دستک
’ابھی اور کتنا چلنا ہے امی۔۔۔ ہماری منزل اتنی دور کیوں ہے؟‘
احمد جب چلتے چلتے تھک کر ہانپنے لگا تو اس نے اپنے سے چند قدم آگے چلتی ماں سے پوچھا۔
’ابھی سے تھک گئے احمد؟۔۔۔ ابھی تو سفر باقی ہے میرے بیٹے!‘ فاطمہ نے اس کا پسینہ پونچھتے اور اس کا سر سہلاتے ہوئے اسے تسلی دی۔
’نہیں امی! میں تھکا تو نہیں ہوں۔۔۔ اگر ہم تھک گئے تو اپنی منزل تک کیسے پہنچیں گے۔۔۔ آپ کابیٹا بہت بہادر ہے ۔۔۔چلئیے!‘ احمد نے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ نئے عزم کے ساتھ اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ اس کے تمتماتے چہرے کو دیکھ کر فاطمہ کے ہونٹوں پہ پھیکی سی مسکراہٹ ابھر آئی اور اس نے محبت بھری نظروں سے اپنے لخت جگر کی طرف دیکھا جس کے سُرخ و سفید چہرے پہ پسینے کی بوندیں یوں چمک رہی تھی جیسے کسی گلاب کے پھول پہ تمام رات صبح کے بچھائے ہوئے شبنم کے صاف شفاف قطرے!
’ابھی تو منزل کافی دور ہے۔۔۔! تم ایسا کرو تھوڑا پا نی پی لو۔‘ فاطمہ نے اس کے کندھے پہ موجود بیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔گھر سے چلتے ہوئے سات سالہ احمدنے اپنے چھوٹے سے بیگ میں کچھ چاکلیٹ، بسکٹ، پانی کی ایک بوتل کے ساتھ ساتھ اپنا چھوٹا سا ٹیڈی بیئر بھی اپنے ساتھ لے لیا تھا جس کو سینے سے چمٹائے بغیر وہ کبھی سوتا نہیں تھا۔ فاطمہ کے کہنے پہ وہ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پہ بیٹھ کر پانی پینے لگا اور آس پاس سے تیزی سے گزرنے والوں لوگوں کے پریشان چہرے دیکھنے لگا۔ جن میں سے زیادہ تراس کے شہر سے تھے اور کچھ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے تھے۔ اُس نے اپنی ماں سے سنا تھا کہ مختلف جگہوں سے ہونے کے باوجود ان سب کا مقصد ایک ہی تھا اور اس مقصد کے حصول میں بچوں سے لے کر بڑوں تک سب شامل تھے۔۔۔ اس لیے کہ بعض مقصد تب تک حاصل نہیں ہوتے جب تک سب ایک اکائی کی صورت اختیار نہ کر لیں!
پانی پینے اور کچھ سستانے کے بعد انہوں نے دوبارہ سفر اختیار کیا۔ احمد کو سوال کرنے اور مسلسل بولنے کی عادت تھی۔ فاطمہ تیزی سے قدم اٹھاتی، محتاط نظروں سے بار بار آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ یہ ایک کشادہ اور طویل شاہراہ تھی جس کی دونوں اطراف میں فٹ پاتھ، ہرے بھرے سبزے، اونچے چناروں کی ہمراہی تھی اور مختلف سرگرمیوں میں ملوث بہت سے لوگ بھی۔اس لئے تیز قدموں سے چلتے ہوئے احمد کا دھیان بار بار ان لوگوں اور منظروں کی طرف جا رہا تھا مگر اس کی امی بار بار اسے سفر کرتے ہوئے راستے میں نہ رکنے کی نصیحت کر رہی تھیں۔
’بیٹے۔۔۔جو لوگ اور منظر منزل کو بھلانے یا کھونے کا مؤجب بنیں وہ حقیقت نہیں بلکہ راستے کے سراب ہوتے ہیں۔۔۔ منزل کو پانا ہو تو ان سرابوں سے بچنا چائیے۔۔۔اپنی منزل پہ پہنچنے کے لئے ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے۔۔۔ اس سے پہلے کہ زندہ انسانوں کا خون پینے والے گدھ آ جائیں چلتے رہو اور اپنا مقصد مت بھولو۔‘ فاطمہ نے احمد کا ہاتھ پکڑا تھا مگر احمد انہماک کے ساتھ مسلسل ارد گرد دیکھے چلا جا رہا تھا۔
’امی! وہ دیکھیں کتنے اچھے لوگ ہیں۔۔۔ انگریز لگتے ہیں۔۔۔ہمارے لوگوں لے انٹرویو کر رہے ہیں۔۔۔سنئیے وہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔وہ انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں امی ۔۔۔میں ان کو اپنے دوستوں کے بارے میں بھی بتاؤں گا۔۔۔ یہ ضرور ہمارے لیئے کچھ کریں گے۔۔۔ آخر ہم بھی تو بچے ہی ہیں ناں اور سب کی طرح ہمارے بھی حقوق ہیں۔‘ احمد کی بات سن کر ایک طنزیہ مسکراہٹ فاطمہ کے چہرے پہ پھیل گئی مگر اس نے کچھ کہنے سے گریز کیا اور غصیلی اور طنزیہ نظروں سے فٹ پاتھ کی دوسری طرف اس بوڑھے انگریز کو دیکھا جو مائیک ہاتھ میں تھامے ہوئے کچھ لوگوں کانٹرویو کر رہا تھا۔
’امی! ایک منٹ رکیں! میں ان نیک اور بوُڑھے انکل سے آٹوگراف لے آؤں!‘ احمد رک کرمتاثر ہو تے ہوئے کر بولا۔
’احمد!میں نے کیا سمجھایا تھا؟ یہ سب سراب ہے۔۔۔ ان کا کوئی بھی عمل اور کوشش ہمارے لئے نہیں ہے! ہمیں اپنے لیئے جو بھی کرنا ہے وہ خود کرنا ہے۔۔۔تمہیں اپنا مقصد یاد ہے ناں؟‘ف اطمہ نے پیار سے ایک بار پھر اس کی سرزنش کی۔
’مجھے یاد ہے امی! اس شاہراہ کے آخر میں ایک بہت بڑا اور آسمان کو چھوتا، مضبوط آ ہنی دروازہ ہے۔ ہمیں ہر حال میں اس تک پہنچنا ہے اور اس پہ دستک دینی ہے۔‘ احمد نے عزم کے ساتھ اپنا مقصد دہرایا تھا۔
ابھی احمد کے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ اچانک فضا میں خوفناک جنگی طیاروں کی آوازیں گوجنے لگیں جن کی زور دار گھن گرج نے آس پاس کے سب لوگوں میں سراسیمگی پھیلا دی اور وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف آگ اور تباہی ناچنے لگے اور انسانی چیخیں گونجنے لگیں۔ خوفناک بمباری ہورہی تھی اور چاروں طرف مسلسل دھماکے ہو رہے تھے!
’بھاگو احمد بھاگو۔۔۔!‘ فاطمہ نے چیخ کر کہا تھا اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر بھاگنے لگی۔احمد نے بھاگتے ہوئے اردگرد دیکھا۔ آس پاس بہت سے لوگوں کو خون میں لت پت زمیں پہ گرے دیکھ کر وہ بہت خوف زدہ ہوکر رونے لگا۔
’گھبراؤ نہیں میرے بچے۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔ وہ دروازہ دور نہیں ہے۔۔۔ ہمیں وہاں پہنچنا ہے اور اپنے حصے کی دستک دینی ہے۔۔۔ اپنا حق ادا کرنا ہے!‘
فاطمہ اب احمد کا ہاتھ تھامے تقریباً اسے گھسیٹتی ہوئی بھاگ رہی تھی!
اور پھر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔۔۔ کہیں بالکل پاس کوئی بم گرا تھا!
فاطمہ کے منہ سے چیخ نکلی اوروہ زمین پہ گر گئی۔۔۔احمد کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا!
ہر طرف دھواں اور بارود کی بو پھیل گئی۔۔۔اردگرد کچھ نظر نہ آتا تھا!
گرد چھٹی تو فاطمہ ہو محسوس ہوا کہ اس کے ماتھے اور جسم کے مختلف حصوں سے خون بہہ رہا تھا مگر وہ اپنے زخم بھول کر چیختی ہوئی دیوانہ واراپنے لختِ جگر کو ڈھونڈ رہی تھی!
’احمد۔۔۔ احمد۔۔۔کہاں ہو بیٹے۔۔۔ مجھے آواز دو۔۔۔ وہ بڑا دروازہ بالکل سامنے ہے!‘
مگر احمد کہیں نہیں تھا اور ہر طرف تباہی کا راج تھا! بے شمار لوگوں کے اجسام ٹکڑوں اور لوتھڑوں میں تقسیم ہو کر ہر طرف بکھرے ہوئے تھے!
کتنی ہی دیر وہ ہمت ہارے بغیر روتی ہوئی احمد کو ڈھونڈتی رہی!
اور پھر اسے اسی بڑے دروازے کی چوکھٹ پر اوندھے منہ پڑے ہوئے اپنے احمد کی پشت نظر آ گئی!
وہ تڑپ کر اس کی طرف بھاگی۔ اس کی نیلی شرٹ کا رنگ خون کی سرخی تلے چھپ چکا تھا۔ اس کی پشت پرلگے بیگ سے تمام چیزیں باہر نکل کر آس پاس بکھری ہوئی تھی۔۔۔جس ٹیڈی بئیر کو سینے سے لگائے بغیر وہ کبھی نہیں سوتا تھا وہ احمدکے ہی خون میں لتھڑا اس کے پاس پڑا حسرت بھر ی نگاہوں سے اپنے بغیر گہری نیند سوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ احمد کا ننھا سا بےجان ہاتھ دروازے پہ ایسے رکھا ہوا تھا جیسے اس پر دستک دے رہا ہو۔۔! فاطمہ نے پاگلوں کی طرح اس کے دل کی دھڑکن سننی کی کوشش کی اور کوئی آواز نہ پا کر اس سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔
فاطمہ نے ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے اس دروازے کی طرف دیکھا جس پر جلی حروف سے ’اقوام متحدہ‘ لکھا ہوا تھا جس کے بند دروازے پر ایک اور ننھے فلسطینی نے اپنے حق کی صدا بلند کرتے ہوئے اس پر اپنے حصے کی بے مراد دستک دے دی تھی!!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.