Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

درندہ

MORE BYسلام بن رزاق

    ’’درندہ آیا۔۔۔د رندہ آیا۔۔۔‘‘

    بستی میں چاروں طرف ایک شور سا اٹھا۔ دھڑا دھڑ کھڑکیاں اور دروازے بند کر لیے گئے۔ نوجوان لاٹھی، بلّم، تیر تفنگ لے کر گھروں سے باہر نکلے۔ گلیوں، کوچوں اور سڑکوں پر درندے کی تلاش شروع ہوگئی۔ گھنٹوں پکڑو، مارو، جانے نہ پائے کی آوازیں آتی رہیں۔ رات بھر لوگ مشعلیں جلائے اِدھر ادھر درندے کی تلاش میں سرگرداں رہے مگر درندہ ہاتھ نہ آیا۔ صبح ہوئی اور لوگوں نے دیکھا کہ اس بار بھی درندہ صاف بچ کر نکل گیا تھا۔ البتہ اِدھر ادھر گلی کوچوں میں چند خون آلود لاشیں پڑی ہوئی تھیں، کٹی پھٹی، ٹیڑھی میڑھی۔

    ایک عرصے سے بستی میں درندے کی غارت گری جاری تھی۔ مکان، گلی، بازار، محلّہ، کھیت کھلیان کوئی جگہ محفوظ نہیں تھی۔ سب جانتے تھے کہ درندہ کہیں قریب ہی سے آتا ہے اور اپنا کام ختم کرنے کے بعد غائب ہو جاتا ہے مگر اس کے آنے کی صحیح سمت کا وہ لوگ ابھی تک اندازہ نہیں لگا سکے تھے۔ اس کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی حملہ آور ہو سکتا تھا۔ بستی کے دانشوروں نے غور کیا کہ اگر اس کے حملوں کا تدارک نہیں کیا گیا تو ایک دن پوری بستی فنا ہو جائےگی۔ انہوں نے بارہا اس مسئلے پر سر جوڑ کر غور کیا مگر اس کا معقول حل ہنوز وہ لوگ تلاش نہیں کر پائے تھے۔ وہ جب بھی اس پریشان کن مسئلہ پر غور کرنے بیٹھتے ان کے الفاظ دھیرے دھیرے مایوس کن سوالوں کی شکل اختیار کر لیتے اور وہ لوگ اس پیچیدہ مسئلے کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جاتے۔

    ’’کیا کِیا جائے؟‘‘

    ’’کیا کِیا جاسکتا ہے؟‘‘

    ’’ہماری زندگیاں خطرے میں ہیں۔‘‘

    ’’درندہ بہت طاقتور ہے۔‘‘

    ’’بے انتہا چالاک ہے۔‘‘

    ’’اسے کیوں کر زیر کیا جا سکتا ہے؟‘‘

    ’’پتا نہیں وہ کہاں سے آتا ہے؟‘‘

    ’’کہاں جاتا ہے؟‘‘

    جب مایوسی اور خوف ہزار پائے کی طرح انہیں چاروں طرف سے جکڑ لیتے تب وہ اپنے معبود کے سامنے گڑگڑاتے۔ اپنی حفاظت کی دعائیں مانگتے۔ روتے بلکتے۔ مگر ان کی دعائیں اور ان کے آنسو کبھی درندے کی راہ کی رکاوٹ نہ بن سکے۔ وہ جب چاہتا، جہاں چاہتا کسی پر بھی ٹوٹ پڑتا اور اپنی بر بر یت کا مظاہرہ کرکے لوٹ جاتا۔ درندہ لوٹ جاتا مگر اپنے پیچھے دردناک چیخیں، آنسواور آہیں چھوڑ جاتا جو عرصے تک اس کی درندگی اور وحشت خیزی کی یاد دلاتے رہتے۔ یوں تو بے شمار لوگ اس بات کے دعوے دار تھے کہ انہوں نے درندے کو بہت قریب سے دیکھا ہے مگر اس کے حلیے، جسامت اور شکل و صورت کے بارے میں لوگوں کی اتنی مختلف رائیں تھیں کہ ان کے سہارے درندے کی صحیح شکل و صورت کا تعین کرنا قریب قریب ناممکن تھا۔ بستی والے جب بھی اس درندے کا شکار کرنے یا اسے ہلاک کرنے کے بارے میں غور کرتے، الجھ کر رہ جاتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ایک ایسی ہستی کو کیوں کر زیر کیا جا سکتا ہے جس کا صحیح حلیہ بھی انہیں نہیں معلوم۔

    بستی میں بڑے بڑے سورما موجود تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں بیسیوں وحشی جانوروں کا شکار کیا تھا اور سرکش سے سرکش جانور پر قابو پانے کے ہنر سے وہ بہ خوبی واقف تھے مگر یہ درندہ جس کی انہوں نے صرف بھیانک کہانیاں سنی تھیں اور جس کی غارت گری کے قصے اتنے لرزہ خیز تھے کہ ان کی ساری دلیری اور جرأت مندی کسی سردی کھائے پلّے کی طرح ان کے اندر سکڑ سمٹ کر رہ جاتی۔ ان کی بہادری اور جواں مردی کے لیے ناقابلِ قبول چیلنج بن گیا تھا۔ انہوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ پہاڑوں سے ٹکرا سکتے ہیں مگر ہواؤں سے نہیں لڑ سکتے۔ اندیکھی قوتوں سے مقابلہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔

    بستی پر خوف و دہشت کے سایے بدارواح کی طرح منڈلا رہے تھے۔ دنوں کا آرام و سکون ختم ہو گیا تھا۔ راتوں کی نیندیں اڑ گئی تھیں۔ وہ شب و روز درندے پر قابو پانے کے منصوبے بناتے مگر درندہ ہنوزا ن کی دسترس سے باہر تھا۔

    ایک دن بستی کے بوڑھے جوان سب چوپال میں سر جوڑے بیٹھے تھے، درندے ہی کا مسئلہ زیرِ غور تھا۔ پرجوش تقریریں کی گئیں، گرما گرم بحثیں ہوئیں۔ درندے کو زیر کرنے کی نئی نئی ترکیبیں سوچی گئیں۔مگر سب بےسود۔ جب وہ بحث کرتے کرتے تھک جاتے، ترکیبیں سوچتے سوچتے عاجز آ جاتے تو ذرا دم لیتے، تھوڑا سستاتے، پھر نئے سرے سے بحث کرنے اور ترکیبیں سوچنے میں لگ جاتے۔

    تب ہی دور سے غبار اڑتا نظر آیا۔ سب کی نظریں اس طرف کو اٹھ گئیں۔ کوئی بستی کی سمت بڑھا چلا آ رہا تھا۔ سب متجسس نگاہوں سے اسی سمت دیکھنے لگے۔ گردوغبار صاف ہوا اور ایک انسانی ہیولا دکھائی دیا جو دوڑتا لڑکھڑاتا ان ہی کی طر ف آرہا تھا۔ کپڑے گرد آلود، چہرہ پسینے سے تر اور بالوں میں دھول۔ وہ شخص بستی والوں کے پاس آکر ہانپتا ہوا ایک طرف کو بیٹھ گیا۔ لوگوں نے اسے پہچان لیا، وہ بستی کا پرانا مخبر تھا جو آس پاس سے ان کے لیے اچھی بری خبریں لایا کرتا تھا۔ مخبر بستی والوں کی نظروں میں بہت معتبر تھا۔ جب وہ اپنا سانس درست کر چکا تو بستی کے مکھیا نے پوچھا۔

    ’’کیا خبر ہے؟‘‘

    مخبر نے اشارے سے پہلے پانی مانگا۔ کسی نے دوڑ کر اسے مٹی کے کلیے میں پانی پیش کیا۔ مخبر غٹا غٹ سارا پانی پی گیا۔ پھر اپنی میلی آستین سے منہ پونچھا اور بولا۔

    ’’میں نے درندے کا سراغ پا لیا ہے۔‘‘

    ’’کیا۔۔۔؟‘‘ مجمع مسرت خیز استعجاب سے چیخ پڑا۔

    ’’کہاں ہے درندہ؟ ہمیں بتاؤ کہاں ہے وہ؟ ہم اسے اپنے تیروں سے بیندھ کرکے رکھ دیں گے۔‘‘

    چند نوجوان چھاتی پھلا کر آگے بڑھے۔

    ’’ہم اسے اپنی تلواروں کی باڑھ پر رکھ لیں گے۔‘‘ دو چار نے اپنی تلواریں نیاموں سے کھینچ لیں۔

    ’’ہمیں بتاؤ، ہمیں بتاؤ کہاں ہے وہ؟ ہم اس کا سینہ چھلنی کر دیں گے؟‘‘

    نیزہ بردار نوجوانوں نے اپنے نیزوں کو ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا۔

    مخبر نوجوانوں کی طرف تعریفی نگاہوں سے دیکھتا رہا۔ پھر مکھیا سے مخاطب ہوا۔

    ’’ان بہادر نوجوانوں کا جوش دیکھتے ہوئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ درندے کے دن پورے ہو چکے ہیں۔‘‘

    ’’بتاؤ۔۔۔بتاؤ۔۔۔ وہ کہاں ہے؟‘‘ مجمع جوش سے بے قابو ہو رہا تھا۔

    ’’وہ ۔۔۔ وہ ہمارے پڑوس کی بستی میں ہے۔‘‘

    ’’پڑوس کی بستی میں؟‘‘

    ’’ہاں، پڑوس کی بستی میں۔ وہ درندہ پڑوس کی بستی والوں کا تربیت یافتہ ہے۔ انہیں جب ہماری بستی کی خوش حالی، ہمارے نوجوانوں کی بےپناہ طاقت اور قابلِ رشک اتحاد کو چوٹ پہنچانی ہوتی ہے وہ چپکے سے اس درندے کو بستی کی سرحد پر لا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ درندہ بستی میں گھس آتا ہے اور ہمارے امن و سکون کو درہم برہم کر کے چلا جاتا ہے۔‘‘

    ’’ہم اپنے پڑوسیوں کو نیست و نابود کر دیں گے۔‘‘

    ’’ہم ان کی بستی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘

    ’’ہم دشمنوں کو پاتال میں پہنچا دیں گے۔‘‘

    غصے میں بھرے بستی والے اسی وقت اپنے دشمن پڑوسی کی بستی پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ بستی کے بزرگوں نے بڑی مشکل سے نوجوانوں کے غصے کو ٹھنڈا کیا۔ طے یہ پایا کہ رات کو جب پڑوس کی بستی والے بے خبر سورہے ہوں گے اچانک ان پر حملہ کردیا جائے اور نہیں ان کے تربیت یافتہ درندے سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔

    سرِ شام سے ہی لوگ لاٹھی، بلّم، تیر تفنگ سے لیس ہوکر روانگی کے حکم کا انتظار کرنے لگے۔ آخر ایک پہر رات گزرے مکھیا نے حملہ آور گروہ کو روانگی کا حکم دے دیا۔ تمام نوجوان کیل کانٹے سے لیس ہوکر دشمن بستی کی طرف پیش قدمی کرنے لگے۔ دشمن کی بستی کے قریب پہنچنے کے بعد انھوں نے بستی کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور اپنے سردار کا اشارہ پاتے ہی بستی پر ٹوٹ پڑے۔ بستی کے لوگ گہری نیند میں ڈوبے ہوئے تھے۔ شور سن کر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور اس سے پہلے کہ وہ معاملے کی نوعیت کو سمجھتے موت ان کے سروں پر منڈلانے لگی۔ بستی کے تقریباً سارے جوان مرد قتل کر دیے گئے۔ بوڑھوں کو نیزوں سے چھید دیا گیا۔ صرف جوان عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ کھڑی فصلیں تباہ کر دی گئیں اور بستی کے خالی مکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ جب بستی کے آخری مکان کی چھت بھی بھسم ہوکر ڈھے گئی تب فاتح گروہ فتح کا نقارہ بجاتا ہوا رخصت ہوا۔

    ان کا خیال تھا کہ دشمن کے ساتھ دشمن کا تربیت یافتہ درندہ بھی ہلاک کر دیا گیا ہے۔بعض نے تو یہاں تک دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود درندے کو قتل کیا ہے۔ بعض نے گواہی دی کہ انہوں نے فلاں جگہ اسے مردہ پڑا دیکھا تھا۔ کسی نے کہا اس نے اسے زخمی حالت میں جنگل کی سمت فرار ہوتے دیکھا ہے۔ جو بھی ہو فاتح گروہ کو اطمینان تھا کہ دشمن کے ساتھ دشمن کے درندے کا قضیہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ وہ سب مالِ غنیمت لیے، عورتوں کو لونڈیاں اور بچوں کو غلام بنا کر ظفر مندی کے نشے میں جھومتے ہوئے اپنی بستی کی طرف لوٹے۔

    مگر وہ سب اس بات سے بے خبر تھے کہ اب بھی ایک سایا دبے قدموں ان کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے