Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چھٹی کا دن

انور سجاد

چھٹی کا دن

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

     

     

    دوپہر
    بچے چڑیا گھر کے دروازے کے ساتھ خوانچے والے سے چنے خریدتے ہیں اور اچھلتے کودتے اپنے اپنے ماں باپ کے ساتھ چڑیا گھر میں داخل ہوجاتے ہیں۔ 

    سڑک کے پار کھڑی عورت ٹھنڈا سانس لیتی ہے۔ ساتھ کھڑے مرد کو دیکھتی ہے۔ مرد کی نگاہیں آہنی دروازے کی عمودی سلاخوں سے گزر کے پنجروں میں بھٹکتی ہیں۔ مرد خشک حلق کو منہ کے لعاب سے تر کرتا ہے۔ مسکرانے کی کوشش کرتا ہے۔ 

    سلاخوں کے پار جنگل کا قیدی بادشاہ لیٹے لیٹے سراٹھاتا ہے، نیم وا آنکھوں سے اپنے پنجرے سے پار دیکھتا ہے، دم کے آخری لچھے دار سرے کو ہوا میں لہرا کے سر کو جنگلے کی سلاخوں کے ساتھ ٹکاکے آنکھیں موند لیتا ہے۔ 

    مرد کی آنکھیں شیر کے پوائنٹ آف ویو سے، پنجرے کی سلاخوں کے پار اپنے آپ کو دیکھتی ہیں۔ مرد کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ وہ فوراً آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ گھنے درختوں کے گنجان پتوں میں یرقانی دھوپ جھلملاتی ہے۔ اس کا سانس لمحہ بھر کے لیے رکتا ہے۔ وہ گھبراکے چاروں اور دیکھتا ہے۔ سڑک پر لوگ آزادانہ چل پھر رہے ہیں۔ چڑیا گھر کے ادھ کھلے دروازے سے آجارہے ہیں۔ سڑک پر زندگی رواں دواں ہے۔ دور سڑک کے کنارے کھڑا ایک شرارتی بچہ درختوں میں الٹی لٹکی چمگادڑوں کو غلیل سے پتھر مارتا ہے۔ چمگادڑوں میں بے چینی پھیلتی ہے۔ درختوں پر لٹکتی، جھولتی، چیختی ہیں۔ چند کوے پھرتی سے اڑتے ہیں، درختوں کے پتوں سے جھانکتی یرقانی دھوپ میں بجھ جاتے ہیں۔ پھر سکوت جھاجاتا ہے۔ مرد اطمینان کا سانس لیتا ہے۔ 

    عورت کی سوالیہ نظریں چڑیا گھر کے دروازے سے پلٹتی، مرد کی نظروں سے ٹکراتی ہیں۔ 

    نہیں۔ ہم اندر نہیں جائیں گے۔ 

    مرد کہتا ہے۔ 

    گندے متعفن تالاب سے ایک کونج پھڑک کر خشکی پر آتی ہے۔ پنجرے کے تارے کو چونچ سے ضربیں لگاتی ہیں۔ 

    کیوں۔۔۔؟ 

    عورت دبی زبان میں پوچھتی ہے۔ 

    تمام پرندے اپنی جگہ پر ساکت حیرت سے گردنیں گھما کے لاتی کونج کو دیکھتے ہیں۔ کونج کی تنہا، آخری کرلاہٹ چاروں اور سے پسپا ہوکر حلق سے ٹپکتی ہے اور پیروں میں بکھرے چنوں میں دفن ہوجاتی ہے۔ 

    بس کہہ جو دیا۔ 

    مرد درشت لہجے میں کہتا ہے۔ 

    شیر لیٹے لیٹے اپنی اگلی ٹانگ اکڑا کے پنجرے سے باہر نکلتا ہے، پنجوں سے تیز نوکیلے ناخن پل بھر کے لیے جھانکتے ہیں۔ آس پاس کھڑے لوگ فوراً پیچھے ہٹتے ہیں۔ ناخن پھر میان میں چلے جاتے ہیں۔ لوگ اطمینان کا سانس لے کر پھر آگے بڑھتے ہیں۔ 

    اب چلونا۔۔۔ کھڑے کھڑے کیا سوچ رہے ہو؟ 

    عورت سیرگاہ کی طرف قدم بڑھاتی ہے۔ مرد خاموشی سے ساتھ ہولیتا ہے۔ 

    عورت خاموشی سے اکتا جاتی ہے۔ 

    گرمی بہت ہے۔ کہو تو برقع اتارلوں۔ 

    ہوں۔۔۔؟ 

    یہاں آس پاس کوئی نہیں۔۔۔ مجھے گرمی۔۔۔ 

    اتار لو۔ میں نے منع کب کیا ہے۔ 

    پکڑ ناذرا۔ 

    عورت اپنا پرس مرد کے سامنے کرتی ہے۔ مرد چپ ہے۔ چڑیا گھر کو باغ سے علیحدہ کرتی باڑ کے پار، پنجرے میں ناچتے مور کو دیکھتا ہے۔ عورت کچھ نہیں کہتی۔ چلتے چلتے برقع اتار کے پرس والے ہاتھ میں پکڑ لیتی ہے۔ دوسرے ہاتھ سے بالوں کو درست کرکے سرپر دوپٹے کو ٹھیک کرتی ہے۔ پھر لٹکے لاکٹ کو چھاتیوں کے عین درمیان سیٹ کرتی ہے۔ ہاتھ کو نیچے گراکے مرد کاہاتھ پکڑتی ہے۔ ہولے سے دباتی ہے۔ مرداپنا ہاتھ فوراً چھڑا لیتاہے۔ 

    کچھ تو خیال کرو۔ 

    عورت روہانسی ہوجاتی ہے۔ اس کاہاتھ بے جان ہوجاتا ہے۔ 

    کولتار کی سڑک پر ان دونوں کے قدموں کی اکھڑی اکھڑی آوازیں فضا کی دوسری ہم آہنگ آوازوں سے بالکل الگ ہیں۔ عورت قدموں کی آوازوں سے اکتا جاتی ہے۔ 

    آج۔۔۔ آج اماں کہہ رہی تھیں گرمی بہت ہوگئی ہے۔ 

    اماں؟ 

    تمہاری اماں۔ 

    اوہ۔۔۔ اماں کو غلط فہمی ہے۔ ابھی تو گرمی آئی ہی نہیں۔ 

    گرمیاں تو آگئی ہیں۔ دیکھو میں پسینے۔۔۔ 

    اونہہ۔۔۔ یہ تو جو آئے دن بموں کے تجربے ہوتے رہتے ہیں، ان کی وجہ سے موسم بدل گئے ہیں۔ 

    بہرحال گرمی جلدآگئی ہے۔ لوگ تو یہی کہتے ہیں۔ 

    میں مانتی ہوں بعض لوگ کم عقل ہوتے ہیں لیکن۔۔۔ لیکن تم کیوں فضول بحث میں چھٹی کا دن برباد کرنے پرتلے ہو۔ 

    چھٹی؟ او۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں بھول ہی گیا تھا آج اتوار ہے۔ 

    اتوار نہیں، ہفتہ ہے اور تم نے مجھے ابھی تک نہیں بتایا آج کا ہے کی چھٹی ہے۔۔۔؟ 

    کاہے کی چھٹی کا ہے کی چھٹی۔۔۔ میں ہردن اس سے پہلے دن کی طرح گزار گزار کے اکتا گیا تھا، سورج نکلتے ہی فائلیں، یس سر، نو سر، ویری ویل سر، تھینک یو سر، پھر گھر، بک بک چخ چخ دفتر سے بچی فائلیں، دوات قلم، قلم دوات کاغذ، کاغذ کا غذ لفظ بے معنی لفظ بے معنی لفظ آج تمہیں ترقی دی جاتی ہے اسی طرح محنت کرتے رہے تو کل کل کل کل کل لفظ بے معنی لفظ۔ 

    شب بخیر۔ 

    کیا۔۔۔؟ 

    عورت حیرت سے اسے دیکھتی ہے۔ 

    ہوں؟ کچھ نہیں۔ آج جانے کا ہے کی چھٹی ہے۔ 

    بس ہے چھٹی۔ 

    مرد چلتے چلتے عورت کی طرف دیکھتا ہے۔ 

    تم۔۔۔ تم خوش ہو۔۔۔؟ میرے ساتھ؟ 

    یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ 

    عورت سچے دل سے کہتی ہے۔ مرد پھر سیدھا دیکھنے لگتا ہے۔ 

    تم نے بہت اچھا کیا کہ۔۔۔ 

    کہ۔۔۔ تمہیں سیر کے لیے لے آیا ہوں۔ 

    آج ہم شادی کے بعد پہلی مرتبہ اکٹھے تنہا نکلے ہیں۔ 

    اکٹھے؟ تنہا؟ 

    مرد ہنسنے کی خواہش کو دبادیتا ہے۔ 

    آؤ بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلیں۔ 

    ابھی تو تم نے میرا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔۔۔ 

    عورت کی نظریں باڑ سے دوسری طرف اٹھ جاتی ہیں۔ وہ فوراً تیز تیز قدم اٹھاکر باڑ کے جھرنوں سے دیکھتی ہے۔ 

    ہائے دیکھو کتنی خوبصورت بطخیں ہیں۔۔۔ دیکھو دیکھو ڈبکی۔۔۔ 

    مرد باڑ سے دور سڑک کے دوسرے کنارے کھڑا بوٹ کی نوک سے چند کنکریاں اکھاڑتا ہے۔ عورت پلٹ کراس سے پوچھتی ہے۔ 

    یہ بطخیں اڑ کیوں نہیں جاتیں۔۔۔؟ 

    میں کسی دن ان سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ 

    مرد، عورت کے قریب آتے ہوئے کہتا ہے۔ دونوں جانے کیوں ہنسنے لگتے ہیں۔ مرد اسے اشارہ کرتا ہے۔ 

    چلو۔ 

    دونوں چلنے کے لیے مڑتے ہیں۔ 

    ان سے دور اپنے پنجرے میں شیر گردن اٹھاتا ہے۔ پچھلی ٹانگیں سمیٹ کر اٹھتا ہے۔ اگلے پیروں کو فرش پر جماکے انگڑائی لیتا ہے۔ دھاڑتا ہے۔ عورت اچھل کر مرد کے سینے سے چمٹ جاتی ہے۔ فضا سہم جاتی ہے۔ 

    بچہ نہ بنو۔ 

    وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ شیر۔ 

    قید ہے۔ 

    فضا کی آوازیں شیر کی دھاڑ میں دبی آہستہ آہستہ ابھرتی ہیں۔ مرد گہرا سانس لیتا ہے۔ عورت کو کندھوں سے پکڑ کر علیحدہ کرتاہے۔ دباؤ کی وجہ سے عورت کے لاکٹ کانشان مرد کی قمیص پر پڑجاتا ہے۔ عورت اپنے چہرے میں مرد کے سینے کی تمام برف لیے اسے عجیب سی نگاہوں سے دیکھتی ہے، دھیرے دھیرے ہٹتی ہے۔ دوبارہ سر پر دوپٹہ اوڑھ کر چھاتیوں پر درست کرتی ہے اور تیزی سے چلنے لگتی ہے۔ مرد کے قدم سست ہیں۔ چند قدم بعد عورت کی رفتار بھی سست پڑجاتی ہے۔ دونوں پھر ساتھ چلنے لگتے ہیں۔ مرد یکدم چونکتا ہے۔ عورت سہم کر کہتی ہے۔ 

    نہیں نہیں میں نے تو کچھ نہیں کہا۔ 

    مرد کی نظریں چمگادڑوں کے ساتھ درختوں پر الٹی لٹک جاتی ہیں۔ 

    ابھی کچھ دیر میں شام انہیں جھنجھوڑے گی اور یہ پھڑ پھڑاتی ہوئی تلاش معاش میں نکل جائیں گی رات کے اندھیرے میں اپنے پیٹ کو روشن کریں گی۔ 

    تم نے چمگادڑ کی کہانی سنی ہے؟ 

    مرد اچانک عورت سے پوچھتا ہے۔ 

    پرندوں اور جانوروں والی۔۔۔؟ 

    ہاں۔۔۔ 

    عورت چلتے چلتے چڑیاگھر کے چھوٹے بند دروازے کے سامنے رکتی ہے۔ خواہش آخر زبان پر آہی جاتی ہے۔ 

    آؤ چڑیا گھر کے اندر چلیں۔ 

    اس سے کیا فرق پڑے گا۔ 

    پتہ ہے سیر گاہوں کے معنی کیا بنتے ہیں۔ سنا ہے جہاں اب سیرگاہیں ہیں وہاں جنگلی جانور رہا کرتے تھے۔ شیر چیتے خونخوار پنجے نکالے شہر کے دروازوں پر دستک دیا کرتے تھے۔ پھر شیروں چیتوں کے گرد سلاخیں گاڑدی گئیں۔ وہ محصور ہوگئے رنگ برنگ پرندوں کو قینچیاں لگاکر متعفن تالابوں میں چھوڑ دیا گیا اور اس طرح چڑیا گھر بنے، سیر گاہیں وجود میں آئیں۔ 

    شیر پنجرے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لاتعداد چکر لگا رہا ہے۔ مور ناچتا نہیں تھکتا۔ 

    میں نے تم سے کہا تھا اس بے کار جگہ کے بجائے قلعے کی سیر کو جاتے تو۔۔۔ 

    مرد تاسف سے کہتا ہے۔ 

    کیوں یہاں کیا خرابی ہے؟ سبزہ، پھول، خوشبو، ان گنت رنگ۔ 

    سبزہ زار شہر کے گرد فطرت کی فصیل ہیں لوگوں کے دلوں کے عین درمیان ویرانہ یا ویران دلوں کے عین درمیان سبزہ زاریا آدمی کے ویرانے کے گرد آدمی کے ویرانے کی فصیل زندگی کے لیے تھوڑا بہت وحشی ہونا ضروری ہے۔ 

    تم تو رنگ اور خوشبو کا یوں ذکر کرتی ہو جیسے۔۔۔ دراصل نیچر، ہماری نیچر کا آئینہ ہے۔ 

    ایک پرندہ، تنہا، پاس کے درخت سے اڑتا ہے اورسیٹی بجاتا ہوا دور فضا میں گم ہوجاتا ہے۔ 

    تمہارے خیال میں یہ پرندہ آزاد ہوگا۔۔۔؟ 

    اچھابابا۔۔۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ فطرت بہت بددیانت، بہت بداخلاق ہے۔ یہ سبزہ، پھول، یہ درخت۔۔۔ 

    عورت بولتی بولتی لمحہ بھر کے لیے سوچتی ہے۔ 

    گھرمیں زخم دیتے تنہا لمحوں سے جو چیز مجھے بچاتی ہے وہ کھڑکی سے نظر آتی احاطے میں پھیلے پیپل کے درخت کی شاخیں ہیں ان میں گاتی چڑیاں ہیں جب تم دفتر میں ہوتے ہوتو میں سارا سارادن ان پتوں کو گنتی گزارتی ہوں چڑیوں کی زبان سمجھتے گزارتی ہوں اور جب رات میں تم پھر فائلوں کے ساتھ ہم بستر ہوتے ہو تو میں تمام رات پیپل کے ہرے پتوں سے زرد پتے چننے میں بسر کرتی ہوں چڑیوں کے گیتوں کو درخت کی کوکھ میں دفن کرکے اپنے بستر کے جنگل میں نیند کا پیچھا کرتی ہوں حتی کہ سورج گزرے ہوئے دن کاآئینہ لے کر پھر پیپل کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور میرے حواس کو منتشر ہونے سے بچالیتا ہے۔ 

    اگر یہ درخت یہ سبزہ یہ پھول میرے حواس کو قائم رکھتے ہیں تو تمہیں کیا اعتراض ہے۔۔۔ ورنہ میں تو پاگل ہوجاؤں۔ 

    عورت لمحہ بھر سوچنے کے بعد کہتی ہے۔ 

    غلط۔۔۔ آدمی یا پاگل ہوتا ہے اور یا نہیں ہوتا۔ 

    آدمی پاگل ہوجاتے ہیں۔ 

    تمہیں گھر میں نظربند کرکے مجھے خوشی ہوتی ہے۔۔۔؟ 

    مرد جھنجھلاجاتا ہے۔ 

    اس کے سوا اور چارہ کیا ہے۔۔۔ ملازمت۔ ملازمت ترقی کا زینہ۔ معمولات کی زنجیر۔ 

    میں نے کہا تھا، میں بھی نوکری کرلیتی ہوں، آخر ایف۔ اے کب کام آئے گا۔۔۔؟ 

    کیا میں تنہاکافی نہیں؟ اور تم کیا چاہتی ہو۔ پہلے میں کلرک تھااور اب سینئر کلرک ہوں۔۔۔ اگر اسی طرح کام کرتا رہا تو ایک دن۔۔۔ 

    ایک دن ایک دن ایک دن جب چیختے غراتے دہاڑتے شیروں کے اردگرد سلاخوں کی فصیل مکمل ہوجائے گی اور وہ محصور ہوجائیں گے۔ 

    شیر اور بھی تیزی سے پنجرے میں گھومنے لگتا ہے۔ مستعد پہرے دار۔ شیر کے گلے سے نکلتی خر خر کی آواز فلک شگاف دھاڑ بن جاتی ہے۔ تمام آوازیں لبیک کہتی ہیں۔ مور کی چیخ اس واویلے میں ابھر کے ڈوب جاتی ہے۔ وہ ناچتا ناچتا اپنے پیروں کو دیکھتا ہے۔ اس کی آنکھ سے آنسو ٹپکتا ہے۔ وہ دھیرے دھیرے دم کو سمیٹ کر اپنے پیروں کو تاسف سے دیکھتا اندرونی کمرے میں چلا جاتا ہے۔ 

    مرد اور عورت پل بھر کے لیے رک کے ان تمام آوازوں کو فضامیں بکھرتا سنتے ہیں۔ موڑ مڑتے ہیں۔ تمام آوازیں موڑ پر آکے رک جاتی ہیں۔ اب کولتار کی سڑک پر ان کے جوتوں کی آواز کے سواکوئی آواز نہیں۔ 

    وہ اس موڑ سے تھوڑا ہی دور پہنچتے ہیں کہ رفتہ رفتہ، قوالی کی آواز، قدم قدم ان کی طرف بڑھتی ہے۔ دونوں آواز کے رخت ہوجاتے ہیں۔ 

    دفن ہونے کے لیے کتنی خوبصورت جگہ ہے۔ 

    مزار پر پہنچ کر عورت سوچتی ہے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے۔ پھر جھک کر مزار کو چومتی ہے۔ مرد مزار سے ذرا ہٹ کر اکڑوں کھڑا ہے۔ اس کا رخ مزار کی طرف نہیں ہے۔ وہ موڑ سے پرے، موڑ میں چھپے چڑیا گھر کی باڑ کو آنکھوں سے ٹٹولتا ہے۔ قوالی کی آواز میں دبی دوسری آوازوں کو سننے کی کوشش کرتا ہے۔ موڑ کے پیچھے سب کچھ چھپا ہے، باڑ، چڑیاگھر، آوازیں، ٹریفک کی آواز بھی نہیں آتی، قوالی کے شور میں سب کچھ معدوم ہے۔ 

    مرد کن اکھیوں سے مزارکو دیکھتاہے۔ 

    قدرت کا بہیمانہ مذاق زندگی میں اپنے سینے کے اندر ویرانے لیے بستی بستی گھوما کیے ہر لمحہ فنا ہوا کیے اور جب فنا ابدی ہوئی تو کہاں۔ 

    مرد عورت کو چلنے کے لیے اشارہ کرتا ہے۔ 

    عورت دعا ختم کرکے ہاتھ چہرے پر پھیرتی ہے۔ مڑتی ہے۔ دونوں چلتے چلتے پہاڑی کے قدموں میں آتے ہیں۔ عورت پہاڑی پر چڑھنے کی غرض سے پہاڑی کے راستے کی طرف بڑھتی ہے۔ مرد رک جاتا ہے۔ پاس ہی گڑے میل کے پتھر کو تھام لیتا ہے۔ 

    ہم پہاڑی پر نہیں جائیں گے۔ 

    کیوں؟ 

    عورت رک کر حیرانی سے اسے دیکھتی ہے۔ 

    مرد میل کے پتھر سے ٹیک لگاکر کہتا ہے۔ 

    سوال نہیں کرنے چاہئیں۔ اس سے انتشار پیدا ہوتا ہے۔ 

    اور سوال نہ کرنے سے بھی توانتشار۔۔۔ پلیزمیری خاطر چلو، پہاڑی پر چڑھیں۔ 

    مرد مجبوراً میل کے پتھر سے ہٹتا ہے۔ 

    چلو۔ 

    یوں چکر لگاکرنہ چلیں؟ 

    مرد چلتا چلتا کہتا ہے۔ 

    تم آرہی ہو یا نہیں۔ 

    اس طرف سے نہ جاؤ۔ 

    دیکھو تو سہی اس طرف کتنی سیڑھیاں ہیں آسمان کی ٹوٹی پھوٹی غیر محفوظ۔ میں تمہاری وجہ سے پہاڑی پر چڑھ رہا ہوں۔ یہ تمہاری خواہش ہے۔ 

    اور وہ شکستہ پل کتنا خطرناک اگر ٹوٹ جائے تو۔۔۔ 

    چوٹی تک ایسے ہی راستے جاتے ہیں۔۔۔ 

    تو بہ اتنی تیزی سے نہ چلو رک جاؤ، مجھے تھامو۔۔۔ 

    یہ تمہاری خواہش ہے 

    مرد جما جماکر پیر رکھتا پل کو پار کرلیتا ہے۔ عورت ہانپنے لگتی ہے۔ مری ہوئی آوازمیں کہتی ہے۔ 


    تم رک نہیں سکتے؟ 

    نہیں۔ 

    مرد پلٹ کر کہتا ہے فوراً چیختا ہے لیکن بے آواز

    نہ نہ ریلنگ کا سہارا نہ لو۔۔۔ یہ دیمک خوردہ۔۔۔ 

    عورت کاسانس پھول جاتا ہے۔ وہ بڑبڑاتی، لکڑی کی دیمک خوردہ پل کی شکستہ ریلنگ کا سہارا لیتی ہے۔ 

    مجھے تم تک پہنچنا ہے تم رک جاؤ تومیں تم تک پہنچ ہی جاؤں گی، پھر تم ہاتھ بڑھاکر مجھے سہارا دینا ریلنگ کو تھامے بنا چارہ بھی تو کوئی نہیں۔۔۔ 

    عورت پل پر بہت احتیاط سے پیر جماتی دھیرے دھیرے مرد کی طرف بڑھتی ہے۔ جانے کیا بڑبڑاتی ہے مرد پاس پڑے ایک بڑے پتھر پر بیٹھ کے کہتا ہے۔ 

    مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ تم لفظوں میں سانس ضائع نہ کرو۔ ابھی ان گنت سیڑھیاں باقی ہیں۔ 

    دونوں کو دیمک خوردہ پل کے آرپار ایک دوسرے کی آوازسنائی دیتی۔ عورت جلدی سے اپنا پچھلا پیر اٹھاکر پل کے پاس پتھریلی زمین پر رکھتی ہے۔ مرد کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو پکڑتی ہے اوربے جان ہوکر اس کی گود میں گرجاتی ہے۔ شکریہ شکریہ شکریہ۔ عورت کا دل زور زور سے دھڑکتا ہے۔ چند منٹ بعد وہ اس کی گودسے سراٹھاتی ہے۔ دونوں پہاڑی کی چوٹی کی سمت دیکھتے ہیں۔ اب صرف ایک چوتھائی فاصلہ باقی ہے۔ دونوں مڑ کر پل کی جانب دیکھتے ہیں۔ 

    توبہ۔ 

    عورت کاسانس قابو میں آچکاہے۔ 

    اتنی ساری اترتی ہوئی سیڑھیاں۔۔۔ اوروہ۔۔۔ وہ مزار۔ 

    سیڑھیوں کے اوپر درختوں کی شاخیں ایک دوسرے میں الجھی دورنیچے آخری سیڑھی تک چھتی، سرنگ سی بناتی ہیں۔ آخری نچلی سیڑھی سے دورسامنے مزارکی جالی کانچلاحصہ ہے۔ اس سرنگ کے آخری دہانے پر شام کا پہلا چراغ روشن ہوتا ہے۔ مزار پر قوالی شاید ختم ہوچکی ہے۔ مرد اورعورت کان لگاکے سنتے ہیں لیکن بینڈوں، جھینگروں، مینڈکوں کے شور اور پرندوں چمگادڑوں کی چیخوں اور پھڑپھڑاہٹ کے سوا کوئی آواز نہیں۔ شام آہستہ آہستہ، بہت آہستہ پیڑوں سے اترتی ہے۔ 

    میں اب ٹھیک ہوں۔ 

    عورت اٹھتے ہوئے کہتی ہے۔ 

    آؤ چوٹی پر چلیں۔ 

    مردکی نظریں درختوں سے بنی سرنگ کے مختلف کونوں کھدروں سے گھبراکر پلٹی ہیں۔ 

    شام ہو رہی ہے۔ آؤ گھر چلیں۔ 

    مرداٹھتا ہے۔ 

    کیوں چوٹی پر نہیں جانا۔۔۔؟ 

    چوٹی۔۔۔؟ 

    مرد کی آنکھیں پل بھر کے لیے پتھراجاتی ہیں۔ 

    چلونا۔ 

    عورت بچوں کی طرح ضد کرتی ہے۔ 

    تم چوٹی سے خائف ہو؟ 

    میں؟ چوٹی سے؟ خائف ہوں؟ میں؟ مردیکدم عورت سے پوچھتا ہے۔ 

    تم میرے لیے اپنی جان قربان کرسکتی ہو۔۔۔؟ 

    اورپھر اپنی نظروں کودرختوں سے بنی سرنگ کی دہلیز پر چھوڑ دیتا ہے۔ 

    کیوں؟ 

    عورت کی سمجھ میں نہیں آتا، کیوں؟ 

    یہ غلط جواب ہے۔ جان دو گی؟ ہاں یا نہ۔ 

    تم یہ کیسی باتیں کر رہے ہو؟ 

    اگر تمہارے مرنے سے میں بچ جاؤں۔۔۔ تو؟ 

    کیوں نہیں؟ میں تمہارے بغیر کیسے زندہ رہ سکتی ہوں۔ میں تمہاری بیوی ہوں۔ ہمارا ساتھ ہمیشہ رہنا چاہیے۔ 

    قبر میں بھی؟ پھر بھی ہم تنہا ہوں گے اپنی اپنی قبروں میں جیسے کہ اب ہیں 

    مردمسکراتا ہے۔ 

    وعدہ؟ 

    ہاں وعدہ۔۔۔ اب چلو۔ 

    عورت چوٹی کو دیکھتے کہتی ہے۔ 

    میری جان تمہاری ہے۔ جس طرح جی چاہے اسے برتو۔ 

    تمہاری چوٹی تک پہنچنے کی خواہش سے میں جلنے لگا ہوں۔ 

    اوہ سمجھا، اس پہاڑی کی چوٹی سے اس کی کوئی رومانی یاد وابستہ ہوگی پرانی کہانی یہ اور اس کا ہیرو یہاں آتے ہوں گے ایک دوسرے کے وجود میں دنیا پاتے ہوں گے پھر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ۔۔۔ 

    کیاسوچ رہے ہو۔۔۔؟ 

    پھر تمہاری شادی ہوگئی۔ اوردیوانہ اب بھی وہاں تمہارا منتظر ہوگا۔ 

    کون دیوانہ۔۔۔؟ اووووہ۔ 

    عورت کے ہونٹ اداس مسکراہٹ میں لرزتے ہیں۔ 

    تم بھول گئے۔ تم ہی تو مجھے شادی سے پہلے یہاں لایا کرتے تھے۔ تمہیں یاد نہیں میں کالج کی آخری کلاس مس کرکے گیٹ پر تمہارا انتظار کیا کرتی تھی پھر تم۔ 

    مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔ 

    مجھے کچھ بھی یاد نہیں 

    مجھے تو سب کچھ یاد ہے۔ 

    عورت دوپٹے کے پلو کو انگلی پر بل دیتی ہے۔ 

    چلونا۔۔۔ وہ دیوانہ شاید اب بھی وہاں میرا انتظار کر رہا ہو۔ 

    مرد کے ہونٹ بھی عورت والی مسکراہٹ میں اداس ہوجاتے ہیں۔ 

    وہ خواب مرگیا۔ 

    وہ خواب مرگیا۔۔۔؟ تمہارے لیے۔۔۔ نہیں۔ وہ خواب اب بھی زندہ ہے۔ چلو وہاں چل کر دیکھیں۔ 

    میں نے جب تم سے پوچھا تھا کہ میری خاطر جان دوگی تو تمہارا چہرہ زرد کیوں ہوگیا تھا۔ 

    نہیں تو۔ 

    ہوا تھا زرد۔۔۔ پتہ ہے، میں نے ابا سے بھی پوچھاتھا کہ آپ میری خاطر جان دیں گے؟ کہنے لگے، میں اب اتنا بوڑھا ہوگیا ہوں کہ موت بے معنی ہے اور پھر میں ایک بار تمہیں زندگی دے چکا ہوں دوبارہ کیا تک ہے۔ 

    مرد ہنستا ہے۔ 

    جب ماں سے یہی سوال پوچھا تو فرش پر بوریا پھیرتے کہنے لگی۔۔۔ میں بہت مصروف ہوں۔ 

    عورت بھی ہنسنے لگتی ہے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ 

    تو چلو۔ 

    اورچوٹی کی جانب قدم اٹھاتی ہے۔ 

    سوچ لو۔۔۔ پھر نہ کہنا۔ 

    وہاں خواب۔ 

    عورت پلٹ کر کہتی ہے۔ 

    وہاں ڈائن ہے۔ منہ پھاڑے دانت نکالے کھڑی ہے۔ زبان لہو سے تر۔ 

    مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔ 

    عورت مسکراتی ہے۔ 

    مرد سنجیدگی سے کہتا ہے۔ 

    پھر نہ کہنا۔۔۔ چلو۔ 

    دونوں چند قدم چلتے ہیں کہ بھاگتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدموں کی آواز سن کر رک جاتے ہیں۔ ایک لڑکا، شام کے پھیلتے سرمئی غبار سے جنم لیتا ہے۔ 

    یہ کون؟ 

    عورت دبک کے مرد کے ساتھ لگ جاتی ہے۔ 

    لڑکا ہے۔ تتلی وتلی کاپیچھا کر رہا ہے۔ 

    لڑکاان دونوں کو قریباً چھوتا ہوا گزر جاتا ہے۔ عورت کانپ جاتی ہے۔ 

    نہ بھاگو لڑکے جانے دو تتلی کو ارے ارے آگے سیڑھیاں ہیں پھسلن ہے دیمک خوردہ پل ہے اے منے، اے لڑکے، اے بیٹے، پھسل جاؤگے، گرجاؤگے، مرجاؤگے 

    عورت چیختی ہے۔ 

    روک۔۔۔ روکو اسے۔ گرجائے گا۔ 

    لڑکا کھلکھلاکر ہنستا ہوا درختوں کی سرنگ میں غائب ہوجاتا ہے۔ مرد اسے اس سرنگ میں تحلیل ہوتا دیکھتا ہے۔ جانے دو اسے خود اپنے لیے سچائی کی تلاش کرنے دو۔ جب وہ ان دیکھی تتلی اس کے ہاتھ آتی آتی پھسل جائے گی تو وہ انگلیوں پر لگے نظر نہ آنے والے تتلی کے پروں کے بور کو دیکھتا سوچے گا، سچائی کیا ہے اور پھر کائی جمی ٹوٹی پھوٹی سیڑھیوں کو پھلانگتا دیمک خوردہ پل پر ڈولتا اجنبی راستوں پر بھاگتا اس عکس کا پیچھا کرے گا جو اس کی دانست میں تتلی تھا، حتی کہ وہ اس سرنگ میں تحلیل۔۔۔ 

    روکو اسے۔۔۔ گم سم کیوں کھڑے ہو۔ 

    چلو۔ 

    مرد زیر لب کہتا ہے۔ عورت خاموشی سے اس کے ساتھ ہولیتی ہے۔ 

    توبہ۔۔۔ ذرا آہستہ چلو۔ 

    وہ رہی چوٹی۔ 

    بکھرے ہوئے سانسوں کو سمیٹو۔ 

    یہاں کوئی نظر نہیں آتا۔ 

    ہاں۔۔۔ ہم تنہا ہیں۔ 

    دوسری طرف جہاں چشمہ پھوٹتا ہے نیچے اترکے آبشار بنتا ہے جس کے دامن میں رات کو دھنک سوتی ہے لوگ تو وہاں ہوتے ہیں 

    جانے تم کیوں اس اجاڑمیں۔۔۔ 

    اپنی چھٹی برباد کر رہا ہوں؟ 

    میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ چھٹی کا یہ دن بھی گرد بن کر فائلوں کے ساتھ چمٹے ہوئے عام دنوں کی سائیکلوسٹائل کاپی ہوگا

    تم ہی چاہتی تھیں کہ پہاڑی کی چوٹی کر سرکریں۔ 

    آؤ نیچے جاکر تالاب میں گرتی آبشار کو دیکھیں۔ پھر ریستوران میں آئسکریم اور سموسے کھائیں۔ 

    اچھا۔ 

    لیکن ہم تو پلٹ کر مزارکو جارہے ہیں۔۔۔ جانا تو چوٹی۔۔۔ 

    سب راستے اسی طرف نہیں جاتے؟ 

    اوہ۔۔۔ سوری۔۔۔ میں کنفیوژ ہوگیا تھا۔

    بس چندقدم اور پھر ہم اپنے اپنے خوابوں اپنی اپنی مصیبتوں اپنی اپنی اذیتوں کاسامنا کریں گے، ہمیں خائف نہیں ہوناچاہیے۔ یہ۔۔۔ یہ کیسی آواز ہے؟ آواز تھی کوئی۔۔۔ عین اس لمحے جب میرا خیال تھاکہ میں اس آواز کو پکڑلوں گا۔ پھسل گئی آوازیں فناہوجاتی ہیں اور فضائی لہروں میں امر ہوجاتی ہیں۔ ساری کائنات ایک گونج ہے نوزائیدہ بچے کی پہلی چیخ کائنات کے نامعلوم راستوں پر بھٹکتی جب مرنے والے کی آخری ہچکی سے۔۔۔ 

    جانتی ہو، ہم کائنات کی موسیقی ہیں۔ 

    ذرارکنا۔۔۔ ایک سیکنڈ۔۔۔ 

    آہ۔۔۔ ہم پہنچ گئے۔ 

    عورت چوٹی کی سطح پر قدم رکھتے ہی اپنا پرس کھول کر آئینہ نکالتی ہے۔ چہرے کو پف کرتی ہے۔ آنکھوں کاسرمہ درست کرتی ہے۔ مرد استہزائیہ انداز میں مسکراتا ہے۔ 

    تم آنکھوں کو چاہے جتنا سنوارو آنسوؤں کی لکیریں نہیں مٹیں گی۔ آنکھیں تو سوگ کی جھیلیں ہوتی ہیں آنسوؤں کے بغیر بھدی معلوم ہوتی ہیں۔ الم بذات خود خوبصورت ہوتاہے، نہیں، نہیں اس میں خود رحمی کی کوئی بات نہیں خواہ مخواہ رومانوی سوچ سوچنے کو جی چاہا تھا۔ مجھے معاف کردو میں کولہوں کا بیل ہوں اکتاہٹ کامارا، نامرادی کا شکار۔ میں نوکری کرتا ہوں اور آج نوکر دفتر نہیں گیا کل اتوار ہے نوکر کی اتوار شاہی قلعے میں گزرتی ہے آج نوکر بہت مشکل سے اپنی بیوی کے ساتھ سیر کے لیے نکلا ہے کہ اکل اسے شاہی قلعے جانا ہے اتوار کے دن کی عیاشی وہ کسی کے لیے قربان نہیں کرسکتا۔ 

    آہ۔۔۔ ہم پہنچ گئے۔ 

    عورت اس سے الگ، تیزی سے سطح کے گرد کناروں پر لگے جنگلے کی طرف بڑھتی ہے۔ 

    دیکھو دیکھو۔۔۔ ادھر یہاں سے آبشار کتنی خوبصورت نظر آتی ہے۔ 

    مرد کی ویران نگاہیں ادھر ادھر بھٹکتی ہیں۔ 

    وہ چھوٹی سی جھیل۔۔۔ وہ نیچے۔۔۔ دیکھو بالکل میرے پیروں سے چشمہ پھوٹ رہا ہے۔ 

    عورت پلٹ کر مرد کو دیکھتی ہے جو ایک بہت بڑے تناور درخت کے پیچھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایک غار کے منہ کو دیکھ رہا ہے۔ 

    تم وہاں کیا کر رہے ہو؟ دیکھو ہم کتنی بلندی پر ہیں۔۔۔ وہ دور نیچے جھیل میں بچے کاغذ کی۔۔۔ 

    مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ 

    مردپھر غار کے منہ میں نگاہیں ڈال دیتا ہے۔ 

    تو میرا چھٹی کا دن ضائع نہیں ہوا، میں قلعہ میں نہیں پہنچا، قلعہ ہی میرے پاس آگیا لیکن یہ دہانہ قلعے کی دوری سرنگوں سے کتنا مختلف ہے اور سرنگوں میں تو روشنی آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتی رفتہ رفتہ بجھتی ہے لیکن یہاں تو باقاعدہ دروازہ ہے نہ سیڑھیاں۔ تاریک منہ تاریکی میں اور بھی تاریک ہے۔ سرنگ کا دہانہ کھردرے کناروں سے بنا ہے بے ترتیبی سے ٹوٹے ہوئے پتھر جن کی سطح پر آگے درختوں کی جڑیں لاروے۔۔۔ 

    ہائے دیکھو۔۔۔ اب روشنی ہوئی ہے تو جھیل میں واقعی دھنک اتر آئی ہے۔ فوارے سے اچھلتی بوندیں تاروں کی طرح ٹوٹ رہی ہیں۔ 

    عورت بچوں کی طرح تالیاں بجاتی مڑتی ہے۔ مرد کو ڈھونڈتی، سرنگ کی دہلیز پر جھکے مرد کے پاس آتی ہے۔ 

    تم۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ آج ہم پہلی مرتبہ اکٹھے۔۔۔ 

    مرد آہستہ آہستہ نگاہیں اٹھاکے عورت کو دیکھتا ہے۔ گہری شام کی دھندلاہٹ میں مرد کی آنکھوں میں سرخی صاف نظر آتی ہے۔ عورت سہم سی جاتی ہے۔ 

    تم یوں کیوں بیٹھے ہو؟ 

    مرد مسکراتا ہے۔ 

    آخر میں قلعے پہنچ ہی گیا۔ 

    قلعہ! 

    عورت حیران ہوجاتی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں پاتی۔ 

    اٹھو۔۔۔ یہاں بہت اندھیرا ہے۔۔۔ کہیں کوئی سانپ وانپ۔۔۔ 

    سانپ؟ 

    مرد ہنس دیتا ہے۔ 

    تم یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ 

    جو تم ڈھونڈ رہی تھیں، تم نے پالیا۔۔۔ جس کی مجھے تلاش ہے ابھی تک۔ 

    تم اس کھوہ۔ 

    تم جاؤ۔ 

    مرد فیصلہ کن لہجے میں کہتا ہے۔ 

    عورت، سہمی ہوئی، مایوس پلٹتی ہے اور جنگلے کے ساتھ لگ کر، پہاڑی کے قدموں میں، اچھلتی آبشار سے پھوٹتی دھنک پر جھک جاتی ہے۔ 

    جانے میرے لیے سرنگوں کے دہانوں میں اتنی کشش کیوں ہے شکر ہے چھٹی کا دن مرا نہیں تمام راستہ یہی سوچتارہا کہ ہم قلعے کی سیر کو جاتے تو اچھا ہوتا لیکن خواہش ہو تو ہر جگہ قلعے بن جاتے ہیں ہر جگہ سرنگوں کے دہن کھل جاتے ہیں۔ 

    تم ہر اتوار کہاں جاتے ہو؟ 

    افسروں کی خوشنودی اور فوری ترقی کی خواہش میں اتوار کے روز بھی دفتر۔۔۔ 

    دفتر؟ 

    مرد زیر لب کہہ کر مسکراتا ہے۔ 

    سرنگ۔ 

    پتا ہے سرنگوں کے مالک سرنگوں کو کئی طریقوں سے استعمال کیا کرتے تھے۔ مغل شہزادیوں کا پردہ اور شارٹ کٹ شہنشاہوں کی فرار کے خفیہ راستے، ایک اور سرنگ بھی تھی جس کے متعلق میں نے پڑھا ہے کہ اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا یہ سرنگ ذرا دور جاکر دیواروں میں کٹ کے کئی راستوں میں بٹ جاتی تھی اس کے عین وسط میں ایک بلا کاکھلا منہ تھا جانے یہ سرنگیں بھی اسی سرنگ کے مانند ہوں۔ کاش میں ان سرنگوں میں داخل ہونے کی جرأت کرسکتا میری تو ہر اتوار کا سورج قلعے کی سرنگوں سے طلوع ہوتا ہے وہیں غروب ہوتا ہے اور میں سرنگوں کے دہن چاٹتا دہلیز پار کرنے کا ارادہ ہی کیا کرتا ہوں کیا پتہ یہ سرنگیں بھی اسی سرنگ کی طرح ہوں جس میں سچائی کے متلاشی داخل ہوتے ہی دوسراقدم بلاکے منہ میں رکھ دیتے ہیں کہ شاید یہی باہر نکلنے کا راستہ ہو میں جاؤں اندرجاکے دیکھوں؟ 

    مرد عورت کو پکارتا ہے۔ عورت خوش خوش مرد کے پاس آجاتی ہے۔ 

    جانے یہ سرنگ کہاں جاتی ہے؟ 

    کہیں نہیں جاتی۔۔۔ آؤ چلیں۔۔۔ جاکر سموسے اور آئس کریم۔۔۔ 

    ابھی دیکھتے ہیں یہ کہاں جاتی ہے۔ 

    نہیں۔ 

    عورت کے چہرے کی تمام خوشی خوف کے تاثر میں بدل جاتی ہے۔ 

    اندر نہ جاؤ۔ کیا معلوم وہاں کیا ہو۔۔۔ سانپ، بچھو۔۔۔ ڈھانچے، بلائیں۔۔۔ میں تمہیں اندر نہیں جانے دوں گی۔ 

    میں نہیں۔ تم جاؤگی۔ 

    میں؟ 

    ہاں۔ 

    میں؟ 

    ہاں ہاں۔۔۔ تم۔۔۔! تم نے میری خاطر جان تک دینے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔ یہ بات تو معلوم ہے۔۔۔ یہ لو ماچس، اندر تاریکی ہوگی۔ صرف جھانک کر آجانا۔ 

    عورت ماچس نہیں لیتی۔ اسے بہت غور سے استفہامیہ اندا زمیں دیکھتی ہے۔ 

    میری خاطر۔۔۔ پلیز۔۔۔ میری خاطر۔ 

    مرد التجا کرتاہے۔ 

    تمہیں مجھ سے محبت نہیں؟ 

    مرد بہت پیار سے عورت کی گردن سے لٹکے لاکٹ کو سیدھا کرکے چھاتیوں کے عین درمیان میں سیٹ کرتاہے۔ 

    صرف چند لمحوں کے لیے۔ 

    تم۔۔۔ تم کیسی باتیں کرتے ہو۔ 

    عورت ایک قدم پیچھے ہٹتی ہے۔ 

    یہ سرنگ تو معلوم نہیں ہوتی۔ کھوہ سی ہے۔ ممکن ہے یہاں سے مالی نے مٹی کھود کر۔۔۔ 

    جو بھی ہو، سمجھ لو ہم آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ 

    آنکھ مچولی؟ 

    عورت کے ہاتھ سے برقع اور پرس پھسل کر گرپڑتے ہیں۔ وہ بچوں کی طرح خوش ہوکر تالی بجاتی ہے۔ 

    ہاں آنکھ مچولی۔ پھر ہم نیچے جاکر سموسے اور آئس کریم کھائیں گے۔ 

    اچھا۔۔۔ تمہاری خاطر۔۔۔ 

    تم کہیں جانانہیں۔۔۔ لو میں چلی۔ 

    عورت ماچس کی ڈبیا سے سلائی نکال کر جلاتی ہے۔ 

    خدا حافظ۔ 

    خشک پتوں پر عورت کے پیروں کی سرسراہٹ سنائی دیتی ہے جو کہ دیا سلائی کے شعلے کے ساتھ رفتہ رفتہ تاریکی میں دور ہوتی فیڈ ہوجاتی ہے۔ 

    تم میری بیوی ہو تم میری ساتھی ہو تم میری جرأت ہو اگر میں خود اندر نہیں گیا تو کیا ہوا تمہاری آنکھیں بھی تو میری ہیں۔ ابھی تک آئی نہیں؟ 

    مرد بے چینی سے سرنگ میں جھانکتا ہے۔ 

    کیا ہے اندر کیسی جگہ ہے تم اب کہاں ہو جواب دو۔ کچھ ملا، بلانظر آئی بولو خیرت سے تو ہو کوئی خزانہ جو کسی بھاگتے ہوئے شہنشاہ کی پیٹھ سے گرگیا ہو جواب دو۔۔۔ تم کہاں ہو۔ 

    سرنگ سے آتی کھانسی کو سن کر مرد کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سوکھے پتوں پر چھوٹے چھوٹے لڑکھڑاتے قدموں کی آواز اس کی طرف بڑھتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے، دبی دبی کھانسی میں سسکتے ہوئے سانس قریب آتے ہیں۔ دور سرنگ کے دوسرے سرے پر دیا سلائی کاشعلہ بجھتا ہے۔ 

    تم ہی ہونا۔۔۔؟ تم آگئیں؟ 

    عورت سرنگ کی دہلیز پر پہنچ کر لڑکھڑاتی ہے۔ مرد بے صبری سے بڑھ کر فوراً اسے تھام لیتا ہے۔ 

    تم؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ 

    عورت بالکل عورت معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے ہونٹوں کی سرخی کو مکڑی کے جالے چاٹ رہے ہیں۔ چہرے پر صدیاں کا غبار ہے۔ آنکھوں سے تاریکی بہہ رہی ہے۔ 

    بولو۔۔۔ تمہیں کیا ہوا۔۔۔؟ 

    ننھے ننھے سانس۔ 

    مرد زمین پر پڑے برقعے پر بیٹھ کر عورت کا سر اپنے زانو پر رکھتا ہے۔ عورت کے چہرے کو سیدھا کرتا ہے۔ 

    جواب دو۔ 

    وہ جواب شاید سرنگ میں کہیں چھوڑ آئی ہے۔ مرد کے منہ سے سوال پھر مشین گن سے جھڑتی گولیاں ہیں۔ 

    تم نے کیا دیکھا؟ زمین کی کوکھ میں کیاچھپا ہے۔ بچھو؟ سانپ؟ بلائیں؟ پنجر؟ انسانی ڈھانچے؟ تم کانپ رہی ہو۔ زرد ہو رہی ہو۔ کہیں بلا کے منہ کو باہر جانے کا راستہ سمجھ کر تم نے اس میں پیر تو نہیں ڈال دیا تھا؟ بھئی اس میں خائف ہونے کی کیا بات ہے۔ یہ تو مذاق تھا۔ آؤ واپس چلیں۔ آبشار سے پھوٹتی دھنک کو قریب سے دیکھیں۔۔۔ ارے۔۔۔؟ ! 

    مرد کی نظریں اس کی چھاتیوں کے درمیان، ہک پر جاپڑتی ہیں۔ 

    تمہارا لاکٹ کہاں گیا۔۔۔؟ اندر ہی گرا آئیں؟ 

    مرد بہت احتیاط سے عورت کاسر اٹھاکر زمین پر پڑے پرس پر رکھ دیتا ہے اور اس کے بے جان ہاتھوں سے ماچس لے لیتا ہے۔ 

    بس ایک منٹ میں تمہارا لاکٹ لے آؤں۔ 

    مرد دیا سلائی کو ماچس پر رگڑتا ہے۔ شعلہ ہوامیں پھڑکتا ہے۔ وہ عورت کی چھوٹی چھوٹی کھانسی، رکتے رکتے سانس، بینڈوں، جھینگروں، مینڈکوں اور چمگادڑوں کی سمفنی کے حوالے کرکے سرنگ کی دہلیز پار کرتا ہے اور اپنے پیروں سے نکلتی، خشک پتوں کی سرسراہٹ سمیت دھیرے دھیرے، دیاسلائی کی روشنی لیے سرنگ میں اترکے سرنگ آشنا ہوتاہے۔ 

    اتوار کا دن۔ 

    سورج گزرتے ہوئے دن کا آئینہ لے کر پیپل کی کوکھ سے طلوع ہوتاہے۔ عورت اپنے گھر کی کھڑکی سے، احاطے میں پھیلتی پیپل کی شاخوں سے ابھرتے چڑیوں کے گیت سنتی ہے۔ اس کا ہاتھ چھاتیوں کے عین درمیان قمیض کو اس جگہ نوچتا ہے جہاں لاکٹ نہیں ہے۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے