داغ محبت
رنڈیاں کبھی وفا نہیں کرتیں استاد کے منھ سے یہ جملہ سن کر میں کلاس روم میں انتہائی حیرت و استعجاب کے عالم میں چند ساعت کو کسی گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ استاد محترم کا سراپا میری نظروں کے سامنے ایک لمحے کے لیے اوجھل سا ہو گیا۔ یہ جملہ ان کے ادبی مزاج اور خاندانی شرافت کے بالکل ہی خلاف تھا۔ چوں کہ میں انہیں بہت قریب سے جانتا تھا اس لیے یہ جملہ میری سماعت پر گراں گزرا، بعد کی تفصیلی گفتگو کے چند اقتباس ذہن میں باقی رہ گئے۔ اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ منٹو کا وہ کون سا افسانہ تھا جسے پڑھاتے ہوئے استاد کو ایسا تلخ تبصرہ کرنا پڑا؟
زندگی نے تھکا دینے والا ایک طویل سفر طے کیا۔ میں یوں تو طبیعتاً ادبی دنیا کا آدمی تھا اردو ادب سے شغف رکھتا تھا لیکن ماں باپ اور بھائی بہنوں کے اصرار نے مجھے ڈاکٹر بننے پر مجبور کر دیا۔ کالج سے ڈاکٹری کی ڈگری لینے کے بعد میں گاؤں واپس آ گیا۔ پھر گاؤں سے چند میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے شہر میں ایک کلینک کی بنیاد رکھی۔ اس کلینک کی شروعات ایک پرانے خستہ حال مکان سے ہوئی۔ میری سخت محنت کام کے تئیں میری لگن کامیاب ہونے کی دھن ساتھ ساتھ ماں باپ اور استاد کی دعائیں کام آئیں اور یہ چھوٹا سا کلینک دھیرے دھیرے ایک اسپتال میں تبدیل ہو گیا۔
میرا کام چل پڑا تھا۔ صبح و شام مریضوں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ میں اندر والے کمرے میں بیٹھتا تھا۔ ایک دن صبح صبح کلینک کھلنے کے کچھ دیر بعد کمرے کا دروازہ دھیرے سے کھلا ایک ادھیڑ عمر کی عورت اندر آئی۔ مجھے عورت کی حالت دیکھ کر تشویش لاحق ہوئی۔ وہ سخت علیل نظر آ رہی تھی اور بری طرح کانپ رہی تھی اس پر رہ رہ کر کھانسی کے دورے پڑ رہے تھے۔ زمین پر اس کا قدم رکھنا محال تھا۔ ساتھ میں ایک جوان لڑکی بھی تھی۔ ایک پرانا تھیلا اور ایک خستہ حال بیگ ہاتھ میں لٹکائے ہوئے دونوں اندر آکر ایک ٹیبل پر خاموشی سے بیٹھ گئے۔ ایک نوجوان بھی ساتھ تھا۔ نوجوان دروازے تک چھوڑ کر واپس جانے لگا۔ میں نے کہا اندر آئیے، کہنے لگا پھر کبھی آؤں گا ابھی جلدی میں ہوں، آپ انہیں دیکھ لیجئے دفتر کو دیر ہو رہی ہے۔
میں نے معمولی چیک اپ کے بعد انہیں مطب کے باہر برآمدے میں بٹھایا اور کمپاونڈر کو ایک بیڈ خالی کرانے کا حکم دیا۔ چوں کے اندر چند پرانے مریض پہلے سے موجود تھے جنہیں مجھے روز صبح دیکھنا ہوتا تھا۔ میں میل نرس کو بلڈ پریشر چیک کرنے اور دیگر روٹین ورک پورا کرنے کی تاکید کر کے دوسرے مریضوں کو دیکھنے میں لگ گیا۔ بوڑھی عورت کی حالت اچانک بگڑنے لگی اس کے ساتھ آئی لڑکی بھاگی ہوئی اندر آئی اور کہنے لگی ڈاکٹر صاحب اماں مر رہی ہے جلدی چل کر دیکھ لیجئے۔ میں بھاگا ہوا آیا چند ضروری اقدامات کیے گئے، مریضہ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی۔ اللہ جانے میرے ساتھ یہ کیسی آزمائش تھی میری کلینک میں یہ پہلی موت تھی مجھے بے حد صدمہ ہوا۔
میت کی تدفین یہیں سے عمل میں آئی۔ وہ جہاں کہیں رہتی تھی وہاں سے کرایہ نہ دینے کے سبب نکال دی گئی تھی۔ ماں کے انتقال کے بعد وہ زاروقطار رونے لگی اپنی جگہ سے ٹلنے کا نام نہ لیتی کہنے لگی اب میرا کوئی نہیں ہے میں کہاں جاؤں؟ باپ پہلے ہی مر چکا ہے کوئی بھائی بہن بھی نہیں؟ میں نے پوچھا وہ لڑکا کہاں گیا جو تمہارے ساتھ آیا تھا؟ کہنے لگی وہ تو ایک راہ گیر تھا ہمیں پہنچا کر واپس چلا گیا۔ اس نے اپنا نام وحیدہ بتایا۔ تھوڑی سی رسمی گفتگو اور چھان بین کے بعد میں نے کہا کوئی بات نہیں جب تک کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں ملتا تم یہاں رہ سکتی ہو۔ مجھے بھی کام کرنے والی ایک خوبرو اور حسین لڑکی کی ضرورت تھی۔ وہ انتہائی چست ہوشیار اور وقت کی پابند نکلی۔ چند ماہ بعد میں نے اسے میل نرس کے ساتھ کام پر لگا دیا۔ وہ بہت جلد کام سیکھ گئی۔ نئے مریضوں کا بہت خیال رکھتی لوگوں کے ساتھ محبت سے پیش آتی۔ بوڑھی عورتوں کمزور و لاغر بیماروں کی تیمارداری تو جیسے اس کی جبلت میں شامل تھی۔ رفتہ رفتہ مجھے اس سے انسیت سی ہونے لگی جو عام مردوں کی خوبصورت وفادار اور ذہین عورتوں کے تئیں ہوتی ہے۔ اب وہ میرے کام میں بخوبی ہاتھ بٹانے لگی تھی۔ دھیرے دھیرے یہ انسیت محبت میں بدل گئی۔ کسی کے لیے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی تھی کیوں کہ وہ پڑھی لکھی اور حسین و جمیل بھی تھی۔ والد صاحب کی ہلکی سی ناراضگی خاندانی روایت کی دہائی و دیگر شکایت کو میں نے سمجھا بجھا کر دور کر دیا۔ بھائی بہن اور دوست احباب کی تھوڑی بہت آنا کانی کے بعد ایک دن میں نے والدین کی مرضی اور سب کی راضی خوشی سے اس سے شادی کر لی۔
سال بھی نہیں گزرے تھے کہ اس کی حرکتیں شکوک و شبہات کو جنم دینے لگیں۔ ایک دن میرے ایک عزیز دوست نے جو مجھ سے بہت ہی بے تکلف تھے، برا مت مانیے گا کہتے ہوئے آہستہ سے انہوں نے میرے کان میں کہا۔ نظر رکھیے اور احتیاط کیجئے آپ کی بیگم چال چلن کی اچھی معلوم نہیں ہوتی ہیں؟ ظاہر ہے انہوں نے کافی دیکھ بھال خبر گیری اور نگرانی کے بعد ہی یہ جملہ کہا ہوگا۔ مجھے اپنے دوست کے بارے میں علم تھا وہ بغیر تحقیق کے کوئی بات منھ سے نہیں نکالتے۔ انہوں نے پہلے بھی کئی بار اشارہ کیا تھا وہ میرے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ آپ کو اشتباہ گزرا ہے کہتے ہوئے میں نے انہیں نظر انداز کر دیا حالاں کہ مجھے بھی اس سلسلے میں شک و شبہ کا احتمال تھا۔ وہ کچھ اور بولنا چاہتے تھے لیکن میں نے ان کے منھ پر انگلی رکھ کر انہیں چپ کرا دیا۔ گو کہ میری بیوی کی حرکتیں مجھے بھی چند مہینوں سے مشکوک نظر آنے لگی تھیں۔ لیکن میرے جہاں دیدہ دوست یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ بے توجہی برت رہے ہیں، بیزاری سے بات نہیں بنے گی، خیال رکھیے توجہ دیجئے؟ میں نے بھی دنیا دیکھی ہے کہتے ہوئے رخصت ہو گئے۔
جب یقین کے تار ٹوٹنے لگے تب بربط کی آواز میں جھنجلاہٹ پیدا ہونے لگی اور سروں میں وہ نغمگی باقی نہ رہی جو کبھی تھی۔ اسپتال کی رونق اور چہل پہل جو اس کے دم سے قائم تھی یک لخت ہی مذموم فضا میں بدل گئی۔ میں نے کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا مزید کچھ جاننے کی جستجو میں اس پر نظر رکھنے لگا وہ بھی شاید کسی حد تک سمجھ چکی تھی اس لیے اب احتیاط برتنے لگی وہ اس معاملے میں کافی ہوشیار ثابت ہوئی تھی۔
ایک دن پرانے ٹیبل کے دراز میں چند ضروری کاغذات کے اندر ایک خط میرے ہاتھ لگا جس میں محبوبہ کو اس کی شادی پر مبارکباد پیش کیا گیا تھا۔ ایک دو عشقیہ اشعار بھی لکھے ہوئے تھے کچھ شکایتیں بھی تھیں ایک فلمی گانا بھی لکھا تھا۔ خط چند ماہ پرانا معلوم پڑتا تھا بھول سے یہاں رہ گیا ہوگا کیوں کہ لاکھ چھپانے کے بعد بھی جرم اپنے نشانات چھوڑ جاتا ہے۔ پھر یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ تم نے اچھا مال پھنسایا ہے تم بھی غضب کی ایکٹر ہو؟ رونا دھونا تو کوئی تم سے سیکھے؟ تمہارے دام فریب میں بڈھا آخرکار پھنس ہی گیا۔ میرا نام اس حرامزادے نے بڈھا رکھا تھا میں کہاں کا بڈھا ٹھہرا؟ لیکن یقیناً عورت کی بے وفائی ایک نوجوان کو بہت جلد بوڑھا بنا کر چھوڑتی ہے۔
اب رات کی تنہائی میں گاہے گاہے وحیدہ کا اپنے عاشق سے باضابطہ ملنا جلنا شروع ہو گیا تھا۔ پہلے پہل یہ میرا قیاس تھا جو بعد میں سچ ثابت ہوا۔ پتہ نہیں کیوں اور کیسے بہت جلد اس کے دل سے میری محبت رخصت ہو گئی؟ حالاں کہ میں نے اس کی قدر کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی؟ یقیناً اس کا دل اس نوجوان کی محبت میں پہلے سے ہی لبریز رہا ہوگا؟ پھر میرے ساتھ یہ فریب کیوں؟ میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔ لازماً اسے مجھ سے شادی کے لیے منع کرنا چاہیے تھا۔
میں کئی ہفتوں سے دیکھ رہا تھا یہ عموماً سنیچر کی رات ہوتی تھی وہ گئے رات تک کلینک میں کچھ نہ کچھ صاف صفائی کا کام کرتی رہتی تاکہ میں سو جاؤں اور اس کا کام آسان ہو جائے۔ آج وہی طے شدہ رات آن پہنچی تھی۔ میں نے رنگے ہاتھوں اسے پکڑنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اس کا اطمینان حاصل کرنے کی خاطر طبیعت کے ناساز ہونے کا بہانہ بنا کر میں آج جلد ہی سو گیا۔
رات گزرنے کے بعد اندر آ کر اس نے مجھے کئی بار دیکھا جب اسے اطمینان حاصل ہو گیا تب میں نے اپنے بستر پر پرانی پڑی ایک رضائی کا انسانی ڈھانچہ بنا کر سر کے نیچے تکیہ لگا دیا اور نئی لحاف اوپر سے اڑھا دی اور متصل کمرے کے عقب میں صدر دروازے کے قریب ایک کباڑ کے اندر دبک کر بیٹھ گیا جسے میں نے صبح سے چھپنے کی خاطر درست کر رکھا تھا۔ میرے کمرے کے پیچھے کا ایک در اب تک دروازے سے بے نیاز تھا جہاں سے میں کمرے میں اپنے بستر کو آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔
انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی ہیں میں بیٹھے بیٹھے تھک گیا تھا۔ وہ اب تک کلینک میں کچھ کام کر رہی تھی جو اس رات اس کا معمول تھا۔ باہر مہیب سناٹا تھا گلی میں رہ رہ کر کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آ رہی تھیں پھر کچھ دیر کو خاموشی چھا جاتی۔ اچانک مجھے باہر ایک آہٹ سنائی دی میرا دھیان صدر دروازے کی جانب گیا۔ میں وحیدہ کے اٹھنے کا انتظار کرتا رہا قدرے انتظار کے بعد دستک دوبارہ ہوئی۔ مجھے تشویش لاحق ہوئی میں آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ ٹھٹھک کر رک گیا وحیدہ پاس ہی ایک بستر پر دوسری جانب رخ کر کے سو رہی تھی ممکن ہے کام کرتے کرتے تھک گئی ہو؟ محسوسات کی دنیا بھی عجیب ہوتی ہے خوف اور امید کے بیچ ڈر اور اندیشہ سے بھری دنیا، ایسی کوئی دنیا میں نے اب تک نہیں دیکھی تھی۔ میں دبے پاؤں کھڑکی تک پہنچ کر کھڑکی کا ایک پٹ آہستہ سے کھولا اور باہر جھانکا۔ گلی میں گھپ اندھیرا تھا۔ کچھ بھی تو نہیں ہے؟ شاید یہ میرا وہم تھا امکان ہے کوئی جانور رہا ہو، گلی کے کونے میں ایک بلی بیٹھی نظر آئی۔ مجھے گمان گزرا ممکن ہے آج کی ملاقات طے نہ ہو؟ تاہم میرے خیال کا سلسلہ اچانک ٹوٹ گیا۔ گلی کے نکڑ سے ایک تصویر سی ابھری پھر ایک ہیولا بڑھتا ہوا جلد ہی دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ میں نے کھڑکی دھیرے سے بند کر دی اور ڈرتے ڈرتے دھیمے دھیمے قدم اٹھاتا ہوا اپنی جگہ پر آ کر دوبارہ بیٹھ گیا۔
دروازے پر ہلکی سی ٹھک ٹھک ہوئی ایک دو بار مدھم سی زنجیر کی جنبش سنائی دی۔ پھر چند ساعت کی قدرے خاموشی کے بعد زنجیر کی لرزش ذرا تیز ہوئی۔ آج شاید انتظار کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ پھر ایک اور کھٹ کھٹ پر وہ چونک پڑی۔ دبے قدموں وہ میرے کمرے تک آئی میرے بستر کو غور سے دیکھا پھر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی دروازے تک پہنچی دھیرے سے دروازہ کھولا اور دروازے کا دونوں پٹ آرام سے بند کر دیا گیا، زنجیر چڑھا دی گئی اور روشنی گل ہو گئی۔ اس کے بعد بے صبری و عدم تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کی آغوش میں فوراً ہی سما گئے بعد ازاں بوس و کنار کی اذیت ناک صدا میرے کانوں کو لرزاں کرنے لگی۔ آج زندگی نے مجھے ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا تھا جہاں دل کی دھڑکنیں منجمد ہوئی جاتی تھیں، رگوں میں خون سرد پڑ رہا تھا۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں وہاں ہوں جہاں مجھ کو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میں اندھیرے میں نظریں جما کر اس لونڈے کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک عکس میری آنکھوں میں ابھرتا اور غائب ہو جاتا آہستہ آہستہ مجھے خیال آیا یہ تو شاید وہی لڑکا ہے جو اس دن ان دونوں کو میرے مطب میں چھوڑ گیا تھا اور دفتر کا بہانہ بنا کر نکل پڑا تھا۔ اس کے بعد ایک دو بار مطب میں اس پر میری نظر بھی پڑی۔ وہ جنازے میں بھی نظر آیا تھا لیکن میری مصروفیت اور کام کی عجلت اس کی تفصیل جاننے سے قاصر رہی۔
احتیاطاً ایک تیز خنجر میں نے اپنی کمر سے لگا رکھی تھی۔ کیا میں دونوں کو مار دوں یا کسی ایک کو ماروں؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ دونوں مل کر مجھے ہی مار ڈالیں؟ نہیں میں یہ جرم ہرگز نہیں کروں گا؟ مجھے ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے؟ میری ایک غلطی سے ساری زندگی کی محنت پر یکلخت ہی پانی پھر جائے گا؟ کسی کی بے وفائی پر ایک ڈاکٹر سے مجرم بننا مجھے بالکل اچھا نہیں لگا۔ میں نے اپنے جذبات کو قابو میں کیا اور صبر کا دامن تھام لیا۔ میں ابھی کچھ کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ لڑکا اچانک بول پڑا۔ کیا تم نے ابھی کھڑکی کھول کر گلی میں جھانکا تھا؟ نہیں تو؟ وحیدہ کی مدھم آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ لیکن میں نے کھڑکی کا پٹ بند ہوتے دیکھا ہے۔ وہ یہ سن کر گھبرا سی گئی۔ اسے شک گزرا اس نے میرے کمرے میں دوبارہ جھانکا میرا مصنوعی ڈھانچا بستر پر محو خواب تھا۔ پھر وہ اندر آئی میرے بستر کے سامنے چند ساعت کو خوفزدہ سی کھڑی رہی پھر ڈرتے ڈرتے اس نے میرے جسد خاکی کو ہلکے سے دبایا اور وحیدہ کو سب کچھ سمجھتے دیر نہ لگی۔ واقعی وہ میرا جسد خاکی ہی تھا جسے اس کی بے وفائی نے خاک میں ملا دیا تھا۔ وہ گھبرائی ہوئی واپس آئی اپنے عاشق کا بھروسہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو چند لمحے پرسکون رکھنے کی خاطر آہستہ سے بولی وہ تو سو رہے ہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ چلو چھوڑو میں بھی بڑا وہمی ہوں۔ زیادہ انتظار تو نہیں کرنا پڑا؟ نہیں بالکل نہیں، قدرے خاموشی کے بعد ایک تھکی تھکی سی ڈری ہوئی نسوانی آواز میرے کانوں میں ٹکرائی اور ان دونوں کی سرگوشی نے سارے راز افشاں کر دیے۔ وحیدہ کو لگا کہ آج اس کی چوری پکڑی گئی ہے۔ میں فطرتاً ڈرپوک واقع ہوا تھا قبل اس کے کہ میں کچھ سوچتا کچھ کرتا دروازے کا دونوں پٹ تیزی سے کھلا اور دونوں کے قدم خود بخود گلی کی طرف بڑھ گئے۔
میں ٹوٹ چکا تھا بکھر چکا تھا پھر بھی مجھے اپنے آپ کو سنبھالنا تھا۔ میں صبح دس بجے تھانہ پہنچا رپورٹ درج کرانا ضروری تھا۔ انسپکٹر نے خانہ پری کے کچھ ضروری سوالات کیے جس کا جواب دیتے ہوئے احسان مندی اور ایفائے وعدہ کا احساس دامن گیر رہا۔ پھر اس نے نجی امور اور ذاتی معاملات کے چند ایسے سوالات بھی پوچھے جس کا جواب دینا میرے لیے اس وقت نا ممکن تھا۔ میں سر جھکائے ہوئے چند لمحے کو کچھ سوچتا رہا پھر اچانک ہی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ یہ گویا کوئی لمبی داستان تھی جس کا مبہم منظر میرے ذہن میں بن رہا تھا اور مٹ رہا تھا۔ دیر تک میرے اوپر یہ احساس غالب رہا کہ میں نے کوئی خواب دیکھا ہے۔ شرمندگی و ندامت نے میرے چہرے کو مسخ کر دیا تھا میرے وجود کو ہلا مارا تھا۔
میں تھانے سے اغوا و گمشدگی اور اپنی بیوی کو بھگا لے جانے کی رپورٹ لکھا کر واپس آ رہا تھا۔ یہ اغوا و گمشدگی کی رپورٹ نہیں تھی ذلالت و خجالت کی رپورٹ تھی ذلت و رسوائی کے چیتھڑے میں لپٹی ہوئی۔ چہرے پر ندامت و شرمساری چھائی ہوئی تھی اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ تھانیدار جو ہمارے پاس اکثر علاج کی غرض سے آیا کرتا تھا جس سے میری اچھی شناسائی اور گہری دوستی تھی یکلخت ہی میری پشت پر اس کا بھاری ہاتھ محسوس ہوا، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ تھانیدار نے آہستہ سے میرے کان میں کہا جس نے پگڑی کی لاج نہیں رکھی اور آپ کی عزت خاک میں ملا دی اس کے لیے رویا نہیں کرتے بلکہ ایسی یادوں کو پیروں تلے روند ڈالتے ہیں۔
رات کے واردات کی خبر دوست احباب عزیز و اقارب اور آس پڑوس کو ہو چکی تھی۔ میں نے تھانے کے سامنے کھڑے انسانوں کے جم غفیر پر نظر دوڑائی گویا سب کو پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ساری دنیا مجھے مکار اور فریبی نظر آنے لگی۔ واقعی ہر چہرہ ایک الگ ہی کتاب تھا۔ میں سب کی نظر میں بے وقعت اور حقیر ہو چکا تھا۔ کسی سے نظر ملانے کی جرآت مجھ میں نہیں تھی۔ سڑک کے دونوں طرف چند دکاندار اور محلے کے لوگ جن میں کچھ عورتیں اور بچے بھی تھے خاموش کھڑے تھے۔ راستے کی ہر شئے بوسیدہ اور خستہ حال نظر آ رہی تھی اور سب کے سب بے وفائی و غداری کا نوحہ پڑھ رہے تھے۔
میں بوجھل قدموں سے تھانے کی سیڑھیاں اترتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ کیا یہ ایک سونچی سمجھی سازش تھی؟ ایک خواب تھا یا حقیقت؟ کیا میں آئندہ بھی ایسے خواب دیکھوں گا؟ ہرگز نہیں کبھی نہیں؟ مجھے دس سال قبل استاد کا کہا ہوا یہ فقرہ یاد آیا فاحشہ کبھی وفا نہیں کرتی میں نے دل ہی دل میں کہا ہر وہ چیز پائیدار نہیں ہوتی اور ہر وہ شئے وفا نہیں کرتی جو ایک سے زائد ہاتھوں میں چلی جائے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.