پرواز کے بعد
یہ دلی احساسات اور خواہشات کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ اس میں حادثات کم اور واقعات زیادہ ہیں۔ دو لڑکیاں جو ساتھ پڑھتی ہیں ان میں سے ایک کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے مگر وہ شخص اسے مل کر بھی مل نہیں پاتا اور بچھڑنے کے بعد بھی جدا نہیں ہوتا۔ کہا جائے تو یہ وصال و ہجر کی کہانی ہے، جسے ایک بار ضرور پڑھنا چاہیئے۔
قرۃالعین حیدر
ظالم محبت
یہ ایک عورت اور دو مردوں کی کہانی ہے۔ پہلا مرد عورت سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور دوسرے مرد کو یہ خبر تک نہیں کہ وہ عورت اسے چاہتی ہے۔ ایک دن وہ دوسرے مرد کے پاس جاتی ہے اور اسکے سامنے اپنے دل کی بات کو ایک افسانے کے پلاٹ کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس الجھن کا حل اس مرد سے پوچھتی ہے۔
حجاب امتیاز علی
گزرے دنوں کی یاد
ہماری زندگی میں کبھی کبھی کوئی لمحہ ایسا آتا ہے جو بیتے دنوں کی ایک ایسی کھڑکی کھول دیتا ہے جس سے یادوں کی پوری بارات چلی آتی ہے۔ اس کہانی کا ہیرو بھی کسی ایسی ہی کشمکش کا شکار ہے۔ ایک دن اچانک اس کے فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ دوسری طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ بتائے کہ یہ آواز کس کی ہے۔ ہیرو اپنی یادداشت کے مطابق کئی لڑکیوں کے نام بتاتا ہے اور فون کرنے والی لڑکی سے مسلسل باتیں کیے جا رہا ہے۔ ذہن پر بہت زور دینے کے باوجود بھی یاد نہیں کر پاتا کہ آخر اس سے بات کرنے والی لڑکی کون ہے؟
احمد علی
رضو باجی
ایک عرصے بعد رض٘و باجی کا خط آتا ہے، وہی رض٘و جو پندرہ سال قبل ہمارے علاقے کا مشہور محرم دیکھنے آئی تھی۔ اسی محرم کے میلے میں ان کی ملاقات کہانی کے ہیرو سے ہوتی ہے اور وہیں ایک ایسا احساس پروان چڑھا کہ رض٘و باجی پھر تا عمر کسی کا نہ ہونے دیا۔ ماں کے جیتے جی کوئی رشتہ قبول نہیں کیا۔ باپ کے لقوہ زدہ ہو جانے پر رضو باجی نے ایک رشتہ قبول کیا لیکن عین نکاح سے قبل ان پر جنات آنے لگے اور وہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا۔ اسکے بعد رض٘و باجی نے کبھی کسی رشتے کے بارے میں سوچنا بھی گوارہ نہ کیا۔ محرم میں ہوئے اس پہلے پیار کو وہ بھول نہیں سکی تھیں۔
قاضی عبد الستار
آلو
پیٹ کی آگ کس طرح انسان کو نقطۂ نظر تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہے، اور بھلے برے میں تمیز کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے، وہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ لکھی سنگھ ایک انتہائی غریب کامریڈ تھا جو بیل گاڑیوں اور چھکڑوں میں اٹکے رہ گئے آلو جمع کرکے گھر لے جاتا تھا۔ ایک دن کمیٹی کی طرف سے بیل گاڑیوں کے لئے نیو میٹک ٹائروں کا بل پاس ہو گیا، جس کی مخالفت میں گاڑی بانوں نے ہڑتال کی اور ہڑتال کے نتیجے میں لکھی سنگھ اس دن بغیر آلووں کے گھر پہنچا اس کی بیوی بسنتو نے ہر موقع پر ایک کامریڈ کی طرح لکھی سنگھ کاساتھ دیا تھا، آج بپھر گئی، اور اس نے لکھی سنگھ سے پوچھا کہ اس نے ہڑتال کی مخالفت کیوں نہ کی، لکھی سنگھ سوچنے لگا کیا بسنتو بھی رجعت پسند ہو گئی ہے؟
راجندر سنگھ بیدی
روپا
یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جس کا باپ رجب اودھ کی گڑھی کی سیاست میں کافی پھل پھول گیا۔ اس نے اپنے بیٹے حسین کو بھی اپنی طرح پہلوان بنایا تھا مگر اسے اپنے باپ کے دشمن منور کی بیٹی روپا سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس محبت میں رجب کی جان چلی جاتی پے لیکن حسین روپا کو اپنے گھر لانے میں کامیاب رہتا ہے۔ روپا سے اس نے شادی تو کرلی تھی لیکن اس کے دل میں جگہ نہیں بنا سکا تھا کیونکہ روپا کو اس کا دبلا جسم پسند نہ تھا۔ پھر اچانک ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے روپا اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔
قاضی عبد الستار
اپنے دکھ مجھے دے دو
کہانی ایک ایسے جوڑے کی داستان کو بیان کرتی ہے جن کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ سہاگ رات میں شوہر کے دکھوں کو سن کر بیوی اس کے سبھی دکھ مانگ لیتی ہے مگر وہ اس سے کچھ نہیں مانگتا ہے۔ بیوی نے گھر کی ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ عمر کے آخر پڑاؤ پر ایک روز شوہر کو جب اس بات کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس سے پوچھتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ وہ کہتی ہے کہ میں نے تم سے تمھارے سارے دکھ مانگ لیے تھے مگر تم نے مجھ سے میری خوشی نہیں مانگی اس لیے میں تمھیں کچھ نہیں دے سکی۔
راجندر سنگھ بیدی
آبشار
’’دو ایسے افراد کی کہانی ہے جو ایک ہی لڑکی سے باری باری محبت کرتے ہیں، لیکن دونوں میں سے کوئی بھی اسے حاصل نہیں کر پاتا۔ وہ لڑکی ایک پٹھان کے ساتھ گھر سے بھاگ کر آئی تھی۔ پٹھان اسے جھرنے کے پاس بنے اس بنگلے میں ٹھہراتا ہے اور خود پیسوں کا انتظام کرنے چلا جاتا ہے۔ کئی ہفتے گزر جانے کے بعد بھی وہ لوٹ کر نہیں آتا۔ اسی درمیان وہاں کالج کا ایک نوجوان آتا ہے اور لڑکی اس میں دلچسپی لینے لگتی ہے وہ نوجوان بھی اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو لڑکی جھرنے میں کود کر جان دے دیتی ہے۔‘‘
بلونت سنگھ
موچنا
یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کے چہرے اور جسم پر مردوں کی طرح بال اگ آتے تھے، جنھیں اکھاڑنے کے لیے وہ اپنے ساتھ ایک موچنا رکھا کرتی تھی۔ حالانکہ دیکھنے میں وہ کوئی زیادہ خوبصورت نہیں تھی پھر بھی اس میں کوئی تو ایسی بات تھی کہ جو مرد اسے دیکھتا اس پر عاشق ہو جاتا۔ اس طرح اس نے بہت سے مرد بدلے۔ جس مرد کے بھی پاس بھی وہ گئی اپنا موچنا ساتھ لیتی گئی۔ اگر کبھی وہ پرانے مرد کے پاس چھوٹ گیا تو اس نے خط لکھ کر اسے منگوا لیا۔ جب وہ ایک شاعر کو چھوڑ کر گئی تو اس نے اس کا موچنا دینے سے انکار کر دیا تاکہ رشتہ کی ایک وجہ تو بنی رہے۔
سعادت حسن منٹو
انار کلی
سلیم نام کے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو خود کو شہزادہ سلیم سمجھنے لگتا ہے۔ اسے کالج کی ایک خوبصورت لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے، لیکن وہ لڑکی اسے قابل توجہ نہیں سمجھتی۔ اس کی محبت میں دیوانہ ہو کر وہ اسے انارکلی کا نام دیتا ہے۔ ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے والدین نے اسی نام کی لڑکی سے اس کی شادی طے کر دی ہے۔ شادی کی خبر سن کر وہ دیوانہ ہو جاتا ہے اور طرح طرح کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ سہاگ رات کو جب وہ دلہن کا گھونگھٹ ہٹاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسی نام کی کوئی دوسری لڑکی تھی۔
سعادت حسن منٹو
آمنہ
یہ افسانہ دولت کی ہوس میں رشتوں کی ناقدری اور انسانیت سے عاری حرکات کر گزرنے والے افراد کے انجام کو پیش کرتا ہے۔ دولت کی حریص سوتیلی ماں کے ستائے ہوئے چندو اور بندو کو جب قسمت نوازتی ہے تو وہ دونوں بھی اپنے مشکل دن بھول کر رشتوں کے تقدس کو مجروح کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ چندو اپنے بھائی بندو کے بہکاوے میں آکر اپنی بیوی اور بچے کو صرف دولت کی ہوس میں چھوڑ دیتا ہے۔ جب دولت ختم ہو جاتی ہے اور نشہ اترتا ہے تو وہ اپنی بیوی کے پاس واپس جاتا ہے۔ اس کا بیٹا اسے اسی دریا کے پاس لے جاتا ہے جہاں چندو کی سوتیلی ماں نے ڈوبنے کے لیے ان دونوں بھائیوں کو چھوڑا تھا اور بتاتا ہے کہ یہاں پر ہے میری ماں۔۔۔
سعادت حسن منٹو
وہ طریقہ تو بتا دو تمہیں چاہیں کیونکر؟
یہ نوجوان محبت کی داستان ہے۔ ایک نوجوان ایک لڑکی سے بے ہناہ محبت کرتا ہے لیکن لڑکی اس کے اظہار محبت کے ہر طریقے کو دقیانوسی، پرانا اور بور کہتی رہتی ہے۔ پھر یکبارگی جب نوجوان اسے دھمکی دیتا ہوا اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو لڑکی مان جاتی ہے کہ اس میں محبت کا اظہار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
حجاب امتیاز علی
کھویا ہوا پیار
یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے، جو ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے اپنی بیوی کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ بیوی کے گھر سے جانے کے بعد جب اسے اپنی بیوی کی کمی کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے، لیکن وہ اسے کہیں نہیں ملتی۔ جب وہ ملتی ہے تو ملنے کے بعد بھی وہ اس سے مل نہیں پاتا ہے۔
اعظم کریوی
برقعے
کہانی میں برقعے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مضحکہ خیز صورت حال کو بیان کیا گیا ہے۔ ظہیر نامی نوجوان کو اپنے پڑوس میں رہنے والی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے۔ لیکن اس گھر میں تین لڑکیاں ہیں اور تینوں برقعہ پہنتی ہیں۔ ظہیر خط کسی اور کو لکھتا ہے اور ہاتھ کسی اور کا پکڑتا ہے۔ اسی چکر میں اس کی ایک دن پٹائی ہو جاتی ہے اور پٹائی کے فوراً بعد اسے ایک رقعہ ملتا ہے کہ تم اپنی ماں کو میرے گھر کیوں نہیں بھیجتے۔ آج تین بجے سنیما میں ملنا۔
سعادت حسن منٹو
عشق حقیقی
اخلاق نامی نوجوان کو سنیما ہال میں پروین نامی ایک ایسی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے جس کے گھر میں سخت پابندیوں کا پہرا ہے۔ اخلاق ہمت نہیں ہارتا اور بالآخر ان دونوں میں خط و کتابت شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایک دن پروین اخلاق کے ساتھ چلی آتی ہے۔ پروین کے گال کے تل پر بوسہ لینے کے لئے جب اخلاق آگے بڑھتا ہے تو بدبو کا ایک تیز بھبھکا اخلاق کے نتھنوں سے ٹکراتا ہے اور تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ پروین کے مسوڑھوں میں گوشت خورہ ہے۔ اخلاق اسے چھوڑ کر اپنے دوست کے یہاں لائل پور چلا جاتا ہے۔ دوست کے غیرت دلانے پر واپس آتا ہے تو پروین کو موجود نہیں پاتا۔
سعادت حسن منٹو
حجامت
میاں بیوی کی نوک جھونک پر مبنی مزاحیہ افسانہ ہے، جس میں بیوی کو شوہر کے بڑے بالوں سے وحشت ہوتی ہے لیکن اس بات کو ظاہر کرنے سے پہلے ہزار قسم کے گلے شکوے کرتی ہے۔ شوہر کہتا ہے کہ بس اتنی سی بات کو تم نے بتنگڑ بنا دیا، میں جا رہا ہوں۔ بیوی کہتی ہے کہ خدا کے لیے بتا دیجیے کہاں جا رہے ہیں ورنہ میں خود کشی کر لوں گی۔ شوہر جواب دیتا ہے نصرت ہیئر کٹنگ سیلون۔
سعادت حسن منٹو
مس اڈنا جیکسن
یہ ایک کالج کی ایسی معمر پرنسپل کی کہانی ہے، جس نے اپنی طالبہ کے دوست سے ہی شادی کر لی تھی۔ جب وہ کالج میں آئی تو طالبات نے اسے بالکل منہ نہیں لگایا تھا۔ حالانکہ اپنے اخلاق اور خلوص کی وجہ سے وہ جلدی ہی اپنی طالبات کے درمیان مقبول ہو گئی تھی۔ اسی اثنا اسے ایک لڑکی کی محبت کے بارے میں پتہ چلا، جو ایک لیکچرر سے پیار کرتی تھی۔ لڑکی کی پوری داستان سننے کے بعد پرنسپل نے لیکچرر کو اپنے گھر بلایا اور خود سے آدھی عمر کے اس نوجوان لیکچرر کے ساتھ شادی کر لی۔
سعادت حسن منٹو
اصلی جن
ہم جنسیت کے تعلقات پر مبنی کہانی۔ فرخندہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بچپن میں ہی اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تھا تو وہ اکیلے اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ جوانی کا سفر اس نے تنہا ہی گزار دیا۔ جب وہ اٹھارہ سال کی ہوئی تو اس کی ملاقات نسیمہ سے ہوئی۔ نسیمہ ایک پنجابی لڑکی تھی، جو حال ہی میں پڑوس میں رہنے آئی تھی۔ نسیمہ ایک لمبی چوڑی مردوں کی خصلت والی خاتون تھی، جو فرخندہ کو بھا گئی تھی۔ جب فرخندہ کی ماں نے اس کا نسیمہ سے ملنا بند کر دیا تو وہ نیم پاگل ہو گئی۔ لوگوں نے کہا کہ اس پر جن ہے، پر جب ایک دن چھت پر اس کی ملاقات نسیمہ کے چھوٹے بھائی سے ہوئی تو اس کے سبھی جن بھاگ گئے۔
سعادت حسن منٹو
پالی ہل کی ایک رات
ڈرامے کی شکل مٰیں لکھا گیا ایک ایسا افسانہ ہے جس کے سارے کردار علامتی ہیں۔ افراد خانہ جب عبادت کی تیاری میں مصروف تھا جبھی بارش میں بھیگتا ہوا ایک غیر ملکی جوڑا دروازے پر دستک دیتا ہے اور اندر چلا آتا ہے۔ بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ نو وارد کا تعلق ایران سے ہے۔ اس کے بعد واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔
قرۃالعین حیدر
باندھ
پنجابی لڑکی رانو کی کہانی، جو جانتی ہے کہ وریا مواس سے محبت کرتا ہے، پر وہ اسے چھوڑ کر کیہر سنگھ کے پیچھے لگی رہتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ کیہر سنگھ اس سے محبت نہیں کرتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے ارد گرد چکر لگاتی رہتی ہے۔ اسی میں وہ کیہر سنگھ سے حاملہ ہو جاتی ہے۔ مگر وریامو تب بھی اس سے خاموش محبت کرتا رہتا ہے۔ اسی محبت کی وجہ سے وہ اس کے گھر کو سیلاب سے بچانے کے لیے تنہا ہی بارش میں بھیگتا ہوا باندھ بنا دیتا ہے۔
بلونت سنگھ
بلونت سنگھ مجیٹھیا
یہ ایک رومانی کہانی ہے۔ شاہ صاحب کابل میں ایک بڑے تاجر تھے، وہ ایک لڑکی پر فریفتہ ہو گیے، اپنے دوست بلونت سنگھ مجیٹھیا کے مشورے سے منتر پڑھے ہوئے پھول سونگھا کر اسے رام کیا لیکن حجلۂ عروسی میں داخل ہوتے ہی وہ مر گئی اور اس کے ہاتھ میں مختلف رنگ کے وہی سات پھول تھے جنہیں شاہ صاحب نے منتر پڑھ کر سونگھایا تھا۔
سعادت حسن منٹو
پریم کہانی
محبت کرنا جتنا ضروری ہے اس کا اظہار بھی اسی قدر ضروری ہے۔ اگر محبت کا اظہار نہیں ہوا تو آپ اپنے ہاتھوں محبت کا قتل کر دیں گے۔ یہ کہانی بھی ایسی ہی ایک محبت کے قتل کی داستان ہے۔ ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو کسی لڑکی سے بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن اپنی کم ہمتی کے باعث اس لڑکی سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کر پاتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی اس سے دور چلی جاتی ہے۔
احمد علی
محبت کا گنہگار
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو حقیقی محبت کی بجائے لفظی محبت میں یقین کرتا ہے۔ وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے اور موقع بہ موقع جس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ اس کی بیوی بھی اس سے بے پناہ محبت کرتی ہے مگر وہ اظہار کرنے سے جھجکتی ہے۔ وہ اسے بیوی کی بے اعتنا ئی سمجھتا ہے اور ادھر ادھر دل بہلانے لگتا ہے۔ بیوی کو جب اس کی ان حرکتوں کا پتہ چلتا ہے تو اسے اتنا دکھ ہوتا ہے کہ اس کی موت ہو جاتی ہے۔
سدرشن
بائے بائے
کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جسے کشمیر کی وادیوں میں فاطمہ نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ فاطمہ پہلے تو اس کا مذاق اڑاتی ہے، پھر وہ بھی اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ فاطمہ سے شادی کے لیے وہ لڑکا اپنے والدین کو بھی راضی کر لیتا ہے۔ مگر شادی سے پہلے اس کے والدین چاہتے ہیں کہ وہ فاطمہ کی ایک دو تصویریں انہیں بھیج دے۔ علاقے میں کوئی اسٹوڈیو تو تھا نہیں۔ ایک دن اس نوجوان کا ایک دوست وہاں سے گزر رہا تھا تو اس نے اس سے فاطمہ کی تصویر لینے کے لیے کہا۔ جیسے ہی اس نے فاطمہ کو دیکھا تو وہ اسے زبردستی اپنی گاڑی میں ڈال کر فرار ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
سرکنڈوں کے پیچھے
عورت کے متضاد رویوں کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ اس میں ایک طرف نواب ہے جو اس قدر سادہ لوح ہے کہ جب سردار اس سے پیشہ کراتی ہے تو وہ سوچتی ہے کہ جوان ہونے کے بعد ہر عورت کا یہی کام ہوتا ہے۔ دوسری طرف شاہینہ ہے جو نواب کا قتل کرکے اس کا گوشت پکا ڈالتی ہے، صرف اس بنا پر کہ ہیبت خان نے اس سے بے وفائی کی تھی اور نواب کے یہاں آنے جانے لگا تھا۔
سعادت حسن منٹو
جوگیا
محبت کی اس کہانی کی پوری فضا رنگوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ محبت آمیز اشارے اور استعارے سب رنگوں کی مدد سے اپنی معنویت واضح کرتے ہیں۔ جگل کو اپنی محبوبہ کے رنگ میں رنگی ہوئی پوری دنیا نظر آتی ہے۔ وہ جس رنگ کے کپڑے پہنتی ہے وہی رنگ اسے ہر طرف نظر آتا ہے، حتی کہ جب وہ جدا ہونے لگتی ہے تو اس کی ساری کا رنگ گلابی ہوتا ہے لیکن جگل کو اس کا رنگ جوگیا نظر آتا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
سودا بیچنے والی
جمیل اور سہیل نام کے دو دوستوں کی کہانی۔ جمیل کو ایک پارٹی میں جمیلہ نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ سہیل کو جمیلہ پسند نہیں آتی، پر وہ اپنے دوست کی خوشی کی خاطر مان جاتا ہے۔ ادھر جمیلہ کی بڑی بہن حمیدہ بھی جمیل سے محبت کرتی ہے۔ ایک روز جمیل جمیلہ کو اس کے گھر سے بھگا کر سہیل کے یہاں چھوڑ جاتا ہے۔ اس کے پیچھے سہیل جمیلہ سے شادی کر لیتا ہے۔ وہاں سے مایوس ہونے پر جمیل حمیدہ سے شادی کر لیتا ہے۔ ایک روز جب وہ ایک پارک میں جمیلہ کو دیکھتا ہے تو وہ اسے کوئی سودا بیچنے والی کی طرح نظر آتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
محبت کا دم واپسیں
’’یہ مریم نام کی ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جس نے اپنی زندگی میں صرف اپنے شوہر سے ہی محبت کی ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے شوہر کے تعلقات کسی اور عورت سے بھی ہیں تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو جاتی ہے۔ وہ شوہر سے اس عورت کے بارے میں پوچھتی ہے تو اس کے جواب میں وہ مریم کو خود اس عورت سے ملانے کے لیے لے جاتا ہے۔‘‘
مجنوں گورکھپوری
حامد کا بچہ
حامد نام کے ایک ایسے شخص کی کہانی، جو موج مستی کے لیے ایک طوائف کے پاس جاتا رہتا ہے۔ جلدی ہی اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ طوائف اس سے حاملہ ہو گئی ہے۔ اس خبر کو سن کر حامد ڈر جاتا ہے۔ وہ طوائف کو اس کے گاؤں چھوڑ آتا ہے۔ اس کے بعد وہ منصوبہ بناتا ہے کہ جیسے ہی بچہ پیدا ہوگا وہ اسے دفن کر دیگا۔ مگر بچہ کی پیدائش کے بعد جب وہ اسے دفن کرنے گیا تو اس نے ایک نظر بچہ کو دیکھا۔ بچہ کی شکل ہو بہو اس طوائف کے دلال سے ملتی تھی۔
سعادت حسن منٹو
محبت کا جوگ
’’ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جسے ایک روز دریا پر گھومتے وقت ایک بیحد خوبصورت لڑکی دکھائی دیتی ہے۔ دوبارہ جب وہ اس لڑکی کی تلاش میں جاتا ہے تو وہ اسے کہیں نہیں ملتی۔ اس لڑکی کا اس پر ایسا نشہ ہوتا ہے کہ وہ شب و روز اسی کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔ کچھ دنوں بعد دریا کے اسی کنارے پر اسے ایک سادھو ملتا ہے۔ سادھو اسے اس لڑکی سے ملنے کی ایسی ترکیب بتاتا ہے کہ جس کے پورا ہوتے ہی اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔‘‘
مجنوں گورکھپوری
برف باری سے پہلے
ایک ناکام محبت کی کہانی جو تقسیم سے پہلے مسوری میں شروع ہوئی تھی۔ اپنے دوست کے ساتھ سیر کرتے ہوئے جب اس نے اس لڑکی کو دیکھا تھا تو اسے دیکھتے ہی یہ احساس ہوا تھا کہ یہ وہی لڑکی ہے جسکی اسے تلاش تھی۔ یہ محبت شروع ہوتی اس سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی اور پھر ملک تقسیم ہو گیا اور سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا۔
قرۃالعین حیدر
حسن کی تخلیق
’’یہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے، جو اپنے وقت کی سب سے خوبصورت اور ذہین جوڑی تھی۔ دونوں کی محبت کا آغاز کالج کے دنوں میں ہوا تھا۔ پھر پڑھائی کے بعد انہوں نے شادی کر لی۔ اپنی بے مثال خوبصورتی کی بناپر وہ اکثر اپنے ہونے والے بچے کی خوبصورتی کے بارے میں سوچنے لگے۔ ہونے والے بچے کی خوبصورتی کا خیال ان کے ذہن پر کچھ اس طرح حاوی ہو گیا کہ وہ دن رات اسی کے بارے میں باتیں کیا کرتے۔ پھر ان کے یہاں بچہ پیدا بھی ہوا۔ لیکن وہ کوئی عام سا بچہ نہیں تھا بلکہ وہ اپنے آپ میں ایک نمونہ تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
اندھی محبت
کسی حادثے میں نابینا ہوئی ایک لڑکی کی داستان ہے۔ جو ڈاکٹر اس کا علاج کر رہا ہے، لڑکی کو اس ڈاکٹر سے محبت ہو جاتی ہے اور بالآخر ان کی شادی ہو جاتی ہے۔ لڑکی کے آنکھوں کے آپریشن کے بعد جب وہ اپنے شوہر کو دیکھتی ہے تو اسے دیکھ کر اتنی حیران ہوتی ہے کہ وہ دل ہی دل میں دعا کرتی ہے کہ کاش اسکی آنکھیں ٹھیک نہیں ہوئی ہوتیں۔ لڑکی کی یہ حالات دیکھ کر اس کا ڈاکٹر شوہر اسے اپنے معاون کے حوالے کر اس کی زندگی سے چلا جاتا ہے۔
حجاب امتیاز علی
چغد
جنسی خواہش ایک حیوانی جبلت ہے اور اس کے لیے کسی اسکیم اور پلاننگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی بنیادی نکتہ پر بنی گئی اس کہانی میں ایک ایسے نوجوان کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو ایک پہاڑی دوشیزہ کو راغب کرنے کے لیے ہفتوں پلان بناتا رہتا ہے پھر بھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ایک لاری ڈرائیور چند منٹوں میں ہی اس لڑکی کو رام کرکے اپنی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
ازدواج محبت
یہ ایک ایسے فرد کی کی کہانی ہے، جو کبھی حیدرآباد کی ریاست میں ڈاکٹر ہوا کرتا تھا۔ وہاں اسے لیڈیز ڈسپینسری میں کام کرنے والی ایک لیڈی ڈاکٹر سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ اس سے شادی کر لیتا ہے۔ مگر اس شادی سے ناراض ہوکر ریاست کے حکام اسے 48 گھنٹے میں ریاست چھوڑنے کا حکم سنا دیتے ہیں۔ اس حکم سے ان کی زندگی پوری طرح بدل جاتی ہے۔
سجاد حیدر یلدرم
بانجھ
خود نوشت کے اسلوب میں لکھی گئی کہانی ہے۔ بمبئی کے اپولو بندر پر سیر کرتے ہوئے ایک دن اس شخص سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران ہی محبت پر گفتگو ہونے لگی ہے۔ آپ چاہے کسی سے بھی محبت کریں، محبت محبت ہی ہوتی ہے، وہ کسی بچے کی طرح پیدا ہوتی ہے اور حمل کی طرح ضائع بھی ہو جاتی ہے، یعنی قبل از پیدائش مر بھی سکتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو چاہ کر بھی محبت نہیں کر پاتے ہیں اور شاید ایسے لوگ بانجھ ہوتے ہیں۔