کہانی کی کہانی
یہ ایک خودنوشت کے اسلوب میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں ایک گوشت خور شخص کس طرح گوشت خوری ترک کر سبزی خور بن جاتا ہے، خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ لوگ اس پر شک کرنے لگتے ہیں کہ اس نے اپنا عقیدہ بدل دیا ہے، کیا گوشت خوری ترک کر دینے سے عقیدہ بدل جاتا ہے؟ افسانے میں ایک بنیادی سوال اٹھایا گیا ہے۔ حقیقت ہے وہ خلوص، محبت، پیار جو کسی جانور سے بھی ہو جاتا ہے اور بعض اوقات انسان اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہوتا ہے۔
انہیں شک ہے کہ میں نے اپنا عقیدہ بدل لیا ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں نے صرف گوشت خوری ترک کی ہے۔
دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو گوشت نہیں کھاتے یعنی ویجی ٹیرین ہیں ان کے پاس گوشت نہ کھانے کی اپنی اپنی وجوہات ہوں گی۔ ہو سکتا ہے بعض لوگ کسی عقیدے کے بنا پر گوشت نہ کھاتے ہوں۔ بعض کو ڈاکٹر نے پرہیز بتایا ہو۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کا نفسیاتی مسئلہ ہو گا۔ مثلاً میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں۔ ایک باربچپن میں جس کا زکام بگڑ گیا تھا اور اسے ہر چیز سے مردار کی بو آنے لگی تھی۔ ایسے میں اسے گوشت کی یخنی پلائی گئی تو اسے قے ہوگئی، کیونکہ اسے اس میں سے مردار کی بو آئی حالانکہ یہ بو اس کے اپنے اندر پیدا ہو گئی تھی مگر اس کا دل اس روز سے ہمیشہ کے لئے گوشت سے پھر گیا۔
لیکن میرا معاملہ بالکل مختلف ہے میں بچپن سے اب تک گوشت خوری کا بےحد شوقین رہا ہوں۔ حالانکہ خون میں یورک ایسڈ کی مقدار زیادہ ہو جانے کی وجہ سے مجھے کئی بار ڈاکٹروں نے اس سے پرہیز بتایا اور اس کے نتائج سے آگاہ کیا۔ مگر میں ان کی ہدایات پر کبھی پوری طرح عمل نہ کر سکا۔ مگر اب میں نے کچھ عرصہ سے گوشت خوری بالکل ترک کر دی ہے۔ تاہم اس کی وجہ عقیدے کے تبدیلی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ مجھے اصل بات اب بتا ہی دینی چاہیے تاکہ کسی قسم کی مزید غلط فہمی پیدا نہ ہو۔
قصہ دراصل یہ ہے کہ مجھے بچپن ہی سے مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق تھا اور میں نے چند ایک زبانیں سیکھیں بھی۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میرا جانوروں اور وہ بھی بھیڑ بکریوں کی زبان سیکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اسے بس اتفاق اور میری بدقسمتی ہی سمجھئے کہ میں یہ زبان بلا ارادہ سیکھ گیا۔ ان دنوں ہم گاؤں میں رہتے تھے اور جہاں ہمارا گھر تھا وہاں پچھواڑے میں بھیڑبکریوں کا ایک باڑہ تھا۔ میں رات کو دیر تک سکول کا کام کرتا اور جاگتا رہتا اور بھیڑ بکریوں اور ان کے میمنوں کی آوازیں سنتا رہتا۔ دو ایک بار اندھیری رات میں بھیڑیا باڑے میں گھس آیا اور ایک آدھ بھیڑ اٹھا کر لے گیا۔ جس کے بعد بھیڑ بکریاں اور میمنے ہر وقت ڈرے ڈرے او سہمے سہمے رہنے لگے۔ خصوصاً گرمیوں کی تاریک راتوں میں بھیڑیوں کے خوف سے بھیڑ بکریاں رات رات بھر ممیاتی رہتیں۔ میں لیمپ بجھا کر سونے کی کوشش کرتا مگر ان کی آوازیں اور سرگوشیاں مجھے سونے نہ دیتیں پھر پتہ نہیں کیسے خود بخود ان کی زبان میری سمجھ میں آنے لگ گئی۔ رات بھر میمنے اس قسم کی باتیں کرتے رہتے،
’’ماں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘
’’ماں مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
’’ماں دن کب نکلے گا۔‘‘
’’ہائے مجھے سردی لگ رہی ہے۔‘‘
اور ہر ماں کی طرح ان کی مائیں بھی انہیں جھوٹی سچی تسلیاں دیتی اور بہلاتی رہتیں۔
ایک دفعہ ابا کو پتہ نہیں کیا بیماری لگ گئی۔ حکیم صاحب نے انہیں گولیاں دیں اور ہدایت کی کہ وہ ان کو بکری کے دودھ کے ساتھ ایک عرصہ تک استعمال کریں کچھ روز تو ابا پڑوس والوں سے دودھ مانگتے رہے پھر انہوں نے دودھ دینے والی ایک بکری خرید لی۔ جس کے ساتھ دو ننھے منے گل گتھنے میمنے بھی تھے۔ ایک کالا دوسرا ڈب کھڑبا۔ اس طرح مجھے بکروں کے زیادہ قریب رہ کر ان کی زبان سیکھنے کا موقع مل گیا۔ میمنوں سے میری گہری دوستی ہو گئی۔ میں اسکول سے واپس آ کر دیر تک ان سے کھیلتا رہتا۔ انہیں اپنے قاعدے اور کتابوں سے کہانیاں اور نظمیں پڑھ پڑھ کر سناتا۔ شام کو انہیں اپنے ساتھ کھیتوں کھلیانوں میں لے جاتا۔ ان کے لئے گھاس کاٹتا، درختوں سے ٹہنیاں توڑتا۔ وہ گھاس یا درختوں کے پتے کھاتے رہتے۔ رات کو وہ اپنی ماں کو دن بھر کی سیر اور کھیل کود کی تفصیل بتاتے اور دوڑنے، چھلانگیں لگانے، کھال اور گڑھے پھلانگنے، بلند ٹیلوں اور جھاڑیوں پر چڑھنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی ڈینگیں مارتے۔
’’میں بڑا ہو گیا ہوں۔‘‘ ایک کہتا۔
’’نہیں میں اس سے بڑا ہو گیا ہوں۔‘‘ دوسرا کہتا۔
بکری ان کے ہوشیار اور بڑا ہونے کی باتیں سن کر اداس ہو جاتی اور کہتی،
کاش تم ہمیشہ چھوٹے ہی رہو۔ کبھی بڑے نہ ہو۔‘‘
ان دونوں کی سمجھ میں بالکل نہ آتا، ماں ایسا کیوں سوچتی اور کہتی تھی۔ وہ برا مان جاتے اور دیر تک اس سے روٹھے رہتے۔ میں نے بھی انہیں بتانا مناسب نہ سمجھا کہ ان کے بڑے ہونے پر کس قسم کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
پھر ایک دن ڈب کھڑبا گم ہو گیا۔ ہم نے بہت ڈھونڈا مگر اس کا کچھ پتہ نہ چلا۔ بکری کئی روز تک اسے یاد کر کے چلاتی اور ممیاتی رہی۔ میں اور کالا بھی اسے یاد کرتے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ بھول گئے۔
کالا اب اور بڑا ہو گیا تھا۔ اس کے سینگ بڑے اور نوکیلے ہو گئے تھے اور اس کے جسم سے بڑے بکروں جیسی بو آنے لگی تھی۔ بڑے بوڑھے اکثر اس کا منہ کھول کر اس کے دانت دیکھتے۔ میرے ہم عمر لڑکے اسے دیکھ کر ڈر جاتے حالانکہ وہ کسی کو کچھ نہیں کہتا تھا۔ میں اسے ساتھ لے کر گھومتا رہتا۔ ہم ایک دوسرے کی زبان ہی نہیں، اشارے بھی سمجھتے تھے۔ میں اسے جہاں بلاتا وہ دوڑ کر پہنچ جاتا۔ جس بات سے منع کرتا، منع ہو جاتا۔ میں جدھر جاتا وہ میرے پیچھے پیچھے آ جاتا۔ مجھے دور سے پہچان لیتا۔ میری خوشبو سے مجھے جان لیتا۔ لیکن ایک روز بڑا دلچسپ واقعہ ہو گیا۔
وہ میرے مغالطے میں شرفو نائی کے پیچھے چل پڑا۔ شرفو بے چارہ گھبرا گیا۔ وہ جدھر جاتا جس قدر تیز بھاگتا کالا بھی اس کے پیچھے دوڑتا آتا۔ خوف سے تھرتھر کانپتا شرفو بڑی مشکل سے جان بچا کر گھر پہنچا۔ اس کی ماں شکایت لے کر آئی کہ آپ کے بکرے نے مارنے کے لئے دور تک میرے بیٹے کا پیچھا کیا ہے۔ شرفو کی ماں چلی گئی تو میں نے بکرے سے استفسار کیا اور یہ جان کر میری ہنسی چھوٹ گئی کہ شرفو نے اس روز اسی رنگ کی چادر اوڑھی ہوئی تھی جیسی میری تھی اور کالا یہ سمجھتا رہا کہ وہ میرے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ بکرے نے بھی اس واقعے پر ہنسنا چاہا مگر کوشش کے باوجود نہ ہنس سکا اور دیر تک اس بات پر اداس رہا کہ اسے ہنسنا نہیں آتا تھا۔ لیکن اگلے روز یہ معلوم کر کے کہ اس کی ماں سیم نالے کے پل سے گر کر زخمی ہو گئی تھی اور اسے ذبح کیا جا رہا تھا، ہم دونوں سخت پریشان ہو گئے۔ میں اسے دیر تک تسلی دیتا اور اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن بعد میں جب اسے پتہ چلا کہ میں نے بھی اس کی ماں کا گوشت مزے لے لے کر کھایا ہے تو وہ مجھ سے بدکنے لگا۔ اور کئی روز تک میرے قریب آنے سے ہچکچاتا رہا۔ میں اسے پیار کرنے لگتا تو وہ سمجھتا میں دانتوں سے اس کی بوٹی نوچنے لگا ہوں۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں آدمی ہوں بھیڑیا نہیں۔ ہم آدمی زندہ جانوروں کو نہیں کھاتے۔ کھانے سے پہلے انہیں مار لیتے ہیں۔ کچا نہیں چبا جاتے۔۔۔ چبانے سے پہلے آگ پربھون لیتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ کچھ دنوں بعد اس کا خوف کم ہو گیا اور وہ مجھ پر پہلے کی طرح اعتماد کرنے لگا۔
میں نے گاؤں کے بعد شہر کے ہائی سکول میں داخلہ لے لیا تو وہ بہت اداس ہو گیا۔ مجھے بھی اس سے بچھڑنے کا بہت افسوس تھا مگر مجبوری تھی۔
میں بڑی عید کی چھٹیوں میں خوش خوش گاؤں واپس آیا۔ لیکن یہ جان کر میری ساری خوشی کافور ہو گئی کہ اس بار عید پر اس کی قربانی دی جا رہی ہے۔ میں نے گھر میں ہر ایک کی منت سماجت کی کہ وہ میرے کالے کو چھوڑ دیں اور قربانی کے لئے کوئی دوسرا بکرا یا دنبہ خرید لیں۔ مگر میری ایک نہ چلی۔ کالے کو بالکل پتہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا بیتنے والی ہے۔ میں نے بھی اسے پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ خوش خوش میرے ساتھ دوڑتا پھرتا۔ چھلانگیں لگاتا۔ اونچے پیڑوں کے تنوں سے چمٹ کر پتے نوچتا اور میری ٹانگوں سے سینگ رگڑ رگڑ کر اظہار محبت کرتا۔ مگر جب اسے لٹا کر چھری چلانے لگے تو اس نے گھبرا کر مجھے آوازیں دینا شروع کر دیں۔
اس کے بعد میں نے کبھی کسی بکرے یا پالتو جانور سے دوستی نہیں کی۔ ہر بقرعید پر ہمارے ہاں دنبہ یا بکرا آتا اور ذبح ہوتا رہا لیکن میں کوشش کرتا کہ ان سے دوستی یا محبت نہ ہو۔ ورنہ زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ ابا کا خیال تھا، جانور سے جتنی زیادہ مانوسیت اور محبت ہو اتنا ہی زیادہ ثواب ملتا ہے۔ لیکن میں کوشش کے باوجود خود میں اتنی ہمت نہ پاتا۔ چنانچہ جب قربانی کا وقت آتا، میں عید ملنے کے بہانے کسی رشتہ دار یا دوست کے ہاں چلا جاتا اور اس وقت گھر آتا جب بکرا یا دنبہ کٹ چکا ہوتا۔ ابا کہتے تھے اس سے ایمان کمزور پڑ جاتا ہے۔ لیکن میں ایمان کو کمزور نہیں پڑنے دیتا تھا۔ کٹے ہوئے بکرے یا دنبے کو مزید کاٹنے، بوٹیاں چیرنے اور خویشوں او ردرویشوں میں تقسیم کرنے میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ گھبراہٹ اور کمزوری کا اظہار میں صرف اسی وقت تک محسوس کرتا تھا جب تک بکرا یا دنبہ زندہ ہوتا اور دیکھ ’سن‘ بول اور محسوس کر سکتا۔ ہاں مجھے سری سے بہت ڈر لگتا۔ میں قصاب کی دکان پر بھی بکرے یا دنبے کی سری دیکھتا تو اس کی بے جان آنکھوں کا سامنا نہ کر سکتا۔ لگتا جیسے وہ مجھ پر گڑی ہوں اور کچھ کہہ رہی ہوں۔ میری یہ کوشش بھی ہوتی کہ میں کسی بکرے کو پتہ نہ چلنے دوں میں اس کی زبان جانتا ہوں۔ میں نے گھر والوں اور جاننے والوں سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا کہ میں بکروں کی زبان جانتا ہوں۔ لیکن ان کی زبان جاننے سے خاصی تکلیف دہ صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ بعض اوقات مجھے لگتا میں اندر سے بکرا بنتا جا رہا ہوں۔
گھر والوں نے کئی بار اصرار کیا کہ عید کی قربانی میں خود کروں۔ اپنے ہاتھ سے بکرے کے گلے پر چھری چلاؤں کیوں کہ ایسا کرنا سنت ہے۔ مولوی صاحب نے بھی مجھے سمجھایا اور بتایا کہ اس سے اللہ کی راہ میں خون بہانے کا جذبہ اور جرات پیدا ہوتی ہے اور آدمی جہاد میں حصہ لینے کی تربیت پاتا ہے۔ لیکن میں کوشش کے باوجود ایسا نہ کر سکا۔ کیوں کہ ذبح ہونے سے پہلے بکرے جس طرح آہ و بکا کرتے ہیں اسے صرف میں ہی سن اور سمجھ سکتا ہوں اور صرف مجھے ہی اس بات کا اندازہ ہے کہ کسی ہم زبان کو ذبح کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ یہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ عام آدمی کسی ہم زبان اور ہم جنس کو قتل تو کر سکتا ہے، حلال نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے پیغمبروں کا دل اور حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ انہیں بھی آنکھوں پر پٹی باندھنا پڑتی ہے۔ مجھے اکثر خیال آتا کہ کاش مجھے بکروں کی زبان نہ آتی ہوتی اور میں اس قدر بزدل نہ ہوتا۔ اگرچہ اسے ایمان کی کمزوری پر محمول کیا جا سکتا تھا مگر میں نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ اپنے ہاتھ سے کسی جانور کو ذبح نہیں کروں گا۔ لیکن پچھلے سال میں اپنے اس عہد پر قائم نہ رہ سکا اور یہیں سے خرابی کا آغاز ہوا۔
ہوا یوں کہ بہت سی دعاؤں اور منتوں کے بعد میرے گھر میں اللہ کے فضل و کرم سے بیٹا ہو گیا۔ بہت خوبصورت اور بالکل میمنے کی طرح پیارا۔ ابا نے فوراً عقیقے کے لئے دو بکرے منگوا لئے۔ شہر میں ایک عرصہ سے رہتے رہتے اب بکروں سے کبھی کبھار ہی ملاقات ہوتی تھی اور گفتگو سے تو میں خود بھی گریز کرتا تھا۔ لیکن عقیقے کے دونوں بکرے کئی روز تک میرے کمرے کی کھڑکی کے قریب صحن میں بندھے رہے۔ خیال تھا کہ جمعرات کو عقیقہ کیا جائے۔ لیکن آپا کو سسرال سے آنے میں دیر ہو گئی۔ شاید ان کا کوئی جیٹھ یاد یور بیمار تھا۔ اس دوران میں دونوں بکرے رات کو جگالی کرتے ہوئے عجیب و غریب گفتگو کرتے رہتے۔ پتہ نہیں انہیں کیسے اپنے انجام کی خبر ہو گئی تھی۔ چھوٹا بہت خوفزدہ تھا۔ ایک رات کہنے لگا۔
’’ذبح کس طرح کرتے ہیں؟‘‘
’’زمین پر لٹا کر چھری چلا دیتے ہیں۔‘‘ بڑے نے کہا۔
’’تکلیف تو بہت ہوتی ہو گی؟‘‘
’’ہاں میں نے ایک بار دیکھا تھا بڑی دیر تک جان نکلتی رہتی ہے۔‘‘
’’ذبح کیوں کرتے ہیں؟‘‘
’’کھانے کے لئے۔ ان کے منہ بھی بھیڑیئے کے دانت ہوتے ہیں۔‘‘
’’میری تو ڈر کے مارے ابھی سے جان نکلنے لگی ہے۔‘‘
ڈر تو مجھے لگ رہا ہے۔‘‘
’’کیا دونوں کو ایک ساتھ ذبح کریں گے؟‘‘
’’شاید باری باری۔‘‘
’’پہلے کون ذبح ہو گا؟‘‘
’’تمہیں زیادہ ڈر لگتا ہے اس لئے پہلے میں۔‘‘
’’تمہیں ذبح ہوتے دیکھ کر تو میں اور ابھی گھبرا جاؤں گا۔ اس لئے پہلے میں۔‘‘
’’نہیں میں۔‘‘
’’نہیں میں۔‘‘
’’میں میں میں‘‘
میں دیر تک ان کی باتین سنتا رہا۔ پھر اٹھ کر کھڑکی بند کر دی مگر مجھے دیر تک نیند نہ آئی۔
اگلے روز چھٹی کا دن تھا۔ میں دیر سے سو کر اٹھا۔ دیکھا تو گھر میں دوپہر کے کھانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ پیاز چھیلے جا رہے تھے۔ مسالہ پیسا جا رہا تھا۔ تکوں، کو فتوں اور بالٹی گوشت کا پروگرام بن رہا تھا۔ والد صاحب شاید قصائی کو بلانے گئے ہوئے تھے۔
کال بیل کی آواز سن کر میں باہر گیا تو پڑوس کی مسجد سے دینی مدرسے کا طالب علم لڑکا کھالوں کے بارے میں پتہ کرنے آیا تھا کہ اتری ہیں یا نں ی۔ میں نے اسے بتایا کہ ابھی نہیں اتری ہیں۔
’’ابھی تک نہیں اتریں۔‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ذبح کیے بغیر کیسے اتار سکتے ہیں؟‘‘
’’ہاں جی۔۔۔ یہ تو ٹھیک ہے میں پھر آ جاؤں گا۔‘‘
جب ذبح کرنے کا وقت آیا۔ میں گھر سے نکل جانا چاہتا تھا۔ لیکن ابا نے میرے ہاتھ میں چھری تھمادی اور اصرار کیا کہ میں اپنے ہاتھ سے ذبح کروں۔ میں نے بہت کوشش کی مگر انہوں نے مجھے جانے نہ دیا۔
پہلے چھوٹے کو لایا گیا وہ تھر تھر کانپ رہا تھا اور خوف سے ممیا رہا تھا۔ مجھے بہت ترس آیا۔ میں نے کہا۔
’’پہلے بڑے کو لاؤ۔‘‘
بڑے کو لایا گیا تو وہ زور زور سے چیخے لگا۔ پھر گھگھیائی ہوئی آواز میں چھوٹے سے مخاطب ہوا،
’’منہ دوسری طرف کر لو چھوٹے۔‘‘
چھوٹے کا اپنی جگہ کھڑے کھڑے پیشاب خطا ہو گیا۔
مجھے اس کی رات والی بات یاد آئی۔ میں نے سوچا بڑے کو پہلے ذبح کیا تو وہ ہول سے مر جائےگا۔ چنانچہ میں نے کہا۔
’’پہلے چھوٹے ہی کو لاؤ۔‘‘
اصل میں میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ پہلے کسے ذبح کروں۔ وہ چھوٹے کو لے آئے جب اسے لٹایا گیا تو اس نے زور زور سے ممیانا اور چیخنا شروع کر دیا۔
’’ہائے میں مرا۔۔۔ ہائے میں مرا۔‘‘
’’حوصلہ کرو۔‘‘ میرے منہ سے اچانک نکل گیا۔ ’’تم اللہ کی راہ میں قربان ہو رہے ہو۔‘‘
بکرے نے چونک کر گردن اٹھائی اور مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر اس نے ایک لمبا سانس لیا اور چھری کے نیچے اپنی گردن ڈھیلی چھوڑ دی۔
میں نے اللہ اکبر کہہ کر چھری چلا دی اور وہ حلال ہو گیا۔ مگر جب کھانے کا وقت آیا تو مجھے گوشت سے ویسی ہی بو آئی جیسی اپنے نومولود بیٹے سے آتی تھی۔ اور میں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔
اس کے بعد میں کوشش کے باوجود کبھی گوشت کو نہ چھو سکا۔
اب انہیں شک ہے کہ میں نے اپنا عقیدہ بدل لیا ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے میں نے صرف گوشت خوری ترک کی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.