Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سنڈریلا

انور سجاد

سنڈریلا

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    کبھی وہ سوچتی: اس کی عمر ایک لمحہ ہے، کبھی وہ سوچتی: اس کی عمر سو سال ہے، کبھی وہ سوچتی: وہ عمر کی قید میں نہیں، یا شاید ابھی اسے جنم لینا ہے۔

    وہ اس کمرے میں سدا سے قید تھی اور اس امید میں تھی کہ کوئی آئے اور اسے اس بطن سے جنوائے۔ پھر وہ سوچتی، کوئی کب اسے جنوائے گا، اسے خود ہی کوئی حیلہ کرنا ہوگا، اس بطن سے مر کے نکلے تو کیا نکلے! وہ چپکے سے دروازہ کھول کر باہر دیکھتی۔ باہر دروازے کے سامنے وہ بھاری بھرکم خونی کتا زبان نکالے ہانپتا ہوا وحشی مکار نظروں سے دیکھتا، جو ازل سے وہاں کھڑا تھا۔ وہ کتے کو پچکارنے کی کوشش کرتی۔ کتا خونخواری سے بھونکتا، قدم اٹھاتا، وہ پچھلے پیر پلٹ کر جھٹ سے دروازہ بندکردیتی۔ کتے کے بھونکنے سے ماں کو پتا چل جاتا کہ اس نے پھر کوئی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ مع اپنی بیٹیوں کے آتی، کتے کو تھپکی دیتی اور کمرے میں داخل ہوکر بغیر کچھ کہے سنے اس کی خوب پٹائی کرتی۔ جاتے ہوئے اس کی بہنیں کئی سوگز الجھی ہوئی اون اس کے سامنے ڈال دیتیں اورماں غراتی کہ جب تک اون کی گنجلکیں نہیں کھلتیں اسے کھانا نہیں ملے گا۔ اس کی آنکھوں کے تمام آنسو خشک ہوجاتے۔ وہ اون سلجھانے لگتی اور کھڑکی سے باہر کھلے آسمان کی طرف دیکھنے لگتی۔

    اس کی ماں سوتیلی تھی اوربہنیں بھی سوتیلی۔

    اس کی ماں اس کے پیدا ہوتے ہی مرگئی تھی اور اس کا باپ اس کی پیدائش سے ایک سال بعد۔ اس نے اپنے سگے ماں باپ کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔ اس کا تصور بہت محدود تھا۔ اس کی کائنات یہی کمرہ تھی جس میں اس نے آنکھ کھولی تھی۔ بچپن میں جو عورت مسکراکے دیکھتی تھی، اس کی ماں تھی، جو شخص اس کے سر پر ہاتھ رکھتا تھا، اس کا باپ تھا۔ پھر یہ سب مسکراہٹیں اور پر شفقت ہاتھ سمٹ سمٹاکر سوتیلی ماں، بہنوں اور خونخوار کتے کے وجود میں غائب ہوگئے تھے۔

    اس نے ایک دو مرتبہ کمرے کی کھڑکی سے بھی بھاگنے کی کوشش کی تھی، پر جانے اس بیری کتے کو کیسے خبر ہوجاتی، کہ جونہی وہ کھڑکی کی دہلیز پر پیر رکھتی وہ کتا باہر، کھڑکی کے نیچے، زبان نکالے وارننگ کی نظروں سے دیکھتاکھڑا ہانپ رہا ہوتا۔ وہ بے بس ہوکر پھر کمرے میں اتر آتی اور گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگتی۔ کبھی کبھی کھڑکی سے ایک کنکر آکے پیروں میں گرتا۔ وہ اپنے میلے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھتی، سینے میں اٹھتے طوفان کاگلاگھونٹتی، وہ کنکر اٹھاتی، کونے میں پڑے اسی قسم کے بہت سے کنکروں میں رکھ دیتی اور سوچتی،

    نہیں، میں کھڑکی میں نہیں جاؤں گی۔

    نہ چاہنے کے باوجود وہ دیوار کی اوٹ میں ہوکر کھڑکی سے، سڑک کے پار، سبز درخت کے نیچے کھڑے اس دیوانے کو دیکھتی جو سرخ چادر اوڑھے، ٹکٹکی لگائے اس کھڑکی کی طرف دیکھتا مسکراتا رہتاتھا۔

    یہ سرخ چادر والا دیوانہ بھی عجیب شخص تھا۔ گنجا سر، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، چھدری داڑھی، ناٹاقد، سبز درخت کے نیچے گولڈ مہر کا بہت بڑا پھول لگتا تھا۔ اس علاقے کے لمبے تڑنگے لڑکے زلفیں بکھرائے، کمرے سے گرتی پتلونیں پہنے، کوکاکولا پیتے ہوئے اسے چھیڑتے، آوازے کستے، پتھر مارتے لیکن یہ دیوانہ بس مسکراتا رہتا تھا۔ لڑکے خود ہی ہارکر چلے جاتے، لیکن کبھی وہ بہت تنگ آجاتا تو زخمی شیر اس زور سے نعرہ لگاتا کہ زمین و آسمان دہل جاتے اور شرارتی لڑکے اپنی کوکا کولا اور پتلونیں وہی چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ پھر وہ دیوانہ فلک شگاف آواز میں گیت گاتا، وہاں کے ننگ دھڑنک پھولے پیٹ والے بچوں کو جمع کرتا اور کمر سے بندھے تھیلے سے ریوڑیاں اور مٹھائیاں نکال کے بانٹنے لگتا۔

    وہ اپنے ہونٹوں کی پپڑیوں پر خشک زبان پھیرتی سوچنے لگتی، ۔۔۔ یہ خود پتھروں کاشکار ہے، میری مدد کیسے کرسکتاہے!

    یہ دیوانہ بھی سدا سے وہی تھا اور اس کی زندگی حقیقتوں کاایک حصہ تھا۔ اسے اس کے علاوہ اور کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ دیوانہ ہے، لڑکوں سے پتھر کھا کے بچوں میں ریوڑیاں تقسیم کرتا ہے، اس کی آواز بے حد سریلی ہے، دہاڑ سوشیروں جتنی، اور جب اس کے چاروں طرف تاریکیاں چھاجاتی ہیں تو ایک ٹمٹماتا ہوا کنکر اس کے پیروں میں آگرتاہے۔ وہ اپنے سینے میں اٹھتے طوفان کاگلاگھونٹ دیتی ہے، نہیں نہیں، میں کھڑکی میں نہیں جاؤں گی، وہ مجھے اپنے پاس بلائے گا۔ میں کھڑکی سے نیچے پیر رکھوں گی تو خونخوار کتا میری تکابوٹی کردے گا۔ لیکن یہ خود کھڑکی پھلانگ کے یہاں کیوں نہیں آجاتا؟ اسے کیا پتا میں کس حال میں ہوں؟ نہیں، اسے مجھ میں اتنی دلچسپی نہیں یا وہ یہ چاہتا ہے کہ میں خود ہمت کروں۔۔۔ لیکن اگر کسی طریقے سے میں اس تک پہنچ بھی جاؤں تو کیا فرق پڑے گا؟ دیوانہ ہے، فقیر ہے، مجھے میری ماں بہنوں ایسے کپڑے کہاں سے لاکر دے گا؟ مجھے ریوڑیاں اچھی نہیں لگتیں، مگر یہ ہے کون اور سدا ٹکٹکی لگائے کھڑکی کی طرف کیوں دیکھتارہتا ہے۔ وہ چاہتی بھی تو کہیں نہیں جاسکتی تھی، وہ چاہتی بھی تو اسے کچھ بتا نہیں سکتی تھی کیونکہ اس کی ماں سوتیلی تھی اور وہاں سے نکلنے کے بعد ہر راستے پر خوف ناک کتے کا پہرہ تھا۔ اس کتے سے اس کی جان جاتی تھی۔ جب بھی وہ چوری چھپے کچھ کھانے لگتی تو وہ کہیں سے آن موجود ہوتا، جب وہ اپنی بہنوں کے کپڑے چراکر پہننے کی خواہش کرتی تو اس کتے کا تنفس اس کی ہر خواہش پر چھا جاتا، ہر قسم کی قید سے فرار کے ہر راستے پر وہ زبان نکالے ہانپتا ہوا وحشی، مکار نظروں سے دیکھتا کھڑا ہوتا۔

    اس کی ماں اور بہنیں ہر وقت زرق برق پوشاک پہنے رہتی تھیں۔ اکثر ان کے گھر مہمان آئے رہتے تھے۔ ہر رات وہ خود کہیں نہ کہیں دعوت پر چلی جاتیں۔ اسے کسی سے نہ ملنے دیاجاتا۔ مہمانوں کے آنے سے پہلے اسے سارے گھر کو شیشے کی طرح چمکانا پڑتا۔ اس کی ماں اور بہنیں بننے سنورنے میں مصروف ہوتیں۔ جب گھر میں مہمانوں کے قہقہے گونجنے لگتے تو وہ باورچی خانے میں بند ہوکر برتن دھونے لگتی۔ رات کو جب وہ چلی جاتیں تو یہ تھکی ٹوٹی اپنے کمرے میں آجاتی، تنہا بیٹھ کر الجھی اون کو سلجھانے لگتی اورنہ چاہنے کے باوجود کبھی کبھی کنکر کا انتظار کرنے لگتی۔

    ازل سے اس کی یہی زندگی تھی۔

    پھر ایک رات اس کی ماں اور بہنیں حسب معمول کسی دعوت پر گئی تھیں اور وہ اپنے کمرے میں بیٹھی دل بہلانے کے لیے ان کنکروں کو گن رہی تھی تو اس کانیم روشن کمرہ یکایک جگمگا اٹھا۔ اس نے چونک کر کھڑکی کی طرف دیکھا، بہت تیز روشنی تھی۔ باہرکار کے انجن کی آواز آرہی تھی۔ نہیں وہ نہیں ہوسکتا۔ وہ گھنٹوں بجھتے اور لڑکھڑاتے دل کو سنبھالتی کھڑکی کے پاس گئی۔ اوٹ سے دیکھا، ایک شاندار لمبی سیاہ کارکھڑی تھی۔ ایک خوبرونوجوان سیاہ سوٹ پہنے اترا اور بوٹائی کو درست کرتا اس کی کھڑکی کے قریب آگیا۔

    تم ہو؟

    اس نے سرگوشی میں کہا۔

    تم آگئے، تم آگئے۔ مجھے ازل سے تمہارا انتظار تھا۔

    اس نے دیوار کے ساتھ سرلگاکے آنکھیں موندلیں۔

    پھر یک دم گھبراکے ادھر ادھر دیکھا، کتا اب کہیں نہیں تھا۔

    تم ہو؟

    ہاں۔

    لفظ اس کی زبان سے پھسل گیا۔

    گڈ۔

    وہ کھڑکی پھلانگ کے اندر آگیا۔

    نہیں نہیں، تم چلے جاؤ یہاں سے۔ میری ماں سوتیلی ہے۔

    گھبراؤ نہیں کوئی بات نہیں۔ وہ یہاں نہیں آئے گی۔ لو یہ پہن کر دکھاؤ۔

    نوجوان نے اپنی جیب سے بڑاخوبصورت جوتانکالا جس میں ہیرے جڑے تھے۔

    پہنو۔

    نوجوان کی آواز میں تحکم تھا۔ وہ مفلوج سی ہوگئی۔ اس نے آوازکے سحر کے زیراثر جوتا پہن لیا۔

    بالکل فٹ ہے، تمہارا ہی ہے۔

    میرا؟

    ہاں تمہارا۔ تم رات شہزادے کی دعوت سے بھاگتے وقت چھوڑ آئی تھیں۔

    میں؟

    ہاں۔ تمہیں یاد نہیں ایک پری تمہیں ہمارے شہزادے کے محل میں لے گئی تھی اور تم نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ۔۔۔

    لیکن وہ تو خواب تھا۔

    وہ خواب تھا یا نہیں تھا، مجھے تاویلیں پیش کرنے کا حکم نہیں۔ چلو، شہزادہ تمہارے انتظارمیں بے قرارہے۔۔۔ چلو۔

    اس کا دل بلیوں اچھل رہاتھا۔ آخر ہزار سال بعد وہ دن آہی گیا کہ اس کی نجات ہو گئی اور وہ بھی اتنے شاندار طریقے سے شہزادے کے ہاتھوں۔ اس کی ماں اور بہنوں کو پتا چلاتو وہ حسد کی آگ میں جل جل کر مرجائیں گے۔ پھر بھی اس نے انجانے خوف سے کہا، ۔۔۔ لیکن۔۔۔

    لیکن ویکن کچھ نہیں۔ شہزادہ تمہیں اس قید سے نجات دلاکررہے گا۔ پھر تم ساری عمر اس شاندار محل میں رہوگی۔ جہاں۔۔۔

    اس نوجوان نے اس کے سامنے جنت تخلیق کی۔

    اب چلو۔

    اس نے اپنے میلے کچیلے کپڑوں پر نظر ڈالی اورنوجوان بھانپ گیا۔

    اس کی فکر نہ کرو۔ کارمیں شہزادے کابھیجا ہوا لباس رکھا ہے۔

    مگر۔۔۔ وہ کتا۔۔۔

    اس نے کھڑکی سے باہرجھانکا۔

    نوجوان نے ہنس کر کھڑکی سے باہر چھلانگ لگائی اور اپنے پیروں کی طرف اشارہ کیا۔ خونخوار کتامعصوم بکری بنا ڈاگ فوڈ کی ضیافت اڑانے میں مصروف تھا۔

    آؤ۔

    نوجوان نے حکم دیا۔

    وہ جنت کی خواہش میں کھڑکی سے اترآئی۔ نوجوان نے اس کے لیے لیموسین کا دروازہ کھولا۔ وہ کار میں قدم رکھنے ہی والی تھی کہ اس کے کانوں میں آواز آئی، ۔۔۔ نہ جانا۔

    اس نے چونک کر دیکھا، پاس ہی سبز درخت کی اوٹ میں سرخ چادر والا دیوانہ کھڑا تھا۔ اس نے گھبراکر دیوانے کو وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کیا۔ دیوانہ مسکرایا، ۔۔۔ یہ کچھ نہیں سن سکتا اسے کچھ خبر نہیں۔

    اس نے نوجوان کو دیکھا، نوجوان دروازہ کھولے ساکت کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں جامد تھیں۔

    اس نے پھر فٹ بورڈ کی طرف قدم بڑھایا۔

    نہ جانا۔

    دیوانے نے پھر کہا۔

    میں شہزادے کی جنت میں جارہی ہوں۔

    پھر واپس نہ آپاؤگی۔

    تمہیں اس سے کیا؟ وہ بہت خوبصورت ہے، شہزادہ ہے۔

    تو پھر میری ایک بات مانو، جب وقت ٹھہر جاتا ہے اور مرتا ہوا لمحہ دوسرے لمحے میں جنم لیتا ہے، اس لمحے سے پہلے پہلے لوٹ آنا۔

    وہ ہنسی۔

    میں تمہاراانتظار کروں گا۔

    وہ اور زور سے ہنسی اور کار میں آکر بیٹھ گئی۔

    دیوانہ۔

    کون دیوانہ؟

    نوجوان نے پوچھا۔

    تم نہیں جانتے۔

    اس نے کار کے پچھلے شیشے سے دیکھا۔ اس کے کمرے سے آتی مدھم روشنی میں دیوانہ سبز درخت میں گولڈ مہر کاپھول تھا۔

    محل میں لوگوں کاہجوم تھا۔ ہر رنگ، ہر نسل کے لوگ تھے۔ گورے چٹے، نیلی آنکھوں والے شہزادے نے بڑے فخر سے اس کااستقبال کیا، مہمانوں سے تعارف کرایا۔ اس کے پیر زمین پر نہیں تھے، وہ جنت میں تھی۔ رفتہ رفتہ اس کے کانوں سے وہ آوازغائب ہوگئی تھی۔۔۔ اس لمحے سے پہلے پہلے لوٹ آنا جب مرتا ہوا لمحہ دوسرے لمحے میں جنم لیتا ہے۔۔۔ وہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتی تھی۔ شہزادے نے تنگ آکر اس کی گھڑی اتارکے پھینک دی تھی۔ ساتھ ہی وہ آوازمرگئی تھی۔

    شکریہ۔

    اس نے کہااور کھلکھلاکے ہنس پڑی۔

    اس نے سونے کے برتنوں میں کھانا کھایا اور ہیرے جڑے گلاسوں میں پانی پیا۔ اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ پیٹ بھر کے کھانا کھایا۔ اسے کھانے کا نشہ اتنا چڑھا کہ ناچ کے لیے شہزادے کی درخواست پر وہ بمشکل اٹھی۔

    ہرراؤنڈ میں شہزادہ اسے سینے کے ساتھ چمٹا لیتا اور وہ بادلوں میں اڑنے لگتی۔ باقی سب شہزادیاں دل ہی دل میں کڑھتی تھیں اور اسے کوستی تھیں۔

    ایک راؤنڈ میں شہزادہ اسے سینے سے چمٹائے موسیقی کی لہروں پر بہتا اسے اپنی خواب گاہ میں لے آیا اور وہ دونوں نڈھال ہوکے پروں کے بستر پر گرپڑے۔ شہزادے نے ہاتھ لہراکے سونے سے بھری طشتریوں کی طرف اشارہ کیا۔

    یہ سب تمہاری ہیں۔

    ہیں۔

    اس نے نیم خوابیدہ آنکھوں سے دیکھا۔

    اب تمہیں کسی چیزکی ضرورت نہیں رہے گی۔

    ہوں۔

    اب تم میری ہو۔

    جانے شہزادے کو کیا ہوااس نے اس کا گریبان پکڑ کے جھٹکا دیا۔ اس نے چونک کر دیکھا، شہزادے کے چمکیلے دانت ایک ایک کرکے گرنے لگے۔ وہ گھبراکے اٹھی۔ شہزادے کا بھیجا ہوا لباس روئی کاتھا۔ شہزادہ دیوانہ وارروئی نوچ رہاتھا۔ وہ اس کے بازوؤں میں کسمسائی۔ عین اسی وقت خواب گاہ کاکلاک چیخا، وقت رک گیا ہے۔ رک گیا ہے۔ لوٹ آؤ۔ لوٹ آؤ۔ بھاگو۔ بھاگو۔ دوسرے لمحے کے پہلے سانس سے پہلے لوٹ آؤ۔

    اس نے اپنے آپ کو چھڑاتے ہوئے شہزادے کو دیکھا، شہزادے کی مصنوعی بالوں کی وگ سر سے اترگئی تھی، اس کی نیلی آنکھیں کرچی کرچی ہوگئی تھیں، اس کے دانت جھڑچکے تھے۔ صرف کینائنز (Canines) تھے جن پر خون کی سرخی تھی۔

    وہ اس کے پنجوں سے تڑپ کر نکلی۔

    یہاں سے کیسے جاؤگی۔

    شہزادہ ہنستے ہنستے بستر پر دھرا ہوگیا۔ کلاک اور بھی زورسے چیخا۔ وہ اپنے ستر کو ہاتھوں سے ڈھانپ کر دروازے کی طرف بھاگی۔ دروازہ خودبخود کھل گیا۔ وہاں اس کی سوتیلی ماں اور بہنیں ہیرے کی جوتیاں پہنے، اس کی طرف بازو پھیلائے کھڑی ہنس رہی تھیں۔ وہ دوسرے دروازے کی طرف بھاگی۔

    دوسرا، تیسرا، چوتھا۔ ہر دروازے پر اس کی سوتیلی ماں اور بہنیں بازو بڑھائے اسے پکڑنے کے لیے کھڑی ہیں۔ وہ پاگلوں کی طرح اس جنت میں چکر لگا رہی ہے۔ شہزادے کے قہقہے کلاک کی چیخوں میں الجھے اس کا پیچھا کر رہے ہیں اور وہ ہاتھوں سے اپنا ستر چھپائے بھاگ رہی ہے، بھاگ رہی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے