Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چپ شاہ

MORE BYعلی حیدر ملک

    ننگ دھڑنگ، وہ سارے شہر میں گھومتے رہتے تھے، کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کون تھے اور کہاں سے آئے تھے۔ ان کے بارے میں ہر شخص ایک الگ کہانی بیان کرتا تھا۔ کوئی وہی روایتی کہانی سناتا کہ وہ ایک قبائلی سردار کے بیٹے تھے۔ کسی دوسرے قبیلے کے سردار کی بیٹی سے انہیں عشق ہو گیا تھا لیکن ان دونوں قبیلوں میں چونکہ کئی پشتوں سے دشمنی چلی آ رہی تھی، اس لیے ان کی شادی نہیں ہو سکی تھی۔ بددل ہو کر انہوں نے قبیلہ ہی نہیں چھوڑا، بلکہ دنیا تیاگ دی۔ مختلف شہروں اور بستیوں سے ہوتے ہوئے وہ اس شہر میں آ گئے۔ اب ان کے جسم پر کپڑے کی ایک دھجی بھی نہیں تھی۔ سر کے بال بڑے بڑے اور آپس میں چپکے ہوئے۔ داڑھی گھنگریالی، نیچے سے اوپر کی طرف اٹھتی ہوئی۔ کسی نے ان کو کھاتے پیتے بھی نہیں دیکھا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ وہ رات گئے درختوں سے کچے پکے پھل توڑ کر کھاتے ہیں یا ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں بچے ہوئے کھانے سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔

    شروع شروع میں عورتیں انہیں دیکھ کر نظریں نیچی کر لیتیں اور راستہ بدل لیتی تھیں، مگر رفتہ رفتہ وہ اس کی عادی ہو گئیں۔ بچے پہلے ہنستے تھے، پھر اس سے مانوس ہو گئے اور ہنسنا بند کر دیا، کیوں کہ کوئی چیز زیادہ دنوں تک نئی یا نامانوس نہیں رہتی۔ ہر حیرت ایک نہ ایک دن ختم ہو جاتی ہے۔

    بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ قبرستان میں چلہ کشی کر رہے تھے۔ چلے کے آخری روز آدھی رات کے وقت ایک حسین عورت نیم عریاں حالت میں ان کے پہلو میں آکر بیٹھ گئی اور اپنی بانہیں ان کے گلے میں ڈال دیں۔ وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے اور اسی روز سے اس حالت میں ہیں۔

    کچھ لوگ کہتے تھے کہ وہ ایک نڈر اور بے باک سیاسی کارکن تھے۔ ان کی جماعت کے لوگ ان کی سچائی، ایمان داری اور بےلوث جدوجہد پر فخر کرتے تھے۔ مخالف جماعت نے انہیں خریدنے کی کوشش کی، مگر اس میں ناکامی پر انہیں اغوا کر والیا اور کرائے کے غنڈوں کے ذریعے ان کی یہ گت بنا دی۔ چند لوگ یہ کہتے ہوئے بھی پائے جاتے تھے کہ یہ کام مخالف جماعت نے نہیں، بلکہ ان کی اپنی جماعت کے ایک گروپ نے کیا تھا تاکہ انہیں راستے سے ہٹایا جا سکے۔

    ایسے بھی لوگ تھے جو یہ خیال کرتے تھے کہ وہ جاسوس ہیں اور کسی ایجنسی کے لیے کام کرتے ہیں۔ چند اشخاص انہیں دشمن ملک کا ایجنٹ بھی گردانتے تھے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔

    حقیقت جو بھی ہو، لیکن اب وہ شہر کا حصہ بن گئے تھے۔ بہت سے لوگوں کو ان سے عقیدت ہو گئی تھی۔ وہ انہیں کھلانے پلانے کی کوشش کرتے تھے مگر وہ ہر چیز کو جھٹک دیتے۔ کسی شے کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ کچھ لوگ خصوصاً عورتیں ان کے سامنے اپنے دکھڑے بیان کرتیں اور اپنے لیے دعا کرنے کو کہتیں۔

    ربیع الاول کے مہینے میں جہاں کہیں سیرت کی محفل ہوتی وہ ایک کونے میں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے اور زار و قطار روتے رہتے۔ اس طرح محرم کے دنوں میں اگر کسی امام بارگاہ سے مجلس کی آواز آتی تو وہاں بھی سر جھکائے کھڑے نظر آتے اور ان کی آنکھوں سے جھر جھر آنسو بہتے رہتے۔

    ایک بار لوگوں نے دیکھا کہ وہ شہر کے چوک کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں۔ کچھ دیر چپ چاپ کھڑے رہنے کے بعد انہوں نے اپنا چہرا آسمان کی طرف اٹھایا اور حلق سے عجیب سی آوازیں نکالنے لگے۔ ان کی آنکھیں انگارے کی طرح دہک رہی تھیں اور پورا بدن لرز رہا تھا۔ لوگ باگ حیرت سے انہیں دیکھتے رہے۔ کسی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ دوسرے دن صبح سویرے زلزلہ آیا جس سے بے شمار لوگ لقمہ اجل بن گئے اور ہزاروں عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔ حالات معمول پر آئے تو لوگ چپ شاہ کو یاد کر نے لگے۔ ہر شخص زلزلے کے سانحے کو ان کی گذشتہ روز کی حرکتوں سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ شہریوں کو یقین تھا کہ انہیں زلزلے کی خبر ہو گئی تھی اسی لیے وہ آسمان کی طرف رخ کر کے اور حلق سے عجیب عجیب سی آوازیں نکال کر فریاد کر رہے تھے۔ ایک دفعہ لوگوں نے دیکھا کہ چپ شاہ اپنے سر کو دائیں بائیں زور زور سے جھٹک رہے ہیں اور ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوؤں کے بڑے بڑے قطرے گر رہے ہیں۔ اس کے بعد ابھی چندروز ہی گزرے تھے کہ شہر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے اور ایک فرقے کے پیروکاروں نے دوسرے فرقے کے پیروکاروں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ دونوں فرقوں کے ماننے والے جوش میں تھے اور مخالف فرقے کے جانی و مالی نقصان پر خوشیاں منا رہے تھے۔

    وقفے وقفے سے اسی طرح کے کچھ اور واقعات پیش آئے۔ چپ شاہ سے لوگوں کی عقیدت میں اضافہ ہو تا گیا۔ اب ہر شخص یہ یقین کرنے لگا تھا کہ چپ شاہ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں اور انہیں وقت سے پہلے ہر واقعے، ہر سانحے کا علم ہو جاتا ہے۔

    کچھ عرصے بعد ایک اور واقعہ پیش آیا۔ چپ شاہ ہاتھوں کو تلوار کی طرح ہوا میں لہراتے ہوئے تیزتیز قدموں سے چلتے ہوئے آئے اور ٹریفک کے سپاہی کو دھکا دے کر خود اس کی جگہ پر کھڑے ہو گئے، پھر بار ی باری اپنے دونوں پاؤں زمین پر زور زور سے پٹخنے لگے جیسے پریڈ کررہے ہوں۔ چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا اور منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ لوگ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھتے رہے، مگر کوئی کچھ بولا نہیں۔ ان کی یہ حرکت دیکھ کر لوگ سہم ضرور گئے۔ انہیں اس بات کا پختہ یقین ہو گیا کہ شہر پر کوئی بڑی آفت نازل ہونے والی ہے۔ بزرگ اور دانا لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اب اس شہر میں رہنا مناسب نہیں۔ سو اس فیصلے کے بعد وہ گروہ در گروہ وہاں سے کوچ کرنے لگے۔ جب وہ کوچ کر رہے تھے تو ماحول پر قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی اور فضا پر موت کا سا سکوت طاری تھی، پھر ہر طرف سے گولیوں اور دھماکوں کی آواز سنائی دینے لگی۔

    لوگ خوف کے عالم میں نامعلوم منزلوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔ بس بھاگے جارہے تھے۔ جو پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی خوف کے آزار میں مبتلا تھے۔

    مگر چپ شاہ کا دور دور تک کہیں پتا نہیں تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے