Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سول لائنز کا بھوت بنگلہ

خالد فتح محمد

سول لائنز کا بھوت بنگلہ

خالد فتح محمد

MORE BYخالد فتح محمد

    انگریز راج میں فوج اور سیولین رہائشی علاقے علیحدہ علیحدہ بنائے گئے اور سیولین علاقے کو سول لائن کا نام دیا گیا۔ ہر سول لائن اپنے دور کا ایک پوش رہائشی علاقہ ہوتا تھا جہاں اس دور کی اشرافیہ رہتی تھی۔ ان لوگوں میں انگریز افسر،متمول ہندو اور سکھ خاندان اور چند ایک مسلمان کنبے رہائش رکھتے تھے۔ سول لائنز عموماً باقی شہر سے الگ تھلگ لیکن کچہری اور دوسرے ضلعی دفاتر کے نزدیک واقع ہوتی تھی۔ اس آبادی کی گلیاں چوڑی، ہموار اور آمدو رفت کی ہر سہولت لیے ہوئے ہوتی تھیں۔ سول لائنز میں تعمیر کیے گئے گھر اپنے دور میں فنِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہوتے تھے؛ ان میں مقامی اور برطانوی عمارتی حسن کا خوب صورت امتزاج دیکھنے کو ملتا۔ یہاں کے گھروں کی تعمیر میں جو خیال کارفرما ہوتا وہ ان کا منفرد ہونا تھا۔ ان کے نقشے تیار کرتے وقت اور بعد میں دوران تعمیریہ ذہن میں رکھا جاتا کہ وہ پرانے شہر کی پرانی اور تاریخی عمارتوں سے الگ نظر آئیں اور وقت آنے پر شہر کی تعمیراتی تاریخ ان کے بغیر نا مکمل ہو۔ وہاں رہنے والے بھی خود کو باقی شہر کی آبادی سے مختلف اور الگ سمجھتے۔ گھر سے نکلنے کے بعد سول لائنز کے غیر ملازم رہائشیوں کو ابھی پسینہ تک نا آیا ہوتا کہ وہ ضلع کچہری یا پولیس کے کسی افسر تک پہنچ جاتے۔ ان گھروں میں رہنے والے بچے بھی شہر کے اپنے ہم عمروں سے مکمل طور پر مختلف ہوتے۔ ان کا لباس اور گفتگو برطانوی راج کی توسیع ہوتا۔ ان کی تربیت میں ان کے گھروں کے نیم یورپی ماحول کے علاوہ سینٹ میری سکولوں کا بھی دخل تھا جو ہر سول لائنز کی تہذیب کا حصہ تھے۔ ان سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے کرکٹ اور ٹینس کھیلتے اور یہاں فٹ بال اور ہاکی کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی حالانکہ یہ کھیل بھی برطانوی ایجاد تھے۔ فٹ بال اور ہاکی میں عوامی رنگ زیادہ واضح تھا اس لیے سینٹ میری کے طالب علموں کو کرکٹ اور ٹینس کھیلنے پر ہی اکسایا جاتا۔ چھوٹی جماعتوں کے لڑکے خاکستری نیکر، سفید قمیص اور گھٹنوں تک سفید جرابیں پہنے ہوتے جب کہ بڑے لڑکے نیکر کے رنگ کی پتلون میں ہوتے۔ سکول کے تمام طالب علموں کے بوٹ کالے ہوتے۔ جب یہ لڑکے سکول کے اندر اپنی کھیلیں کھیل رہے ہوتے تو نزدیک کے کسی سرکاری سکول کے بچے گیٹ سے اندر حیرانی، بےیقینی اورخوف سے دیکھ رہے ہوتے۔ وہ جانتے تھے کہ انھیں کبھی وہ ماحول نہیں ملنا جو سر سبز گھاس پر کھیلنے والے ان کے ہم عمروں کو میسر تھا۔

    سول لائنز میں رہنے والے مرد اجلی،چمک دار دھوتی، تنگ یا کھلا پاجامہ یا شلوار پہنے ہوتے۔ ان کے ماتھوں پر تلک یا محراب ہوتے اور یا وہ کرپان لٹکاکے گھروں سے نکلتے۔ ان کی چال میں اعتماد، نظر میں غرور اور لباس سے برتری ٹپکتی تھی، ایسا ہوتا بھی کیوں نا، انگریز سرکار نے انھیں سول لائنز میں گھر تعمیر کر کے رہنے کی اجازت دی ہوئی تھی۔ سیٹھ دھنی رام جس کی آبائی رہائش کسیرہ بازار میں تھی جہاں سردار ہری سنگھ نلوہ کا حویلی نما گھر تھا، نیلم وادی میں لکڑی کا ٹھیکے دار تھا۔ وہ ایک بار کچہری جاتے ہوئے سول لائنز کے پاس سے گزرا اور اسے سول لائنز کی ہیبت کا جادو اپنے سحر میں باندھ گیا۔ اس نے تعمیر کے لیے زمین حاصل کرنے کے لیے کوشش شروع کر دی۔ سول لائنز میں ایک گرجا گھر تھا جہاں ہر اتوار انگریز اور مقامی عیسائی خاندان عبادت کے لیے آتے۔ گرجا گھر سے تھوڑے فاصلے پر ایک انگریز افسر کا بنگلہ تھا۔ بنگلے اور گرجا گھر کے درمیان میں زمین کا ایک خالی ٹکڑا تھا جو ڈی سی نے اسے الاٹ کرنے کی پیش کش کی۔ سیٹھ کو انگریز افسر کا ہمسایہ ہو نا ایک عزت لگا لیکن گرجا گھر کے نزدیک ہونے نے اسے متعدد خدشات کی زد پر رکھ دیا۔ وہ سرکار کی پیش کش کو رد کرنے کا بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ بادل نخواستہ اس نے زمین کا یہ ٹکڑا قبول کر لیا۔ پورے شہر میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ وہ انگریز سرکار کا خاص آدمی ہے ورنہ اسے اتنی اہم جگہ کی کبھی پیش کش نا کی جاتی۔

    زمین کا وہ ٹکڑا مستطیل شکل کا تھا۔ سیٹھ دھنی رام ہر روز اس ٹکڑے کو دیکھنے آتا اور گھنٹوں کھڑا اسے دیکھتے ہوئے مختلف منصوبے بناتا رہتا۔ وہ یہاں ایسا گھر تعمیر کرنا چاہتا تھا جو اردگرد کے شہروں میں ابھی تک تعمیر نہیں ہوا تھا۔ وہ کئی گرمیاں سرینگر،شملہ اور دارجلینگ میں گزار چکا تھا اور وہاں بنے ہوئے لکڑی کے گھر اس کے لیے ہمیشہ ایک معمار ہے اور اب وہ ایسا گھر بنانا چاہتا تھا جو ہر دیکھنے والے کے لیے معمہ ہو۔ اس نے طے کیا کہ وہ لکڑی کا گھر بنائےگا۔ گھر کی دیواریں، فرش اور چھتیں لکڑی کی ہوں گی اور گھر کے لیے لکڑی نیلم وادی سے آئےگی اور اس لکڑی کو ملک کی بہترین لکڑی ہونا ہوگا۔

    وادی نیلم میں سے لکڑی کاٹ کے اس کے گٹھے بنا کے دریائے جہلم میں بہا دیے جاتے۔ شہر جہلم میں دریا کے کنارے سیٹھ دھنی رام کا ایک ذاتی گھاٹ تھا جہاں دریا میں بہہ کے آنے والی لکڑی کو سیٹھ کے کارندے اکٹھی کرتے۔ سیٹھ مہینے میں ایک بار اپنی لکڑی کا جائزہ لینے کے لیے جہلم میں اپنے گودام کا چکر ضرور لگاتا۔ دریا کے کنارے ایک وسیع احاطہ تھا جس کے گرد چار دیواری بنادی گئی تھی اور اس کے اندر چیڑ، دیودار اور ساگوان کے الگ الگ ڈھیر تھے۔ سیٹھ اپنی کسیرہ بازار والی رہائش گاہ سے ایک چھوٹے سے قافلے کی صورت میں نکلتا۔ اس کے ساتھ ایک منشی اور دو خدمت گزار ہوتے۔ ایک منشی وہ ایک دن پہلے نکال چکا ہوتا جو لالہ موسیٰ کی سرائے میں اس کی رات کے قیام کا بندوبست کرتا۔ یہ چھوٹا سا قافلہ دو دن اور ایک رات کا سفر طے کرکے جہلم پہنچتا تو وہاں سیٹھ کی متوقع آمد کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی ہوتی۔ سیٹھ منشیوں کے ساتھ بیٹھ کر لکڑی کی قیمت، ملک میں تقسیم اور نئے درخت لگانے کے متعلق سوچ بچار کرتا۔ پھر وہ رنگ کا ایک ڈبہ لے کر لکڑیوں پر مختلف رنگوں کے نشان لگاتا جو اس لکڑی کے معیار کو ظاہر کرتے تھے اور ملازم ان لکڑیوں کو ان پر لگائے گئے نشانوں کے مطابق رکھتے جاتے۔ زمین کا قطعہ ملنے کے بعد سیٹھ کالے رنگ کی لکڑیوں کو بہت احتیاط سے چننے لگا کیوں کہ یہ وہ لکڑی تھی جو اس نے گھر کی تعمیر میں استعمال کرنا تھی۔ منتخب شدہ لکڑی بیل گاڑیوں کے ذریعے گجرانوالا بھیج دی جاتی۔

    سول لائنز کے کئی گھروں میں لکڑی کی بالکونیاں تو تھیں لیکن مکمل لکڑی کا گھر ابھی تک نہیں بنایا گیا تھا۔ لکڑی کے گھر کے متعلق شہر میں مختلف افواہیں گردش میں تھیں اور لوگ اپنی اپنی قیا س آرائیوں میں بھی مصروف تھے۔ سیٹھ نے زمین کے ٹکڑے پر ایک آرا لگویا جو سید نگری بازار کے کاریگروں نے بنایا تھا۔ اس آرے کو چلانے کے لیے ایک مضبوط جانور کی ضرورت تھی، سیٹھ نے ملتان سے ایک اونٹ خریدا جو آرے کو چلاتا۔ لکڑی کے تختے جب چیر دیے گئے تو انھیں ایسے جوڑنا تھا کہ ان میں کوئی درز نا ہو۔ سیٹھ نے مقامی کاریگروں سے ایک عرصے تک گفتگو اور تبادلۂ خیال کیا لیکن وہ ان کی ہنر وری سے مطمئن نا ہوا اور اس نے پہاڑوں کا رخ کیا۔ وہ سرینگر سے کاریگروں کا ایک دستہ لے کے آیا جنھوں نے اپنے پیشہ ور تقاضے پورے کروانے کے بعد گھر کی تعمیر پر کام شروع کیا۔ سیٹھ ہر شام کام کا جائزہ لینے کے لیے آتا اور مطمئن اور اپنے دل کے اندر خوش دیر تک وہیں بیٹھا رہتا۔ وہاں بیٹھنا اسے سکون کے علاوہ کامیابی کا بھی احساس دلاتا۔ وہاں سے گزرنے والے گھر پر کام کرتے کاریگروں اور سیٹھ کو حیرت اور ایک طرح کی بے یقینی سے دیکھتے۔ لکڑی کا گھر ایک کہانی یا خواب ضرور تھا لیکن کسی نے اسے حقیقت کے طور پر نہیں دیکھا تھا۔

    دو سال گھر پر کام ہوتا رہا۔ اونٹ آرے کو چلاتا تو ہر گزرنے والا سیٹھ کے تعقل کی داد دیتا اور گھر کی لکڑی کی دیواروں کا کھڑا ہونا ان کے لیے ایک گڑیا گھر کی تعمیر تھی۔ جب بھی پھٹوں کو جوڑ کر دیواریں بلند کی جاتیں یا کمروں کے درمیان میں دیواروں کو کھڑا کیا جاتا تو سیٹھ ہر دیوار میں سوراخ یا درز دیکھتا اور اگر کوئی پھٹہ صحیح طرح سے جوڑا نا گیا ہوتا تو سیٹھ اسے اکھڑوا کر پھینک دیتا۔ سیٹھ ایسے پھٹوں کو استعمال میں نہیں لاتا تھا اور اس رد کیے پھٹے کو لوگ لے جاتے۔ لوگوں کے گھروں میں ان پھٹوں سے کئی الماریاں یا کھڑکیاں بنائی گئیں۔ جہلم سے لکڑی لیے بیل اور اونٹ گاڑیاں روز آتیں اورآرے والا اونٹ بارہ گھنٹے آرا چلاتا اور بارہ گھنٹے اسے آرام دیا جاتا اور اچھی خوراک کھلائی جاتی۔ سیٹھ کو اونٹ کے آرام اور خوراک کی ہر وقت فکر رہتی اور وہ دن میں دو بار اسے دیکھنے ضرور جاتا۔

    گھر کی تعمیر کے بعد اسے سجانے کا مرحلہ سیٹھ کے لیے پیچیدہ نا ہونے کے باوجود اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ وہ گھر کو یورپی طریقے سے سجانا چاہتا تھا۔ کسیرہ بازار میں اس کا آبائی گھر پرانے وقتوں کی یاد میں تھا اور اس کی سوچ ایک قدم آگے تھی۔ اس نے کئی شہروں کا دورہ کیا۔ وہ سیالکوٹ گیا جہاں اس نے جموں سے آنے والے تاجروں سے ملاقات کی، جہلم میں جا کے سرینگر سے آنے والوں سے ملاقات کی، ملتان گیا اور ڈیرہ غازی خان گیا جہاں ایرانی تاجروں سے گفت و شنید ہوئی اور لاہور تو تہذیب کا گہوارہ تھا ہی۔ اس نے ایرانی قالین خریدے جن پر بادشاہ ہرنوں کا شکار کھیل رہے تھے یا وہ ہاتھیوں پر بیٹھے کسی بازار میں سے گزر رہے تھے یا پھر جہاں گیر کی طرح ہاتھی پر بیٹھے ہوئے حملہ کرنے والے شیر کا مقابلہ کر رہے تھے اور یا پھر کسی باغ میں بیٹھے ملکہ یا محبوبہ کے ہاتھ سے شراب پی رہے ہوتے۔ کچھ قالین زمین پر بچھائے جانے تھے اور کچھ کو دیواروں پر لٹکایا جانا تھا۔ خواب گاہوں کے لیے ایسی مسہریوں کا انتخاب کیا گیا جو سیٹھ نے بھی پہلے نہیں دیکھی تھیں۔ سیٹھ نے لاہور میں ایک مرتبہ کسی سرکاری تقریب میں حصہ لیا جہاں کھانے کا بندوبست بھی کیا گیا تھا۔ کھانا ایک اتنی لمبی میز پر لگایا گیا تھا جس کی لمبائی سیٹھ کی سوچ سے بھی لمبی تھی۔ اسے پہلے تو یقین نا آیا کہ میز اتنی لمبی بھی ہو سکتی ہے؛ اس کا خیال تھا کئی میزوں کو جوڑا گیا تھا۔ اس نے مختلف زاویوں سے میز کو دیکھا لیکن کہیں سے بھی میزاسے جوڑی گئی محسوس نا ہوئی۔ اس دن اس کے دل میں ایک بڑی میز کا اپنے گھر میں ہونا ضروری لگا۔ اس نے اسی دن اپنے گھر میں ایسی میز رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔

    سیٹھ جہلم اور ملتان کئی مرتبہ گیا۔ جہلم اس کے کاروبار کا مرکز تو تھا ہی وہاں سے سرینگر سے قافلے بھی آتے تھے۔ ان قافلوں میں تاجر اور اشرافیہ ہوتی تھی۔ سیٹھ بھی ان کے لیے اجنبی نہیں تھا۔ سیٹھ ایک سال چھوڑ کر سرینگر جاتا رہا تھا اور اس کی ہر اہم تاجر اور شخصیت سے شناسائی تھی۔ ان میں سے چند کی دربار تک رسائی تھی اور سیٹھ ان سے حاکموں کے ملاقات کے کمروں کے بارے میں پوچھتا رہتا۔ اسے سرینگر کی زندگی میں ہمیشہ ایک جداگانہ رنگ نظر آیا جو اسے اپنے مختلف شہروں کے سفروں کے دوران میں کہیں اور نظر نہیں آیا تھا۔ سرینگر جھیلوں، باغوں، پارکوں اور سڑکوں کا شہر تھا۔ غالیچا بافی اور فرنیچر شہر کی بڑی اور اہم صنعتیں تھیں۔ سیٹھ یہاں گرمیوں میں کئی بار آ چکا تھا اور وہاں اس کے حلقۂ شناسائی نے کافی وسعت حاصل کر لی تھی۔ لاہور میں دیکھی ہوئی کھانے کی میز نے اسے ایک ایسے بھنور میں ڈال دیا جس میں سے وہ نکلنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ فرنیچر بنانے والے کارخانوں میں جاتا جہاں کاریگروں کی بڑی تعداد مصروف کار ہوتی اور ایسی کھانے کی میز کے متعلق بات کرتا جو وہاں پہلے بنائی نہیں گئی تھی لیکن بتدریج بنانے والے سیٹھ کے خواب کو سنجیدگی سے دیکھنے لگے۔ میز بنانا اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا جتنا کہ اسے سلامت حالت میں گجرانوالا تک پہچانا۔ وہ باغوں میں گھومتا اور پارکوں کے چکر لگاتا۔ وہاں گھومتے، جاننے والوں سے تبادلۂ خیال کرتے، کاریگروں سے ذاتی ملاقاتوں میں ان کی آرا کو سنتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ میز کو جہلم میں ہی بنایا جانا چاہیے لیکن وہاں کاریگر اور مناسب قسم کی لکڑی دستیاب نہیں تھی۔ اس نے کاریگروں کا ایسا گروہ تیار کیا جو جہلم جا کر میز بنانے پر رضامند تھا؛ وہ صرف اپنے ہنر کو دور دراز کے علاقوں تک پہچانا چاہتے تھے۔ ان کا تقاضا تھا کہ سیٹھ ساگوان کی ایسی لکڑی مہیا کرے جس کا رنگ سیاہ ہو، اتنا سیاہ کہ اسے رنگ نا کرنا پڑے۔ اس نے لکڑی کے انتخاب کے لیے اپنے معاونت کے لیے جہلم میں کام کرنے والے تین ایسے افراد کا انتخاب کیا جو پچھلی تین نسلوں سے اس کے خاندان کے ساتھ وابستہ تھے اور انھیں لکڑی کی مکمل پہچان تھی۔

    ملتان ایک اہم مواصلاتی شہر تھا۔ وہاں ایران، سندھ، بلوچستان اور بالائی پنجاب سے لوگ کاروبار، سفر، تعلیم اور جاسوسی کے لیے آتے۔ سیٹھ کی ملتان میں ایک چھوٹی سی لیکن نہایت خوب صورت رہائش تھی۔ وہ اپنی گھر کی زیبائش کے لیے مقامی مصوری والے مٹی کے مختلف اقسام کے سجاوٹی گلدان اور برتن خریدتا، ایران سے آنے والے تاجروں سے ملاقاتوں میں اپنے گھر کو سجانے پر تبادلۂ خیال کرتا اور مقامی تاجروں کے ساتھ اپنی لکڑی کے سودے کرتا۔ اس کے یہ دورے چند دنوں کے ہوتے اور وہ اپنے گھر میں ایک رات گانے کی محفل بھی سجاتا۔ ملتان کا بازارِ حسن وہاں کی گانے والیوں کی آواز اور ان کے فن کی وجہ سے جانا جاتا تھا اور لوگ دادِعیش دینے دور دور سے آتے تھے۔ اس کی اپنے گھر میں برپا ہونے والی محفلوں میں ایک بار کجن بائی بھی آئی اور سیٹھ نے اسے اپنے گھر کی افتتاحی تقریب میں بلانے کا فیصلہ کر لیا۔ سیٹھ کی تجویز پر اس نے اسے ایک ادا سے دیکھا، دیکھتے ہوئے مسکرائی اور مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔

    ’’مجھے بلانا اتنا آسان نہیں!‘‘ کجن بائی کی آواز میں اس کی مسکراہٹ کا عکس نہیں تھا۔

    ’’اس میں مشکل کیا ہے؟‘‘ سیٹھ نے انجان بن کر معصومیت سے پوچھا۔

    کجن بائی سیٹھ کی معصومیت کے اندر چھپی مکاری کو سمجھتے ہوئے قہقہ لگا کے ہنسی ۔ ’’سیکھے ہوئے ہیں آپ!‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’آپ کا شہر کچھ فاصلے پر ہے۔ آپ کو میرے لوگوں سے اجازت لینا ہوگی جس کے لیے کافی محنت کی ضرورت ہے۔ ‘‘ وہ رکی، ’’لاہور تک تو ٹھیک ہے۔ میں وہاں چند ایک بار جا بھی چکی ہوں اور بس۔ کسی چھوٹے شہر میں نہیں گئی ابھی تک۔ ‘‘ اس نے ایک ادا سے کان کے اوپر آئی لٹ کو درست کیا، ’’اور وہ جانے بھی نا دیں شاید۔ ۔ ۔ بشرطیکہ۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ ایک معنی خیز انداز میں خاموش ہو گئی اور اس نے سیٹھ کی آنکھوں میں دیکھا۔ سیٹھ کاروبار کا ماہر اور سودے کرنے میں استاد کا درجہ رکھتا تھا۔ وہ کسی جنس کی قیمت کم کرنے کے لیے وہی جنس اپنے گوداموں میں سے سستے داموں پر بیچنا شروع کر دیتا تھا، اس نے اسی انداز سے کجن بائی کی طرف دیکھا۔ کجن بائی ایسے موقعوں پر لوگوں کی آنکھوں کے جھک جانے کی دیکھنے کی عادی تھی لیکن سیٹھ کی نظر کی شدت اسے خوف زدہ کر گئی۔ یہ معصوم سی مسکراہٹ اور شرمیلی قسم کی گفتگو کرنے والا آدمی اس پر لرزہ طاری کر گیا۔ کجن بائی نے اپنی ذات کے اندر گم ہو کر اپنے تاثرات چھپانے کی کوشش کی۔

    ’’میں جب کہوں تو تم میرے شہر میں میرے گھرکی افتتاحی تقریب میں آؤگی۔ ‘‘ سیٹھ مسکرا رہا تھا لیکن اس کی آواز میں ٹھنڈے لوہے کی سختی تھی۔ اس نے اپنے چوغے کی دائیں ہاتھ والی جیب میں ہاتھ ڈال کر سب سے ہلکی تھیلی تھامی۔ اس نے کجن بائی کا رویہ اور خود اعتمادی دیکھتے ہوئے بازار میں اس کی قیمت گرانے کا فیصلہ کیا اور وہ تھیلی اسے تھماتے ہوئے لاپرواہی سے کہا:

    ’’یہ پیشگی ہے۔ میں جب مناسب سمجھوں، پیغام بھیج کے منگوا لوں گا۔ ‘‘

    اگلی شام سیٹھ نے کجن بائی کے بجائے ایک ایسی مغنیہ کو بلایا جسے کسی سرپرست کی تلاش تھی لیکن اس کے اپنے دل میں کجن بائی ہی آباد تھی!

    یہ بات جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی اور سیٹھ کے گھر آنے والی مغنیہ گانے والی محفلوں میں جانے لگی۔ کجن بائی کے لیے ناگزیر ہو گیا کہ وہ سیٹھ دھنی رام کو فتح کرے۔ لیکن کیسے؟ سیٹھ ملتان کی مصوری والے ظروف، ایران سے آنے والی حافظ کی شراب کی صراحی اور پیالوں کی مختلف سائزوں کی تصویریں اور قالین خرید کر گجرنوالا کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔

    کجن بائی نے سیٹھ کی موت کی دعا کی لیکن وہ خیریت سے اپنے شہر پہنچ گیا۔ گھر اس کی آمد کے انتظار میں تھا۔ جہلم سے میز تیار ہو کر آ گئی تھی جسے بڑے کمرے میں رکھ دیا گیا تھا۔ میز کی لکڑی میں ایسی چمک تھی کہ سیٹھ شام تک حیرت میں گم اسے دیکھتا رہا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میز کی سطح پر کسی قسم کا مصنوعی رنگ نہیں لگایا گیا تھا۔ سیٹھ میز کو دیکھے جا رہا تھا اور سرینگر سے آئے ہوئے کاریگروں کا گروہ سیٹھ کو دیکھتا تھا۔ ان کے چہروں سے خوشی،اطمینان اور فخر ٹپک رہے تھے۔ سیٹھ نے پہلے کمرے کے تمام لمپ روشن کیے اور میز کو دیکھا؛ اسے میز کی چمک میں اضافہ ہوا لگا اور پھر اس نے صرف ایک لمپ جلنے دی تو میز کی چمک مزید بڑھ گئی تھی۔ وہ تمام رات روشنی اور اندھیرے میں میز کو دیکھتے ہوئے ایک خوشی میں ڈوبااپنی محنت کو سراہتا رہا۔ اس نے رات کے آخری پہر میں سرینگر سے آئے ہوئے کاریگروں کو انعام و اکرام دے کے ان کی واپسی کا بندوبست کیا۔

    اس نے علی الصباح اپنے گھر کا جائزہ لیا۔ یہ گھر ایک بڑے سارے مربع شکل کے کمرے اور دو خواب گاہوں پر مشتمل تھا۔ ایک خواب گاہ اس کی اپنی اور دوسری کسی بھی مہمان کی ہو سکتی تھی اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کجن بائی وہاں ٹھہرنے والی پہلی مہمان ہوگی۔ باورچی خانہ اور ملازموں کے لیے رہائش ذرا ہٹ کر تعمیر کی گئی تھی۔ باورچی خانہ کے ساتھ جڑا ہوا ایک کھلا کمرہ تھا جہاں پکانے کے لیے درکار سامان رکھا ہوتا۔ باورچی خانہ تک چھتا ہوا راستہ تھا جو بارش سے بچاؤ تھا۔ ہر ملازم کے لیے ایک کمرہ تھا اور ذرا ہٹ کر ان کے لیے غسل خانے بنائے گئے تھے۔ سیٹھ ہر ملازم کو صبح تازہ دم اور اچھے لباس میں دیکھنا چاہتا تھا؛ وہ اکثر ان کا صبح کے وقت معائنہ کرتا۔

    سیٹھ دھنی رام نے گھر کو جتنا خوب صورت بنانا ممکن تھا، بنا کر اس میں افتتاحی دعوت کا سوچنا شروع کر دیا۔ اس نے مہمانوں کی فہرست ترتیب دی۔ اس میں مقامی افسر، سول لائنز کے معتبرین، پرانے شہر سے کچھ لوگ اور دوسرے چند شہروں سے اس کے ذاتی دوست شامل تھے۔ اس نے شراب، کھانا، رہائش اور موسیقی کا بندوبست کرنا تھا۔ انگریز مہمانوں کے لیے اس نے ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کیا کہ ان کے ٹھہرنے کا بندوبست کسی ڈاک بنگلے میں کیا جائے جس کی انھوں نے حامی بھر لی۔ دوسرے شہروں کے مہمانوں کو ٹھہرانے کا بندوبست اس نے کسیرہ بازار میں اپنی حویلی میں کیا۔ وہ جانتا تھا کہ مہمانوں کی اکثریت کی کوشش ہوگی کہ رات کو گھر پہنچا جائے لیکن وہ رات کی افتتاحی تقریب کو یادگار بنانا چاہتا تھا۔ اس نے ولندیزی، ہسپانوی، پرتگالی اور سکاٹ لینڈ کی شراب کا بندوبست کیا ہوا تھا جو اس کے مہمانوں کے لیے کسی طرح کم نہیں ہونا تھی اور موسیقی کے لیے وہ کجن بائی کو لانا چاہتا تھا لیکن اپنی قیمت پر۔ اس نے اپنے تین منشی ملتان بھیجے جنھوں نے وہاں مختلف مغنیاؤں سے رابطے شروع کر دیے اور کجن بائی کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا جو اس کے فن اور شخصیت کے منہ پر طمانچہ تھا۔ سیٹھ نے اپنی جنس سستے داموں بیچنا شروع کر دی تھی۔ ملتان سے ایک ایلچی روزانہ اسے خبر پہنچاتا اور ایک دن اسے پیغام آیا کہ کجن بائی کسی بھی دام پر آنے کو تیار تھی۔ سیٹھ نے اسے اور بھی کم کی پیش کش کروائی جو مان لی گئی اور ایک دن وہ منشیوں کے ہمراہ سیٹھ کے گھر پہنچ گئی۔ سیٹھ ابھی اپنی کسیرہ بازار والی حویلی میں ہی رہائش پذیر تھا اور کجن بائی نئے گھر میں ٹھہرنے والی پہلی مہمان تھی۔

    کھانا پکانے کے لیے باورچیوں کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ تھا۔ چھوٹا گوشت پکانے کے لیے الگ،بڑے گوشت کے لیے پرانے شہر میں سے سب سے پرانے پکانے والے خاندان کو چنا اور اسی طرح دال سبزی کے کاریگر بھی ڈھونڈے۔ ان تمام لوگوں سے سیٹھ نے خود طویل ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں لیہہ سے بکرے، چولستان سے ایک سال کی عمر کے بچھڑے، جھنگ سے دالیں اور قلعہ دیدار سنگھ کے گردو نواع سے سبزیاں منگوانے کا طے ہوا۔

    سردیوں کے آغاز میں گھر میں تقریب منعقد کرنے کا طے کرکے سیٹھ نے دو کاتب منگوائے اور انھیں دعوتی خط بنانے پر معمور کردیا۔ ہر مہمان کے لیے عبارت مختلف اور ذاتی تعلق کو مس کرتے ہوئے ہونا تھی۔ اس نے ہر خط غور سے خود پڑھا، اس میں ضروری درستی کی اور پھر خصوصی ہرکارے کے ہاتھ بھیجا۔

    کجن بائی جب آئی تو سیٹھ دھنی رام نے اسے تحائف سے مالا مال کر دیا۔ ہر روز ایک منشی اس کے ساتھ کر دیا جاتا جو اسے صرافوں، بزازوں، کشیدہ کاروں اور دوسرے ہنروروں کے پاس لے جاتا جہاں وہ دل کھول کے خریداری کرتی اور شام کو بن سنور کے سیٹھ کے انتظار میں بیٹھ جاتی لیکن وہ اس کی غیرحاضری میں گھر کا چکر لگا کر اس دن کی ہدایات دے جاتا؛اس نے ہر روز اتنا کمانا ہوتا تھا جتنا کجن بائی کو خرچ کرنے کی اجازت تھی۔ سیٹھ اپنے خراجات کو کبھی اپنی بچت سے زیادہ نہیں ہونے دیتا تھا۔ یہ دعوت بھی ایک کاروبار تھا جو اس کے لیے گھر کی قیمت کو پورا کرنے کا سبب بننا تھا۔

    یہ واحد گھر تھا جس کے گرد چار دیواری نہیں تھی، یہ ایسے ہی تھا جیسے راستے پر کوئی لیٹ جائے۔ گھر کے سامنے والے حصے پر ایک ولندیزی شیشہ لگایا گیا تھا جو رات کو اندر کا نظارہ باہر کر دیتا لیکن سیٹھ کا اس چھوٹے سے شہر میں اتنا دبدبہ تھا کہ سامنے والے راستے پر گزرنے والے اندر دیکھنے کی جسارت نہیں کر سکتے تھے۔ سول لائنز کے رہائشیوں اور وہاں سے پرانے شہر کو جانے والوں کو اس نئے گھر سے اپنائیت میں ڈوبا ہوا ایک حسد تھا، وہ وہاں رُک کر شیشے کے اندر جگمگاتی روشنیوں میں سے گھر کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے تو تھے لیکن انھیں سیٹھ کی ذاتی زندگی میں ساجھے داری دخل در معقولات لگتا۔ اس گھر کے اندر شام ہوتے ہی روشنیاں ہو جاتیں لیکن کوئی ان کی طرف توجہ نا دیتا۔

    ابھی دعوت میں چند دن تھے اور ایک دِن کجن بائی نے منشی کے ساتھ جا کرخریداری کرنے کے بجائے گھر میں ہی دن گزارنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا کہ سیٹھ دھنی رام اپنے معمول کے مطابق وہاں آ گیا اور بائی کو وہاں موجود دیکھ کر حیران ہونے کے ساتھ خوش بھی ہوا۔ دونوں سامنے بیٹھے باتوں میں مشغول ہو گئے۔ سیٹھ ایک سفاک کاروباری تھا اس لیے اسے گفتگو کا ڈھنگ آتا تھا۔ اس کی باتوں میں ایک کشش اور ایسی علمیت ہوتی تھی کہ سننے والا اس کی آواز کے بہاؤ، لفظوں کی گہرائی اور جسم کی زبان میں ایسے گم ہوتا کہ وقت اپنی اہمیت کھو بیٹھتا۔ کجن بائی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ سیٹھ کو شکست دینے یہاں آئی تھی اور اسے لگا کہ شروع ہونے سے پہلے ہی وہ بازی ہارنا شروع ہو گئی ہے۔ وہ ایک پیشہ ور محبت کرنے والی تھی، اسے سیٹھ کی آنکھوں میں ایک اداسی، تنہائی اور لاچاری کا سایہ سا محسوس ہوا جو اسے اپنے اندر بھی محسوس ہوتا۔ وہ جان گئی کہ سیٹھ اس کی طرف ملتفت ہے، اسے خوشی ہوئی اور کسی حد تک اداسی بھی۔ اس نے سوچا: کاش وہ یہیں رہ جائے!

    کجن بائی نے خریداری کے لیے جانا ختم کردیا اور وہ دعوت کے لیے گھر میں ہونے والے کاموں کی نگرانی میں مصروف ہو گئی۔ شروع میں سیٹھ کو یہ کسی حد تک نامناسب لگا لیکن پھر اس نے یہ قبول کر لیا اور وہ تمام ہدایات بائی کو ہی دینے لگا جو ہر کام نہایت مستعدی اور نفاست سے مکمل کرتی۔ بائی کے کہنے پر کمرے کو پھولوں سے بھر دیا گیا؛ ہر جگہ جہاں کچھ نہیں ہونا تھا وہاں پھول تھے۔ سردیوں کا موسم تھا اور اسی مناسبت سے بائی نے سیٹھ کو مشورہ دیا کہ برفانی علاقوں سے پرندوں کی ہجرت شروع ہو گئی ہے اس لیے وہ کھانے میں انھیں بھی شامل کرے۔ سیٹھ نے ایک مختصر سی تعریفی نظر بائی پر ڈالی اور ایک منشی کو شکاریوں کو بلانے کا حکم دیا؛ بائی نے مسکراتے ہوئے مچھلی منگوانے کا بھی کہا۔ نارووال دریا ئے راوی کے کنارے آباد ایک قصبہ تھا۔ راوی، ناروال کے قریب سے اپنے رخ میں تھوڑی سی تبدیلی لاتا تھا ۔ جہاں دریا کا رُخ تبدیل ہوتا تھا وہاں گہرائی بڑھ گئی تھی اور اس علاقے میں پائے جانے والی مچھلی کا ذائقہ دور دور تک مشہور تھا۔ سیٹھ نے وہاں سے مچھلی لانے کے لیے حکم دیا۔

    دعوت والی رات بائی نے اپنے لیے جو کونا منتخب کیا وہ مکمل اندھیرے میں تھا۔ میز پر تھالوں میں بھنا ہوا بکرا، بچھڑا، مرغابیاں، مچھلی اور تیتر رکھے ہوئے تھے۔ کئی قسم کے سالن، سبزیاں اور دالیں ڈونگوں میں تھیں اور خادم شراب کے گلاس تھالوں پر رکھے گھوم پھر رہے تھے۔ مہمان اسی طرح آ رہے تھے جس ترتیب سے انھیں دعوت دی گئی تھی۔ ایک چوب دار مہمان کی آمد کو اعلان کرتا، سیٹھ دروازے تک جا کے اس کا استقبال کرکے اسے دیگر مہمانوں کے ساتھ ملاتا۔ یہ سلسلہ کافی دیر چلتا رہا اور پھر ایک ایسا مہمان آیا جسے بلایا نہیں گیا تھا۔ وہ ڈنر جیکٹ اور بلیو پٹرول پہنے ہوئے تھا اور اس کے بوٹوں میں اندر کی طرف مہمیز (spur ) لگے ہوئے تھے جس وجہ سے وہ ایسے ہی چل رہا تھا جیسے کہ گھوڑے پر سوار ہو۔ اس کا قد دراز، نظر اور مسکراہٹ میں مکاری تھی جو سیٹھ کے لیے نئی چیز نہیں تھی، اس کا کاروباری معاملات میں اکثر انگریزوں سے واسطہ رہتا اوراسے یہ مکاری ہر چہرے میں نظر آتی۔

    اس آدمی کی آمد کا اعلان نہیں کیا گیا۔ جب وہ آدمی آیا تو ڈپٹی کمشنر آ چکا تھا اور دعوت پورے جوبن پر تھی، مہمان اپنی پسند کی شراب سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور وہاں ایک بےفکری کا ماحول تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کجن بائی ایک کونے میں بیٹھی مناسب وقت کے انتظار میں تھی کہ مہمانوں کو چونکا سکے! وہ آدمی ایسے آگے بڑھا جیسے وہ ایک دشوار گزار راستے میں گھوڑے کو سنبھال رہا ہو۔ سیٹھ کو چوب دار سرگوشی میں مہمان کی آمد کی اطلاع دے چکا تھا۔ سیٹھ کسی حد تک ایک الجھاؤ، ناپسندیدگی میں ڈوبا، مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لیے بڑھا۔

    ’’میرا نام ڈیوڈ ولسن ہے۔ ‘‘ اس نے بھاری سے لہجے میں کہا۔ اس کی اردو کافی صاف تھی لیکن اتنی بھی نہیں کہ ڈیوڈ ہندوستانی لگتا۔ ’’ میں شرمندہ ہوں کہ دعوت کے بغیر آ گیا لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے باہر نہیں نکالیں گے۔ ‘‘سیٹھ کو اس کی معذرت میں ایک دھمکی کا احساس ہوا۔ اس نے تو یہ محفل کسی خاص مقصد کے لیے برپا کی تھی، اسے ڈیوڈ کی دھمکی کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ تو اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی تھا، وہ کبھی کسی کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنا تھا اور نا ہی کسی کو اس کے راستے کی رکاوٹ بننا پسند تھا۔ وہ جواب میں دھیرے سے مسکرا دیا اور مصافحہ کرتے ہوئے، ایک مصنوعی سی شرماہٹ میں بولا، ’’میرے بھاگ کہ آپ جیسے لوگ بن بلائے مجھے عزت دینے آئے۔ ‘‘ اور ساتھ ہی سیٹھ نے اسے ہاتھ کے اشارے کے ساتھ دوسرے مہمانوں میں گھل مل جانے کا اشارہ کیا۔

    مہمان زیادہ نہیں تھے لیکن جو بھی تھے اس وقت کے اہم لوگ تھے۔ شراب، کھانا، قہقہے، غیراہم قصے اور بےفکری کا دور دورہ تھا اور اسی بے خیالی میں کسی نے بائی والے کونے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی کہ کب وہ ایک اندھیرے سے روشنی میں تبدیل ہو گیا تھا تاوقتیکہ بائی نے تان پورے کے تاروں کو چھیڑا اور سب نے حیرانی کے ساتھ چونک کر اس کی طرف دیکھا اور اس کے حسن کی کشش انھیں ایک سکتے کی کیفیت میں لے گئی۔ کمرے میں ایک خاموشی تھی، اتنی خاموشی کہ ہرکسی کے سانس کی آواز تک بھی سنی جا سکتی تھی۔ وہ سب ہلنے سے بھی خائف تھے کہ مبادا کجن بائی کا تخلیق کیا ہوا سحر ٹوٹ جائے۔ کجن بائی مہمانوں کے تاثر اور ردعمل سے جان گئی کہ اس نے صحیح وقت پر اپنی موجودگی کی اطلاع دی ہے اور وہ اس تاثر کو زائل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ کسی محفل کی کامیابی پہلی سر کے صحیح وقت کے انتخاب پر ہے؛ وہ اس وقت کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی۔ اب اس نے اپنی آواز سے سب کو اپنے سحر میں گرفتار کرنا تھا۔ اس نے پھر تان پورے کے تار سہلائے۔ اس کے طبلہ نواز اور ہارمونیم بجانے والے نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ہارمونیم بجانے والے نے بھیرویں کے سروں کو چھیڑا؛ ساتھ ہی طبلچی نے اپنے طبلے کے سر کو باجے کے سر کے ساتھ ملایا۔ اسی وقت بائی نے بھیرویں، جو کہ کومل سروں کا راگ ہے، کا، سارے گاماپادھاپاماگارے سامیں الاپ لیا اور اپنی آواز کچھ دیر وہیں رکھی اور پھر آواز کا ٹکاؤ اوپر والے سا پر رکھا اور ساتھ ہی طبلے والے کو اشارہ کرتے ہوئے استھائی کے بول شروع کیے تو طبلہ نوازنے ان بولوں کے ساتھ دادراتال رکھی اور یہ بول مد ستک سے ہوتے ہوئے تار سبتک کے کومل ریکھب تک جا رہے تھے۔ دونوں نکھاد، رکھب اور گندھار کو آمیز کرتے ہوئے مصر بھیرویں کی شکل دی جو ایک صحرائی رنگ ہے۔ بائی کا سا اتنا بلند تھا کہ آواز باہر بھی سنی جا سکتی تھی۔ اس وقت ایک اونٹ گاڑی اور گھوڑا گاڑی سیٹھ کے گھر کے سامنے سے گزر رہی تھیں۔ بائی کی آواز اس سرد رات کو سامنے والے راستے پر جیسے رک گئی تھی۔ اونٹ اس آواز کے کان میں پڑتے ہی مستی میں بلبلانے لگے اور گھوڑے نے ہنہنانا شروع کر دیا۔ گاڑی بان پریشانی کے عالم میں اپنے جانوروں کو کوستے ہوئے انھیں چلتے رہنے کو سمجھا رہے تھے۔ پیدل چلنے والے ایک لمحے کے لیے رک کر گھر کی طرف دیکھتے، بھیرویں کے صحرائی رنگ سے لطف اندوز ہوتے اور آگے چل پڑتے۔

    مہمان اب بائی کے رحم و کرم پر تھے۔ وہاں انگریز اور ہندوستانی راگ کو نا سمجھتے ہوئے بھی سمجھ رہے تھے۔ سب سامنے کو رینگتے رہے اور بائی کے سامنے قالینوں پر ہی بیٹھتے گئے۔ ڈیوڈ راگ کو سمجھتا تھا اور ہر سم پر وہ ہاتھ سے اشارہ دیتے ہوئے اپنے بول بلند آواز میں گاتا جاتا۔ وہ آگے کو سرکتا ہوا بائی کے بالکل قریب ہو کر بیٹھ گیا، اتنا قریب کہ جب چاہے اسے چھو لے۔ سیٹھ کو یہ اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی لگا۔

    مہمانوں کی ہر بات سرگوشی میں تھی اور ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ بائی کی آواز کے زیرو بم میں سے نکلنا نہیں چاہتے!

    بائی نے راگ پیش کرکے اپنے دونوں سازندوں کو اختتام کا اشارہ کیا اور مہمان با دل نخواستہ وہاں سے جانے لگے۔ ڈیوڈ جانے والوں میں پہلا آدمی تھا۔

    ۲

    سب لوگ جا چکے تھے؛ چوب دار، خدمت گار اور آب دار بھی۔ سیٹھ کمرے کے وسط میں اپنی ہی سوچوں میں گم بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی اس کیفیت کی وجہ سر کا ہلکا سا درد بھی تھا۔ بائی کے سازندے گھر کے عقب میں ملازموں کی رہائش گاہ میں چلے گئے تھے اور وہ اپنے سامنے سرخ شراب کا گلاس، مچھلی کا قتلہ اور مرغابی کا پر رکھے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور درمیان والی انگلی سے گوشت کے ناخن برابر ٹکرے توڑ توڑکر کھانے میں مصروف تھی۔ سیٹھ اپنے سر کے درد کی وجہ سے بھی پریشان تھا۔ کیا یہ شراب کی معمول کی مقدار سے زیادہ پینے کی وجہ سے تھا؟ ایسی دعوتوں میں وہ ہمیشہ اپنا ذاتی آب دا ر ساتھ لے کر جاتا جو اس کے گلاسوں کو کسی کے ساتھ ملنے نا دیتا لیکن آج وہ بھی شاید ذرا لاپرواہی کا شکار ہو گیا تھا۔ ڈیوڈ کی مہمانوں کے ساتھ بات چیت کے کچھ حصے وہ بھی سن چکا تھا۔ سیٹھ نے ڈیوڈ کی باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس کاکا لکڑی کا کاروبار ہے۔ وہ ہمالیہ کے جنگلوں سے لکڑی دریائے سندھ سے جنوب تک لاتا تھا اور اب وہ دریائے جہلم کے کنارے کے جنگلوں میں سے لکڑی کاٹنے کا ٹھیکہ لینا چاہتا تھا۔ سیٹھ کے خاندان کی تین نسلوں سے نیلم کی وادی میں لکڑی کے کاروبار کی اجارہ داری تھی جو اسے ڈیوڈ کی وجہ سے اچانک خطرے میں محسوس ہوئی۔ وہ اپنی پریشانی اور سر درد کی وجہ سے اپنے خیالوں میں گم تھاکہ اسے بائی کے پاس آکر بیٹھنے کا پتا ہی نا چل سکا۔ وہ ایک ہاتھ میں گلاس اور دوسرے میں مرغابی کا پر لیے ہوئے تھی۔

    ’’آپ پریشان ہیں؟‘‘ بائی نے مسکراتے ہوئے پوچھا لیکن اس کی آواز میں ہمدردی کی گہرائی تھی۔ وہ سیٹھ کے ساتھ کچھ دن اس طرح گزار چکی تھی جس کا اسے پہلے تجربہ نہیں تھا۔ آدمی اسے ہمیشہ ایک ایسی عورت سمجھتے تھے جو صرف ان کے لیے بنائی گئی تھی لیکن سیٹھ نے اسے ایک الگ قسم کا تاثر دیا۔ اس نے اسے یقین دلایا کہ وہ اس کے اخراجات ضرور اٹھا رہا تھا لیکن اس کا اپنا ایک مقام ہے جس کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس نے لکڑی کے اس گھر میں خود کو پہلی مرتبہ محفوظ محسوس کیا گو وہ یہاں اکیلے ہی رہ رہی تھی؛ سیٹھ اس کی طرف سے لاتعلق تھا جو رویہ اسے نا پسند بھی تھا۔ سیٹھ کی اس رات سی دعوت اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی لیکن اسے ایسے بیٹھے دیکھ کر پریشانی بھی ہوئی۔ وہ اس کی مدد کرنا چاہتی تھی۔

    سیٹھ اس کی آواز سے چونکا جس وجہ سے بائی بھی چونکی اور دونوں مسکرائے۔ بائی کی مسکراہٹ میں اپنائیت اور سیٹھ کی مسکراہٹ میں ایک لاتعلقی اور تھکاوٹ سی تھی۔ ’’آپ نے کچھ کھایا؟‘‘بائی نے ہاتھ میں پکڑا پر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ سیٹھ نے اس کی طرف حیرانی اور کسی قدر ناپسنددیدگی سے دیکھا اور پھر قہقہ لگا کے ہنس دیا۔ اسے حیرت ہوئی کہ وہ اس طرح کبھی ہنسا ہی نہیں تھا۔ اس کے نزدیک قہقہے بےاحتیاطی تھے اوراس کی زندگی ایک ایسے ضبط میں گزری تھی جہاں اپنی سوچ کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دینا تھا۔ اس نے چہرے پر سنجیدگی اور دانش طاری کرکے کاروباری فیصلے کرنے ہوتے ہیں؛ اسے اپنے قہقہے سے کچھ شرمندگی بھی ہوئی۔

    ’’میں کھلانے والوں میں تھا۔ ‘‘ اس نے براہ راست جواب نہیں دیا۔ بائی کوئی جواب دیے بغیر اٹھی اور پچھلا درواز ہ کھول کر باہر نکل گئی اور ایک تھالی میں چند بوٹیاں لے کے آ گئی۔ سیٹھ نے بائی کی طرف تعریفی نظر سے دیکھا۔ بائی نے بھی اسے ایسی نظر سے دیکھا جس میں مبارزت تھی۔ سیٹھ نے اس کی نظر کو نظرانداز کرتے ہوئے تھالی تھام لی۔ اس نے ٹھنڈے گوشت کا ٹکڑا منہ میں ڈال کر چبانا شروع کر دیا۔ بائی اسے چباتے ہوئے دیکھتی رہی اور پھر اپنا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔

    ’’گوشت گرم نہیں رہا۔ ‘‘ اس نے دبی زبان سے سیٹھ کو ایسے اطلاع دی کہ گویا اس کا اپنا قصور ہو۔ وہ اسے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سیٹھ نے بائی کو گلاس والا ہاتھ روکنے کا اشارہ کیا۔ دونوں نے پھر ایک بار ایک دوسرے کو دیکھا۔

    ’’شاید سر درد اس کی وجہ سے ہو۔ ‘‘

    بائی خوش مزاجی سے مسکرائی، اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور آنکھوں سے ٹپکتی شرارت کی وجہ سے گال بھی دمک رہے تھے۔ سیٹھ جھکی ہوئی آنکھوں سے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا اور اس کے ذہن میں ایک تربیت یافتہ کاروباری کی جگہ سادہ سا ،بے ضرر قسم کا آدمی جاگ رہا تھا۔ سیٹھ اچانک اس آدمی سے خوف زدہ ہو گیا۔ اس نے بائی کی طرف دیکھا تو وہ شوخی سے مسکرا رہی تھی۔ ’’ اس کی وجہ سے سر میں درد نہیں ہوتا۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے ایک گھونٹ لیا۔

    سیٹھ نے اس کے ہاتھ سے گلاس لے کر قالین پر رکھ دیا اور گلاس لیتے ہوئے اس کی انگلیاں بائی کی ہتھیلی سے چھو گئیں۔ اتنے دنوں سے وہ یہاں رہ رہی تھی لیکن وہ اسے چھو نہیں سکا تھا یا اس نے کوشش ہی نہیں کی تھی۔ سیٹھ کو اپنی انگلیاں کبھی جلتے ہوئے اور کبھی جلنے کے لیے بے چین محسوس ہوئیں۔ بائی ،سیٹھ کے اندر آنکھیں کھولتی تبدیلی کو دیکھ رہی تھی؛ وہاں جودونوں اپنے پیشوں میں ماہر تھے، مکمل اناڑی بنتے جا رہے تھے۔ بائی، اس سے پہلے جہاں بھی جاتی تھی، اسے اپنے گاہک سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی تھی گو وہ سب صاحبان حیثیت لوگ ہوتے تھے۔ اس کے رویے میں ایک طرح کی اپنایت کے ساتھ لاتعلقی بھی ہوتی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اسے اپنے لانے والے کے ساتھ ہمدردی تھی؛ وہ اس کی پریشانی دور کرنا چاہتی تھی۔

    ’’آپ آرام کر لیں!‘‘بائی نے اسے ہمدردی میں ڈوبی سادگی سے کہا۔ اس کی آنکھوں اور گالوں سے شرارت کی چمک جاتی رہی تھی اور وہ اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے سیٹھ ایک لاوارث بچہ ہو۔

    ’’بہتر! اور تم کہاں۔ ۔ ۔ ‘‘ سیٹھ نے تھکے ہوئے لہجے میں بات شروع کر کے ادھوری چھوڑ دی۔ سیٹھ کے اندرسادہ، بے ضر سا بیدار ہوتا آدمی پھر کسی گہری نیند میں سو گیا تھا۔ وہ بائی کو ایسی نظر سے دیکھنے لگا جیسے وہ دیکھے جانے کی عادی تھی۔ بائی نے سیٹھ کے اندر کی نئی تبدیلی کو محسوس نہیں کیا۔ وہ اسے اپنی ہمدردی سے مالا مال کر دینا چاہتی تھی۔

    ’’اسی کمرے میں۔ میرے پاس روغن بادام ہے جوسر درد کو کھا جاتا ہے۔ میں آپ کے سر پر اس کی مالش کروں گی۔ ‘‘بائی کی آواز متوازی اور کسی تاثر سے خالی تھی؛ کسی کو چھا لیا لانے کا پیغام دینے کی طرح۔ سیٹھ نظر نیچے کیے بیٹھا رہا۔ وہ بائی کو اپنے تاثرات پر قابو پا لینے کا وقت دینا چاہتا تھا۔ وہ اس کے چہرے پر جوانی کی جلد بازی کی جگہ اس کے پیشے کی منافقت کو حاوی دیکھنا چاہتا تھا تا کہ اس نقاب میں سے وہ اصلی حالت دیکھ سکے۔ اس کے سر درد میں کمی آ گئی تھی، درد کی وجہ شاید بھوک ہی تھی اور بائی کی لائی ہوئی چند ٹھنڈی بوٹیوں نے اس کے معدے کو متحرک کرکے درد میں کمی کر دی تھی۔ اسے اچانک ڈیوڈ کا خیال آیا۔ اس نے اپنادل ایک لمحے کے لیے تیز دھڑکتے محسوس کیا، ایسے محسوس ہوا کہ اسے پسینہ آ گیا تھا لیکن در اصل پسینے کا ایک قطرہ بھی اس کے جسم پر نہیں تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ ڈیوڈ سے اتنا خوف زدہ کیوں تھا؟ اس کا خاندان کئی نسلوں سے ان جنگلوں میں سے اپنے رزق نکالتا آیا تھااور ایک دم کوئی مہم جو اسے محروم نہیں کر سکتا تھا۔ سیٹھ نے آنکھیں اوپر کر کے کاروباری مذاکرات والی نظر سے بائی کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اسے مایوسی کے ساتھ خوشی بھی ہوئی کہ بائی کے چہرے پر پریشانی بھری معصومیت تھی۔ اسے بائی کسیرہ بازار کی کسی بھی عورت کی طرح لگی؛ وہ تو اسے شکست دینا چاہتا تھا، شاید بائی اسے مات دے گئی۔

    ’’نہیں تم وہیں سونا،مالش کی بھی ضرورت نہیں ہے،میں اب ٹھیک ہوں۔ میں یہیں پڑا رہوں گا۔ ‘‘

    ’’نہیں! آپ وہاں سوئیں گے۔ ‘‘بائی نے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ سیٹھ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، وہ مسکراہٹ اتنی بے ساختہ تھی کہ اس سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ بائی کی آواز میں اپنائیت بھرا حکم تھا۔ سیٹھ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اٹھا اور بائی کوبھی ساتھ ہی اٹھنا پڑا۔

    صبح سیٹھ ابھی سو رہا تھا کہ بائی کی آنکھ کھل گئی۔ وہ ایک عرصے سے صبح جلدی جاگنے کی عادی تھی۔ وہ علیٰ الصباح اٹھنے کے بعد ریاض کرتی اور جب اس کے گھر والے ابھی گہری نیند میں ہوتے وہ دوبارہ سو جاتی۔ گجرانوالا آنے کے بعد وہ معمول کے مطابق صبح جاگ تو جاتی لیکن ریاض نہیں کر پا رہی تھی۔ اس نے رات سیٹھ کے پہلو میں گزاری تھی اور صبح اٹھتے ہی اس نے ملتان نا جانے کا فیصلہ کرکے اپنے دونوں سازندوں کو فارغ کر دینے کا طے کر لیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے اپنے لیے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا ہے جس پر چل کے کوئی کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ اس نے سوچاکہ وہ پہلے کون سی کامیاب ہے۔ اسے کسی وقت ملتان کے کسی مجاور یا جاگیر دار کی داشتہ بننا ہے تو کیوں نا سیٹھ دھنی رام کے ساتھ رہنا شروع کر دے؟ جو لوگ اس کے سر پرست ہونے کا دعویٰ کرتے تھے ان کے ٹھاٹھ اس کے ہی مرہونِ منت تھے اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ سیٹھ اتنا فراخ دل تھا کہ اگر وہ ا ن لوگوں کو ماہانہ خرچہ بھجوانا شروع کر دے تو انھیں شاید کوئی اعتراض نا ہو؛وہ صرف کچھ زیادہ کی ضد کریں گے لیکن وہ ایسا کرےگی نہیں۔

    اس نے سازندوں کو بھیجنے سے پہلے سیٹھ سے مشورہ کرنا اور اسے اطلاع دینا ضروری جانا۔ وہ محسوس کر سکتی تھی کہ سیٹھ کو اس کی ضرورت ہے۔ کیا ایسے تو نہیں کہ ہر آدمی کو ایک مخصوص عورت کی ضرورت ہوتی ہے؟

    وہ سیٹھ کے انتظار میں بیٹھ گئی! اسے وقت کبھی تھما ہوا اور کبھی تیز رفتار لگتا۔ وہ بے چین ضرور تھی لیکن اسے جلدی بھی نہیں تھی۔ اسے معلوم تھا کہ سیٹھ کے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا سو وہ سیٹھ کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی۔ سیٹھ کے آنے تک کا عرصہ اسے ایک عمر لگا۔ وہ عمروں کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتی تھی؛ سوائے اس کے کہ وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اپنے خیالوں میں گم اس کے انتظار میں بیٹھی رہی۔ سیٹھ جب آیا تو وہ کچھ شرمسار سا تھا۔ اس نے ایک نظر بائی کو دیکھ کر اس کی خوب صورتی سے اپنے ذہن کو سیراب کیا۔ سیٹھ نے ارد گرد تنقیدی نظر دوڑائی، اسے کچھ بھی بےترتیب نظر نا آیا۔ اس کے خیال میں رات کو دیر تک چلنے والی دعوت کے بعد ہر جگہ بے ترتیبی ہوگی۔ اسے حیرت ہوئی کہ سب کچھ معمول کے مطابق کیسے ہو گیا؟

    ’’کچھ کھایا؟ بھوک لگ رہی ہے!‘‘ سیٹھ نے بائی کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ اسے احساس ہی نہیں تھا کہ وہ بھوکی ہے! اسے بھی اچانک بھوک کا شدید احساس ہونے لگا۔ وہ آہستہ سے اٹھی اور ایک نظر سیٹھ کے لباس پر ڈال کر باورچی خانے کو جانے والے دروازے کی طرف چل پڑی۔ سیٹھ دل چسپی سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ جب واپس آئی تو سیٹھ ہلکا سا مسکرایا۔ اس مسکراہٹ میں کسی سوچ کا عکس تو نہیں تھا؛ بس ایک مسکراہٹ تھی جو انسان کو کسی جانور یا پرندے سے جدا کرتی ہے۔ بائی سیٹھ کے مصنوعی سکون میں ایک بےچینی محسوس کر سکتی تھی۔ اسے کچھ تکلیف بھی ہوئی کہ سیٹھ اس طرح کھچاؤ میں کیوں ہے؟

    ’’ایک بات کہنا چاہتی ہوں؟‘‘ سیٹھ کو اپنے سینے میں دل کی پھڑ پھڑاہٹ سی محسوس ہوئی۔ وہ خاموش اسے دیکھتا رہا۔ سیٹھ نے اثبات میں سر ہلا کراسے بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔ بائی نے ایک لمبا سانس لیا۔ ’’آپ پتا نہیں کیا سوچیں؟ لیکن میں اب یہاں رہنا چاہتی ہوں۔ ‘‘ وہ تیزی سے یہ بات کر گئی اور پھر اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی استادوں کے بتائے ہوئے طریقوں کی نفی کر گئی تھی۔ ’’اگر آپ ایسا چاہیں ؟‘‘

    سیٹھ کے لیے یہ اتنا غیر متوقع تھا جتنا بائی کے ساتھ رات گزارنا۔ وہ اگر چاہتا تو ملتان میں بھی اس کے ساتھ رات گزار سکتا تھا لیکن وہ عورت کو جنس کے بجائے عورت ہی دیکھنا چاہتا تھا۔ رات کو جب بائی نے شب بسری کی پیش کش کی تو اس کا انکار کئی سوال پیدا کر سکتا تھا۔ بائی کی پیش کش سے وہ اتنا خوش ہوا کہ اسے اپنے سینے کی کوٹھری کی دیوراوں کے ساتھ دل کی ٹکریں محسوس ہوئیں۔ وہ خوف زدہ سا ہو گیا کہ یہ دل کے دورے کا پیش خیمہ نا ہو؟ اس نے محسوس کیا کہ اس کے چہرے کا رنگ گلابی ہو جائےگا جو اس کے مذاکراتی ذہن کی شکست تھی کیوں کہ بائی نے اس کے احساسات پڑھ جانے تھے۔ وہ اپنے تاثرات چھپانے کے لیے سر جھکاکر کھانسنے لگا اور اسی دوران میں اپنے دل کی دھڑکن پر قابو بھی پا گیا۔ اب اس نے نظر اٹھاکر بائی کی طرف ایسے دیکھا کہ وہ اپنی بات جاری رکھے، ’’آپ یہاں دعوتیں کیا کریں اور میں ان میں آپ کے ساتھ مہمان دار ہوں گی۔ ‘‘ وہ رکی۔ سیٹھ کے ذہن میں خیالات کا سلسلہ گلی میں سے روشن دان کے راستے سے آتے ہوئے سایوں کی طرح چل نکلا۔ یہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ کسی ہندوستانی کے گھر کی دعوت میں کوئی عورت مہمانوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہو۔ یہ نا صرف اس کے وقار میں اضافے کا سبب ہوگا اس کے کاروبار کو بھی ترقی ملےگی۔ وہ، بائی کو اس کمرے میں مہمانوں کے ہجوم میں بظاہر فارغ، لیکن دراصل، مصروف دیکھ سکتا تھا۔

    ’’تمھارے گھر والے۔ ۔ ۔ ؟‘‘ سیٹھ نے جھجکنے کا لہجہ اپناتے ہوئے پوچھا۔

    بائی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، سیٹھ اس کی آنکھوں میں ایک لاتعلقی سی دیکھ سکتا تھا۔ وہ دل چسپی سے بائی کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس کی بات کے انتظار میں تھا۔ ’’میرے گھر والوں کو کیا۔ ۔ ۔ ؟‘‘ اس نے طنزاً کہا۔

    سیٹھ کو بائی کا اور اپنا یہ مکالمہ ایک ناٹک سا لگا۔ دونوں جانتے تھے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں اورایک دوسرے سے کیوں چھپا رہے ہیں؟ سیٹھ نے اس ناٹک کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اسی وقت دو خادم تھالوں پر ناشتہ رکھ کر لے آئے۔ چھوٹی چھوٹی رکابیوں میں بھنا ہوا گوشت، سبزی کی بھجیا، تانبے کے گلاسوں میں دودھ اور لسی تھے۔ ’’سیٹھ جی! مجھے تو اپنے دھرم کا کچھ پتا نہیں لیکن آپ ہندو ہیں اور یہ سب کھاتے ہیں۔ ‘‘ بائی نے گوشت والے مصالحے کو تنور کے پراٹھے کے نوالے سے لگا کرمنہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔

    ’’اگر میں دھرم کو ہی سب کچھ مان لوں تواس وقت میرا سول لائن میں لکڑی کا ٹال ہوتا،‘‘ اس نے گوشت کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے جواب دینا شروع کیا، ’’اور کسیرہ بازار میں ایک ڈیوڑھی اور واحد کمرے والا گھر ہی ہوتا۔ جو بھی میرے پاس ہے اس میں پرکھوں کی ذہین محنت اور ایسی خوراک کی وجہ سے ہے جو ہم نے لوگوں کو کھلائی ہے۔ ‘‘ اس نے غور سے بائی کی طرف دیکھا، ’’لوگوں کو کھلاتے ہوئے خود نا کھانا بد تمیزی ہے۔ ‘‘ سیٹھ خوش مزاجی سے ہنسااور پھر ایک دم سنجیدہ ہو گیا، ’’تمھارے گھر والے ؟‘‘ اس نے دودھ کو نظر انداز کرتے ہوئے لسی کا گھونٹ لیا جب کہ بائی دودھ کا گلاس اٹھائے ہوئے تھی۔

    ’’میرے گھر والے ؟‘‘ بائی نے سیٹھ کے انداز میں دہرایا۔

    ’’ہاں! تمھارے گھر والے!‘‘ سیٹھ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’جب تم نہیں جاؤگی تو ان کا ردعمل کیا ہوگا؟‘‘

    ’’ملتان ،یہاں سے کافی دور ہے اس لیے ردعمل یہاں پہنچنے تک کوئی اور شکل اختیار کر چکا ہوگا۔ ‘‘

    ’’آپ ایک کام کر دیں؟‘‘ بائی نے ایک اعتماد کے ساتھ کہا۔ اسے محسوس ہوا کہ یہ گھر اس کی ہی ملکیت ہے کیوں کہ سیٹھ نے اپنے معاملات کی وجہ سے زیادہ عرصہ باہر ہی رہنا ہے۔ بائی کی اس درخواست سے سیٹھ کے چہرے پر سوچ کی لکیریں واضح ہو گئیں۔ سیٹھ نے آنکھ سے اشارہ کرکے اسے بات جاری رکھنے کا کہا۔ بائی نے تھوک نگلا جسیے لمبی بات کرنے کی تیاری کی ہو، ’’میرے سازندوں کو انعام اور کچھ نقد دے کر رخصت کر دیں۔ میں انھیں سمجھا دوں گی۔ میرا وہاں کسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے صرف استاد جی ہیں جن سے میں سیکھتی ہوں۔ مجھے ان کے علاوہ کسی سے بچھڑنے کا غم نہیں ہوگا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرح سے خوشی ہوگی۔ ‘‘ وہ ایک دم خاموش ہو گئی۔ اسے خیال آیا کہ ایسا نا ہو کہ اسے یہاں سے کسی دن کہیں اور جانا پڑ جائے؟ کیا ایسا کر پائےگی؟ وہ ایک پرسکون زندگی گزارنا چاہتی تھی ایسی زندگی جس میں اس کی زندگی کا شور اور ہنگامہ نا ہو۔ اسے سیٹھ ایسا لگا نہیں کہ وہ کسی وقت اسے اپنے گھر سے چلتا کرے۔ وہ خود کو اتنا اہم کردے گی کہ سیٹھ کا اس کے بغیر گزارہ ہی نا ہو!

    سیٹھ خاموش نظروں سے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش میں تھا ۔ دونوں کھانا بند کرکے ایک دوسرے کے تاثرات جاننے اور اپنے چھپانے میں اتنا مصروف تھے کہ انھیں ناشتہ یاد ہی نہیں رہا تھا۔ بائی کی نظر سامنے تھالوں پر پڑی تو وہ ایک دم قہقہ لگا کر ہنس پڑی۔ سیٹھ کو وہ قہقہ اتنا اصلی لگا کہ اس کے چہرے پر ایک دم خوشی کا رنگ بکھر گیا، جس سے اس کا گندمی رنگ کھِل اٹھا اور اسے اپنی آنکھیں چمکتے ہوئے محسوس ہوئیں۔ بائی نے اس کے چہرے کی تبدیلی کو محسوس کیا اور اسے سیٹھ کی مکاری کے اندر کہیں گہرائی میں ایک معصومیت نظر آئی۔ بائی نے پراٹھے سے نوالہ بنا کے سیٹھ کے منہ کی طرف بڑھایا تو اس نے ہنستے ہوئے اپنا منہ آگے کرکے نوالہ منہ میں ڈالا اور اٹھ کر باہر چلا گیا۔ بائی کو حیرانی ہوئی کہ اسے اچانک کیا یاد آ گیا؟ اور اس طرح اٹھنا ناپسند بھی لگا کہ وہ ایک غیر مہذب قدم تھا؛ اسے بائی کو بتا کر اٹھنا چاہیے تھا۔ سیٹھ ہنستے ہوئے اٹھا تھا اور جب واپس آیا تو اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ اس کا چہرہ دیکھ کر بائی بھی سنجیدہ ہو گئی اور اس نے اپنے محسوسات چھپائے رکھنا مناسب سمجھا۔

    ’’تمھارے استادوں سے مل کر آیا ہوں۔ ‘‘ سیٹھ نے بیٹھنے سے پہلے اپنا چوغہ درست کرتے ہوئے کہا۔ بائی کو اپنی چھاتی میں یک دم ہلکی سی آہ اٹھتے ہوئے محسوس ہوئی۔ ان استادوں کے ساتھ اس کا بچپن سے ساتھ رہا تھا اور ان سے الگ ہونے کا سوچتے ہی وہ اداس ہو گئی؛ اس نے خود کو اچانک اکیلا اور غیر محفوظ محسوس کیا۔ ’’وہ کچھ پریشان ضرور ہوئے لیکن جب میں نے انھیں ان کے گھر والوں کے لیے کچھ دیا تو وہ مطمئن ہو گئے۔ ان کے لاہور تک جانے کا بندوبست کر دیا ہے۔ ‘‘

    بائی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ سیٹھ نے خاموش رہنا بہتر سمجھا۔ گھر کے بھاری سے ماحول میں دونوں کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ سیٹھ ،بائی کے آنسوؤں اور خاموشی کی وجہ جانتا تھا اس لیے اس نے بائی کے ذاتی قسم کے خیالات کا سلسلہ توڑنا مناسب نا سمجھا۔ بائی اچانک مسکرائی،سیٹھ نے بظاہر توجہ نا دی۔ ’’وہ شاید لاہور سے آگے نا جائیں۔ لاہور میرے پیشے کا ایک اہم مرکز ہے۔ استادوں اور ان جیسے دوسرے لوگوں کا کوئی مستقل گھر یا ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ جہاں جو عورت پسند آ جائے یا کسی شہر میں دل لگ جائے وہی ان کا گھر بن جاتا ہے۔ وہیں ان کے بچے ہو جاتے ہیں اور ممکن ہے پھر یہ کہیں اور چلے جائیں۔ ‘‘ اسے ایک دم احساس ہوا کہ وہ بھی تو ایسے ہی کر رہی ہے چناں چہ وہ خاموش ہو گئی۔

    ’’تم اب آرام کرو۔ میں اپنے کاروبار کی خبر لے آؤں ،میرے منشی انتظار میں بیٹھے ہوں گے۔ پہلے ایسا کبھی ہوا نہیں کہ میں اتنی دیر سے جاؤں۔ ‘‘ سیٹھ اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’میں شام کو آوں گا ۔ کھانے کا بندوبست کر لینا۔ ‘‘

    اسے کچھ عجیب سا لگا۔ وہ جس گھر سے آئی تھی وہاں اس کی کوئی ذمے داری نہیں تھی؛ اس نے تو ہر شام تیار ہوکے کسی گاہک کے سامنے اپنی آواز کو اپنی شکل سے بھی زیادہ پر کشش بنانا ہوتا تھا۔ یہاں اسے گھر چلانے کو کہا جا رہا تھا۔ کیا وہ استادوں کو روک لے؟وہ ایسی زندگی گزار رہی تھی جس میں اس نے کسی کی زندگی گزارنا تھی تو سیٹھ کی کیوں نا؟ یہاں اسے کسی کی مجبوری نہیں ہوگی؛ صرف سیٹھ ہوگا اور اگر وہ اکتا گئی تو اس کی پرانی زندگی تو ہے ہی!

    وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور خاموشی سے سیٹھ کے پیچھے دروازے تک چلتی رہی اور وہاں دونوں ایک بھونڈے سے انداز سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر بائی کے ہونٹوں پر ایک تھکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ سیٹھ بھی ہونٹوں پر ایک چپ رکھے اسے دیکھتا رہا۔ وہ پہلی بار ایک ایسی عورت سے جدا ہو رہا تھا جو اپنی مرضی سے اس کی ہوئی تھی۔ اس کے لیے اپنی چھاتی کے اندر ابلتے جذبات کو کناروں کے اندر رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس نے اپنی نظر نیچی رکھی ہوئی تھی کہ بائی پڑھ نا جائے۔ وہ جان گیا تھا کہ بائی ایک ذہین عورت ہے۔ اس کے ذہن میں کیا آئی کہ وہ اچانک جھکا اور بائی کے پاؤں چھو کر تیزی سے باہر نکل گیا۔ بائی ایسے عمل کے لیے تیار نہیں تھی، وہ ایک سکتے کی کیفیت میں چلی گئی۔ سیٹھ کے جانے کے کافی دیرتک دروازے کے پاس ہی کھڑی رہی۔ اسے ہمیشہ ایک جنس سمجھا جاتا تھا اور یہ پہلی مرتبہ تھا کہ کسی نے اسے عورت سمجھا۔ جذبات کی لہروں میں ڈوبے ہوئے لوگ اس کے پاؤں چومتے بھی تھے لیکن اس نے نا انھیں اور نا ہی ان کے پاؤں چومنے کو کبھی اہمیت دی تھی۔ اسے آج اپنے آپ ترس آیا اور ساتھ غرور بھی۔ اسے آج اپنے بےتوقیر ہوتے رہنے پر ترس آیا جسے اس نے کبھی اہمیت ہی نہیں دی تھی۔ اس کے ہاں ایسے ہی ہوتا تھا؛ اس کے لیے وہ ایک معمول تھا۔ سیٹھ کا اس کے پاؤں چھونا ایک معمول نہیں تھا۔ سیٹھ نا تو جذبات کی لہروں پر بہتا ہوا اس کے پاس آیا تھا اور ناہی اس نے سیٹھ کی زندگی میں کوئی تبدیلی لانا تھی۔ وہ تو تب تک وہاں تھی جب تک سیٹھ اس سے اکتا نا جائے ،اس کے بعد شاید وہ کسی مندر میں جا کر باقی کی زندگی بھگوان کے لیے گزار دے۔ جس اچانک پن سے سیٹھ اس کے پاؤں چھوکر باہر نکل گیا تھااسی طرح اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ وہ اسی جگہ کھڑی دیر تک خاموش آنسو بہاتی رہی۔ اس نے اپنے آنسو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اسے لگا کہ وہ ایک عرصے سے رونا چاہ رہی تھی لیکن شاید آنسو نکالنے سے خائف تھی۔ اب جب کہ اس کے آنسو بہنا شروع ہو گئے تھے، اسے محسوس ہوا کہ اس کی ہر محرومی، تضحیک اور خودغرضی ان آنسوؤں کے ساتھ، گالوں سے ہوتے ہوئے بہے جا رہی تھی۔ اس نے خود کو ہلکا ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ روتی جاتی تھی اور وہ اپنے آپ کو کسی نئی ہستی میں ڈھلتے ہوئے محسوس کر تی جاتی تھی۔ جب آنسو تھمے تو اس نے اپنے وجود میں ایک نئی ہستی کو موجود پایا۔ وہ ہستی وہ خود ہی تھی جسے ان آنسوؤں نے اس سے شناسائی کروا دی تھی۔ بائی دیر تک وہاں ،بغیر ہلے، کھڑی رہی۔ وہ ایک عجیب سی کشمکش میں تھی، وہ اپنے ماضی کو ترک کر چکی تھی اور اسے اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی امید نہیں تھی؛ وہ حال میں کسی پرانے درخت کے ساتھ الٹا لٹکے چمگادڑ کی طرح تھی جس کا رزق صرف رات کو تھا۔ کیا سیٹھ رات کو اکیلا آئے گا ؟وہ کیا چاہتی تھی؟ اس نے اپنی سوچ کو ٹٹولا؛ وہ چاہتی تھی کہ سیٹھ اکیلا ہی آئے۔

    اس نے سارے گھر کا چکر لگایا اور رات کے کھانے کے لیے ہدایات دیں۔ اسے افسوس ہوا کہ وہ اپنے استادوں سے آخری بار مل نا پائی۔ ان دونوں کی سنگت میں اس نے کئی محفلوں کو چار چاند لگا دیے تھے،شاید اب ان سے زندگی میں کبھی ملاقات نا ہو۔ وہ چاہتی بھی تھی کہ ملاقات نا ہو۔ کیا وہ شریفوں والی زندگی گزارےگی؟ اسے کچھ عجیب سا لگا، وہ تو سنتی آئی تھی کہ شریف عورتیں صبح جلدی جاگ کر گھر کے کام سنبھال لیتی ہیں اور گانے والیوں کا دن سہ پہر ڈھلنے کے بعد شروع ہوتا ہے جب کہ وہ ہر صبح بہت سویرے جگ کر اپنے معمولات میں مشغول ہو جاتی اور اس کی ہم پیشہ جوان عورتیں بے سدھ سو رہی ہوتیں۔ کیا وہ سب سے مختلف تھی؟ اس نے سوچا کہ وہ مختلف ہی تھی کہ وہاں کی رنگین زندگی ترک کرکے یہاں لکڑی کے بے ترتیب سے گھر میں آن چھپی۔ کیا وہ لوگ اسے یاد کریں گے؟ کبھی نہیں، اس کا ذکرممنوع قرار دیا جائےگا کیوں کہ یہ سب کے لیے ایک مثال نا بن جائے۔

    اس نے شام کی تیاری شروع کر دی۔ وہ سیٹھ کے لیے سجنا چاہتی تھی کہ وہ اسے دیکھتے ہی گم ہو جائے؛ وہ زیادہ بھی سجنا نہیں چاہتی تھی کہ بازار سے آئی ہوئی لگے اور اتنا کم بھی نہیں کہ گھر میں ایک خادمہ محسوس ہو۔ اس نے طے کیا کہ وہ سیٹھ کے لیے اتنا ہی سجے گی جتنا سیٹھ نے گھر کو سجایا تھا یعنی کہیں سے بھی زیادہ نہیں اور کہیں سے کم بھی نہیں۔ اس نے اپنے لباس کا بہت احتیاط کے ساتھ چناؤ کیا جو ہلکے آسمانی رنگ کی ساڑھی تھی۔ پھر اس نے کسی کو بھیج کر کلائیوں کے لیے پھولوں کے گجرے، کمر بند، پازیبوں کی جگہ ہار منگوائے اور گھر کے ہر کونے میں پھول سجادیے۔ پھر اس نے سیٹھ کے ذخیرے میں سے چند بوتلیں سرخ پرتگالی شراب کی نکال کر چاندی کے دو گلاس رکھے اور باورچی کو ہدایت کی کہ سورج غروب ہوتے ہی تلے ہوئے نمکین باداموں کی ایک تھالی لے آئے۔ وہ بار بار کم اعتمادی اور کبھی فخر سے گھر کا جائزہ لیتی ر ہی،اسے کہیں کمی نظر نا آئی۔

    بائی نے رات کی رانی کے ملے عرق والے پانی سے غسل کیا اور لباس تبدیل کرکے اس کونے میں بیٹھ گئی جہاں اس نے اپنے سروں سے پوری محفل کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ وہاں بیٹھے ہوئے اسے اپنا آپ اہم اور غیر اہم لگا۔ وہ ایک بکاؤ مال تھی اور اگر سیٹھ اکیلا آیا تو وہ ایک ایسا ہیرا تھا جس کی جوہری نے شناخت کر لی تھی اور اگر وہ شب بسری کے لیے کسی کو ساتھ لے آیا؟ یہ خیال آتے ہی وہ پریشان ہو گئی۔ پھر اس نے سوچا: وہ تو اس بازار سے آئی ہے جہاں صرف قیمت لگتی ہے،اس نے تو خود کو بے قیمت کر دیا ہے۔ کیا وہ اپنا مول لگوائے؟ کیا اب ایسا ممکن ہوگا؟ اس نے تو خود کو سیٹھ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اگر وہ اسے کسی ایسے آدمی کے ساتھ شب بسری کا کہے تو کیا وہ انکار کر سکےگی؟ اسے انکار کرنے میں ہی اپنی بہتری نظر آئی۔ وہ جانتی تھی کہ ہر عورت اگر طوائف ہوتی ہے توہر مرد دلال بھی ہوتا ہے۔ اگر سیٹھ نے اسے ایسا کچھ کرنے کو کہا تو وہ مرنے کو ترجیح دےگی اور وہ اگر طوائف ہو گی تو صرف سیٹھ کی۔ وہ یہ سوچتے ہوئے اٹھی اور ملازم خانے کی طرف چلی گئی جہاں اس نے باورچی کو بلا کر کباب بنانے کی ہدایات دیں اور واپس آکر سیٹھ کے انتظار میں بیٹھ گئی۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد، اپنے آپ کو تازہ رکھنے کے لیے کمرے کا چکر لگا لیتی۔ یہ ایک طویل انتظار تھا جو اسے کاٹنا پڑ رہا تھا اور وہ اس کے لیے تیار تھی۔ اس نے سیٹھ کو اپنی طرف مائل کرنا تھا۔ اسے سیٹھ کی گھریلو زندگی سے کوئی سروکار نہیں تھا، وہ دن جہاں بھی گزارے،اس کی مرضی، اس نے ہر رات یہاں، اس کے ساتھ گزارنا تھی۔ وہ کسی بھی رات کو اکیلا سونا نہیں چاہتی تھی اور سیٹھ جب اپنے کاروبار کے سلسلے میں دور دراز کے شہروں میں جائے تو؟ اس نے طے کرلیا کہ سیٹھ کو مجبور کرے گی کہ اسے ساتھ لے کر جائے۔

    جیسے ہی اندھیرا ہونا شروع ہوا اس نے تمام گھر کی بتیاں روشن کروا دیں۔ گھر اتنا ہی روشن تھا جتنا پچھلی رات کو۔ وہ جانتی تھی کہ گھر کی روشنی، ولندیزی شیشوں میں سے باہر نکلنے کا راستہ بنا کر، باہر کی گزرگاہ تک چلی جائےگی۔

    باہر کی خنکی اند آنا شروع ہو گئی ہوتی لیکن گھر میں روشن بتیوں نے اسے آرام دہ رکھا ہوا تھا۔ اسی وقت اسے باہر کوئی ہلچل سی محسوس ہوئی اور ساتھ ہی گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز بھی سنائی دی۔ وہ سمجھ گئی کہ سیٹھ پہنچ گیا ہے۔ اس نے گھوڑے کے سموں سے اندازہ لگایا کہ ایک ہی گھوڑا آیا ہے۔ باہری دروازہ کھولا گیا اور سیٹھ اندر داخل ہوا۔ وہ کلف لگا سفید رنگ کا چوغہ نما کرتا یا چوغا اور سفید رنگ کی دھوتی باندھے ہوا تھا۔ سیٹھ کے گندمی رنگ میں مردانگی کی سرخی چمک رہی تھی۔ اس کا جی احترام میں اٹھنے کو چاہا لیکن وہ وہیں سیٹھ کے ردعمل کے انتظار میں بیٹھی رہی۔ اسی وقت آب دار بادام لے کے آ گیا اور اس کے جاتے ہی بائی نے راگ بھیرویں میں رات والا الاپ شروع کیا۔ سیٹھ جیسے جادو کے اثر میں ہو، خالی چہرے کے ساتھ بائی کے سامنے دوزانو بیٹھ گیا۔ بائی نے اونچے سا میں سر لگایا اور سیٹھ نے اپنے گلاس میں شراب انڈیل کر ایک گہرا گھونٹ لیا جیسے اس کا گلا خشک ہو۔ بائی نیم وا آنکھوں سے یہ دیکھ رہی تھی۔ وہ رات والے بول گا رہی تھی لیکن اس کی آواز ایک طرح کی خوشی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وہ اپنے سُروں میں گم ہو گئی اور سیٹھ اس کی آواز کے جادو میں۔ بند دروازے میں سے اس کی مسرت میں ڈوبی ہوئی آواز باہر تک جا رہی تھی۔ اسی وقت کباب بھی بننا شروع ہو گئے۔ دہکتے کوئلوں پر گوشت کی خوشبو بھی ہر طرف پھیل رہی تھی۔ اونٹ اور گھوڑے اپنی منزل بھول کر آگے چلنے سے انکاری ہو گئے اور شوقین سروں کے زیروبم میں گم معدوں سے نکلتے لعاب کو نگلتے رہے۔ بائی جب مصری بھیرویں پر آئی تو اس کی آواز میں ایک شدت آ گئی تھی۔ سیٹھ نے اس کے گلاس میں بھی سرخ شراب انڈیلی اور گلاس آگے کی طرف سرکایا۔

    بائی جب گا چکی تو گھر میں ایک گہرا سکوت پھیل گیا۔ سیٹھ سکتے کی کیفیت میں گم اسے دیکھتا تھا اور وہ بے سدھ گردن جھکائے خود کو سنبھالنے کی کوشش میں تھی۔ پھر اس نے خالی نظر سے سیٹھ کو دیکھا اور اسے اپنے موجود ہونے کا احساس ہوا۔ اس نے گلاس اٹھا کر ایک غیر مہذب سا گھونٹ لیا اور سیٹھ کو دیکھتے ہوئے مسکرائی۔ اسی وقت آب دار کبابوں سے بھرا تھال اور چٹنی لے آیا۔

    ۳

    سیٹھ ہر صبح بائی کے پہلو سے اٹھ کر اپنے آبائی گھر جاتا جہاں وہ اپنی بیوی کے ساتھ ناشتہ کرتااور پھر منشیوں کے ساتھ مصروف ہو جاتا۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں کے کاروبار کا جائزہ لیا جاتا، مختلف شہروں سے آنے والے مراسلے سنتا، ان کے جواب لکھواتا، اگلے چوبیس گھنٹوں کے لیے ہدایات دیتا،ملنے کے لیے آنے والوں کے ساتھ وقت گزارتا اور دوپہر کا کھانا گھر کھاکے کچھ دیر سستاتا اور رات ہونے سے پہلے سفید چوغے اور دھوتی میں سول لائنز کو نکل جاتا۔

    سیٹھ جب خواب گاہ سے نکلتا توبائی اس وقت بڑے کمرے میں سیٹھ کے انتظار میں بیٹھی ہوتی۔ دونوں کی نظر ملتی تو اس وقت وہاں رات کی اپنایت کے بجائے ایک افسردہ سی بےگانگی ہوتی۔ وہ ایک دوسرے کو ایسے دیکھتے جیسے دیکھنے سے خائف ہوں لیکن دیکھنا ضروری بھی سمجھتے ہوں۔ بائی کے سامنے نیم گرم پانی کا گلاس ہوتا جو وہ ہر صبح خالی پیٹ پیتی تھی، وہ گلاس اٹھا لیتی اور سیٹھ کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑا کر، کسی حد تک مطمئن اور بےچین بھی، دروازے کی طرف چل پڑتا اور بائی اس کے پیچھے ہوتی۔ باہر جانے سے پہلے وہ پلٹ کر بائی کو دیکھتا اور جلدی سے نکل جاتا۔

    بائی نیم گرم پانی ختم کرکے نہانے کی تیاری شروع کر دیتی۔ اس کی زندگی میں صبح کا غسل اور دوپہر کا کھانا بہت اہم تھے۔ وہ نہانے سے پہلے کئی چھوٹے چھوٹے کام کرتی جن میں بالوں کو کنگھا کرنا، بازوؤں پر زیتون کے تیل کی مالش کرنا اور آنکھوں کے اندر تازہ پانی کے قطرے ڈال کر انھیں صاف کرنا شامل تھا۔ وہ یہ سب کسی جلدی کے بغیر کرتی۔ پھر وہ دن کو پہننے کے لیے لباس چنتی اور نہانا شروع کرتی۔ غسل خانے میں نیم گرم، ٹھنڈے اور تازہ پانی کے ٹب بھرے ہوتے اور اپنے جسم پر ان پانیوں کو ڈال کر کچھ دیر انتظار کرتی تاکہ خون کا بہاؤ معمول پر آ جائے۔ اسے کوئی جلدی نہیں ہوتی تھی، وہ نہاتے ہوئے شبد بھی پڑھتی جاتی، یہی وقت تھا جب وہ بھگوانوں کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتی اور ان سے اپنی بہتری کی پرارتھنا کرتی۔ جب وہ غسل ختم کرتی تو اسے ایک سکون کا احساس ہوتا؛ یوں لگتا کہ پچھلی زندگی کے تمام گناہ دھل گئے ہیں۔ غسل کے بعد وہ کچھ دیر بال کھولے بیٹھتی اور اس آسن میں بیٹھنا اس کے لیے باعثِ اطمینان ہوتا۔ وہ دیوان پر ٹانگیں پسارے عجیب سی مستی میں لیٹی رہتی۔ اسے خوشی ہوتی کہ اسے ہر شام اپنے تماش بینوں کے لیے ایک بناوٹی اپنایت اور چاہت کا سوانگ نہیں رچانا پڑتا تھا۔ اسے سیٹھ کا دن کو جانا پسند نہیں تھا لیکن وہ اسے روکنا بھی نہیں چاہتی تھی کیوں کہ سیٹھ کے کاروبار تھے جن کے متعلق اسے علم نہیں تھا اور خاندان بھی جس کی تفصیل وہ نہیں جانتی تھی۔ اس نے خود کو ا ن جھنجٹوں سے الگ رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ اس نے مرتے دم تک اس گھر میں رہنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا اور اسے سیٹھ کے تعاون اور مدد کی ضرورت تھی۔ کیا وہ سیٹھ کے ساتھ دھوکہ تو نہیں کر رہی؟ اس نے زہر خند سے سوچا: اتنا ہی دھوکہ جتنی سیٹھ اس کے ساتھ محبت کرتا ہے۔

    بائی دوپہر کو بھنا ہوا گوشت، سبزی اور پھل کھاتی۔ خوب پیٹ بھر کے کھانے کے بعد وہ تھوڑی دیر کمرے میں ٹہلتی اور پھر جگراتے، تھکاوٹ اور پیٹ میں اپنی پسندکا کھانا ہونے کی وجہ سے اسے نیند کا بوجھ دبانے لگتا۔ وہ کچھ دیر دیوان پر گٹھری سی بن کر لیٹ جاتی اور خود کو نیند کے حوالے کر دیتی۔ یہ ایک بے فکری کی نیند تھی جس کے بارے میں اسے پہلے کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ ملتان میں وہ اس ہرنی کی طرح تھی جو ہمیشہ کیڑ ٹلہ پر کھڑی ہوتی کہ مباداگہری نیند آجائے؛ اسے بھڑووں، دلالوں، ملازموں، رشتے داروں، واقف کاروں اور بزرگوں کا خوف رہتا کہ گہری نیند میں ہی وہ اسے استعمال نا کر جائیں۔ سیٹھ نے یہ گھر اس کے حوالے کر دیا تھا، اسے پہلی مرتبہ کسی قسم کی ذاتی ملکیت کا احساس ہوا اور اس کے ساتھ ہی ایک طرح کی برتری کا بھی۔ وہ دوپہر ڈھلتے ہی جاگ جاتی اور گھر کی سجاوٹ میں پناہ ڈھونڈتی۔ خود کو گھر کی مالک سمجھنے کے باوجود اسے اپنے مقام کا پتا تھا اس لیے وہ اپنے آپ کو جتنا کارآمد بنا سکتی، بنا رہی تھی۔ وہ گھر کو رات کے لیے سجاتی اور جیسے ہی شام ڈھلتی وہ تما م گھر کو روشن کر دیتی،تمام بتیاں جلا دی جاتیں اور کمرے میں سے تیل کی بو کے نکل جانے کے لیے کھڑکیاں کھول دی جاتیں اور جیسے ہی باہر مکمل اندھیرا ہو جاتا، کھڑکیاں بند کر دی جاتیں۔ تب بائی اپنی جگہ پر بیٹھ جاتی اور یہ وہ وقت ہوتا جب موسیقی کو سمجھنے اورسننے کے شوقین ایسی جگہوں پر کھڑے ہو جاتے جہاں بائی کی آواز پہنچ سکتی تھی۔

    سیٹھ گھر کے روشن ہونے کے جلد بعد گھر میں داخل ہوتا اور ہمیشہ کی طرح گھر کو ایک مختصر لیکن تفصیلی نظر سے دیکھ کر بائی کی طرف بڑھتے ہوئے مسکراتا۔ بائی اسے آتے ہوئے دیکھتی، اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثر سے خالی ہوتا۔ وہ بائی کے سامنے بیٹھ جاتا اور اسی وقت باہر کوئلوں پر گوشت بھونے جانے کی خوشبو پھیل جاتی اور بائی بھی بھیرویں کا الاپ شروع کر دیتی۔ اس کی آواز گھر کی لکڑی کی دیواروں میں سے پھسل کر باہر پہنچ جاتی اور وہاں منتظر سننے والے اپنے تمام جسم کو کانوں میں تبدیل کرکے بائی کے سروں میں گم، کبابوں کی خوشبو کو بھول جاتے۔ آبدار گلاس میں سرخ شراب لا کے سیٹھ کے سامنے رکھ دیتا اور بائی اپنی آواز میں گم اپنے ہی کھوج میں لگی رہتی، وہ اپنی روح کی تشنگی کو اپنے سروں کی شبنم سے بجھانے کی کوشش کرتی۔

    جیسے ہی بائی گانا ختم کرتی، آب دار سُرخ شراب کے دو گلاس لے آتا اور بائی ہمیشہ کی طرح غیر مہذب طریقے سے آدھا گلاس چڑھا کر، کچھ شرمندہ سی،سیٹھ کی طرف دیکھتی۔ سیٹھ سر جھکائے، بائی کی آواز کے سحر میں گم، کچھ دیر ساکت بیٹھا رہتا۔ اسی وقت آب دار تھال میں کباب، چٹنی، دہی اور نان لے کر آ جاتا۔ بائی داد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے سیٹھ کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کرتی؛ سیٹھ نظر جھکائے اپنے ہی خیالوں میں گم بیٹھا رہتا۔ بائی اسے اس طرح اپنے ہی خیالوں میں گم بیٹھے دیکھ کے پریشان ہوتی اور مطمئن بھی۔ وہ چاہتی تھی کہ سیٹھ کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے بھی جائے؛ اس کا ہر رات گھر میں گزارنا کچھ غیر قدرتی سا لگتا لیکن اسے سیٹھ پر اپنا یہ غلبہ پسند بھی تھا۔ وہ بہت کم بات کرتا تھا لیکن اس کا بدن جذبات اور سوچ کی چغلی کھاتا تھا۔ وہ اتنا تو جانتی تھی کہ ہر مرد رات کو بستر میں جھوٹ بولتا ہے لیکن اس کا بدن چغلی کھا جاتا ہے۔

    بائی ایک خواب میں زندہ تھی۔ اس نے سیٹھ سے کبھی اس کے خاندان، کاروبار یا دوستوں کے متعلق نہیں پوچھا تھا؛ وہ حال میں جیے جانا چاہتی تھی۔ وہ اپنا ماضی بھولی تو نہیں تھی لیکن اس کوشش میں ضرور تھی کہ بھول جائے۔ وہ سوچتی؛ کیا انسان اپنا ماضی بھول سکتا ہے؟ یہ سوچ اسے ایک خوف میں مبتلا کر دیتی۔ اسے لکڑی کا یہ گھر اور اپنی زندگی ایک خیالی داستان لگتی۔ وہ سوچتی کہ ایسا تو نہیں کہ کسی دن وہ جاگے اور اپنے آپ کو ہیرا منڈی میں پائے۔ وہ گھبراہٹ میں ٹہلنا شروع کر دیتی۔ وہ اپنے آپ کو اچانک اکیلا اور کمزور محسوس کرنا شروع کر دیتی۔ اسے سیٹھ کے پاس رہنے کے اپنے فیصلے پر حیرت بھی ہوتی۔ وہ سوچتی کہ چڑیاں چڑیوں کے ساتھ ہی پرواز کر سکتی ہیں؛ اس نے دوسری قسم کے پرندوں کے ساتھ پرواز کیوں لی؟ وقت گزرنے کے ساتھ جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ اور مضبوط محسوس کرنے لگی تھی وہیں اس کے اندر کی کسی گہرائی میں ایک وسوسہ گھر کیے ہوئے تھا کہ اس جتنا غیرمحفوظ اور کمزور کوئی ہے ہی نہیں۔ وہ سوچتی: کیا وہ سیٹھ کو کہے کہ اسے لاہور یا واپس ملتان بھیج دے؟ پھر اسے خیال آتا کہ وہ کیا سوچےگا ؟ یہی کہ ایک گانے والی ہمیشہ گانے والی ہی رہتی ہے خواہ اسے سات پردوں میں بند کر دیا جائے۔

    وہ اب اکیلے رہنے سے گھبرانے لگی تھی اور سیٹھ کو بھی نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ چند دنوں کے لیے اسے کہیں لے جائے یا گھر جلدی آ جایا کرے! اسے معلوم تھا کہ سیٹھ اپنے کاروبار کے سلسلے میں مختلف شہروں کے چکر لگاتا ہے لیکن وہ جب سے آئی تھی وہ کہیں گیا ہی نہیں تھا۔ ایسا تو نہیں کہ وہ اس کے لیے نقصان کا باعث بن رہی ہو۔ پھر اس کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ پھیل جاتی۔ وہ جانتی تھی کہ بیوپاری اور نائکہ کبھی دھوکہ نہیں کھاتے۔ پھر اسے خیال آتا کہ اس نے تو اپنی نائکہ کو دھوکہ دیا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی سیٹھ کو بھی دھوکہ دے رہا ہو؟

    سیٹھ کے آنے میں ابھی دیر تھی اور وہ اپنے ایسے ہی خیالات میں کھوئی ہوئی کمرے میں ٹہل رہی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ اس نے جلدی سے دروازے کی طرف دیکھا۔ وہاں سیٹھ کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ سیٹھ کوبے وقت وہاں کھڑے دیکھ کر پہلے پریشان اور پھر خوف زدہ ہو گئی۔ اسے اپنے خوف اور پریشانی پر قابو پانے میں ایک لمحہ ہی لگا اور پھر وہ اپنایت سے مسکرائی۔ اسے اپنی مسکراہٹ میں ایک جھجک کا احساس ہوا اور سیٹھ کی طرف بڑھی۔ سیٹھ کی آنکھیں دھندلی سی اور ماتھے پر دو گہری لکیریں تھیں۔ وہ سیٹھ کے ماتھے پر پریشانی یا کھچاؤ سے پیدا ہونے والی لکیروں کو نا دیکھنے کی عادی تھی۔ اسے وہ ہمیشہ مطمئن اور آرام سے محسوس ہوا۔ وہ اس کی طرف بڑھی اور اتنی دیر میں اپنے محسوسات پر قابو پا چکی تھی۔ سیٹھ نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اوروہ ایک گاؤ تکیے کے سہارے قالین پر بیٹھ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ سیٹھ سامنے دیوان پر بیٹھ گیا۔

    دونوں کے درمیان میں خاموشی نے ماحول میں ایک کھچاؤ پیدا کر دیا؛ بائی سوچنے لگی کہ اسے خاموش ہی رہنا چاہیے۔ اس وقت سیٹھ اسے کچھ بتانے یا کوئی فرمائش یا حکم کرنے آیا تھا۔ ایک کسبی کے طور پر اسے سیٹھ کے بولنے کا انتظار کرنا چاہیے۔ سیٹھ نے ایک لمبی سانس لی اور گھر میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ بائی کو لگا کہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ رہا۔

    ’’یہ میرے آنے کا وقت نہیں۔ ‘‘ بائی نے سیٹھ کی آواز میں کچھاؤ محسوس کیا۔ اب وہ کچھ بھی سننے کے لیے تیار تھی؛ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’مجھے تمھیں آگاہ کرنا ضروری تھا۔ ‘‘ سیٹھ اسے دیکھے جا رہا تھا۔ ’’دعوت میں آنے والے مہمان یاد ہیں؟‘‘ بائی کے ذہن میں اس رات آنے والے تمام مہمانوں کے چہرے گھوم گئے۔ وہ کچھ دیر انھیں یاد کرتی رہی اور پھر اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’ایک انگریز بن بلائے چلا آیا تھا۔ ‘‘ بائی کو اس کا نام بھی یاد تھا اور اس کا سروں کے ساتھ اپنی آواز کوملانا بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس نے پھر اثبات میں سر ہلایا۔ ’’تم نے اس کے متعلق کوئی رائے قائم کی تھی؟‘‘ بائی کو یہ مشکل سوال لگا۔ وہ احتیاط کے دامن کو تھامے رکھنا چاہتی تھی؛ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’شاید ضروری نہیں تھا۔ ‘‘سیٹھ نے جیسے خود سے بات کی ہو۔ بائی نے بھی کسی قسم کا ردِعمل ظاہر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ خالی چہرے سے سیٹھ کو دیکھے جا رہی تھی۔ ’’وہ آج رات کو یہاں آنا چاہتا ہے۔ ‘‘اس مرتبہ سیٹھ کی آواز میں الزام تھا۔ بائی کو سیٹھ کا اس طرح خوف زدہ ہونا پسند نہیں آیا۔ انگریز اگر گھر آنا چاہتا تھا تو سیٹھ کو پریشان نہیں ہو نا چاہیے۔ بستے گھر میں ملاقاتی آتے ہیں، لیکن بائی نے خاموش رہنا ہی عقل مندی تصور کیا۔ وہ سیٹھ کو دیکھتی رہی۔ ’’مجھے وہ آدمی اچھا نہیں لگا تھا۔ ‘‘سیٹھ کی آواز میں اب خوف تھا۔ وہ اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ بائی اسے چکر کاٹتے دیکھتی رہی۔ وہ اسے اپنے خوف کو ظاہر کر دینا چاہتی تھی۔ ’’مجھے محسوس ہوا کہ وہ میرے کاروبار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘سیٹھ ٹہلتے ہوئے رک گیا۔ وہ اس کے سامنے پیٹھ کیے کھڑا تھا، بائی اس کے چہرے کو دیکھ نہیں پا رہی تھی۔ ’’یہ میرا وہم بھی ہو سکتا ہے،‘‘ سیٹھ اس کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا۔ اب اس کے ماتھے سے لکیریں جاتی رہی تھیں اور اس کی آنکھوں میں سے دھند چھٹ چکی تھی۔ ’’لیکن مجھے ایسے ہی محسوس ہوا۔ ‘‘ سیٹھ نے لمبی سانس لی اور دیوان پر بیٹھ گیا۔ بائی کو اب وہ کسی حد تک پرسکون لگا۔ اس نے سوچا کہ شاید وہ کوئی فیصلہ کر چکا تھا۔ سیٹھ کو اطمینان سے بیٹھے دیکھ کر اسے کچھ حوصلہ ہوا؛ وہ گھر کا مالک اور سربراہ تھا اور اس کے مزاج کے مطابق ہی گھر کا ماحول بننا تھا۔ ’’میں اسے اکیلا نہیں ملوں گا۔ ہمارے بیچ جو بھی بات چیت ہو تم سننا اور گواہ رہنا۔ ‘‘ سیٹھ کی آواز میں خوف تو نہیں تھا لیکن بائی کو وہ پھر خوف زدہ محسوس ہوا۔ ’’اس کے لیے کھانے کا بھی بندوبست کرنا ہوگا اور۔ ۔ ۔ ‘‘ سیٹھ نے اپنی بات مکمل نہیں کی۔

    ’’کھانا جو ہم روز کھاتے ہیں اس میں کوئی خرابی نہیں۔ کچھ فالتو بنوانے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ بائی نے پہلی مرتبہ بات کی۔ اسے اپنی آواز کے اعتماد پر حیرت ہوئی۔ اسے سیٹھ کا خوف اپنے اندر سرایت کرتا محسوس تو ہوا تھا لیکن اسے اپنا اعتماد اچھا لگا۔ ’’باقی آپ کا آب دار سمجھ دار آدمی ہے۔ میں اسے بتا دوں گی۔ ‘‘ بائی نے سیٹھ کی پریشانی کم کرنے کے لیے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔ ’’اس کے آنے میں ابھی وقت ہے،آپ کچھ آرام کر لیں۔ ‘‘ بائی خود بھی کچھ وقت اکیلے رہنا چاہتی تھی۔

    سیٹھ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔ بائی کو محسوس ہواکہ ڈیوڈ کے خوف نے سیٹھ کے اندر کے بزدل کو اس کے سامنے بے نقاب کردیا تھا۔ وہ سیٹھ کو الزام بھی نہیں دینا چاہتی تھی۔ انگریز ملک کے حاکم تھے اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ کسی بھی آقا کی بات ٹال سکے۔ وہ سیٹھ کے ساتھ اس کی عورت کی طرح رہ رہی تھی اور اس نے سیٹھ کی وفادار رہنا تھا اور اگر کسی وجہ سے ڈگمگائے تو اسے ڈولنے نہیں دینا تھا۔

    ’’میں ابھی جاتا ہوں اور لباس تبدیل کرکے شام ہونے سے تھوڑا پہلے آجاؤں گا۔ ‘‘ سیٹھ نے اٹھتے ہوئے کہا۔ بائی کو قدرے حیرت بھی ہوئی۔ وہ کچھ وقت اکیلے ضرور رہنا چاہتی تھی لیکن تنہا نہیں۔ اس کا خیال تھا کہ سیٹھ کچھ دیر کمرے میں سستا لےگا جب کہ وہ دیوان پر لیٹی اپنے خیالات میں گم، اپنے حالات کے بارے میں سوچتی رہےگی۔ اس نے سیٹھ پر کبھی اپنا حق جتایا تو نہیں تھا لیکن اس مشکل وقت میں وہ اس کے پاس ہی آیا تھا۔ اس نے ڈیوڈ کو اپنی حویلی میں کیوں آنے کا نہیں کہا؟

    بائی خاموش رہی!

    سیٹھ نے ایک لمبی سانس لی اور اٹھ کر باہر نکل گیا۔ بائی دروازے تک اس کے پیچھے نہیں گئی۔ وہ جانا چاہتی تھی لیکن کوئی شے اسے روکے رہی۔ اس وقت وہ بالکل اکیلی تھی۔ استاد ساز اپنے ساتھ لے گئے تھے، اس کا دل سر منڈل کے تاروں کو چھیڑنے کو کر رہا تھا۔ وہ اٹھی اور دیوان پر لیٹ گئی۔ اس نے سوچا کہ وہ سیٹھ کے گھر میں رہتے ہوئے مطمئن تو تھی لیکن خوش نہیں۔ کیا خوشی کا تعلق ہنگاموں سے تھا؟ ملتان میں ہر وقت ایک طرح سے گہما گہمی رہتی تھی اور وہ بھی اس ہنگامے کا حصہ ہوتی تھی ،یہاں وہ سارا دِن کسی روح کی طرح گھر میں پھرتی رہتی تھی اور شام ہونے کے بعد سیٹھ اس کے پاس آتا تھا۔ وہ دونوں بہت کم بات کرتے تھے؛ دونوں کے پاس کوئی باہمی پسند کا موضوع ہی نہیں تھا۔ ان کی تمام گفتگو رات کو بستر میں ہوتی تھی جہاں الجھنوں کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا تھا۔

    بائی کو پتا ہی نا چلا اور وہ انہی سوچوں میں گم سو گئی۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا تھا، وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس نے باہر جھانکا تو ابھی اندھیرا نہیں ہوا تھا اور تھوڑی دیر کے بعد ملازم نے آکر روشنی کر دینا تھی۔ بائی نے آئینے میں چہرہ دیکھا، اسے اکتاہٹ یا تھکاوٹ کے آثار نظر نہیں آئے، اسے کچھ حوصلہ ہوا۔ وہ سمجھی تھی کہ اس کا چہرہ کھچا ہوا ہوگا لیکن اسے وہاں ایک تازگی کا احساس ہوا۔ اسے اچانک سیٹھ کی پریشانی کی وجہ سمجھ آ گئی۔ اگر ڈیوڈ نے اس کے ساتھ رات گزارنے کی خواہش کا اظہار کیا تو؟اس کے لیے اب ایسا کرنا شاید ممکن نا ہو۔ وہ خود کو سیٹھ کے لیے وقف کر چکی تھی۔ وہ یہ جاننا چاہتی تھی کہ ایک مردکو اپنا قبول کرنے کے بعد کیا کسی آزادی کا احساس ہوتا ہے؟وہ ڈیوڈ کے ساتھ کبھی رات نہیں گزارےگی۔ اسے یک دم خیال آیا کہ اگر سیٹھ نے ایسا چاہا تو۔ ۔ ۔ ؟ اس کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے مزید سوچنا بند کر دیا۔ اسی وقت ملازم داخل ہوا اور اس نے بتیاں روشن کرنا شروع کر دیں۔

    یہی وہ وقت تھا جب گانا سننے والے اپنے معمول کی جگہیں سنبھال لیتے تھے اور وہ خود سیٹھ کے انتظار میں بیٹھ جاتی تھی۔ وہ بغیر بال بنائے، بناچہرہ سجائے اورنا ہی آنکھوں کو کاجل سے سنوارے اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔ ملازم بتیاں روشن کرکے نکل ہی رہا تھا کہ سیٹھ داخل ہوا۔ وہ بےیقینی سے چلتے ہوئے بائی کے پاس پہنچا ہی تھا کہ بائی نے سر اٹھایا۔ اسی وقت گوشت کے کوئلوں پر بھونے جانے کی خوشبو ہر طرف پھیل گئی؛ ایسے لگا کہ گوشت بھوننے والا بائی کے پہلے سر کے انتظار میں تھا۔ کمرے میں ہر سو اور دیواروں کے پوروں میں سے ہوتے ہوئے بائی کی آواز اردگرد کھڑے شوقینوں تک پہنچنا شروع ہو گئی۔ اس کی آواز اداس تھی، سب سمجھے کہ گانے والی کی کوئی اہم شے کھو گئی ہے! بائی بھی اپنے سروں میں چھپی اداسی کو محسوس کر رہی تھی۔ اس کا کچھ گما تو نہیں تھا لیکن اگر کچھ لینے کی کوشش کی گئی تو وہ دےگی نہیں۔

    باہر قدموں اور باتوں کی آوازوں نے بائی کے ارتکاز میں خلل ڈالا لیکن اس نے ان آوازوں کو ذہن میں داخل ہونے سے روک کر اپنی توجہ سروں پر ہی رکھی۔ اس نے اپنی آنکیں بند کر لیں، اس طرح اس نے خود کو محفوظ محسوس کیا۔ وہ محفوظ تھی اور غیرمحفوظ بھی۔ وہ اب بازار کے بجائے ایک عزت دار آدمی کے گھر میں تھی اور غیرمحفوظ اس لیے کہ گھر کا مالک اپنے مہمان سے خائف تھا۔ وہ آنکھیں بند کرکے اپنے خوف کو دور رکھے ہوئے تھی لیکن اس کے کان بند نہیں تھے۔ وہ ڈیوڈ کے قدموں کو نزدیک آتے محسوس کر رہی تھی۔ اسی وقت اس کے ارتکاز کی شدت میں خوف در آیا اور اپنے سُرکو سلامت نا رکھ سکی۔ باہر کھڑے ہوئے ایک شوقین نے اپنے ساتھی کی طرف مایوسی سے دیکھا اور جس نے اثبات میں سر ہلاکر تائید کی۔ بائی بھی اپنے غلط سُر کو شناخت کر چکی تھی اور فوراً وہ واپس سر میں آ گئی۔ باہر دوسرے آدمی نے پہلے کو دیکھا اور دونوں اطمینان میں سر ہلاتے ہوئے ایک دوسرے کو معنی خیز نظر سے دیکھتے ہوئے مسکرائے۔

    سیٹھ ڈیوڈ کو نزدیک آتے ہوئے دیکھ اور محسوس کر سکتا تھا لیکن وہ سر جھکائے بیٹھا رہا جیسے ڈیوڈ کی موجودگی سے بےخبر ہو۔ ڈیوڈ،جب سیٹھ کے پاس بیٹھ رہا تھا تو اس نے نظر اٹھا کر ڈیوڈ کو دیکھ کے ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے اس کا استقبال کیا۔ ڈیوڈ کے چہرے پر ناخوشگواری اور اکتاہٹ تھی۔ بائی نیم وا آنکھوں سے سیٹھ کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہی تھی۔ اس کی نظر جھکی ہوئی تھی اور چہرہ کسی قسم کے تاثر سے خالی تھا۔ اس نے سوچاکہ سیٹھ اپنا چہرہ اسی طرح بے تاثر رکھ کے سودے کرتا ہے۔ اگر اس نے آنکھ اٹھا کر دیکھا ہوتا تو شاید وہ وہاں کوئی تاثر دیکھ پاتی۔ وہ سیٹھ کے ساتھ رہتے ہوئے ایک عجیب قسم کی کیفیت میں تھی جس میں اپنایت اور شدید ذہنی دباؤ تھا۔ وہ سیٹھ کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی لیکن اسے یہ خوف ہر وقت رہتا کہ سیٹھ نا چھوڑ دے۔ اس نے نیم وا آنکھوں سے ڈیوڈ کو دیکھا اور اس کے چہرے کی شدت سے پھر سر سے باہر ہو گئی اور اسی وقت وہ صحیح سر پر آ گئی۔ باہر کھڑے دونوں آدمیوں نے پہلے نفی اور پھر اثبات میں سر ہلائے ۔

    ’’اسے بس اتنا ہی گانا آتا ہے ؟‘‘ ڈیوڈ نے اپنی پاٹ دار آواز میں کسی کو دیکھے بغیر دونوں سے سوال کیا۔ ’’یہ تو اس دِن گایا جا چکا ہے۔ کچھ اور سناؤ؟‘‘ بائی نے اپنا گانا جاری رکھا لیکن اس کی آواز میں خوف کی کپکپی تھی۔

    ’’مہاراج! یہ بس یہی گاتی ہے اور یہی گائےگی ۔ ‘‘سیٹھ نے بہت دھیمے لیکن سخت لہجے میں جواب دیا۔ بائی کی آواز سے کپکپی جاتی رہی۔ اسے ایسے محسوس ہواکہ سیٹھ نے انگریز کے منہ پر تھپڑ مار دیا ہے۔ ڈیوڈ کا چہرہ ایک دم سرخ ہو گیا اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اسی وقت باہر کا دروازہ کھلا اور آب دار بڑے سارے تھال میں شراب،گلاس اور کباب لے کر داخل ہوا لیکن اس کے قدم وہیں جم گئے۔ ڈیوڈ کے دونوں ہاتھوں میں لمبی نالی والے پستول تھے۔

    ’’یہ کوئی اور گانا گائے گی ورنہ دونوں قتل ہو جاؤگے ۔ ‘‘ڈیوڈ کی آواز میں اب غصے کے بجائے ایک ٹھہراؤ تھا۔ وہاں ایک دم خاموشی چھا گئی۔ بائی گانا وہیں ختم کرکے ڈیوڈ کی طرف دیکھنے لگی۔ اسے حیرانی ہوئی کہ وہ ذرا بھی خائف نہیں تھی جیسے ڈیود کے پستول اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ سیٹھ نے ڈیوڈ کی طرف دیکھا۔ بائی کو سیٹھ کا چہرہ اور آنکھیں بے تاثر لگیں۔ اسے لگا کہ شاید وہ کوئی سودا کر رہا ہے۔

    ’’مہاراج! میں نے آپ کے حضور عرض کی تھی کہ یہ یہی گاتی ہے اور یہی گائےگی۔ ‘‘ سیٹھ نے اسی دھیمے لیکن سخت لہجے میں کہا۔ بائی کو اس کی آواز میں ایک طوفان محسوس ہوا۔ دونوں آدمی خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر ڈیوڈ نے پلک جھپکی، اس کے ہاتھ حرکت میں آئے اور دائیں ہاتھ والے پستوؒ ل سے شعلہ نکلا اور پھر دھماکہ ہوا، ساتھ ہی سیٹھ بیٹھے بیٹھے ڈھے گیا، بائی نے ایک فلک شگاف چیخ لگائی۔ اسی وقت ڈیوڈ کا دوسرا ہاتھ حرکت میں آیا اور بائی جو اٹھنے کے عمل میں تھی ،ایک جھٹکے کے ساتھ فرش پر پھسل گئی۔ آب دار یہ نظارہ دیکھ کر پہلے تو سکتے میں آیا اور پھر سب کچھ پھینک کر بھاگ گیا!

    ڈیوڈ کے والدین کے باہمی اختلافات نے اسے ان دونوں سے دور کر دیا تو اس نے اپنی زندگی خود بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ تب اسے پتا چلا کہ خوش حالی کے متلاشی لوگوں کے لیے ہندوستان سونے کی ایک چڑیا ہے اور اس نے وہاں جانے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے کسی طرح سے کرائے کا بندوبست کیا اور جب وہ کلکتہ میں سمندری جہاز سے نیچے اترا تو اس کے پاس اگلے کھانے کے پیسے نہیں تھے۔ وہ گھبرایا نہیں اور نا ہی اپنے ارادے کو ڈگمگانے دیا۔ وہ اس شہر میں اکیلا اور بےیارومددگار تھا۔ اس نے طے کیا کہ کامیابی کے لیے اسے ہندوستانی بننا پڑنا ہے، وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا جن کی پشت پر کسی کی مہر ثبت ہوتی ہے۔ اس نے مقامی زبانیں سیکھنے اور معاشرتی روایات کو جاننے، سمجھنے اور اپنانے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ انگریز ہوتے ہوئے بھی بطور ہندوستانی، ہندوستانیوں کو بیوقوف بنا کر اپنی جیبیں بھرے۔ اس نے مندروں، آشرموں، مسجدوں اور مدرسوں میں جانا، بیٹھنا اور سیکھنا شروع کر دیا۔ وہ چند مخصوص الفاظ کے علاوہ اردو، ہندی اور سنسکرت مقامی لوگوں کی طرح ہی بولتا تھا۔ وہ لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ ان الفاظ کے استعمال سے کتراتا جن کو وہ مغربی تلفظ میں بولتا تھا۔ اس نے جنگلوں سے لکڑی میدانوں میں پہچانے کے کاروبار میں مہارت حاصل کرکے ہمالیہ سے دریائے سندھ کے راستے لکڑی کو میدانوں میں لانا شروع کیا۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار تھا لیکن ڈیوڈ اس میں اپنی اجارہ داری چاہتا تھا اور اس ارادے کی تکمیل میں سیٹھ دھنی رام ایک رکاوٹ تھی۔ سیٹھ کی دریائے جہلم کے جنگلوں پر اجارہ داری تھی جو ڈیوڈ ختم کرنا چاہتا تھا۔ سیٹھ کا خاندان پچھلی تین نسلوں سے یہ کاروبار سنبھالے ہوئے تھا اور اسے شکست دینا آسان نہیں تھا۔ وہ مالی تعلقات اور کاروباری ساکھ کے لحاظ سے تقریباً ناقابل تسخیر تھا۔

    ڈیوڈ نے حکومت کی اجازت کے بغیر لیکن اہم افسران کے علم میں لاتے ہوئے اپنے لیے محافظوں کا ایک دستہ بنایا ہوا تھا جو اتنا منظم تھا کہ کچھ عرصہ سرکار برطانیہ کے کسی بھی دستے کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ وہ جہاں بھی جاتا ،یہ دستہ اس کے ساتھ ہوتا۔ وہ ایک لٹیرا تو نہیں تھا، اس کا ذریعہ آمدنی کاروبار تھا لیکن جہاں اسے طاقت استعمال کرنا ہوتی وہ کتراتا نہیں تھا۔ سیٹھ دھنی رام کا قتل بھی اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا۔ وہ سیٹھ اور بائی کو قتل کرکے جب باہر نکلا تو دستہ اس کا منتظر تھا۔ وہ پستولوں کی آواز کے ساتھ ہی اپنے گھوڑوں پر سوار ہو گئے تھے۔ اس نے انھیں سکھایا ہوا تھا کہ وہ مختصر ترین وقت میں ہر طرح کی کارروائی کرنے کے لیے تیار رہیں۔ بعض اوقات وہ انھیں کم سے کم وقت میں تیار ہونے کی مشقیں بھی کراتا اورکسی قسم کی کوتاہی برداشت نا کرتا۔

    باہر نکلتے ہی وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور تین آدمیوں کو اس نے لاشوں کو وارثوں تک پہنچانے کی ذمے داری دی، ان ہدایات کے ساتھ کہ وہ فارغ ہوتے ہی راول پنڈی پہنچیں اور خود باقی دستے کے ساتھ جہلم کے لیے نکل پڑا۔ تمام رات، بغیر آرام کیے سفر کرنے کے بعد، وہ صبح جہلم پہنچ گئے۔ اس نے سیٹھ کے گوداموں، دفتروں اور گھاٹوں پر قبضہ کرکے اپنے آدمی وہاں تعینات کر دیے۔ اگلا قدم سیٹھ کے جنگلوں پر قبضہ کرنا تھا۔ اس نے کچھ گھنٹے آرام اور گھوڑوں کو پیٹ بھر کے کھانے کا وقفہ دیا۔ گجرانوالا میں چھوڑے ہوئے آدمی ابھی تک اس کے دستے میں شامل نہیں ہوئے تھے لیکن وہ جانتا تھا کہ انھوں نے کسی بھی وقت پہنچ جانا ہے۔

    راول پنڈی میں اس نے تینوں آدمیوں کا انتظا ر کیا۔ وہ انھیں پیچھے نہیں چھوڑ سکتا تھا کیوں کہ وہ اپنا دستہ ہمیشہ مکمل رکھ کر ہی کوئی قدم اٹھا تا تھا۔ دو دن کے بعد وہ بھی ڈیوڈ سے آن ملے۔ انھوں نے سب ٹھیک کی اطلاع دی اور اسے ایسی ہی خبر کی توقع بھی تھی۔ اب اس کے سامنے وادیٔ نیلم پر قبضے کا مشکل مرحلہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ایسا کرنے کا اس کے پاس کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں تھا لیکن ایسا کرنا اس کی مجبوری تھی۔ وہ سات سمندر پار کرکے اخلاق اور قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے اس عجیب و غریب سر زمین میں نہیں آیا تھا۔ اسے حیرت ہوتی کہ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے بجائے ہمیشہ طاقت کی اطاعت کرتے آئے ہیں۔ وہ خود کو طاقت کی علامت سمجھتا تھا اس لیے اس نے طاقت کے بل پر سب کچھ حاصل کیا تھا۔ یہاں کے لوگ آگے جانے کے بجائے پیچھے جانے کو ترجیح دیتے تھے جب کہ وہ صرف آگے جانا چاہتا تھا۔

    راول پنڈی میں اس نے تازہ دم گھوڑوں کا بندوبست کیا۔ اسے ایسے گھوڑوں کی ضرورت تھی جو پہاڑ سر کر سکیں۔ اس نے رائل ویٹرنری اور فارم کور کے فوجی ڈاکٹروں سے مشاورت کے بعد اپنے دستے کے گھوڑوں کا انتخاب کیا۔ یہ گھوڑے دیکھنے میں کمزور اور بےکار سے نظر آتے تھے لیکن دراصل وہ مضبوط، طاقتور اور پہاڑوں پر چڑھنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ وہ دو دن کے سفر کے بعد جب وادی میں پہنچا تو سیٹھ کے قتل اور اس کے بارے میں افواہ نما خبریں پہلے ہی پہنچ چکی تھیں۔ لوگوں کو نئے مالک کا انتظار تھا۔ سیٹھ کے خاندان کا ان لوگوں کے ساتھ طریقہ ہمدردانہ اور فراخ دلانہ رہا تھا لیکن وہ ڈیوڈ سے خوف زدہ تھے۔ انھوں نے ڈیوڈ کی اطاعت کرنے کا طے کیا ہوا تھا گو ان کی سوچوں کی کسی گہرائی میں سیٹھ کے لیے ہمدردی تھی۔ ڈیوڈ ان کی آنکھوں میں نفرت اور چہرے پر اطاعت دیکھ سکتا تھا۔ وہ کچھ پریشان بھی ہوا اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ اپنے پاس ہر وقت بھرا ہوا پستول رکھےگا۔ وہ جانتا تھا کہ وادی کے رہائشی غریب ہیں اس لیے وہ اس کے اطاعت گزار رہیں گے۔

    ڈیوڈ وادی میں ایک ہفتہ رہا۔ وہاں اس نے خود کو اتناپُر سکون اور آرام سے محسوس کیا کہ اسے میدانوں میں آنے کے لیے خودکو مجبور کرنا پڑا۔ اسے جانا ضرور تھا لیکن وہ نا جانے کے بہانے ڈھونڈنے کے باوجود وہاں سے چل پڑا۔ اس نے سیٹھ کے گھر پر بھی قبضہ کرنا تھا اور وہاں اپنے گھوڑوں کے لیے اصطبل بھی بنوانے تھے۔ سیٹھ کے کاروبار پر قبضہ کرنے کے بعد اس کی مالی پریشانیاں ختم ہو گئی تھیں اور اس نے اپنے خاندان کے آغازکرنے کا سوچنا شروع کر دیا۔ اس نے انگلستان سے کسی میم لڑکی کو بیاہ کے لانے کا فیصلہ کیا۔ سیٹھ کے کاروبار کو اس کے منشی چلاتے تھے، سیٹھ انھیں ہدایات دیتا اور ان کے تحریر کیے ہوئے مراسلوں پر اپنے دستخط ثبت کرتا۔ سیٹھ صرف فیصلہ کرتا اور ہدایات دے کر اپنے دفتر سے نکل کر ملاقاتیوں میں جا بیٹھتا۔

    ڈیوڈ، منشیوں کے ذریعے کاروبار چلانا نہیں چاہتا تھا۔ اسے ان ہندوستانیوں پر اعتماد نہیں تھا۔ وہ کسی انگریز یا یورپین کو اپنا نائب رکھےگا اور ہر چیز اس کے اپنے حکم کی طابع ہوگی، منشیوں کے نہیں۔ ڈیوڈ نے جہلم میں کچھ دن قیام کیا۔ ایک پورا دن اس نے گھاٹوں پر گزارا اور اسے وہاں کے طریقہ کار سے مایوسی ہوئی۔ لکڑی کی اطلاع اور اسے کھینچ کر گھاٹ تک لانے کا طریقہ ناقص تھا۔ اس نے لوگوں کی خود تربیت کروائی۔ وہ سارا دن پانی میں رہا اور اپنے ملازموں پر اپنی طاقت اور ہمت کی دھاک بٹھاتا رہا۔

    اس نے گجران والا میں سیٹھ کے گھر میں رہائش اختیار کر کے اسے اپنامرکزی دفتر بنانا تھا۔ اچانک اس شام کے واقعات اس کے ذہن میں گھوم گئے۔ اتنے دِن وہ سیٹھ کے کاروبار پر قبضہ جمانے میں اتنا مصروف رہا کہ اس نے کچھ اور سوچا ہی نہیں تھا۔ اگر وہ گانے والی کو نا مارتا تو اسے کچھ عرصہ اپنے پاس ہی رکھتا۔ وہ جب سیٹھ کو بچانے کے لیے جھپٹی تو اس کے پاس کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا۔ وہ اپنے کاروبار کو مظبوط کرکے انگلستان سے کوئی وفادار بیوی لائےگا جو گھر کو بچوں سے بھر دے۔ اسے یہ خیال کبھی احمقانہ سا بھی لگتا۔ بیوی اور بچے اس کی ترقی میں ایک رکاوٹ ہوں گے؛ وہ تو ایک آزاد قسم کا آدمی تھا پھر اسے خیال آتا کہ بیوی اور بچوں کے بغیر زندگی بے مقصد سی ہو جاتی ہے۔

    ڈیوڈ نے جہلم میں لکڑیوں کو راولپنڈی اور لاہور بھیجنے کے لیے تیز ترین ذرائع پر غور کیا۔ سیٹھ اس کام کے لیے بیل گاڑیاں استعمال کرتا تھا اور ڈیوڈ نے ترسیل کی رفتار تیز کرنے کے لیے خچر اور باربرداری والے گھوڑے خریدے۔ ان دونوں شہروں میں لکڑی کی مانگ میں اضافہ ہو رہا تھا کیوں کہ یہاں کی چھاؤنیوں میں مسلسل توسیع ہو رہی تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح اس کی لکڑی کی رسد میں کمی آئے۔

    اسے جہلم میں چند ہفتے لگے جب کہ اس کا ارادہ صرف چند دنوں کا تھا۔ اس نے مراسلات کے روزانہ پہنچنے اور واپس آنے کے خصوصی انتظامات کیے۔ اس کام کے لیے اس نے گھڑ سواروں کا ایک دستہ تیار کیا جنھیں اس کے منتظمِ کار، وقت ضائع کیے بغیر کہیں بھی بھیج سکتے تھے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ مواصلات میں تیز رفتاری ہی کامیابی ہے اور وہ کامیاب ہونا چاہتا تھا۔ وہ جہلم میں اپنے قیام کے دوران میں ایک عجیب سی الجھن میں گرفتار رہا۔ وہ کامیاب ہونا تو چاہتا تھا لیکن ناکام ہونے کا خوف اسے بےچین کر دیتا۔ اس نے امارت کا مزہ تو چکھ لیا تھا، وہ دوبارہ غریب نہیں ہونا چاہتا تھا۔ یہی خوف بعض اوقات اسے ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتا جو غیرقانونی اور غیر اخلاقی ہوتے۔ اس نے قتل بھی کیے جو اس کے ضمیر پر بوجھ تو نہیں تھے لیکن بعض اوقات اسے اپنے کیے پر حیرت ضرور ہوتی۔

    وہ جہلم سے جب گجرانوالا کی طرف چلا تو اس کی طبیعت پر ایک بوجھ سا تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ کئی سالوں سے کھچاؤ سے بھری ایک زندگی گزار رہا ہے اور اسے چند دن آرام کی ضرورت ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ لکڑی والے گھر میں اپنے کاروبار کے متعلق سوچے بغیر کچھ دن آرام کرتے ہوئے گزارےگا۔ وہ اپنے دستے کی ہمراہی میں، بغیر عجلت کے سفر کرتا رہا۔ یہ سفر جو اس نے عموماً ایک رات میں ہی طے کر لینا تھا، پورے ایک دن اور رات میں مکمل کیا؛ اسے کوئی جلدی نہیں تھی۔

    ڈیوڈ جب گجرانوالا پہنچا تو ابھی شام ہی تھی اور اندھیرا ہونے میں کچھ وقت تھا۔ اس نے خواب میں ڈوبے گرجا گھر کو ایک نظر دیکھا تو اسے لکڑی کا گھر بھی اونگھتے ہوئے محسوس ہوا۔ اس نے سوچا کہ وہ گھر کو جگائے بنا خود بھی اس کی نیند کا حصہ بن جائے گا۔ گھوڑے سے اترنے میں اس کے ذاتی سائیس نے مدد کی اور گھوڑے کو، جو کئی گھنٹوں کے سفر کی وجہ سے پسینے میں شرابور تھا، ٹہلائی کے لیے لے گیا اور دستہ بھی صبح تک کے لیے منتشر ہو گیا۔ ڈیوڈ کچھ دیر گھر کے باہر خاموش کھڑا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا گھر میں اکیلے رات گزارنا ممکن ہوگا؟ کیا وہ کسی ساتھی کا بندوبست کر لے؟ پھر اس نے سوچا کہ تھکاوٹ اسے گہری نیند سلائے رکھےگی۔ دربان، دروازے کی مٹھیا پر ہاتھ رکھے، منتظر کھڑا تھا۔ جیسے ہی ڈیوڈ کے جسم نے حرکت کی، دربان نے اس کے اندر داخل ہونے کے لیے دروازہ کھول دیا۔ اندر ایک بتی جل رہی تھی اور اس نیم اندھیرے گھر میں ڈیوڈ کو ایک دم نیند کا احساس ہوا۔ وہ تھکے ہوئے قدموں سے اندر داخل ہوا۔ جب وہ اندر داخل ہوا تو باہر مکمل اندھیرا ہو چکا تھا اور اندر جلتی ہوئی بتی کی روشنی میں اضافہ ہوا ہوا لگا۔

    سیٹھ اور بائی کو قتل کرنے کے بعد گھر میں ڈیوڈ کی یہ پہلی رات تھی گو وہ پہلے بھی اس نے یہاں شب بسری نہیں کی تھی۔ گھر کی پراسرار سی خاموشی میں اسے گھبراہٹ کا احساس ہو رہا تھا۔ اس نے اپنے اعصاب کو معمول پر لانے کے لیے ایک لمبی سانس لی۔ اسے محسوس ہوا کہ کوئی اسے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ اس نے جلدی سے مڑکر دیکھا؛دربان دورازہ بند کر چکا تھا اور وہ گھر میں اکیلا تھا۔ اسے پھر احساس ہواکہ کوئی اسے دیکھ رہاہے اور گھر میں اس کے علاوہ بھی کوئی ہے۔ اس نے رسی کھینچ کر ملازم خانے سے کسی کو بلانے کے لیے گھنٹی بجانے کا سوچا لیکن پھر اسے یہ بزدلی لگا۔ اس نے سوچا کہ وہ اپنے وہم کو خود ہی دور کرے گا۔ اس نے سوچاکہ وہ ایسے مندروں میں رہا تھا جو گھنے جنگلوں کے وسط میں تھے اور وہاں راتوں کو اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوتا تھا اور تمام رات جنگلوں کی آوازیں آتیں جو اسے مانوس لگا کرتی تھیں۔ اب یہ گھر اس کا تھا اور اپنے ہی گھر کی خاموشی اور نیم اندھیرا اس کے رونگٹے کھڑے کیے دے رہا تھا۔ دوہرے قتل کے بعد کیا وہ بزدل ہو گیا تھا؟ جہلم اور وادی میں اسے ایسا کوئی احساس نہیں ہوا تھا اور وہ کاروباری منطق کے تحت اپنے فیصلے کرتا رہا تھا۔ کیا اس کے ضمیر کی کسی گہرائی میں پچھتاوے کا کوئی سنپولیاڈسے جا رہا؟

    وہ کمرے کے درمیان میں متذبذب سا ،بےیقینی کی حالت میں کھڑا سوچ رہا تھا۔ اسے خود پر غصہ بھی آیا۔ اسے ایک طرح نامردی کا احساس ہو رہا تھا۔ کیا وہ اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ اپنے اعصاب کو قابو میں نہیں کر پا رہا؟ اسے اپنا آپ اتنا غیرمحفوظ لگا کہ اس نے کمر بند کے ساتھ لٹکتے، بھرے ہوئے پستول کو محسوس کیا۔ پستول کو چھوتے ہی اسے طاقت کا احساس ہوا؛ اسے لگا کہ وہ محفوظ ہونے کے باوجود غیرمحفوظ ہے۔ پستوؒل اور اس کے اندر کا کارتوس اسے حوصلہ دینے کے باوجود اس کی کم حوصلگی کو دور نہیں کر رہے تھے۔ وہ اس چٹان کی طرح وہاں جما کھڑا تھا جس پر کائی کے علاوہ کچھ نہیں اگتا۔ کائی کا خیال آتے ہی اس کی سوچ میں انگلستان کے بھیگے موسم کی مانوس لیکن نا خوشگوار سی خوشبو پھیل گئی جسے ہندوستان کے خشک اور خشک مرطوب موسم میں وہ بھول چکا تھا۔ اسے اچانک اپنی ماں کی یاد آ گئی۔ اتنے سالوں میں اسے اپنی ماں کا کبھی خیال تک نہیں آیا تھا؛ وہ تو بخارات کی طرح ہندوستان کے گرم موسم میں اس کی سوچ کے پتے پر سے تحلیل ہو گئی تھی۔ اسے وہ اچانک کیوں یاد آگئی؟

    ڈیوڈ نے اپنااعتماد اور طاقت بحال کرنے کے لیے ایک بار پھر اپنے پستول کو چھو کر محسوس کیا! چمڑے کے اندر لوہے کی نالی اور اس کی سختی نے ایک بار پھر اسے پراعتماد تو کر دیا لیکن گھر کی پراسرار خاموشی کا احساس دور نا ہو سکا۔ اسے اچانک جنگل میں اکیلے ہونے کا احساس ہوا جب ایسے لگتا تھا کہ کوئی اس کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ اس احساس کو زائل کرنے کے لیے گانا شروع کر دیتا تھا۔ وہاں بے شمار آوازیں ہوتی تھیں اور یہاں گھر میں ایک پراسرار سی خاموشی تھی جس کا ہر لمحہ اعصاب پر گراں گزر رہا تھا۔ کیا وہ بھی گانا شروع کر دے؟ ڈیوڈ کو محسوس ہوا کہ وہ اپنی آواز سے بھی خائف ہے اس لیے خاموشی ہی بہتر تھی۔ اسی خاموشی میں اسے گھر کے اندھیرے میں سائے رینگتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اسے لگا کہ کوئی تیزی سے چلتے ہوئے ایک طرف سے دوسری طرف جا رہا ہے۔ کیا یہ سیٹھ اور بائی کی روحیں تو نہیں؟ پھر اسے اپنی ہی حماقت پر ہنسی آئی؛ جہاں وہ ہو وہاں روحوں کا کیا کام؟ اس سے بڑا آسیب اس ملک میں کوئی ہو سکتا ہے؟ اسے اپنی ہی بات پر ہنسی بھی آئی۔

    اس نے اپنے پستول کو پھر ایک بار چھوا!

    اچانک ایک عجیب واقعہ ہوا۔ وہ ہوا یا اس کا وہم تھا، جو کچھ بھی ہوا اس کی عقل اسے اپنی گرفت میں نا لے سکی۔ گھر میں ایک دم اتنی روشنی ہوئی کہ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ وہ کچھ دیر آنکھیں بند کیے کھڑا رہا اور جب اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ روشنی سے مانوس ہو چکی تھیں۔ گھر کی تما م بتیاں جل چکیں تھیں اور اسے گھر ویسے ہی روشن نظر آیا جس طرح اسے پچھلی دو مرتبہ لگا تھا۔ اس نے اس روشنی میں چاروں طرف دیکھا۔ اسی وقت اس کونے سے جہاں بائی بیٹھ کر گاتی تھی، بائی کے گانے کی آواز آئی۔ ڈیوڈ نے بے یقینی اور خوف کے ساتھ اس طرف دیکھا، وہ کوناتو خالی تھا لیکن بائی کا الاپ وہیں پر سے سنائی دے رہا تھا۔ ڈیوڈ نے اپنے حواس مجتمع کیے اور اس کونے کی طرف بڑھا۔ بائی کے سر بلند ہوگئے تھے، اتنے بلند کہ گھر سے باہر راستے پر بھی سنے جا سکتے تھے۔ سننے کے شوقین روز کی طرح اپنی جگہوں پر موجود تھے اور بائی کی آواز کی لہریں ان تک پہنچ رہی تھیں۔ وہ اس جگہ کھڑا ہو گیا جہاں سے بائی کی آواز آ رہی تھی۔ بائی کی آواز اسی جگہ سے آتی رہی جہاں وہ کھڑا تھا۔ اسی وقت اس نے ایک پہلے کی سونگھی ہوئی خوشبو محسوس کی۔ اسے یقین نا آیا۔ باہر سے گوشت کو کوئلوں پر بھونے جانے کی اشتہا آمیز خوشبو اندر آرہی تھی۔ ڈیوڈ کو پھریقین نا آیا۔ بائی کی آواز اب اور بھی بلند ہو گئی تھی۔ اسے اپنا سانس بند ہوتے ہوئے محسوس ہوا۔ اسے لگا کہ وہ کسی قبر کے اوپر کھڑا ہے۔ وہ فوراً اپنی جگہ سے ہٹ گیا۔ اسے اچانک احساس ہوا کہ وہ پسینے میں شرابور ہے اور اس کا جسم کانپ رہا ہے۔ وہ یہ طے نا کر پایا کہ جسم کانپنے کی وجہ خوف تھا یا اس کا اپنا وہم کہ گھر میں بائی کے گانے کی آواز آرہی ہے۔ اسے خیال آیا کہ ملازم خانے میں جاکر گوشت بھونے جانے کی تصدیق کرے اور پھر اس نے اسے رد کر دیا کہ یہ سب اگر وہم ہوا تو وہ کیا سوچیں گے؟ پھر اس پر وا ہوا کہ جو ہو رہا ہے اس کا وہم نہیں حقیقت ہے۔ بائی گھر میں موجود نا ہونے کے باوجود موجود تھی اور وہ اسی گانے کو سن رہا تھا جسے سنتے ہوئے اس نے سیٹھ اور اسے قتل کیا تھا۔ وہ خوف زدہ ہو گیا۔ اپنا خوف دور کرنے کے لیے اس نے چمڑے میں سے پستول نکال لیا۔ اب وہ پستول ہاتھ میں لیے اس طرف دیکھ رہا تھا جہاں بائی بیٹھی گا رہی تھی لیکن وہ اسے دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ بائی کا ہر سر اس کے خوف میں اضافہ کر رہا تھا۔ اسے اچانک اپنی اس چھوٹی عمر کی طویل جدوجہد بےمقصد لگی۔ اس نے جس دولت کو حاصل کرنے کے لیے اس گھر میں دو قتل کیے تھے، وہ دونوں مقتول اسے زندہ لگے۔ وہ انھیں مار کر بھی مار نہیں سکا تھا۔ اسے لگا کہ کسی بھی وقت سیٹھ اپنے سفید، بےداغ چولے اور دھوتی میں ،چہرے پر تمام تر سنجیدگی اور متانت سجائے ہوئے، اندر آ جا ئےگا۔ کیا وہ اسے دوبارہ جان سے مار دے گا؟

    بائی کا گانا، سیٹھ کی موجودگی کا احساس، باہر سے آتی ہوئی بھونے جانے والے گوشت کی خوشبو، اس کی تھکاوٹ اور اپنا خوف اس کے اعصاب کو شل کیے دے رہے تھے۔ وہ اپنی اس کیفیت کو سمجھتا تھا اور اس سے نکلنا بھی چاہتا تھا لیکن اس کے پاس نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ کیا وہ یہ گھر چھوڑ کر کہیں اور رہائش اختیار کر لے؟وہ کہیں بھی جا کر آباد ہو سکتا تھا؛ اس پر کسی قسم کی پابندی نہیں تھی۔ وہ سیٹھ کے کاروبار سے بھی ہاتھ کھینچ سکتا تھا۔ اسے خیال آیا: ایسا کرنا تو شکست تھی اور اس نے تمام عمر کامیابی حاصل کی تھی اور دو مرے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں مار کھا جانا اس کی زندگی کا حصہ نہیں تھا؛ وہ تمام عمر آگ سے کھیلتا آیا تھا۔

    بائی گائے جا رہی تھی اور گھر میں ہر سو کوئلوں پر بھنے جانے والے گوشت کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی!

    ڈیوڈ کو پہلی مرتبہ اپنے غیر محفوظ ہونے کا احساس ہوا۔ اسے لگا کہ اس نے اگر جلد کچھ نا کیا تو شاید دیر ہو جائے۔ وہ کرے کیا؟ بائی یا سیٹھ اسے نظر نہیں آ رہے تھے۔ اگر وہ انھیں دیکھ سکتا تو ایک مرتبہ پھر گولی سے اڑا دیتا۔ اب وہ وہاں تھے نہیں لیکن موجود ضرور تھے۔ اسے لگا کہ وہ دونوں اس کا مذاق اڑا رہے ہیں! اس نے دونوں کو ایک بار پھر مارنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ جانتا تھا کہ دونوں کو ایک بار پھر مارنے میں ہی اس کی نجات ہے جس کے لیے اس نے خود کو تیار پایا۔ اسے یک دم دونوں سے شدید نفرت کا احساس ہوا؛ اتنی شدید کہ اسے دونوں کو ایک بار پھر مارنا ہی واحد حل نظر آیا۔ جہاں سے بائی کے گانے کی آواز آ رہی تھی، اس نے وہاں کا نشانہ لے کر اپنی کنپٹی پر پستول رکھ کے گھوڑا دبا دیا!

    ۴

    سیٹھ کا گھر سول لائن میں بھوت بنگلہ جانا جانے لگا!

    ہر شام اندھیرا ہوتے ہی گھر کی تمام بتیاں روشن ہو جاتیں۔ گھر کے روشن ہونے کے تھوڑی دیر کے بعد گھر سے بائی کے راگ بھیرویں گائے جانے کی آوازآنے لگتی اور ساتھ ہی گوشت کے کوئلوں پر بھونے جانے کی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی۔ گانا سننے کے شوقین وہاں اب کم ہی آتے۔ وہ ایک ہی بول کئی سالوں سے سن رہے تھے اور اب ان کی دل چسپی صرف اتنی تھی کسی دِن بائی کی آواز نا آئے۔ بائی کا راگ کبھی پورا ختم نہیں ہوا تھا اور تین گولیوں کی آواز کے بعد ختم ہو جاتا۔ شروع میں اردگرد کے رہائشیوں کو ہر شام ایک خوف گھیر لیتا تھا لیکن اب انھیں خوف نہیں رہا تھا۔ عام تاثر تھا کہ لکڑی کے گھر میں آباد روحیں بےضرر تھیں اور گھر کے سامنے والے راستے پر رات کو آمدو رفت جاری ہو گئی۔ جب کوئی سواری یا پیدل چلنے والا گزر رہا ہو اور بائی کی آواز اس کے کانوں تک پہنچ رہی ہو تو اس کے رونگٹے ضرور کھڑے ہو جاتے۔ اسے سخت گرمی میں بھی ایک ہلکی سی ٹھنڈ کا احساس ہوتا۔

    اس گھر کے بارے میں کئی باتیں مشہور ہو گئیں جن میں سب سے زیادہ ہاتھ گرجا گھر کے پادریوں کا تھا۔ وہ اس گھر کو برباد کرنے کی ذمے داری اپنے سر لیتے اور اکثر اتواروں کو اپنے واعظ میں کہتے کہ ان کے پڑوس میں گناہ ہو ا کرتا تھا جسے انھوں نے اپنی دعاؤں کی طاقت سے نا صرف ختم کیا ،اس گھر کو مکمل طور پر بے آباد بھی کر دیا۔ شہر کے ہر گلی کوچے میں کہا جاتا تھا کہ سیٹھ کا گھر پکی جگہ پر بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے اس گھر میں کوئی بھی آباد نہیں ہو سکا۔ عام نظریہ یہی تھا کہ یہ جگہ کبھی آباد نہیں ہوئی تھی اور صدیوں سے خالی پڑی رہنے کی وجہ سے ایسی طاقت یہاں قابض ہو گئی تھی جسے نکالنا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ یہی کہا جاتا کہ سیٹھ کی دولت کی طاقت بھی اسے پکی جگہ کے رہایشیوں سے نا بچا سکی۔

    ہر شام سورج غروب ہونے کے جلد بعد گھر روشن ہو جاتااور بائی کے گانے کی آواز آنے لگتی۔ وہ آواز سول لائن کی زندگی کا ایک حصہ تھا۔ مائیں بچوں کو بائی کے نام سے ڈراتیں اور دن کو لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے رک کرایک نظر گھر کو ضرور دیکھتے۔ گھر اپنی خوب صورتی، نئے پن اورپراسراریت کی وجہ سے ہر کسی کی دل چسپی کا محور تھا۔ اسے رک کر دیکھنا اتنا ہی اہم تھا جتنا اسے دیکھنے کے بعد اپنی رائے دینا۔ کئی سال گزر جانے کے بعد بھی گھر کی خوب خوب صورتی اور دبدبے میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ گھر ایسا وقار لیے تھا کہ کوئی بھی گزرنے والا اسے رک کر دیکھے بغیر آگے نہیں جا سکتا تھا۔ گھر کا روشن ہونا اور بائی کا گانا ہر ایک کے لیے گہرا اسرار لیے تھا جس کے بارے میں بات تو کی جاتی لیکن وجہ جاننے کی کوشش کبھی کسی نے نہیں کی۔ جہاں بائی کا گانا اور گوشت بھونے جانے کی خوشبو کی اسراریت میں ایک معصومیت تھی وہاں پستول کے گھر میں چلنے سے چند ایک معصوم سے سوال لوگوں کی متجسس سوچ کو گدگداتے بھی۔

    سیٹھ دھنی رام کا گھر ایک اساطیر ی اہمیت حاصل کر چکا تھا۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے سفید ساڑھی میں ملبوس ایک عورت دیکھی ہے جس کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ اس کے بال کھلے ہوتے تھے اوروہ گھر کے گرد چکر لگاتی رہتی تھی۔ انھوں نے ڈیوڈ کو بھی پستول ہاتھ میں لیے بائی اور سیٹھ کے تعاقب میں دیکھا۔ اس گھر کی نا تو کوئی نگہداشت کرتا اور نا ہی اس کی کوئی سنبھال تھی؛ وہ تو بس موسموں کے رحم وکرم پر تھا۔ اس پر دھول پڑتی رہتی جسے جب بارشیں دھو ڈالتیں تو اس کی پہلے والی چمک لوٹ آتی۔ گرمیوں میں اس کے تختے پھیلتے ضرور اور سردیوں میں سکڑتے بھی لیکن سیٹھ نے انگریز ماہرین تعمیر سے مشورے کے بعدپھٹوں میں اتنی لچک رکھی ہوئی تھی کہ یہ پھیلنا اور سکڑنا عمارت کی مجموعی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالتے تھے۔

    گھر سول لائن کے پھیلاؤ کا ایک خاموش گواہ تھا۔ اس کے سامنے اور دائیں طرف آبادی پھیلنا شروع ہو گئی۔ اس گھر کی شہرت ایسی تھی کہ کسی نے اس میں آباد ہونے کا نا سوچا۔ گانے، گوشت بھونے جانے کی خوشبو اور پستول چلنے کی آوازنے گھر کے گرد دہشت کا ایسا جالا بن رکھا تھا کہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا کسی کے ذہن میں کبھی نا آیا۔ دوسری بڑی جنگ کے دوران ڈپٹی کمشنر نے اسے بھرتی کے دفتر میں تبدیل کرنے کا سوچا لیکن اسے دبی دبی سی مقامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں لوگ اس گھر میں آباد روحوں سے خائف تھے، وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ کسی طرح بھی ان کے معمولات میں دخل اندازی کی جائے؛ وہ چاہتے تھے کہ گھر میں سے بھیرویں کے سروں کی ہر شام آبشاریں پھوٹیں۔ وہ انھیں شہر کا ایک ورثہ قبول کر چکے تھے اور مقامی حکومت نے اپنے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا۔

    ملک کی تقسیم ناگزیر ہو گئی تو ہندو آبادی کوبائی اور سیٹھ کی روحوں کی فکر لاحق ہونے لگی؛ یہ بھی سوچا جانے لگا کہ کوئی ایسا طریقہ ہو کہ روحیں ساتھ ہی چلی جائیں۔ ان کا موقف تھا کہ اگر ہر شام یہ روحیں کسی کو نظر آئے بغیر زندہ ہو سکتی ہیں تو پھر ان کے ساتھ نقل مکانی کیوں ممکن نہیں؟ وہ لوگ ہندوستان کے جس شہر میں بھی آباد ہوئے، ان کے لیے وہاں ایسا ہی گھر تعمیر کر لیں گے۔ شہر کے مسلمان دانش ور ہندوؤں کی اس سوچ سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ وہ یہی کہتے کہ کیا وہ گھنٹا گھر بھی ساتھ لے جائیں گے؟ چناں چہ سنجیدہ قسم کے طویل اور سنجیدہ مذاکرات کے بعد طے پایا کہ خالصا کالج اور گھنٹہ گھر کی طرح یہ گھر بھی یہیں رہےگا اور اس کی حفاظت کی جائےگی۔

    جب گھر کی حفاظت کے مذاکرات ہو رہے تھے اسی وقت نوجوانوں کا ایک گروہ تکیہ معصوم شاہ میں اسے آگ لگانے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ طویل بحث کے بعد گھر کو آگ لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ طے کیا گیا کہ سارے گھر پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی جائے چنانچہ اس کام کے لیے مٹی کے تیل کے کنستر اکٹھے کیے گئے اور جب اندھیرا ہوتے ہی چھڑکنے کا وقت آیا تو وہ خوف زدہ ہو گئے۔ انھیں محسوس ہوا کہ وہ اس گھر کے بجائے پورے شہر کو نذرآتش کرنے جا رہے ہیں۔ وہ نوجوان جو اپنے ٹھکانے سے نکلتے ہوئے ایک جنون کی گرفت میں تھے اب کنستر سامنے رکھے شرمسار سے اپنے قدموں کے تلے کی زمین کو دیکھتے تھے۔ وہ اس گھر کو اس لیے جلانا چاہتے تھے کہ یہ ایک ہندو کی ملکیت تھی اور ہر ہندو مسلمانوں کا دشمن تھا۔ جب گھر کو جلانے کا وقت آیا تووہ خوف زدہ ہو گئے؛ انھیں لگا کہ یہ گھر ہندو کے بجائے پورے شہر کا سانجھا تھا اور اس کی حفاظت ان سب کا فرض ہے۔ وہیں ایک مختصر سے تبادلۂ خیال کے بعد گھر کو محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور ان نوجوانوں نے گھر کی حفاظت کی ذمے داری اپنے سر لیتے ہوئے وہاں چوکیداری شروع کر دی۔

    ملک تقسیم ہو گیا!

    سول لائن میں رہنے والے ہندو اور سکھ اپنے گھروں کو چھوڑکر ہندوستان چلے گئے تو ان کی جگہ وہاں سے آنے والے پناہ گزینوں نے لے لی جنھیں بعد میں مہاجر بھی کہا جانے لگا۔ یہ خاندان ایک ایسے جذبے اور جو ش کے تحت نئے ملک میں آئے تھے جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی اور پھر ایک ایسا طبقہ وجود پا گیا جس نے بعد میں ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ جائدادوں کے حصول میں اتنی بے ضابطگیاں ہوئیں کہ حق دارمحروم اور غیر متعلقہ لوگ فیض یاب ہوئے۔ سول لائن میں ہندوؤں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی جائدادوں میں سے کچھ پر تو مقامی لوگ قبضہ کر گئے اور کچھ پناہ گزینوں کے حصے میں آئیں۔ سیٹھ کے گھر پر کئی لوگوں کی آنکھ لگی ہوئی تھی لیکن ہر شام کو ایک مقررہ وقت پر تمام بتیوں کا جل جانا، بائی کا گانا گانا، کوئلوں پر گوشت بھونے جانے کی خوشبواور پستول کی آواز ان کے راستے میں حائل ہو جاتے۔

    سول لائن اب پھیلنا شروع ہو گئی اور شور میں اضافہ ہوگیا۔ ہر شام راگ بھیرویں سننے والے یا تو مر کھپ گئے تھے اور یا وہ ہندوستان چلے گئے۔ اب کسی کو شام کو گھر کے روشن ہونے یا راگ بھیرویں میں دل چسپی نہیں تھی۔ بجلی آ گئی تھی اور ارد گردروشنیاں اتنی زیادہ ہو گئی تھیں کہ کسی کو شام کا اندھیرا ہوتے ہی سیٹھ دھنی رام کے گھر کا روشن ہو جانا نظر ہی نا آتا اور نا ہی شور میں کسی کو بائی کی آواز سنائی دیتی۔ وہ گھر وہاں موجود ہونے کے باوجود اپنا وجود کھو چکا تھا۔ اب اس کی اہمیت صرف پرانے لوگوں کے قصوں تک ہی محدود رہ گئی تھی۔ ترقی کے نئے دور میں گھر غیر اہم ہو کر رہ گیا تھا لیکن اس کی اہمیت ابھی تک قائم تھی کہ ہر شام لوگ اسے دیکھنے سے کتراتے۔ اسے بھوت بنگلہ کہا جاتا اور سرکار بھی اسے کسی کو دینے سے خائف تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگ اسے بھول چکے تھے لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ گھر کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔

    دسمبر 1979 میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو سول لائن کا بھوت بنگلہ لوگوں کی یادوں سے محو ہو چکا تھا۔ روسی قبضہ کے بعد حکومت وقت کی سرپرستی میں ملک میں فرقہ واریت کی ایسی رو چلی کہ معاشرہ قیدی ہو کر رہ گیا۔ تب ہی چند نوجوانوں کی نظر اس بھوت بنگلے پر جا کر رک گئی کہ وہ کفر کی ایک ایک یادگار تھا۔ ان کے نزدیک اس بھوت بنگلے کا وجود ان کی نظریاتی شکست تھی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ 1947 میں اسے جلانے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی؛ ان کے نزدیک اس بھوت بنگلے کا وجود بےہودگی اور فحاشی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ایک دن وہ اکٹھے ہوئے اور دیر تک اس گھر کو زمین بوس کرنے کے منصوبے بناتے رہے۔ ایک طویل اور گرما گرم بحث کے بعد ان کے پاس دو ہی حل بچے؛گھر کو بارود سے اڑا دیا جائے اور یا اسے آگ لگا دی جائے۔ بارود سے اڑائے جانے کے نقصانا ت زیادہ تھے، ساتھ والے گھر اور گرجا بھی محفوظ نہیں تھے اور آگ نے صرف گھر تک ہی محدود رہنا تھا چنانچہ 1947کی طرح مٹی کا تیل چھڑک کے آگ لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔

    ابھی اندھیرا نہیں پھیلا تھا اور سردیوں کی شام میں لوگ گھروں میں ہی تھے کہ مٹی کے تیل کے کنستر وہاں لائے گئے۔ پھر ملازم خانے کی طرف سے مٹی کا تیل چھڑکا جانے لگا۔ جب تیل چھڑکا جا رہاتھا تو دو آدمی کلاشنکوف سنبھالے کسی قسم کی مداخلت روکنے کے لیے تیار تھے۔ تیل چھڑکا جانے کے بعد آگ دکھانا ایک مشکل مرحلہ تھا کیوں کہ شعلہ ایک دم بھڑکنا تھا جو شعلہ دکھانے والے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا تھا۔ اس مشکل مرحلے کے لیے کئی بار مشق بھی کی گئی تھی لیکن یہ پھر بھی ایک مشکل مرحلہ ہی تھا۔ متعدد امکانات پر غور کرنے کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ کچھ فاصلے سے ایک جلتی ہوئی مشعل پھینکی جائے۔

    کلاشنکوفوں والے اپنی جگہوں پر مستعد تھے اور تیل چھڑکنے والے اپنا کام ختم کرکے ایک محفوظ فاصلے پر آخری وار ہوتا دیکھنے کے لیے سنبل کے بڑے درختوں کی اوٹ میں ہو چکے تھے۔ مشعل پھینکنے والے نے اپنی کامیابی کے لیے زیرلب دعا پڑھی اور ماچس کی تیلی جلا کرمشعل کو روشن کرنے ہی والا تھا کہ وہ ہوا جس کا وقت انھوں نے تعین نہیں کیا تھا۔ ایک جھپاکے کے ساتھ سیٹھ دھنی رام کا گھر روشن ہو گیا اور وہ فوری ردِعمل کے تحت مشعل وہیں پھینک کر بھاگ گیا۔ اسی وقت بائی کے بھیرویں کے سُر گھر کی بند دیواروں سے باہر نکلے اور مٹی کے تیل کی بو کو بےاثر کرتے ہوئے کوئلوں پر گوشت بھونے جانے کی خوشبو پھیل گئی۔ ان سب نے اپنے ٹھکانوں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ بائی گاتی رہی اور وہ مبہوت کھڑے خود کو راگ سے الگ رکھنے کی کوشش میں تھے کہ ایک دم پستول دو بار چلا اور وہ پہلے سے طے شدہ اشارے کے تحت وہاں سے کھسک ہی رہے تھے کہ گھر کی بتیاں ایک دم بجھ گئیں!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے