جان میں جان آئی۔ ’’وہ نہیں تھے۔‘‘ دکھن ٹولہ کی عورتیں ’فراغت‘کے لیے نکلی تھیں۔ دھم سے چار پائی پر بیٹھ گئی۔ جیسے کئی بار سیڑھیوں پر چڑھی اتری ہو، زور زور سے سانس لینے لگی۔

    آسمان تھوڑا صاف ہوا تھا۔ پیپل دکھ رہا تھا اور بناس کی دھار بھی۔ پھر اندر بوند بوند کچھ۔۔۔ پورا منہ کھول دیتی ہے، جیسے پوری صبح اتارلے گی اپنے اندر۔ بناس پی جائے گی پوری کی پوری۔ شمال جانب چھٹی گھاٹ اور جنوب کی طرف مشان گھاٹ ہلکا ہلکا دکھائی پڑ رہا تھا۔ درمیان میں اس طرف جانے کے لیے بانس کا چانچر۔ پیپل کی ایک شاخ جھک کر پانی میں ڈوب گئی ہے، جس کی آواز سے خوفناک ڈر پیدا ہو رہا تھا۔ اس طرف ٹیلے کے اوپر پولیس کی کیمپ۔ سناٹا ہے وہاں۔ کیمپ کے اندر لالٹین کی دھیمی بتی جل رہی تھی ابھی۔ نیچے سوروں کے چھوٹے چھوٹے کھوباڑ۔ ان سے لگی درجنوں جھونپڑیوں اور کچے مکانوں کا سلسلہ۔ دھوئیں میں لپٹی ہوئی دھیرے دھیرے لرز رہی تھیں جھونپڑیاں اور لرز رہا تھا وقت۔۔۔

    بناسی ٹولا۔

    ’’لڑیکے لڑائی اور یائی ناجھگرواای، بیٹھی کے لنا پھر یائی ہوسنگھتیا۔

    بھئیلے منسوا انگواسنگھتیا۔‘‘

    اس طرف املی کے درخت کے نیچے بہاری مسہرالاپ رہاتھا۔ پاگل۔ دوہی تو پاگل ہوئے گاؤں میں۔ ایک یہ دوسرے کوی چاچا۔ کوی راجہ رام پریہ درشی۔ لمبا قد، اکہرا بدن، الجھی الجھی داڑھی اور سرکے بال۔ آنکھیں چھوٹی، ٹھہری اور سوچتی ہوئی۔ شاہ پور کے ٹھاکر کے یہاں اس کا رشتہ لگایا تھا انہوں نے۔ لڑکاآرہ مہاراجہ کالج میں وکالت پڑھ رہا تھا اور اس اکیلے پر بیس بیگھے کی جوت تھی۔

    ’’اماں میں بھی لپیٹوں۔۔۔؟‘‘

    ’’تیرابیاہ۔۔۔‘‘

    ’’چھوتی تی تا۔۔۔‘‘

    بڑے بابو کلف لگی ادّھی کی کھر کھراتی دھوتی اور کرتا پہن کر کوی چاچا کے ساتھ جیپ میں چیوڑ ا اور گنے کا نیا گڑ لے کر دن تاریخ پکی کرنے گئے تھے۔ واپسی میں گاؤں کی سرحد پر کسی نے ایک چٹھی پکڑادی تھی۔ گھر پہنچے تو کسی سے کچھ نہیں بولے۔ کوی چاچا کے ساتھ دونوں بھائیوں کو لے کر چھت کے اوپر چلے گئے۔ اماں کو بھی پاس نہیں بلایا۔ اماں بڑے بابو کے مزاج سے واقف تھیں اچھی طرح۔ آدرش وادی، اصول اور آدرش کی خاطر نہ کہیں جھکے اور نہ کبھی ٹوٹے۔ 74ء میں جیل گئے تو جے پی کے آدرشوں کی گرہ ہی باندھ لی۔ وہ بندھی تو بجر جیسی، آج تک نہ کھلی۔ اسی بڑے بابو کے چہرے پر پسری ہوئی ضد دیکھ کر خیر منارہی تھیں اماں من ہی من، ضرور کچھ برا ہوا ہے۔ ’نگدی اگدی‘ کو لے کر بات اٹکی ہوگی اور انہوں نے انکار کردیا ہوگا۔ لڑکا سستے میں کہاں ملتا ہے؟ لاکھ کا تلک چڑھاؤ، ہزاروں کا سروسامان دو، تب کہیں بیٹی کی مانگ میں سندور بھرتا ہے۔ کیسی ہوتی ہے بیٹیاں جی۔ چھی! لیکن لڑکا اچھا تھا اور کھاتا پیتا بھی تھا۔ آج کے زمانے میں کسی اکیلے کی دس بیس بیگھے کی جوت ہوتی ہے کیا؟ نا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اب پہلے جیسا وقت بھی تو نہیں رہا۔

    نہیں رہا گیا اماں سے۔ سیڑھیوں پر جاکر ان کی باتیں سننے لگیں، ان کے پیچھے پیچھے وہ بھی۔ سن کر ششدر رہ گئیں۔ نہیں سنبھلتیں تو بھربھراکر سیڑھیوں پر گرجاتیں۔ ’’دستہ‘‘نے چٹھی بھجوائی تھی۔ پچیس ہزار نقد اور چاول کے دس بورے چندہ دینے کے لیے کہا تھا۔ دستہ؟ اس گاؤں میں تو کوئی ’’دستہ‘‘ یا ’’سینا‘‘ وینا نہیں تھی اور نہ ہی کسی طرح کی مرمجوری کاجھگڑا۔ کسان یہیں کے اور مزدور بھی یہیں کے۔ بڑے بابو نے خود کتنوں کو اپنی زمین میں بسایا تھا اور کچھ پورب کی طرف، جدھر سے سڑک گاؤں میں داخل ہوتی ہے، اس کے کنارے بسے ہوئے تھے۔ کبھی کچھ بھی تو نہیں ہوا یہاں۔ البتہ قرب و جوار کے گاؤں میں۔۔۔

    کوی چاچا کی سوچتی ہوئی آنکھیں سنحیدہ تھیں، ’’بچا لو مکھیا جی۔۔۔ اس گاؤں کو بچا لو۔۔۔‘‘ شاید کوئی بیماری تھی۔ اتنا ہی بولتے بولتے کوی چاچا کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں اور آنکھیں لت پت ہوگئی تھیں۔ اماں جلدی سے گلاس میں پانی لے آئیں۔ ایک ہی سانس میں غٹ غٹ۔ ’’تم کیوں آئیں یہاں؟‘‘ بڑے بابونے گھور کر دیکھا اماں کو۔ اماں پاس ہی کھڑی ہوگئیں، ڈر اور ضد میں جیسے۔ ’’صرف سبقت۔۔۔ دے دوچندہ۔۔۔ اور بندوقیں آئیں گی اور لاشیں گریں گی۔۔۔‘‘ چپ ہوگئے۔ اماں سے اور پانی مانگا۔ اماں گئیں آئیں۔ خلامیں دیکھ رہے تھے کوی چاچا۔ ’’بندوق کی اپنی مجبوری ہوتی ہے۔ سب کچھ اسی کے ذریعے طے ہونے لگتا ہے۔ مقصد پیچھے کسی اندھیرے گڈھے میں پڑجاتا ہے، غیراہم ہوجاتا ہے۔ کھیتی کرنے والے مزدوروں کے حق اور دلتوں کے سمان کے نام پر شروع ہوکر پورے ملک میں انقلاب لانے کے عظیم مقصدکے تحت شروع ہوا یہ آندولن آج کہاں پہنچ گیا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں نہیں مکھیا جی، اسے کلاس اسٹرگل نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں تو ذات اہم ہوگئی ہے۔۔۔ کاسٹ اسٹرگل۔۔۔ نہیں، کاسٹ وار۔۔۔‘‘ بڑے بابو بے چینی میں ٹہل رہے تھے۔ نہ جانے کیا ہوگیا تھا کوی چاچا کو۔ بول رہے تھے اور جانے کتنا کچھ اور بولنا چاہتے تھے، ’’سامنت واد؟ جسے اس نسل نے دیکھا ہی نہیں۔ جس کے قلعے مسمار ہوئے زمانہ بیت گیا۔ کھنڈر رہ گیا ہے باقی۔ زمین بوس، دھول چاٹتا ہوا۔ صرف دکھنے کی چاہ اور للک۔۔۔

    تم اسے مانو مکھیا جی، یہ سب ووٹ کی سیاست ہے۔ کچی عمر میں سماج کو اس کی جگہ سے آگے لے جانے کی کوشش آندولن کو الٹی سمت دے گی ہی۔ بندوق اور ووٹ، کوڑھ میں کھاج ہوجائے، زخم ناسور بنے گا ہی بنے گا۔ کتنا عجیب ہے اور کیسا المیہ؟ جتنا ہے اس سے زیادہ، جیسا ہے اس سے الگ، جانتے ہیں لوگ اس لڑائی کو۔۔۔‘‘ چارپائی پر سرجھکائے الغم بلغم گراتے رہے کوی چاچا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ کوی چاچا کی باتیں اکثر سمجھ میں نہیں آتیں۔ بڑے بابو کی سمجھ میں کچھ آیا ہو تو آیا ہو شاید۔

    سورج کی پہلی کرن مجری پر پڑی ہے۔ بڑے بھیا کی فصل کٹ چکی ہے۔ بناس بہہ رہی ہے۔ پیپل ہری ہری پتیوں سے لدا دکھ رہا ہے۔ نیچے جانے کی طبیعت نہیں ہوتی۔ کافی اندر تک امس بھر گئی تھی اس میں۔

    بڑے بابو اجتماعی طور پر جینے اور سوچنے کے عادی تھے۔ یہ مسئلہ ان کا ہوتے ہوئے بھی گاؤں کا مسئلہ تھا اور اس کا حل بھی ممکنہ طور پر گاؤں کے پاس ہی تھا۔ لیکن کتنی مایوسی ہوئی تھی پنچایت میں بڑے بابو کو۔ سب کو سانپ سونگھ گیا تھا جیسے۔ کسی کی زبان نہیں ہلی تھی۔ پہلی بار لگا تھا، اعتماد کا قتل ہوگیا ہے، بے اعتمادی پھیل گئی ہے۔

    اس دن کے بعد عجیب تبدیلی آئی گاؤں میں۔ گھنٹو ں ساتھ بیٹھ کر شیوئیشر رائے اور لوچن کہار کا تاش کھیلنا تقریباً بند ہوگیا تھا۔ خوف اور اندیشہ کسی چھوت کی بیماری کی طرح پھیل گیا تھا پورے گاؤں میں۔ اب رانا جی کے دروازے پر رات رات تک محفلیں نہیں لگتی تھیں اور نہ ہی تڑبنے میں تاڑی پینے والوں کا جم گھٹ لگتا تھا۔ طوفانی درزی، جس کے متعلق عام تھا کہ اس کے ریڈیو میں صرف گانا ہی گانا ہے اور کچھ نہیں، وودھ بھارتی ہو یا شیلانگ، صبح ہو، دوپہر ہو یا شام ہو، اس کے دو بینڈ کے ریڈیو میں صرف گانا ہی گانا بجتا تھا اور جو چھ وولٹ کی بیٹری چارج کراکر صرف دوسروں کو سنانے کے لیے فل ساؤنڈ کیے رہتا تھا، اس کے ریڈیو نے گانا، گانا بند کردیا تھا۔ سب مشکوک، دہشت زدہ، اجنبی اجنبی چہرہ لیے اپنے ہی حول میں سمٹ گئے تھے۔

    لیکن بڑے بابو۔۔۔ جانے کیسے تھے بڑے بابو۔ انکار کردیا تھا انہوں نے چندہ دینے سے۔ جرم کردیا تھا بڑے بابو نے۔ فیصلہ تو ہونا ہی تھا۔ دستہ نے لگائی ’جن عدالت۔ آخری صف میں بیٹھنے والے جلسے کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے۔ آرتھک ناکہ بندی لگا دی گئی تھی بڑے بابو پر۔ ’’مکھیا جی کے کھیتوں میں کوئی کام نہیں کرے گا۔‘‘ حکم صادر فرمادیا گیا تھا۔ کسی نے کچھ نہیں کہا، احتجاج کی کوئی آواز نہیں۔ کسی کے اندر کوئی بے چینی نہیں۔ صرف بہاری نے کہا، ’’ہمنی کے کام نا کرب تہ کھائب کا۔۔۔؟‘‘ یہ اس کا اپنا مسئلہ تھا اور اس جیسوں کے ایسے مسئلوں پر غور و فکر کرنا کہیں سے شامل نہیں تھا ان عدالتوں کے آئین و قانون میں۔

    تھکے تھکے لوٹ آئے تھے بڑے بابو۔

    گاؤں کے لہلہارہے کھیتوں کے درمیان بڑے بابو کا کھیت خالی رہ گیا تھا۔ ہری مخملی چادر پر ٹاٹ کے پیوند جیسا۔ میڈھ پر کھڑے سونی آنکھوں سے دیکھتے رہتے تھے بڑے بابو۔ بنیہار کام کی تلاش میں ادھر ادھر نکلنے لگے تھے۔ پرتھا بھی آرہ جاکر رکشا چلانے لگا تھا۔ بہاری رہ گیا تھا بلکہ جا ہی نہیں سکا تھا کہیں۔ بڑے بھیا غصے سے پاگل ہو رہے تھے۔ چھوٹا بھائی چندہ دے دینے کے حق میں اپنی دلیلیں دے رہا تھا، ’’پچیس ہزار کی تو بات تھی۔۔۔ یہ سب تو نہیں ہوتا۔‘‘

    حیران رہ گئے تھے بڑے بابو۔ پوری رات سوئے نہیں تھے۔ اٹھ اٹھ کر دیکھتی رہی تھی انہیں وہ۔ آرام کرسی پر ٹانگیں سیدھی کیے چھت کو گھورتے رہے تھے پوری رات اور پوری رات وہ کسی انہونی کی غیبی آہٹ سنتی رہی تھی۔ پہاڑ سی پوری رات۔

    چھوٹا بھائی رات کو دیر سے لوٹتا۔ اماں تو اماں تھیں۔ کھول دیتی تھیں خود کو دروازے کی طرح۔ ’’چل کھانا کھالے۔‘‘ پوچھتی بھی نہ تھیں، کہاں رہتا ہے اتنی اتنی رات تک۔ جب پوچھنا چاہا، دیر ہوچکی تھی۔ گرہن لگ چکا تھا۔ ’’مجھے میرا حصہ چاہیے۔‘‘ ماں باپ کے زندہ ہوتے اس نے زمین جائداد میں اپنا حصہ مانگا تھا۔ اماں کے چہرے پر سناٹا پھیل گیا تھا۔ ’’یہ بڑے بھائی کا حصہ۔۔۔ یہ بڑے بابو کا حصہ۔۔۔‘‘ ٹکر ٹکر دیکھتی رہ گئی تھیں بڑے بابو کو۔ پھر کئی کئی رات بڑے بابو آرام کرسی پر ٹانگیں سیدھی کیے چھت کو گھورتے رہے تھے۔ کئی ایک دنوں تک گھر کے کونے کونے سے خاموشی کے سسکنے کی آوازیں آتی رہی تھیں۔ بربادی گھر کی دیواروں پر چھکلی کی طرح رینگ رہی تھی۔ نہ جانے کیا ہوگا؟ نہ جانے کیا ہونے والا ہے؟ جیسے گھر میں کوئی گھس آیا ہے۔ کوئی کچھ چرا رہا تھا۔ دیوار میں بڑی سی نقب گلادی ہوکسی نے۔

    اس کے راستے کسی کے دونوں پیر اندر آئے ہیں۔ ذرا دیر میں پورا کا پورا وہ اندر آجائے گا۔ اسے کوئی پکڑنا چاہے تو نہیں پکڑ سکتا۔ اس کے پورے جسم سے تیل چورہا ہے۔ پکڑتے ہی چھٹ سے چھٹک جائے گا۔ لاکھ جتن کرو ہاتھ نہیں آئے گا، پھسل جائے گا۔ پھسل گیا تھا سب کچھ۔ بڑے بابو نے خاموشی توڑی تھی۔ دونوں بھائیوں کو ساتھ بیٹھایا تھا ایک دن اور بانٹ دیا سب کچھ۔ یہ تمہارا اور یہ تمہارا۔ الگ الگ ہوگئی تھی ایک چنے کی دو دال۔ ادھر گھر پھوٹا اور ادھر گاؤں۔ پورب کی طرف جدھر سے سڑک گاؤں میں داخل ہوتی تھی، اس کے کنارے بسی ہوئی چھونپڑیاں ایک ایک کربناس اس پار جالگیں اور آباد ہوا بناسی ٹولہ۔

    ’’جتیا کے بتیا میں متیا مرائل کا ہے، سہے لا انیر درگیتا سنکھتیا۔

    گنواں کے نواں ہنساؤ جن سنگھتیا۔‘‘

    چمپئی دھوپ میں بہاری مسہر کا جسم تانبے جیسا چمک رہاتھا۔ سور باڑ سے نکل کر تازہ ٹٹیوں پر تیزی سے تھوتھنا رگڑ رہے تھے۔ ٹیلے کے اوپر کیمپ کا سپاہی منہ میں داتون پھنسائے ترکاری کاٹنے والی چھری سے بندوق کی نال پر لگی زنگ کھرچ رہا تھا۔ دور تھا لیکن عجیب طرح کی آواز آرہی تھی مجری کے کانوں تک۔ عجیب آواز تھی۔ گاؤں کے منہ منہ ہوتے گھر تک پہنچی تھی۔ چھٹکا ’’دستہ‘‘میں چلا گیا۔ نکسلائٹ بن گیا۔ کانوں پر یقین نہیں ہوا تھا۔ بڑے بابو کا وہ سبق جو انہوں نے بکسے پر رکھے لالٹین کی روشنی میں آدھی آدھی رات تک طوطے کی طرح رٹایا تھا، بھول گیا تھا چھوٹکا بھائی۔ اماں چپ۔ بڑے بابو چپ۔ گونگے بہرے گاؤں کے منہ میں اچانک زبان اگ آئی تھی، ’’کہیے مکھیا جی، گاؤں بچانے کی بات کر رہے تھے آپ؟‘‘

    نہیں بچاپائے تھے۔ کچھ بھی تو نہیں بچاپائے تھے بڑے بابو۔ کئی چیزیں ایک ساتھ ٹوٹ گئی تھیں، جس میں ایک بیٹی کا رشتہ بھی تھا۔ چھوتی تی۔۔۔ یہ گھر۔۔۔ گھرا جڑا تھا، بسا کہاں تھا۔ بانس کے کونپل بانس کی کوٹھی میں ہی بوڑھے ہوگئے تھے۔ صرف پھلمی بیاہی گئی تھی۔ وہ بھی آرہ مندر میں جاکر۔ اس سال اس کی باری تھی۔۔۔ تجھے یہ دوں گی۔۔۔ تجھے وہ دوں گی۔۔۔ تنکا تنکا جمع کرنے والی اماں کی آنکھیں رو بھی نہ سکی تھیں۔ البتہ بڑے بابو کی آنکھیں خوب روئی تھیں۔ رو کر ایک دم ہلکا ہوگئے تھے بڑے بابو۔ اتنا کہ اس کا اندازہ ان کی ارتھی کو کندھا دینے والوں کو بھی ضرور ہوا ہوگا۔

    بڑے بابو نہیں رہے۔ تھے بھی، تو نہیں ہی تھے لیکن ان کا ہونا صرف، کچھ نہ کچھ تو تھا ہی۔ جب بالکل ہی نہیں رہے تو جو کچھ تھا وہ بھی نہیں رہا۔

    جنوب جانب شمشان گھاٹ۔ بناسی ٹولہ سے چند گز کی دوری۔ سب کو پتا تھا، اس پار ہیہر کی جھلاس اور اس پار بناس کے ارار پر ہر وقت مورچہ لگا رہتا ہے۔ بندوقیں تنی ہوتی ہیں۔ پتا کھڑ کا، ہوا سرسرائی، دونوں طرف سے دھائیں دھائیں۔ ادھر جانے کی ہمت کسی کی نہ ہوسکی۔ بڑے بابو کی چتا کو آگ گاؤں سے لگے کھیت میں دی گئی۔ پہاڑ ایسا شریر مٹھی بھر راکھ بن کر مٹی میں مل گیا۔ ایک جگہ خالی ہوگئی۔ کسی کا ہونا یا نہ ہونا کس طرح اثر پذیر ہوتا ہے، یہ منظر ابھرا جب چھوٹے بھائی نے ایک بار پھر راگ چھیڑا، ’’حصہ پھر سے لگے گا۔ مجھے بنجر زمین ملی ہے۔‘‘ بڑے بابو کہا کرتے تھے، ‘‘ عمل ایک حد کو پار کرجانے کے بعد ردعمل کو جنم دیتا ہے جو زیادہ بے رحم ہوتا ہے۔‘‘

    ’’تجھے اب اک دھور زمین نہیں ملے گی۔‘‘ بڑے بھیا۔۔۔ بڑے بھیا، سینا میں چلے گئے تھے۔

    سولہ کمروں کے درمیان دیوار کی سرحد کھڑی کردی گئی تھی۔ ناد پر بندھی گائے، بھینس کی طرح بانٹ دی گئی تھیں اماں اور وہ۔ ایک اس کھونٹے، ایک اس کھونٹے، اماں چھوٹے بھائی کے حصے لگیں اور وہ بڑے بھائی کے حصے۔ وہاں پہلے سے ہی بھابھیاں ایک ایک کھونٹے بندھی ہوئی تھیں۔ ان کی صورت حال اور بھی مختلف تھی شاید۔

    بڑے بابو یاد آرہے ہیں اور یاد آرہی ہیں ان کی باتیں۔ عمل ایک حد کو پار کرجانے کے بعد ردعمل کو۔۔۔

    بناسی ٹولہ کو لاشوں سے پاٹ دیا گیا تھا۔ تم ایک تو ہم دس۔ ’’سینا‘‘نے بڑے فخر کے کے ساتھ اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پورے ا کیس لوگ۔ نصف سے زیادہ عورتیں۔ بہادروں نے شیر خوار بچے تک کو۔۔۔

    ’’ستیہے میں خونوا کجو نوا بہاؤ جنی، ماٹی میں ملاؤ جنی جنگیا سنگھتیا۔

    کُفتے میں بہریلا چھتیا سنگھتیا۔‘‘

    اپنے پریوار میں بہاری بچ گیا تھا۔ پچا کہاں تھا، پاگل ہوگیا تھا۔ دن دوپہر یا املی کے پیڑ کے نیچے پڑا رہتا۔ کوی چاچا، جن کے گیت گاتا تھا بہاری مسہر، زاروقطار روتے۔ باڑھی گرام میں نوسینا حمایتوں کا قتل، گاؤں کے کھیتوں میں دھان کے بچڑوں کی بے رحمی سے روندائی، سانجھ سویرے نکلنے والی بہو بیٹیوں پر چھینٹا کشی۔ ایک طرف دہشت گردی، ایک طرف غم و غصہ۔

    کوی چاچا کے دماغ میں بے اطمینانی کی گھنٹی بج رہی تھی۔ انہوں نے انتظامیہ کو اطلاع کی تھی لیکن انتظامیہ، اس کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ’’کیا کیاجائے؟ فورس کی کمی ہے اور ویسے ہتھیار بھی نہیں۔‘‘

    کچھ نہیں کیاگیا اس وقت، بعد میں قافلہ پہنچا۔ اخبار میں بیان اور چناؤ کے لیے مدعا ہاتھ آیا۔ نیتاؤں نے بھاشنوں کی برسات کی، منتریوں نے اعلانات کیے۔ بناسی ٹولہ جل تھل ہوگیا۔ کچھ تیر نے لگے، کچھ غوطہ لگانے لگے۔ ’’نیتا کے۔۔۔ اب سب آوترن۔۔۔ کال تک کو نوپوچھے والا نارہے۔۔۔ (نیتا کے۔۔۔ اب سب آرہا ہے۔۔۔ کل تک کوئی پوچھنے والا نہیں تھا) نفرت اور غصہ۔ اخبار والوں نے فوٹو کھینچے۔ ’’روئیے نا۔۔۔ نہیں نہیں، ایسے نہیں۔۔۔ ذرا سینہ پیٹ پیٹ کر۔ ہاں پلیز ویپ، کلیک۔‘‘ راتوں رات بناسی ٹولہ دنیا جہان میں مشہور ہوگیا۔

    غریبوں کے ایک مسیحا نے نعرہ دیا، ’’خون کے بدلے خون۔‘‘ کسی نے نہیں کہا، اب اور نہیں۔ سب آئے اور گئے۔ کرمچ کے کپڑوں اور بھاری بوٹوں والے گاؤں گاؤں سونگھتے پھرے۔ گھر گھر چھانا پھٹکا، برہنہ کیا اونچی ذات کی عورتوں کو، بے رحمی سے پیٹا۔ ’’بول تیرا بھتار کہاں ہے؟‘‘ کئی کئی گاؤں کی مسہر ٹولیاں حاملہ ہوگئیں۔ ایک آندھی آئی اور گئی۔ نتیجہ؟ بے قصور پکڑے گئے قصوروار چہرہ بدل کر گھومتے رہے۔ کچھ کو آرہ شہر نگل گیا، کچھ سون ندی کی تلہٹی میں سما گئے۔ بھابھی کو میکے پہنچا کر بڑے بھیا نے تو پہلے ہی گھر چھوڑدیا تھا۔ کندھے پر لوہا اٹھائے کبھی اس گاؤں، کبھی اس گاؤں۔ پورے گرام پنچایت کا بھار تھا ان پر۔ جس گھر میں رات ہوتی، گھر والا باہر سوتا اور وہ اندر۔۔۔ ’’بھیا۔۔۔ بھیا۔ آپ کی بھی ایک بہن ہے بھیا۔‘‘

    نہیں جانتی، یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ سنتی تھی، طبقاتی سنگھرش ہے۔ وچار دھارا کی لڑائی ہے۔ تبدیلی نظام کی تحریک ہے۔ سیاست کاکھیل ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور برتری حاصل کرنے کی جنگ ہے۔ باپ رے باپ۔ اسے کیا معلوم، اتنی بڑی بڑی باتیں۔ اگر ان بڑی باتوں کا مطلب یہ لاشیں ہیں تو اسے نہیں جاننا ان باتوں کو۔ وہ تو بس اتنا جانتی ہے، خواندگی مہم میں گھر گھر حرف کی جیوتی جلانے والی مدھو، جس کااس کے پتا کے ساتھ قتل کردیاگیا تھا اور جسے ذات کی بنیاد پر ’’دستہ حمایتی‘‘قرار دے کر پولیس نے اپنے فریضے سے منھ موڑ لیا تھا، اس مدھو کا کسی دستہ یا سینا سے کوئی تعلق نہ تھا۔

    ڈومن بہو، جس کی قتل عام کے دوران فرج میں گولی ماردی گئی تھی، وچار دھارا لفظ کے معنی نہیں جانتی ہوگی، بھیکھنا کے دو ماہ کا شیر خوار بچہ جس نے ماں کی چھاتی سے ابھی منہ بھی نہیں ہٹایا تھا اور جسے بھالے کی نوک پر ٹانگ دیا گیا تھا، طبقاتی جدوجہد یا کسی تبدیلی نظام کے آندولن میں شامل نہیں رہا ہوگا۔ پھر کیوں، کیوں۔۔۔؟

    جیسے ہوا میں تیزاب گھل گیا تھا۔ سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ بڑے بابو، کہاں چلے گئے آپ؟ بڑے بابو یاد آرہے ہیں۔ ’’کسی ایک انسان کا قتل، اس میں چھپے بے شمار مکانات کا قتل۔‘‘ لیکن یہاں تو چھوٹا بھائی اکیس کے بدلے اکیاون طے کرنے میں مصروف تھا۔ گاؤں گاؤں دستہ کی نشستیں ہو رہی تھیں، اور آج کی رات۔۔۔

    جانے کہاں سے آئے تھے یہ لوگ۔ یہاں کے نہیں تھے۔ پورے گاؤں کی گھیرابندی کی گئی تھی۔ پوری رات کاٹی گئی تھی بڑے بھیا کی فصل، پوری رات جگنوؤں کی طرح بھک بھک بتیاں جلی تھیں اور پوری رات رو کے رہی تھی وہ اپنی سانس۔

    دھوپ تیز ہوگئی ہے۔ لہرانے لگا تھا مجری کا جسم۔ کھیتوں سے نظریں ہٹاکر دور سڑک کی جانب دیکھنے لگی۔ آٹھ بجے بس آکر رکی ہے۔ گاؤں کا کوئی اترا ہے۔ اٹیچی نیچے رکھ کر بالو ں میں کنگھی کرتا ہے۔ بیل باٹم اور چھاپے کا کرتا۔ آنکھوں پر کالا چشمہ۔ اٹیچی سر پر اٹھاکر گاؤں کی طرف چلنے لگتا ہے۔ قریب آتا ہے تودیکھتی ہے مجری اور پہچان جاتی ہے۔ پرتھا؟ ارے یہ تو ایک دم شہری بابو بن گیا۔

    ’’جانتے ہو پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی ہیں؟‘‘

    مچل اٹھی من ہی من۔ ’’میں چلی۔‘‘اس کے اندر سے وہ نکلی اور سیڑھیاں پھلانگتی چوکھٹ سے باہر۔ وہ بناس میں اور بناس اس میں۔

    پرتھا گاؤں کی طرف آنے کے بجائے بناسی ٹولہ کی طرف مڑگیا۔ ’’ارے ارے ادھر کیوں نہیں آرہا؟‘‘ شانت پڑگئی مجری۔ ہاں ادھر کیوں آئے گا؟ اِدھر سے اُدھر یا اُدھر سے اِدھر کہاں کوئی آتا جاتا ہے۔ گاؤں کی گلیاں سنسان رہتی ہیں۔ کتنے ہی گھروں میں تالے لٹک رہے ہیں۔ اب کوئی پیپل میں سوت لپیٹنے بھی نہیں جاتا۔

    بچپن میں پوچھتی رہ گئی اماں سے، ’’اماں بتاؤنا، کیوں لپیٹتی ہیں پیپل میں سوت؟‘‘ اماں نے بتایا ہی نہیں۔ ہمیشہ ایک ہی جواب، ’’تو کیا کرے گی جان کر۔‘‘ آج تک یہ سوال بنا جواب کے ہی رہ گیا جیسے اپنے آپ میں بنا جواب کے رہ گیا تھا یہ سوال کہ لڑکی ہونا کیا ہوتا ہے؟

    ’’اماں میں بناس پر جاؤں؟‘‘

    ’’نہیں تو لڑکی ذات ہے۔ جیسے۔۔۔ جیسے دھرتی۔۔۔ دھرتی صرف سنتی ہے۔ دھرتی صرف دیکھتی ہے۔ دھرتی چپ رہتی ہے۔ ہمیشہ سے ایسا ہے۔ دھرتی صرف سہتی ہے۔‘‘ بناجواب کے ہی تو تھا اماں کا یہ جواب۔

    گویا نیند میں چلنے لگی وہ۔ سیڑھیوں سے نیچے آئی۔ جیسے اماں کہہ رہی تھیں، دھرتی کے پاؤں میں بیڑیاں ہیں۔ اس نے پاؤں چوکھٹ سے باہر نکلا۔ پیچ کی دیوار کا حصہ طے کرکے دوسری طرف چھوٹکا بھائی کے گھر پہنچی۔ اماں نے دیکھا تو پیلی پڑگئیں۔ لرزنے لگی سوکھے پتے کی طرح چھوٹکی بھابھی۔ جلدی سے کواڑ اڑھکایا۔

    ’’اماں، پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی تھیں؟‘‘اماں نے منہ میں آنچل ٹھونس لیا۔ ’’بھابی، اب پیپل میں سوت لپیٹنے کیوں نہیں جاتیں؟ کیا آپ کو اپنے پتی کی لمبی عمر نہیں چاہیے؟‘‘

    اس نے کواڑ کے دونوں پٹ کھول دیے۔

    گھر گھومن چاچی، کملا کی عمر بیت رہی ہے۔ اس کا بیاہ کب ہوگا؟ تمہارے بچے اسکول نہیں جاپارہے ہیں مونا کو بھوجی۔ ان کا مستقبل کیسے بنے گا؟ تمہارے کھیت بوئے نہیں جارہے ہے۔ اناج کا ایک دانا نہیں۔ دھرم کرم کیسے چلے گا بھاگ منی کاکی؟

    اس گھر سے اس گھر۔ تھک کر چور ہوگئی تھی مجری۔ پیشانی پر پسینے کی بوندیں چھلچھلا آئی تھیں اور آنکھیں موندی جارہی تھیں۔ غروب ہو رہے سورج کی رفتہ رفتہ زائل ہوتی سرخی شام کی آنکھوں میں کاجل لگا رہی تھی۔ مجری کو فکر ہوئی۔ ابھی اسے بناسی ٹولہ جانا تھا۔ اوپر سے ٹٹہری کی ٹیہہ ٹیہہ۔ نہ جانے کیوں، کب سے بولے جارہی ہے؟ اماں ہوتیں تو خوب خوب گالیاں دیتیں، ‘‘ رانڈی، ناجانے اب کس کو نگلے گی؟‘‘ اس نے زور لگاکر بند ہوتی آنکھوں کو کھولا۔ اس نے محسوس کیا، اسے کافی طاقت لگانی پڑی ہے۔ اب انہیں کھول رکھنے کے لیے اسے پہلے سے زیادہ محنت کرنا پڑ رہی تھی۔ اس نے ایک نظر سنسان گلیوں اور بند ہوچکے دروازوں کو دیکھا۔ آدم زاد کا سایہ تک نہیں۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ انہیں گلیوں میں کھڑی ہے جہاں اس کا پورا بچپن گزرا ہے اور جہاں بسنت نے پہلی بار دوشیزگی کی کنڈی کھٹکھٹائی تھی۔

    توے کی کالک کی مانند اندھیرا گھپ ہوتا جارہا تھا اور ہوا سائیں سائیں کرنے لگی تھی۔ اس کی رفتار میں قدرے تیزی آگئی۔ دکھن ٹولہ کی خلیج میں آئی تو اندر تک سہر گئی۔ لگا ریڑھ کی ہڈیوں کے راستے اچانک کچھ اوپر تک چڑھ گیا ہو جیسے ڈر۔ کشمکش کی حالت میں کھڑی رہی کچھ دیر۔ بناسی ٹولہ دکھائی دے رہا تھا۔ اوبڑ کھابڑ ٹیلوں کی مانند۔ اندھیرے میں اور اندھیرا۔ عجیب سا۔ اندر سے کسی نے روکا، ’’مت جا اُدھر۔‘‘ ضد سے بھر گئی۔۔۔

    ’’جاؤں گی۔‘‘اور بناس کی طرف بڑھنے لگی۔ یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی، ذرا دیر قبل پہاڑ سے بھاری ہو رہے اس کے پاؤں میں غیرمعمولی تیزی آگئی تھی۔ چانچر تک پہنچی تو خود بہ خود اس کے پاؤں رک گئے۔ بناس کل کل بہہ رہی تھی۔ اندر کی گانٹھ پھر سے کھل گئی۔ ہری ہوگئی ایک دم سے وہ۔ خواہش ہوئی، سماجائے پانی میں۔ بھگودے پرتھا کو۔ کلوٹّا۔۔۔ کئی کئی دنوں پر نہاتا۔ پھر کچھ سوچ گہری سانس خارج کر، سامنے دیکھنے لگی۔ ہیہر کاجنگل۔ جنگل میں۔۔۔ سانس رک سی گئی۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ کوئی نہیں، کئی لوگ۔ کاٹھ بنی کھڑی رہی۔ ٹکٹکی لگائے ٹوہتی رہی۔

    کچھ دیر گزر گئی تو من نے کہا، وہم ہے۔ من کو ٹٹولنے لگی۔ سچ مچ لگا، وہاں کوئی نہیں، مٹی کا تودہ ہے یا پھر اندھیرے کا گولا۔ من کو ذرا اطمینان ہوا۔ ہمت یکجا کرکے آگے بڑھی۔ چند قدم۔ پھر رک گئی۔ اس بار وہم نہیں ہوسکتا۔ اس نے من کو لعنت ملامت کیا۔ پیچھے سے بالکل صاف آواز آئی ہے۔ کچھ لوگوں کی پھسپھساہٹ۔ جسم بے حرکت۔ گردن گھما کراس نے پیچھے دیکھا۔ اوبڑ کھابڑ رار کے علاوہ یہاں سے وہاں تک سناٹا دکھائی پڑ رہا تھا۔

    بڑے بابو۔۔۔ بڑے بابو۔۔۔ اماں۔۔۔ اس کی خواہش ہوئی، چیخ چیخ کر رونے لگے۔ تکلیف اتنی شدید کہ رونے کے باوجود آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ سبکنے لگی۔ بڑے بابو کہاں ہیں آپ؟ اسے لگا، کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا ہو۔ جیسے کسی نے کہا ہو، ’’آؤچلو، میں ہوں تمہارے ساتھ۔‘‘ اس نے حیرت سے دیکھا۔ اسے محسوس ہوا، اچانک ایک نئی طرح کی قوت اس کے اندر داخل ہوگئی ہو۔ وہ آگے بڑھی۔ اس نے سنبھل کر چانچر پر پاؤں رکھا۔ چرر۔۔۔ ر۔۔۔ کی آواز دور تک گونجی اور ساتھ ہی ایک دھماکہ ہوا۔ پیپل کے درخت پر بیٹھے پرندے پھڑپھڑاکر اڑے اور آسمان میں کھوگئے۔

    صبح بناس کے بیچ چانچر کے بانس پر مجری اور پرتھا کا جسم جھول رہاتھا۔

    سورج نکل آیا تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ اب تک، سورج چڑھنے تک، اس واقعے کی ذمہ داری نہ ’’سینا‘‘ نے قبول کی تھی اور نہ ہی ’’دستہ‘‘ نے۔ بھیڑ جمع تھی۔ اس پار اور اس پار۔ خاموشی تھی، جھکی ہوئی آنکھیں تھیں اور ایک سوال تھا۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے