خزانے کا خواب متوسط طبقے کے اکثر لوگوں کی طرح اسے بھی وراثت میں ملا تھا، پرانے گھر میں اس کے باپ نے بھی کئی جگہیں لکھ دی تھیں لیکن خزانہ تو نہ ملا گھر کی خستگی میں اضافہ ہو گیا۔ پھر اس نے یہ خواب دیکھنا چھوڑ دیا جو اسے اپنی ماں سے ورثے میں ملا تھا۔ عمر کے آخری دنوں میں وہ مایوس ہوگیا لیکن نہیں جانتا تھا کہ یہ خواب وراثت میں اس کے بیٹے کو منتقل ہو گیا ہے۔ وراثت میں منتقل ہونے کے لئے کچھ تھا بھی نہیں، بس یہ خستہ آبائی گھر۔ دونوں میاں بیوی نے ملازمت کرکے دس مرلے کا ایک پلاٹ خریدا تھا لیکن اس پر مکان بنانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ دونوں میاں بیوی آگے پیچھے نیا مکان بنانے کی حسرت ہی میں دنیا سے چلے گئے۔ اس کی بیوی بھی ملازمت کرتی تھی۔ کچھ کمیٹیاں ڈال کر، قرضے لے کر اس نے باپ کے خریدے پلاٹ پر چھوٹا سا گھر بنا لیا۔
نئے گھر میں منتقل ہوئے تو بیوی بچے بہت خوش ہوئے لیکن اس کی اداسی نہ گئی۔ ”کنال کا ہوتا تو کیا بات تھی، دس مرلے تو لان کے لئے چھوڑتا اور دس مرلے میں عمارت بناتا“۔
بیوی بولی۔ ”شکر کرویہ بھی بن گیا۔ پرانے گھر میں تو اب چھتوں سے مٹی بھرنے لگی تھی۔“
”وہ تو ٹھیک ہے“۔ اس نے سر ہلایا۔ ”لیکن….“
اور اس لیکن کے لئے خزانے کا خواب تھا، اگر ایک کروڑ کا بندوبست ہو جائے تو کسی اور اچھے علاقے میں کنال کا گھر بن سکتا ہے، لیکن یہ ایک کروڑ کہاں سے آئیں گے۔ یہ گھر تو بنا تھا اس کے کسی کونے کھدرے میں پرانا خزانہ ملنے کی امید نہیں تھی، تو پھر خزانہ کہاں سے ملے، لاٹریوں اور پرائز بونڈ سے بڑی امیدیں تھیں۔ ہر مہینے پچاس سو روپے کا بونڈ خریدتا۔ قرعہ اندازی کا نتیجہ آتا تو دو دو تین بار نمبر پڑھتا لیکن کبھی دس روپے کا انعام بھی نہیں نکلا۔ شائد میرے نام کا انعام نہیں نکلتا۔ بیوی اور پھر بچوں کے نام سے پرائز بونڈ لینے لگے لیکن کسی کا نام نہ آیا۔ کوئی انعامی اسکیم شروع ہوتی فوراً وہ چیز خرید کر انعامی کوپن بھرتا لیکن کبھی کوئی انعام نہ نکلا۔
زندگی کی گاڑی آہستہ آہستہ گھسٹتی گئی۔ بچے بڑے ہو گئے تھے۔ اب موٹر سائیکل پر سب کا جانا مشکل ہو گیا تھا۔ بیوی نے اسکول میں کمیٹی ڈالی اور موٹر سائیکل بیچ کر انہوں نے ایک پرانی کار لے لی۔
کار کو پہلے دن سے پورچ میں کھڑا کرتے ہوئے سوچا ”کچھ اور پیسے ہوتے تو ذرا بڑی گاڑی لیتا“۔ خزانے کا خواب پھر جھلملانے لگا، اگر کہیں سے خزانہ مل جائے تو۔ لیکن کہاں سے۔ اب خزانے زمینوں میں دفن نہیں کئے جاتے۔ بنکوں میں رکھے جاتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کے لئے ڈکیتی کرنی پڑتی ہے۔ اس تصور ہی سے جھرجھری آ گئی۔
کار پرانی تھی، روز ہی کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوتا۔ اتوار کا دن تو مستریوں کے پاس گزرتا، ہر بار سوچتا کاش کہیں سے خزانہ ہاتھ آجائے تو کم از کم نئی گاڑی ہی لے لوں۔ کئی خیال ذہن میں آتے کیا معلوم کوئی غلطی سے اس کے اکاﺅنٹ میں رقم جمع کرادے۔ سڑک پر چلتے چلتے کوئی موٹا بٹوا مل جائے۔ سوچتا، اب تو پانچ ہزار کا نوٹ بھی آ گیا۔ ایک کروڑ کے لئے بہت سی گڈیوں کی ضرورت ہی نہیں۔
بیوی نے پھر ہمت کی، گھر کے خرچے میں سے پیسہ پیسہ جوڑ کر اور نئی کمیٹی ڈال کر اتنی رقم جمع کرلی کہ پرانی کار بیچ کر نئی گاڑی لی جا سکے۔
پہلے دن نئی گاڑی چلاتے ہوئے اور ہی مزہ آیا۔ ”واہ کیا بات ہے“ لیکن اسی لمحے خیال آیا اور پیسے ہوتے تو بڑی گاڑی لیتے۔ سڑک پر قریب سے بڑی گاڑیاں گزرتیں تو اسے عجب بے بسی اور بے وقعتی کا احساس ہوتا۔ خزانے کا خواب آنکھوں میں سرسرانے لگتا۔
دس مرلے کا گھر اور نئی گاڑی۔ بیوی کہتی۔ ”تم ناشکرے ہو، تنگ گلی کے اس بوسیدہ گھر میں موٹر سائیکل کے ساتھ رہتے تھے اور اب اس نئی آبادی میں اپنا گھر ہے، گاڑی ہے اور کیا چاہئے۔“
وہ کہتا، ”ٹھیک کہتی ہو، لیکن….“
اس سے اچھے علاقے میں بڑاگھر، بڑا لان سوچتا…. ”اب تو اس کے لئے دو کروڑ چاہئے۔ زمین بھی مہنگی ہو گئی ہے اور لاگت بھی کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے“۔ بیوی اور بچے اب اس کے خواب سے لذّت لینے لگے تھے۔بڑا بیٹا کبھی کبھی ہنستے ہوئے کہتا…. ”ابو اب آپ کا بجٹ کیا ہے۔“
وہ کہتا…. ”یار اب تو معاملہ دو کروڑ سے آگے چلا گیا ہے“۔
سوچتا….” جن کے پاس اربوں ہیں ان کے لئے دو کروڑ کیا معنی رکھتے ہیں۔“
خواب میں دیکھتا…. ڈاکئے نے لفافہ دیا ہے، کھولتا تو اس میں دو کروڑ کا چیک ہوتا۔ یہ کون نادیدہ مہربان ہے؟ لیکن جھرجھری آتے ہی حقیقی دنیا میں آ جاتا۔ بٹوے میں تو دو تین ہزار ہی رہ گئے ہیں اور ابھی تنخواہ ملنے میں بیس دن ہیں۔
کچھ عرصے کے لئے خزانے کا خواب محو ہو جاتا، بس جو ہے یہی ہے۔ کچھ عرصہ مطمئن رہتا، پھر کسی اچھے علاقے میں جانا ہوتا تو بڑے گھر، بڑی گاڑیاں دیکھ کر جی کلبلانے لگتا۔ ایک عجب بےچینی اندر ہی اندر ایسے کاٹتی، جیسے کوئی چھری کی نوک چبھا رہا ہے۔ بیوی مزاج آشنا تھی، سمجھ جاتی کہ خزانے کا خواب ان دنوں پھر اس کے ذہن میں کھدبدا رہا ہے۔
کبھی کبھی ہنس کر پوچھتی…. ”اب اسٹی میٹ کیا ہے؟“
وہ پوری سنجیدگی سے کہتا…. ”اب تو تین کروڑ سے زیادہ ہی چاہئے۔“
اور سوچتا کیا معلوم کسی دن سڑک پر کوئی بریف کیس مل جائے جو ڈالروں سے بھرا ہو۔ لیکن اتنی رقم رکھی کہاں جائےگی۔ گھر میں رکھی اور کسی کو بھنک بھی پڑ گئی تو سب کی جانیں بھی جائیں گی۔ بنک میں لے گیا تو ٹیکس والے پوچھیں گے اتنی رقم کہاں سے آتی۔ بہت سوچا، بہت سوچا پھر ایک پلان ذہن میں آیا کہ گھر کے سارے افراد کے اکاﺅنٹ کھول کر تھوڑی رقم سب میں جمع کرادی جائے اور کچھ گھر میں رکھ لی جائے۔ گھر میں دو تین محفوظ جگہیں بھی تلاش کر لیں، ایک الماری کے سب کے اوپر ایک خلا سا رہ گیا تھا۔ بہت ہی مناسب جگہ تھی، چور ڈاکو آبھی جاتے تو تلاش نہ کرپاتے۔
اب شہر میں دھماکے شروع ہو گئے تھے۔ بریف کیس پھٹتے تھے۔ خیال آیا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ بریف کیس کھولے اور دھماکہ ہوجائے۔ پورے جسم میں جھرجھری آ جاتی۔
”نہیں یہ مناسب نہیں، تو پھر“۔
اب این جی اوز کا بھی بڑا چرچا تھا۔ سنتا تھا کہ باہر کے ملکوں سے کھلا پیسہ ملتا ہے لیکن یہ اس کی حیثیت سے بہت اونچا کام تھا۔ وہ تو اس کے بارے میں بھی خواب ہی دیکھ سکتا تھا کہ وہ ایک این جی او چلا رہا ہے۔ کھلا پیسہ آرہا ہے اور اس نے اس میں سے تین کروڑبچا لئے ہیں۔ پوش علاقے میں دو کنال کا گھر…. ایک کنال پر عمارت اور ایک کنال کا لان…. یہ بڑی گاڑی بلکہ گاڑیاں۔
لیکن یہ بھی خواب ہی تھا۔
دہشت گردوں کو بوریوں میں بھر کر ڈالر ملتے ہیں، لیکن وہ تو اس چیونٹی کو بھی نہیں مارسکتا تھا جو اس کے جسم پر کاٹتی پھرتی تھی۔ تو خزانے کا خواب، کچھ عرصہ بری طرح ذہن پر سوار رہتا، کچھ عرصہ بھول جاتا۔ بچے اب بڑے ہوگئے تھے، ناشتے کی میز پر چھیڑتے…. ”ابو اب آپ کا بجٹ کیا ہے“۔
وہ سنجیدگی سے کہتا…. ”اب تو چار کروڑ ….“
سب ہنستے، وہ بھی کھسیانی سی ہنسی سے ان کا ساتھ دیتا۔
اسی دوران بیٹی کی شادی ہو گئی، دونوں بیٹے ملازمتیں کرنے لگے۔
بیوی نے ایک دن بتایا…. ”دونوں باہر جانے کے چکر میں ہیں“۔
اس نے بےبسی سے سر ہلایا…. ”شاید باہر انہیں وہ مل جائے جو میں نہیں پا سکا“۔
دونوں بیٹوں کی شادیاں ہو گئیں۔ وہ دونوں میاں بیوی بھی ریٹائر ہو گئے۔
اب سارا وقت خواب دیکھنے کے سوا اور کچھ نہ تھا، صبح ناشتہ کیا، اخبار پڑھا اور پھر خزانے کا خواب زینہ زینہ اس کی آنکھوں میں اترنے لگتا۔
”کیا معلوم کسی دن اسے اچانک ہی کسی نامعلوم کی طرف سے چار کروڑ کا چیک مل جائے“۔
پھر خود ہی ہنس پڑتا۔
سوچتا، اربوں کھربوں والوں کے لئے تو چار کروڑ ایسے ہیں جیسے ہمارے لئے چار ہزار، لیکن کوئی کسی کو کیوں دے؟
سب سے پہلے بڑے بیٹے نے خبر سنائی کہ اسے باہر ملازمت مل گئی ہے اور وہ دس پندرہ دن میں جا رہا ہے۔
اب گھر میں دونوں میاں بیوی کے علاوہ چھوٹا بیٹا، اس کی بیوی اور ان کا بیٹا رہ گئے تھے۔ پوتا ابھی اسکول نہیں جاتا تھا۔ وہ دن بھر اس سے کھیلتا رہتا۔ تین چار مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ چھوٹا بیٹا بھی بیوی بچوں کے ساتھ باہر چلاگیا۔ اب گھر میں دونوں میاں بیوی رہ گئے تھے۔ گھر کے چار کمروں میں سے تین خالی ہوگئے۔ ایک کمرہ اور لاﺅنج ان کے استعمال میں تھا۔ ڈرائنگ روم تو کبھی کبھار ہی آباد ہوتا۔ ڈرائیور بھی رکھ لیا تھا۔ کہیں آنے جانے کی تکلیف نہیں۔ چار کمروں کے گھر میں دو فرد لیکن پوش علاقے میں گھر کی خواہش ختم نہ ہوئی۔
کبھی کبھی افسردگی سے سوچتا، اگر میرے پاس آٹھ دس کروڑ ہوتے تو بچے باہر نہ جاتے۔ سوچتے سوچتے کہیں سے کہیں پہنچ جاتا۔ دو کروڑ کا تو دوکنال کا پلاٹ، دو کروڑ اوپر، ہو گئے چار کروڑ، ایک کروڑ گھر کو سجانے اور شاندار گاڑی کے لئے یہ ہوئے پانچ،دو کروڑ سیونگ میں جس سے آٹھ فیصد کے حساب سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار انٹریسٹ ملےگا۔ پچاس ہزار پنشن ہے دو لاکھ دس ہزار۔ دونوں میاں بیوی کے لئے بہت ہے۔ بہت عمدہ۔ باقی تین کروڑ تینوں بچوں کے اکاﺅنٹ میں جمع کرا دےگا۔ پیسا کمانے باہر گئے ہیں نا۔ یہاں پیسہ مل جائے تو واپس آ جائیں گے۔ لیکن رہیں گے کہاں؟ ممکن ہے ان کی بیویاں ساتھ نہ رہیں تو چلو ایک پرانے گھر میں رہ لیں گے۔ ایک کروڑ سیونگ میں سے نکال کر دوسرے کو بھی چھوٹا گھر بنا دےگا….
تھوڑا سا ہاتھ تنگ ہو جائےگا لیکن کوئی بات نہیں۔ بیٹے ساتھ نہ رہیں، ہوں گے تو اسی شہر میں۔ کبھی ایک کے گھر چلے گئے، کبھی دوسرے کے…. دس کروڑ کی بات ہے۔ کچھ لوگوں کے لئے تو یہ دس ہزار کے برابر بھی نہیں۔
دس کروڑ کا خواب اب بھوت کی طرح اسے چمٹ گیا تھا۔ اٹھتے بیٹھتے سوچتا کہ یہ دس کروڑ کہاں سے مل سکتے ہیں۔ کوئی لاٹری، کوئی انعام لیکن اتنا بڑا انعام تو ہوتا ہی نہیں۔ سڑک پر پڑا بریف کیس۔ اب تو ڈالروں کا زمانہ ہے۔ دس کروڑ کے لئے زیادہ جگہ درکار بھی نہیں۔
صبح شام خواب…. خزانے کا خواب
چھوٹے بیٹے کا فون آیا…. ”ویزے اور ٹکٹ بھیج رہا ہوں، مہینے بھر کے لئے آ جائیں۔“
زندگی میں پہلی بار باہر نکلنا ہوا تھا…. یہ دنیا ہی اور تھی، ہر وقت چکاچوند، گلیمر۔ مہینہ تو پتہ ہی نہیں چلا کیسے گزرا۔ جس دن انہوں نے واپس جانا تھا۔ بیٹے نے کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے پوچھا…. ”ابو اب آپ کا اسٹی میٹ کیا ہے۔“
اس نے سنجیدگی سے کہا…. ”دس کروڑ“
سب ہنسنے لگے ، وہ بھی کھسیانا سا ان میں شامل ہو گیا۔
ایئر پورٹ پر بیٹا، اس کی بیوی اور دونوں بچے انہیں چھوڑنے آئے۔
جہازمیں بیٹھتے ہوئے عجیب سی اداسی تھی، بیوی بھی چپ تھی۔ یہ دن کتنے مزے کے تھے، اس نے سوچا، ہر ہفتے بیٹا انہیں کھانا کھلانے باہر لے جاتا تھا، کیا مزے مزے کے کھانے تھے اور سلاد، واہ! اس کی بات ہی نہیں۔
جہاز فضا میں بلند ہوا۔سات آٹھ گھنٹوں کا سفر تھا۔ ابھی آدھا راستہ ہی طے ہوا تھا کہ جھٹکے لگنے لگے۔ کپتان نے ایمرجنسی کا اعلان کیا تو مسافروں کے منہ سے کلمے کا ورد ہونے لگا۔ بیوی ڈر کر اس کے ساتھ لگ گئی۔ اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا…. ”چلو آخری لمحے میں بھی ساتھ ہیں، تم نے ساری زندگی میرا بہت خیال رکھا ہے۔“
ابھی شائد کچھ کہتا کہ جہاز نے ڈبکی کھائی، ایک دھماکہ اور پھر……..
سوئم کرنے کے بعد تینوں بہن بھائیوں نے طے کیا کہ وہ ہر سال ان کی برسی پر اکھٹے ہوا کریں گے۔
پہلی برسی پر برسی کے ختم کے رسومات سے فارغ ہو کر تینوں لاﺅنج میں بیٹھ گئے۔
بڑے بھائی نے کہا….”سال بھر سے یہ گھر خالی پڑا ہے۔ میں اسے کرائے پر دینے کے حق میں نہیں، کرایہ دار سے کون کرایہ وصول کرےگا اور اگر کوئی ایسا ویسا کرایہ دار آ گیا تو مکان ہی کھا جائےگا، تم دونوں اتفاق کرو تو اسے بیچ دیتے ہیں“۔
بہن نے اثبات میں سر ہلایا۔
اس سے پہلے کہ چھوٹا کچھ کہتا، گیٹ کی گھنٹی بجی، بڑا اٹھ کر باہر آیا۔ ٹی سی ایس کے ہرکارے سے لفافہ لے کر وہ اسے کھولتے ہوئے اندر آیا۔
پڑھ کر اس کے منہ سے چیخ نکل گئی اور کاغذ نیچے جاگرا۔ چھوٹے نے جلدی سے اٹھایا۔ خط فضائی کمپنی سے تھا، لکھا تھا۔
”مرحومین کی حادثاتی ایئر انشورنس کے دس کروڑ روپے کے چیک کی وصولی کے قانونی تقاضے پورے کرنے کے لئے فوری طور پر کمپنی کے انشورنس کے شعبے سے رابطہ کیا جائے۔“
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.