Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پرواز کے بعد

قرۃالعین حیدر

پرواز کے بعد

قرۃالعین حیدر

MORE BYقرۃالعین حیدر

    کہانی کی کہانی

    یہ دلی احساسات اور خواہشات کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ اس میں حادثات کم اور واقعات زیادہ ہیں۔ دو لڑکیاں جو ساتھ پڑھتی ہیں ان میں سے ایک کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے مگر وہ شخص اسے مل کر بھی مل نہیں پاتا اور بچھڑنے کے بعد بھی جدا نہیں ہوتا۔ کہا جائے تو یہ وصال و ہجر کی کہانی ہے، جسے ایک بار ضرور پڑھنا چاہیئے۔

    جیسے کہیں خواب میں جنجر راجرز یا ڈائنا ڈربن کی آواز میں ’’سان فرینڈ وویلی‘‘ کا نغمہ گایا جا رہا ہو اور پھر ایک دم سے آنکھ کھل جائے۔ یعنی وہ کچھ ایسا سا تھا جیسے مائیکل اینجلو نے ایک تصویر کو مکمل کرتے کرتے اُکتا کر یوں ہی چھوڑ دیا ہو اور خود کسی زیادہ دلچسپ موڈل کی طرف متوجہ ہو گیا ہو، لیکن پھر بھی اس کی سنجیدہ سی ہنسی کہہ رہی تھی کہ بھئی میں ایسا ہوں کہ دنیا کے سارے مصور اور سارے سنگ تراش اپنی پوری کوشش کے باوجود مجھ جیسا شاہکار نہیں بنا سکتے۔ چپکے چپکے مسکرائے جاؤ بے وقوفو! شاید تمھیں بعد میں افسوس کرنا پڑے۔

    اوسیفو۔۔۔ اوسائیکی۔۔۔ او ہیلن۔۔۔ اے ہمارے نئے ریفریجیٹر!

    گرمی زیادہ ہوتی جا رہی تھی۔ پام کے پتوں پر جو مالی نے اوپر سے پانی گرایا تھا تو گرد کہیں کہیں سے دھل گئی تھی اور کہیں کہیں اسی طرح باقی تھی۔ اور بھیگتی ہوئی رات کوشش کر رہی تھی کہ کچھ رومینٹک سی بن جائے۔ وہ برفیلی لڑکی، جو ہمیشہ سفید غرارے اور سفید دوپٹے میں اپنے آپ کو سب سے بلند اور الگ سا محسوس کروانے پر مجبور کرتی تھی، بہت خاموشی سے ہکسلے کی ایک کتاب ’’پوائنٹ کاؤنٹر پوائنٹ‘‘ پڑھے جا رہی تھی جس کے ایک لفظ کا مطلب بھی اس کی سمجھ میں نہ ٹھنس سکا تھا۔

    وہ لیمپ کی سفید روشنی میں اتنی زرد اور غمگین نظر آ رہی تھی جیسے اس کے برگنڈی کیوٹکس کی ساری شیشیاں فرش پر گر کے ٹوٹ گئی ہوں یا اس کے فیڈو کو سخت زکام ہو گیا ہو۔ اور لگ رہا تھا جیسے ایک چھوٹے سے گلیشیر پر آفتاب کی کرنیں بکھر رہی ہیں۔

    چنانچہ اس دوسری آتشیں لڑکی نے، جو سینئر بی ایس سی کی طالب علم ہونے کی وجہ سے زیادہ پریکٹیکل تھی اور جو اس وقت برآمدے کے سبز جنگلے پر بیٹھی گملے میں سے ایک شاخ توڑ کر اس کی کمپاؤنڈ اور ڈبل کمپاؤنڈ پتیوں کے مطالعے میں مصروف تھی، اس برفیلی لڑکی کو یہ رائے دی تھی کہ اگر گرمی زیادہ ہے تو ’’پوائنٹ کاؤنٹر پوائنٹ‘‘ پڑھنے کے بجائے سو جاؤ یا پھر نئے ریفریجریٹر میں ٹھنس کر بیٹھ جاؤ، اس کا اثر دماغ کے لیے مفید ہو گا لیکن چونکہ یہ تجویز قطعی ناقابلِ عمل تھی اور کوئی دوسرا مشورہ اس سائنس کے طالب علم کے ذہن میں اس وقت نہیں آ رہا تھا اس لیے وہ برفیلی لڑکی رخشندہ سلطانہ اسی طرح ہکسلے سے دماغ لڑاتی رہی اور وہ آتشیں لڑکی شاہندہ بانو پیر ہلا ہلا کر ایک گیت گانے لگی جو اس نے فرسٹ اسٹینڈرڈ میں سیکھا تھا اور جس کا مطلب تھا کہ جب شاہ جارج کے سرخ لباس والے سپاہیوں کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز بازگشت ہماری پرانی اسکاٹسز پہاڑیوں کے سنّاٹے میں ڈوب جائے گی اور اپریل کے مہتاب کا طلائی بجرا موسم بہار کے آسمانوں کی نیلی لہروں میں تیرتا ہوا تمھارے باورچی خانے کی چمنی کے اوپر پہنچ جائے گا اس وقت تم وادی کے نشیب میں میرے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنوگی۔ اے سرائے کے مالک کی سیاہ آنکھوں اور سرخ لبوں والی بیٹی!

    لیکن رات خاصی گرم ہوتی جا رہی تھی اور ماہم کا ایک کونہ، جو سمندر میں دور تک نکلا چلا گیا تھا، اس پر ناریل کے جھنڈ کے پیچھے سے چاند طلوع ہو رہا تھا اور دور ایک جزیرے پر ایستادہ پرانے کیتھیڈرل میں گھنٹے کی گونج اور دعائے نیم شبی کی لہریں لرزاں تھیں اور اس وقت مائیکل اینجلو کے ادھورے سے شاہکار جم کو ایک بڑی عجیب سی ناقابلِ تشریح کوفت اور الجھن سی محسوس ہو رہی تھی جس کا تجزیہ وہ کسی طرح بھی نہ