Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دادا اور پوتا

مشرف عالم ذوقی

دادا اور پوتا

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

    (اپنے پانچ سالہ بیٹے عکاشہ کے لئے جس کی خوبصورت اور ’’خطرناک‘‘ شرارتوں سے اس کہانی کا جنم ہوا)

    (۱)

    کچھ دنوں سے بڈھے اور پوتے میں جنگ چل رہی تھی۔ بڈھا چلاتا رہتا تھا اور پوتا اس کی ہر بات نظرانداز کر جاتا تھا۔

    ’’سنو، میرے پاس وقت ہیں۔‘‘

    ’’کیوں وقت نہیں ہے؟‘‘

    ’’بس کہہ دیا نا، وقت نہیں ہے۔‘‘

    ’’ایک ہمارا بھی زمانہ تھا۔‘‘

    بڈھا کہتا کہتا ٹھہر جاتا۔ بھلا جوان پوتے کے پاس اتنا سب کچھ سننے کے لئے وقت ہی کہاں تھا۔ بڈھا اس وقت پیدا ہوا تھا جب لوگوں کے پاس وقت ہی وقت تھا اور پوتے نے اس وقت آنکھیں کھولی تھیں جب دنیا تیزی سے بدلنے لگی تھی۔

    *

    بڈھے کو پوتے پر رشک آتا تھا اور بیٹے سے اسی قدر اکتاہٹ محسوس ہوتی تھی۔ اس کی امید کے برخلاف بیٹا ذرا سا بھی موقع پاتے ہی اس کے آگے پیچھے گھومتا ہوا فرمانبرداری ثابت کرنے میں جٹ جاتا۔

    ’’ابا، آپ کو چائے ملی؟‘‘

    ’’مل گئی۔‘‘

    ’’کھانا ہو گیا‘‘

    ’’ہاں‘‘

    ’’کچھ چاہئے تو نہیں آپ کو؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی؟‘‘

    ’’میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم جاؤ، اپنا کام کرو۔

    *

    بڈھے کو بیٹے کی بات سے کوفت محسوس ہوتی۔ اسے لگتا، بیٹا درمیان کی اڑان میں کہیں پھنسا رہ گیا ہے۔۔۔ اور پوتا، اس کی اڑان کا تو نہ کوئی اور ہے نہ چھور۔۔۔ بیٹا ایک محدود زمین میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔ پوتے کے سامنے ایک کھلا آسمان ہے۔ بیٹا، اپنی، اس کی (یعنی بڈھے کی) نسل اور ان دو نسلوں کی اخلاقیات کے بیچ کہیں الجھ کر رہ گیا ہے۔ اور پوتا، اس کی نظروں میں ایسا شاطر پرندہ، جو ایسی تمام بندشوں کے پر کترنا جانتا ہو۔ بڈھے کو بیٹے پر رحم آتا تھا اور پوتے کے لئے اس کے اندر ایک خاص طرح کا جذبہ رقابت تھا، جو اب جوش مارنے لگا تھا۔

    *

    بڈھے کو احساس تھا، وہ غلط وقت میں پیدا ہوا ہے۔ تب کتنی معمولی معمولی چیزیں اس کے لئے خوشی بن جایا کرتی تھیں۔ وہ ایک مدت تک دھوپ، ہوا، آنگن اور آنگن کے پیڑ کو ہی دنیا سمجھتا آیا تھا۔ باہر کی سب چیزیں ایک لمبی مدت تک، یعنی اس کے کافی بڑا ہو جانے کے بعد تک جادوگر کا بن ڈبہ ہی رہیں۔ یعنی جس کے بارے میں وہ سوچ سکتا تھا۔ خوش ہو سکتا تھا، چونک سکتا تھا اور مچل سکتا تھا۔۔۔ اماں، ابا، بھائی بہنوں کی فوج، اس کی کل کائنات بس اتنی تھی اور کیا چاہئے۔ بڈھا اسی دنیا میں گم رہا کہ اس وقت کے سارے بچے اسی دنیا میں گم تھے۔ وہ اسی کائنات میں غوطہ کھاتا رہا کہ اس وقت کے سارے بچے۔

    دھوپ، ہوا، آنگن اور پیڑ۔ ایک دن گھر کی دیوار اونچی اٹھ گئی۔۔۔ دھوپ رخصت ہو گئی۔۔۔ ہوا کا آنا بند ہو گیا۔ آنگن پاٹ دیا گیا اور پیڑ کاٹ ڈالا گیا۔۔۔

    بڈھے نے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھا۔ اب وہاں ایک پختہ کار مرد تھا اور دنیا دھیرے دھیرے بدلنے لگی تھی۔

    لیکن شاید نہیں۔ یہ بڈھے کا وہم تھا۔ دنیا اسی طرح اپنے محور پر ٹکی ہوئی تھی، جیسے پہلے تھی۔ جیسے بڈھے کے باپ کے وقت میں تھی۔

    *

    تو بڈھا ’’ان‘‘ بہت سارے لوگوں میں سے ایک تھا جو بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خوش ہو جایا کرتے ہیں۔ پھر اس نے یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ورثہ میں اپنے بیٹے کے حوالے کر دیں۔ بیٹے کے زمانے میں وقت صرف اس قدر بدلا تھا کہ زمین زیادہ پتھریلی ہو گئی تھی۔ بڈھے باپ کی طرح اسے سب کچھ آسانی سے نہیں مل گیا تھا۔ اسے باپ سے زیادہ مشقت کرنی پڑی۔ کچھ زیادہ جدوجہد کرنی پڑی۔ تب اس کے چھوٹے سے شہر میں تھوڑی تھوڑی تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ خاندان کے بڑھنے پر بٹوا رہ اور گھر کا چھوٹا ہونا لازمی تھی۔ یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں جسے بڈھا۔۔۔ دنیا کے ایک دم بدل جانے کے طور پر دیکھ رہا تھا۔

    لیکن دراصل دنیا تب بدلی تھی جب۔

    *

    بیٹا اپنی آدھی زندگی کی ناؤ کھے چکا تھا۔ بڈھا اب اکیلا تھا۔ بیوی گزر چکی تھی۔ بیٹے کو مشقت اور جدوجہد کے بدلے میں ایک اچھی زندگی ملی تھی۔۔۔ مگر نیا شہر ملا تھا۔ نئے شہر میں کالونیاں تھیں۔ ان میں کہیں ایک گھر بیٹے کا بھی تھا۔

    اس گھر میں آنگن نہیں تھا۔۔۔

    اس گھر میں پیڑ نہیں تھے۔۔۔

    اس گھر میں دھوپ کم کم آتی تھی۔ ہوا کا گزرنا بھی کم کم ہوتا تھا۔۔۔

    پوتے نے اسی گھر میں آنکھ کھولی تھی۔ آنگن، پیڑ، ہوا، دھوپ نہ ہوتے ہوئے بھی پوتے نے زبردست ہاتھ پاؤں نکالے تھے۔

    پوتے کا ہر دن ایسا تھا جو اس کے بیٹے کی زندگی میں نہیں آیا تھا۔

    جو بڈھے کی زندگی میں نہیں آیا تھا۔

    پوتا بلا خطر کچھ بھی کر سکتا تھا۔ اور شاید اسی لئے، اسے دیکھتا، پڑھتا ہوا بڈھے قدم قدم پر اس سے کڑھتا رہتا تھا۔

    (۲)

    اور حقیقت ہے، پوتے نے جب آنکھیں کھولیں، اس وقت دنیا بے حد تیزی سے بدلنے لگی تھی۔

    پوتے نے بے حد چھوٹی نازک عمر میں ہی اپنے پر نکال لئے۔ ایک دن پڑھتے پڑھتے وہ تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکلا۔

    ’’کہاں جا رہے ہو؟ بڈھے نے پوچھا۔

    ’’کھیلنے جا رہا ہوں‘‘

    بڈھے نے بیٹے سے کہا۔ ’’اسے روکو۔ وہ کھیلنے جا رہا ہے۔‘‘

    بیٹے نے آنکھیں پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’وہ نہیں مانےگا۔ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے آپ دیکھتے نہیں۔‘‘

    ’’ہاں، میں سب دیکھ رہا ہوں‘‘

    بڈھے نے گہرا سانس بھر کر کھلے دروازے کو دیکھا۔ پوتا نظر سے اوجھل ہو چکا تھا۔

    *

    بےحد ننھی، کچی سی عمر میں اور اس کالونی میں یہ پوتے کا پہلا دن تھا۔ جب نرسری میں پڑھتے ہوئے اس نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اس دن بڈھا دیر تک سوچتا رہا۔۔۔ بچپن میں ایسی آزادی اس کے حصے میں کیوں نہیں آئی؟‘‘

    وہ پہلا دن تھا، جب بڈھے نے پوتے سے جلن محسوس کی تھی۔

    *

    پوتا تھوڑی دیر بعد کھیل کر واپس آیا، تو بڈھا دروازے پر اس کا راستہ روک کر کھرا ہو گیا۔

    اس کی متجسس آنکھوں میں سوالات تھے۔۔۔

    ’’تمہارے پاس کیا ہے جو میرے پاس نہیں ہے‘‘

    ’’ہٹو، جانے دو‘‘

    ’’نہیں، پہلے بتاؤ۔ تمہارے پاس کیا ہے جو میرے پاس۔‘‘

    پوتے نے پھر دہرایا۔ نہیں جانے دوگے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’ٹھینگا‘‘

    پوتا مست ہوا کے جھونکوں کی طرح دوبارہ بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ بڈھا دیکھتا رہ گیا۔ شاید فرار کے اتنے راستے، بغاوت کا یہ مادہ، جو پوتے میں تھا، بڈھے میں نہیں آیا تھا۔ وہ دیر تک دو قدم آگے بڑھ کر پوتے کو سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دوڑ کر، سرپٹ بھاگتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔

    یہ سلسلہ دراز ہوتا رہا۔

    انحراف، احتجاج اور بغاوت کی کشادہ سڑک پر پوتے کے قدم بھاگتے رہے۔ بڈھا خود سے دریافت کرنے میں مصروف رہا۔

    ’’اس میں ایسا کیا ہے، جو میرے پاس نہیں ہے‘‘

    اور کہنا چاہئے، بار بار اٹھنے والے اسی ایک سوال نے اسے پوتے کے بہت قریب کر دیا تھا اور پوتا بھی اسی دشمنی، رقابت کے پردے میں بڈھے کو ’’کچھ‘‘ بھی بتاتے یا پوچھتے ہوئے گھبراتا یا شرماتا نہیں تھا۔ مثلاً جیسے پوتا پوچھتا۔

    ’’تم اپنے وقت میں ایسے نہیں تھے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’پھر تم کرتے کیا تھے؟‘‘

    ’’ہم چپ رہتے تھے۔ بڑوں کے سامنے بولنا منع تھا۔‘‘

    ’’اور؟‘‘

    ’’پیدا ہوتے ہی ہمیں ایک ٹائم واچ دے دی جاتی تھی۔ اس وقت اٹھنا ہے، فلاں وقت میں یہ کام انجام دینا ہے۔‘‘

    ’’اور لڑکی؟‘‘

    پوتا ہنستا ہے۔

    بڈھا آنکھیں تریرتا ہے۔ ’’ہمیں چھت پر بھی جانا منع تھا۔ تمہارا باپ بھی چھت پر نہیں جا سکتا تھا۔ لڑکی کا نام لینا تو بہت دور کی چیز ہے۔‘‘

    ’’تم لوگ گھامڑ تھے۔۔۔‘‘ اس بار پوتے کو غصہ آتا ہے۔

    *

    دادا جوابی کارروائی کے طور پر، گفتگو کے ہر نئے موڑ پر بیٹے کے ساتھ شیئر کرتا۔۔۔

    ’’وہ اڑ رہا ہے۔‘‘

    ’’یہ عمر اس کے اڑنے کی ہی ہے۔۔۔‘‘ بیٹا اپنے کام میں مصروف رہتا۔

    ’’وہ ہنس رہا ہے۔‘‘

    ’’وہ ہنس سکتا ہے۔ یہ عمر ہی۔‘‘

    ’’نہیں، وہ ایسے نہیں ہنس رہا ہے جیسے ہم لوگ۔‘‘

    بڈھا کہتے کہتے غصہ ہوتا ہے۔ ’’وہ اڑ رہا ہے۔ وہ بڑا ہو رہا ہے۔ وہ پھسل رہا ہے۔‘‘

    بیٹا ہر بار اپنی مصروفیت میں آنکھیں جھکائے، ویسے ہی جواب دیتا۔۔۔

    ’’وہ ایسا کر سکتا ہے۔‘‘

    ظاہر ہے، ایسے موقع پر بڈھے کو اپنے غصے کو چھپانا، ناممکن ہو جاتا۔ اور جیسے ایسے ہر موقع پر غصہ ور بڈھا خود سے دریافت کیا کرتا۔

    ’’آخر اس میں ایسا کیا ہے، جو اس کے پاس نہیں تھا۔‘‘

    (۳)

    بڈھے کے دیکھتے ہی دیکھتے پوتے میں جوانی کے پر نکل آئے۔ تیزی سے بدلتی فاسٹ فوڈ (Fast food) کی اس دنیا میں اب وہ ایک آزاد مرد جوان کی حیثیت سے تھا اور یہ سب، کہ اس میں کیسے کیسے اور کتنے پر نکلے، یا یہ کہ خالی وقت میں وہ کیا کیا کرتا رہا ہے، ان مہملات کے لئے بیٹے کے پاس وقت نہیں تھا۔ مگر بڈھے کی گدھ نگاہیں ہر دم اس کے آگے پیچھے گھومتی رہتی تھیں اور حقیقت یہ ہے کہ صرف گھومتی ہی نہیں رہتی تھی بلکہ قدم قدم پر چونکتی اور پریشان بھی ہوتی رہتی تھیں۔

    مثلاً یہ کہ وہ۔ بہت زیادہ دوڑ رہا ہے، اڑ رہا ہے۔۔۔

    مثلاً یہ کہ وہ۔ نئے پن کی تلاش میں، خواہ وہ نیا پن کیسا بھی ہو، بلا خوف، بے جھجھک ’’جنون‘‘ میں مبتلا ہو رہا ہے۔۔۔

    مثلاً یہ۔ کہ اب اسے دیکھ پانا، ہاں دیکھ پانا روز بروز ایک مشکل امر ہوا جا رہا ہے۔

    بڈھا ہمت جٹا کر اپنے مصروف بیٹے کے پاس آتا۔۔۔

    ’’اس نے اول جلول کپڑے، پہنے ہیں۔‘‘

    ’’اس کے دوست بھی پہنتے ہوں گے‘‘۔ بیٹے کی نگاہیں اپنے کام میں مصروف ہوتیں۔

    ’’اس کے کانوں میں چھلے ہیں۔‘‘

    ’’نیا فیشن ہوگا۔‘‘

    ’’وہ راتوں کو دیر سے آتا ہے۔‘‘

    ’’کلب اور دوستوں میں دیر ہو جاتی ہوگی‘‘

    ’’وہ۔‘‘

    بیٹے کے پاس ہر بات کا جواب موجود تھا۔ لیکن ویر یور اٹی چیوڈ (Wear your attitude) والا لہجہ بڈھے کو ہضم نہیں ہوتا تھا اور پوتے کے We are like this only یعنی ہم تو ایسے ہی ہیں، جیسے ریمارک پر اس کانک چڑھا پن اور بھی بڑھ جاتا تھا۔۔۔

    *

    پوتا جوشیلا تھا، تیز طرار تھا۔ نگاہیں ملا کر بات کرتا تھا۔ وہ ہر لمحہ خود کو نئے Attitude میں ڈھال رہا تھا۔ رنگ برنگے بال، کانوں میں چھلے، پھٹی ہوئی جینس۔۔۔ کبھی کبھی تیز تیز آواز میں گانے لگتا۔ بڈھے کی ہر بات کا پوتے کے پاس ایک ہی جواب تھا۔

    ’’ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں۔‘‘

    ’’چاہے تم جتنی بھی تیز آواز میں ناچو، گاؤ۔‘‘

    ’’ہاں‘‘

    ’’کسی کی موجودگی کا خیال بھی نہ کرو۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’کسی کے دکھ، پریشانی کا۔‘‘

    ’’ہاں۔ ہم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔۔۔ اس لئے کہ we are like this only۔‘‘

    ’’ہم اپنے زمانے میں۔، بڈھے کا لہجہ کھوکھلا تھا۔

    ’’تم لوگ آخر اتنے دبو کیوں تھے۔ اس لئے کہ تم لوگ ڈر ڈر کر جی رہے تھے۔‘‘

    یہ ایک بھیانک حقیقت تھی۔ یا یہ ایک ایسا کنفیشن تھا جسے کرتے ہوئے بوڑھے نے ہمیشہ ہی خوف محسوس کیا تھا۔ بڈھے کو اپنا زمانہ معلوم تھا۔ بڈھے کی غلطی یہ تھی کہ اس کے بیٹے کو بھی یہی زمانہ وراثت میں ملا۔۔۔ بڈھا اپنے زمانے میں کسی لڑکی سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراتا تھا۔۔۔ فرق اتنا تھا کہ بیٹے کی زندگی میں ایک لڑکی آئی تھی۔ لیکن ایک خاموش رومانی کہانی، شروع ہونے سے پہلے ہی بھیانک طوفان میں بکھر گئی۔ بڈھے کو سب کچھ یاد تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح اپنی خاندانی عزت کو بچانے کے لئے ساری ساری رات کمرے میں ٹہلتا رہا تھا۔ ایسا تو اس کی سات پشتوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ صبح کا دھند لکا ہونے سے پہلے ہی بیٹے کو نیند سے جگا کر اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

    ’’ایسا کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔۔۔ تم چاہو تو بغاوت کر سکتے ہو؟‘‘

    بیٹے کا چہرہ ایک لمحے کو کانپا۔ پھر جھک گیا۔

    بڈھے کو یقین سا ہے، کہ اس موقع پر بغاوت کے خاتمے کے اعلان پر اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکان ضرور نمودار ہوئی تھی۔ پھر بیٹے نے وہی کچھ کیا جو کچھ اس بڈھے نے چاہا۔ یا جیسا کہ اس کے پہلے والی نسل کے لوگ کرتے آئے تھے۔

    (۴)

    لیکن پوتا، اپنی اس دنیا سے کتنا خوش تھا، یہ وہی بتا سکتا تھا۔ وہ ایک ایسے کامیاب آدمی کا بیٹا تھا جن کے پاس بیکار کی باتوں کے لئے وقت نہیں رہتا۔ پوتے کے پاس اپنی ایک اسپورٹس کار تھی جس میں وہ اپنی دوست لڑکیوں کے ساتھ سیر سپاٹا کر سکتا تھا۔ ایک پلاسٹک کارڈ یا کریڈٹ کارڈ تھا۔ ایک موبائل، جس میں زیادہ تر اس کی دوست لڑکیوں کے فون آیا کرتے تھے۔ وہ الٹی بیس بال ٹوپی پہنتا تھا۔ ڈھیلی ڈھالی باکسر شرٹس اس کی پہلی پسند تھی۔ وہ فاسٹ فوڈ کا شیدائی تھا اور ریڈی میڈ رومانس میں ہی اس کی دلچسپی تھی۔ یعنی کچھ دن ہنسے، بولے پھر کپڑے بدل دیئے۔ جس دن پوتے نے پہلی بار اپنے ننگے بدن پر ’’گودنے‘‘ گدوائے تھے، اس دن بڈھا بری طرح اچھلا تھا۔

    ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘

    ’’آپ دیکھتے نہیں، یہ سانپ ہے۔ یہ مچھلی ہے۔ یہ سیڑھیاں ہیں۔‘‘

    ’’لیکن یہ سب کیوں ہے؟‘‘

    ’’کیوں کہ ہمیں یہی اچھا لگتا ہے۔‘‘

    ’’لیکن اس کے بعد۔‘‘

    ’’سوچا نہیں ہے۔‘‘

    *

    بڈھا ایک بار پھر اپنے مصروف بیٹے کے پاس تھا۔

    ’’اسے روکو۔‘‘

    بیٹا خاموش رہا۔

    ’’اسے سمجھنے کی کوشش کرو‘‘

    ’’بیٹے نے اس بار بھی اپنی نظریں جھکائے رکھیں۔‘‘

    بڈھے کے چہرے پر تناؤ تھا۔

    ’’میں تمہارا باپ ہوں۔ تم سے ایک نسل بڑا۔ پھر مت کہنا کہ مجھے خبر نہ ہوئی۔ اس نے آزادی چاہی۔ اسے آزادی ملی۔ وہ آزادی جو مجھے اور تمہیں نہیں ملی تھی۔ تم اسے روکتے، وہ تب بھی نہیں رکتا، تم اسے بندشوں میں جکڑنے کی کوشش کرتے، تو وہ یہ زنجیریں توڑ دیتا۔ کیونکہ وہ بہر صورت تمہاری طرح بزدل نہیں ہے۔ ایک معمولی محبت کے لئے بھی بغاوت نہیں کرنے والا۔ سن رہے ہو، نا۔‘‘

    بات ویسے ہی سر جھکائے فائلوں میں مصروف رہا۔

    بڈھے نے کہنا جاری رکھا۔ ’’اس نے سب سے پہلے اپنی حدیں توڑیں۔ سمجھ رہے ہونا، حدیں۔ وہ گھر سے باہر رہا۔ ساری ساری راتیں باہر۔ شراب، جوئے اور لڑکیوں میں۔ لیکن یہ سب وہ باتیں تھیں جو بہت آؤٹ ڈیٹیڈ تھیں۔ یعنی جن کے بارے میں زیادہ باتیں کرنا تمہارے جیسے لوگوں کے لئے تضیع اوقات ہے۔ اس نے اپنی اڑان جاری رکھی۔ بال منڈوائے، گودنے گدوائے، الٹی ٹوپی پہنی اور زمانے بھر سے الٹا ہو گیا۔ تم سمجھ رہے ہو میں کیا کہہ رہا ہوں۔‘‘

    بیٹا ویسے ہی مصروف رہا، جیسے بڈھے کی باتیں اس کے سمجھ میں نہیں آ رہی ہو۔۔۔

    ’’میں نے سمجھا ہے انہیں۔ تم سے زیادہ۔ اس لئے کہ پل پل میں تم سے زیادہ ان کے قریب رہا ہوں۔ سنو۔ غور سے سنو۔ یہ بہت تیز طرار ہیں۔ غضب کے اڑان والے۔۔۔ انہیں زندگی اور وقت پر بھروسہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ وقت سے پہلے کر لینا چاہتے ہیں۔۔۔ ہم اور تم تھوڑا تھوڑا کر کے سفر آگے بڑھاتے تھے۔ اس لئے عمر کا ایک بڑا حصہ ڈھل جانے کے بعد بھی ہمارے پاس بہت وقت رہ جاتا تھا۔ مگر ان کے پاس۔‘‘

    بڈھے کا لہجہ ڈراؤنا تھا۔ ’’جب یہ سب کچھ کر لیں گے تو؟ یعنی اس چھوٹی سے عمر میں ہی۔۔۔ تو باقی عمر کا کیا کریں گے یہ؟ بڈھا کھانس رہا تھا۔ غم اسی بات کا ہے کہ یہ باقی عمر کی پرواہ نہیں کریں گے۔ مت سنو تم۔ جہنم میں جاؤ۔‘‘

    *

    پوتے کے اندر آنے والی یہ وہ تبدیلیاں تھیں، جس کے بعد بڈھے نے خود سے سوال کرنا چھوڑ دیا۔ کہ آخر اس میں (پوتے) ایسا کیا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے۔ بڈھا کے پاس اپنے پوتے کی ذہنی سطح کے لئے بس ایک ہی جملہ تھا۔۔۔ یعنی ہیجان کی آخری سطح۔ !

    اس کے بعد؟

    بڈھے کو سوچ سوچ کر خوف آتا تھا۔ بڈھے کے اندر پوتے کے لئے اب رقابت نہیں بلکہ ترحم کا جذبہ جاگ اٹھا تھا۔ اسے رہ رہ کر پوتے پر افسوس آتا تھا۔ اس دن پوتے کے ساتھ ایک نئی لڑکی تھی۔ پوتا لڑکی کے ساتھ کمرے میں بند ہو گیا۔ بڈھے کی آنکھوں میں ایک پل کو شعلہ سا چمکا۔ پھر پتہ نہیں کیا سوچ کر یہ شعلہ بجھ سا گیا۔

    لڑکی کے جانے کے بعد وہ پوتے کے پا س آیا۔

    ’’کون تھی یہ لڑکی؟‘‘

    ’’نہیں معلوم‘‘

    ’’تمہارے ساتھ پڑھتی ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’دوست ہے؟‘‘

    ’’شاید۔ نہیں۔‘‘

    ’’کنفیوزڈ ہو تم۔ ورنہ اتنی چھوٹی سی بات کے لئے ’’شاید‘‘ اور ’’نہیں‘‘ کا سہارا نہیں لیتے۔

    ’’تم نے کیا سمجھا، کون ہے یہ؟‘‘ پوتے نے پلٹ کر پوچھا۔

    ’’میں نے سمجھا، شاید تمہاری سپاٹ زندگی میں ایک کرن چمکی ہے۔‘‘

    ’’تم بڈھے ہو گئے ہو۔‘‘

    ’’نہیں۔ مجھے تم پر ترس آتا ہے۔‘‘

    ’’مجھ پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

    ’’ضرورت ہے۔۔۔ بڈھے کو مزہ مل رہا تھا۔ اس لئے کہ اگر وہ لڑکی وہی ہوتی، جیسا میں نے سوچا تھا۔ تو۔‘‘

    ’’تو کیا؟‘‘

    ’’اب سوچتاہوں۔ تمہارے باپ کے زمانے میں، میں کتنا غلط تھا۔ بہت ممکن تھا، وہ محض ایک پیسہ کمانے والی مشین ثابت نہیں ہوتا۔ آدمی، ایک متوازن آدمی ہونا بہت مشکل کام ہے اور یقیناً محبت یہ کر سکتی ہے۔‘‘

    ’’محبت۔ شٹ۔۔۔‘‘ پوتے کے ہونٹوں میں مضحکہ خیز ہنسی تھی۔

    ’’نہیں۔ تم نہیں جانتے کہ ابھی ابھی جو لڑکی تمہارے کمرے سے نکل کر گئی ہے۔ تم اس کے نزدیک کیا تھے۔ سنو، تم لوگوں نے مجھے اتنا ایڈوانس تو بنا ہی دیا ہے کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں، تم اس لڑکی کے لئے صرف ایک اسٹریپر تھے۔ ایک میل اسٹریپر۔‘‘

    بڈھا ہنسا۔ ’’مجھ پر غصہ نہیں ہو۔ اپنے آپ کو سمجھو۔ ورنہ اندر کا یہ اندھیرا تمہیں تباہ کر دےگا۔۔‘‘

    پھر وہ ٹھہرا نہیں۔ تیزی سے باہر نکل گیا۔

    اور اس کے ٹھیک دو ایک روز بعد ہی رات کے اندھیرے میں بڈھے نے محسوس کیا، پوتے کے کمرے سے تیز تیز سسکیوں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔

    (۵)

    اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد۔۔۔ بڈھا ایک بار پھر اپنے مصروف بیٹے کے سامنے کھڑا تھا۔

    ’’سنو، وہ چپ ہو گیا ہے۔‘‘

    بیٹا شانت تھا۔

    ’’وہ کچھ بولتا نہیں۔‘‘

    بیٹا بے اثر رہا۔

    ’’وہ کھویا کھویا رہنے لگا ہے، وہ راتوں کو روتا ہے۔ ساری ساری رات جاگتا رہتا ہے۔

    بیٹے نے ذرا سی نگاہ اوپر اٹھائی۔

    ’’آپ ذرا سی بات کو طول دے رہے ہیں۔ اس میں نیا کیا ہے؟‘‘

    ’’نیا ہے آہ!تم ابھی بھی نہیں سمجھے۔۔۔ بڈھا فرط حیرت سے چلّایا۔ وہ سب کچھ کر گزرا ہے اپنی اس چھوٹی سی عمر میں۔ جو ہم تم اتنی عمر گزار کر بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔

    ’’یہ نئی نسل ہے۔ جیٹ رفتار۔ یہ ایسی ہی ہے۔‘‘بیٹے کی آواز بوجھل تھی۔۔۔ ’’نہیں۔‘‘ بڈھا غصے سے اچھلا۔ اس نسل کے پاس سے فنتاسی ختم ہو گئی ہے اور فنتاسی کو پانے کے لئے یہ نسل کچھ بھی کر سکتی ہے۔

    ’’مثلاً‘‘

    ’’یہ نسل آتنک وادی بن سکتی ہے۔‘‘

    ’’یہ بھی نہ ہو، تو؟‘‘

    ’’سنو، ہیجان کی آخری منزلوں میں، یہ نسل کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔ تمہاری بھی۔

    ’’اور اگر یہ دونوں ممکن نہیں ہوا تو‘‘

    ’’آخری فنتاسی کے طور پر یہ اپنی جان لینا چاہے گی یعنی خودکشی؟‘‘

    بڈھا کمرے سے نکل گیا تھا۔

    بیٹا پہلی بار حیران سا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔

    (۶)

    پوتے کے ہاتھوں میں چرمی بیگ تھا۔ جس میں اس نے ضروری کپڑے، سامان وغیرہ رکھ لئے تھے، جو آگے کے سفر میں اس کے کام آ سکتے تھے۔ اس نے ایک ڈھیلا ڈھالا ’’پیڈل پشر‘‘ پہن رکھا تھا۔ فل جینس کی جگہ ایک آدھی پھٹی ہوئی ہاف جینس تھی۔ آنکھوں میں ایسی انوکھی چمک تھی جسے بڈھا اور بیٹا پہلی بار دیکھ رہے تھے۔

    ’’تو تم نے ارادہ کر لیا ہے، بیٹے کا لہجہ اداسی سے پر تھا۔

    ’’ہاں، یہ ہم تمام دوستوں کا ارادہ ہے۔‘‘

    ’’تم کتنے لوگ جا رہے ہو۔‘‘

    ’’ہم پانچ چھ دوست ہیں۔‘‘

    ’’صرف لڑکے۔‘‘

    ’’نہیں ایک لڑکی بھی ہے۔‘‘

    ’’وہاں برف کے گلیشیر بھی ہوں گے۔‘‘ باپ کے لہجہ میں تھرتھراہٹ تھی۔

    ’’ہم گلیشیر کی نچلی سطح پر پانی جمع ہوتا ہے۔ یخ پانی، کبھی بھی وہاں اچھے بھلے آدمیوں کی بھی قبر بن جاتی ہے۔‘‘ بڈھے کا لہجہ پوتے کو سفر کے ارادے سے روکنے کا تھا۔

    پوتے کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔۔۔ ’’ہم کبھی گلیشئر کو پگھلتے نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’تم لوگ سب سے پہلے کہاں جاؤ گے، ۔ باپ کے لئے یہ جاننا ضروری تھا۔

    یہ ایک اسیکی رسارٹ (Ski-Resort) ہے۔ ہم برف کی کسی ایک اونچی چٹان پر کھڑے ہو جائیں گے۔۔۔ وہاں سے رسی کا ایک سرا مضبوطی سے ان چٹانوں میں باندھ دیں گے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا۔‘‘ پوتا دلچسپی سے اپنے کھیل کے بارے میں بتا رہا تھا۔ آئس ہاکی یا اسکٹینگ جیسے کھیلوں سے بھی لوگ اکتا چکے ہیں۔ رسی کا دوسرا سرا ہم اپنے جسم میں باندھیں گے اور اونچائی سے برف کی آغوش میں لیں گے۔ ایک لمبی اندھی چھلانگ۔۔۔‘‘

    بڈھے نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں۔ بیٹے کے بدن میں تھرتھری ہوئی۔

    ’’لیکن اس میں خطرہ تو ہے۔ اس میں تو بہت سے لوگ مر بھی جاتے ہوں گے۔‘‘

    ’’ہاں ایسا بہت ہوتا ہے۔‘‘ پوتے کے ہونٹوں پر ہنسی تھی۔ اس نے بہت عام انداز میں اپنا جملہ پورا کیا۔۔۔ مرنا جینا تو لگا رہی رہتا ہے۔ لیکن ہے یہ ایک دلچسپ کھیل، ایک لاجواب فنتاسی۔‘‘

    بڈھے نے بس اتنا پوچھا۔

    ’’کب جاؤگے؟‘‘

    ’’کل صبح ہونے سے پہلے ہی ہم لوگ نکل جائیں گے۔‘‘

    ’’یعنی ایک دن ہمارے پاس ہے۔ بڈھا دھیرے سے بڑبڑایا۔۔۔ ایک دن۔ بس ایک دن۔ پھر۔ ایک اندھی چھلانگ۔ موت کی چھلانگ۔ پوتا اگر واپس نہیں لوٹتا ہے تو۔‘‘

    بڈھے نے اپنے آپ سے پوچھا۔

    ’’اس کے (بڈھے) کے پاس ایسا کیا ہے جو پوتے کے پاس نہیں تھا۔‘‘

    (۷)

    رات ہوئی۔ بڈھا چپ چاپ چلتا ہوا پوتے کے کمرے میں آیا۔

    ’’چلو، کالونی کی چھت پر چلتے ہیں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’وہیں سوئیں گے، بات کریں گے۔‘‘

    ’’لیکن بات یہاں بھی تو ہو سیتل ہے۔‘‘

    ’’نہیں وہاں چھت ہوگی، کھلی کھلی چھت۔۔۔ سرپر آسمان ہوگا۔ کھلا آسمان، تم نے برسوں سے آسمان دیکھا ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’میں نے بھی نہیں دیکھا۔ یہ سب شہر کی ہجرت کے راستے کھو گئے۔ نیلا آسمان۔ ستاروں کی چادر، چمکتا ہوا دودھیا چاند، بہتی ہوئی تیز ہوا اور۔

    ’’فولڈنگ لے چلوں؟‘‘

    ’’نہیں چادر بچھا لیں گے۔‘‘

    *

    بڈھے نے چادر بچھا لی۔ بڈھا اور پوتا کالونی کی چھت سے کچھ دیر تک شہر کا نظارہ کرتے رہے۔ یہاں سے شہر کیسا نظر آتا ہے۔ دور تک چمکتی ہوئی روشنیوں کی قطار۔ کالونی کے بند فلیٹ میں یہ چمک ایک دم سے دفن کیوں ہو جاتی ہے !

    ’’پوتے نے ٹوکا۔۔۔ یہاں کیوں لائے؟‘‘

    ’’تمہیں کیا لگا؟‘‘

    ’’مجھے لگا، اپدیش دوگے۔ روکو گے۔ زندگی، موت اور گھر کا واسطہ دوگے۔۔۔‘‘

    ’’ایسا کرنے سے کیا تم رک جاتے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’اس لئے بس تم سے باتیں کرنے کے لئے ہی ہم چھت پر آئے ہیں۔ کیونکہ یہ باتیں ہم کمرے کے اندر نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

    پوتے کو الجھن تھی۔ کون سی باتیں؟‘‘

    ’’کل تو تم چلے ہی جاؤگے۔ اور ایک وہ تمہارا مصروف باپ ہے۔۔۔ کسی سے کچھ بھی بات کرنے کے لئے مجھے بس آج کی ہی رات ملی ہے۔ تم چلے گئے تو پھر باتیں کرنے کے لئے میرے پاس کون ہوگا؟

    پوتا لیٹ گیا۔

    بڈھے کو کچھ یاد آ رہا تھا۔ چھت پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ بڈھا کسی خیال میں گم تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ کچھ یاد کرنا شروع کیا۔

    ’’جب ہم چھوٹے تھے تب دنیا اس قدر نہیں پھیلی تھی۔ تب ہمارے پاس وقت ہی وقت تھا۔ دیکھنے، محسوس کرنے اور گزارنے کے لئے وقت ہی وقت۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے بہتوں کو وقت کا استعمال کرنے بھی نہیں آتا تھا کہ اتنا ڈھیر سارا وقت۔ آگے دور تک پھیلی عمر کی سیڑھیاں۔ اتنا بڑا خاندان۔ اتنے سارے رشتے دار۔ آتے جاتے لوگ۔ نصیحتیں، ڈانٹ پھٹکار اور بس بات ہی بات۔ نہ بات ختم ہوتی تھی نہ مکالمے کم پڑتے تھے۔ تب دن بھی لمبے تھے۔ راتیں بھی۔ مہینے اور سال تو بہت لمبے ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ ہر روز گننے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتے تھے۔‘‘

    پوتے نے پہلو بدلا۔

    ’’ایک ابا تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر ڈانٹ دیتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر غصہ ہو کر پیٹ دیتے تھے۔ میں روتا ہوا اماں کے پاس آنچل میں سمٹ جاتا تھا۔ کچھ دیر بعد ابا مجھے نہ پاکر مجھے ڈھونڈھتے ہوئے اماں کے پاس پہنچ جاتے۔ کہیں دیکھا ہے اپنے منے کو۔ اماں کی یہی غلطی تھی۔ اماں کے اندر کوئی بات نہیں پچتی تھی۔ اماں ہنس دیتی تھیں۔ ابا مجھے سینے سے لپٹا لپٹا کر پیار کرتے۔ مارنے کے عوض مجھے ٹافیاں انعام میں ملتیں۔‘‘

    پوتے نے اس بار دادا پر اپنی نگاہیں پیوست کر دیں۔۔۔

    ’’ایک دن میں کھیل رہا تھا۔ گاؤں، قصبے اور چھوٹے شہروں میں ان دنوں کھیل ہی کیا تھے۔ گلی ڈنڈا۔ گلی زور کا جھٹکا کھاتی میری آنکھوں کے پاس لگی تھی۔ ڈھیر سا خون نکلا تھا۔ مجھے یاد ہے۔ اس رات۔۔۔ ساری رات، سارا گھر مجھے گھیر کر بیٹھا تھا۔ ابا کو اتنا گھبرائے ہوئے میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔‘‘

    *

    ’’چپ کیوں ہو گئے؟‘‘ یہ پوتے کی آواز تھی۔

    ’’یاد کر رہا ہوں‘‘۔۔۔ بڈھے کا لہجہ بھاری تھا۔

    ’’اس وقت کے لوگ کتنے جذباتی تھے۔ جذباتی۔۔۔ پوتے کے لہجے میں آہ تھی۔

    ’’بہت کچھ یاد آ رہا ہے اور سناتے ہوئے اچھا بھی لگ رہا ہے۔ آج تمہیں سب کچھ سناؤں گا۔ مگر تمہیں نیند آ گئی تو؟‘‘

    ’’نہیں تم سناؤ۔ نیند نہیں آئےگی۔‘‘

    ’’اچھا سنو، کیسی کیسی شرارتیں یاد آ رہی ہیں۔ پرانا گھر۔ دنیا بھر کے لوگ۔ معصوم شرارتیں۔ پٹنے کے واقعات۔ اسکول کے قصے۔ اچھا، پہلے تم بتاؤ۔‘‘

    بڈھے نے گھور کر پوتے کو دیکھا۔

    ’’یہ سب قصے جو میں نے تم کو بتائے، کس دور کے ہیں۔‘‘

    ’’مطلب؟‘‘ پوتا چونک کر بولا۔

    ’’میں نے پوچھا ہے۔ یہ سب قصے میرے کس زمانے کے ہیں۔‘‘

    ’’میں نے سمجھا نہیں۔۔۔‘‘

    ’’میرا مطلب ہے، یہ قصے کب کے ہو سکتے ہیں؟‘‘

    پوتے نے جلدی سے کہا۔ ’’بچپن کے۔‘‘

    دوسرے ہی لمحے اس کے ہونٹوں پر ایک افسردہ سی مسکان تھی۔ ’’میں نے بچپن نہیں دیکھا۔‘‘

    بڈھے نے چونک کر پوتے کو دیکھا، جو مسلسل ایک ٹک آسمان کو گھورے جا رہا تھا۔

    (۸)

    دوسرے دن پوتا چلا گیا۔

    اس کے جانے کے بعد بڈھا خاموشی سے چلتا ہوا، بیٹے کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ بیٹے کا سر ابھی بھی جھکا ہوا تھا۔

    ’’وہ چلا گیا۔‘‘بڈھے کی آواز بھاری تھی۔ تم اسے روک سکتے تھے۔‘‘

    ’’کیا وہ رک جاتا؟‘‘

    بڈھا اچانک چونک پڑا، اسے ایک لمحے کو بیٹے پر ترس آیا۔۔۔

    ’’وہ رک جاتا، کیا تمہارے ذہن میں پہلے کبھی یہ خیال آیا تھا؟‘‘

    ’’کہہ نہیں سکتا۔ لیکن کیا ساری غلطی؟‘‘بیٹا کہتے کہتے ٹھہر گیا۔ اس نے عجیب نظر سے بڈھے کو دیکھا۔

    بڈھے کے چہرے پر ایک خوشگوار حیرت تھی۔

    ’’نہیں غلطی کسی کی نہیں ہے۔ شاید وہ تمہارے کہنے سے بھی نہیں رکتا۔ اس لئے کہ بہت دیر ہو چکی تھی۔‘‘

    ’’دیر ہو چکی تھی؟ بیٹا کسی لمبے، ’’محاسبے‘‘ کے پل سے ایک لمحے کو گزر گیا۔۔۔

    ’’ہاں، کیونکہ تم دیکھنے میں تو خاموش لگ رہے تھے۔ لیکن تم ہر بار ہمارے، پوتے کے اور اپنے تجزیے میں مصروف تھے۔۔۔ اور یہی تم غلطی کر رہے تھے۔ جبکہ ہم آسان سی زندگی گزار رہے تھے۔‘‘

    بیٹا نے اور زیادہ سر جھکا لیا۔۔۔

    ذرا توقف کے بعد وہ بولا۔ ’’کیا وہ واپس آئےگا۔۔۔؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔‘‘

    بڈھے کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ وہ چپکے سے کمرے سے نکل گیا۔۔۔ لیکن اس کا دماغ ابھی بھی پوتے میں الجھا ہوا تھا۔ جیسے ابھی، اس وقت وہ کیا کر رہا ہوگا۔

    (۹)

    وہ پانچ چھ نوجوان تھے۔ سرتا پا گرم کپڑوں سے ڈھکے ہوئے۔ پاؤں میں ان فیلش، کے نئے اور ایسے ماڈرن جوتے تھے جو آج کل کے بچے ایسی تفریح گاہوں کے لئے استعمال کرتے تھے۔ برف پر چلنے یا برفیلی چٹانوں پر چڑھنے میں اس سے آسانی ہوتی تھی۔۔۔ ان میں پوتا بھی تھا۔۔۔ ان کے چہروں سے ان کا جوش اور ارادہ ٹپکتا تھا۔ آگے کی منزل کچھ بھی ہو سکتی تھی۔ بہت ممکن ہے، موت کی منزل۔ مگر یہ خوف زدہ نہیں تھے۔ ان میں سے کوئی بھی موت کی بات نہیں کر رہا تھا۔ اس کے برخلاف ان کا چہرہ کسی ایسے شگفتہ پھول کی مانند ہو رہا تھا جو موسم سرما یا بہار کی آمد یا دھوپ کی پہلی کرن سے اچانک کھل اٹھا ہو۔۔۔

    پوتے کے چہرے پر جنگلی پودوں جیسی شادابی تھی۔ ’’وہ لمحہ کب آئےگا۔۔۔؟‘‘

    قافلے میں موجود وہ واحد لڑکی تھی۔ لڑکی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ’’وہ لمحہ آ چکا ہے۔ وہ دیکھو۔‘‘

    *

    برف کی اونچی چوٹیوں سے انہوں نے نیچے کی طرف جھانکا۔ ہزارو ں فٹ نیچے کی گہرائی میں برفانی ندی، موجوں کے الہڑ رقص میں محو حیراں تھی۔ دور تک برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں اب پراسرار معلوم نہیں ہو رہی تھیں۔ نوجوانوں نے گننا شروع کیا۔۔۔ جہاں وہ کھڑے تھے، اس کے اطراف پہاڑوں کی اٹھ1 رہ بیس چوٹیاں ہوں گی۔ پوتا اور ساتھی ان سرکاری اشتہاروں کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے آئے تھے جو ان کے قدموں کو آگے کے خطرات سے روکنے کے لیے لگائے گئے تھے۔

    انہوں نے اپنے اپنے چرمی بیگ اتارے، کپڑوں کا بھاری بھرکم وزن کم کیا۔ برفیلی چٹانوں سے گزرتی۔ یخ ہوائیں سنسناتی ہوئی بدن سے ہو کر گزر رہی تھیں۔ انہوں نے جوتے اتارے۔۔۔ چرمی بیگ سے ہزاروں فٹ گہرائی تک لے جانے والی رسیاں کھولی گئیں۔ ان کے چہرے ایسے چمک رہے تھے جیسے برفانی پہاڑیاں دھوپ کی کرن سے جگمگا اٹھتی ہیں۔

    ’’ہم یہاں پہلے کیوں نہیں آئے؟‘‘

    گھانسوں پر اگے ہوئے خود رو پھول ہنس رہے تھے۔ کائی دار پہاڑیوں کے کنارے سرخ اسٹابیری کی جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ پہاڑ کے اس پار سے برفیلی ہوائیں پگھلے گلیشیرس اور پتھروں سے گزر کر نیچے بہتی ہوئی ندی میں پہنچ رہی تھیں۔ برف گلیشیر میں پتلی پتلی دھاروں میں تبدیل ہو رہے تھے۔

    ’’اب بہت دیر ہو رہی ہے۔ مجھے رہا نہیں جاتا۔‘‘ پوتے کے چہرے پر ایک سفاک مسکراہٹ تھی۔

    ’’نیچے پہلے کون جائےگا۔۔۔؟‘‘

    ’’پہلے میں۔‘‘

    لڑکی نے بے دھڑک رسی کا ایک سرا اپنے کمرے سے بندھی ہوئی آئرن بیلٹ سے جوڑ لیا تھا۔

    ’’نہیں تم نہیں۔‘‘ دوسرے ساتھی نے لڑکی کا ہاتھ تھام لیا۔

    ’’کیوں؟ لڑکی کے چہرے پر خفگی تھی۔

    ’’کیوں کہ اس ایڈونچر پر سب سے پہلا اختیار میرا ہے۔‘‘

    رسی کا سرا اب پوتے کے ہاتھ میں تھا۔ ’’کیوں کہ یہ آئیڈیا بھی میرا تھا۔ تم لوگوں کو یہ آئیڈیا سب سے پہلے میں نے ہی بتایا تھا۔‘‘

    ایک برفیلی لہر بدن کو چیرتی گزر گئی۔ ہزاروں فٹ نیچے کھائی ہیں، پگھلتے ہوئے، گلیشیر ندی کے پانی میں گھل رہے تھے۔

    *

    لڑکی کا چہرہ بجھ گیا تھا۔ اپنی اپنی باری کے انتظار میں سب امید بھری نظروں سے پوتے کو دیکھ رہے تھے، جس نے رسی کا ایک سرا پہاڑی کے ایسٹ پول میں پھنسا کر، دوسرا سرا اپنے آئرن بیلٹ سے جوڑ لیا تھا۔ اب وہ چمکتی نگاہوں سے، چمکتی برفیلی چٹانوں اور اپنے دوستوں کا چہرہ پڑھ رہا تھا۔

    ’’اچھا مان لو، تم واپس نہیں آئے تو؟‘‘ ایک ساتھی نے مسکرا کر دریافت کیا۔

    ’’کیا واپس آنا ضروری ہے؟‘‘ پوتے کے لہجے میں ہنسی تھی۔

    ’’نہیں‘‘ دوست شرمندہ تھا۔

    ’’پھر ہم کہاں ملیں گے؟‘‘

    ’’کیا پھر ملنا ضروری ہے۔۔۔؟ پوتا اس بار زور سے ہنسا۔

    ’’نہیں‘‘

    ’’لیکن! اس کے باوجود ہم ملیں گے۔ اگر واپس نہیں آئے تو؟‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    پوتے نے اشارہ کیا۔ ’’وہاں۔۔۔ گلیشیرس میں۔۔۔ ٹھنڈی موجوں میں۔۔۔ بہتے پانی میں اور چمکیلی برف میں۔‘‘

    پوتے نے اس بار ہنسنے سے پہلے ہی چھلانگ لگا دی۔

    نیچے ہزاروں فٹ کھائی میں، گلیشیر ابھی بھی پگھل پگھل کر ندی میں گھل رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے