درد بڑھتا گیا
’’درد بڑھتا گیا‘‘ قلمکار اظہر کلیم کی ادارت میں نکلنےوالے رسالے اشارہ کے جون 1986 کے غیر معمولی کہانی نمبر میں شائیع ہوئی۔رسالے نے کہانی کی پیشانی پر مسکراتی چہکتی دلچسپ کہانی کا طغریٰ لگایا۔۔۔ دلچسپ اختتام تک پہنچنے کے لئے دس منٹ پاس رکھئے گا۔۔۔
’’شرافت کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ اپنے اس قد کاٹھ کی وجہ سے خود بھی بیٹھنے سے گریز کرتے نا کہ اب دوسرے آدمی کو بھی اپنے ساتھ ہی بیٹھنے کی آفر کر دی، لیجیے اب میں ہی اُٹھ جاتا ہوں۔‘‘
’’مگر جناب یہ تو بچّہ ہے؟‘‘
’’ارے ہاں صاحب! آپ بھی تو اپنے والدین کے لیے بچہ ہی ہوں گے حالانکہ آپ کا طول و عرض دونوں ہی ماشا اللّٰہ چَھے بائی چَھے کا ہے۔‘‘
’’دیکھیے جناب! میں بہت برداشت کر رہا ہوں‘‘
’’جی آپ تو کر رہے ہیں مگر میں اب مزید برداشت نہیں کروں گا کیونکہ آپ ہیں ہی ناقابلِ برداشت! سمجھے۔‘‘
بس میں یہ ہنگامہ کچھ اور طول پکڑ جاتا مگر اس سے پہلے ہی میری برابر والی ایک سیٹ خالی ہو گئی اور تمام مسافروں نے زبردستی انھیں میرے برابر بٹھا کر معاملہ رفع دفع کر ادیا۔ افوہ! کم بخت نے بلڈ پریشر ہائی کر دیا۔ ایک تو خود سانسیں لے لے کر میرے انجر پنجر ڈھیلے کر دیے اور پھر ایک اور کو بھی سر پرسوار کرنے پر مصر ہو گیاتھا۔ یعنی یک نہ شد دو شُد۔ تو یہ تھی نظامی صاحب سے میری پہلی ملاقات۔ اس کے بعد روز ہی اُن کی اور میری بس میں ملاقات ہونے لگی کیونکہ ہم دونوں ہی کو صدر اترنا ہوتا تھا اور یوں انھیں اس طویل سفر میں اپنی طویل ترین تقریر کرنے کی مکمل آزادی ہوتی تھی۔ نظامی صاحب کو بے تکان بولنے، مفت مشورے اور کوسنے دینے اور قرض و ادھار لینے میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کا ذاتی دعویٰ تھا کہ اپنے ذاتی تجربے کے بل بوتے پر آج تک انھوں نے کسی معاملے میں چوٹ نہیں کھائی۔ جوں جوں ان سے ملاقاتیں بڑھتی جاتی تھیں، اُن کے چھپے ہوئے جوہر مجھ پر کھلتے چلے جاتے تھے۔ ایک مہینے کے اندر ہی اندر وہ مجھ سے کافی حد تک فری بلکہ فری اسٹائل ہو چکے تھے اور اپنے تمام ہی چیدہ چیدہ واقعات، تجربات و مشاہداتِ زندگی سے مجھے آگاہ کر چکے تھے چنانچہ اب دو تین دن سے اپنے واقعاتی اسٹاک میں مندی کے باعث وہ مجھے بولنے کا موقع دینے پر کچھ کچھ راضی نظر آتے تھے۔
’’کیوں میاں کیا اب تک شادی نہیں کی ہے تم نے؟‘‘
انھوں نے اپنی ٹیڑھی کمانیوں والی عینک کے گول گول شیشوں کے اوپر سے میری آنکھوں میں یوں جھانکتے ہوئے پوچھا جیسے میرے ہر دو جواب کی صورت میں کسی نئے مشورے یا تجربے سے آگاہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’’کیوں میاں بولو۔ یہ سانپ کیوں سونگھ گیا، کیا اب تک کنوارے ہو؟‘‘ انھوں نے مستورات کے کمپارٹمنٹ پر پہلی بار سرسری نظر ڈالتے ہوئے پوچھا؟ پہلی بار سرسری اس لیے کہ اس سے پہلے دوران سفر وہ اس طرف بھرپور نگاہ ہی ڈالتے رہے تھے۔ سرسری نگاہ پہلی بار ہی ڈالی تھی۔
’’اچھا تو برخوردار آپ غیر شادی شدہ ہیں؟‘‘
انھوں نے میرا یوں مکمل جائزہ لیا جیسے قربانی کے بکرے کا معائنہ کیا جاتا ہے، بلکہ مجھے تو ڈر ہوا کہ کہیں مُنھ کھول کر میرے دانت بھی نہ دیکھنے لگیں، اسی خوف سے میں خود دانت نکال کرہنسنے لگا۔
’’ارے میاں! رو رہے ہو یا ہنس رہے ہو اور یہ بتاؤ، جب غیر شادی شدہ ہو تو اتنے خاموش خاموش کیوں رہتے ہو۔ بھئی ہنسا بولا کرو، نجانے بعد میں موقع ملے یا نہ ملے۔ ساری حسرتیں نکال لو، بعد میں تو خیر تم جانتے ہی ہو جہاں دو برتن ہوں گے وہاں کھٹ پٹ تو ہوگی ہی۔ خدا غارت کرے ان شادی دفتر والوں کو، کیسی کیسی ہنستی مسکراتی زندگیوں سے کھیلتے ہیں کم بخت۔ بے چارے کنواروں کو خوش دیکھ ہی نہیں سکتے، شادی شدہ لوگوں کی زندگی دیکھ کر بھی عبرت نہیں پکڑتے اور نہ شوہروں کی حالتِ زار دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ مجھے تو یقین ہے کہ یہ شادی دفتر والے کم بخت یا تو غیر شادی شدہ ہوتے ہیں یا پھر، اس دنیا سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم یعنی شادی کا انتقام لینے کے لیے یہ بزنس چلاتے ہیں۔ ارے بھئی اب تو بہت سی شادی شدہ خواتین بھی اس قابلِ مذّمت کاروبار میں ملوث ہو گئی ہیں۔ پہلے تو صرف غیر شادی شدہ خواتین ہی اپنی پسند کا رشتہ نہ ملنے تک ایسے دفاتر چلاتی تھیں مگر اب تو (انھوں نے ٹھنڈی آہ بھر کر اپنی جلال انگیز تقریر میں پہلا وقفہ دیتے ہوئے کہا) ان کے شوہروں نے بھی شاید حالات سے سمجھوتا کر لیا ہے یا پھر آنکھوں پر پردے پڑ گئے ہیں۔‘‘
’’تو کیا آپ بھی شادی کے سخت مخالف ہیں؟‘‘ میں نے جوش جذبات میں ان کا ہاتھ زور سے دباتے ہوئے کہا۔
’’ارے میاں! میرا ہاتھ تو چھوڑو۔‘‘
’’اوہ!‘‘
میں ایک دم سے جھینپ سا گیا مگر ان کا سرخ ہاتھ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اُن کو اتنے دن صبر و ضبط سے سننے کا کچھ نہ کچھ انتقام تو لے ہی لیا۔
’’خیر شکرہے ہاتھ کی جگہ گردن نہیں تھی۔‘‘
انھوں نے اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا اور پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔
’’شاید آپ برا مان گئے۔‘‘
میں نے پیچھے پلٹ کر ان کی طرف دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، مگر نظامی صاحب تو سیٹ ہی سے غائب تھے۔ شاید ناراض ہو کر ایک اسٹاپ پہلے ہی اُتر گئے تھے۔ خیر کل تک وہ پھر ٹھیک ہو چکے ہوں گے۔ یہی سوچتے سوچتے میں اطمینان سے سیٹی بجاتا اپنے اسٹاپ پر اتر گیا۔ گھر کے قریب پہنچا تو ببو کی دُکان پر ہنگامہ مچا تھا، یقینا وہی ریکارڈنگ کا بلوہ ہوگا۔
نجانے اس ببو کو کون ٹھیک کرے گا۔ جب سے ریکارڈنگ سے منع کرنے پر ببو نے دو تین لوگوں کے سر پھوڑے تھے، محلے والوں نے ڈر کے مارے اس کے منہ لگنا ہی چھوڑ دیا تھا، اگر تمام محلے والوں کا دل ٹٹولا جاتا تو میں بخدا کہہ سکتا ہوں کہ سب سے زیادہ اس کم بخت سے خار کھانے والا میں ہی نکلتا کیونکہ باقی سب تو آپس میں مل بیٹھ کر اس کی غیبتیں کرکے یا آتے جاتے، سبزی گوشت کی دکانوں پر کارنر میٹنگ کرتے وقت صرف ایک دوسرے کے سامنے اسے گالیاں دے دلا کر غیبتیں کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے مگر میں تو کسی کے سامنے بھی اس خوف سے ببو کو کچھ کہتے ہوئے ڈرتا تھا کہ اگر ببو کو کسی طرح پتہ چل گیاتو شاید میرے تو اسپیئر پارٹس بھی کہیں نہ مل پائیں۔ دھوبی کو کپڑے خورد برد کرنے کا، دودھ والے کو دودھ میں پانی ملانے کا اور پوسٹ مین کو منی آرڈر خورد بُرد کرنے کا اتنا شوق نہیں ہوگا جتنا اس ببو کو گلا پھاڑ قسم کی ریکارڈنگ سے شغفِ عظیم تھا۔ دکان کھلنے کے اوقات میں توسکون سے کوئی کام کرنا عذاب بن جاتا اور یوں چھٹی کا دن بھی ’’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں‘‘ اور ’’تیرے میرے لڑ گئے نین‘‘ قسم کے ہوشربا گانے سن سن کر غارت ہو جاتا۔ جس دن کسی کا امتحان ہوتا یا کسی گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو وہ بیچارہ ہمت کرکے ببو کے سامنے اپنی ماضی و حال کی تمام لغتوں کی چیدہ چیدہ گالیاں گفتاریاں انڈیلنے پہنچ جاتا۔ تمام محلہ جمع ہو جاتا اور ٹھٹ کا ٹھٹ لگ جاتا۔ دونوں جانب سے گالیوں کے تبادلے ہوتے۔ تمام محلے والوں کو فریقین کے مکالموں سے پتہ چل جاتا کہ کون کس خاندان سے ہے۔ بچے اپنی اردو درست کرتے، نوجوان سند یافتہ بزرگوں سے گالیوں کے مطالب، ماخذ، مخارج اور تراجم پوچھتے۔ بزرگ توبہ کرتے، کان پکڑتے رخصت ہوتے اور باقی تمام ا ہلِ محلہ اپنے اپنے ذخیرہ الفاظ میں خوب اضافہ کرکے ریکارڈنگ کے شور کے درمیان ہی تتر بتر ہو جاتے۔ شریف لوگ ڈرپوک ہوتے ہیں، اس محاورے کی تشریح کسی کو درکار ہو تو وہ ہمارے محلے میں آ کر دیکھ لے۔ پولیس تھانے کے نام سے ہر ایک بدکتا تھا کہ مبادا پولیس اطلاع کرنے والے ہی کو دھر لے اور پھر نجانے اس دیوہیکل ببو کے ہاتھ کتنے لمبے ہوں، کوئی اُلٹا ہی نہ پھنس جائے۔ میری کیا کسی کی بھی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ اس مصیبت سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اچانک مجھے نظامی صاحب کا خیال آیا۔ ہاں خود کو بڑا جہاندیدہ کہتے ہیں۔ اگر انھوں نے بولنے کا موقع دیا تو اُن سے ضرور ذکر کروں گا۔
دوسرے ہی دن میں نے نظامی صاحب سے اس واقعے کا ذکر کیا۔
’’ار ے میاں یہ کونسی فکر کی بات ہے؟ اس ریکار ڈ پلیئر ہی کو غائب کر وا دو۔‘‘
’’جی! مگر وہ کیسے؟‘‘
’’ارے بھئی محلے کے لڑکوں سے کہو۔ ایک ہی دن میں سب کام کر دیں گے۔‘‘
’’نہیں، نظامی صاحب ہمارے محلے والوں میں سے کسی میں اتنا دم خم نہیں۔‘‘
’’اچھا! تو کیا تمام شادی شدہ لوگ ہی رہتے ہیں تمھارے محلے میں؟‘‘ انھوں نے خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں یہ بات نہیں ہے، نظامی صاحب!‘‘
’’ارے چھوڑو یار، بس یہ سارا زن مریدی کا اثر ہے، پورے معاشرے پر اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔‘‘
(مجھے ان کا کل کا غصّہ یاد آ گیا۔)
’’اوہ! شاید کل آپ نے میری بات کا برا منا لیا۔ دراصل۔۔۔‘‘
’’ارے نہیں میاں! بس کل کی بات کل ہی ختم ہو گئی۔ اچھا یہ بتاؤ، ٹوٹے ہوئے سو روپے ہوں گے؟‘‘ انھوں نے کچھ خجل سا ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے مدعا بیان کیا۔
’’یار بات یہ ہے کہ اپنا بٹوہ میز پر ہی بھول آیا۔ بس شادی کا یہی ایک فائدہ ہے کہ دفتر جاتے وقت بیگم ہر بھولی ہوئی چیز یاد دلا دیتی ہے۔‘‘ اور اگر خدا نخواستہ دفتر سے واپسی پر منگوائی گئی کسی فرمائشی چیز کو بھول جانے کا خدشہ ہو تب تو آواز میں شہد گھول کر آپ کو فون پر بھی یاد دلا دیں گی۔ (انھوں نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔) مگر اس ایک فائدے کے ساتھ نقصانات کا اندازہ لگانے بیٹھ جاؤ تو شاید کئی قرطاس ابیض چھپ جائیں۔
وہ اپنی ہی کہے جا رہے تھے اور میں خیالوں ہی خیالوں میں سو روپے ان کو دے چکا تھا۔
’’اس سے تو بہتر ہے کہ آدمی شادی ہی کر لے، صبح شام پیسے خرچ ہوں تو بھی یہ اطمینان تو رہتا ہے کہ اپنی گھر والی ہی پر خرچ ہو رہے ہیں۔ یہاں تو روز سو کا نوٹ نظامی صاحب پر قربان ہو رہا ہے اور ریٹرن (Return) صفر ہے۔‘‘ میں نے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’کیوں میاں! تمھارے تیور کچھ درست معلوم نہیں ہوتے؟ یہ گفتگو کے دوران میں شادی کا خود بخود ذکر چھیڑ دینا، بولتے بولتے چپ ہو جانا، بے خیالی میں بڑبڑانا، سوچوں میں کھو جانا، خود کلامی سے دو چار ہو جانا، اماں یہ سب تو کسی بڑے مرض کی چیدہ بلکہ پیچیدہ نشانیاں ہیں۔ ہمیں بھی تو کچھ پتہ چلے؟ ہم تمھارے ہم عمر نہ سہی مگر ہیں تو تمھارے ہی قبیلے کے۔(انھوں نے ہلکے سے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔) ارے بتا ہی ڈالو کہیں شادی وغیرہ کا چکر تو۔۔۔‘‘
’’ارے نہیں نظامی صاحب! ’’بھلا میں اور شادی۔‘‘
’’ہاں ہا ں میاں، تم اور شادی!‘‘ انھوں نے کھلم کھلا طنزیہ لہجے میں کہا اورسو کا نوٹ میرے ہاتھوں سے تقریباً چھینتے ہوئے بس سے اتر گئے۔
نظامی صاحب عمر کی جس منزل میں تھے بقول گوروں کے اس وقت تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور پھرچالیس پینتالیس سال کے کئی لوگ آپ کو غیر شادی شدہ مل جائیں گے مگر
’’آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں۔‘‘
والے معاملے کے ساتھ ہی ملیں گے مگر نظامی صاحب اس عمر کے پہلے دل برداشتہ شخص تھے جو شادی کیے بغیر ہی اس صیغہ یعنی شادی کے سخت مخالف اور شادی دفتر والوں سے سخت نالاں تھے۔ ان کی شخصیت بھی عجیب سی تھی۔ سر کے بال الجھے ہوے، گول شیشوں کی قدیم عینک ناک پر اور پیروں میں پرانی وضع کی سلیپر، یہ سب کچھ ان کی عمر سے کچھ ایسا لگا بھی نہیں کھاتا تھا مگر شاید یہ سب کچھ اب ان کی شخصیت اور مزاج کا حصہ بن چکا تھا اورجس کے بغیر وہ کچھ نا مکمل اور ادھورے ادھورے سے لگتے۔
شادی کے بارے میں ان کا سخت رویہ دیکھ کر بعض دفعہ تو جستجو سی ہونے لگتی کہ اتنے جنجال کے باوجود آخر پھر بھی لوگ دھڑا دھڑا شادیاں کیوں کیے جا رہے ہیں؟ کبھی کبھی تو میرا دل بھی چاہتا کہ اپنے ہم عمروں کی طرح گھر بسا ہی ڈالوں مگر پھر نظامی صاحب کی حکایتیں اور رنج و الم سے بھرپور واقعات یاد آ جاتے اور ایک فلسفی کا مشہور قول ذہن میں گونجنے لگتا کہ شادی ایک ایسا پنجرہ ہے کہ جو اس کے اندر ہیں باہر آنے کے لیے پھڑپھڑا رہے ہیں اور جو باہر ہیں وہ اندر آنے کے لیے بے کل ہیں اور شادی ایک ایسا پھل ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ وغیرہ وغیرہ۔
خیالوں ہی خیالوں میں بچوں کی چیخنے چلانے رونے اورلڑنے بھڑنے کی آواز یں دل و دماغ کو دہلا جاتیں۔ شور شرابا، اٹھک پٹخ، پابندیاں، زن مریدی، وقت پر حاضریاں، سسرال میکے کے جھمیلے، جبر، پابندی۔۔۔ یہ تمام خیالات مجھے بد حواس کر دیتے۔ نہیں بھئی ہم تو خوش و خرم آزاد فضاؤں ہی میں بھلے ہیں لیکن اگر قدم سے قدم ملا کر چلنے والا کوئی ایسا جو بقول شاعر، ’’میری وحشتوں کا ساتھی ہو، میرے خیال کے سب موسموں کا ساتھی ہو۔‘‘ اگر کوئی ایسا اچانک ہی دوڑتی بھاگتی زندگی میں آ ٹکرائے تو؟ پتھریلے راستوں پر چلتے چلتے، اچانک جیسے پاؤں تلے نرم بُھربُھری سی ریت آ جائے بالکل اسی طرح جیسے کوئی خوابوں میں تعبیر کے سچے رنگ بھر دے تو کیا تب بھی؟ اس سے راہیں بدل لینا چاہیے یا؟ افوہ! میں چونک پڑا، یہ میرے خیالات کو کیا ہو گیا ہے؟ شاید نظامی صاحب کے ہر وقت کے پروپیگنڈے کے مجھ پر منفی ہی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ واہ نظامی چچا خود تو اس طوفان سے صاف بچ نکلے اور ہمیں دھکیلے دے رہے ہیں۔ نہ بھائی نہ، ہم یونہی بھلے۔
میں انھی سوچوں میں گم گلی میں داخل ہوا تو تیز گانوں کے اُسی بے ہنگم شور نے میرا استقبال کیا۔ میں نے ایک نظر اپنی صحت کا بنظرِ غائر معائنہ کیا اور پھر غصّے سے ببو کی دکان کے بجائے اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ ’’یا الہٰی محلے سے یہ عذاب کسی طرح ٹال دے!‘‘ میں نے بے بسی سے دُعا مانگی۔
’’کیا بات ہے میاں! پھر کچھ اداس اداس سے لگ رہے ہو جیسے آنکھ ویران، دل پریشان، لب خموش۔آج بتا ہی دو معاملہ کیا ہے؟‘‘
بس میں چڑھتے ہی نظامی صاحب نے جیسے مجھ پر چڑھائی ہی کر دی۔
’’ارے اب آپ کو کیا بتاؤں۔‘‘ اور یہ کہہ کر پھر میں نے نظامی صاحب کے سامنے اپنے محلے پر گزرنے والی پوری قیامت کی روداد سنا ڈالی، مگر وہ تو سامنے سے گزرنے والی کسی اور ہی ’’قیامت‘‘ کا ایڑی سے چوٹی تک معائنہ کرنے میں مصروف تھے۔ میرے کھنکھارنے پر ایک دم ہربڑا کر مڑے اور بولے، ’’ہاں بھئی، ان خاتون کی سینڈلیں دیکھ رہا تھا، کافی مضبوط معلوم ہوتی ہیں، شاید باٹا کی ہیں۔‘‘
’’مضبوطی کا اندازہ تو خیر باآسانی کیا جا سکتا ہے، بس ذرا سر بھی مضبوط ہونا چاہیے۔‘‘ میں نے دل میں سوچا۔
’’مگر مگر نظامی صاحب! پھر آپ، آپ شادی کے اس قدر مخالف کیوں ہیں آخر؟‘‘ میں نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ ماری۔
میرا سوال سن کر پہلے تو وہ مجھے عقابی نگاہوں سے گھورنے لگے، پھر اچانک پیترا بدل کر پیشانی پر شکنیں ڈالتے ہوئے بولے،
’’پتہ ہے شادی کے بعد ہر اس سوال کا جواب دینا ہوتا ہے جس کے بارے میں شاید تمھیں یہ گمان ہوکہ صرف روزِ حشر ہی جواب دینا ہوگا۔ مثلا، مال کہاں خر چ کیا، نظر کہاں ڈالی، وقت کہاں گزارا وغیرہ وغیرہ۔ اب ان دونوں کو دیکھو، انھوں نے ہماری بس کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہنستے مسکراتے جوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاـ’’شاید نہیں بلکہ یقینا ان کی نئی نئی شادی ہوئی ہے کیونکہ شوہر مستقبل کے خطروں سے بے نیاز بے حد خوش و خرم نظر آ رہا ہے۔ اس بیچارے کو کیا معلوم کہ مستقبل قریب میں اس پر نہ صرف قیامت بلکہ گھر کے سارے برتن بھی ٹوٹنے والے ہیں۔‘‘
’’بھئی ہمارے بھائی صاحب ہی کی مثال لے لو، بیچارے کو بچپن ہی سے شلجم سے نفرت اور شادی سے رغبت رہی تھی، مگر اب جب بھی ا ن کے گھر جانا ہوتا ہے تو بیٹھے ہوئے شلجم ہی کی کوئی نئی ڈش کھا رہے ہوتے ہیں بلکہ ایک دن تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ شلجم خون بناتا ہے اور شادی خون جلاتی ہے، اس لیے شلجم کو ہر انداز میں کھانا چاہیے۔ پرسوں میں گیا تو بچوں کے ساتھ شلجم کا سوپ پی رہے تھے اور سویٹ ڈش کے طور پر بیگم نے شلجم کا حلوہ تیار کر رکھا تھا۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگے، بس بھائی کیا بتاؤں اب شلجم سے رغبت اور شادی سے نفرت ہو گئی ہے بلکہ بیگم کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر یہ تک کہہ گئے اب تو تمام عمر شادی نہ کرنے کا تہیہ بلکہ عزم صمیم کر لیا ہے۔ ‘‘
شاید نظامی صاحب کی یہ مشاہدات اور تجربات کی طویل داستان ابھی اور طول کھینچتی اگر انھیں یقین نہ ہو جاتا کہ میں ان کی مدلل تقریر سے مکمل طو رپر ہپنا ٹائیز ہو گیا ہوں، چنانچہ اپنے اس تجربے کی کامیابی کا یقین ہوتے ہی انھوں نے مجھ سے پوچھا، ’’کیوں میاں ہل گیا نہ کلیجہ؟‘‘ اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے خوفناک، دہشت ناک اور ہیبت ناک قسم کے واقعات سن کر نہ صرف کلیجہ بلکہ دل، دماغ، جگر سب ہی دہل کر رہ گئے تھے۔ ہماری بس حسبِ معمول پیچھے سے دوسری بس کے آنے کے انتظار میں کافی دیر سے کھڑی تھی۔
’’کیوں میاں گنے کا رس پیو گے؟‘‘ نظامی صاحب نے موقع سے فائدہ اٹھاکر پوچھا اور پھر میرا انتظار کیے بغیر ہی کھڑکی سے منہ نکال کر دو گلاس کا آرڈر دے ڈالا۔
’’صاحب پیسے پہلے دے دیں، بس چلی جاتی ہے تو ہمارا پیسہ رہ جاتا ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں میاں ضرور لو۔ یار سنو تمھارے پاس کچھ، میرا مطلب ہے، یہ میرا ہزار کا نوٹ بڑا بھاگوان ہے کئی سالوں سے کھلا ہی نہیں ملتا۔‘‘
اور پھر دوسرے لمحے ہی سو کا نوٹ پھر میری جیب سے جا چکا تھا۔ بلکہ مجھے تو یوں لگا جیسے گنے کا ٹھیلا بس والے ہی کی ملکیت تھا یا پھر دونوں میں کچھ مِلی بھگت تھی، جبھی تو روپے دیتے ہی ڈرائیور نے ایکسی لیٹر پر پاؤں رکھا اور بس دوڑا دی۔ میں اور نظامی صاحب دھپ دھپ کرتے ہی رہ گئے اور نظامی صاحب چلتی بس سے یہ کہتے ہوئے اتر گئے کہ بھائی یہ سو روپے کا قومی نقصان میں برداشت نہیں کر سکتا۔
دوسرے دن نظامی صاحب کی خراشوں اور چوٹوں پر تبصرے کے بعد میں نے انھیں چیلنج دے دیا کہ اگر وہ میرے محلے سے ریکارڈنگ ختم کرا دیں تو میں نہ صرف ان کا مرید بن جاؤں گا، بلکہ عمر بھر شادی نہ کرنے کا عہد بھی کر لوں گا جو کہ ان کی زندگی کا عظیم مشن معلوم ہوتا تھا۔ بعض دفعہ تو مجھے ان پر منصوبہ برائے بہبود آبادی کے خفیہ ایجنٹ ہونے کا شبہ ہوتا۔ میرا چیلنج سن کر نظامی صاحب تھوڑی دیر کے لیے بالکل چپ ہو گئے۔
’’یقینا تمھارا یہ ببو شادی شدہ ہوگا، اسی لیے گھر کے اندر ہونے والی اٹھک پٹخ کے شور کو دبانے کے لیے یہ ریکارڈنگ کا روگ پالا ہوگابیچارے نے۔‘‘
’’نہیں نظامی صاحب ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ یہ تمھارے ببّو کی عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’ادھیڑ عمر ہے۔۔۔ یہی بس آپ کا ہی ہم عمر ہوگا شاید۔۔۔ میرا مطلب ہے جوان ہی سمجھیے۔سنا ہے دو تین رشتے ٹوٹ چکے ہیں۔۔۔ وجہ نا معلوم۔۔۔ مگر آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
میری بات سن کر وہ کافی دیر سوچوں میں غلطاں و پیچاں رہے، جیسے میرے چیلنج کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہے ہوں۔۔۔ اور پھر ایک لمبی آہ بھر کر بولے،
’’چلو میاں تمھارا چیلنج منظور، مگر ایک شرط ہے۔۔۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
’’اس شرط کے تکمیلی مراحل کے دوران میں تمھیں میرے کسی منصوبے کے بارے میں جاسوسی کرنے، معاملے کو کریدنے، ٹوہ لینے اور خفیہ کارروائیوں کے بارے میں جاننے کا اس وقت تک کوئی حق نہیں ہوگا، جب تک تمھارا کام پورا نہیں ہو جاتا۔‘‘
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، سو میں جھٹ تیار ہو گیا۔
’’اب مشن کی تکمیل ہی پر تفصیلی ملاقات ہوگی، سمجھے!‘‘ اور یہ کہہ کر وہ ایسا غائب ہوئے کہ ہفتوں نظر نہیں آئے۔
یا الہٰی انھیں زمین کھا گئی یا آسماں نگل گیا، کئی ہفتوں بعد میرے ہی محلے میں نظر آئے۔ میں سمجھ گیا حالات کا جائزہ لینے آئے ہیں مگر اس بابت کچھ بھی نہیں پوچھا۔ بس سلام دعا کرکے رخصت ہولیا، پھر وہ اکثر محلے میں اور بیشتر ببو کے گھر میں دیکھے جانے لگے۔ اکثر گلی میں ان سے مڈ بھیڑ ہو بھی جاتی تو ریکارڈنگ کے شور میں کچھ بات کرنا محال ہو جاتا۔ میں کچھ پوچھنا بھی چاہتا تو نہ نہ کرکے مجھے معاہدے کی شرائط یاد دلاتے ہوئے کسی گلی میں پر اسرار طور پر رو پوش ہو جاتے۔ دل ہی دل میں ڈر رہا تھا کہ ببو کے گھر ان کی آمدورفت نجانے کیا گل کھلائے؟ اب تو شاید کم بخت نے بڑے اسپیکروں کا انتظام کر لیا تھا۔ پورے محلے میں ہر وقت ایک قیامت برپا رہتی۔ واللّٰہ اعلم! یہ نظامی صاحب کیا گل کھلانے والے ہیں؟ کہیں ساری تدبیریں الٹی نہ ہو جائیں؟ اور مجھے یہ محلہ چھوڑ کر اپنی جان بچانا پڑیمگر اس دن تو میں سناٹے ہی میں آ گیا جب پڑوس والے مرزا صاحب نے میری طرف طنزیہ انداز میں دیکھتے ہوئے فرمایا:
’’کیوں میاں تمھارے کیا ارادے ہیں؟ کیا مہر باندھنے کے لیے رقم نہیں ہے، جو اب تک یونہی گھوم رہے ہو؟ بھئی اب تو اس لنگور ببو کی بھی شادی ہو رہی ہے، تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’کیا ببو کی شادی‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا؟
’’ہاں بھئی کیا اسے شادی کا حق نہیں ہے؟‘‘
میرا گلا خشک ہونے لگا۔ دو گلاس ٹھنڈا پانی چڑھانے کے بعد میرے حواس بحال ہوئے تو۔۔۔ کیا نظامی صاحب اس ببو کی شادی کرا رہے ہیں؟مگر، مگر مجھے تو وہ ہمیشہ شادی کے بیش بہا اور گرانقدر نقصانات ہی گنواتے رہے ہیں، انھیں اچانک یہ کیا ہو گیا۔ میں نے ٹھنڈے دماغ سے حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ شاید مرزا صاحب میری مالی پوزیشن پر کچھ طنز کر رہے تھے۔ حالانکہ میری تنخواہ بری نہ تھی او ر شادی نہ کرنے کی یہ وجہ ہر گز نہ تھی۔ لوگ تو نجانے کیا کیا توجیحات پیش کرتے رہتے ہیں، مگر شاید مرزا صاحب بھی ٹھیک ہی کہہ رہے تھے۔ شادی کے بعد آدمی کا بھرم قائم ہو جاتا ہے۔ لوگ محلے میں مکان دیتے ہوئے گھبراتے نہیں ہیں۔ بازار کے کھانے کھا کھا کر صحت برباد نہیں ہوتی اور اگر اچھا ساتھی مل جائے تو زندگی افسانوی سے انداز میں بھی گزر سکتی ہے۔ مگر نظامی صاحب سے مجھے یہ امید ہر گز نہ تھی اور اس طرح ریکارڈنگ ختم ہونے کی کوئی امید بھی تو نہ تھی۔ ببو کی بیوی بھی موسیقی کی شیدائی نکل سکتی تھی یا پھر دونوں میں واقعی ایسی کھٹ پٹ بھی ہو سکتی تھی کہ اس کو دبانے کے لیے ببو کو اپنی ریکارڈنگ کا والیوم اور بڑھانا پڑتا۔ بہرحال کچھ بھی سہی مگر شادی کے ذریعے ریکارڈنگ بند کرانے کا اگر کوئی طریقہ تھا بھی تو میرے نزدیک سخت غیر شریفانہ اور غیر مستند تھا، جس میں کامیابی کے آثار بھی چند ہی فیصد تھے، مگر میں کیا کر سکتا تھا۔ نظامی صاحب روپوش تھے۔ جیسے جیسے شادی کے دن قریب آ رہے تھے، پورے محلے کے دل کی ہوک اور ریکارڈنگ کا شور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ شادی کے دو تین دن دکان بند رہنے کی وجہ سے ریکارڈنگ کا کچھ زور ٹوٹا، مگر تیسرے دن سے پھر وہی مسلسل طوفانِ بد تمیزی کا آغاز ہو گیا۔ سار ے محلے والوں کے منہ لٹک گئے، ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اُدھر نظامی صاحب تو ایسے غائب ہوئے کہ پلٹ کر شکل بھی نہیں دکھائی اور اب شاید وہ اس قابل بھی نہیں تھے۔شرط پر تو خیر اب خاک پڑ ہی گئی تھی، انھیں غائب ہوئے تقریباً مہینے سے زیادہ ہو گیا تھا مگر اب میں نظامی صاحب سے ملنے کے لیے بے چین تھا۔
اس دن میری آنکھ ذرا دیر سے کھلی تو فضا کچھ غیر مانوس سی لگی، جیسے کسی چیز کی کمی ہو، کچھ کہیں کھو سا گیا ہو۔ اچانک میرے ذہن میں بجلی سی کوندی۔ ببو کی دکان کھلی تھی اور ریکارڈنگ بند تھی۔ شاید میرا وہم تھا۔ میں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی مگر کچھ بھی سنائی نہیں دیا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے باہر نکل کر دیکھا۔ پورا محلہ بھی شاید حیرت و خوشی کے باعث مبہوت سا ہو کر رہ گیا تھا۔ ایک دن، دو دن اور پھر روزانہ ہی کا یہ معمول بن گیا، پورا محلہ جیسے چپکے چپکے جشن منا رہا تھا، سب دل ہی دل میں خوشیاں منا رہے تھے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اہلِ محلہ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے۔ کن انکھیوں سے ببو کی دکان کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور ببو کی بیوی کو دعائیں دیتے، مگر مجھے نظامی صاحب کی تلاش تھی۔ خیر انھوں نے جو کچھ بھی کیا، نتیجتاً محلے پر سے عذاب ِمسلسل تو ٹل گیا تھا۔ مگر مجھے تو یہ جاننے کی بے چینی تھی کہ آخر نظامی صاحب نے اس بوتل کے جن کو قابو کیسے کیا؟ مگر نظامی صاحب کا کہیں سراغ نہیں مل رہا تھا، نجانے انھوں نے کیا چکر چلایا تھا؟ میں انھی خیالات میں غلطاں و پیچاں بس میں بیٹھا پچھلے دنوں کے پر اسرار واقعات پر غور ہی کر رہا تھا کہ اچانک کسی نے میرے شانے پر زور دار ہاتھ مارا۔ میں اُچھل کر رہ گیا۔ مگر اس کی وجہ میری کمزور دلی نہیں بلکہ میرے سامنے کھڑا نظامی صاحب کا وہ سراپا تھا جو بالکل ہی بدل چکا تھا۔ اچھا تو نظامی صاحب نے ببو کی شادی کر انے کا خوب کمیشن لیا ہے جبھی تو شکل و صورت سب بدل گئی ہے۔ میں نے غور سے انھیں دیکھا۔ خوبصورت سنہری کمانی کی عینک، قرینے سے سیٹ کیے ہوئے بال، ریڈی میڈ شلوار قمیض اور اس میں سے آتی ہوئی پرفیوم کی ہلکی ہلکی خوشبو۔
’’نظامی صاحب! آپ۔۔۔بھئی آپ کہاں غائب ہو گئے تھے؟ آپ نے تو کمال ہی کر دیا، مگر آپ نے یہ سب کیسے کیا؟‘‘ میں نے چھوٹتے ہی ان کا گھیراؤ کر لیا۔
’’ارے میاں ذرا دم تو لینے دو، سانس تودرست کر لوں، ذرا خیر خیریت ہی پوچھ لو۔‘‘ میں بھی ڈھیٹ بن گیا۔ ان کا حال احوال معلوم کر کے پھر وہی سوال پوچھ بیٹھا جو مجھے بے کل کیے دے رہا تھا۔
’’ارے نظامی صاحب یہ تو بتائیں یہ سب ہوا کیسے؟‘‘ میرا بے چینی کے مارے برا حال تھا۔
’’ارے بھائی ہم نے کون سا ایسا تیر مارا ہے؟ تم آم کھاؤ پیڑ کیوں گنتے ہو۔‘‘ ان کا روکھا سا جوا ب سن کر میر ا تجسس اور بڑھ گیا۔
’’مگر نظامی صاحب یہ سب، میرا مطلب ہے!‘‘
’’ارے بھئی تم اتنے بے تاب ہورہے ہو تو پھر پوری بات سن ہی لو۔‘‘ انھوں نے ایک لمبی سانس بھر کر میرا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’بھئی تمھاری شرط پوری کرنے کے لیے سب سے پہلے تو ہم نے ببو میاں سے راہ و رسم بڑھائے۔ اکثر و بیشتر انھیں شادی کے نقصانات اور ریکارڈنگ کے فوائد پر لیکچر دیے، شروع شروع میں تو انھوں نے ہمیں گھانس نہیں ڈالی، مگر آہستہ آہستہ ان کا تجسس بڑھنے لگا۔ ہم نے انھیں شادی سے ڈرانا شروع کیا اور پھر کچھ ہی دنوں میں ان کی حالت یہ ہو گئی کہ ہم جیسے جیسے انھیں شادی کے نقصانات بتا تے وہ اتنا ہی شادی کے شوق میں مرے جاتے۔ ہم انھیں بتاتے کہ بیوی کو دن رات کا حساب دینا ہوتا ہے تو وہ کسی لیڈر کی طرح فرماتے کہ احتساب تو اچھی چیز ہے، ہم انھیں ڈراتے کہ بچوں کے فیڈر اور ڈائیپر بھی شوہر کی ذمہ داری بن جاتی ہے تو وہ سنجیدگی سے جواب دیتے کہ میاں بیوی تو ہوتے ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ہم انھیں دہلاتے کہ شادی کے بعد زندگی قید بن جاتی ہے تو وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہتے ایسی قید میں تو مر جانے کو دل چاہتا ہے۔۔۔ غرض یوں سمجھو کہ درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔۔‘‘
’’بس ایک دن ہم انھیں اسی طرح شادی کے خطرات سے آگاہ کر رہے تھے کہ انھوں نے اپنی شادی کے لیے خاتون ڈھونڈنے کی فرمائش ہمارے سامنے دھر دی۔‘‘
’’یعنی آپ کے مدلل بیانات کے باوجود؟ اوہ! توآپ کا یہ طریقہ کار ہے۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔
’’بہر کیف اُن کے لیے خاتون تلاش کی گئیں اور یوں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔‘‘
’’مگر پھر یہ ریکارڈنگ رُکی کیسے؟‘‘ شاید وہ زندگی میں پہلی بار نہ چاہتے ہوئے بولنے پر مجبور تھے ورنہ وہ ہمیشہ خود ہی خوب خوب بولنے پر مصر رہتے تھے۔
’’ٹکٹ جناب!‘‘ کنڈیکٹر نے بیچ میں آکر ہم دونوں کی بات کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ خلافِ توقع نظامی صاحب نے اپنی جیب سے فوراً پیسے نکال کر دیتے ہوئے کہا، ’’میاں کنڈیکٹر، تین ٹکٹ۔‘‘
’’تین نہیں، دو۔‘‘ میں نے تصحیح کرتے ہوئے کہا۔
نظامی صاحب نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولے، ’’کیوں بھئی! کیا اپنی بھابی کو بغیر ٹکٹ کے سفر کرواؤ گے؟‘‘
’’کیا!‘‘ میں ایک دم اُچھل ہی پڑا۔ ’’کیا یعنی آپ نے شادی۔۔۔‘‘ میں نے بمشکل تھوک نگلتے ہوئے ہونقوں کی طرح پوچھا۔
’’ہاں ہاں! بھئی جذبات قابومیں رکھو، ہوتا ہے ہوتا ہے ایسا بھی ہوتا ہے۔ دراصل تم جانتے ہو کہ یہ رشتے وغیرہ طے کروانا ذرا ٹیڑھی کھیرہوتی ہے۔ یہ مردوں کے بس کا روگ نہیں اس لیے ببو میاں کی شادی کرانے اور تمام جھمیلوں سے نمٹنے کے لیے کسی خاتون کی ضرورت تھی۔ سو تمھاری خاطر ہمیں یہ شادی کرنا ہی پڑی۔ بس تمھاری بھابی ہی نے ببو کی شادی کا تمام انتظام کیا، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ہم تو اپنی ہی کر کے بے حال ہو گئے تھے۔ ’’
مگر آپ تو!‘‘ میں نے بات کاٹنے کی کوشش کی۔
’’ہاں ہاں میاں! بس چپ رہو، اب کچھ نہ پوچھنا۔‘‘ انھوں نے مجھے خاموش ہی کرا دیا۔
’’اچھا یہ تو بتا دیجیے کہ آخر ببو کی بیوی نے ریکارڈنگ کس طرح بند کروائی؟‘‘
’’ارے میاں ہم نے بھی کچی گولیاں تو نہیں کھیلی ہیں اور پھر تمھاری شرط کا خیال بھی تو تھا اس لیے ببو کے لیے جس خاتون کا انتخاب عمل میں لایا گیا وہ بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں اور تم تو جانتے ہی ہو کہ شور و غل بلڈ پریشر کے مریضوں کا قاتل ہوتا ہے۔ سو یوں تمھارا مسئلہ بھی حل ہو گیا اور ببو کا بھی!‘‘
ابھی میں نظامی صاحب کی اس تمام ڈرامائی قسم کی اسٹوری پر بھونچکا ہی تھا کہ نظامی صاحب ’’میرا اسٹاپ آ گیا۔۔۔ میرا اسٹاپ آ گیا۔‘‘ کہتے ہوئے اترنے کے لیے لپکے۔
’’مگر نظامی صاحب سنیے تو سہی!‘‘ میں نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا، مگر وہ کب کا میرا ہاتھ چھڑا کر اب چلتی رکتی بس کی کھڑکی کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔
’’جلدی بولو کیا بات ہے؟‘‘ انھوں نے بس کے ساتھ بھاگتے بھاگتے پوچھا۔
’’دراصل۔۔۔ دراصل میں اپنی شرط توڑنے کا ارادہ کر بیٹھا ہوں، میں نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘
میری بات سن کر وہ تقریباً اچھل ہی پڑے، ’’اماں! کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
’’جی بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔‘‘ میں نے کچھ خجل سا ہوتے ہوئے کہا۔
وہ چلتی رکتی بس کے ساتھ ساتھ دوڑ کر ابھی تک اپنی حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔
’’کیا واقعی میرا مطلب ہے اگر تم نے واقعی ایسا ارادہ کر ہی لیا ہے تو مجھ سے دفتر میں آ کر مل لینا، یہ لو میرا کارڈ۔‘‘ بس روانہ ہو گئی۔ میں نے اس کارڈ کو غور سے دیکھا، جس پر گلاب کے دو چھوٹے پھولوں کے درمیان سرخ رنگ سے لکھا تھا، ’’بہترین رشتوں کے لیے رجوع کیجیے۔ نظامی شادی دفتر۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.