Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دروازہ

صدیق عالم

دروازہ

صدیق عالم

MORE BYصدیق عالم

    کہانی کی کہانی

    یہ بڑھتی آبادی اور معاشرے کے عدم توازن کی کہانی ہے۔ اس کی نوکری چھوٹ گئی تھی مگر اس کی خبر اس میس میں نہیں پہنچی تھی جہاں وہ رہتا تھا۔ یہ میس ایک بالکل ہی سستے ہوٹل کی طرح تھا جس کے کمروں میں چوکیاں لگی تھیں۔ ان ہی آوارہ گردی کے دنوں میں، جب وہ دھیرے دھیرے اپنی جمع کی ہوئی پونجی ختم کر رہا تھا اس کی ملاقات ایک عجیب انسان سے ہو گئی جس کی ہڈیوں میں چربی کی جگہ شراب دوڑتی تھی۔ وہ اسے مبارکباد دیتا ہے کہ اس نے اپنی آزادی حاصل کر لی ہے، اور یہی وقت ہے کہ وہ اس شہر کو چھان پھٹک لے کیونکہ ایک بڑا شہر اپنے آپ میں کسی عجائب گھر سے کم نہیں ہوتا۔

    وہ میرے بہت ہی برے دن تھے۔ میری پانچ برس کی نوکری چلی گئی تھی اور مجھے پورا یقین تھا کہ آئندہ کئی ماہ تک مجھے کوئی نوکری نہیں ملنے والی، بلکہ اب شاید ہی کوئی ڈھنگ کی نوکری مجھے ملے۔میرے پاس ایک برائے نام پیشہ ورانہ تعلیم تھی جس کے دعوےٰ دار دن بدن بڑھتے جا رہے تھے۔ اور ہنر کے نام پر میرے پاس چپ رہنے کے علاوہ دوسرا کوئی ہنر نہ تھا۔ جب میری میز پر تین ماہ کی تنخواہ کے ساتھ برخواستگی کا پروانہ رکھا گیا تو میں کھلی آنکھوں سے صرف اس لفافے کو دیکھتا رہ گیا جومعمول سے زیادہ دبیز تھا (گرچہ بعد میں ان میں پانچ سو کا ایک نوٹ جعلی ثابت ہوا جسے کیشیئر نے بغیر کوئی سوال کئے مودبانہ خاموشی کے ساتھ بدل دیا تھا۔) ان لوگوں نے پچھلے کئی مہینوں سے مجھے اشارے کنایے میں یہ بتانا شروع کر دیا تھا کہ کمپنی کو میری کارکردگی اطمینان بخش نظر نہیں آتی، کہ میری ریویو ہونے والی ہے۔ جب انھوں نے مجھ سے پچھلے سات برسوں کی نوکریوں کی تفصیل مانگی تو مجھے ہوشیار ہو جانا چاہئے تھا اور استعفٰی کے بارے میں سوچنا شروع کر دینا چاہئے تھا۔ اس جگہ کام کرنے سے پہلے میں نے کئی جگہ سچ مچ کی نوکریاں کی تھیں اور کئی جگہ سے تجربات کے جعلی سرٹیفکیٹ حاصل کئے تھے جنھیں ترس کھا کر مجھے دے دیا گیا تھا۔ مگر میں نے سوچنے میں کافی وقت لگا دیا۔ اپنی خاموش طبیعت کے سبب میں نے دوسروں سے اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا، نہ ہی کسی سے کوئی رائے مانگی، گرچہ انھیں اس بات کا پتہ تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ میرے آفس میں تو سن گلاس واحد شخص تھا جو اکثر میری میز پر آکر مجھ سے ایک آدھ ذاتی باتیں کر لیا کرتا۔ اسے مجھ سے دلی ہمدردی تھی۔ میں بھی اسے نا پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ لانبے قد کا ایک ادھیڑ عمر کا آدمی تھا، جس نے مشنریوں کے ایک فری اسکول میں تعلیم پائی تھی۔ وہ ایک قبائلی کرسچن تھا جس پر یہ نام کچھ جچتا نہ تھا۔ اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں میں نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی مگر میرے نہ چاہنے پر بھی وہ اختصار کے ساتھ اپنے حالات مجھے بتا دیا کرتا۔ مثال کے طور پر ایک بار اس نے بتایا کہ وہ جنگل محل کے جس شہر میں پلا بڑھا اب اس کا نام بدل گیا ہے۔ واقعی، مجھے اس وقت یہ عجیب لگا تھا کہ وہ کس طرح اپنے پیدائشی شہر کی شناخت سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا، گرچہ بعد میں مجھے اس واقعے میں کوئی غیر معمولی بات دکھائی نہیں دی۔ دوسری باراس نے اپنے چھوٹے بھائی کا ذکر کیا جسے ایک تیندوا اٹھا کر لے گیا تھا۔

    ’’وہ صرف پانچ برس کا تھا اور مجھے میرے بھائی بہنوں میں سب سے عزیز تھا۔‘‘

    ’’شاید اس لئے کہ وہ جلد موت کی آغوش میں جانے والا تھا۔‘‘ مجھے خود کو بولتے دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔

    ’’نہیں، اس وجہ سے نہیں۔‘‘ ایک ہاتھ میری کرسی کی پشت پر رکھے وہ اپنی چھوٹی چھوٹی قبائلی آنکھوں سے میری طرف تاک رہا تھا۔ ’’اس کے آخری لمحے تک ہمیں کب پتہ تھا کہ وہ مر جانے والا تھا؟‘‘

    ہاں، میں نے اس وقت دل ہی دل میں تسلیم کیا، جسے ہم رگ جان سے قریب رکھتے ہیں ہمیں اس وقت تک اس کی موت کا یقین نہیں ہوتا جب تک وہ مر نہیں جاتا، بلکہ اکثر تو اس کے مر جانے کے بعد بھی کئی کئی دن تک ہم خود کو یقین دلا نہیں پاتے۔ ہمارا دل کہتا ہے کہ وہ ابھی زندہ ہے اور کسی بھی وقت سامنے آ کھڑا ہوگا۔ مجھے ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اسنے برسوں تک اس کا یقین نہیں کیا تھا کہ بس سے کچل کر اس کی لڑکی کی جان چلی گئی تھی گرچہ اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کے ننھے منے جسم کو ہندوؤں کے قبرستان میں دفن کیا تھا۔ مجھے اس شخص کو دیکھنے، اس سے ملنے کی بڑی تڑپ تھی۔ یہ واقعہ میرے میس کے ایک بزرگ نے بتایا تھا جو کچھ برس پہلے ریلوے کی نوکری سے سبکدوش ہوا تھا، غیر شادی شدہ تھا، اپنی نوکری کی آخری دہائی اس نے اس میس میں گذاری تھی اور اب اس کا ارادہ اسے مرتے دم تک چھوڑنے کا نہ تھا۔

    ’’یہ خبر اخبار میں چھپی تھی۔‘‘ اس نے بتایا۔ ’’بہت پہلے میں نے اسے بنگلہ اخبار میں دیکھا تھا۔ مگر ان اخبار والوں کا کیا بھروسہ۔ اکثر کسی دلچسپ خبر کی کمی کو پوری کرنے کے لئے وہ جھوٹ موٹ کی خبریں بھی چھاپ دیتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن ایسا تو ہو سکتا ہے۔‘‘ میس کے گنجے منیجر نے کہا جو ایک سنجیدہ انسان ہوتے ہوئی بھی دونوں کان کے اوپر اگے ہوئے جھالر نما بالوں کے سبب کسی مسخرے کی طرح نظر آتا تھا۔’’ایسا ممکن تو ہے۔ کون یہ یقین کر سکتا ہے کہ اس کا جگر کا ٹکڑا مر چکا ہے۔‘‘

    اس میس میں میری نوکری چھوٹ جانے کی خبر ابھی تک نہیں پہنچی تھی اور میں آخری شخص تھا جو یہ بتانے والا تھا۔ یہ میس ایک بالکل ہی سستے ہوٹل کی طرح تھا جس کے کمروں میں چوکیاں لگی تھیں، چھوٹے کمروں میں دو دو چوکیاں اور بڑے کمروں میں چھ چھہ بلکہ ایک میں تو آٹھ تخت لگے ہوئے تھے۔ اسی سب سے بڑے کمرے میں شطرنج کا بساط سجتا تھا، تاش کے پتوں کا کھیل چلتا، سیاست پر لمبی چوڑی بحثیں ہوتیں اور کرکٹ کے موسم میں ٹرانزسٹر کی آواز اونچی کرکے کمنٹری سنی جاتی۔

    ’’اور یہی جہ ہے کہ میں اس میس کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ ریلوے کے سبکدوش ملازم نے ایک دن اعلان کیا تھا۔ ’’میرے دو بھائی ہیں، ان کے بیویاں ہیں، لڑکے بچے ہیں۔ تمام لوگ مجھے پسند کرتے ہیں۔ ہمارا پشتینی مکان ہے، ذاتی تالاب اور مندرہے۔ مگر میرا دل وہاں نہیں لگتا۔ صرف اس جگہ، اس میس میں مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں بوڑھا نہیں ہوں نہ ہی احترام کے لائق ہوں۔ صرف اس جگہ میں دل کھول کر بول اور ہنس سکتا ہوں اورلوگ میرے ریح خارج کرنے پر سنجیدگی اور احترام سے خاموش نہیں رہتے۔صرف یہاں، تم لوگوں کے بیچ میں صحیح معنوں میں پوری طرح زندہ ہوں۔‘‘

    وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ اس میس میں اس جیسے بوڑھے سے لے کر کئی ادھیڑ عمر اور مجھ جیسے پختہ عمر کے لوگوں کے علاوہ کالج اور ہائی اسکول کے طلبا بھی رہتے تھے۔ ان میں سے چند بستر پر کچھ لوگ کافی عرصے سے قابض تھے اور کچھ بستروں پر رہنے والے بدلتے رہتے جن میں زیادہ تعداد طالب علموں کی ہوتی کیونکہ یہاں چاروں طرف ہائی اسکول اور کالج بکھرے پڑے تھے۔

    ہمارا بوڑھا میس کے اندر کافی مقبول تھا۔ ایک بار وہ شدید طور پر بیمار پڑا تو نہ صرف اسے سب لوگوں نے سرکاری اسپتال میں داخل کیا بلکہ اسپتال سے واپسی پر رات رات بھر جاگ کر اس کی تیمار داری بھی کی۔ وہ تاش کا ایک اچھا کھلاڑی تھا اور اکثر لوگوں کو جوا کھیلنے پر اکسایا کرتا۔

    ’’پیسہ نہ لگاؤ تو کیا خاک مزا ہے۔‘‘ وہ کہتا۔ ’’چاہے وہ زندگی کا کھیل ہی کیوں نہ ہو۔ سارا کچھ پیسوں کے بل پر چلتا ہے۔یقین نہ ہوتو ایک بار پیسہ پھینک کر دیکھو۔‘‘

    میں نے کئی بار تاش میں اسے ہرایا تھا۔

    ’’مجھے حیرت ہے۔ تم کوئی اچھے کھلاڑی تو ہو نہیں۔‘‘ اس نے بعد میں مجھ سے کہا۔ ’’ایک بار جیت لینا سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن ہر بار جیتنا وہ بھی ایک ایسے کھلاڑی کے لئے جسے صحیح ڈھنگ سے پتے سنبھالنا تک نہیں آتا، یہ میری عقل سے باہر ہے۔ واقعی تم کس مٹی سے بنے ہو؟ اور تم اتنے خاموش انسان کیوں ہو؟ کیا راز ہے جو تم اپنے سینے میں ڈھوتے پھر رہے ہو۔ بچے، تمہارے گھر میں سب ٹھیک تو ہے؟‘‘

    میں نے اسے بتایا کہ میرے سینے میں کوئی راز دفن نہیں ہے اور میں خاموش کیوں رہتا ہوں، میں خود نہیں جانتا اور میرا گھر اور دوسرے گھروں سے الگ نہیں ہے۔

    ’’شاید تمہاری خاموشی اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ ممکن ہے ہم لوگ ہی اپنی زبان کا زیادہ استعمال کرتے ہوں۔‘‘ اس نے آخر کار ہار مانتے ہوئے کہا اور اس کے بعد ایک طرح سے میری خاموشی کو تسلیم کر لیا۔

    ہر صبح ساڑھے نو بجے نہا دھوکر، مچھلی بھات کھاکر میں میس سے نکل پڑتا۔ میرا رخ ہمیشہ کی طرح اپنے آفس کی طرف ہوتے ہوئے بھی اگلے ہی موڑ پر میں کسی انجانی جگہ کے لئے نکل پڑتا جس کا مجھے اس وقت تک پتہ نہ چلتا جب تک میں اس جگہ پہنچ چکا نہ ہوتا، مگر اس جگہ پہنچ جانے پر مجھے ایسا لگتا جیسے میں وہیں کے لئے نکلا تھا۔ زیادہ تر وقت سڑک پر چلتے چلتے میں خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا کہ زندگی یہی ہے اور دنیا اسی طرح چلتی رہتی ہے، رک رک کر، بدل بدل کر، جس طرح ہر انسان ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتے ہوئے بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے، اسی طرح تمام انسانی زندگیاں بظاہر الگ الگ ہوتے ہوئے بھی بالکل ایک جیسی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر آج اگر میں ایک بےمقصد آوارہ انسان بن چکا ہوں تو میں اس شخص سے قطعی طور پر الگ نہیں ہوں جو تیز قدموں کے ساتھ اپنے سائے کا تعاقب کرتے ہوئے ایک خاص وقت میں کہیں پہنچنا چاہتا ہے اور دن کے خاتمے پر جب سورج اونچی عمارتوں کے درمیان ننگے پیڑوں کے پیچھے جا رہا ہوگا تو وہ ایک بار پھر اسی راستے پر واپس اپنے سائے کا تعاقب کرتا دکھائی دیگا، پہلے کی طرح ہی کپڑوں میں ملبوس اور زندہ اور اس وقت میس کی طرف واپس لوٹتے ہوئے (میں اس کا خیال رکھتا کہ یہ آفس سے لوٹنے کا وقت ہو) وہ مجھ سے کچھ الگ نہ ہوگا۔ اگر میں ایک گاؤں یا ایک چھوٹے شہر میں ہوتا تو یقیناً پکڑا جاتا، مگر ایک بڑے شہر میں چھپنے کے ہزاروں مواقع ہوتے ہیں۔ آپ اپنے گھر کے باہر ایک دوسرے انسان میں ڈھل جاتے ہیں جسے کوئی نہیں جانتا اور اسی طرح ہر روز آپ بے نام لوگوں کی بھیڑ میں کسی ناؤ سے ٹوٹے ہوئے تختے کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں، بالکل تنہا اور خاموش۔ لیکن یہ شہر اگر ایک پر شور سمندر ہے تو ہمارا میس کسی پر سکون جزیرے سے کم نہیں، جہاں چڑیوں کی چہچہا ہٹ ہے، کلبلاتے جھرنے ہیں اور ایک عجیب طرح کی طمانیت لوگوں کے چہروں میں نظر آتی ہے۔ کیا یہ اپنے گھر کی روز مرہ کی پریشانیوں سے دور رہنے کا نتیجہ تھا؟ واقعی یہ ایک عجیب طلسماتی جگہ تھی جہاں آپ کو کبھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ آپ موجوں کے تھپیڑوں کے بیچ ایک ٹوٹے ہوئے تختے کی طرح بہتے جا رہے ہیں جس کی کوئی سمت یا منزل نہیں۔ یہاں تک کہ اپنی خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے بھی آپ اس جگہ کے شور و غل کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    ان ہی آوارہ گردی کے دنوں میں، جب میں دھیرے دھیرے اپنی جمع کی ہوئی پونجی ختم کر رہا تھا اور میرے والدین حیران تھے کہ میں گھر کیوں نہیں لوٹتا، میری ملاقات ایک عجیب انسان سے ہو گئی جس کی ہڈیوں کے گودوں میں چربی کی جگہ شراب دوڑتی تھی۔ وہ کبوتروں سے ڈھکا ہوا ایک روشن دن تھا اور عمارتوں کی دورویہ دیوار چین کے بیچ شاہراہ پر راہگیروں کا ہجوم اپنے معمول پر تھا جب میں نے اسے دیکھا۔ وہ ایک ہائڈرنٹ کے نیچے سر ڈالے اسے دھو رہا تھا۔ اس نے ابھی ابھی فٹ پاتھ کے ریلنگ کو تھام کر نالے کے اندر قئے کی تھی۔ دراصل یہ اس کی حلق میں انگلی ڈال کر ڈکرانے کی آواز ہی تھی جس نے میرے قدم روک لئے تھے۔

    جانے اس وقت مجھے کیا ہو گیا کہ میں نے جھک کر اس سے پوچھ لیا کہ وہ ٹھیک تو ہے۔

    اس نے اپنا گیلا چہرا اٹھا کرمیری طرف دیکھا۔ اس کے بال پیشانی سے چپکے ہوئے تھے، آنکھیں سرخ۔ وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔

    وہ مجھے نہیں جانتا، اس نے اعلان کیا اور دوبارا پانی کی موٹی دھار کے نیچے اپنا سرڈال دیا۔ میں اپنی جگہ کھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے اپنا سر اچھی طرح دھو لیا تو اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور جیب سے رومال نکال کر سر اور چہرا صاف کرتے ہوئے میری طرف دیکھ کر آنکھ ماری۔

    آج اس نے بہت زیادہ پی لی تھی، اس نے مجھ سے مخاطب ہوئے بغیر بتایا۔ میرے اندر کسی طرح کے ردعمل کا فقدان پاکر اسے کوئی مایوسی نہیں ہوئی تھی، جیسے وہ ان چیزوں کا عادی ہو۔ کسی نے اسے ایک بہت ہی سستے شراب کے اڈے کا پتہ بتایا تھا، جو شہر کے بیچوں بیچ ایک گراج کے اندر واقع تھا۔ اسے یہ جگہ پسندآئی تھی۔ یہ ایک طرح سے مفلوک الحال لوگوں کی جنت تھی۔یہ کبھی ایک مشہور گراج رہا ہوگا مگر اب دارو کے ایک اڈے میں بدل چکا تھا جہاں دیسی اور انگریزی دونوں پانی کے بھاؤ ملتی تھیں۔ ’’جب شراب اتنی سستی ہو اور آدمی تنہائی کا شکار تو وہ ضرورت سے زیادہ پی لیتا ہے اور خالی پیٹ شراب پیو تو بعد میں پیٹ کے اندر چوہے دوڑنے لگتے ہیں۔ وہاں کھانے کی الم غلم چیزیں بک رہی تھیں، ہر طرح کی ابلی اور تلی ہوئی چیزیں جنھیں یہ چوہے خاص طور پر پسند کرتے ہیں ۔ شاید مجھے اپنی عمر کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔‘‘

    مجھے لگ رہا تھا میں نے خوامخواہ ہی اس شخص کے ساتھ خود کو الجھا لیا تھا۔ میں اس سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا تھا جب اس نے اپنا گیلا ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا۔ میرا کندھا اس کی ہتھیلی کے نیچے لاشعوری طور پر کسمسا اٹھا۔ اس کے وجود سے قئے کی کھٹی مہک آ رہی تھی۔اس نے واقعی بہت بری طرح کھایا تھا۔

    ’’تم شراب پیتے ہو؟‘‘

    میں نے اسے بتایا کہ میرے جیسے قلیل آمدنی والے لوگ بھی کبھی کبھار شراب پی لیا کرتے ہیں۔

    اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے پینا چاہئے۔ یہ انسان کو ایک مشین بننے سے روکتی ہے۔ ضروت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی بغاوتیں جاری رکھیں۔ ہمارے زندہ رہنے کا اس سے بہتر ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔

    میں اس کی بے سر پیر کی گفتگو کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے مسکرا کر میرا کندھا تھپتھپایا۔ قئے کرنے کے بعد اس کا نشہ تھوڑا کم ہو گیا تھا۔ اس کی طبیعت بھی سدھرنے لگی تھی۔ ’’اور تم کام کیا کرتے ہو؟ کہیں میں تمہارے ذاتی معاملات میں ضروت سے زیادہ دخل تو نہیں دے رہا ہوں؟‘‘

    میں نے اسے بتایا کہ میں ان دنوں بیکار ہوں، کہ میری نوکری چلی گئی ہے۔

    ’’کام ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘

    میں نے نفی میں سر ہلایا۔ میں نے بتا یا کہ ابھی میں نے اس کے بارے میں سوچا نہیں ہے۔

    ’’تب تو تم زندگی کے سب سے سنہرے دور میں ہو۔‘‘ وہ ریلنگ کو تھامے کھڑا تھا اور سڑک پر راہگیروں کی نہ ختم ہونے والی بھیڑ کی طرف دیکھ رہا تھا جو سب وے سے امڈی چلی آ رہی تھی۔ ’’شہر کی سیر کرو، سٹی سینٹر کی طرف جاؤ ، کسی آرٹ میوزیم میں وقت برباد کرویا پھر دریا کواپنے کنارے کا کوڑا کرکٹ کھاتے دیکھو اور اگر ان سب چیزوں سے جی نہ بہلے تو میرے جیسے شرابیوں کو قئے کرتے تو دیکھ ہی سکتے ہو۔ واہ کیا لا جواب زندگی ہے تمہاری اور یہ کتنے دنوں چلنے والا ہے؟‘‘

    میں نے معذرت چاہی۔

    ’’کہاں جاؤگے تم؟تمہارے پاس جانے کے لئے کوئی جگہ تو ہے نہیں۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہیں ان ہی سڑکوں پر آوارہ گردی کرنی ہے۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں نہ میں۔ تم سر نہ ہلاؤ تو بھی میں جانتا ہوں معاملہ یہی ہے؟‘‘

    میں اپنی جگہ خاموش کھڑا تھا۔

    اس نے اووربرج کے پیچھے، ٹن کے ایک بڑے سے کتھئی رنگ کے شیڈ کی طرف اشارا کیا جس سے پرانے زمانے کی ایک چمنی نکلی ہوئی تھی۔ لگ رہا تھا چمنی سے دھواں نکلے زمانہ ہو چکا تھا۔ شاید یہ کسی طرح کا سرکاری گدام تھا کیونکہ اس کی نہ کوئی کھڑکی تھی نہ روشن دان۔ اس اتنی بڑی دیوار پر کسی نے چے گیوارا کا بڑا سا پوسٹر چپکا رکھا تھا جس کا نچلا سرا دھوپ اور پانی میں سڑ چکا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہاں، اس گدام کے پیچھے اینٹ کی ایک دو منزلہ پرانی عمارت کے اندر اس کا ٹھکانہ ہے اور اگر چاہوں تو میں تھوڑا سا وقت اس کے ساتھ گذار سکتا ہوں۔’’ میرے پاس شراب کی ایک بوتل اب بھی بچی ہوئی ہے۔ویسے کسی اجنبی کے ساتھ اس طرح ہو لینے کا مشورہ میں بھی نہیں دونگا۔ تم مصیبت میں پڑ سکتے ہو۔‘‘

    وہ شرارت بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔

    ’’مجھے لگتا ہے مجھے واپس جانا چاہئے۔‘‘ ایک اکتا دینے والی خاموشی کے بعد میں نے احتجاج کا رویہ اپناتے ہوئے کہا۔

    ’’سوچ لو۔‘‘ اس کی آنکھوں کی مسکراہٹ قائم تھی۔ ’’یہ شہر ایک اور دروازہ تمہارے لئے کھول رہا ہے۔ شاید یہ تمہاری بوریت بھری زندگی میں تھوڑی سی رونق لے آئے۔ یا ساری زندگی یوں ہی گذار دینا چاہتے ہو، بےمقصد، آوارہ، کسی مشین کی طرح، کسی اور کے لئے جو تمہارا شکر گذار بالکل نہ ہوگا۔‘‘

    میں نے اسے بتانا چاہا کہ یہ اتنا برا بھی نہیں تھا، کہ زندگی ان ہی کل پرزوں کے سہارے چلتی رہتی ہے۔ مگر کیا میں اس کا اہل تھا کہ انھیں الفاظ کی شکل دے پاتا۔

    میں دیر سے میس لوٹا تھا۔

    ’’آج آفس میں کام زیادہ تھا؟‘‘ میرے پڑوسی نے راہداری کے بیسن پر چہرا دھوتے دھوتے آئینہ کے اندر سے میری طرف دیکھا۔ اس نے ابھی ابھی اپنی شیونگ ختم کی تھی۔ میرا دروازا بیسن سے لگا ہوا تھا۔ کنجی نکالتے ہوئے میں نے اسے بتایا کہ میری نوکری ایک ماہ قبل جا چکی ہے۔ میں اس سے بالکل قریب نہ تھا، بس کمرا آس پاس ہونے کے سبب کبھی کبھار ہماری ملاقات ہو جاتی۔ مگر جانے کیوں وہ راز جسے میں نے سب سے چھپا کر رکھا ہوا تھا اتنی آسانی سے اس کے سامنے اگل دیا۔ میرے کمرے میں دو بستر تھے۔ میرا روم میٹ بہت دیر سے واپس لوٹنے کا عادی تھا۔ ایک پرائیوٹ فرم اس کا استحصال کرتی تھی۔

    وہ میرے پیچھے پیچھے شیونگ کا ڈبہ تھامے کمرے کے اندر آ گیا اور دوسری چوکی پر بیٹھ کرجس کا بستر تکیہ کے ساتھ لپیٹ کرایک کنارے رکھ دیا گیا تھا، چھت کے کنڈے سے لٹکتے بلب کی تیز روشنی میں میرا جائزہ لینے لگا۔ اس نے گیلا چہرا صاف نہیں کیا تھا گرچہ تولیہ اس کے ہاتھ میں تھا۔میرا چھوٹا سا کمرا آفٹر شیونگ لوشن سے مہک اٹھا۔

    ’’کوئی دوسری نوکری ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘

    اس کا جواب دینے کی بجائے میں بستر سے اخبار اٹھا کر دیکھنے لگا جسے میں صبح پڑھ کر نکلا تھا اور اب دوبارا پڑھنے والا تھا۔ میں نے اس سے التجا کی کہ میری نوکری کے بارے میں دریافت نہ کرے۔

    ’’تم تھوڑا نشے میں لگ رہے ہو؟‘‘

    ہاں، میں نے اسے بتایا، میں نے ایک بے غیرت انسان کی شراب پی ہے جو خود کو سماج کا ناسور سمجھتا ہے۔

    ’’تو ان دنوں یہ کر رہے ہو۔‘‘ اس نے تولیہ سے چہرا رگڑتے ہوئے کہا۔ اس کے ہونٹو ں کے کونوں پر برص کے نشان نمایاں ہو چلے تھے۔ ’’چلو ، جب تک نوکری مل نہیں جاتی اس شہر کو چھان پھٹک لو۔ ایک بڑا شہر اپنے آپ میں کسی عجائب گھر سے کم نہیں ہوتا۔‘‘

    اس کے جانے کے بعد میں دیر تک اس عجیب و غریب انسان کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کا دبیز دیواروں والا پرانا گھر ایک ڈھلان پر واقع تھا جس کی اوپر کی منزل پر جانے کس طرح کے لوگ آباد تھے۔اس نے جس کمرے میں مجھے بٹھایا تھا اس کا ایک دروازہ نہر کی طرف کھلتا تھا جو اب گندے پانی کے ایک بڑے نالے کی شکل لے چکی تھی۔ دروازے کے باہر ایک ٹوٹا پھوٹا زینہ تھا جس کا آخری پائدان ٹوٹ جانے کے سبب زمین سے اس کا تعلق ختم ہو گیا تھا۔ سیڑھی کے نیچے جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی ڈھال تھی جس پر شراب کی رنگ برنگی بوتلیں پانی کے اندر تک بکھری پڑی تھیں۔ نہرکے دوسرے کنارے ریفوجیوں نے سرکنڈوں کے کے جھونپڑے بنا رکھے تھے جن کے چھپر کھجور کے پتوں کے تھے۔ان سے تھوڑے فاصلے پر پولیتھین سے گھرے ہوئے سنڈاس پانی میں اپنے طوالوں پر کھڑے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر جھونپڑیاں ویران تھیں کیونکہ ریفوجیوں کی ایک بڑی تعداد ملک کی آبادی میں رچ بس گئی تھی۔ یہ جھونپڑیاں نہر کے دنوں کنارے اتنی دور تک چلی گئی تھیں کہ ان کا آخری سرا دھند میں غائب ہو گیا تھا۔ مجھے اپنے شہر کے عین مرکز میں اتنی لمبی اتنی خوابناک نہر کو دیکھنے کا اس سے پہلے اتفاق نہیں ہوا تھا، وہ بھی ایک ایسی جگہ جس سے تھوڑے ہی فاصلے پر دنیا کا ایک مصروف ترین ریلوے اسٹیشن واقع تھا۔

    ’’تمہاری آنکھوں سے لگتا ہے اس نہر کو پہلی بار دیکھ رہے ہو۔‘‘ اس نے ایک بہت ہی پرانے چرمی صوفے کی طرف اشارا کیا جس کے آدھے حصے پر پرانے اخبارات، گندے کپڑے اور دوسرے الم غلم سامان بےترتیبی سے رکھے ہوئے تھے۔ میں اس کمرے میں اپنی دلچسپی کے لائق کوئی چیز تلاش کر رہا تھا، ایسی کوئی چیز جو اس انسان پر روشنی ڈال سکے۔ ہم جن سامانوں کے درمیان زندگی گذارتے ہیں کیا وہ ہمیں ہم سے بہتر بیان نہیں کرتے؟ مگر مجھے کہیں پر کچھ بھی دکھائی نہ دیا یہاں تک کہ پلستر جہاں جہاں سے اکھڑ گئے تھے وہاں بھی کوئی انسانی ہیولابن نہیں پایا تھا۔ کیا اس نے اپنی زندگی سے تمام مفاہیم کو جلا وطن کر دیا تھا؟

    ’’زیادہ تر لوگ واپس اپنے اچھے دنوں میں جینا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے لکڑی کی ایک کرسی پر بیٹھ کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اور چونکہ وہ نہیں جانتے اچھے دن کیا ہوتے ہیں انھیں اچھے دنوں کی کہانی بنانی پڑتی ہے۔‘‘

    ’’اور وہ لوگ جنھوں نے سرے سے اچھے دن نہیں دیکھے؟‘‘

    ’’تم نے کبھی بازار سے آلو خرید اہے؟‘‘ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ ’’صبح سے شام تک ایک ہی ڈھیر سے لوگ آلو چنتے رہتے ہیں اور تمام آلو بک جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیا اس ڈھیر میں سڑے گلے آلو نہ تھے؟ قدرے کم سڑے گلے آلو بھی نہ تھے؟ دراصل ہم ان ہی دنوں سے اپنا اچھا دن چنتے ہیں جو ہمارے پاس ہوتے ہیں۔ہر آدمی کی زندگی میں برے دن ہی طئے کرتے ہیں کہ ان کے اچھے دن کون سے تھے۔‘‘

    ’’اس طرح سے دیکھا جائے تو ہماری زندگی میں کوئی بھی اچھا دن نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’نہ ہی برا دن۔‘‘ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’اور دونوں کے درمیان بہت زیادہ فرق بھی نہیں ہے۔ ‘‘

    ’’کیا آپ ہمیشہ سے اسی طرح اکیلے رہتے آئے ہیں؟‘‘

    نہیں، اس نے ایک المونیم کی ڈبیا کھول کر بیڑی نکالتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔ اگر میرا مطلب اس عمارت سے ہے تو مجھے جان لینا چاہئے کہ اس بلڈنگ میں کچھ خاص نہیں ہے۔اسے تو زمانہ ہوا ریلوے کنڈم ڈیکلےئر کر چکی ہے۔بس تھوڑے سے ہی لوگ بچے ہیں اس میں، اس کے جیسے گھس پیٹھیے جنھیں میں شہر کی گاد بھی کہہ سکتا ہوں۔ ہاں گاہے بگاہے یہاں جرائم پیشہ افراد پناہ لیتے رہتے ہیں، رات کے وقت اوپر کے ایک کمرے میں شراب کی ایک غیرقانونی دکان کھل جاتی ہے، کچھ کمروں میں بیسوائیں اپنا دھندا چلاتی ہیں جو دن کے وقت جانے کہاں غائب ہو جاتی ہیں۔ کوئی بلا وجہ نہیں کہ پولس کا یہاں آنا روز کا قصہ ہے جن میں بہت سوں کے ساتھ اس کی دوستی بھی ہو چکی ہے۔ مگر شاید میں نے اس کے اکیلے پن کی بات کہی تھی۔ نہیں، کبھی اس کی بھی ایک دنیا تھی جہاں رشتوں کی بھول بھلیاں تھیں، بچوں کی چہکاریں تھیں اور تعلقات کی چور زمینوں پر وہ بھی اور دوسرے لوگوں کی طرح چلنے کا عادی تھا۔’’ مگر جب تم ایک کے بعد ایک نوکری کھونے لگتے ہو تو دھیرے دھیرے تم اکیلے ہو جاتے ہو۔‘‘

    ممکن ہے اسے اکیلاپن پسند ہو، میں نے اپنی رائے دی۔

    اس دنیا میں کون اکیلا ہے؟ وہ ایک ٹک کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھاجہاں آسمان کا کوئی رنگ نہ تھا۔ وہ ان پرچھائیوں کا کیا کرے جو اس کا پیچھا کرتی رہتی ہیں؟ ابھی کچھ دن پہلے تک اس نے ایک چھاپے خانے میں نوکری کی تھی۔ عجیب عمارت تھی وہ، دقیانوسی دروازے، غیر ضروری طور پر اونچی کھڑکیاں، کالکھ سے ڈھکی دیواریں، ستون جیسے مردہ انسانوں کی آتمائیں سر جھکائے کھڑی ہوں، اس کی راہداریاں کسی مقبرے کے تہہ خانے کی یاد دلاتی تھیں۔ کون یقین کر سکتا ہے، اس دنیا میں ایسی جگہیں بھی ہیں۔مجھے اس جگہ کو دیکھنی چاہئے۔ ’’تم یقین نہیں کروگے، اس چھاپے خانے میں داخل ہونے سے پہلے انسان کو اپنی آنکھوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔‘‘

    کیا وہ چاہتا ہے کہ میں اس کی باتوں کا یقین کر لوں؟ اور اس نے وہ جگہ کیوں چھوڑی؟ وہ جو کچھ بتا رہا تھا یہ تو اس کی وجہ نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز چیزیں موجود ہیں۔

    شاید میں ٹھیک کہہ رہا تھا، اس نے کہا۔ شاید وہ اب کسی کام کے لائق نہیں رہ گیا تھا۔ شاید اس نے بہت پہلے اپنے آپ کو ایک پیراسائٹ میں بدل دیا تھا۔ تو ایک دن اس نے خود سے سوال کیا ، وہ اس جگہ کر کیا رہا ہے؟ اور اس نے وہ نوکری چھوڑ دی۔ میں چاہوں تو اس کی جگہ لے سکتا ہوں۔ اس کے تعلقات آج بھی ان لوگوں سے برے نہیں ہیں۔

    یہ کتنا آسان ہے، اپنے آپ کو پیراسائٹ قرار دینا۔ جب کہ یہ سارا سماج ہی پیراسائٹ کے ایک دشوار گذار جنگل میں بدل چکا ہے اورمیں نے اس سے کہا کہ وہ غلط سمجھ رہا ہے ۔کیا میں نے ابھی تھوڑی دیر قبل نہیں بتایا تھا کہ میں نے ابھی کوئی نوکری ڈھونڈنے کے بارے میں سوچا نہیں ہے۔

    ’’جو ثابت کرتا ہے کہ بہت جلد تم ڈھونڈنا شروع کر دوگے۔‘‘ وہ اپنی ناک سے ہنسا۔ ’’ایک کتا ہڈیوں کے بغیر زیدہ دن تک زندہ نہیں رہ سکتا ۔‘‘

    وہ ایک میز کی طرف گیا جس پر دوائیوں کی شیشیاں بکھرئی ہوئی تھیں۔ اس نے اس کا داہنا دراز باہر کی طرف کھینچا اور اس سے ایک اخبار کا مڑا تڑا صفحہ نکال کر میری طرف پھینک دیا۔ اس پر اور دوسرے اشتہاروں کے ساتھ ساتھ ایک چھاپے خانے کا اشتہار بھی تھا جس کے گرد نیلی روشنائی سے دائرہ بنا دیا گیا تھا۔

    میری نوکری گئے یہ دوسرے مہینے کا آٹھواں دن ہے۔ اسی درمیان میں نے شہر کے سب سے بڑے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ کا رخ نہیں کیا ہے جہاں میں ایڈز کی روک تھام کرنے والی ایک تنظیم کا رکن ہوں۔ اپنے کام کے دوران میری کئی طوائفوں سے اچھی جان پہچان ہو گئی ہے۔ یہ مجھے پسند کرتی ہیں اور انھیں اس پر حیرت ہوتی ہے کہ میں ان کے ساتھ سوتا کیوں نہیں۔ ان میں سے کئی کے میں نے بینک میں کھاتے کھلوائے ہیں، کچھ کے خطوط لکھ دیا کرتا ہوں، کئیوں کے میں نے پین کارڈ بنوا دئے ہیں، جن کے ریٹرن اپنے ایک وکیل دوست کی مدد سے ہر سال بھر دیا کرتا ہوں اور ایک ایسی طوائف بھی تھی جس کے دونوں پستان سرجنوں نے کاٹ دئے تھے مگر اس کے سرطان کو پھیلنے سے روک نہیں پائے۔ اس کی موت کے وقت میں واحد شخص تھا جو اس کے سرہانے موجود تھا۔ دراصل یہ سب کچھ میں کسی نیک مقصد سے نہیں کرتا تھا۔ میں جب اپنے ایک دوست کے ساتھ پہلی بار اس جگہ گیا تو میرا مقصد نیک بالکل نہ تھا۔اس کے بعد بھی میں کئی بار وہاں گیا، مگر ایک دن میں نے ایک بہت ہی کمسن لڑکی کو، جسے ابھی سن بلوغ تک پہنچنے میں کئی سال باقی تھے، ایک بھاری بھرکم دروازے کے نیچے زمین پر اکڑوں بیٹھے گاہکوں کا انتظار کرتے دیکھا اور میں حیران رہ گیا۔ لکڑی کا یہ مضبوط دروازہ، جس میں بےشمار کیلیں جڑی ہوئی تھیں، جو جانے کب سے اس جگہ کھڑا تھا، خود اس کمسن لڑکی کا ایک اٹوٹ حصہ نظر آ رہا تھا جیسے وہ اس دروازے سے باہر آئی ہو۔ اس سے پہلے میں نے کبھی کسی دروازے کو اس نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ میں نہیں جانتا ایسا کیوں ہوا، مگر وہ دروازہ اس دن سے لگاتار میرے خواب میں آنے لگا۔ مگر وہ میرے خواب میں اکیلا نہ آتا، ہر بار کوئی نہ کوئی طوائف اس سے لگ کر کھڑی یا بیٹھی نظر آتی جیسے دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہوں اور یہ طوائف جو بھی ہوتی، چاہے اس کی عمر کچھ بھی رہی ہو، اس کا چہرا اسی کمسن لڑکی کا چہرا ہوتا۔ اس دن کے بعد میں جب بھی وہاں گیا، میری نظر ان پرانی کھنڈر نما عمارتوں کے دروازوں پر بھٹکتی رہتی کیونکہ ان طوائفوں کی طرح میرے لئے وہ بھی جیتی جاگتی چیزبن گئے تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ کمسن لڑکی اور وہ دروازہ مجھے پھر کبھی دکھائی نہ دیے ، یا شاید میں نے انھیں گڈمڈ کر دیا تھا۔ آج جب میں مڑ کر دیکھتا ہوں تو جانے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ اگر میں اس دن اس دروازے کو نہ دیکھ پاتا تو شاید سستے میک اپ سے لپی پوتی ان مورتیوں کے پیچھے چھپی عورتیں میرے سامنے کبھی کھل نہ پاتیں۔ یہ دروازے جن کی لکڑیاں گھنے اور تاریک جنگلوں سے لائی گئی۔

    تھیں اور یہ لڑکیاں جو نیپال کے پہاڑوں اور چھتیس گڑھ کے تاریک جنگلوں سے لاکر ان تنگ و تاریک کوٹھریوں میں ڈال دی گئی تھیں، کتنا عجیب رشتہ تھا ان دونوں کا، ان دونوں کو ایک دوسرے کے اندر دیکھنا کتنا آسان تھا۔اس دن مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ ہر دروازے کی اپنی ایک الگ کائنات ہوتی ہے جو اس کے اندر اور باہردونوں طرف پھیلی ہوتی ہے۔ ان دروازوں سے گذرتے وقت ہمیں کبھی اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ہم ایک اجنبی کی طرح اس کائنات میں داخل ہوتے ہیں، ایک اجنبی کی طرح اس سے باہر جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    مگر مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے ایک اور دروازہ ہے جو شدت سے میرا انتظار کر رہا ہے۔کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں اس نئی کائنات میں داخل ہو جاؤں۔ شاید وہاں مجھے اپنے اندرکا وہ انسان مل جائے جس کی تلاش میں میں اتنا سرگرداں ہوں۔

    آج میں نے دسویں بار چھاپے خانے کے اشتہار کو پڑھا ہے۔ اس پر دیے گئے فون پر مجھ سے کہا گیا ہے کہ ایک خاص جگہ سب وے میں اترنے کے بعد مجھے کچھ دور چلنا ہوگا، وہاں مجھے ڈھلائی لوہے والی ایک چکر دار سیڑھی دکھائی دیگی جس کے نیچے ایک یک چشم بھکاری جاپانی افزائش جنسی آلہ کے ایک بڑے سے گھناؤنے پوسٹر کے نیچے کھڑا ملےگا۔ یہ چکردار سیڑھی ایک لکڑی کے دروازے پر ختم ہوگی جس کے اندر ایک دوسری سیڑھی میری منتظر ہوگی جس کے خاتمے پر شہر دوبارا نیلے آسمان کے نیچے دکھائی دےگا۔

    فٹ برج سے گذر کرزینہ اترتے ہوئے میں نے سوچا جب سب وے سے واپس اوپر آنا ہی ہے تو کیوں نہ اوپر ہی اوپر اس عمارت کی تلاش کی جائے۔ یہ میری غلطی تھی۔ذیلی سڑکوں اور ان سے منسلک گلی کوچوں میں اس کے آس پاس کے نمبر کے کئی چھوٹے بڑے مکانات نظر تو آرہے تھے مگر کہیں پر اس کمپنی کا نام یا اس کی عمارت کا نمبر مجھے دکھائی نہ دیا نہ ہی ایسی کوئی قدیم عمارت نظر آئی جس کا گنبد آسمان کو چھو رہا ہو۔ وہاں ہر کوئی مجھے سب وے کی راہ دکھا رہا تھا۔ آخر کار مجھے ہتھیار ڈالنا پڑا۔

    اس زمین دوز راستے میں اترنے کے لئے مجھے اسٹیشن کے داخلے کی طرف جانا پڑا جہاں سبزی منڈی میں چھکڑوں، رکشا وین اور انسانوں کی بے پناہ بھیڑ کے درمیان راستہ نکالنا ایک انتہائی مشکل کام تھا۔ یہ افراتفری سرنگ کے اندرتک پھیلی ہوئی تھی۔ میں اندر کی بدبو اور نیم تیرگی میں آگے بڑھ رہا تھا جب میں نے اپنے ایک ہم شکل انسان کو دیکھا۔ وہ میری طرح ہی ناک پر رومال ڈالے چل رہا تھا۔ وہ نہ صرف میری عمر کا تھا بلکہ اس کے بالوں کی تراش بھی مجھ سے ملتی جلتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب ویرانی تھی جو کسی فرضی بلیک ہال کی طرح آس پاس کی روشنیاں پی رہی تھیں۔ میری ہی طرح اسے کہیں پہنچنے کی جلدی تھی یا شاید وہ اس بدبودار سرنگ سے جلد سے جلد نجات حاصل کر نا چاہتا تھا۔ اس کے پیچھے چلتے ہوئے میرے دل نے کہا کہ وہ میرا آدمی ہے، کہ ہم دونوں ایک ہی کشتی پر سوار ہیں۔ شاید اسے بھی میری بات کا پتہ چل گیا تھا کیونکہ اس نے اپنی رفتار دھیمی کر لی تھی۔ اسی طرح ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلتے ہوئے ہم اس زمین دوز گذر گاہ میں بہت اندر تک چلے آئے جہاں دیوار سے نکلے ہوئے بلب اپنے سفید ڈھکنوں کے نیچے سے یرقان زدہ روشنیاں دونوں طرف کی دیواروں پر ڈال رہے تھے۔ جگہ جگہ چھت سے پانی رس رہا تھا جس نے نیچے اتر کر بدرووں کی شکل اختیار کر لی تھی۔ شاید تھوڑی دیر قبل سرنگ کے اندر بلیچنگ پاؤڈر کا چھڑکاؤ کیا گیا تھا کیونکہ اس کی تیز مہک میں سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔

    ’’تم ضرورت سے زیادہ تیز چل رہے ہو۔‘‘ کسی نے میرا کندھا تھپتھپایا۔ میں نے اسے دیکھنے کی کوشش کی مگر روشنی اور تیرگی کی آنکھ مچولی کے درمیان وہ مجھے دکھائی نہ دیا۔ دوسرا آدمی ایک بلب کے نیچے رک گیا تھا۔ اس کا سایہ دیوار پر اس طرح ترچھا گر رہا تھا کہ اس کی ناک لمبی ہو گئی تھی۔

    ’’مبارک ہو!‘‘ میرے قریب پہنچنے پر اس نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔

    ’’کس لئے؟‘‘

    ’’کیونکہ تم صحیح راستے پر ہو۔‘‘

    ’’شاید آپ نے بھی وہ اشتہار پڑھا ہے۔‘‘ میں نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ ’’کیا یہ اسی شخص کا دیا ہوا ہے جس نے مجھے یہ دیا ہے۔‘‘

    ’’ممکن ہے یہ وہی آدمی ہو۔‘‘ اس نے اپنی جیب سے وہی اشتہار برامد کیا جو میرے پاس تھا۔ میں نے دیکھا چھاپے خانے کے اشتہار کے گرد نیلی روشنائی سے ہو بہو ویسا ہی ایک دائرہ بنا ہوا تھا۔ ’’ویسے ہمیں ایک دوسرے کو کسی طرح کی صفائی دینے کی ضرورت نہیں اور یقین کرو میں خود کو اس طرح کے حالات کے لئے تیار کر ہی رہا تھا جب یہ ہو گیا۔‘‘ اور اس نے چکر دار سیڑھی کی طرف اشارا کیا جس کے نیچے ایک لحیم شحیم بھکاری اپنی ایک آنکھ کے ساتھ کھڑا تھا۔

    ’’انسانیت کی خاطر، آپ پہلے۔‘‘ اور وہ تیزی سے مڑکر سرنگ کے اندر غائب ہو گیا۔

    یہ اچانک ہوا تھا جس کے لئے میں تیار نہ تھا۔ میں نے محسوس کیا، میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا ممکن ہے وہ مجھے انسان نہ رہنے دے، ساری زندگی کے لئے ربر کے ایک ببوے میں بدل دے۔ مگران حالات میں میرے پاس کرنے کے لئے کیا بچا تھا؟

    ’’میں پچھلے ایک ہفتے سے اسے دیکھ رہا ہوں۔ وہ اس سیڑھی تک آتا ہے مگر پھر واپس چلا جاتا ہے۔‘‘ یک چشم بھکاری نے اپنی بن مانگی رائے دی ہے۔ وہ ایک بلب کی بھرپور روشنی میں کسی دیو کی طرح کھڑا تھا۔ اس کے کان کے نیچے ورم کا ایک بڑا سا نشان تھا۔

    ’’کیا تم دیکھ نہیں پائے کہ وہ میں ہی تھا؟‘‘ میں نے ایک سکہ اس کے کٹورے میں ڈال کر لوہے کی سیڑھی کی طرف قدم بڑھایا۔ لوہے کی سیڑھی طئے کرتے ہوئے مجھے لگ رہا تھا جیسے میرا ہمزاد کسی کونے میں کھڑا مجھے ضرور دیکھ رہا ہوگا۔ مگر میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارا نہ تھا کہ اسے نظر انداز کر دوں۔ پھر بھی خیرسگالی کے جذبے کے ساتھ میں نے اسے آواز دی۔

    ’’دوست، میں تمہارے ہی راستے پر چل رہا ہوں۔ تم دیکھ رہے ہو یہ اتنا مشکل نہیں ہے۔ کیا میں تمہارا انتظار کروں۔‘‘

    سرنگ کے اندر اتنا سناٹا تھا کہ چھت سے ٹپکتے پانی کے قطروں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔

    سیڑھی کی بلندی سے میں نے نیچے نظر ڈالی۔ سرنگ سے تمام راہگیر جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔ مجھے نیچے سے بھکاری کی بلغمی ہنسی سنائی دی۔

    ’’وہ اب یہاں کبھی نہیں آئےگا۔‘‘ اس کا چہرا روشنی میں تیرتا ہوا اوپر کی طرف آیا ۔ وہ میرے سکے کو اٹھا کر بلب کی روشنی میں شبہ کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ ’’میں ان لوگوں کو اچھی طرح سے پہچانتا ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے کاسے میں کھوٹا سکہ ڈالتے ہیں۔‘‘

    چکردار سیڑھی لکڑی کے ایک دروازے پر ختم ہوتی تھی جس کے اندر کنکریٹ کی ایک اور سرنگ نما سیڑھی تھی جو بتدریج بلند ہوتی ہوئی نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ دروازے سے اندر قدم رکھتے ہی مجھے اوپر سے مشینوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ یہ وہ آوازیں تھیں جو شہر کو فعال رکھتی تھیں۔ یہ سیڑھی مجھے ایک بڑے سے ہال کے اندر لے گئی جس میں کھڑے ستونوں کے بالائی حصے چھت کے اندھیرے میں غرق تھے۔ ہال کے خاتمے پر ایک اور دروازہ تھا جہاں روشنی دھندلی پڑ گئی تھی۔ اس دروازے کے باہر ایک کافی کشادہ سیڑھی تھی جو عمارت کی درمیانی منزل میں ختم ہوتی تھی۔ آفس اسی منزل پر واقع تھا۔ یہ ایک بڑ کمرا تھا جس کا پچی کاری کا فرش اور دیواریں بتا رہی تھیں کہ یہ عمارت ان دنوں کی یادگار تھی جب شہر پر مفلوک الحال لوگوں کا اتنا شدید غلبہ نہ تھا۔ کیا یہ کوئی اپنی نوعیت کا خفیہ چھاپ خانہ ہے جہاں حکومتِ وقت کا تختہ پلٹنے کی سازش چل رہی ہے؟

    آفس کا منیجر ایک بڑی میز کے پیچھے بیٹھا میری طرف تاک رہا تھا۔ میز کے ایک سرے پر ایک کافی اونچاٹیبل لیمپ جل رہا تھا جس کی روشنی سیدھی اس کی لانبی انگلیوں پر گر رہی تھی۔ اس کے چہرے کو ایک ستون کے سائے نے ایک تہائی غائب کر رکھا تھا۔ شاید فون پر میں نے اسی سے گفتگو کی تھی۔

    ’’ہمارا وقت گذر چکا۔‘‘ اس نے اپنی بیضوی فریم والی عینک کو میز پر رکھتے ہوئے کہا جہاں اس کے دونوں شیشے چمک اٹھے جیسے اس کی آنکھیں اب بھی ان کے پیچھے موجود ہوں۔’’ میں ساری زندگی لوکل ٹرین میں سفر کرتا رہا مگر کہیں پر کچھ بھی نہیں بدلا۔ آج بھی لوگ اپنے گھروں کے اندر وہی ناآسودہ زندگی گذار رہے ہیں۔یہ ٹھیک بھی ہے۔ ایک شہر کو مرنے کے لئے دہائیاں تو لگ ہی جاتی ہیں اور یہ چند دنوں قبل کی بات ہے کہ میں نے مالک سے کہا، اب اس چھاپے خانے کو ایک خطیر رقم کی ضرورت ہے، ورنہ یہ پرانی مشینیں ہمیں مفلسی کی دلدل میں لے جائینگی۔‘‘

    ’’میرا خیال ہے سیڑھی سے اوپر آتے وقت میں نے ان کی پرشور گڑگڑاہٹ سنی ہے۔‘‘

    ’’ہمارے کچھ کلائنٹ اب بھی وفاداری کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکتے۔ مگر کوئی بھی تجارت زیادہ دنوں تک چیریٹی پر زندہ نہیں رہ سکتی۔‘‘ اس نے اپنی شیو کھجاتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی۔ یہ ایک عجیب مسکراہٹ تھی جس میں چہرے کا بالائی حصہ پیشانی تک غائب تھا۔ ’’بغیر تنخواہ کے مہینوں تک گذارا کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔ ابھی کچھ مہینہ قبل ایک شخص تنگ آکر اپنا بریف کیس اٹھا کر چلتا بنا۔ میں نے برسوں اسے اپنا ٹفن کا ڈبہ کھول کر سوکھی روٹی چباتے دیکھا تھا۔ وہ ہمارا بہت ہی بھروسے کا آدمی تھا مگر اس نے ہمیں ایسی کوئی مہلت نہ دی کہ ہم اس کے لئے کچھ کر پاتے۔‘‘

    میں نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی۔ دوسری میزوں پر لوگ اپنے کم قیمت کے مگر صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے بھوکے مگر وفادار تھے۔ شاید وہ نہیں چاہتے تھے کہ کمپنی کے دیوالیے پن کی خبر لوگوں تک پہنچے۔ممکن ہے یہ اشتہار بھی ایسی ہی کسی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہو۔

    کچھ برس قبل تک کمپنی کے پاس مینوئل ٹائپ مشین کی ایجنسی تھی۔ وہ لوگ اس معاملے میں ملک کے ایک تہائی حصے کے بےتاج بادشاہ تھے۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کمپنی کے پاس بغیر بکی ہوئی مشینوں کا ڈھیر لگ گیا۔ کچھ مہینوں تک الیکٹرانک ٹائپ مشینیوں کی مانگ رہی۔ اب وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ ’’اب ایک آدھ فرانکل مشین بک جاتی ہے۔مگر اس کا واحد اور سب سے بڑا خریدار سرکار ہے جسے سامان بیچنا شیطان کو اپنی آتما بیچنے کے برابر ہے۔‘‘ منیجر نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا۔

    پھر بھی کمپنی نے نئے آدمی کے لئے اشتہار دے رکھا ہے؟

    ایک بزنس جب تک قائم ہے آدمی کی ضرورت تو پڑتی ہی رہتی ہے۔

    اور یہ لوگ جو بیکار اپنی اپنی میز پر بیٹھے ہوئے ہیں؟

    کوئی بیکار نہیں ہے۔ ہر کوئی ایک خاص کام کے لئے مخصوص ہے۔ مگریونین اس کی اجازت نہیں دیتی کہ اس مخصوص کام کے علاوہ اس سے کوئی دوسرا کام لیا جائے۔

    ’’اور میرا کام کیا ہوگا؟‘‘میں نے گویا نیند سے جاگتے ہوئے کہا۔

    ’’یہ تو آپ کو ہمارا آخری آدمی ہی بتا پاتا۔‘‘ ایک پل کے لئے منیجر کا چہرا اندھیرے سے باہر آ گیا۔ اس کی عمر پچاس اور پچپن کے درمیان ہوگی مگر اس کے تیکھے نقوش اس کی نفی کر رہے تھے۔ ’’کاش وہ اچانک کام چھوڑ کر چلا نہ گیا ہوتا اور یہ وہ آدمی نہیں تھا جس کا ذکر ابھی تھوڑی دیر قبل میں نے کیا ہے۔ وہ تو دن کے وقت بھی نشے میں ڈوبا ہوا رہتا۔ تو اس صورت میں اگر آپ کو اس کی جگہ رکھ لیا گیا تو آپ کو اپنے کام کی نوعیت خود ہی طئے کرنی ہوگی اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔آپ صرف اس کی جگہ پر بیٹھیں، الماری کے اندر پڑی ہوی فائلوں اور کاغذات کی ورق گردانی کریں، فون کی ڈائریکٹری کھنگالیں، اس کے نمبروں کو اپڈیٹ کریں، سب کچھ خود بخود آپ کی سمجھ میں آ جائگا۔ پھر بھی اگر آپ اپنا کام ڈھونڈ نہ سکے تو کام خود آپ کو ڈھونڈ نکالےگا۔ یہ دنیا ایسے ہی چلتی ہے۔ میں غلط تو نہیں کہہ رہا ہوں؟‘‘

    میں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا حوالہ دیا۔ کیا اب اس کی کسی کو ضرورت ہے؟

    شاید اسے بھی کام میں لگا لیا جائے یا شاید اس کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ہو سکتا ہے اس پیشہ ورانہ مہارت کے باہر میں زیادہ کارآمد انسان ثابت ہوں۔ اکثرمحنت و مشقت سے حاصل کی ہوئی ڈگریاں انسان کے اندر کی فطری صلاحیتوں پر قدغن لگا دیتی ہیں۔

    میں تنخواہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس نے میری آنکھوں کو پڑھ لیا۔

    ’’آپ تنخواہ کے سلسلے میں مطمئن رہیں۔‘‘ وہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کو غور سے دیکھ رہا تھا جیسیا ان میں اسے کوئی نئی لکیر دکھائی دے گئی ہو۔ ’’میں نے آپ کو بتایا ہوگا، یہاں مہینوں سے لوگوں کو تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ آپ کا بھی کچھ نہ کچھ انتظام ہو جائگا۔‘‘

    ’’اچھا انتظام ہے۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔ ’’سچ کہیں تو مجھے ایسے ہی کام کی تلاش تھی۔‘‘

    ’’اور ہمیں آپ کے جیسے آدمی کی۔‘‘ اس نے کھڑے ہوکر مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ میں نے دیکھا کھڑا ہوتے ہی وہ ایک دوسرے انسان میں بدل گیا تھا جو میرے لئے بالکل نیا تھا۔ ’’اور جناب اب آپ اس عمارت میں گھومنے پھرنے کے لئے آزاد ہیں۔ آپ دیکھیں گے اس کا ہر کمرا اتنا تاریک نہیں جتنا یہ پہلی نظر میں دکھائی دیتا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، آپ کو اپنے کام میں مزا آئگا، اتنا مزا آئگا کہ آپ راتوں کو اپنا گھر جانا بھول جائیں گے۔‘‘

    گھر! کیا واقعی میرا کوئی گھر تھا؟ کیا میں اس قسم کا انسان تھا جس کا کوئی گھر ہوتا ہے؟

    نئی جگہ میرا کام کیا تھا؟ تین دن ہونے کے باوجود ابھی تک میں یہ سمجھ نہ پایا تھا۔ اسٹیل کی الماریوں میں بند فائلوں کے اندر چالان، بل اور واؤ چروں کی بھرمار تھی، ہر ضخامت اور ہر رنگ کے رجسٹر پڑے تھے جن کی تاریخیں بہت پرانی تھیں، سرکاری نوٹس اور قانونی دستاویزات کے ڈھیر لگے تھے۔ ان کاغذات میں تقریباً ہر طرح کی متروک مشینوں کا ذکر تھا مگر ایسا کوئی سراغ نہ تھا جو میرے کام کی نوعیت کے بارے میں مجھے بتائے اور یہ دو منزلہ عمارت جس کی دیواریں کہیں کہیں تین تین فیٹ تک دبیز تھیں اور ہر منزل کی بلندی تیس فیٹ سے بھی اوپر کی ہوگی، انسان کے دہرے قدکے برابر دروازوں اور قد آدم دریچوں کے سبب کسی پرانے محل کی یاد دلاتی تھی جس پر برا وقت اتر چکا تھا۔ کئی بڑے کمرے متروک مشینوں سے اٹے پڑے تھے اور کچھ کمروں کے اندر ان کے کل پرزے زنگ کھاکر آپس میں اس طرح گتھ گئے تھے کہ انھیں ایک دوسرے سے الگ دیکھنا ممکن نہ تھا۔ راہداریوں میں کھلنے والے زیادہ تر دروازے بند تھے اور کمرے کی کھڑکیوں پر لگی لوہے کی جالیوں کے منحنی سوراخ جھول سے تقریباً بند ہو گئے تھے۔ اس عمارت کے اندر چلنا ایک تیرہ و تاریک دنیا میں سفر کرنے کے برابر تھا۔

    یوں ہی بھٹکتے بھٹکتے ایک دن میری ملاقات اس کمپنی کے مالک سے ہو گئی جو ایک نوجوان شخص تھا اور ایک بند دیوار گیر گھڑی کے نیچے کھڑا اوپر روشندان کی طرف تاک رہا تھا جس کے دھندلے شیشے سے ایک فاختہ چپکی ہوئی تھی۔ دیوار گیرگھڑی کا پنڈولم نکال لیا گیا تھا اور اس کے کانٹے دائمی طور پر اپنی جگہ تھم گئے تھے۔

    ’’اتنی بڑی عمارت، کیا ہم اسے کسی دوسرے مقصد کے لئے استعمال نہیں کر سکتے؟‘‘ میں نے رائے دی۔ اس نے چونک کر میری طرف دیکھا اور میرا داہنا ہاتھ تھام کر میری آنکھوں میں دیکھنے لگا۔

    ’’ایسا کہتے وقت آپ صرف ایک بات بھول رہے ہیں کہ اس عمارت کا کوئی دروازہ شاہراہ کی طرف نہیں کھلتا۔ ہمارے پاس داخلہ اور خروج کے لئے صرف وہ چکر دار سیڑھی ہی رہ گئی ہے۔ اس نے اس کمپنی کو تباہ کر دیا۔‘‘

    ’’ایسا کب ہوا؟ اتنی بڑی عمارت، ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ اس کا اپنا کوئی داخلہ نہ ہو۔‘‘

    ’’کبھی اس کا اپنا ایک داخلہ تھا۔ دیوار چین کی طرح اونچا تو نہیں مگر کافی بلند تھا۔ شاید اس زمانے میں لوگوں پر رعب جمانے کے لئے اس طرح کے بلند و بانگ دروازے بنانے کا رواج تھا۔ تو جیسا کہ ان داخلوں کے ساتھ ہوتا ہے، ایک دن وہ اپنی محراب اور ستونوں کے ساتھ گر پڑا۔ کئی لوگ مارے گئے۔ کمپنی برسوں تک عدالت اور پولس کی لپیٹ میں آ گئی۔ جب تک سارے معاملے درست ہوتے، ہمارے پڑوسی ملک میں آزادی کی لڑائی شروع ہو گئی، دیکھتے دیکھتے ہمارے داخلے پر ریفوجیوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ ان کی غیرقانونی تعمیرات کو قانون نافذ کرنے والوں کی شہہ حاصل تھی، سارا معاملہ سیاسی تھا۔ اس طرح یہ داخلہ ہمیشہ کے لئے غائب ہو گیا۔‘‘

    ’’آپ لوگوں نے اس کی واپسی کے لئے دوبارا عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا؟‘‘

    ’’بہت سارے مقدمے اب بھی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ لیکن اب اس عدالت اور پولس سے بھی ایک بڑی آفات پیدا ہو چکی ہے۔ میدان میں ایک نیا جانور آ چکا ہے جس کا کل تک کوئی وجود نہ تھا، وہ ہیں پیشہ ور سیاست دان اور یہ وہ سکہ ہے جس کے دونوں رخ غلط ہیں۔ یہ سب کچھ میرے دادا جان کے زمانے میں شروع ہوا، ایک بہت ہی چھوٹے سے کمرے میں، ایک ٹائپ مشین سے جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک مشہور و مقبول اخبار میں ڈھل گئی۔ مگر پھر وقت بدل جاتا ہے، خیالات باسی ہو جاتے ہیں، نئی سوچ کے ساتھ نئے لوگ آ جاتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ہم لوگ کہاں پیچھے چھوٹ گئے۔ آج ان کی تحریروں کو میں پڑھتا ہوں تو مجھے حیرانی ہوتی ہے۔ یہ خیالات کتنے کم درجے کے تھے مگر اپنے وقت میں انھیں کتنے تقدس کے ساتھ دیکھا گیا۔ ہاں اختلاف کے پہلو تو نکالے جا سکتے ہیں، مگرکسی بھی دور یا تحریک کی تمام کی تمام چیزیں بالکل سیاہ یا سفید تو نہیں ہوتیں، نہ ہی سو فیصد قبول یارد کی جا سکتی ہیں؟ سب کچھ ختم ہو جانے کے بعد بھی کیا ہمارے اندر ان کے جراثیم باقی نہیں رہتے؟ خیراب ان سب چیزوں کا کیا رونا۔ لڑائی تو اب بھی جاری ہے اور میں آخری وارث رہ گیا ہوں۔ کہیں آپ ہمارے نئے آدمی تو نہیں؟ پچھلا آدمی اتنا برا نہ تھا، بلکہ اس کی شراب نوشی کے باوجود میں اسے پسند کرتا تھا۔ مجھے اس کے لئے افسوس ہے۔کچھ لوگ ایک لمبی زندگی جی کر بھی کچھ نہیں پاتے۔‘‘

    میں نے اسے بتایا کہ اسی آدمی نے مجھے اس جگہ کا پتہ بتایا تھا، کہ میں اپنا کوئی تقرری کا پروانہ دکھانے سے قاصر ہوں کیونکہ ایسا کوئی پروانہ ابھی تک مجھے دیا ہی نہیں گیا ہے۔

    وہ دوبارا ہنسا۔

    ’’ابھی کچھ مہینہ قبل ہمارے پشتینی مکان کو ایک بینک نے قرق کر لیا ہے۔ ہم ایک کرائے کے مکان میں اٹھ آئے ہیں۔ ہمیں کرائے کے مکان میں رہنے کی عادت نہیں مگر ہم کوشش کر رہے ہیں کہ عادت پڑ جائے۔ شاید آپ کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوا ہوگا۔ میں نے آپ کا تجربہ اور آپ کی سند دیکھی ہے۔‘‘

    ’’کچھ خاص نہیں ہے ان میں۔ مگر شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘ میں نے سر ہلا کر حامی بھری۔ ’’شاید مجھے انتظارکی عادت ڈالنی چاہئے۔‘‘

    اچانک ایسا کچھ ہو گیا ہے کہ میں بہت خوش رہنے لگا ہوں۔ بلکہ میری زبان بھی مجھے واپس مل گئی ہے۔ اس عمارت کے سبب کیا میں اس شہر کو زیادہ سمجھنے کے لائق ہو گیا ہوں، یہ شہر جس نے خود اپنی تباہی کی کہانی رقم کی ہے؟ یہ تارکول یا کنکریٹ کی سڑکوں پر حرکات و سکنا ت میں مصروف لوگ؟ کیا اس شہر نے ایک اکٹوپس کی طرح انھیں اپنے ان گنت بازووں میں جکڑ نہیں رکھا ہے؟ کیا یہ سڑکیں اس اکٹوپس کے بازو نہیں ہیں؟ یہ مکانات کیا ان کے اندر زندہ انسان بستے ہیں یا یہ وہ باڑے ہیں جن کے اندر ان دیکھی پرچھائیوں سے سہمے ہوئے لوگ مذبح میں بھیجے جانے والے جانوروں کی طرح اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ گلیاں جہاں نیلے شیطانوں کی حکمرانی ہے اور قحبہ خانے جنھیں چینٹیوں اور بچھوؤں نے آباد کر رکھا ہے، میں کیوں انھیں ہی سوچتا رہتا ہوں۔ کیا میرے حصے کا سورج مر چکا ہے؟ زندگی اور موت، کتنا عجیب کھیل ہے یہ۔ انسان جو دھیرے دھیرے مرتے ہوئے اپنی موت کھو بیٹھتا ہے، انسان جو زندہ رہنے کے تگ و دو میں یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا سانس لینا ایک میکانکی عمل سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور میں نے اس پرانی عمارت کے ان گنت کمروں میں بھٹکتے ہوئے جانے کتنی بار خود سے بغیر جواب حاصل کئے یہ دریافت کیا ہے، بھلے آدمی،تمہیں کس چیز کی تلاش ہے اور یہ خوشی جو تم نے دریافت کی ہے کیا اس دنیا کورد کرنے کا کوئی نیا طریقہ ہے؟

    ’’ایک دن تمہیں اس عمارت سے باہر جانے کا دروازہ مل جائگا۔‘‘ میرے سن رسیدہ دوست نے کہا۔ وہ اپنی کھڑکی پر کہنی رکھے کھڑا تھا اور بیڑی پیتے ہوئے باہر خوابناک نہر کی طرف تاک رہا تھا۔ ہمیشہ کی طرح نہر کی طرف کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ’’مگر تمہیں اس دن سے ڈرنا چاہئے۔‘‘

    ’’اگر میں نے اس دروازے کی تلاش کر لی تو یہ سینکڑوں لوگوں کی زندگی میں خوشحالی لے آئگا۔‘‘ باہر ڈھلان میں ٹھنڈی ہوا سوکھی جھاڑیوں کے اندر سرسرا رہی تھی۔

    ’’مجھے یقین ہے ایسا ہی ہوگا۔ لیکن میں تمہیں پھر سے کہونگا کہ تمہیں اس دن سے ڈرنا چاہئے۔‘‘ اور وہ صوفہ پر رکھے پرانے اخبارات کے بیچ کچھ ڈھونڈنے لگا۔ ’’پھر بھی، جانے کیوں میرا دل کہتا ہے، تمہیں اپنی تلاش جاری رکھنی چاہئے۔ ہم انسانوں نے اپنی کاہلی کے سبب مکڑوں کو ہر جگہ اپنے جال تاننے کا موقع دے رکھا ہے۔‘‘

    مجھے علم تھا، کسی نیک دلی کے جذبے کے تحت میں کوئی کام نہیں کر سکتا۔ یہ کام کو شروع ہی سے بگاڑ دیتا ہے۔ میں خود کو سمجھایا کرتا، ہمیں اپنے عمل میں صرف وہی چیزیں رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے جن کے بغیر ہم جی نہیں سکتے، جو ہمارے لئے اکسیجن کا کام کرے، دوسرے معنوں میں جو ہماری زندگی کی فوری ضروریات کا خیال رکھے۔ میں جانتا ہوں، اس دروازے کی تلاش ہمیں بالائی دنیا میں لے جانے والی ہے جہاں زندگی کی ہما ہمی ہے اور آگے بڑھنے کے مواقع بھرے پڑے ہیں اور یہ خود میری آزادی کے لئے کتنا ضروری ہے، میں جو اس اس سطح زمین پر زندگی گذارتے ہوئے بھی زیر زمیں ایک دنیا کے اندر قید کر دیا گیا ہوں۔

    شاید میں اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہو پاتا اگر ہمارے میس کے اندر وہ واقعہ پیش نہ آتا، ایک ایسا واقعہ جسے کسی مقامی اخبار نے شائع کیا نہ کسی پولس اسٹیشن کے ذریعے اس کی چھان بین ہوئی، ایک ایسا واقعہ جس نے ہمیں اندر ہی اندر بدلنے پر مجبور کر دیا اور اس معاملے میں میں واحد شخص نہ تھا۔ اس آسمان کے نیچے اور بھی لوگ تھے جنھوں نے اس واقعے کی گونج اپنے اندر محسوس کی۔

    ہمارے ہوٹل کے داخلے پر لکڑی کا ایک دروازہ ہے جس کے اندر ایک چھوٹی سی راہداری ہے جو مڑکر لوہے کے ایک دوسرے دروازے پر ختم ہوتی ہے۔ یہ لکڑی کا دروازہ آدھی رات تک کھلا رہتا ہے تاکہ دیر سے لوٹنے والوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، مگر لوہے کا دروازہ مقفل کر دیا جاتا ہے جسے میس کا نوکر اسی وقت کھولتا ہے جب اس کی زنجیر بجا ئی جائے۔ ایک دن اس لکڑی اور لوہے کے دروازے کے بیچ کی راہداری میں ایک شادی شدہ عورت کی اجتماعی عصمت دری کا واقعہ پیش آتا ہے جوکسی طعام گاہ کی تلاش میں ہمارے دروازے پر لکھے ہوئے Hotel De Bengal کے نام سے دھوکہ کھاکر اپنے شوہرکے ساتھ آنکلی تھی۔ دونوں شاید اس شہر کے لئے اجنبی تھے اور ایک ایسے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے جہاں کھانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ اس وقت ہم لوگ اوپر کے کمروں میں گہری نیند سو رہے تھے۔ جاڑے کی رات سڑکوں کو وقت سے پہلے سنسان کر ڈالتی ہے۔ ایسی راتوں میں، جب کہ ساری دکانیں اور ہوٹل بند ہو چکے ہوں، علی الا علان باہر نکل کر کسی رستوران کی تلاش ایک بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے کمروں میں بھوکے رہ لیں۔ ہم ان سبھی لڑکوں کو جانتے تھے جو ہمارے ہوٹل کے باہر فلائی اوور کے ریلنگ پر بیٹھ کر نشہ لیا کرتے اور اسکول اور کالج جاتی لڑکیوں پر فقرے کسا کرتے۔ پولس انھیں نظر انداز کرتی تھی کیونکہ جیسا کہ میرے ایک پولس دوست کا کہنا تھا، اپنے تجربوں سے پولس اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ قانون میں تھوڑی سی ڈھیل کسی بڑے مجرمانہ عمل کو روکنے میں معاون ہوتی ہے۔

    دراصل یہ واقعہ ہمیں ہوٹل کے مالک نے دوسری صبح بتایا۔ وہ اور اس کے وفادار نوکر نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ پانچ لڑکے تھے،بعد میں دو اور آ گئے۔ مرد اور عورت کے لکڑی کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی انھوں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا تھا۔ لوہے کے بجنے کی آواز سے نوکر آہنی دروازہ کھولنے پہنچا تو اس نے سہمی ہوئی عورت کو زمین پر بیٹھے ہوئے پایا۔ اس نے مالک کو اطلاع دی جو آفس میں بیٹھا مئے نوشی میں مشغول تھا۔ وہ جب دروازے کے پاس آیا تو پوری بات اس کی سمجھ میں آ گئی۔ لڑکوں نے ایک خالی کمرے کی مانگ کی، مگر اس نے انکار کر دیا۔

    ’’سر، آپ کو ہمیں جگانا چاہئے تھا۔‘‘ قانون کے دونوں طالب علموں نے، جو میس کے ہر طرح کے معاملات میں پیش پیش رہتے تھے، تاسف سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ ’’اتنا بڑا واقعہ ہو گیا اور آپ نے ہمیں بھنک تک نہ دی۔ آپ نے یہ کیوں ہونے دیا؟‘‘

    ’’ان لڑکوں نے نشہ کر رکھا تھا۔ مجھے پتہ تھا اگر میں نے تم لوگوں کو جگایا تو معاملہ خون خرابے تک پہنچ سکتا تھا۔ پولس میرا ہوٹل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیتی۔‘‘

    شاید وہ اپنی جگہ صحیح تھا۔ اسے اپنا ہوٹل چلانا تھا۔ لڑکوں نے باری باری اس عورت کے ساتھ منہ کالا کیا جب کہ اسی دوران مرد دیوار کی طرف منہ کئے کھڑا رہا جس کی گردن سے ایک چھرا لگا ہوا تھا۔ تقریباً دو بجے رات کو ان دونوں کو ٹرام کی پٹریوں پر چھوڑ دیا گیا۔

    کون تھے وہ؟ اتنی رات گئے اس شہر میں وہ کیا کر رہے تھے؟ دوسری صبح کسی اخبار میں اس واقعے کا ذکر نہ تھا۔ اس کا ذکر ہوتا بھی کیسے، ایک بڑا شہر کسی بڑے بلاٹنگ پیپر سے کم نہیں ہوتا جس میں جانے کتنے گھناؤنے واقعات جذب ہو تے رہتے ہیں۔ تو میں نے خود سے دریافت کیا، کیا اس واقعے سے کہیں پر کچھ فرق پڑ گیا تھا؟ کیا کہیں پر کچھ بدلا تھا؟ ہم لوگوں نے اس دن سے ان آوارہ لڑکوں پر حقارت کی نظر ڈالنا شروع تو کر دیا تھا مگر کیا ہم لوگ ان سے کسی طور الگ تھے؟ ممکن تھا کہ اگر ہمیں ایسا کوئی موقع ملتا تو ہم منہ پھیر لیتے، ہو سکتا تھا ہم کچھ بھی نہ کرتے، اس لئے نہیں کہ ہم اندر سے روشن تھے، بلکہ اس لئے کہ ہمیں پکڑے جانے کا خوف تھا اوروں سے زیادہ خود اپنے ذریعے پکڑے جانے کا خوف۔ اگر ہم اپنے آ پ سے چھپ پاتے (اور یہ لڑکے چھپ پاتے ہیں) تو ہو سکتا ہے کہ ہم ان سے بھی زیادہ برے ثابت ہوتے، شاید ہمارا اپنا ڈر ان لوگوں کو قتل کرنے پر مجبور کر دیتا، ایک بزدل انسان کا کارنامہ جو آخرکار اسے پھانسی کے تختے تک لے جاتا ہے۔ تو میں نے فیصلہ کیا، بہت دیر ہو چکی ہے۔ اگر مجھے اپنے اندرکے دونوں دروازوں کے بیچ کی گھناؤنی دنیا سے نکلنا ہے تو مجھے اس عمارت کے دروازے کی تلاش کرنی ہوگی جو اسے باہر کی ایک آزاد دنیا سے جوڑ سکے۔ یہ کہیں پر موجود ہے اور کسی وجہ سے اسے صیغۂ راز میں رکھا گیا ہے، ہو سکتا ہے ان لوگوں کو میرے آنے کا انتظار ہو۔ یہ دروازہ، اگر میں نے اس کی تلاش نہ کی، تو شاید میں اپنے جینے کے مقصد سے سرے سے محروم ہو جاؤں۔

    وہ چھٹی کا دن تھا اور مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا، جیسے پہلی بار مجھے اپنے منہ کے اندر زبان کا احساس ہوا ہو مگر مجھے خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا ہو، جیسے کسی نے سانس روک کر مجھے جاننے کی کوشش کی ہو اور اسے مایوسی ہوئی ہو۔ شاید ایسے ہی کسی دن یہ کام ممکن تھا۔ میں نے خود سے کہا، تم کسی عام دن کا انتخاب نہیں کر سکتے۔ اس طرح کے کاموں کے لئے ایک خاص دن کی ضرورت پڑتی ہے، جب تم خود کو وہ نہیں پاتے جو بنیادی طور پر تم ہوتے ہو۔ تو وقت آ گیا ہے کہ تمیں صحیح جگہ، صحیح وقت اور صحیح کام کا انتخاب کرنا چاہئے۔ اس شہر نے ایک واقعے کے ذریعے تمہیں ایک پیغام بھیجا ہے۔ اب تک تم نے جو زندگی گذاری تھی وہ ایک ایسے انسان کی زندگی تھی جس کے اندر باہر کچھ بھی صحیح نہ تھا۔ تم صرف دوسروں کے بل پر جیتے آئے تھے، دوسروں کی گونج بن کر زندہ تھے اور کیونکہ تمہیں زندہ رہنا تھا، تمہارے اپنے سمجھوتے تھے، اپنے فیصلے تھے جن کے تم غلام ہو چکے ہو۔ مگر اچانک ہی یہ سب کچھ نہیں بدلنے والا، ایک بڑے ، ٹس سے مس نہ ہونے والے بوجھ کی طرح تمہیں خود کو آگے ڈھکیلنا ہوگا، ایک ایسے انسان کی طرح جسے گھر کے فرنیچر اور دوسرے الم غلم سامانوں کے ساتھ سی دیا گیا ہو، جو اپنے دورانِ خون اور دماغ کے اربوں خلیوں کے باوجود کسی کام کے لائق نہ رہ گیا ہو۔ تو فٹ برج کے اوپر کھڑے کھڑے میں نے آسمان کے کنارے دیکھا جہاں سورج کے ٹوٹے ہوئے انڈے سے زردی باہر آ رہی تھی۔ عجیب روشنی تھی یہ جس میں مجھے یہ شہراپنی سپاٹ چھتوں، دھند میں ڈوبی ہوئی گنبدوں میناروں اور لوہے کے پلوں کے ساتھ دور تک بالکل صاف نظر آ رہا تھا۔ یہ شہر جس کے در و دیوار گھس گھس کر ننگے ہو چکے تھے، جہاں ہر کسی کو کسی ایسی ہستی کی ضرورت تھی جس کے اندر وہ اپنی جڑیں پھیلا سکے، جس سے وہ اپنی نمی اور معدنیات حاصل کر سکے۔

    میں فٹ برج پر دیر تک نہیں رکا تھا کیونکہ دیکھتے ہی دیکھتے شام ہو گئی تھی اور شہر روشنی سے جگمگا اٹھا تھا۔

    فٹ برج سے اتر تے ہوئے میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ شہر کی روشنی کے سبب وہاں ستارے نظر نہیں آ رہے تھے۔

    سب وے کے اندر کثیف دھواں پھیلا ہوا تھا۔ یک چشم بھکاری چکر دار سیڑھی کے نیچے سے غائب تھا۔ یہ اس کے یہاں ہونے کا وقت نہیں ہے۔ وہ شاید کہیں اور موجود ہے، شاید کسی کھولی میں، یا پائپ کے اندر یا کسی بھٹیار خانے میں اپنی روٹی کے ٹکڑے کر رہا ہے۔ چکر دار سیڑھی کے خاتمے پر لکڑی کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو یہ دروازہ اہم نہیں ہے۔ سرنگ نما زینے سے چھاپے خانے کی گڑ گڑاہٹ سنائی دے رہی ہے۔ تو ان دنوں آرڈر تیزی سے آ رہے ہیں، بہت زیادہ تعداد میں آ رہے ہیں، اسی لئے چھٹی کے دن بھی کام چل رہا ہے۔ آفس کا بڑا کمرا اور اس کے زیادہ تر کمرے سنسان پڑے ہیں۔ ایک آدھ نیم جان بلب یہاں وہاں روشن ہیں مگر ایسا لگ رہا ہے جیسے کاتبِ تقدیر ان کے بارے میں فیصلہ کرنا بھول گیا ہو کہ انھیں بلب رہنے دے یا انسانی کھوپڑیوں میں بدل دے۔ آہ، وہ لوگ جو ان کمروں میں موجود نہیں، ان روشنیوں میں ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے سرے سے ان کا کوئی وجود تھا ہی نہیں۔ آنکھیں جو آنکھیں نہ تھیں اور انگلیاں جنھوں نے کام کرنے کی عادت سے مفر پا لیا تھا۔ میں انھیں دیکھ سکتا، اگر یہ بلب اتنے بے جان نہ ہوتے، دوسرے لفظوں میں اگر سب کچھ شروع سے غلط نہ ہو گیا ہوتا۔ میس کے دونوں دروازوں کے بیچ کے واقعے نے بہت پیچھے جا کر شروعات سے ہی سب کچھ غلط کر دیا تھا۔

    کاغذ کا ایک ٹکرا اڑتا ہوا میرے پیچھے سے آکر میرے کندھے سے چپک گیا ہے۔ کیا میں انسان کی جگہ ایک خاص مقناطیس میں بدل گیا ہوں جو ہر بےجان چیز کو اپنی طرف کھینچنے پر قادر ہو؟ میں کاغذ کو جسم سے الگ کرتا ہوں۔ یہ فل سکیپ ہے اور اس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ہے اور ہر کوری چیز کی طرح یہ کچھ کہنا چاہتا ہے مگر اگلے ہی پل ،بھول جاؤ اسے، وہ کہتا ہے اور میں اسے نیچے پھینک دیتا ہوں۔ شاید اسے پتہ ہے اس دنیا میں کہنے کے لائق کچھ بھی نہیں ہے۔

    ان مشینوں کی گڑگڑاہٹ کے باوجود میں اس گندے پانی کو سن سکتا ہوں جو شہر کے زمین دوز نالوں میں بہہ رہا ہے، دیواروں سے لٹکتی زنجیروں سے ٹکرا رہا ہے۔ نہیں، یہ میرا تصور ہے، میں تو نیم تاریک دیواروں کے سائے میں رینگنے والا کیڑا ہوں جو کبھی بھی اڑکر اندھیرے میں غائب ہو سکتا ہے یا ایک کپڑے چٹ کر جانے والا تتلی نما پتنگا ہوں جو کسی گرد آلود دیوار پر چپکا ہوا ہے۔ ایک ایسے انسان کی طرح جس کی سانسیں نکال لی گئی ہوں، میں چل رہا ہوں، ایک ایسی صبح ، ایک ایسی روشنی ، ایک ایسے دہانے کی تلاش میں جو مجھے شک و شبہات کے گھیرے سے باہر لا سکے۔ میری کپڑوں کے اندر پسینہ جیسا کچھ رس رہا ہے جب کہ یہ فروری کا مہینہ ہے۔ مگر کیا میں نے اپنے کلنڈر کو ٹھیک سے دیکھا ہے؟ کیا موسم نے اس کلنڈر کو ٹھیک سے دیکھا ہے؟ چلو، چلتے رہو، ورنہ اندر سے تم ہمیشہ کے لئے تھم جاؤگے، یہ کائنات تمہارے لئے ایک ایسی گلی کی طرح ہے جو دونوں طرف سے بند ہے۔ اس میں کہیں پر ایک بھی دروازہ نہیں ہے۔ مگر جب تم اس کے اندر آئے ہو تو باہر جانے کا راستہ بھی یقیناً ہوگا۔ تمہیں پتہ ہے تم ایک ایسی عمارت کے اندر چلے آئے ہو جہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ یہاں کیڑوں مکوڑوں کی بھرمار ہے جو انڈوں سے باہر آکر اپنے مختلف رنگوں کے ساتھ اندھیرے میں چمک رہے ہیں۔ انھوں نے تمہارے جسم کے ننگے حصوں پر رینگنا شروع کر دیا ہے۔ وہ تمہاری جلد میں اپنی سنڈیاں چبھو رہے ہیں۔ کسی مکڑے کے جالے نے تمہارے داہنے کان کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اب اس سے مکڑیاں رینگتے ہوئے تمہارے حلقوم کے اندر اتر رہی ہیں۔ ایک عجیب احساس جیسے کچھ ہے جو ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے، ایسا کچھ جو موجود نہیں ہے مگر ہے اور ان دیواروں پر ایک عجیب تھرتھراہٹ ہے جیسے دہائیوں کی تیرگی ان کے اندر سے باہر آنے کے لئے بےچین ہو۔ اگر ہمیشہ سے ان کے ساتھ یہ ہوتا آیا ہے تو یہ دیواریں اتنے دنوں تک زندہ کیسے رہ سکتی ہیں۔ اگر میری آنکھیں ہوتیں تو میں ان کی پژمردہ آنکھیں دیکھ سکتا۔ کہیں پر کچھ جل رہا ہے۔ تیل کی مہک! کیا یہ کسی طرح کی وارننگ ہے؟ کیا اس عمارت کے ان گنت کمروں میں، جن کی تمام بیرونی کھڑکیاں لوہے کی جالیوں سے ڈھکی ہوئی ہیں، میں واحد موجود شئے ہوں، باقی سب کچھ غائب۔

    اور پھر مجھے وہ دروازہ دکھائی دے گیا۔ وہ ستونوں کے پیچھے سے ایک سیاہ فام افریقی کی طرح ابھرا تھا، ایک ایسی ہستی جو جو بھاپ میں ڈوبے ہوئے جنگل سے ابھی ابھی باہر آئی ہو اور اپنی بھاری بھرکم ٹانگوں پر کھڑی میری طرف تاک رہی ہو۔ ہاں، میں دیکھ سکتا تھا، اس کی دونوں آنکھوں کو جو غلط اونچائیوں پر بنی تھیں۔چینی مٹی کی صراحیاں اس کے دونوں طرف کے ستونوں سے لگی کھڑی تھیں۔ ان مرتبانوں پر جیرنئیم کے بڑے بڑے پھول بنے تھے۔ ان پھولوں کا رنگ کیا تھا اس کا تعین کرنا ناممکن تھا۔ ان سے بیلیں مردہ سانپوں کی مانند باہر نکل کر فرش پر ستونوں کے بیچ سے ہوتی ہوئی اندر کی طرف چلی گئی تھیں۔ عرصہ ہوا کہ ان پر سڑن نے اپنا کام کرنا بند کر دیا ہے۔ ان مرتبانوں کو نہ چھونا ورنہ یہ چکنا چور ہو جائینگے، میرے دل نے کہا۔ نہیں، تم انھیں چھو سوکتے ہو، شاید تمہاری ہتھیلی کے لمس سے یہ بیلیں زندہ ہو جائیں، میرے دل نے دوبارا کہا۔ آج وہ میری اجازت کے بغیر سب کچھ کہنے پر مائل ہے۔ مجھے دروازے پر ایک چھوٹا سا شگاف نظر آ تا ہے اور میں اپنے داہنے ہاتھ کی چاروں انگلیاں اس پر رکھ دیتا ہوں۔ یہ باہر کی روشنی ہے جو دروازے کی درزوں سے رس رہی ہے۔ میری انگلیاں روشن ہو گئی ہیں جیسے میرے تاریک وجود کے اندر ایک روشن انسان موجود ہو۔ اگر یہ دروازہ باہر سے بند ہے تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں کواڑ کے ابھرے ہوئے حصوں کو تھام کر ا پنی پوری طاقت کے ساتھ اندر کی طرف کھینچتا ہوں۔دونوں پلے سختی کے ساتھ اپنے فریم سے چپکے ہوئے ہیں۔ ان پر کالکھ کی ایک موٹی تہہ جمی ہے اور اسے اندر سے بند رکھنے کے لئے جس بالٹ کا ہونا تھا وہ اپنی جگہ سے غائب ہے۔ اس کی جگہ کسی نے لوہے کی ایک سلاخ ڈال دی ہے۔

    میں اسے کھینچ کر باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سلاخ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ مجھے اس کی ضد پسند نہیں آتی۔ میری لگاتار کوشش ایک جنون میں بدل جاتی ہے۔ یہ مجھے ہو کیا گیا ہے؟ میں کیا پانا چاہتا ہوں؟ میں کس سے بھاگ رہا ہوں؟ اور جب کہ میں اپنی ہمت ہار رہا تھا، اچانک سلاخ اپنی جگہ سے نکل کر میری ہتھیلی میں آ جاتی ہے۔ یہ اتنا اچانک ہو گیا ہے کہ میں اس کا بوجھ سنبھال نہیں پاتا۔ اس کے فرش پر گرنے کی آواز گنبد کے اوندھے پیالے سے ٹکراکر کافی دور تک پھیل گئی ہے اور جب کہ میں اپنی کالکھ زدہ انگلیوں کو آپس میں مسل رہا ہوں میں دیکھتا ہوں، کچھ چمگادڑ اپنی تاریک پناہ گاہوں سے نکل کر واپس ان میں چھپ گئے ہیں۔ مجھے اپنی چپلوں کے نیچے چمگادڑوں کی بیٹ کی نرمی کا احساس ہوتا ہے۔ اگر میں نے چلنے کی کوشش کی تو میں پھسل کر گر سکتا ہوں۔ مگر مجھے اس کی پرواہ نہیں ۔میں دروازے کے ابھرے ہوئے حصوں کو تھام کر اپنی کوشش میں لگا ہوا ہوں۔ کواڑ اب بھی آپس میں گتھے ہوئے ہیں جیسے انھوں نے میرے خلاف سازش کرنے کی سوچ لی ہو۔ شاید یہ دیو قد افریقی میرے بس کی بات نہیں اور جب کہ میں اپنے اندر سے کمزور پڑنے لگا تھا، داہنے کواڑ کے پینل عجیب ڈھنگ سے کانپنے لگے۔ میں دروازے سے الگ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ پینل اسی طرح اپنی کسی اندرونی کمزوری کے سبب کانپتے رہے۔ پھر اس کے بالائی حصے سے لکڑی کا ایک ٹکڑا الگ ہو کر عین میرے سامنے آکر گرا اور گھن کھائے ہوئے تختے کے اندر کی گرد میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔ اس لکڑی کے گرنے سے کواڑ کے بالائی حصے پر روشنی کا ایک بڑا خانہ بن چکا تھا۔ دروازہ اتنا بڑا ہے کہ میرے کندھے پر ایک دوسرا آدمی کھڑا ہو جائے تو اس کے اوپری حصے کو چھو سکتا ہے۔ میں ایک بار پھر اسے اندر سے کھولنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لکڑی کے کچھ اور ٹکڑے اوپر سے گرتے ہیں، میرے بالوں اور کپڑوں پر لکڑی کے برادوں کے ساتھ ساتھ کچھ کیڑے بھی رینگنے لگے ہیں۔ کچھ روشن مگر بے ترتیب لکیریں دروازے پرجگہ جگہ جاگ اٹھی ہیں۔ انھوں نے بیٹ میں غرق فرش پر آڑی ترچھی لکیریں بچھا دی ہیں۔ یہ اس روشنی کا نتیجہ ہے کہ میرے چاروں طرف ایک نئی دنیا وجود میں آ چکی ہے جس میں میں دکھائی دینے لگا ہوں۔ دروازہ اب پوری طرح میرے قابو میں ہے۔ اس کے چاروں کناروں میں روشنی کی لکیریں بن چکی ہیں۔ آخرکار داہنی طرف کا کواڑ فریم سے الگ ہو کر ایک کراہ کے ساتھ اندر کی طرف کھل جاتا ہے۔

    کواڑ کو اس کے کنارے سے پکڑ کر میں ڈھکیلتے ہوئے اندر لے آیاہوں اور ٹھنڈے پسینے میں غرق لمبی لمبی سانسیں لے رہا ہوں۔ اب میرے سامنے ایک مستطیل خلا ہے، یہ اتنا بڑا ہے کہ میں دوسرے کواڑ کو کھولنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ مکڑی کے جالے کو کان سے صاف کرتے ہوئے میں عمارت سے باہر آ گیا ہوں اور اس نیم منہدم شدہ باب ہیکل کے نیچے اپنے گیلے پیروں کے ساتھ کھڑا تازہ ہوا میں لمبی لمبی سانسیں لے رہا ہوں۔

    یہ کنکریٹ کا بنا ایک اونچا چبوترا ہے جس سے ایک کشادہ زینہ نیچے کی طرف اترتا چلا گیا ہے۔ یہاں آس پاس کوئی غیر قانونی تعمیر نہیں ہے۔ ایک روشن شاہرا ہ تک پہنچنے سے قبل زینہ اندھیرے میں غائب ہو گیا ہے۔ اپنے شہر میں اس روشن شاہراہ کا وجود مجھے حیران کر دیتا ہے۔ اتنی روشنی! یہ میرے شہر کی روشنی نہیں ہو سکتی اور یہ وسیع و عریض زینہ جو بتدریج نیچا ہوتا ہوا اندھیرے میں گم ہو گیا ہے، اس پر پاؤں رکھتے ہی میرے پیروں کے گیلے پن کا احساس کیوں اتنا تیز ہو گیا ہے جیسے آپ برف پر چل ہے ہوں؟ زینے کے دونوں کناروں سے ان گنت پگڈندی نما زینے نکل نکل کر اکٹوپس کے بازووں کی طرح اندھیروں میں گم ہو رہے ہیں۔ ان پر چلتے لوگ کون ہیں، یہ جو اپنی شکلوں، اپنے جسموں میں اقلیدس کی لکیروں کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھتے؟ یہ جو جگہ جگہ سلنڈر کی طرح کھلے ہوئے ہیں یا کون کی طرح ٹوٹے ہوئے ہیں، یا پائپ کی طرح ٹیڑھے میڑھے نظر آ رہے ہیں، ان کی آنکھیں جوخود بھی غلط اونچائیوں پر بنی ہیں، ایک دوسرے کی نفی کر رہی ہیں۔ کیا یہی زندگی کی سچائی ہے اور ان روشن لکیروں کے درمیان جو تاریکی ہے، جہاں ان دیکھے خداؤں کا وجود ہے، جہاں آنکھیں سبز ہیں اور ٹاٹ کے زر زر پردوں سے چہروں کے خطوط ابھر رہے ہیں، کیا سب کچھ ان ہی چیزوں سے بنی ہیں۔

    میں مڑ کر دیکھتا ہوں، چھاپہ خانہ کی عمارت کافی بلندی پر، بلکہ شہر کی چوٹی پر کھڑی ہے، تاریک مگر موجود جیسے وقت اس کے وجود کو پوری طرح مٹانے میں ناکام رہا ہو۔یہ باہر سے تاریک ہے مگر اس کا دہانہ، جو دروازے کے نصف کھلنے کے سبب نظر آ رہا ہے تابناک اور روشن ہو چکا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے اس سے روشنی کا ایک دریا لاوا کی طرح بہتا ہوا شاہراہ کی طرف آ رہا ہو، شاہراہ خود جس پر انسانوں کا ایک ہجوم اپنی اقلیدس کی لکیریں اٹھائے چل رہا ہے۔ میں کہ اس شاہراہ سے دور ہوں مگر حیرت انگیز طور پر اس میں موجود ہوں،میں سوچ رہا ہوں اپنے جسموں کو ڈھوتے ہوئے یہ لوگ، ان کے چہرے کتنے روشن ہیں جیسے وہ خاص قسم کے اندھیرے میں چمکنے والے کیڑے ہوں۔ یہاں کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی، رد کئے جانے کے مکمل احساس کے باوجود جینے کے لئے جن چیزو ں کا سہارا لیا جاتا ہے ان کا بوجھ ان کی ہڈیوں کو وقت سے قبل ٹیڑھی کرنے کے لئے کافی ہے۔ اپنی جگہ کھڑا مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے میں ایک ایسی دنیا میں آ گیا ہوں جہاں وقت خود کو دہرا رہا ہے، جہاں روشنیوں کے آس پاس تاریکیوں نے اپنا الگ نظام بنا رکھا ہے جن کے مطابق روشنیوں کو مڑنا پڑتا ہے؟ آہ، یہ عجیب روشنی، جس کے بل پر ہم لوگوں نے ایک تہذیب کی بنیاد تو ڈالدی مگر اس تہذیب میں لوگ آج بھی اسی طرح تھکے ہوئے، کمہلائے ہوئے نظر آ رہے ہیں جس طرح وہ روز ازل میں نظرآئے ہونگے جب خدا نے انھیں رد کیا ہوگا۔ روشن کھمبوں کے نیچے پتھروں پر بیٹھے ہوئے یا سر جھکا کر چلتے ہوئے یہ لوگ، زندگی کی ان دیکھی مانگوں سے نڈھال، اب جانے کس خدا کی تفسیر لکھ رہے ہیں۔ دھیرے دھیرے شاہراہ کی بھیڑ میں چلتے ہوئے مجھے اپنے چہرے پر ایک عجیب حرارت کا احساس ہونے لگتا ہے جیسے کسی نے اس پر فاسفورس چھڑک دی ہو۔

    ’’کیا واقعی، یہ کسی قسم کی نجات کا لمحہ ہے!‘‘ میں اپنے چہرے پر ہتھیلی پھیرتے ہوئے خود سے کہتا ہوں۔ نہیں، یہ میرا چہرا نہیں ہے جو جل رہا ہے، یہ کسی اور کا چہرا ہے جسے میں نے پہن رکھا ہے۔

    ’’اور تم یہاں کیسے آ گئے؟‘‘ ایک لاغر عورت جانے کہاں سے نمودار ہو کر میرے سامنے کھڑی ہے ۔اس نے اپنے بدن پر ایک چغہ ڈال رکھا ہے جس کا ہڈ اس کے سر پر پڑا ہوا ہے ۔ہڈ کے اندر کوئی چہرا نہیں ہے۔

    ’’بس میں نکل آیا اور آپ نے یہ چغہ کیوں پہن رکھا ہے؟ کیا میں آپ کو جانتا ہوں؟‘‘

    ’’ہاں، تم مجھے جانتے ہو اور مجھے یہ پہننا پڑا ہے کیونکہ میرے پستان سڑ گئے تھے۔ تمیں تو پتہ ہے، میرے سارے بال گر چکے ہیں۔ مجھے یاد آ یا، تم نے میرے لئے ایک وگ لانے کا وعدہ کیا تھا۔‘‘ اندھیرے میں اس کے لانبے دانت چمک اٹھے ہیں۔ ’’شاید تم نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم لوگ دوسروں کے دئے گئے دنوں میں جی رہے ہیں۔‘‘

    ہاں، میں اسے پہچان گیا ہوں۔ مگر میرے پاس کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ شاید اسے اس بات کا علم ہے۔وہ مڑ کر چلنے لگتی ہے۔ میں اسے پکارتا رہ جاتا ہوں، مگروہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اقلیدس کی لکیروں میں ڈھل جاتی ہے۔

    میرے خدا، میں اس روشنی کا کیا کروں جس نے سب کچھ اتنا ننگا کر دیا ہے کہ دیکھنے کے لئے کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے۔ مجھے چھاپے خانے کی طرف واپس لوٹنا چاہئے۔ میں اتنی جلد ہار نہیں مان سکتا۔ میں نے اس دروازے کی دریافت کی ہے۔ ابھی میرا کام باقی ہے۔ دروازے کے دوسرے طرف کی دنیا وہ نہیں ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔واپسی پر میرے قدم خود بخود تیز ہو گئے ہیں۔ میرے راستے کے دونوں جانب تاریک دریا سا کچھ ابل رہا ہے، جس میں کشتیاں ڈول رہی ہیں، ان میں جلتی لالٹینیں دراصل انسانی آنکھیں ہیں۔ تو کیا واقعی اس شہر کے سارے زمین دوز نالے سطح زمین پر آ گئے ہیں۔

    چھاپے خانے کے دروازے پر سب کچھ پہلے کے جیسا ہے۔ اندر مشینوں کے شور میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس شدید کپکپاہٹ کے سبب کہیں نیم بوسیدہ دیواریں زمیں بوس نہ ہو جائیں، اس کے داخلے کی دیوارکے گرنے کا واقعہ ایک بڑے پیمانے پرپھر سے دہرایا نہ جائے۔ میں شورکا تعاقب کرتے ہوئے ایک بڑے ہال کے اندر نکل آیا ہوں جہاں مشینیں طوفانی رفتار سے چل رہی ہیں۔ یہ روایتی لیٹر پریس مشینیں ہیں جن پر لوگ جھکے ہوئے کام کر رہے ہیں، پلیٹیں اور روشنائی کے رولر بدل رہے ہیں، فیڈبورڈ میں کاغذات ڈال رہے ہیں۔ میں جانے کتنی دیر تک ان کے درمیان چلتا رہتا ہوں، مگر کوئی میری طرف نہیں دیکھتا۔ ان کی آنکھوں کے گڈھے تیرگی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔کیا ان لوگوں کا کوئی چینج اوور ٹائم نہیں ہے؟ مشینوں سے کاغذ برابر نکلتے چلے جا رہے ہیں۔ مگر چھپے ہوئے کاغذات کو چاک کرنے، تہہ کرنے، پنچ کرنے، لئی لگانے اور اسٹیپل کرنے کے لئے کوئی آن لائن آپریشن نہیں ہے۔ صرف دو کارندے ہیں جو ان کاغذات کے پلندوں کو اٹھا اٹھا کر ٹرالی کے اندر رکھ رہے ہیں، انھیں ڈھکیل کر ہال سے لگے کمروں کے اندر لے جا رہے ہیں۔ آخرکار تھک کر میں ایک ڈھیر سے کچھ کاغذات اٹھاکر دیکھتا ہوں۔ ان میں کسی بھی کاغذپر کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ہے، صرف سیاہ روشنائی نے حاشیوں کو چھوڑ کر کاغذکو دونوں طرف سے سیاہ کر رکھا ہے۔

    تو یہ راز ہے اس چھاپے خانے کا! میں باری باری سے ان تمام کمروں کے اندر جاتا ہوں جن کا استعمال گدام کے طور پر ہو رہا ہے۔ ہر کمرے میں اسی طرح کے کاغذات کے ڈھیر اپنی ریکوں پر سجے ہوئے کہیں کہیں چھتوں کو چھو رہے ہیں۔ میں ایک ریک سے کچھ کاغذات کھینچ کر باہر نکالتا ہوں۔ ان پرگرد کی ایک موٹی تہہ جمی ہوئی ہے۔ پلندوں کو ایک دوسرے سے مار کر صاف کرتے ہوئے میں دیکھتا ہوں، یہ کاغذات تمام کے تمام سیاہ ہیں، شاید ان میں حروف آپس میں اتنے ملا دئے گئے ہیں کہ پورا صفحہ سیاہ ہو گیا ہے، یا ہو سکتا ہے کہ ان کاغذات میں کہیں پرایک بھی لفظ چھپا ہوا نہ ہو، صرف ان پر سیاہی پھیر دی گئی ہو۔ مجھ پر اس حیرت کا انکشاف ہوتا ہے کہ ان تمام کمروں میں بس اسی طرح کے کاغذات بھرے پڑے ہیں۔ باہر آکر میں چھاپے کی مشینوں کے سامنے حیران و پریشان کھڑا ہوں۔ ان پر کام کرتے لوگ میری سمجھ میں نہیں آتے۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ ’’آخر یہ کیا کر رہے ہو تم لوگ؟‘‘ میں چینخ اٹھتا ہوں۔ میری غیر انسانی چینخ کے سبب پہلی بار شاید انھیں میری موجودگی کا احساس ہوا ہے۔ انھوں نے مڑ کر میری طرف دیکھا ہے۔ مجھے یقین نہیں ہوتا، واقعی ان کی آنکھوں کی جگہ تیرہ و تاریک خندقیں میری طرف گھور رہی ہیں۔ ’’تم دونوں میرے پیچھے پیچھے آؤ۔‘‘ میں مڑ کر ٹرالی مین سے کہتا ہوں۔ ’’میں اس چھاپے خانے کا نیا آدمی ہوں‘‘۔ دونوں اپنی اپنی ٹرالی کے سامنے چپ چاپ کھڑے ہیں۔ ان کی ہچکچاہٹ قائم ہے۔ تھوڑی دیر تک وہ اسی طرح بے حس و حرکت اپنی جگہ کھڑے اپنی آنکھوں کی خندقوں سے ایک دوسرے کی طرف تاکتے رہتے ہیں، پھر ان خندقوں میں ایک موہوم سی روشنی جاگتی ہے۔ شاید ان میں کسی قسم کا تبادلۂ خیال ہوا ہے۔ وہ ٹرالیوں کو ڈھکیلتے ہوئے روازے کی طرف لانا شروع کر دیتے ہیں۔ انھوں نے دروازے کو دیکھ لیا ہے۔ وہ میری آواز پہچان چکے ہیں۔ برسوں سے انھیں اس آواز کا انتظار تھا۔

    جانے کتنا وقت گذر گیا ہے۔ دونوں کارندے ٹرالیاں کاغذات سے بھر بھر کر میری ہدایت پر کھلے دروازے سے باہر زینے پر انڈیل رہے ہیں۔ دروازے کے سامنے کاغذ کا پہاڑ سا بن گیا ہے۔ یہ پہاڑ اس خلاء کے مقابلے جو دروازے کا ایک حصہ کھل جانے سے بن گیا ہے، بہت بڑا ہے۔ ٹرالیاں کمروں سے کاغذات سے بھری ہوئی باہر آ تی جا رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ کاغذ کا پہاڑ تیزی سے بلند ہوتا جا رہا ہے، ان میں سے پلندوں کی اچھی خاصی تعداد باہر زینے پر پھسلنے لگی ہے۔ دروازے کا ایک پلّا اب بھی بند ہے۔ مگر وہ زیادہ دیر اپنی جگہ قائم نہیں رہتا۔ کاغذات کا بوجھ سنبھال نہ پانے کے سبب وہ ایک زور دار چڑ چڑااہٹ کے ساتھ اپنے قبضوں سمیت باہر زینے پر جا گرتا ہے۔

    جس کے ساتھ ہی چھاپے خانے کے اندر کی گڑگڑاہٹ اچانک رک گئی ہے۔

    عمارت ایک عجیب سناٹے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ زینہ پر اوندھے گرے ہوئے پلے پر کاغذات کے ڈھیر پھسلتے جا رہے ہیں مگر پھر بھی اس سے دھول باہر آرہی ہے جیسے اس کی روح نکل رہی ہو۔ دیمک نے اسے اندر سے کھوکھلا کر ڈالا تھا۔ مجھے اپنی پشت پر کچھ لوگوں کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ تمام لوگ اپنی اپنی مشینوں کو چھوڑ کر میرے پیچھے جمع ہوگئے ہیں۔ میں اپنی سانس روکے سوچ رہا ہوں، کیا اس کائنات سے جو اس دروازے کے دونوں طرف موجود تھی ہم ہمیشہ کے لئے مفر پا چکے ہیں۔کیا ایک نئی کائنات وجود میں آ چکی ہے جس کے واقعی ہم مالک ہیں۔

    عجیب سناٹا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے خاموشی ابھی ابھی بول پڑےگی۔

    اور تب بہت ہی غیر محسوس طور پر روشندان کے نیچے سے ایک سریلی جھنکارا بھرتی ہے۔یہ بہت ساری گھنٹیوں کی ایک ہم آہنگ آواز ہے۔ میں اسے پہچان لیتا ہوں۔ اس آواز کو میں بچپن سے اپنے اندر سنتا آیا ہوں اور جب کہ دیوار گیر گھڑی اپنی جھنکار پئے در پے دہرا رہی ہے میری نظر اس کے پنڈولم پر جا ٹکتی ہے۔ وہ بہت ہی پراسرار طور پر اپنی جگہ واپس آ چکا ہے اور اس کی پلیٹ دونوں اندرونی دیوارسے شدت کے ساتھ ٹکرا رہی ہے، جیسے زمین کی گردش اس کے محور پر کسی وجہ سے اچانک بہت تیز ہو گئی ہو۔ کیا یہ دنیا کے خاتمے کا اعلان ہے؟

    ابھی میں اس پنڈولم کی گتھی کو سلجھا بھی نہیں پایا ہوں کہ اوپر روشندان میں کئی پر ایک ساتھ پھڑپھڑا اٹھتے ہیں۔ وہ ایک بڑا سا الو تھا جو کسی تاریک کونے سے نکل کر فاختہ پر جھپٹا تھا۔

    مگر اسے دیر ہو گئی تھی۔

    شکار گھنٹی کی آواز کے سبب پہلے ہی ہوشیار ہو چکی تھی۔

    فاختہ روشندان سے تیر کی طرح نیچے آئی ہے ۔وہ ایک ستون سے ٹکرا کر گرتے گرتے خود کو سنبھال لیتی ہے اور ٹوٹے ہوئے دروازے سے باہر نکل جاتی ہے۔

    کھلے دروازے کے سامنے ہم لوگ چپ چاپ کھڑے دیکھ رہے ہیں، فاختہ اپنے دونوں پر پھیلائے روشن آسمان میں اڑتی چلی جا رہی ہے۔ فاختہ نظروں سے اوجھل ہو چکی ہے، جس کے ساتھ ہی روشن آسمان اچانک بجھ گیا ہے، شہر تیزی سے تاریکی میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے، زینے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ اقلیدس کی لکیریں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ اب ان میں سے ایک بھی لکیر باقی نہیں بچی ہے۔ ایک تاریک کائنات مجھے چاروں طرف سے نگل چکی ہے۔ میں انگلیاں آنکھوں کے اندر ڈال کر دیکھتا ہوں۔

    میری آنکھیں تاریک خندقوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے